میں نے لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کرسعدیہ کا ہاتھ پکڑا او ر اور اس کا ہاتھ اپنے عضو پر رکھ دیا،،سعدیہ نے ایک لمحے کی دیر نہیں لگائی اور اسے گرفت میں لے لیا،سعدیہ کو سمجھنے میں ذرا بھی مشکل پیش نہ آئی کہ اب میں اسے ہی چودنا چاہتا ہوں ۔۔۔سعدیہ ،شازیہ کو دیکھ چکی تھی کہ جب میں نے اسے عضو کو گرفت میں لیکر عضو کو مسلنے کو کہا ،ٹھیک اب سعدیہ بھی ویسے ہی عضو کو مٹھی میں لیکر پیار کر رہی تھی،،،اور عضو اس کے ہاتھوں کی گرم جوشی سے انگڑائیاں لینے لگا تھا،،عضو نے کہا یار چار چار الھڑ ،مست ،کچی جوانیاں ہوں توکون کمبخت سو سکتا ہے،،،میں سعدی کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا،،،میرا ،ا لتفات سعدیہ کی طرف دیکھ کر نازیہ رکی ،کیا مجھ سے ناراض ہو،،،نازیہ سمجھی کل کی بات کو دل پے لے چکا ہوں،،،میں نے اسے ساتھ لگایا اور گالوں کو چومتاہوا کان میں کہا،،سب سے بہترین کو آخر میں بہترین وقت دوں گا،بس کچھ دیر اور،،،،،میری سرگوشی کو پاس بیٹھی بہنیں بھی نہ سمجھ سکیں ،،لیکن نازیہ کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئیں بمشکل کہی ہوئی بات اس کے کانوں کے ذریعے دل میں چلی گئی تھی،،،سعدیہ عضو کو ہاتھ میں پکڑ کر مست کر چکی تھی ،،میں نے اسے نیچے لٹایا اور خود اس کے اوپر آگیا،،،رافعہ کی طرح کسی اور انداز میں ڈالو نہ اس کی چوت میں،شازیہ لائیو چودائی کا مزہ لینا چاہتی تھی یا کچھ سیکھا یا جاننا چاہتی تھی،،،میں نے سر ہلایا اور سعدیہ کے ممے چوسنے لگا،،،ممے نہ چوسے تو پھر مزہ ہی کیا،،،ان کے ممے ان چھوئے تھے نرم و نازک ،،بتیس سائیز کے صرف رافعہ کے تیس کے تھے،،،،با لکل نئے نویلی تازہ تازہ جوانی کے رس میں بھرے ہوئے ،،اپنی طرف بلاتے ہوئے،،،للچاتے ہوئے،،،ممے ہی تو جسم میں سب سے پہلے نظروں کا نشانہ بنتے ہیں،جیسے شطرنج کا مہرہ گھوڑا اوپر سے چل چلتا ہے ،ایسے ہی یہ کپڑوںکے اوپرسے بھی جلوے دکھا تے ہیں،،،ویسے یہ سائیز کی وبا بھی مغرب سے آئی ہوئی ہے اور میں اس کو اپنے تجربے سے لڑکی کے جسم کو پرکھتا ہوں ۔۔خود مغرب فگرز کے مقبول ترین ماڈل باربی ڈول پر کتنے اعتراض کرچکا ہے اور اسے حقیقی زندگی میں غلط ثابت کرنے کیلیے کئی آرٹیکل آچکے ہیں،،، جبکہ یہ اسی کا بنایا ہوا پیمانہ ہے اور اکثریت اس کو رول ماڈل سمجھتے ہیں،،،،اصل مزہ سائیز میں نہیں ان چھوئی جوانی میں ہے،،،ایسے جوانی میں جس میں جسمانی حسن ہو نہ کہ کپڑے اترنے کےبعد بندہ سر پکر کر رہ جائے،،ایسے ہی اصل حسن چہرے کی بناوٹ میں ہے نہ کہ گوری رنگت میں ہے،،ایسی ہی کالی حسینائیں ہیں،ماڈلز ہیں جن کو دیکھ کر بندہ دل تھام کر رہ جائے بس ان کے چہرے کے نقوش ہی تو پاگل کر دینے والے ہوتے ہیں،،،اوہ ہو بات کہاں سے کہاں جا پہنچی،،،تو بات ہورہی تھی شازیہ ،نازیہ ،سعدیہ ،اور رافعہ کی،،سعدیہ کے ممے چوستے ہوئے مجھے اندازہ ہوا، کہ اس کا جسم رسیلا ہے،،،اس کا حسن نرالا ہے،،،اس کے چہرے سے نہیں لگتا تھاکہ اس کے جسم کا سواد اتنا مزہ دار ہو گا،یقیناً اسے چود کر مزہ آئےگا،،،گرم تو سب بہنیں ہی تھیں ان کو گرم کیا کرنا لیکن جوانی کا رس پیئے بغیر میں آگے کیسے جا سکتا تھا ،،،جب میں نے جی بھر کہ اس کے ممے چوس لیے تو سعدیہ کو ڈوگی اسٹائل میں کیا اور خود اس کے پیچھے آگیا،،، کیا کرنے لگے ہو،،،شازیہ گھبرائی،،،خود ہی تو کہا تھا کہ کچھ نئے طریقے سے کرو تو وہیں کرنے لگا ہوں،،،، یہ دیکھو یہ چوت ہے اور اس میں اس کو ڈالوں گا میں نے عضو ہاتھ میں پکڑ کے آگے اس کی گانڈ کے نیچے چوت کی موری پر رکھتے ہوئے کہا،،،،اوہ میں سمجھی گانڈ میں چودائی کرنے لگے ہو یہ نہ کرنا یہ گناہ ہے ،،،آخر مولوی کی بیٹی تھی۔
میں دل ہی دل میں ہنسا اور اسے کہا نہیں کہ اب ہم جو کررہے ہیں یا جو تم اپنے والدین کو دیکھتی تھی وہ کیا تھا،،،،چلو آجاؤ اپنی ڈیوٹی پر میں نے شازیہ کو اشارہ کیا،تو اس نے میری بات سمجھتے ہوئے تیل کی شیشی لی اور اس کو میرے عضو پر ملنے لگی،،،تھوڑا یار یہ رافعہ نہیں ہے اس کی چوت عمر کے حساب سے تنگ تھی اسلیے کچھ زیادہ لگایا تھا،،تو یہ کونسی بڑی عمر کی اس میں اور رافعہ میں بس ایک سال کا ہی تو فرق ہے،،میری بہن کو ذرا بھی درد نہیں ہونا چاہیئے ،،شازیہ نے لاڈ سے کہا،،،ابتک وہ سمجھ چکی تھی کہ تیل اسلیے لگایا جاتا ہے کہ پہلی دفعہ چوت میں درد نہ ہو،،،کچھ نہیں ہوگا تمھاری بہن کو، اسے پتہ ہونا چاہیے کہ مزے کا رستہ آسان نہیں ہے ،میں نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا،،،،چلو اب ڈال بھی دو شہزادے ،،باتیں بعد میں کرلینا ،،،سعدیہ بے تابی سے بولی تو میں نے چوت پر عضو رکھا تھوڑا موری میں داخل کیا اور پھر اس کے پہلوؤں سے پکڑ کر اندر دھکیلا ،،،جیسے جیسے اندر جاتا گیا،،،سعدیہ کی سسکاری نکلتی گئی،،،شازیہ نے جلدی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ،،بڑی بہن ہونے کے ناطے وہ کافی ذِمّہ داریاں نبھا رہی تھی،،،،میں جو پردے کے پاس جا کر رک گیا تھا اور کچھ نرمی سے آگے پیچھے کر رہا تھا ،موقع غنیمت جان کر عضو پیچھے کر کے ایک زور دار دھکا مارا اور چوت کا پردہ پھاڑتا ہو اچوت کی گہرائیوں میں جا پہنچا ،،،سعدیہ کے جسم نے اچھا بھلا جھٹکا لیا اور میں وہیں رک گیا،اسکی چوت سے خون نکل کر چاد پر گر رہا تھا ،،جس پر پہلے سے شازیہ اور رافعہ کا خون جما ہوا تھا،،لیکن وہ گرتے وقت نظر نہیں آیا تھا کیونکہ ان کی پوزیشن اور تھی۔
شازیہ پریشانی سے میری طرف دیکھے لگی،،میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے تسلی دی کچھ نہیں ہوگا ،،مجھے اسے کہنا ہی پڑے گا،،،شازیہ نے ہاتھ کے اشارے سے سعدیہ کے چہرے کی طرف کی طرف متوجہ کیا،،،،کیا ہوا ؟ میں نے پوچھا ،،رو رہی ہے شازیہ نے سعدیہ کے آنسو پونچھتے ہوئے سرگوشی کی،،،میں نے اسی حالت میں اس کی کمر سے لپٹ کر اس کے ممے پکڑ لیئے او ر ان کو مسلنے لگا،،،سعدیہ ،،،،میں نے اسے بلایا،،،جی شہزادے،،،،کچھ نہیں ہوگا یار درد بس ایک دفعہ ہوتا ہے ،،، جو ہونا تھا ہو گیا دیکھو خون نکلنا بھی بند ہوگیا ہے،،پریشان نہ ہونا،،،ٹھیک ہے شہزاے اب کچھ آرام ہے،،،ممے مسلتے رہو اچھا لگ رہاہے،،،تمھارا جسم رسیلا ہے ،مزہ دینے والا ہے اسلیے نازک بھی ہے،،میں سمجھ تو گیا تھا لیکن شاید تمھارا پردہ کچھ سخت تھا اس لیے درد ہوا،،،آہ اب چودو شہزادے باتیں تو پھر کرتے ہی رہیں گے،،،،ٹھہرو ،،میں نے عضو باہر نکالا اور چادر سے اسے صاف کیا اور سعدیہ کی چوت کو بھی صاف کیا،،،دوبارہ تیل لگا دوں ؟ شازیہ نے فکر مندی سے پوچھا ،،،ہاں لگا دو ابھی تو ا سکی بڑی ضرورت ہے،،میں نے کہا،شازیہ نے تیل لگایا اور میں نےسعدیہ کی چوت میں ڈال کر آرام سے آگے کرنے لگا،،اب مزہ آیا ہے سعدیہ نے کہا۔
تو میں آرام آرام سے سعدیہ کی چدائی کرنے لگا ،،،،سعدیہ واقعی مزے دار تھی ابتک کا تجربہ بتا رہا تھا کہ سعدیہ مزے دار ہے،،رافعہ گرما گرم ہے اور شازیہ رومانوی طبیعت کی ساتھی کو سمجھنے والی حسینہ ہے جیسے جیسے اس نے آگے بڑھنا تھا اس نے بڑے مزے دینے تھے،ایسے سیکس پاٹنر ہر بات میں ساتھ ہوتے ہیں،اور لاجواب سیکس کرواتے ہیں ،،کمر سے پکڑے میں نے اچھی طرح سعدیہ کی چودائی کرتے ہوئے محظوظ ہونے لگا،،،بڑا مزہ آرہا تھا ،،مجھے سرور آنے لگا،،،،،، اور میں اس سرور میں بہنے لگا،،،،،، جیسے جیسے سرور بڑھتا گیا،،سعدیہ کا جسم مزہ دیتا گیا میری رفتار تیز ہوتی گئی،،بڑا آسان اسٹال ہے مگر اس میں کچھ قباحتیں بھی ہیں،اگر میں گھڑا ہوتا تو بڑا اچھا تھا،اس میں بھر پور اور پوری رفتار سے دھکے لگتے ہیں،لیکن میں بھی مزے میں اتنا ہی آگے پہنچ گیا تھا کہ ہوش تب آیا جب جھپاک جھپاک کی آواز آئی ،،،کیا کرہے ہو شہزادے ،،شازیہ کی نے گھُرکی دی،،اوہ ،، مجھے خیال ہی نہیں رہا اور میری رفتار تیز ہونے سے جسموں کے ٹکرانے کی آواز آنے لگی تھی ،،،،،،کچھ ہوش میں آکر پھر چودائی شروع کی اور مزہ لینے لگا،،،سعدیہ کمال کی تھی ،کہہ نہیں سکتا تھا اسے کس چیز سے تشبیہ دوں ،اس کے جسم میں لذت چھپی ہوئی تھی،،ایسی لذت جو مدہوش کر دیتی ہے،ہر جسم کااپنا ذائقہ ہوتا ہے جیسے چہروں میں انفرادیت ہوتی ہے،ایسے ہر جسم میں بھی اندرونی طور پر مزے کی تقسیم ہوتی ہے، ،ممکن ہے میں مزے میں ڈوبا اسی طرح پانی نکال دیتا ،،میں تو مزے میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا کہ سعدیہ مجھے واپس کھینچ لائی،،،،،،،شہزادے کیا بات ہے اچھی طرح چودو نہ ،،،لو بھئی کر لو بات ،،،اتنی دیر سے کیا جھک مار رہا ہوں ،،،،،کیا مطلب تمھیں مزہ نہیں آرہا،،نہیں جتنا باجی اور رافعہ کو مزہ لیتے نظر آیا تھا اتنا مجھے محسوس نہیں ہو رہا،،،سعدیہ پہلی بار کروا رہی تھی اسے کیا پتہ کہ مزہ اتنا تھا اوراب کم ہوگیا ہے لیکن میں اسکی الجھن سمجھ گیا ، عضو باہر نکالا اور اسے سیدھا لٹا کر ٹانگیں کھولی اور چوت کے پاس بیٹھ کراندر ڈالا اور چدائی کرنے لگا،،اب ٹھیک ہے سعدیہ،،،میں نے اس کے ممے پکڑ کے چودتے ہوئے پوچھا،،بہت اچھا لگ رہا ہے سعدیہ نے مجھے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا،،،ڈوگی اسٹائل میں یہی مسلہ ہے اس میں محسوس تو ہوتا ہے لیکن نظر نہیں آتا،،اب سعدیہ دیکھ کر بھی مزہ لے رہی تھی اس طرح مزہ دوگنا ہو جاتا ہے ۔۔۔یہ طے تھا کہ سعدیہ کا جسم دوسری بہنوں سے زیادہ سیکسی تھا ا س میں تڑپ پھڑک تھی ،،،اس میں مزہ زیادہ تھا ،،،مجے یہ مزہ چاہیئے تھا،،،اور میرا دل نہیں کر رہا تھا کہ میرا پانی نکلے۔
سعدیہ کو تو ٹائمنگ گولی کھا کر آرام سے چودنا چاہیے ۔فرصت سے اس کی چوت سے ملنا چاہیے،،،بلکہ ساری رات ملتے رہنا چاہیے،،،،انہی خیالوں میں چدوائی کرتے ہوئے میں نے باہر نکالا اور سعدیہ کے ساتھ جا کر لیٹ گیا،،وہ حیرانگی سے میری طرف دیکھ رہی تھی کہ میں اسے پہلو کے بل لیٹنے کوکہا،،اور اسکی کمر سے اپنا سینہ لگا کر اسے بانہوںمیں جکڑ لیا،،،اسے دبوچا ،چمیاں شمیاں لیں،اور پھر اس کی ایک ٹانگ اٹھا کے تھوڑا نیچے کو کھسک کے اسکی چوت میں عضو ڈال دیا،،ادھر میں نے بازو ا س کی کمر کے گرد سے اس کے ممے پکڑ لیے ،،،اور اس کی چدائی کرنے لگا،،،بڑا کمال کا سین تھا،،میں تقریباً سعدیہ پر چڑھا ہوا تھا اور مجھے اس کا جسم اپنے جسم میں لپیٹ کر بڑا مزہ آرہا تھا،،،سعدیہ بھی اس اسٹائل میں مزہ لینے لگی،،،اسے مجھ پر جیسے پیار آگیا،،،اور چہرہ میری طرف کیا میں نے جھک کر اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے،،اب ایک طرف کسنگ تھی دوسری طرف ممے پکڑے ہوئے تھے تیسری طرف چدائی ہورہی تھی،،،لیکن چدائی اس میں تھی مشکل،، اسلیے رفتار آہستہ تھی،،کچھ دیر تو میں مزے لیتا رہا ، اور اس مزے میں سعدیہ کی چودائی کرتا رہا ،،اور پھر میں نے اسٹائل تبدیل کر لیا ،،اور اسے الٹا لٹا دیا اور اس کے اوپر لیٹ کر اس کی چوت میں چودنے لگا،اس کے چوتڑوں کو جسم کی دھکے لگنے سے اسے اور طرح کا مزہ آ رہا تھا ،اس طرح شہوت بڑھتی ہے اور مزہ دوگنا ہو جاتا ہے ،کچھ لوگ اس مزے کی چاہت میں گانڈ مارنے لگتے ہیں، لیکن میرا گانڈ مارنے کا کبھی کوئی ارادہ نہیں رہا،جسے چوت سے فرصت ملے، وہ گانڈ مارنے کا سوچے ، ۔
ویسے بھی گانڈ کی ساخت اور بناوٹ ایسی ہے کہ اسے مارنے کا اصلی سیکس سے کوئی تعلق نہیں ، یہ تو وحشتوں کی تسکین ہے،اور کیونکہ یہ لڑکیوں کی گانڈ مارنے کی وبا یورپ و امریکہ سےننگی فلموں کے ذریعے آئی ہے اس لیئے جدید سیکس میں یہ سِکّہ رائج الوقت ہے وہاں کے لوگوں نے عام سیکس سے اکتا کر ایسی ایسی باتیں نکال لی ہیں کہ طبیعت پر بوجھ بن گئی ہیں ،فیٹش ،ہارڈ کور اور اینل سیکس تو عام سی باتی ہیں ، پیشاب کو ہاٹ کافی کا نام دینا اور پاخانے کو کھانا وغیرہ اور فیملی سیکس،وائف سوپینگ یعنی بیویوں کی ادلا بدلی اور جانوروں کے ساتھ سیکس جیسی قبیح ترین حرکتیں سیکس نہیں ہے مگر سیکس بن گیا ہے اور جو ان کے خلاف بات کرے پورن میڈیا کے مارے ذہن فوراً اس کے خلاف ہو جاتے ہیں ،ہم سب من حیث القوم یورپ و امریکہ کے سامنے احساسِ کمتری کے مارے ہوئے ہیں،اور جو وہاں سے ملے ہمارے لیئے مقدس بن جاتا ہے ،خیر میں کوئی ناصح نہیں ہوں ،ہر کسی کی اپنی اپنی لائف ہے ،میں خود سیکس میں ڈوبا ہوا ہوں ،پر میں اپنی مرضی کی زندگی جیتاہوں ،میں پورن میڈیا کے ہاتھوں اپنا ذہن یرغمال نہیں بنا سکتا کیونکہ پورن فلموں کا مطلب ہے دیکھ کر لذّت لینا ،اور موویز کو بنایا ہی اس طرح جاتا ہے کہ دیکھ کر مزہ آئے ،اس کے تمام اسٹائل بہت مشکل یا ناممکن ہیں ،سوائے چند ایک کہ ، اور یہ کہ پونا گھنٹا بغیر میڈیسن کے کوئی بھی اتنی دیر سیکس نہیں کر سکتا،پھر ان موویز میں اکثریت مرد کا پانی نکالنے پر ساری توجہ ہوتی ہے،،عورت جیسے مزہ لینے کا کوئی سیکسی ٹوائے ہو،یعنی ان موویز کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں ،ان کو فالو نہیں کرنا چاہیئے،بس ان کو دیکھ کر مزہ لیں ۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ،میں نے سعدیہ کو سیدھا لٹا کر میں نے پھر اس کے اندر ڈالا اور چودائی شروع کردی،میں سعدیہ کے جسم کا مزہ مختلف طریقوں سے لے رہا تھا،،سعدیہ تم سے دل نہیں بھرے گا اور رات بڑی تھوڑی ہے،،،سعدیہ اتنے میں پورا مزہ لے چکی تھی اور وقت اس کا آنے والا تھا،،،میں نے رفتار تیز کی اور ایک منٹ میں اس کا پانی نکل آیا،اچھی طرح تسلی سے پانی کے قطرے نکلنے کے بعد میں نے تیز جھٹکے مارنے شروع کیے اور نہ چاہنے کے باوجود میرا بھی پانی نکل آیا ،،،میری کوشش ہوتی ہے کے لڑکی کا پانی پہلے نکلے اور میرا بعد میں، اس میں آج تک میں ناکام نہیں ہوا،،،میں لیٹ گیا،،،میں تھک بھی گیا تھا،،،چہرے پر تھکن کے آثار تھے،،،نازیہ کو اپنی پڑی تھی ،،کیا ہوا شہزادے تھک گئے ہو ،،،اس نے بڑے لاڈ سے ہوچھا،،ہاں یار کچھ دیر آرام کرتے ہیں پھراپنی جان نازیہ کو چودوں گا،،،کیا میں دبا دوں شہزادے ،نازیہ مجھ نچھاور ہو رہی تھی دبا تو بڑی مہربانی ہوگی،،میں نے کہا ،،لو اس میں مہربانی کی کیا بات ہے تم اتنے خاص ہو نہ ہمارے لیے کہ تمھیں بتا نہیں سکتے،،نازیہ تو میری ٹانگیں دبانے لگی،،اسے چودائی کروانی تھی اور میں نے اسے انتظار بھی خوب کروایاتھا،،،لیکن شازیہ کو کیا ہوگیا وہ اٹھی اوردوسری ٹانگ دبانے لگی،،،ایسے جذباتی ماحول میں میرا گزارا مشکل ہوجاتا تھا ،انہیں نہیں پتہ تھا کہ کہ میں نے آج صبح سے پہلے جوسلین کے پاس چلے جاناہے،،لیکن رافعہ ان سب سے علیحدہ تھی وہ چودائی کےبعد سے چپ چاپ بیٹھی تھی اور پتہ نہیں کس سوچ میں، اب جو اس نے دیکھا کہ سعدیہ تو سکون میں ہے اور نازیہ اور شازیہ اپنے محبوب کو آرام دے رہی ہیں،تو وہ جھٹ سے میرے پاس آگئی اورمجھے چومنا شروع کردیا ،،شازیہ اور نازیہ دونوں کے چہرے پر ناگواری آگئی،لیکن میں نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے نارمل کیا،میں کسی لوچے میں نہیں پڑنا چاہتا تھا،،رافعہ جس موڈ میں تھی،اس میں کچھ بھی کرسکتی تھی،،میں نے پرانے سے کلاک کی طرف دیکھا سوا ، ایک ہو گیا تھا،،،،اگر چودائی کا حساب لگاؤں تو ایک گھنٹہ ہی لگا تھا ااور چوما چاٹی کا حساب لگاؤں باتوں کا وقت جمع کروں تو دو گھنٹے تو لگ ہی گئے تھے،،،،چار گھنٹےتھے میرے پاس ،،میں نے پانچ بجے یہاں سے نکل جانا تھا۔
رافعہ نے عجیب کام کیا تھا وہ میرے نپل چوسنے لگ گئی تھی،یہ ایک عجیب سیکسی چال تھی ،،شاید رافعہ نے جوابی کام کیاتھا میں نے اس کے چوسے اور وہ میرے چوس رہی تھی،،اس نے سمجھا شاید مجھے بھی اتنا مزہ آئے گا،،،اور مجھے مزہ آ رہا تھا،،،میرا دل کر رہا تھا کہ رافعہ چوستی رہی،پہلی بار یہ میرے ساتھ ہورہا تھا،،جوسلین نے بتایا تھا کہ ہر انسان کا یک سیکسی بٹن ہوتا ہے،جس کو دبانے سے وہ انسان دل سے گرم ہوجاتا ہے،جیسے کسی کےکان کی لو،،یا کسی کی گردن پر کسنگ،،یا کسی کے پشت پر کسنگ،،، یا پیٹ پر یا کہیں اور جوسلین نے کئی بار میرا بھی بٹن تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بٹن آج ملنا تھا۔اور آج مجھے گرمی چڑھ رہی تھی،،،شہزادے اور کیا کیا کرتے ہیں اس میں ،رافعہ نے نپل چوستے چھوڑ کر پوچھا،، مزہ کرکرہ ہونے کی وجہ سے میں جھلا گیا تھا میں نے بے اختیار کہا لن کوچوستے ہیں ،،،کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟ چاروں بہنیں چلا اٹھی لیکن ظاہر ہے آواز دھیمی ہی تھی،ہاں یہ بھی کام کرتےہیں میں نے شرارت سے کہا،،ہم نے تو کبھی نہیں دیکھا کہ ابا کا لن امی نے چوسا ہو،،شازیہ شکی انداز میں بولی،،تم لوگو ں نے ابھی دیکھا ہی کیاہے میں جھلایا ہوا تھا،اور کچھ بھی ہوتا ہے اس میں، رافعہ نے سنجیدگی سے پوچھا،ہاں گانڈ مارتے ہیں لوگ ،،اور ؟رافعہ نے پوچھا، اور بس یہی مختلف طریقوں سے چودتے ہ جیسے میں سعدیہ کو چودا ،جیسے شازیہ کو اور پھر جیسے تمھیں یہ سب مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں کچھ اور ،کوئی نئی بات بتاؤ،ہاں ہے ایک نئی بات لڑکی لڑکے کو چودتی ہے،وہ کیسے سب بہنیں پھر حیران ہوئی،،وہ ایسے کہ لڑکا سیدھا لیٹا ہو اور لڑکی اس کے عضو پر بیٹھ کر اسے اپنی چوت میں لے اور پھر اوپر نیچےہو کر چودائی کرے،اگر میں پہلے لن چوسوں تواور پھر لن اندر لے کر اوپر نیچے ہوؤں تو مجھے چودائی کا موقع ابھی ملے گا،رافعہ سیکسی انداز یں بولی،،،دوسری بہنیں جیسے سکتے میں آگئی،،،پھر شازیہ کوغصہ آگیا،،اس سے پہلے وہ کچھ کہتی میں نے اسے روک دیا ،رافعہ سے مخاطب ہوا،،بات یہ ہے کہ رافعہ میں تین بار چودائی کرچکا ہوں اب میں بس ایکبار اور کر سکتاہوں وہ بھی تقریباً ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد،، تو ابھی نہیں لیکن کل جو تم چاہو گی ویسے کرلینا ،،اوکے،،ٹھیک ہے لیکن کل میں دو دفعہ کروں گی ،،،رافعہ نے جیسے باقی بہنوں کودھمکی دی،،اوکے اوکے ٹھیک ہے کل جیسے تم چاہے کرنا ،،،لیکن اب میں آرام کروں گا ،،میں نے جیسے اعلان کیا،تو شازیہ اور سعدیہ اٹھی اور اپنے بستروں پر جا کرلیٹ گئی،اس سے پہلے وہ اپنے کپڑے پہننا نہیں بھولی تھیں ،رافعہ کا بھی سونا ضروری تھا،نہیں تو اسے گرمی چڑھتی رہنی تھی،،سو میں نے نیچے بنایا بستر اٹھانے کا کہا،رافعہ اپنا بستر اور رضائی لیکر اپنی چارپائی پربچھا کر لیٹ گئی،کپڑے پہن لورافعہ ،میں نے اسے آواز دی تو رافعہ نے چپ چاپ کپڑے پہن لیے اور لیٹ گئی، نازیہ نے میرے اشارے پر اپنا بستر بھی اپنی چارپائی پر بچھا دیا،،،میں جا کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔
میرے کپڑے جستی پیٹی پر رکھ دیئے گئے،،نازیہ ،،،کیا بات ہے شہزادے ،نازیہ نے پوچھا،اس کے چہرے پر مایوسی تھی ،،ادھر آؤ یار میری ٹانگیں تو دبا دو،،نازیہ میرے بستر میں رضائی میں داخل ہوگئی اور میری ٹانگیں دبانے لگی،،اب صرف میں اور نازیہ ننگے تھے،شازیہ میری بات سمجھ گئی تھی،،میں نے اسے آنکھوں سے کہا تھا اور سر کا ہلکا سا اشارہ کیاتھا،وہ سمجھ گئی کہ اب سب کاسونا ضروری ہے نہیں تو رافعہ کوئی جھگڑا کرے گی،،کچھ دیر نازیہ میری ٹانگیں دباتی رہی،لیکن اسے سردی لگ رہی تھی،،،کتنی دیر سے ہم سب دو رضائیوں میں گزارا کر رہے تھے بلکہ ہمیں تو سردی لگ ہی نہیں رہی تھی،میں نے نازیہ کو اپنے ساتھ رضائی میں لٹا لیا اور اسے گلے لگا لیا،،،اب تو خوش ہو اب صرف میں اور تم،،،اور ساری رات، جتنا کہو گی چودوں گا ،میں نے نازیہ کے کان میں سرگوشی کی،اوہ میں تو سمجھی تھی کہ اب مجھے تم نہیں چودو گے اور مجھ سے ابھی تک ناراض ہو،،نازیہ نے مجھ سے لپٹتے ہوئے کہا،اس طرح اس کی سردی کم ہو رہی تھی،تمھیں کیسے نہ چودتا،،میں تمھاری بہنوں کو چھوڑ سکتاہوں لیکن تمھیں نہیں چھوڑ سکتا۔۔اچھا ۔۔۔۔۔ایسی کیا بات ہے مجھ میں نازیہ اٹھلائی،اپنی تعریف کسے بری لگتی تھی،کیونکہ تم ان سب سے حسین ہو،،اونہہ میں نہیں مانتی،،،چودائی تو تم سعدیہ کی مزے لے لے کررہے تھے،سعدیہ کاجسم سیکسی تھا اس میں مزہ تھا ،اچھا تو میرا جسم مزے والانہیں ہے،نازو اب سارے انتظار کا غصہ اتار رہی تھی،،نازو میری جان تمھارا جسم بھی حسین ہے،،،تمھارا چہرہ بھی حسین ہے،اور ایسا حسین امتزاج کم ہی دیکھنے کو ملتاہےسونے پہ سہاگہ ،تمھاری طبیعت شوخ وچنچل ہے،تم میں ادائیں بھی ہیں،میں تو کل سے تمھیں دیکھ دیکھ کر ترس رہا تھا ،کرو،،،کوئی کام بھی کیا کرو،،نازیہ شوخی سے بولی،،میں اس کا مطلب سمجھ گیا تھا ،، ،،،ٹھیک ہے جناب نوکر کیا اور نخرہ کیا، ہم ابھی اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔۔۔اچھا ایسے ملاز م ہوتے ہوں تو مالک تو گئے کام سے،،نازیہ کب پیچھے رہنے والی تھی،اچھا میرے ساتھ چلو گی،،،کہاں،،نازیہ نے پوچھا،،جہاں میں کہوں ،،کہیں مجھے بھگانے کا تو ارادہ نہیں ہے،،نازیہ نے ہنس کے پوچھا،،،اب وہ میرے ساتھ کل والی مولوی کی بیٹی تو لگ ہی نہیں رہی تھی۔۔یہ تو کوئی چنچل حسینہ تھی،،، تم کل سے لگےتھے میرے پیچھے ،، آخر مجھے پھنسا کر ہی چھوڑا ،نازیہ نے پھلجھڑی چھوڑی،،تو تم کل ہی پھنس جاتی نہ،،،کیوں مجھے اتنا تڑپایا ،،کیوں اتنا انتظار کروایا،،کیا تم بہنوں کا دل پتھر کا ہے،،،شہزادے اگر ہم اس طرح پکڑی نہ جاتی تو قیامت تک تم ہمیں نہیں پا سکتے تھے،،،نازیہ انتہائی سنجیدگی سے بولی،،لیکن آخرایسی کیا بات ہے جو تم سیکس کی چاہت میں ڈوب کر بھی سیکس کرنا نہیں چاہتی تھی،،،شہزادے ہمارے ذہن اسطرح سے بنے ہوئے ہیں کہ ہم ایسے کام کا سوچ بھی نہیں سکتے،،،اور پھر ابا کا ڈر اتناہے کہ ہم میں کسی کام کی جرات نہیں ہے،،تم نے ابا کی ماریں کھائی ہوتی نہ تو پھر تمھیں پتہ چلتا کہ ڈر کیا ہوتا ہے،،اتنی حسین لڑکی کومارنےوالے کوئی جلاد ہی ہوسکتاہے۔
چھوڑو اتنی حسین رات خراب نہ کرو،،،تمھیں کچھ کرنابھی آتا ہے کہ بس باتیں بنانا جانتے ہو،،نازیہ نے پھر مجھے چھیڑا،،لگتا ہے تمھیں بڑی جلدی ہے میں نےنازیہ کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے،باتیں کرتے آدھے گھنٹے سے اوپر ہوگیا تھا،،،لگتا تھا لڑکیاں سو گئیں ہیں،میں یہی چاہتا تھا ،،میں نازیہ کی طرف متوجہ ہوا،،،میرا ایک بازو اس کی گرن کے نیچے تھااور دوسرا اس کے اوپر میری ایک ٹانگ بھی اس کے کولہوں پر تھی،،اور عضو اس کو چھو رہا تھا ،،،جوں ہی ہونٹوں نے ہونٹوں کو چھوا،نازیہ بے تابی سے ہونٹ چوسنے لگی،،نازیہ ،،نازیہ،،نازیہ،،نازیہ،،نازیہ نے میرے ہونٹ چوسے ،میرے گال چومے ،،،میری گرن، میرے سینے پر پیار کیا،آہستہ آہستہ نازیہ نیچے کھسکنے لگی،،اس کے ہاتھ میں میرا عضو تھا،،اور ہونٹوں کی زد میں میرا جسم تھا،،میرے پیٹ سے ہوتی ہوئی اس نے میری ٹانگیں چومی،بستر میں رضائی کے اندر ،، لہریں کھا تی ہوئی ندی بہہ رہی تھی ،ایک بھپرتی اور بل کھاتی ندی،، جو ندی ہوتے ہوئے بھی سب کچھ بہا لے جانا چاہتی تھی،مجھے الٹا کر میرے اوپر لیٹ کر نازیہ میری کمر چوم رہی تھی،،نازیہ کہاں سے سیکھا یہ سب تم نے،،میں پوچھے بناء نہ رہ سکا،،کبھی ابا اور امی بہت موڈ میں ہوں تو امی ایسا کرتی تھی،،،میں جب بھی یہ دیکھتی تو بہت مزہ آتا تھا،،اور دل کرتا تھا کہ میں بھی کسی کو اتنا پیار کروں،،کوئی مجھے بھی اتنا پیار کرے،،ابھی سے شادی کی خوہش ہونے لگی تھی،،،اچھا تو شادی کے خواب تو جانے کب پورے ہوں،، میں ا بھی اپنی نازیہ کی یہ خواہش پوری کردیتاہوں،،میں نے نازیہ کو نیچے لٹایا اور اسکے چہرے سے شروع کیا،اس کے ہونٹوں کو پیار کیا،اس کی گالوں سے اپنا حصہ وصول کیا،اس کی گردن پر سیکسی چمیاں لیں ،اس کے سینے کو ہونٹوں سے چھوا ،،اور ممے ہاتھوں سے مسلے ،پیٹ کو چوما،اور رانوں پر ہاتھ پھیرے ،،اس کی کمر کواو پر لیٹ کر کمر کو چوما،،اور پھر سیدھا کر کے اس کے ممے چوسنے شروع کردیئے،شہزادے تم نے میری آرزو پوری کردی،، کیاہم یونہی ملتے رہیں،گے ہمیشہ،،،نازیہ کی بات سن کے میرا دل کو سنسناہٹ سی ہونے لگی ،،میں نے تو صبح سے پہلے چلے جانا تھا ،میں نے ممے چوستے ہوئے عضو کو اس کی چوت کے بظر (دانہ)پر رگڑنا شروع کر دیا،،نازیہ کو جذبات سے نکال کر ہیجانی کیفیت کے حوالے کردیا،،نازیہ کا چہرہ شدت سے تمتمانے لگا،،ممے اور بظر کو اکٹھا چھیڑا جائے تو لڑکی نے تو بے حال ہونا ہی تھا،،نازیہ بھی اب بے چین تھی اور اس کا جسم تپا ہواتھا جیسے بخار ہو،،رضائی ہم اتار چکے تھے،لیکن ہمیں سردی ہمارے پاس بھی نہیں تھی،،،شہزادے اب ڈال دو اپنا لن،،میرابہت برا حال ہے،،،مجھ سے اب اور انتظارنہیں ہوتا،،جب سے تم نے ہمیں چودنا شروع کیا ہے تب سے مجھے انتظار کروا رہے ہو،،،بلکہ میں تو پتہ نہیں کب سے انتظار کر رہی ہوں۔
آج میری پیاس بجھا دو،،،شہزادے ،،شہزادے،،،،آجاؤ،،،نازو میں تم سے دور کب ہوں ،،میں نے چارپائی کے پائے ساتھ پہلے سے رکھی تیل کی شیشی اٹھا اور اسے اپنے عضو پر لگایا،،،نازیہ کی چادر سے ہاتھ صاف کیا اور وہی چادر دوہری تہری کر کے نازیہ کی چوت کیلیے بچھا دی،،نازویہ تیار ہو،،ہاں شہزادے ،،تیار ہوں ،،میں تو جانے کب سے تیار ہوں،،ایسی باتوں کا مقصد گرمی بڑھانا ہوتا ہے،،میں نازیہ کی ٹانگیں کھولی ،ان میں بیٹھا اور عضو چوت کے اوپر رکھا،،چارپائی کی وجہ سے تھوڑی مشکل تھی کیونکہ چارپائی درمیان میں وزن پڑنے سے بیڈ کی طرح سیدھی نہیں رہتی تھی،بلکہ کُھب سی جاتی تھی،،،بہر حال میں نے عضو کو دھکا لگایا وہ نرمی سے کچھ اندر چلا گیا،،ابھی پردے کی منزل نہیں آئی تھی،،میں نے تھوڑا اور زور لگایااور اسےاندر ڈالا ،،عضو کھسکا اور چوت میں آگے چلا گیا،،نازیہ پر جوش تھی ،،،میں نے پوری طرح دھکیلا اور عضو کی دیواروں کو کھولتا ہوا، اندر پردے پر جا کر رک گیا،،،یہی میرا طریقہ تھاتب بھی اور آج بھی میں نئی چوت کو سہج سہج کر محبت اور نرمی سے کھولتا ہوں جیسے کوئی گلاب کی پتیاں ایک ایک کر کے کھلتی ہیں اور پھول بن جاتا ہے،،،تھوڑا سا عضو کو پیچھے کیا،آگے کیا کچھ چوت کو بتیا کہ کوئی آیا ہے اور پھر،،،،،نازو ،،،،جی شہزادے ،نازیہ نے جذباتی انداز میں کہا،،اندر پردہ توڑنے لگا ہوں،،تیار ہو جاؤ ،،تیار تو کب سے ہوں شہزادے رکو نہ بس چوت کا مالک اس میں داخل کردو،،اور میں نے مخصوص جھٹکا مارا جو چوت کو چیرتاہوا ندر جا پہنچا۔
اوئی شزادے ،،،،،،،،نازیہ سے میرا صحیح ا نام بھی نہ لیا گیا،،،مار دیا رے ظالم ،،،نازیہ درد سے پر مدہم آواز میں بولی،،کب سے تیرا انتظار تھا ،،اور تو تڑپا تڑپا کے آیا میرے پاس،،،اب تجھے کہیں جانے نہیں دوں گی،،،میں نے اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے اس پر اپنا کچھ وزن ڈال دیا،اور بڑی ہی آہستگی سے باہر کیا،پھر اندر کیا،پھر باہر کیا،اور پھر اندر باہر کرنے لگا،،،ہونٹ چومنے سے نازیہ کی جذباتی باتیں رک گئی ،پتہ نہیں ایسی جذباتی باتوں سے میرا دل کیوں بے چین ہونے لگتا تھا،،،میرے دل میں کہیں نگینہ کا سراپا آجاتا تھا اور دل کچھ اور کہنے لگتا تھا،،میں نے اندر باہر کرنے کا کام جاری رکھا اور پھر بیٹھ گیا،،میری چودائی میں روانی نہیں آئی تھی،،اس لیے میں نے اس کے پہلوؤں پر ہاتھ رکھے اور تھوڑا جھک کر مشق جاری رکھی،،ویسے دیکھا جائے تو یہ مشقِ ستم نہیں تھی ،،لیکن پہلے پہلے یہ مشقِ ستم ہی بن جاتی تھی،،اور بعد میں مشقِ سخن بن جاتی تھی ،،اب یہ مشقِ سخن جاری تھی،،شہزادے آج سے یہ جسم تمھارا ہے،،نازیہ پھر بولی،نازیہ کو چودتے ہوئے میرے خیالات بھٹکنے لگےتھے،،،اس کی باتیں مجھے بہکانے لگی تھیں،،،اس میں اس کے جسم کا بڑا عمل دخل تھا،،،کسی وقت میں نے اس سے پہلے صرف ایک کنواری لڑکی چودی تھی اور وہ سحرش تھی ،،سحرش کو چودتے ہوئے اس وقت میرے دل و دماغ سے نگینہ کا خمار اتر گیا تھا،،،اور میں سحرش کی جوانی کاشکار ہو گیا تھا،،اس کے بعد آج رات جب سے میں نے ان بہنوں کو چودنا شروع کیا تھا میرے دل و دماغ سے جوسلین کا خمار اترنا شروع ہوا تھا لیکن میں خیالات کو کنٹرول کرتا رہا،،اور اب نازیہ نے پھر مجھ پر حملہ کر دیا تھا،،کسی کی دنیا تہس نہس ہوئی ہوتو وہ میری سمجھے گا ،،میں نے سر جھٹک کر خیالات کو دفع کیا،،اور چودائی کی طرف دھیان لگایا،،،میری نظریں نازیہ کے بے مثال جسم پر تھیں اور اس وقت عضو اندر تھا جیسے یک جان ہوگئے تھے،،،سرور کی انتہا تھی ،،،ایساجسم تو جوسلین کا تو نہیں ہے،،،کیا یہ عمروں کا فرق ہے یا،،،،،نازیہ ہے ہی حسین ترین،،یا یہ کنوارے جسم کی مقناطیسیت ہے،،،یا اس میں کچھ اور بات ہے۔
ذہن نےباغیانہ خیالات کو جنم دیا تو میں سوچنے لگا یہ میرئے ساتھ کیا ہو رہا ہے،،اس بار میں جوسلین کے احسانا ت یاد کرنے لگا ،،اور دل کو کچھ شرم آئی میں نازیہ کے جسم سے حظ لینے لگا،،،کانچ کے جسم ایسے ہی تو ہوتے ہوں گے،،خیا لات کا کیا ہے یہ روکے سے کب رکتے ہیں،،نازیہ کی چودائی کسی اور ہی ڈھنگ سے ستا رہی تھی،،مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے خیا لات میرے ساتھ ایسے باغیانہ رویہ اختیار کریں گے،،،میں نے نازیہ کے ممے چوسنے شروع کردیئے،،،اور چودائی تیز کر دی،،،عجیب بات تھی جس جسم سے کی وجہ سے خیالات آتے تھے ،،اور پھر اسی کی پناہ میں چلا جاتا تھا،ظاہر ہے اس نے تو پھر ستانا ہی تھا بہکانا ہی تھا،،،ممے چوستے ہوئے مجھے بڑا سرور آتا ہے اور نازیہ بھی سرور میں آگئی تھی،،شہزادے تمھاری یہ ادا مجھے بہت اچھی لگتی ہے،،،میں پھر بیٹھ گیا،،اب بتانے میں تو کچھ باتیں بنانی ہی پڑتی ہیں،، نثری ادب میں ہر لکھی ہوئی چیز ، فیکٹ ،ہوتی ہے یعنی حقیقت، یا وہ فکش ہوتی ہے یعنی فرضیت ،،،لیکن کافی عرسے سے ایک اور صِنف بھی وجود میں آچکی ہے اور وہ ہے فیکٹ اور فکشن کا ملاپ،،یعنی حقیقت اور فرضیت کا حسین امتزاج ،آج کے دور میں اسے فیکشن کہتے ہیں،،،یعنی ایسی سچائی جسے نمک مرچ لگا کہ پیش کیا گیا ہے،،،میں بتا تو نہیں سکتا کہ چودائی میں کتنا مزہ آیا لیکن کوشش کرسکتا ہوں کہ میرے خیالات میں ہلچل سی مچ گئی تھی،،،نازیہ میں تمھیں دوبارہ ضرور ملنے آؤں گا،،،کیا یہ بھی تو کوئی امتحان نہیں ہے؟ میرے اندر سے ایک آواز آئی،،جوسلین جیسی جینئس عورت کسی نکتے کو فراموش نہیں کر سکتی،،،اسے پتہ ہو گا کہ کھیل کیسے کھیلا جائے گا،،نازیہ تم اوپر بیٹھ کر چودائی کر لو گی میں نے اس سے پوچھا،،کیا میں؟ نازیہ حیران ہوئی ،،ہاں تم جیسے میں نے بتایا تھا کہ لڑکی لڑکے کی چودائی کرتی ہے،، ،،پاگل،،،چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر بات ایک ہی،،نازیہ نے اوپر آتے ہوئے کہا، تو میں مسکرانے لگا،،میں سیدھا لیٹا تو وہ میرے عضو پر بیٹھ گئی،، نازو اب جیسے بتایا تھا عضو ہاتھ میں پکڑو،،نازیہ نے ہاتھ میں پکڑ کر اپنی چوت اس پر رکھی اور اس پر اپنا وزن ڈالا،،عضو پھسلتا ہوا ا سکی چوت میں چلا گیا،،،واہ،،تم نے بڑی خوبصورتی سے کام کیا،اب اوپر نیچے ہو نا شروع کرو،،نازیہ اوپر نیچے ہونا شروع ہوگئی،،مگر ایک تو نیچے چارپائی تھی ،دوسرا وہ نئی نئی اس کام میں آئی تھی،،پھر وہ بھی اوپر نیچے ہونے لگی اور میرے خیالات کا سلسلہ رک گیا،،اس کا جسم اس کے ہلتے ممے ،،اسکی چوت کی تنگی،،،اس کی نین نقس،میرے ذہن میں کھبنے لگے،،،مجھے مزہ آنے لگا،،،یہ اسٹائل بڑا ہی پرلطف اور مزے دار ہے ،،اس میں عضو پر چوت کی گرفت اور تہیں ایسے چڑھتی ہیں جیسے،،کوئی بانہوں میں بھنچ کے مار ڈالے گا اور ہم خوشی سے مرجائیں گے،،،میں کچھ دیرا سی حالت میں مزہ لیتا رہا اور نازیہ کو دیکھتا رہا ،،نازیہ کچھ دِقّت سے دھیرے دھیرے کر رہی تھی ،،جب میں نے دیکھا کہ وہ اتنے سے ہی تھک گئی ہے تو میں نے اٹھ کے بیٹھ گیا،،اسی حلات میں نازیہ کے بازو پکڑکے میں بیٹھا تو اب نازیہ میری ٹانگوں پر تھی اور اسے پہلے تو گلے سے لگا لیا اور سے کمر سے کس لیا ،،پھر اسے تھوڑا نیچے کر کے اپنی کھلی گود بنا کر اس میں بٹھا لیا،،اور تھورا آگے پیچھے ہونے لگا،،یہ ایک رومانوی اسٹائل ہے اور پرجوش بھی ہے،،مزہ بھی آتا ہے اگر مہارت سے کیا جائے تو عضو پورا اندر جاتا ہے نہیں تو درمیاں سے ہی ہار مان کر واپس آجاتا ہے۔
اس میں چوت عضو کے سامنے ہونے کی بجائے تھوڑی اوپرہو،،جبکہ لڑکی کا جسمانی وزن چوت نیچے کرتا ہے بازوؤں کے سہارے میں تھوڑا اونچا کیے چودائی کرنے لگا تو نازیہ نے اپنے بانہیں میرے گلے میں گردن کے گرد ڈال لی،،واؤ شہزادے کمال کا طریقہ ہے میری جان بڑا مزہ آرہاہے ۔۔بس اب اسی طرح کرتے رہنا جب تک سفید پانی نکل آئے،،حسن کا حکم سرانکھوں پر ،میں نے سر کو تھوڑا جھکاتے ہوئے کہا،،میں اپنے تئیں خود کو بہلانے میں کامیاب ہوچکا تھا،لیکن خیالات ہٹانے کی یہ طریقہ بالکل غلط ہے الٹا خیالات بڑی طاقت سےحملہ کرتے ہیں،ان سے لڑو مت ،،ان کونظر انداز کرو،میرے اندر سے مارشل آرٹ کے استاد کی آواز گونجی،،اور میں نظر انداز ہی تو کر رہا تھا،،،شہزادے ،،،ہوں کیا،،،کہاں گم ہو،،نازیہ نے حیرانگی سے پوچھا ،میں مزے میں ڈوبا ہواتھا،،اوہ تو مجھے ساتھ لے کہ ڈوبو نہ،،اکٹھے مرتے ہیں ،،نازیہ انجانے میں پھر دل کے تار چھیڑ گئی،،اسے نہیں پتا تھا کہ میرے اندر تو پہلے ہی جنگ چھڑی ہوئی ہے،،،ایسا نہیں کہ میں اس سے محبت کرنےلگا تھا بس یہ تھا کہ جوسلین کا جسمانی سحر اتر رہا تھااور نازیہ کاجسم مجھے قابو میں کررہا تھا،نازیہ میں تم سے ضرور ضرور ملنے آؤں گا آخر مجھے خود سے عہد کرنا پڑا،،جوسلین کی اہمیت اپنی جگہ لیکن نازیہ کمال تھی اور جوانی ،کنوارہ پن،جسمانی خوبصورتی،کشش کا کوئی نعم البدل نہیں تھااب کچھ دل کو سکون تھا،میں نے پھر چدائی کی طرف دھیان دیا،،مجھے پتہ ہی نہیں چلا اور ہم اکٹھے چدائی کررہے تھے یعنی اگر میں باہر نکالتا تو وہ بھی کمر کے زور پر پیچھے ہوتی اور میں اندر داخل کرتا تو وہ بھی آگے ہوتی،،اس طرح ایک ردھم بن گیا،، جیسے ساز کی لے پر گا نے کے بول جمنے لگتے ہیں،شہزادے ،بڑا مزہ آرہاہے نازیہ کی آنکھیں بند تھیں،،اس کاایک دفعہ پانی نکل چکا تھا اور میں تو چوتھی دفعہ کررہا تھا اسلیے مجھے کچھ وقت تو لگناہی تھا،،اب ٹھیک تھا ،اب ہم دونوں کاپانی اکٹھا نکلنا تھا،اور پہلے نازیہ کا نکلنا چاہیئے تھا،،،میں نے اپنی کوشش جاری رکھی،،تو نازیہ نے پہلے سے کسے بازوؤں کا گھیرا اور تنگ کردیا،اور میرے سینے میں اس کا سینہ کھب گیا ،اس طرح گود میں کچھ آگے بھی ہوگئی اور چوت عضو پر اچھی طرح چڑھ گئی ،یہ وقت ہی ایسا ہوتا ہے ،،ہمیشہ محسوسات میں کچھ ایسا ہوتا ہےکہ دل کرتا ہے بازووں میں کس لیاجائے اتنا کس لیا جائے کہ مار ہی دیا جائے،(وصی شاہ کا شعر ہے یہ)کچھ دیر ایسے ہی بیٹھے رہنے کے بعد میں پیچھے کو لیٹ گیا اور نازیہ میرے اوپر آگی،،پھر میں نے اسے ساتھ لٹا لیا،ہم کافی دیر ایکدوسرے کو محسوس کرتے رہے،،پھر نازیہ اٹھی اس نے نیچے سے چادر نکالی،،اسی ایک چادر پر اب چاروں بہنوں کا خون لگا ہوا تھا،،اس نے کناروں سے اپنا جسم صاف کیااور پھرمیرا جسم بھی صاف کیا،چادر کو ایک طرف رکھنے کے بعد وہ پھر میرے ساتھ لیٹ گئی،ہم کافی دیر باتیں کرتے رہے ،میرا دھیان گھڑی کی سوئیوں کی طرف تھا،،تین بجنے والے تھے،،نازیہ اب سونا چایئے ،کیا خیال ہے،،ٹھیک ہے شہزادے جیسے تم کہو،،،نازیہ اٹھ کر کپڑے پہننے لگی،،،کپڑے پہن کے اس کا دھیان چادر کی طرف گیا ،،شہزادے پہلے میں اسے دھؤں گی،،پھر سوؤں گی،،صبح امی کے سامنے تو اسے دھونا بہت مشکل ہوجائے گا،،ٹھیک ہے تم اسے دھو لو،،میں نے اس کی مشکل سمجھتے ہوئےکہا۔
وہ گئی ہی تھی،کہ رافعہ کے بستر میں میں ہلچل ہوئی اور وہ اٹھ کے میرے پاس آگئی،،شہزادے مجھے نیند نہیں آرہی،،،رافعہ نے کہااور میری رضائی اتار کے ایک طرف کردی میں نے ابھی کپڑے نہیں پہنے تھے،،میرا عضو دیکھ کر جیسے اس کی آنکھیں چمکنے لگی،،میں سمجھ گیا وہ کب سے ہمارے اٹھنے کی منتظر تھی،،،رافعہ نے بدمست جوانی میں آؤ دیکھا نہ تاؤاور میرے عضو پر ایسے جھپٹی جیسے چیل گوشت پر جھپٹتی ہے،،،کچھ ہی لمحوں میں میرا عضو رافعہ کے منہ میں تھا ،،اور رافعہ اسے چھچھوری بلی کی طرح چاٹنے لگی،،،میں تھوڑا اٹھ کے بیٹھ گیا،،کرنٹ لگے تو پھر اٹھنا تو پڑتا ہے،رافعہ ااب اسے منہ میں لو اور چوسو،،رافعہ کو رستہ مل گیااور وہ قلفی کی طرح چوسنے لگی،،،ایک دفعہ تو اس نے پورا منہ میں لے لیا،،،رافعہ بدمست جوانی تھی،،اور میں پہلے بھی اندازہ لگا چکا تھا کہ اب اس کی اور مولوی کی جنگ ہو ہی ہو،،اچھی طرح چوسنے میں تو رافعہ کو مہارت نہیں تھی لیکن اس کے اناڑی پن میں کافی مزہ تھا کیونکہ اناڑی پن کی کمی اس کا جوش پورا کر رہا تھا۔۔کچھ ہی لمحوں میں عضو صاحب بدمست ہوگئے اور پوچھا کہاں ہے چوت،،،میں نے کہا یہ رافعہ آئی ہے،،،اوہ،اسکو چودوں گا چودوں گا،،،چلو اس کو چودتے ہیں میں نے سوچ لیا کہ اس کےساتھ کیا کرنا ہے،،،میں اٹھا ننگے جسم میں گرمی بھری ہوئی تھی،،رافعہ کوپکڑا اور اسے دیوارکے پاس جاکر ہاتھ اس کے دیوار پر ٹکائےتھوڑی ٹانگیں پیچھے کی اور گانڈ کو باہر نکالااور چوت کو پھانکیں کھول کے اس میں عضو ڈالا اور دے دھکے پہ دھکا۔
میں اسے کہہ چکا تھا کہ رافعہ اگر تمھاری چیخ نکلی تو ہم سب مارے جائیں گے،،یقیناً رافعہ کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے ،،کیونکہ اس وقت میں غصے میں تھا ،،غصہ اندر تھا اور نکال باہر رہا تھا،،،رافعہ کو ابھی پتہ نہیں تھا کہ چوت کا ستنانا سبھی ہوجاتا ہے ایسے شوق میں،،بہر حال ا سکے پہلو سے پکڑے میں نے شدت سے دھکے لگانے جاری رکھے،،،چند بار تو وہ دیوار سے جا لگی،،،میرے خیال میں کم از کم پندرہ منٹ تونازیہ کو چادر دھونے میں لگ ہی جانے تھے کیونکہ ا س پر کافی خون لگا تھا اورکافی دیر سے لگا تھا ، اتنے میں رافعہ کوفارغ کر دینا تھا،اوہ ،،،اوہ مزہ آ گیا رافعہ نے بمشکل کہا،،،مگر مجھے پتہ تھا وہ خود کو چودکڑ ثابت کر رہی ہے ،جبکہ اس کی ہوا نکل رہی تھی،،اور ساری شدت چوت سے نکل رہی تھی،،،رافعہ ،کل کا دن ذرا چلنے پھرنے میں مشکل ہوگی بس، لیکن تمھیں ایسا مزہ آئے گا کہ پھر اس مزے کیلیے تڑپو گی ۔رفتار اور اور طاقتور دھکا ،،تال میل سے ہوتی چودائی،،،اب رافعہ نے ایک ہاتھ دیوار سے ہٹا کر منہ پر رکھ لیا اس سے ایک تو یہ ثابت ہو گیا کہ اس سے چیخیں روکی نہیں جارہی تھیں اور دوسرا اس کے دیوار کا سہارا کمزور ہوگیا تھا،،،جو میرا ہاتھ اس کے پہلو پر تھا وہ میں نےآگے کر کے اس کے پیٹ کے گرد رکھ دیااور اسے سہارا دیا ،،کیونکہ اس دوران وہ دو بار دیوار کی طرف پریس ہوچکی تھی اور بمشکل بچی تھی،،کیوں کیسا لگا رافعہ ڈارلنگ ، ،،مزہ آرہا ہیے نہ ؟
،،رافعہ نے سر ہلا کر بتایا کے اسے مزہ آرہا ہے،،،درد بھرا مزہ،،میں نے رفتاربڑھا دی،،مجھے پتہ تھا اس میں زبردست رگڑ لگ رہی ہے،،،اور جلد پانی آنا متوقع ہے،،رافعہ درد تو سہہ رہی تھی لیکن اس سے درد بھری آہیں نہیں روکی جارہی تھی،،اچانک اس نے مجھے روکے بناء دوسرا ہاتھ بھی اپنے منہ پر رکھ لیا،جیسے چیخیں زبردستی باہر نکلنے کوبے تاب ہیں،،ادھر میرا دھکا لگا اور اس کا پیٹ دیوار کی طرف گیا ،لیکن میں نے اسے روک لیا نہیں تو اس نےدیوار کےساتھ پریس ہوجانا تھا،،تم کہو تو میں روک دوں میں نے شرارت سے پوچھا،،ڈھیٹ رافعہ نے نہ میں سر ہلایا میں نے بھی کب رکنا تھا اور چڑھائی جاری رکھی،،،اب اس کی روکنے کے باوجود چیخیں نکلنے لگی لیکن بس اتنی جیسے کوئی کراہ رہا ہو،رافعہ ڈارلنگ چیخ نہ نکلے نہیں توا با آجائے گا میں نے پھر سرگوشی کی،،،اور رافعہ نے سر ہلا دیا،،،میرے حساب سے اس کا پانی نکلنے ہی والا تھا،،تقریباً پندرہ منٹ میں اس کا بھرتا بن گیا تھا،،اسے اگر یہ پتہ ہوتا کہ میں کون ہوں اور میری استاد کیا ہے تو وہ مجھے چدائی کا اتنا اشتیاق کبھی نہ دکھاتی،،،دے تیرے کی،،،اور،،،،،،،،رافعہ کی بس ہوگئی ،،میں تو پہلے ہی ہوشیار تھا،،،اور اس کی کمر اپنے سینے سے لگا لی تھی،،جیسے ہی وہ گھٹی گھٹی آواز میں چیخی میں سمجھ گیا کہ اب اس سے چیخ روکی نہیں جائے گی اور میں نے بروقت اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا کیونکہ درد کے جھٹکے نے اس کے ہاتھ گرا دیئے تھے،،،خیریت گزری اور ایک سیکنڈ کے فرق سے ہم بچ گئے ،میں نے تو نکل جاناتھا،،مگر لڑکیاں قتل ہوجانی تھی،،میں نے اب بھی دھکے لگانے جاری رکھے اب اس کی کمر میرے سینے سے لگی تھی اس لیے اسٹائل ذرا تبدیل ہوگیا تھا کیونکہ دھکا اندر پورا نہیں جارہا تھا۔۔۔
لیکن ،،،،،،،،،،،رافعہ ناں میں بمشکل سر ہلا رہی تھی،،اس کا منہ تو میری پکڑ میں تھا،،اس کی بس ہوگئی تھی ،،اور اسکا پانی بھی نکل گیا تھا لیکن میں نے دھکا زور سے لگایا ،،اور پھر لگایا ،،پھر لگایا ،،،اور لگاتا گیا،،میرے ہاتھوں پر نمی سی محسوس ہوئی،،رافعہ رو رہی تھی،،،بس میرا کام بھی ہونے والا تھا،،مجھے سنسناہٹ سی محسوس ہوئی تو میں نے آخری دھکا لگایااور رافعہ کی چوت میں پانی چھوڑ دیا،،،،آخری دھکے کچھ کم تھے کیونکہ اس کے پانی رگڑکم ہوگئی تھی،،،کچھ دیرمیں اسی طرح اندر ڈالے کھڑا رہا ،،رافعہ کاجسم کانپ رہاتھا ،،پھر میں علیحدہ ہوگیا اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے اس کے سامنے آگیا،،اور رافعہ کوگلے لگالیا،،،کچھ دیر اسے ہاتھ وغیرہ پھیرا،،،،جب مجھے یقین ہوگیا کہ اب چیخیں نہیں نکلیں گی ،میں نے ہاتھ ہٹا لیا،،،اب خوش ہو رافعہ ،میں نے اس کے کان میں پوچھا،،،،،ڈھیٹ رافعہ نے سرہلا دیا،،ہاں بہت خوش ہوں بڑی مشکل سے اس کی آواز نکلی،،میں دل ہی دل میں ہنس پڑا،،اب تم آرام کرو،،میں نے اس کے پہلو سے پکڑ کر ساتھ لگایااور چلاتاہوا اس کے بستر تک لایااور اورآہستگی سے اسے لٹا دیا،،اس کے ہونٹوں پر آخری چومی لی،،بہت ظالم ہو،،رافعہ کہے بناءرہ نہ سکی،،آرام کرو باقی مزہ کل لیں گے،،میں نے اسے دہلایا،چودائی کی پہلی عمر کو سلام ،،،،،،16 برس کی بالی عمر کو سلام،،اب بالی عمر سنجیدہ ہوجائے گی اور اپنی چوت کا خیال رکھے گی،کل رات تک اسے آرام آجائے گا،،،یہ تھا وہ ہنر جو میں نے سیکھا تھا،اور جانے کیا کچھ سیکھا تھا،،،،،،اب میں بھی کپڑے پہننے لگا،،،اتنے میں نازیہ آگئی،،چادر اسکے ہاتھ میں تھی اور اس سے پانی ٹپک رہا تھا،،،سردی کی وجہ سے چادر اس سے نچوڑی نہیں گئی تھی،،،میں نے اس کے ہاتھ سے چادر لیکر کمرے میں پیچھے گیا،،اور چادر کو مڑوڑ ا دے کر نچوڑنے لگا،،، اچھی طرھ نچوڑنے کے بعد میں نے چادر نازیہ کوتھما دی،،،اس نے اسے جستی پیٹی پر پھیلا دیا،،،نازیہ نے کپڑوں پر سردی سے بچنے کیلی کچھ نہیں پہنا تھا،،اسے سردی لگ رہی تھی،،بلکہ وہ کپکپا رہی تھی،میں تو کپڑے پہن چکا تھا،میں نے اسے ساتھ ہی لپٹا لیا،،اور رضائی اوپر لے لی،،نازیہ کی سردی کم ہونے لگی،،اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کے پیچھے کیاطوفان گزر چکا تھا ،میں نازیہ کے بالوں میں انگلیاں پھرنے لگا،اسکا سینہ میرے سینے پر پڑا تھا اور میں دیوار کی طرف ٹیک لگا کر لیٹا تھااور میرے اوپرلیٹی تھی ہمارے چہرے آمنے سامنے تھے،،ہم دھیمے دھیمے پیار بھری باتیں کرنے لگے،،ساڑھے چار بج گئے،،،نازیہ تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے،،میں سنجیدہ ہوگیا۔
کیا بات کرنی ہے نازیہ میرے لہجے پر چونکتے ہوئےپوچھا،میں نے تمھیں بتایا تھا کہ میرا ایک دوست ہے یہاں لاہور میں ،جو میرا کلاس فیلو بھی رہا ہے،،ہاں تم اس سے ملنے کیلیے ہی تو لاہور آئے تھے،نازیہ کویاد تھا،،،ہاں وہی دوست ،،وہ صبح صبح جوکنگ کرنے کا شوقین ہے،،،میں سوچ رہا ہوں کی اس وقت اس کی کیا نگرانی ہوگی،،ایک موقع لے لینا چاہیئے اور جوکنگ کرتے وقت اس سے ملنے کی کوشش کرلینی چاہیے،، کیا خیال ہے تمھارا ؟ہاں ٹھیک ہے تم اس سے ملو اسوقت،کوئی پتہ نہیں ملاقات ہو ہی جائے،تو ٹھیک ہے میں ابھی کچھ دیر بعد نکل جاتاہوں،اگر تو وہ مجھے مل گیا تو میں اس کے پاس ہی ٹھہر جاؤں گا،اور اپنے چچا سے لندن میں رابطہ کرنے کی کوشش کروں،اور اگر وہ نہ ملا تو میں واپس آجاؤں گا،ہاں ٹھیک ہے،نازیہ آہستگی سے کہا،،،مجھے پتہ تھا اس نے اداس ہونا ہی تھا،،پر نہ بتا کرجانے سے اچھا تھاکہ میں بتا کرجاؤں،نازیہ چچاسے ملنے کے بعد جب یہاں حالات ٹھیک ہوجائیں گے میں تم لوگوں سے رابطہ کروں گا،یا ہوسکتا ہے پہلے ہی رابطہ کر لوں،،شہزادے کیا ایسے نہیں ہوسکتا کہ تم کل تک رک جاؤ،،نازیہ نے میرے سینے پر سر رکھتے ہوئے کہا،،،اسطرح وہ اپنے آنسو چھپارہی تھی،،نازو میری جان،،دشمنوں کا کوئی پتہ نہیں وہ بہت طاقتور ہیں ،اور ان کے پاس بہت سے بندے بھی ہیں،وہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے یہاں بھی پہنچ سکتے ہیں،،،مجھے اپنی فکر نہیں لیکن تمھارے ابا اور امی،،اور خاص کر تم بہنوں سے انہوں نے اچھا سلوک نہیں کرنا،،اب تم جیسے کہو میں کر لوں گا،،کل تک رکنا ہے خطرناک،،بلکہ ایک ایک لمحہ خطرناک ہے،،ٹھیک ہے تم آج ہی چلے جاؤ۔وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے،،نازیہ نے اداسی اور بےچارگی سے کہا،مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ مجبوراً جانےکو کہہ رہی ہے،،لیکن تم ایک وعدہ کرو اگر تمھارے دوست سے ملاقات نہ ہوسکی تو واپس یہیں آجانا،،لو کرلو بات ،،یہ بھی کوئی کہنےکی بات ہے،،ٹھیک ہے شہزادے ،،خداکرے تمھاری مشکل آسان ہوجائے،،نازیہ نے پھر اپنا چہرہ میرے سینے میں چھپا لیا،، ہم کچھ دیر بعد اٹھے میں نے جوگرز پہنے،،جیکٹ پہنی،،اور جانے کیلیے تیار ہوگیا،،ایک بات اور نازیہ،،،اگر تمھیں یا تمھاری کسی بہن کو اس دفعہ ماہواری نہ آئے تو پریشان نہ ہونا،،اور فوری طور پر مجھ سے رابطہ کرنا،،رابطہ کیسے کرنا ہے،،نازیہ میری بات سمجھتے ہوئے پریشانی سے کہا،،،میں تمھیں ایک فون نمبر لکھ دیتا ہوں ،،اس پر تم مجھ سےرابطہ کرسکو گی،،باقی میں سنبھال لوں گا،،لیکن اگر تم لندن چلےگئےتو کیاہو گا ہمارا؟ نازیہ پریشان ہوگئی تھی،،نہیں میں لندن نہیں جاؤں گا۔
میں نے ایک کاغذ پر نمبر لکھتے ہوئے کہا جو ابھی نازیہ نے مجھے پکڑایا تھا ،،،،میں چچا کو یہیں بلواؤں گا،،اور آدمی اکٹھے کر کےاپنے سوتیلے چچا سے اپنی جائیداد لوں گا،تم بےفکر ہوجاؤ بس رابطہ کرنے کی دیر ہے پھردیکھنا میں کیسے پہنچتاہوں۔۔ٹھیک ہے نازیہ نے اداسی اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں کہا،میں نے نازیہ کو گلےلگایا اور اس کیاایک طویل کس لی،،اور دروازے سے باہر نکلا،،ایسا منظر ایک دفعہ میری زندگی سے پہلے بھی گزرچکا تھا جب میں سحرش سے رخصت ہوا تھا لیکن پھر میں پلٹ کر اس کے پاس نہیں گیا،،ہاں جب میں نگینہ کا پتہ کرنے وہاں گیا تو سحرش کے گھربھی گیاتھا تو پتہ چلا تھا اس کی اس کی شادی ہوگئی تھی اور میں نے اندازہ لگایا کہ چودائی ملنے کے بعد بہت خوش ہوگی،لیکن اب میں نازیہ سے ملنے کیلیے واپس آناچاہتاتھا،باہر نکلا تو نازیہ دروازے میں کھڑی ہوگئی،،،شہزادے اس نے مجھے آواز دی،،میں نے مڑ کردیکھا تو بھاگتی ہوئی آئی اور میرے سینے سے لگ گئی،،سنسان گلی میں اندھیرا تھا،لیکن اس کی تڑپ اور گلی میں آنا کوئی عام بات نہیں تھی،،پھر بھی میں نے اسے علیحدہ کیا،نازیہ ایسے مت کرو نہیں تو میں جانہیں سکوں گا،،نازیہ نے چپ چاپ میری ایک چُمی لے کے دروازے میں جاکر کھڑی ہوگئی اور میں چلتا ہوا گلی سے نکل گیا،،مجھے یقین تھا جب تک میں مڑ نہیں گیا تھاوہ مجھے دیکھتی رہی تھی،میں روڈ پر آکر میں جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ دیکر پیدل ہی چلنے لگا،،کسی سواری کاانتطار فضول تھا،،دس منٹ بعد مجھےایک آٹو رکشہ نظر آیا ،،میں نے اسے ہاتھ دیا تو وہ رک گیا،،فلیٹ کا ایڈریس بتا کہ میں اس میں بیٹھ گیا،،اب مجھے پیسوں کی پرواہ نہیں تھی،کرایہ گھر پہنچ کے جوسلین دے دی گی،،میں نے آنکھیں بند کر کے پیچھے ٹکا لی،،اور نازیہ کاسراپا میری آنکھوں کے سامنے آگیا،،گھبرا کے میں نے آنکھیں کھول دی،
سبب جو ڈھونڈو گے--تو عمریں بیت جائیں گی
کہا نہ ---یاد آتے ہو --تو بس یاد آتے ہو،
Very nice story waiting for next parts
جواب دیںحذف کریں