Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ناگن قسط 13

 


لیکن میں جوسلین کو سمجھانے کے بعد اب تپنے لگا تھا،،اور اسی غصے میں،،ایک دن میں مولوی کہ گھر جاپہنچا،،میں کار میں تھا یہ جوسلین نےلیکر دی تھی،،اور میرے پاس کافی تحائف تھے،،یونیورسٹی کے بعد میں سیدھا ادھر گیا تھا ،،مولوی گھر میں ہی تھا،،مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا،،مجھے گھر میں لے گیا،،شہزادے میں تو سمجھا تھا کہ تم ہمیں بھول گئے،،مولوی جوش میں تھا ،،مولوی صاحب بس معاملات حل ہونے میں کافی دیر لگ گئی ۔ چچا مجھے لندن لے گئے اور پھر وہیں سے سارے معاملات کنٹرول کیے۔مولوی کی بیوی اور اس کی بیٹیاں بھی آگئی وہ بھی مجھے دیکھ کر حیران ہوگئی،،میں ان کے شکوے شکائیتوں کے محبت سے جواب دیتا رہا،اور ان کو لائے ہوئے تحائف دینے لگا،،مولوی اور اس کی بیوی تحائف پا کر خوش ہو گئے،،مجھے دعائیں دینے لگے،، البتہ شازیہ ،نازیہ،سعدیہ،اور رافعہ مجھ سے خوش نہیں تھیں،وہ کچھ نہیں کافی روٹھی روٹھی تھیں،،گھنٹے بعد مولوی تو اٹھ کر چلا گیا،،اور میں وہیں بیٹھا رہا۔مکان کا ماحول بدلا ہوا تھا، کچن اینٹوں کا اچھا بن گیا تھا ،اور اس میں سہولتیں بھی لگ رہی تھیں،جبکہ اندر داخل ہوتے میں غسل خانے کو بھی دیکھ چکا تھا جو کہ اب واش روم بن چکا تھا،،لڑکیوں کے کپڑوں سے بھی آسودگی کا پتہ چل رہا تھا،غرضیکہ کافی تبدیلی آچکی تھی،،لڑکیوں کے رویے سمیت بہت کچھ بدل چکا تھا،، باتیں چلتی رہی کچھ ہی دیر میں وہاں مختلف عمروں کے بچے آنے لگے ان کے ساتھ بستے تھے،،میں سمجھ گیا وہ ٹیوشن پڑھنے آئے تھے،کچھ ہی دیر میں اچھی خاصی تعداد ہوگئی،،وہاں تو ٹیوشن اکیڈمی کھلی ہوئی تھی،اب مجھے آسودگی کی وجہ سمجھ آنےلگی،،تینوں بہنیں پڑھانے لگی جبکہ نازیہ اور اس کی ماں میرے پاس ہی بیٹھی رہی،،نازیہ کیا تم نہیں پڑھاتی بچوں کو،،میں تو صبح پڑھا کے تھک جاتی ہوں اسوقت آرام کرتی ہوں،صبح تم ٹیوشن پڑھاتی ہو،میں نے پوچھا،نہیں بیٹا یہ ایک سکول میں ٹیچر لگ گئی ہے وہاں پڑھاتی ہے ،میں حیران ہوگیا،،مولوی کے گھر یہ کیسی کایا پلٹ آگئی ہے،ہاں میں ساتھ میں ایم ،اے بھی کر رہی ہوں اس کے بعد بی ایڈکا رادہ ہے،نازیہ نے بتایا ،کیا کسی پرائیویٹ سکول میں پڑھا رہی ہو،میں نے وضاحت سے پو چھا،ہاں لیکن سیلری اچھی ہے اور سکول ٹاپ کا ہے،،میں سوچنے لگا ایسے سکول میں نازیہ کونوکری کیسے ملی،،بہرحال قصہ مختصر شام کو میں جانے لگا تو مولوی نے مجھے روک لیا کہ اتنے عرصے بعد آیا ہوں ،اب ایک رات ان کے ساتھ رہوں،اس نے مجھ سے کوئی توقع تو لگائی ہوئی تھی ،اب اتنے عرصے بعد پھر صحیح ،میں بھی یہی چاہتا تھا اس لیے تھوڑی پس وپیش کے بعد رک گیا،رات گئے تک باتیں ہوتی رہیں، ،،میں تقریباً ایک سال اور کچھ مہینے بعد لوٹا تھا،اسوقت بھی سردیاں جا چکی تھیں،موسم نارمل تھا ، پھر بھی میرا بسترکمرے میں لگا دیا گیا اور وہ بھی لڑکیوں کے کمرے میں،ویسے بھی مجھے موسم کی کوئی پرواہ نہیں تھی ،اب میں ہر موسم میں اپنے جسم کا درجہ حرارت اسی کے مطاق کرلیتا تھا،کافی رات ہوئی تو میں تو سونے چلا گیا،،مولوی اور اس کی بیوی بھی سو گئی،،لڑکیاں میرے ساتھ ہی اپنے کمرے میں آگئی،کمرہ بدلہ ہوا تھا،جستی پیٹیوں کی جگہ بڑی سی دیوار گیر الماری بن چکی تھی،ایک سٹڈی ٹیبل،اور کچھ سامان بھی آچکا تھا، دیوار پر شیشہ ابھی بھی لگاہوا تھا ،لیکن میخ کی جگہ لوہے کا بڑا کیل لگا ہوا تھا جو کہ میرے خیال دیوار کی دوسری طرف ضرور گیا ہوا تھا، چارپائیوں کی جگہ چا ر سنگل بیڈ آگئے تھے ،نازیہ نے کمرے کادورازہ بند کردیا،اور میں نے اسے پیچھے سے بانہوںمیں لے لیا،،شازیہ ،سعدیہ اور رافعہ میری طرف دیکھ رہی تھی،میں نازیہ کے پاس واپس آنا چاہتا تھا اور اب آ پہنچا تھا،لیکن وہ ناراض تھیں ،میں نے ان کو منا لیامیرے پاس لندن جانے کا حوالہ تھا،،،وہ کچھ نہ کہہ سکیں،،اور پھر شازیہ ،نازیہ،سعدیہ،اور رافعہ میرے اوپر گر سی پڑیں، بہت ظالم ہو تم ،اور بہت یاد آئی اس ظالم کی،رافعہ نے کہا،،شازیہ ،سعدیہ اور نازیہ خاموش تھیں لیکن ان کے جسم بو ل رہے تھے،،جلد ہی ہم کپڑوں کی قید سے آزاد ہوگئے ،رافعہ بلا جھجک میرے عضو کو چوسنے لگی،،میں نے باقی بہنوں کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی خاص بات نہ تھی،حیرانگی تب ہوئی جب سعدیہ بھی رافعیہ کے ساتھ عضو کو چوسنے لگی،،چاروں بہنوں کے انداز میں چدکڑ پن نمایاں تھا،میں سمجھ گیا میرے بعد انہوں نےکوئی اور ڈھونڈلیا تھا،سعدیہ اور رافعہ بڑی مہارت سے عضو کو چوس رہی تھیں،،مجھے بڑا سواد آیا،، ،واہ مزہ آگیا ،میں نے سعدیہ کے منہ پر آتے بال ایک طرف کرتے ہوئے کہا،،چاروں بہنوں کے بال کھلےہوئےتھے ، میں نے دیکھا وہ کٹے ہوئے تھے،مجھے دھچکا لگا ،ان کے بال لمبے اور خوبصورت تھے خاص کر نازیہ کے بالوں میں ا س رات میں باتیں کرتے ہوئے انگلیاں پھیرتا رہا تھا،شازیہ اور نازیہ مجھے چومنے لگی،،شازیہ میرے ساتھ کسنگ کرنے لگی،،جبکہ نازیہ اپنی چوت کو چھیڑنے لگی،،نازیہ کیلیے ہی تو آیا تھا،،پر یہ کیا،ایسی لڑکیاں تو یونیورسٹی میں بہت تھیں،بس ہاتھ بڑھانے کی دیر تھی،سعدیہ اور رافعیہ نےعضو چوس چوس کر مجھے پاگل کردیا ،اورمزید پاگل میں اس وقت ہوا جب ان کی جگہ نازیہ اور شازیہ نے لے لی،نازیہ میرا عضو چوس رہی تھی،،یہ میرے لیے جھٹکا تھا،نازیہ کے بعد میں شازیہ کو پیار کرتا تھا،اور وہ بھی میرے عضو کو بڑی مہارت سے چوس رہی تھی،،رومانوی طبعیت کی شازیہ اب عضو سے رومان لڑا رہی تھی،سعدیہ اور رافعہ میری طرف کسنگ کرنے آئی تھیں ،لیکن میں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا،وہ ہنسنے لگی،،ارے تم تو لندن سے آئے ہو،پھر یہ کیا،میں کوئی جواب دیئے بناء آنکھیں بند کر کے سرور لینے لگا،،چاروں بہنیں ایک جیسے مہارت اور طریقے سے عضو چوستی تھیں،مجھےبڑا مزہ آیا،،رافعہ اور سعدیہ کسنگ کرنے لگی،،اور بڑا اچھا لیسبن کرر ہی تھیں،وہ چار تھیں تو میں بھی تیاری کر کے آیا تھا،میں آدھا گھنٹا پہلے جب واش روم میں گیا تھا تو ٹائمنگ گولی کھا چکا تھا،اور اب میں نے جوش سے بھرپور سب سے پہلے نازیہ کو ہی پکڑا اور اسے بیڈ پر لٹا کر اس کی ٹانگیں اٹھائی اور اندر ڈال کر چودائی کرنے لگا،،میں اس وقت کسی رحم کے موڈ میں نہیں تھا،پیار کے موڈ میں آیا تھا لیکن اب ان بہنوں کی چدکڑی دیکھ کے میرا موڈبدل گیا تھا،میری رفتار اور طاقت کا فی تھی لیکن نازیہ مزہ لے رہی تھی،،میں اور طاقت سے دھکے لگاے لگا،لیکن نازیہ مزہ ہی لے رہی تھی،،میں نے جی بھرکے چودا اور نازیہ کا پانی نکل آیا،،اس کے بعد سعدیہ بیڈ پر ڈوگی اسٹائل میں آگئی اورمیں نے اندر ڈا ل کے خوب رگڑائی کی،یہ وہی سعدیہ تھی جسے ڈوگی اسٹائل میں مزہ نہیں آیا تھا،،سعدیہ کا جسم سیکسی تھا میں اس کا سیکسی جسم کو چود چود کر تھکا دیا لیکن وہ بھی مزے ہی لیتی رہی،،بلکہ مجھے لگا اسے یہی چاہیے تھا،،اس سے زیادہ میں طاقت لگانا نہیں چاہتا تھا ورنہ چوت کا بھرکس نکل جانا تھا،سعدیہ نے بھی مزے لیکر پانی نکال دیا،،شازیہ سٹڈی ٹیبل پہ بیٹھ گئی،،شاید وہ کچھ منفرد چاہتی تھی،،میں نے اس کی ٹانگیں کھولی اور ان میں کھڑا ہو کر چوت میں عضو ڈال دیا،،اب شازیہ بیٹھی تھی ٹانگیں کھول کر،اور میں کھڑا چود رہا تھا،شازیہ نے بازوپیچھے ٹکائے ہوئے تھے،،اس کے ممے ہل رہے تھے اور جسم چودائی میں خوش تھا،مولوی سے سب سے زیادہ شازیہ ہی ڈرتی تھی،لیکن اسوقت شازیہ ہی سب سے زیادہ بے دھڑک لگ رہی تھی ،شازیہ چودائی سے مسرور سسکاریاں لینے لگی،میں نے اس کی طرف پریشان نظروں سے دیکھا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا ،،پاپا اور مما اس وقت گہری نیند میں ہیں میں نے انہیں لیکسوٹانل گولی کھلا دی ہے بلکہ اس گولی پر لگا دیاہے،میں وحشیانہ انداز میں چودنے لگا،ٹیبل جیسے گرنے لگی ہو،لیکن شازیہ سکوں سے مزے لیتی رہی،،اب مزید حیرانگی میرے لیے ٹھیک نہیں تھی،اور میں نے وہ تصور توڑ دیا جس میں ان کے پاس آیا تھا،اوہ مزہ آگیا شہزادے،،تم اسوقت سے بہترین بہتر چودائی کرنے لگے ہو،ایسا مزہ تو کبھی آیا ہی نہیں ،عجیب مدہوش کرتا مزہ ہے،بالکل منفرد انداز ہے تمھارا ،شازیہ ایسے کہ رہی تھی جیسے بڑی چودکڑ ہو،لگتا ہے لندن میں گوریوں کوچودتے رہے ہو،میں بھی ہنسنے لگا،اور شازیہ کوچود چود کر مزہ لینے لگا،توقعات ختم کردیں تو پھر کوئی دکھ نہیں ہوتا،اور اب میں مزہ لے رہا تھا،،شازیہ نے کچھ وقت لیا اور پھر اس کا بھی پانی نکل گیا،،،اب مجھے تو چودائی میں رکنا اچھانہیں لگ رہا تھا اسلیےرافعہ کی طرف بڑھا لیکن وہ دیوار کے ساتھ جا لگی اور گانڈ میری طرف نمایاں کر لی،،آؤ نہ کچھ یادیں تازہ ہو جائیں،رافعہ نے معنی خیز لہجے میں کہا،میں نے کچھ کہے بغیر اس کی چوت میں عضو ڈالا اور دھکے لگانے لگا،،تھوڑا تیز کرو نہ،رافعہ نے طنز کیا،تو میں سمجھ گیا وہ اس دن کا بدلہ آج مجھے زِچ کر کے لینا چاہتی ہے،میں نے اتنی رفتار اور طاوقت کر دی جتنی اس رات کی تھی،لیکن رافعہ مزے لیتی رہی ،بلکہ لہر میں آگئی،،اسی لہر میں اس نے مجھے کہا،،،،بس شہزادے،،،،اور میں پھر شروع ہوگیا،اسے اندازہ نہیں تھا کہ میں اس دوران کیا سے کیا بن چکا ہوں،اگر میں پہلے والا پرنس ہوتا تو شاید رافعہ کامیاب ہی ہو جاتی،اس کی برداشت کا اندازہ میں کرچکا تھا اب میں نے اس کے پہلوؤں پر ہاتھ رکھا اور پہلا درد ناک جھٹکا دیا،آہ رافعہ کراہی،میں نہ رکا،اور دے دھکے پہ دھکا،رافعہ پہلے تو کراہتی رہی،لیکن پھر آہستہ آہستہ چیخنے لگی،بہنیں اس کے پاس جمع ہوگئی ،ان کے چہرے پر حیرت تھی ،شاید ان کے خیال میں رافعہ ہر قسم کی چودائی کروا سکتی تھی۔ہلکی ہلکی چیخیں روکنے کیلے رافعہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ چکی تھی لیکن میں نہیں رکا،پھر رافعہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے،روک دو پلز روک دو وہ روتے ہوئے بولی لیکن میں اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھے اسے چودتا رہا رافعہ نے میرے ہاتھ سے نکلنا چاہا لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ کس کا ہاتھ ہے،،میں اسے چودتا رہا ویسے بھی میرا وقت پورا ہونے والا تھا،اسلیے مجھے پانی نکالنا تھا،رافعہ میرے ہاتھوں میں دوہری ہو رہی تھی،،شازیہ آگے بڑھی اور اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا تو میں پیچھے ہوگیا،لیکن رافعہ بے ہوش ہوچکی تھی، میں نے اسے بیڈ پر لٹا دیا،سعدیہ میری طرف غصےسے دیکھ رہی تھی،اس نے خود مصیبت کو دعوت دی تھی شازیہ نے اسے کہا،اسے کچھ نہیں ہوگا ،،یہ آدھے گھنٹے میں ہوش میں آجائے گی،،میں نے اس کی نبض دیکھتے ہوئے کہا،میں ایسی حالت سے واقف ہوں ،پریشانی کی کوئی بات نہیں ،بس درد برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے بے ہوش گئی ہے،کچھ دیر میں ہوش میں آجائے گی،اب میرا کچھ کرو،،میں کھڑا تھا اور میراعضو بھی کھڑا تھا،شازیہ اور نازیہ نے یہ ڈیوٹی سنبھال لی اور نیچے بیٹھ کر میرا عضو چوسنے لگی،،میں نے آنکھیں بند کر لیں،کچھ ہی دیر میں میرے جسم میں کپکپاہٹ ہوئی اور میرا پانی نکل آیا،شازیہ اور نازیہ نے اپنے سینے آگے کر دیے،،میں نے ان پر سارا پانی گرا دیا،کبھی یہ ریشمی ممے میرے لیے ایک خواب تھے اور اس خواب کے تصور میں مجھے یہاں آنا پڑا ، بہرحال بالکل ننگی فلم جیسا منظر تھا،ٹھیک آدھے گھنٹے بعد رافعہ ہوش میں آگئی بہنوں کے چہرے پر بھی اطمینان آگیا،اور وہ سونے کی تیاری کرنے لگی،،جبکہ میں سو بھی چکا تھا،صبح ناشتہ کرکے پھر ملنےکا وعدہ کر کے میں مولوی سے اجازت لیکر وہیں سے سیدھا یونیورسٹی چلا گیا،یہ پہلی رات تھی جو ساڑھےپانچ سال بعد میں نے اپنی مرضی سے جوسلین کے علاوہ کسی اور کے ساتھ گزاری تھی،یونیورسٹی میں ہی ناشتہ کیا،اور موبائل آن کیا،کچھ ہی دیر میں جوسلین کی کال آگئی،،ہیلو،،کہاں تھےتم،،جوسلین نے بے اختیار پوچھا،میں یونیورسٹی میں ہوں تم کہاںہو،،آئی نہیں یونیورسٹی میں،،میں نے اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے نیا سوال کردیا،وہیں رہنا میں آرہی ہوں،میں غزل سے ملا ،،کہاں تھے یار ،،تمھارا موبائل کیوں بند تھا،،میں مصروف تھا،اچھاکیا مصروفیت تھی،مصروفیت تمھارے طرح خوبصورت نہ تھی،لیکن غزل اسے مذاق سمجھی،ہم پیریڈلینے چلے گئے،جوسلین نے پیریڈ لینا تھا اور وہ دیر سے آئی،میں غزل کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھا تھا،مجھے دیکھ کر جوسلین کو جیسے قرار آ گیا،پیریڈ ختم ہوتے ہی مجھے جوسلین نے بلایا،اور مجھے ایک سائیڈ میں لے گئی،پرنس تم مجھے سے ناراض رہنے لگے ہو،اگر اس کی وجہ میرا غزل سے رویہ ہے تو میں تمھیں یقین دلاتی ہوں کہ آج سے میں اسے کچھ نہیں کہوں گی،جوسلین نے جیسے ہار مانتے ہوئے کہا،میں سمجھ گئی ہوں کہ غزل تم سے کبھی چودائی نہیں کروائے گی،یہ ان عورتوں میں سے ہے جو خالص نسوانی مزاج کی رومانوی طبیعت کی ہوتی ہیں،ایسی لڑکیاں اپنے محبوب کو اپنا دل دے دیتی ہیں،لیکن اپنا جسم تبھی دیتی ہیں جب ان سے شادی کرتی ہیں،پرنس میں نے تم پراپنا سب کچھ نچھاور کر دیا،اور تمھارےلیے،اپنی زندگی تبدیل کر لی،اور تمھارے سوا دنیا سے کنارا کر لیا،میرے لیے تم ہی زندگی ہو،مجھے تنہا نہ چھوڑنا ،نہیں تو میں خود کشی کر لوں گی۔جوسلین انتہائی جذباتی ہو رہی تھی،میں اسے فلیٹ پر لے گیا،لیکن جوسلین پر جذبات کا دورہ پڑ چکا تھا،بس مجھ سے اظہارِ محبت اور اپنی چاہت کا مختلف انداز میں بیان ہی آجکل اس کی گفتگو کا مرکز تھا،اسے جیسے ڈر ہو گیا تھا کہ میں اسے چھوڑ رہا ہوں،اس کا دھیان بٹانے کیلے میں کچھ دن کی چھٹی لے کر میں اسے جاگیر پر لے گیا، وہ وہاں کے معاملات میں مصروف ہوگئی،اور رات کو میں اس کو چودتا،تو اس طرح اس کا دل بہل گیا،ایک ہفتہ ہم وہاں رہ کر واپس ہو لیے،واپسی پر رستے میں ایک جگہ گاڑی روکنی پڑی، کیونکہ سامنے ایک بڑا سا درخت گرا ہوا تھا اور اس نے سارا رستہ روک رکھا تھا،مجھے فضا میں خون کی بُو محسوس ہوئی میں چوکنا ہوچکا تھا، پرنس باہر نہیں نکلنا،اندر ہی بیٹھے رہو،جوسلین ڈر گئی تھی ،شاید وہ چوکنی رہتی تھی،ہماری گاڑی بلٹ پروف تھی ، یہ عام گاڑی نہیں تھی ،بڑی مہنگی گاڑی تھی،میں نے گاڑی اسی حالت میں پیچھے کی طرف بھگانی چاہی اور پیچھے دیکھا تو وہاں ایک اور درخت کا تنا پڑا تھا ،اب کھیتوں میں گاڑی اتارنا بھی خطرناک لگ رہا تھا،جوسلین اپنی جاگیر میں کال کرنے لگی،اس کا ارادہ گاڑی کے اندر ہی وقت گزارنے کا تھاجب تک مدد نہیں آجاتی،اس وقت تک اندر ہی بیٹھے رہنا چاہتی تھی ہم اندر ہی بیٹھے رہے،کچھ منٹ اسی طرح گزر گئے،جب ہم باہر نہیں نکلے تو اطراف کے کھیتوں دونوں طرف سے چار ،4 آدمی نکلے،ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوف تھیں،ایک کے ہاتھ میں بڑا سا ہتھوڑا تھا،میں ان کا منصوبہ سمجھ گیا،وہ ہتھوڑے سے شیشہ توڑنا چاہتے تھے تا کہ پھر ہمیں قتل کر سکیں،ان کو معلوم تھا کہ گاڑی بلٹ پروف ہے،اور ہم یہاں سے اسوقت گزریں گے،یہ صرف چند پل کا منظر ہے،اور گاڑی میں رکنا موت کے مترادف تھا،میں اسی پل فیصلہ کرچکا تھا کہ مجھے کیاکرنا،دروازہ بند کرلینا میں نے جوسلین سے کہا،میرے الفاظ ختم نہیں ہوئے تھے کہ کوان لی کی آواز میرے ذہن میں گونجی،میرے بچے کسی کے خون سے اپنے ہاتھ مت رنگنا،،جیسے ہی ہتھوڑے والا نزدیک آیا اور اس نے ہتھوڑا بلند کیا،میں نے دروازہ جھٹکے سے کھولا دروازہ اسے لگا وہ دوہرا ہوا،اور میں باہر نکلا،مجھ پر فائرنگ ہوئی،لیکن میں ہتھوڑے والے کی آڑ میں آچکا تھا،اس سے پہلے وہ کچھ سوچتے ہتھوڑے والا اڑتا ہوا کسی میزائل کی طرح اسطرف کے باقی تینوں آدمیوں پر جا گرا،کسی نے فائرنگ کر دی تھی اور ہتھوڑے والے کی لاش ہی ان پر جا گری،اس سے پہلے وہ کہ سنبھلتے میں ان کے سر پر پہنچ چکا تھا،مجھے محسوس ہوا کہ درمیان میں گاڑی ہونے کی وجہ سے دوسری طرف کے چار آدمی،میری طرف بھاگ چکے ہیں،یہ سارا لمحوں کا کھیل تھا،میں نے اپنی طرف کے گرے آدمیوں میں سے ایک کے بازو پر ٹھوکر ماری اس کابازو ٹوٹ گیا،دوسرا اٹھنے کی کوشش کرہا تھا کہ میں نے اس کی تھوڑی کے نیچے مکا مارا وہ وہ زمیں کی طرف ایسے گیا جیسے ،کششِ ثقل نے اسے پوری طاقت سے کھینچ لیا ہو،جب اس کا سر زمین پر لگاتو اس کا جبڑا ٹوٹ چکا تھا اور وہ بے ہوش ہوچکا تھا،تیسرا اٹھ بیٹھا تھااور بیٹھے بیٹھے مجھ پر فائرنگ کی،لیکن میں تو وہاں نہیں تھا،میں کہاں ہوں،اس بات کا پتہ اسے اسوقت چلا جب جب اس کی کنپٹی پر مکا پڑ چکا تھا،اور مردہ مکھی کی طرح زمیں پر گر گیا وہ بھی بے ہوش ہوگیا تھا،ابھی دوسری طرف کے چار آدمی گاڑی کے پاس پہنچے تھے وہ میری رفتار کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے، میں مڑا ایک طرف سے دو آدمیوں کی طرف بھاگا،انہوں نے مجھ پر فائرنگ کی،لیکن میں زمیں پر نہیں تھا،انہوں نے کبھی کسی انسان کو اسے اڑتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔لیکن حیرانگی کی بجائے انہوں نے پھر فائرنگ کی لیکن انہیں دیر ہوچکی تھی،جب میں ان پر گرا تو میرے گھٹنے سے ایک کی ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی اور دوسرا میرے کھڑی ہتھیلی سے اپنا بازو کٹوا چکا تھا،دوسری طرف کہ ایک آدمی میری طرف بھاگا اور ایک نیچے لیٹ گیا ،اور نیچے سے میرے پاؤں پر فائرنگ کرنی چاہی،گاڑی کی رکاوٹ کی وجہ سے مجھے سارا موقع ملا تھا،دوسرا میری طرف بھاگا،لیکن اسے مجھ سے ملنے کی حسرت ہی رہ گئی کیونکہ میں گاڑی کے اوپر سے اس آدمی پر جا گرا،جو نیچے لیٹ کر فائرنگ کرچکا تھا،میری کہنی اس کی کمر پر لگی،اور نیچے لیٹے آدمی کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اب وہ کبھی بھی اٹھ کے بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا،جو میری طرف جا رہا تھا وہ پلٹا اور میری طرف آیا ،لیکن میں تو اس کے پیچھے تھا،میری لَو کِک اس کے رانوں پر پڑی اور ہڈی ٹوٹنے کی آواز اس نے بھی سنی ہوگی تب اسے پتہ چلا ہو گاکہ میں کہاں ہوں،،وہ ریت کی بوری کی طرح نیچے گرا لیکن اس پہلے اپنی بازو کی ہڈی بھی تڑوا بیٹھا،جس کا سب سے پہلے ہاتھ توڑا تھا وہ دوسرے ہاتھ سے کلا شنکوف سنبھال چکا تھا تکلیف کہ باوجود اس نے میری طرف فائرنگ کی،لیکن میں وہاں نہیں تھا ،اس نے اپنی سمجھ کے مطابق میرے ہیولے پر فائرنگ کی،لیکن میں تو وہاں بھی نہیں تھا ،میں فضا سے نیچے آیا اور سیدھا اس کے اسی ہاتھ پر آیا اس کا ہاتھ گن سمیت میرے دونوں جوتوں کے درمیان تھا میں تیزی سے گھوما تو اس کا دوسرا ہاتھ بھی کلائی سے ٹوٹ چکا تھا،کچھ لمحوں کا ہی تو سارا کھیل تھا جس کا ہاتھ کٹا تھا اس کی فلک شگاف چیخیں باقی سب سے اونچی تھیں،شاید اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میرے ہاتھ میں کوئی تلوار وغیرہ نہیں تھی تو اس کا ہاتھ کیسےکٹ گیا،جس کی ہنسلی کی ہڈی ٹوٹی تھی اور جس کا ہاتھ کٹا تھا اسے پکڑ کر ایک سائیڈ میں کیا ان میں سے کٹے بازو والا بے ہوش ہوچکا تھا اور ہنسلی کی ہڈی ٹوٹنے والے کا سر عجیب سے انداز میں دھنسا ہوا تھا ،پھر میں گاڑی میں بیٹھا اور کھیتوں میں گاڑی کھسا دی ،،مکئی کے کھیتوں میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا اس لیے میں نے گاڑی جتنی ریورس کر سکتا تھاکی اور ذرا لمبا چکر کاٹ کر پھر سولنگ لگی سڑک کی طرف آگیا،جوسلین میری طرف زبردست حیرانگی سے دیکھے جا رہی تھی،،کیا بات ہے ،میں نے اس سے پوچھا،،تو یہ سیکھا ہے تم نے کوان لی سے،وہ ابھی تک حیران تھی،،،ہاں تم کہہ سکتی ہو،،کہہ سکتی ہو کا کیا مطلب ہے،،آٹھ ہتھیار بند آدمی اور تمھارے پاس کچھ نہیں تھا،،لیکن وہ سب تمھارا کچھ نہ بگاڑ سکے،،ہاں یہ کنگفو کا اسٹائل پاکوا تھا،،اس میں آٹھ سمتوں کا دھیان رکھا جا تا ہے،،لیکن کوئی آدمی یہ کیسے کر سکتا ہے،،اتنی تیزی تو انسانی جسم سے ممکن ہی نہیں،جوسلین کا سوال جائز تھا،،مارشل آرٹ میں رفتار ہی تو سب کچھ ہے،،جو جتنا تیز ہے وہ اتنا ہی بڑا ماسٹر ہے،،تو کیا تم کوئی ماسٹر ہو،،جوسلین کے چہرے سے حیرانگی نہیں جا رہی تھی،میرے عظیم ترین استاد زونگ ینگ کوان لی کا یہ کمال ہے میں تو کچھ بھی نہیں ہوں،،میں سمجھتی تھی کہ اب تک ایسا فلموں میں ہوتا آیا ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے،،ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے ،لیکن اگر مارشل آرٹ کی اساطیری داستانیں پڑھیں تو حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے ،کہ یہ حقیقت تھا،،لیکن جس طرح بہت سے فنون جدت کی نظر ہو گئے ہیں،اسی طرح جدید آتشی ہتھیاروں کے سامنے یہ فن بھی مٹ رہے ہیں،کیونکہ برسوں کی تپسیا سے ایک ماسٹر بننے والا شخص کسی اسٹریٹ فائٹر کی ایک گولی سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے،،تب اس فن کی طرف کون دھیان دے گا،دوسرا اس فن کو غلط استعمال کرنے والے بھی تھے اسلیے استاد حضرات اہل لوگوں کے حوالے اپنا فن کرتے تھے،اور فی زمانہ آپا دھاپی کے دور میں کسی انسان کے حوالے ایسا خطرناک فن سونپ جانا کہ وہ قاتل مشین بن جائے اور کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے بڑا خطرناک ہے،،اس لیے اس لیے کوان لی کے پائے کے استاد اپنے ساتھ ہی اپنا فن لے جانے لگے،،اب تو بس باقیات ہی رہ گئی ہیں،اس لیے ماسٹرز اب وہ نہیں رہے نہ وہ حقیقتیں رہیں،اچھا تو اب سمجھی کہ کوان لی کسی کو اپنا شاگرد کیوں نہیں بناتا تھا،،ہاں وہ کسی کی تلاش میں تھا جسے اپنی وراثت دے کر جا سکے،اور اس نے اپنی وراثت کیلیےتمھیں چن لیے،،آخر اس نے تم میں ایساکیا دیکھا کہ وہ راضی ہوگیا تھا،،میں یہ بات سمجھ نہیں سکی،،میرے خیال میں وہ گوشہ نشیں شخص ہے اور اسے دولت کی کوئی پرواہ نہیں ہے،،اب یہ تو تم ہی بتاؤ گی کہ اس نے مجھ میں کیا دیکھا ،کیونکہ تم بھی میری استاد ہو،،میں تمھاری استاد تھی،،اب تو لگ رہا ہے کہ میں کوئی نادان بچی ہوں،،پتہ نہیں کوان لی نے تمھیں کیا بنا دیا ہے،،تم ہر جگہ آگے ہو جبکہ یہ ایک لڑنے بھڑنے کا فن ہے اور بس،،میں ہنسنے لگا،،یہ بات تم نہیں سمجھو گی،،کہ جب ایسے فن میں انتہا تک پہنچا جائے تو اس سے اختیار حاصل ہوجاتا ہے،،اور پھر وہ شخص اپنا اختیار کو جہاں چاہے استعمال کر لے،،ویسے کیا تم ان لوگوں کو جانتی ہو،،نہی میں نہیں جانتی،،میں نے دھیان لگایا تو اک شبیہ ابھری،،لیکن کوان لی کی آوز پھر ابھری،،ایسا مت کرو میرے بچے،اسے نہ بتانا ،اس طرح تم اس کے سامنے اپنا آپ ظاہر کر رہے ہو،،ویسے میں جاتے ہی آئی جی سے ملنے کا ارداہ رکھتی ہوں،اس دوران وہ اپنی جاگیر میں بھی دوبارہ بات کر چکی تھی اور تفصیلات بتا کر وہاں پڑے لوگوں سے اصل مجرم کےمعلوم کرنے کا کہہ چکی تھی،یہ لوگ چھپے نہیں رہیں گے،،جوسلین کی آواز مجھے خیالوں سے کھینچ لائی،لیکن مجھے اب کوئی ڈر بھی نہیں ہے میرے ساتھ میرا سپر مین ہے،جوسلین کافی مضبوط اعصاب کی تھی نہیں تو اتنی جلدی نہ سنبھلتی،،ہم باتیں کرتے رہے اور فلیٹ تک کے راستےکا پتہ ہی نہیں چلا،،اگلے دن یونیورسٹی گئے تو غزل کے شکوے شکائتیں شروع ہو گئی لیکن میں نے اسے رام کر لیا،میرا خیال تھا کہ جوسلین اب غزل سے کنارہ کر لگی۔۔لیکن یہ میری خام خیالی تھی،،جوسلین نے بس اپنا انداز بدلا تھا ،میں نے اس چک چک سے جان چھڑانا چاہتا تھا،،مجھے اس کیلیے یہی مناسب لگا کہ میں یونیورسٹی چھوڑ دوں،لیکن اصل بات یہ تھی کہ غزل بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی،،وہ اتنا آگے بڑھ گئی تھی کہ اس کیلیے واپسی ممکن نہیں تھی،حالانکہ میں نے اپنے بارے میں کھل کے سب کچھ بتا دیا کہ میں کیا ہوں خاص کر میں نے اس کے سامنے اپنا سیکسی روپ بھی کھول دیا تھا کہ مجھے چودائی میں دلچسپی ہے،جوسلین ،نگیہ،سحرش،شازیہ،رافیہ ،نازیہ ،سعدیہ،اسے سب کا پتہ تھا،،لیکن غالب نے سچ کہا ہے ،،
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے،
غزل کی حالت دیکھتے ہوئے میں نے یونیورسٹی چھوڑ دی ،،پرنس تم اب یونیورسٹی کیوں نہیں آرہے،جوسلین نے تین دن بعد مجھ سے پوچھا،،میں نے یونیورسٹی چھوڑ دی ہے۔۔کیا یہ تمھارا فائنل ائیر ہے اور ابھی تم نے پی ایچ ڈی بھی کرنی ہے،،،کیا اپنی بات ہی بھول گئے ،تم ماسٹر سے اگلے درجے تک جانا چاہتے تھے، اب میرا پڑھنے کو دل نہیں کرتا،،اسلیے میں آگے نہیں پڑھوں گا،،میں نے جوسلین کو صاف جواب دے دیا،جوسلین خاموشی سے میری طرف دیکھنے لگی،،دیکھو میں نےتمھیں بنایا ہے اور میں اپنے شاہکار کو مکمل دیکھنا چاہتی ہوں،،میں خاموشی سے لائبریری گیا اور وہاں سے ایک فائل لا کر جوسلین کو پکڑا دی،،کیا ہے یہ،،جوسلین نے فائل کھولتے ہوئے پوچھا،،یہ میں نے نفسیات پر ایک مقالہ لکھا ہے اس میں سیکس اورایک فرد کی انسانی نفسیات اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کی نفسیات تینوں کو موضو ع بنایا گیا ہے،تم یہ دیکھ لینا ،مجھے نہیں لگتا کہ مجھے آگے پڑھنے میں وقت ضائع کرنا چاہیے،،لوگ ڈگریوں کو دیکھتے ہیں،لیکن ایک کلاس میں زیادہ سے زیادہ آٹھ کتابیں ہوتی ہیں،،اگر ہم ون کو بھی اور ایم اے کو بھی آٹھ آٹھ مضمون دےدیں تو یہ16 ضرب 8 ہوا 126 ،،یعنی 126 کتابیں پڑھنے والا عالم فاضل ہے اور جس کے پاس اپنی لائبریری میں1000 یا 10000 کتابیں ہیں جو ا سنے پڑھی ہیں تو وہ اس ڈگری کے سامنے کچھ بھی نہیں،کیونکہ اس کے پاس ڈگری نہیں ہے،ایسی ڈگری جس کے سلیبس کا کوئی معیار نہیں ہے،،،مجھے یہ دوغلا معیار اچھا نہیں لگا،اب میں نے پڑھنا ہے اپنے لیے،،آج سے میں یونیورسٹی کے کنویں سے نکل کر اپنے آپ کو لائبریریوں کے سمندر کے حوالے کر دیا ہے،ہاں پروفیشنل ایجوکیشن میں کچھ مزہ ہے اس سے کچھ علوم میں مہارت حاصل ہوجاتی ہے لیکن مجھے کون سا روزگار کمانا ہے ،تم ہو نہ،جوسلین میری طرف آنکھیں پھاڑیں دیکھ رہی تھی،کچھ لمحیں چپ رہنے کے بعد جوسلین نے ٹھنڈا سانس بھرا جیسے میرے استدلال کے سامنے اس کو کوئی جواب نہ ملا ہو،پھر بھی پرنس زندگی میں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پرتا ہے،کوئی مصروفیت تو پالنی چاہیے ،اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہیے،،اگر تم محسوس کرتے ہو کہ تم کسی بھی پروفیشنل میں بہترین ہو تو اسے دنیا کے سامنے لاؤ، کیوں نہ تم بین الاقوامی طرز پر مارشل آرٹ کا کلب کھول لو،،،یہ ممکن نہیں ہے جوسلین،،اگر زندگی میں کوئی اہل مل گیا تو اسے اپنی وراثت دے جاؤں گا، نہیں تو کوئی شاگرد کبھی نہیں بناؤں گا، اور کیونکہ تم صحیح کہتی ہو کہ کسی شعبے میں اپنی صلاحیتیں دنیا کے سامنے لانی چاہیے تا کہ جو آپ کہ پاس ہے اس سے دنیا مستفید ہو سکے ،یہ بھی ایک امانت ہے جو حقدار کے پاس پہنچا دینی چاہیے،،اسلیے میں نے اپنے لیے ایک کام چن لیا ہے،اور وہ ہے ،لکھنا،،میں سمجھتا ہوں مجھے لکھنے کی طرف جانا چاہیے،کیا لکھوں گے ناولز،کہانیاں،جوسلین نے بےاختیار پوچھا ،،دیکھوں گا ابھی میں آرٹیکلز کی طرف مائل ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ کچھ سنجیدہ لکھوں،، اگر ناولز وغیرہ کی طرف آیا تو زندگی برائے ادب ہی لکھوں گا، کیونکہ مجھے ادب برائے ادب کی بجائے زندگی برائے ادب اچھا لگتا ہےاور کوئی بامقصد ادب تخلیق کروں گا ،تو پھر تم اردو - ادب میں کیوں نہیں کلاسیں لے لیتے ،مجھے یقین ہے ،کم وقت ہونے کے باوجود تم اس میں اچھی پوزیشن لے لو گے،ہاں وہ ماسٹر کورس کی چند کتابیں میں پڑھ چکاہوں تم چاہو تو میرا ٹیسٹ لے لو،،اس سے کسی نے ادیب تو کیا بننا ڈھنگ سے منشی بھی نہیں بن سکتا،بہر حال تمھارا اصرار ہےتو جب فائنل کے ایگزام ہوں تو میں پیپرز دے دوں گا،جس میں تم کہو گی،پرنس مجھے بہت خوشی ہوگی کہ اگر تم لکھنے کی طرف آؤ ،کیونکہ اوردو ادب پر بھی تمھیں میں نے ہی لگایا ہے اور میں محسوس کر رہی ہوں کہ میرا لگایا ہوا پودا آج تناور درخت بن گیا ہے ،تم نے میری لائبریری دیکھی اس میں تقریباً 10000 کتابیں تو ہوں گی،کسی بھی موضوع پر پوری پوری کولیکشن پڑی ہے،کئی علوم میں مجھے مہارت بھی ہے،،،،اور مجھے لکھنےکا شوق تھا، لیکن میں پھر بھی کچھ لکھ نہ سکی،کیونکہ یہ ایک قدرتی صلاحیت ہے ،او ر اگر تم محسوس کرتے ہو کہ یہ صلاحیت تم میں موجود ہے تو تم لکھو ،،مجھے بہت خوشی ہو گی،،بلکہ میں ہر طرح سے ہمیشہ کی طرح تمھارے ساتھ ہوں۔جوسلین کو اطمینان ہوگیا اور میں تو اپنے راستے پہلے ہی چن چکا تھا، میں اب کنویں کا مینڈک بننے کی بجائے سمندر میں چھلانگ لگانے کا اراد کر چکا تھا،غزل مجھے کالز کرتی رہتی ،لیکن میں نے جواب دینا ہی چھوڑ دیا،مگر اس کے میسجز آتے رہے،،جن سے مجھے پتہ چلا کہ ا سنے وہ یونیورسٹی چھوڑ دی اور کہیں اور داخلہ لے لیا تھا،مجھے پتہ تھا وعدے کے باوجود جوسلین غزل کا کبھی بھی پیچھا نہیں چھوڑے گی، یونیورسٹی چھوڑ کر غزل نے اچھا کیا تھا، غزل کی طرف سے میں بہت پریشان تھا ،اس نے یکطرفہ محبت میں قدم رکھ دیا تھا،،اور محبت اگر یکطرفہ ہو تو عذاب بن جاتی ہے،،میں اس کی طرف اس کے بے مثل حسن کی وجہ سے بڑھا تھا لیکن اس کی معصومیت دیکھ کر اس سے دوستی کر لی ،مخلص دوستی،،اور اب وہی دوستی گلے کا پھندا بنتی جا رہی تھی،غزل مجھ سے ملنا چاہتی تھی،اس کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا ،،مجبوراً مجھے اس سے ملنا پڑا جب وہ فلیٹ پر آگئی،اس وقت جوسلین یونیورسٹی گئی ہوئی تھی،اگر جوسلین کو پتہ چل جاتا کہ غزل اسی کے فلیٹ میں مجھے ملنے ہی آگئی تھی تو اس پر تو قیامت ٹوٹ پڑنی تھی،،اور اسنے غزل کا بھی حشر نشر کردینا تھا،،لیکن غزل نے مجھ سے ملنے کیلیے بہترین ٹائمنگ چنی تھی۔میں اس وقت ناشتہ کر رہا تھا اور سامنے لگےٹی وی پر نیوز چینل لگا ہوا تھا،ناشتہ کرو گی،،نہیں میں ناشتہ کر کے آئی ہوں،،تو پھر کافی پی لو،،ہاں کافی پی لوں گی،تو پھر اچھی بچی بن جاؤ اور اپنے اور میرے لیے کافی بنا لاؤ۔اتنے میں ناشتہ ختم ہوجائے گا،غزل چپ چاپ کچن میں کافی بنانے چلی گئی۔ناشتہ ختم ہوا تو ہم کافی پینے لگے،،غزل خاموش تھی اور یہ گھنبیر خاموشی مجھے بتا رہی تھی،کہ ضرور کچھ خاص بات ہے،،پرنس میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں،،کیا کہنا چاہتی ہو تم،،جوسلین جو دِکھتی ہے وہ ویسی نہیں ہے،،میں گہری نظروں سے غزل کو دیکھنے لگا،،جس گفتگو سے میں بچنا چاہتا تھا،آج وہی شروع ہو گئی تھی،پہلی بار غزل نے جوسلین کے خلاف بات کی تھی،پرنس میری طرف ایسے مت دیکھو،میں اسلیے تمھارے پاس نہیں آئی ہوں کہ تمھیں جوسلین سے برگشتہ کر اپنی طرف مائل کر لوں،،میں تم سے محبت کرتی ہوں اور بے پناہ محبت کرتی ہوں،،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں تم پر قبضہ کرنا چاہتی ہوں،تمھاری محبت میرے جسم جاں میں کھل مل گئی ہے اب تمھاری محبت اور میری جان ایک ہی بات ہے،،تم نے مجھے اس محبت سے ہٹانے کیلیے بڑا کچھ کیا،خود کو برا بھی ثابت کیا جبکہ لوگ خود کو اچھا ثابت کرتے ہیں،،لیکن میں کیا کرتی،تمھاری محبت میں تو میں اسی وقت گرفتار ہوگئی تھی جب تمھیں پہلی بار دیکھا تھا،اسی وقت میں تمھاری تیرِنظر کی گھائل ہوگئی تھی،تم اگر باتوں کی گہرائی تک جاتے ہو،ہر چیز کی الگ الگ تقسیم کر کہ اس کی پہچان کرتے ہو تو میں بھی تمھیں بتانا چاہتی ہوں،کہ تم میری پسند نہیں ہو،نہ یہ سیکس ہے ،کیونکہ میں تم سے کبھی سیکس نہیں کروں گی اور شادی سے میں نے تمھیں خود آزاد کررہی ہوں ،نہ تم میری تمنا ہو نہ آرزو ہو، نہ خواہش ہوکہ میں تمھیں اپنی زندگی میں کسی چیز کی طرح حاصل کرنا چاہوں،،نہ یہ دل لگی ہے،،یہ عشق بھی نہیں ہے کہ میں حواس ہی کھو بیٹھوں،،یہ ہے محبت ،جیسے چاہے اسے پرکھ لو،،اگر ا پنے لفظوں میں کھوٹی نکلوں تو میرا خون تم پر حلال ہو گا،(اظہار کی ادائیگی میں کمال کردیا)لیکن میرا تم سے محبت کرنے کا حق تم مجھ سے چھین نہیں سکتے،اور میں ہر سانس کے ساتھ تمھارے نام کی مالا جپتی رہوں گی(عزمِ صمیم تھا اس کا چہرہ)،اب ایسا بھی نہیں کے مجھے وصال کی چاہت ہی نہیں ہے اور میں کوئی آفاقی محبت کر رہی ہوں (شرم سے گلنار اور سر جھکا ہوا)، لیکن یہ شاید میری قسمت میں ہی نہیں ہے اور میں خدا کی رضا پر راضی ہوں،(انتہائی پرسکون تھا اس کا چہرہ ) یہ میری نسوانیت کے خلاف ہے کہ میں تم سے اظہارِ محبت کروں ،لیکن بہت سوچ کر میں یہ اس لیے کہہ رہی ہوں کہ تم مجھ سے نہ بھاگو،میری طرف سے تم آزاد ہو تمھیں اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے،(واقعی وہ میری محبت میں راضی ہو چکی تھی،اس نے محبت کی معراج پا لی تھی)لیکن اگر مجھ سے دوستی رکھو تو مجھے خوشی ہوگی کہ تم نے مجھے اس قابل سمجھا،اب تم کہو تو میں جوسلین کے بارے میں کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں،غزل نے آج وہ سب کہہ دیا جو وہ مجھ سے سننا چاہتی تھی،سچی بات ہے میں گم سم تھا،،ٹھیک ہے غزل تم جوسلین کے بارے میں جو کہنا چاہتی ہو،کہو ،میں غور سے سنوں گا،پرنس نگینہ نے تمھارے ساتھ زبردستی کی تھی،،اور تمھیں ایسے رستے پر لگا دیا تھا ،جس سے شاید واپسی ممکن نہیں تھی،،یا اس نے جو گھاؤ لگایا تھا اس کا بھرنا ممکن نہیں تھا،،اسلیے تم نے اس سے اسی وقت اپنی عقل کے مطاق بدلہ لینا چاہا اور نہ لے سکے،،بالکل ا سی طرح ہی جوسلین ہے ،اس کے انداز میں فرق ہے ،اس نے تمھاری فطرت دیکھ کر مزاج سمجھ کر تمھیں ایسی کہانی ڈالی جس سے تم بچ نہ پائے،وہ سمجھ گئی تھی کہ تمھاری کشش کی وجہ سے کوئی تمھارے ساتھ زبردستی سیکس کروا چکا ہے اس لیے اس نے میٹھا بن کے حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا،جب اس نے کہا کہ وہ تمھیں تمھاری مرضی سے حاصل کرنا چاہتی ہے ،تو یہ ایک شطرنج کی چال تھی جس کو تم سمجھ نہ سکے اور اس کے ساتھ رہنے لگے،،اگر تم نہ کہتے تو اس نے کئی طریقے اور استعمال کرنے تھے،،لیکن اس کا پہلا وار ہی اتنا خطرناک تھا کہ کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا تھا،،رکو رکو رکو،،غزل تمھارا مطلب ہے کہ جب اس نے کہا کہ وہ مجھے میری مرضی سے حاصل کرنا چاہتی ہے تو وہ حقیقت میں مجھے دانہ ڈال رہی تھی اور میری نظر دانے پر تھی اس کے پیچھے جو پھندا تھا میں اسے دیکھ نہ سکا،،ہاں میں یہی کہنا چاہتی ہوں۔مجھے ایکدم چپ لگ گئی اور پھر جوسلین کے احسانات یاد آنے لگے،،نہیں غزل ایسا نہیں ہوسکتا ،اس نے مجھے چاہا ہے اور میرا ہاتھ اس وقت پکڑا تھا جب میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا،اس نے میرے لیے سب کچھ چھوڑ دیا،یہ بھی تمھاری خام خیالی ہے پرنس،،اس نے کبھی بھی تمھارے لیے کچھ نہیں چھوڑا ،،وہ پہلے کی طرح مردوں سے دوستیاں کرتی رہتی ہے اور بھی کافی کچھ کرتی ہے،تم سمجھتے ہو کہ وہ تمھارے ساتھ ہر پل رہتی تھی تو یونیورسٹی کے وقت یا جب وہ بازار جاتی تھی،یا اپنی کولیگ کے پاس ،یا کسی اور کام کے بہانے،اس کی جاگیر اور آخر وہ ایک مشہور پروفیسر تھی اس کی کافی مصروفیات تھی ،بس یہ تمھیں سمجھایا گیا تھا ،اور تم نے مان لیا کیونکہ اسنے تمھاری آنکھوں اپنی مکاری سے پٹی باندھ دی تھی،اعتماد اور محبت کی پٹی۔دوستی کی پٹی،دیکھو پرنس تم جو کہتے ہو کہ اس نے تم پر احسانات کیے درحقیقت وہ اس نے تمھاری قیمت بھری تھی۔۔قسطوں میں ۔۔میں یہ نہیں چاہتی کہ تم اس سے برگشتہ ہو کرمیری طرف آجاؤ ،لیکن میں یہ ضرور چاہتی ہوں کہ تم اس کی ذہنی غلامی سے آزاد ہو جاؤ،غزل نے اعتماد سے کہا۔چودائی کی زبان میں غزل کہہ رہی تھی کہ آنٹی (جوسلین)نے گھر میں بچہ رکھا ہوا ہے جس کی قیمت بس کچھ زیادہ تھی،،،ٹھیک ہے غزل تم نے مجھے بہت کچھ بتایا ہے،اب تم ایسا کرو مجھے تنہا چھوڑ دو،،ہم پھر ضرور ملیں گے،،میں نے پژمردگی سے کہا۔غزل میری کیفیت سمجھ چکی تھی کہ میں اس وقت تنہائی چاہتا ہوں،،اسلیے وہ چپ چاپ اٹھ کے چلی گئی،وہ جاتے جاتے رکی۔واپس مڑی ۔میرے پاس آئی۔جھک کے میرا ماتھا چوما ۔ اور کہا اپنا خیال رکھنا۔۔پھر وہ چلی گئی۔اگر وہ کوان لی کے ملنے سے پہلے مجھ سے یہ سب باتیں کہتی تو آج اتنی آسانی سے یہاں سے جا نہیں سکتی تھی،اور نہیں تو کم از کم اس کی ریکارڈ بےعزتی ہونی تھی،لیکن میرے عظیم استاد کی بدولت میں جوسلین کے سحر سے آزاد ہوچکا تھا،اور یہ بات جوسلین بھی محسوس کر چکی تھی،میں تو بس جوسلین کے احسانات تلے دبا اس کی پرستش کرر ہا تھا،میں وہیں صوفے پر لیٹ گیا،اور سوچنے لگا اگر جوسلین بھی ایسی نکلی تو میں تو دنیا میں تنہا رہ جاؤں گا،بالکل تم تنہا ہی تو ہو الّوکے پٹھے ،کیونکہ تمھار اباپ تو مر گیا ہے نہ،کوان لی کی آواز میرے دل میں آئی،،آپ پٹھہ مجھے کہہ رہے ہیں تو الّو کسے کہہ رہے ہیں،،خود کو الو کہہ رہاہ ہوں ،کیونکہ مجھے تم جیسا نالائق شاگرد ملا،جو ایک عورت کی وجہ سے رونے لگ گیاہے،کوان لی شگفتگی سے بات کرتے ہوئے طنز بھی کرتا گیا،،اس سے اتنا ہوا کہ میرے اندر اترتے اندھیرے چھٹنے لگے اور میں پھر سے وہی بن گیا، یعنی عظیم کوان لی کا نالائق شاگرد۔پھر کوان لی کی آوز نہ آئی،غزل نے جو کچھ بتایا تھا اگر وہ سچ تھا تو جوسلین تو بہت بڑی مکار تھی،عورت کی تریا چلتر میں آخری چوٹی پر نظر آئی،غزل کو نہیں پتہ تھا کہ مجھے جوسلین کو جاننے کیلیے اس کا پیچھا کرنے کی ضرورت نہیں ہے،مجھے صرف آنکھیں بند کرکے دھیان لگانا تھا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانا تھا،لیکن میں اس کیلیے اپنے اندر ہمت نہیں کر پا رہا تھا،میں ڈر رہا تھا کہ اگر جوسلین دغاباز نکلی تو کیا کروں گا،،کیا اس سے بھی بدلہ لوں گا،جو بھی تھا میں آج جو بھی ہوں جوسلین کی وجہ سے ہوں۔ان دنوں میں بکھرا بکھرا سا تھا انگلش میں کہوں تو ڈبل مائنڈڈ تھاحقیقت جاننے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی،جوسلین ان دنوں میری حالت دیکھ رہی تھی ،پرنس امریکہ میں رائیٹنگ پر ایک اونچے درجے کی ورکشاپ ہو رہی ہے،چوٹی کے لکھاریاس ورکشاپ کے انسٹرکٹر ہیں،میں چاہتی ہوں تم اس میں شامل ہوجاؤ،اگر تم نے لکھنا ہے تو یہ ورکشاپ میں شامل نہ ہونا بڑی بدقسمتی ہوگی،نہیں جوسلین میرا ابھی کسی چیز کو دل نہیں چاہ رہا،نہیں تم جاؤ،پلیز میری بات مان لو،تم نے مجھے کہا تھا کہ میں تمھیں بناؤں اور میں تمھاری تکمیل دیکھنا چاہتی ہوں،تم واپس آؤ اور ماسٹرز کے پیپرز دو اور پھر ادب میں پی ایچ ڈی کیلیےآکسفورڈ یونیورسٹی میں میں تمھیں خود لے کہ جاؤں گی،،ساتھ ساتھ دنیا بھر میں رائٹنگ پر ہونے والی ورکشاپ میں حصہ لو یا رائیٹنگ پر کسی انسٹیٹیوٹ میں چلے جاؤ دنیا میں بڑے کمال کے لکھنے والے ہیں،اور وہ یہ سکھانے کو بھی تیار ہیں،پاکستان میں اس قسم کے کاموں کیلیے کوئی انسٹیٹیوٹ نہیں ہیں۔جبکہ امریکہ اور یورپ میں باقاعدہ کالج اور یونیورسٹیز ہیں ان شعبوں پر،،جوسلین پاکستان میں بہت اچھا لکھنے والے ہیں،جو دلوں کو چھو لیتا ہے،یہاں باقاعدہ انسٹیٹیوٹ نہ صحیح لیکن ہنر کمال کا ہے اور وہ یہ فن اہل آدمی کو دے بھی دیں گے،ٹھیک ہے تم یہاں کسی کی شاگردی کرنا چاہو تو وہ بھی ہوسکتا ہے لیکن اس ورکشاپ ضرور میں حصہ لو،اوکے جوسلین میں سوچوں گا،سوچنے کا وقت نہیں ہے،میں تمھارے ڈاکومنٹ تیارکرو رہی ہوں ،وہ یونیورسٹی چلی جاتی تو مجھے سوچیں گھیر لیتی،یا مجھےغصہ آنے لگتا،اسی ادھیڑ بن میں ایک چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا،میں نے گاڑی نکالی اور اس کے کوچنگ سنٹر پہنچ گیا،وہ ابھی بھی وہیں تھی ،بلکہ اب تو اس کوچنگ سنٹر کی مالک تھی،مجھے دیکھ کر حیران ہو گئی،کیا مما سے پوچھ کرآئے ہو،اسنے طنز کیا۔جس سے تمھار ی جان نکلتی تھی،میں نے بھی جوابی طنز کیا،آج تمھیں کیسے یاد آگئی،اس نے پھر طنز کیا،تم ایسی تو نہیں ہو کہ جس کی یاد دل سے آسانی سے چلی جائے،اچھا اسوقت تو بچے کو اتنی باتیں نہیں آتی تھیں،وہ مسلسل طنزیہ باتیں کر رہی تھی،بچے نے تو بڑی کوشش کی تھی تم نے کبھی کوئی اشارہ ہی نہیں دیا،میں اسے رام کر رہا تھا،،بچہ اسوقت بچہ ہی تھا ،کیا اسے کسی اشارے کی ضرورت تھی،اس نے پھر طنز کیا،بکواس بند کرو اس وقت تمھاری جوسلین کے ڈر سے ہوا نکلی ہوئی تھی اور اب سارا غصہ مجھ پر نکال رہی ہو،،مجھے غصہ آگیا،اب کیا لینے آئے ہو،اس نے موضوع بدل دیا، بچہ بڑا ہوگیاہے،،تو پھر میں کیاکروں ،اس نے بے اعتنائی برتی۔۔۔۔چلو میرے ساتھ میں نے اعتماد سے کہا،وہ مجھے گہری نظروں سے دیکھنے لگی۔۔ میں چل پڑا اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ،گاڑی میں بیٹھا تو وہ دوسرا دروازہ کھول کہ میرے ساتھ بیٹھ گئی،بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے وہ گنگنائی۔۔مدّت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے میں نے جوابی مصرعہ پڑھا۔اس کے چہرے پر شفق کے رنگ بکھرنے لگے،،وہ میری ٹیوشن ٹیچر تھی،میں اس کے پاس چار سال پڑھا تھا،اور ان چار سالوں میں اسے پھنسانے کی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی،وہ مجھے چاہتی تھی،لیکن جوسلین کے ڈر کی وجہ سے ہمارا کچھ نہ ہوسکا۔اس کا نام ثمینہ تھا ،اُس وقت وہ 26 سال کی تھی اور میں پندرہ سال کا تھا آج وہ تقریباً 32کی ہو گئی تھی،اس وقت اس کی جوانی اٹھتی ہوئی لہریں تھی ،اب وہ پرانی شراب کی طرح ہوچکی تھی۔جس کا مزہ وقت کے ساتھ بڑھ جاتا ہے۔ درمیانہ قد سانولی رنگت لیکن جسم تباہی تھا اس کے جسم کی بھینی بھینی خوشبو نے مجھے چار سال ستایا تھا ،اس کے چہرہ تھوڑا لمبوترا تھا لیکن نقش اس کے بھلے بھلے سے تھے،جسم نہ اسمارٹ تھا نہ دبلا پتلا نہ موٹاپا ،جب چلتی تو اس کے جسم کی اتھل پتھل سے بڑے لوگوں کے دل مچلتے ہوں گے،ثمینہ کی آنکھیں بڑی بڑی اور ماتھا چوڑا تھا ۔اور جسم کے اعضاء سیکسی تھے ،،اپنے شعبے میں چلنے کیلیے ا وہ ایک بڑی سی چادر لیتی تھی،لیکن واقفانِ حال جانتے تھے کہ اندر کیا خزانہ چھپا ہوا ہے ،ہم ایک دوسرے میں گم تھے۔اسے ہوش تب آیا جب فلیٹ آگیا،یہاں کیوں آئے،،اس نے اچھنبے سے پوچھا۔۔تمھیں کہا نہ بچہ بڑا ہو گیا ہے،میں نے اترکر اس کی طرف کا دروازہ کھولا اور اسے فلیٹ میں لے آیا،وہ کچھ شاکنگ تھی اسے یہاں آنے کی قطعی امید نہیں تھی،میں بھی اسے اسی بیڈ پر لے گیا جس بیڈ پر میں اور جوسلین سیکس کرتے تھے،وہ میرا ارادہ سمجھ گئی،بچہ واقعی بڑا ہوگیاہے اسنے مسکرا کے کہا،اور میرے گلے لگ گئی،اور بے صبری کے ساتھ ہونٹوں کیساتھ ہونٹ جوڑ دیے،مجھے بھی اس کے ہونٹوں کو چوسنےکا بہت شوق تھا۔ چار سال وہ میرے سامنے بیٹھی رہی تھی اور اس کے رسیلے ہونٹ مجھےتڑپاتے رہے تھے۔کئی بار میں نے مختصر لمحوں کیلیے ا سکے ہونٹوں سے رس پینے کی کوشش کی تھی،لیکن وہ ایسے بیٹھی رہتی تھی۔جیسے وہ پتھر ہے۔اور آج اس کے اشتیاق نے بتادیا کہ آگ دونوں طرف ہے برابر لگی ہوئی۔میرے ہاتھ اسکی کمر پر کوہ پیمائی کر رہے تھے،پھر مشکل حصوں میں چلے گئے،یعنی اس کی گانڈ کو چھونے لگے۔میں نے اس کی گانڈ جوش میں آگے دبائی ،آگے میرا عضو تھا وہ اسے مست کرنے لگا۔ادھر ہونٹوں نے اس پر قیامت مچائی ہوئی تھی،ظالم اس وقت زبردستی چود بھی دیتے تو اُف بھی نہ کرتی،ثمینہ نے ہونٹ پیچھے کر کے کہا اور پھر لپٹ گئی،مجھے اندازہ تھا اسے میری کشش نے مجھے بھولنے نہیں دیا

ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن قسط 13 "