ثمینہ نے ہونٹ پیچھے کر کے کہا اور پھر لپٹ گئی،مجھے اندازہ تھا اسے میری کشش نے مجھے بھولنے نہیں دیا۔کبھی نچلے ہونٹ اور کبھی اوپری ہونٹ پھر اس کی زبان چوستے ہوئے ہم نے پرجوش کسنگ جاری رکھی۔ایک ہاتھ اس کی گانڈ پر اور دوسرا میں نے اس کے مموں پر رکھ دیا،ممے ،ہونٹ گانڈ،اور چوت پر لگتا ہوا میرا عضو اسے کہیں چین نہیں لینے دے رہا تھا،ثمینہ کی آگ ایسے بھڑکی جیسے آگ پر پٹرول ڈال دیاہو۔وہ علیحدہ ہوئی اور بے چینی سے اپنے کپڑے اتارنے لگی۔اس کی حالت دیکھ کر میں مسکرایا او ر ادھر وہ ننگی ہوئی تو ادھر میں بھی ننگا ہوگیا۔اس بار وہ مجھ سے ایسے لپٹی جیسے مقناطیس سے لوہے کا ٹکڑا لپٹتا ہے۔جسم سے جسم لگےتو ہماری آگ اور بھڑک اٹھی،اب میں نے عضو اس کی ٹانگوں میں گھسا دیا اور گانڈ پر ہاتھ رکھ کہ اسے دبایا اور ممے سہلاتےہوئے پھر اس کا چہرہ چومنے لگا،کسنگ کرنے لگا،گویا جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا ۔وہیں سے جوڑ دیا۔کبھی کبھار ایسی حالت ہوجاتی ہےکہ سمجھ نہیں آتا کہ کیاکریں،بس دل کرتا ہے ایکدوسرے میں سما جائیں،یہ چودائی کی بھرپور خواہش ہوتی ہے۔ثمینہ اورمجھ میں چودائی کی بھرپور خواہش بڑے عرصے سے موجود تھی،اور آج اس خواہش کو اپنی حسرتیں نکالنے کا موقع ملا تھا تو ہمارا بس نہیں چل رہا تھا ہم ہونٹوں کی لذت میں ڈوبے ایکدوسرے کو پی جانا چاہتے تھے یا ایکدوسرے میں سما جانا چاہتے تھے۔ثمینہ مجھ سے ایسے لپٹی ہوئی تھی۔جیسے آکٹوپس اپنے شکار سے لپٹتا ہے،اس کی ایک بازو میری گردن سے لپٹا تھا۔دوسرا کمر سے لپٹا تھا،ایک ٹانگ اٹھ کر میرے پہلو سے لگی تھی،ثمینہ نے مجھے جکڑا ہوا تھا،ایک ٹانگ اٹھانے کی وجہ سے میرے عضو اور اس کی چوت کا ملاپ ہو گیا تھا،میں نے ایسے لپٹے ہوئے اس کی چوت پر رکھا اور آگے دھکیلا،عضو اندر جانے لگا،ثمینہ نے مجھے کس کے پکڑ لیا،میں اندر ڈالتے ہوئے زور لگایا اور پورا اندر چلا گیا۔وہیں میں اندر باہر کرنے لگا۔ثمینہ سسکیاں لینے لگی،اس طرح اندر باہر کرنے میں مزہ آرہا تھا۔آہستہ آہستہ میں زورلگانے لگا۔ہم ایکدوسرے کے سہارے کھڑے تھے ۔اور چمٹے ہوئےتھے۔میرے ہاتھوں نے اسے پہلوؤوں سے پکڑا ہوا تھا،چودائی کے وقت یہاں سے پکڑنا پورے جسم کوکٹرول کرتاہے۔ثمینہ چودائی کی لہروںمیں بہہ چکی تھی اور اب یہ لہریں اسے ڈبونے والی تھی۔ جب تک ڈوبا نہ جائےتب تک گہرائی کا انداز ہ نہیں ہوتا۔اور میں اندر باہر کر ے اس کی چوت کی گہرائی کا ا ندازہ کررہا تھا تو وہ عضو کے ساتھ ڈوب رہی تھی۔ جیسے ہر جھٹکا اسے گہرائی میں لے جا رہا ہو۔اُوووہ صحیح پاگل ہے جوسلین تمھارے لیے۔ثمینہ بےاختیار بولی۔پتہ نہیں کیا چیز ہو تم۔ابھی بتاتاہوں کیا چیز ہوں میں،میں نے جوش میں اور تیز ہوتے ہوئے کہا۔ویسے یار یہ انسان میں کوئی گئیر وغیرہ نہیں لگےہوتے کہ وہ بار بار گئر بدل کرتیز ہوجاتا ہے اور چوتھے یا پانچویں گئیر میں رکھ کے پھر چل سوچل۔یہ تو جوش میں ہوتا ہے اور جوش یا دیوانگی جسم کو تیزی پر مجبورکرتی ہے،ایسی تیزی عام طور پر دیکھنے کو نہیں ملتی۔پھر ایسا بھی ہوتا کہ جس جسم کو چودائی کے درمیان پھولوں کی طرح اٹھایا ہوتا ہے وہ بعد میں ایکطرف پڑاہوتا ہے۔جوش کا تعلق لڑکی پر ہے،اور ثمینہ خود پاگل ہورہی تھی اور مجھے پاگل کر رہی تھی۔اس اسٹائل میں مزہ آرہا تھا۔لیکن اس سے زیادہ رفتار ممکن نہیں تھی،اور ہمارا پاگل پن کچھ اور چاہتا تھا۔میں نے ثمینہ کو دیوار سے لگایا اور اسکے ہاتھ دیوار پر ٹکائے ،اور پیچھے سے اسکی چوت میں ڈال دیا۔اب ہم بہتر حالت میں تھے ۔میں اسے اچھی طرح دل لگا کر چودنے لگا۔ویسے تو دل لگا کر بہت سے کام کرنے چاہیے ۔لیکن کیا کریں ۔دل انہیں کاموں میں لگتا ہے جو دل چسپ ہوتے ہیں،یعنی دل کوچپک جاتے ہیں،جیسے ثمینہ سے میرا عضو چپکا ہوا تھا۔اور اس سے اظہارِ محبت کیلیے بار بار کوچہ جاناں میں جا کر حاضری دے رہا تھا۔پرنس اسطرح چودو گےتو پھر میں تمھاری جان نہیں چھوڑوں گی۔۔تو تم سے جان چھرانا ہی کون چاہتا ہے،اب تمھیں چودتا رہوں گا۔ میں نے اسٹروک جاری رکھے۔میں تیاری سے ثمینہ کے پاس گیا تھا،اس بات کا اندازہ ثمینہ کو تب ہوا جب اس چو دائی کے نتیجے میں اس کا پانی نکل گیا،اور میں اسی طرح چودائی کے موڈ میں ناراض عضو لیا کھڑا تھا۔اچھا تو یہ بات ہے جناب،ثمینہ نے چمکتے ہوئے کہا،اور عضو کو پکر لیا،او میلا پالا پالا سونو۔نالاج ہو مجھ سے۔کوئی بات نہیں،اپنے سونو کو میں منا لوں گی۔ثمینہ سمجھ گئی تھی کہ میں ٹائمنگ گولی کھا چکا تھا۔اور بھرپور مزے کے موڈمیں تھا۔سچی بات ہے جان میرا بھی کم از کم تین بار چودائی کا موڈ ضرور تھا۔کچھ ہی لمحوں میں ثمینہ پھر گرما گرم ہوچکی تھی۔وہ بیڈ پر ڈوگی اسٹائل میں ہو گئی،اور میں نے قالین پر کھڑے ہو کر اس کی چوت میں ڈالا اور کمر سے پکڑ کرچو دائی شروع کردی۔اب کی بار ثمینہ کاجسم بری طرح ہل رہا تھا۔میرا جوش سے برا حال تھا،اور ثمینہ بھی سمجھ رہی تھی کہ چودائی کا یہ راؤنڈ خوب مزہ دے گا۔میں نے اس جگہ سے پھر اسٹائل نہ بدلہ اور ثمینہ کی چوت کا بینڈ بجاتا رہا۔آرام سے جان ،میں کہیں نہیں جارہی،یہیں اپنے پرنس کے پاس ہوں،،لیکن مجھ پر جیسے اس کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا،اور میں وحشیانہ انداز میں چودتا رہا۔ثمینہ چیخنے لگی تو مجھے ہوش آیا اور میں نے خود کو کنٹرول کیا۔اور آہستہ آہستہ چودائی کرنے لگا،،کیا بات ہے پرنس میری جان۔جتنا مرضہ چودو ،مگر اتنا نہ چودنا کہ چوت ہی پھٹ جائے اور پھر کسی کام کی نہ رہے ۔ثمینہ نے کراہتے ہوئے کہا۔ثمینہ تمھارے لیے دل میں جوش ہی اتناہے کہ کیاکروں۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا تمھار ی چوت پھر نئی لگوا لی جائے،نہیں جی،ایسا نہیں ہو سکتا ،ثمینہ میری شرارت سمجھتے ہوئے شوخی سے بولی۔کمرے میں جھپاک جھپاک کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔میری رفتار پھر تیز ہونے لگی،اور میں ہوش کھونے لگا۔کچھ ہی دیر میں ثمینہ پھر چیخی ۔لیکن اب میں نہ رکا۔دھکے کی طاقت ہی ایسی تھی ثمینہ نے چیخنا ہی تھا۔ پرنس ۔پرنس۔۔کیا ہوگیا ہے تمھیں آرام سے کرو یار۔لیکن میں نہ رکا۔اب ثمینہ باقاعدہ چیخنے لگی۔لیکن مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی،میں ایسی چودائی کم ہی کرتا ہوں،لیکن ثمینہ نے میری بھوک جگا دی تھی۔ویسے بھی مجھے اس پر بڑی شہوت آئی ہوئی تھی۔ثمینہ کی چیخیں مدہم ہو کر رک گئی،،کیونکہ اسکا پانی نکل آیا تھااور ا س پانی نے اس کی چوت میں میرے عضو کا آنا جانا آسان کردیا تھا۔جس کی وجہ سے اس کی مشکل آسان ہوگئی تھی۔،اور اسے مزہ بھی آرہا تھا۔پرنس مجھے بھی مزہ دینے دو۔ثمینہ نے کہا تو میں نے اس کی بات سمجھتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گیا۔اور ثمینہ میرے اوپر آئی اور عضو لیکر اوپر نیچے ہونے لگی۔ جب میں ثمینہ کو ٹیوشن پرھتے وقت چھیڑتا رہتا تھا یہ تو میں اسوقت ہی سمجھ گیا تھا کہ ثمینہ چودائی کرواچکی ہے،اب اسکی مہارت دیکھ کر مجھے سمجھ آگئی کہ ثمینہ کی پُلی کے نیچے سے بھی بڑا پانی گزر چکاہے۔ یہ اسٹائل مجھے بہت پسند ہے،اور بڑا مزہ آتا ہے،دل کرتا ہے لڑکی بس اوپر نیچے ہوتی رہی۔عضو کو چوت ایسی گرفت میں لیتی ہے۔سمجھ نہیں آتا کہ اوپر جانا اچھا ہے یا نیچے جانا اچھا ہے۔ثمینہ کا دو بار پانی نکل چکا تھا ،پہلی بار تو وہ کچھ رکی تھی ۔لیکن دوسری بارپانی نکلنے کے باوجود وہ رکی نہیں تھی،بلکہ خود سواری کرنے لگی تھی۔اس سے میں ثمینہ کی گرمی سمجھ سکتا تھا۔ثمینہ کاجوش سے ہلتا جسم ،بڑا اچھا نظارا دے رہا تھا۔اور اس کے دلکش ممے مجھے سمجھا رہے تھے کہ میں نے ابھی ان کا رس نہیں پیا ہے،میں کچھ اٹھ کہ بیٹھا اور ثمینہ کے ممے ہاتھ میں لیکر مسلنے لگا۔۔آہ کیا کر رہے ہو۔پرنس۔تمھارے ممے نے بلایا ہے،کیا کروں،،بلایا ہے تو انکی بات سن لو،ثمینہ نےمیری اوپر جھکتے ممے میرے پاس کردیے،میں نے انہیں منہ میں لے لیا اور ان کا رس پینے لگا۔۔ثمینہ بھی سرور میں آگئی اور جتنا کرسکتی تھی اتنا اپنے اندر باہرکرنے گی۔اچھی طرح رس پینے کےبعد میں کچھ بیٹھ اور کچھ لیٹا ہو گیا،گاؤ تکیے لگا کہ۔اور ثمینہ کے ممے ہاتھوں میں لیکر اسے چودائی کرنے کااشارہ کیا۔آہستہ آہستہ تو وہ پہلے ہی لے رہی تھی،اب کچھ آزادی ہوئی تو تیز تیز کرنے لگی۔چند منٹ اور پھر ثمینہ کا پانی نکل گیا،اب وہ نڈھال ہو کر میرے اوپر ہی گر پڑی،،کچھ دیر اسی حالت میں پڑے رہے۔میرا تو ابھی موڈ تھا۔تین بار اس کا پانی نکل چکا تھا۔پینتیس منٹ تو ہمیں ہوچکے تھے۔میں پھر ثمینہ کے ممے چوسنے لگا۔کچھ ہی دیر میں ثمینہ لیٹ گئی ۔ آجاؤ،ثمینہ نے میرے ساتھ لیٹتے ہوئے کہا۔اور میں اس کی ٹانگوں کو کھول کر بٹھا اوربےصبری سے اندر ڈال دیا۔آہہ ثمینہ تمھارے جسم کی طلب نے مجھے دیوانہ کردیا ہے۔میں نے ثمینہ کی چودائی کرتے ہوئے کہا۔طلب کوجگائےرکھنا تا کہ مجھے مزہ دیتے رہو۔صاف لگ رہا تھا ثمینہ ہمارے تعلقات کوجاری رکھنا چاہتی تھی۔میں رکا تو ثمینہ اوپر آگئی ۔اور اندر لے کر اوپر نیچے ہونے لگی۔اس کی گرمی نے اسے جوشیلا کردیاتھا،میں مزے سے لیٹا چودائی سے سکون لے رہا تھا۔ثمینہ نے جوش میں اچھی رفتار بنائی ہوئی تھی۔لیکن وہ تھکی تھکی بھی تھی۔جتنی دیر وہ مزہ دے سکتی تھی۔اس نے مزہ دیا پھر اسے لٹا کر میں نے ٹھکائی شروع کرد ی۔اس بار ثمینہ کی سسکیاں بلند تھیں،اوروہ آخری چودائی کا مزہ یادگار بنا رہی تھی۔جان بوجھ کر آوازیں نکالنا چودائی کا مزہ دوبالا کردیتی ہیں۔ویسے میں تقریباً پونا گھنٹا پورے جوش میں چودائی کرچکا تھا،اب آہستہ اور تیز مل ملا کر میں چودای کرتا رہا،تقریباً 20 منٹ بعد ہم دونوں ہی کنارے لگنے والے ہوگئے،جیسے ہی اضطراری دھکوں کی باری آئی
ہم سمجھ گئےاور لپٹ کر آخری دھکے لگائے۔اور ایکدوسرے سے چمٹ گئے۔اس بار جسمانی وائبریشن بھی اچھی تھی ۔پانی نکلا اور مزہ آگیا۔ہم لپٹے رہے اسی حالت میں۔پھر کچھ دیر بعد علیحدہ ہوگئے۔ساتھ ساتھ لیٹ گئے۔پرنس تم اتنے عرسے بعد آئے لیکن ساری حسرتیں نکال دی۔میں اکثر دل میں سوچتی تھی کہ ایک ہی مرد پر دل آیا تھا اور اسی سے چودائی نہ کرسکے۔لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ تم بھی مجھے نہیں بھولے ہو گے ۔پرنس جب میں نے تمھیں ٹیوشن پڑھانا چھوڑ تو جوسلین سے بھی قطع تعلق کر لیا،بلکہ ہمارے تعلقات میں سردمہری تو اس سے بھی ایک سال پہلے آگئی تھی۔میں اس کی رازدار تھی اس کی شاگرد تھی،ہم نے مل کر کئی شکار کیے تھے۔لیکن تمھاری باری وہ مجھے ٹھینگا دکھا گئی الٹا مجھے ذلیل بھی کیا،تو میں اس سے متنفر ہوگئی ،لیکن تمھاری چاہت میں ٹیوشن پڑھانے آتی رہی۔جوسلین بھی مجھے اسی لیے برداشت کرتی رہی کہ مجھ سے بہتر ٹیوشن پڑھانے والی اس کی نظر میں نہیں تھی۔میں ثمینہ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ میرے لیے یہ انکشاف تھا کہ ثمینہ اور جوسلین ایکدوسرے کی ساتھی تھی مجھے ثمینہ سے سب کچھ معلوم کرنا تھا،اور وہ شروع ہوگئی۔اس نے وہی سب کچھ کہا جو غزل نے بتایا تھا ،بلکہ اس سے زیادہ بتایا۔اور یہ بھی کہا کہ اس کے حلقے میں مشہور ہے کہ جوسلین نے ایک انمول بچہ رکھاہوا ہے جسے اس نے سونے میں تول دیا ہے۔جوسلین کسی کواس بچے کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتی۔ثمینہ چلی گئی اور مجھے وہ کچھ کہہ گئی جو میں نہیں جاننا چاہتا تھا ۔میں سوچنے لگا کہ کیا میں اس سے ملنے ایسے ہی چلا گیا تھا یا ایک پروگرامنگ تھی یعنی طے شدہ تھا،اس وقت میں دھواں دھواں ہو رہا تھا،میں پیدل ہی فلیٹ سے نکل پڑا ۔پتہ نہیں کہاں کہاں گھومتا رہا،دن سے شام ہوگئی اور شام سے رات ہوگئی ،موبائل کی بیل بجتی رہی ،لیکن میں نے نہ اٹھایا،آخر میرے پاس ایک گاڑی آ کر رکی، اس میں جوسلین تھی،اس نے مجھے بازو سے پکڑا اور گاڑی میں بٹھایا،میں گاڑی میں بیٹھ گیا،وہ مجھے گھر لے گئی،،مجھے نہیں پتہ اس نے مجھے کیسے ڈھونڈا ،لیکن ڈھونڈلیا،،اس نے مجھ سے کچھ نہ پوچھا شاید اس کے دل میں چور تھا ، مجھے بھی اب کسی سے کوئی مطلب نہیں تھا۔اب دنیا بے اعتباری ہوچکی تھی،ایک آدمی صحرا میں سفر کرتا ہے اورپیاس سے نڈھال ہو،اور دور کہیں اسے نخلستان نظر آئے وہ ہر قدم مرتا ہوا وہاں پہنچتا ہے تو وہاں جا کر پتہ چلتا ہے کہ یہ تو سراب تھا،ریت اور دھوپ کا عکس مل کر اسے چشمہ دکھا رہے تھے تو اس آدمی کا کیا حال ہومیں ٹھیک ٹھاک تھا مگر ٹھیک نہیں تھا،دو دن وہ بلواسطہ مجھے سمجھاتی رہی مجھے ٹٹولتی رہی لیکن کچھ نہ سن سکی، تیسرے دن وہ یونیورسٹی گئی لیکن جلدی ہی واپس آگئی ،اور مجھےڈاکومنٹ پکڑائے ،آج شام کی تمھاری فلائیٹ ہے،،میں چاہتی ہوں تم اس ورکشاپ میں حصہ لو،وہ اپنے طریقے سے مجھے بہلا رہی تھی۔مجھے مصروف کر رہی تھی۔لیکن یہ سب تب چلتا ہے جب اندر ترنگ ہو اب اندر تنگ تھا۔میں نہیں جانا چاہتا تھا ،بلکہ مجھے کسی سہارے کی ضرورت تھی،لیکن اچانک کوان لی کی آواز آئی، ۔چلے جاؤ میرے بچے ،اور میں نے سر ہلا دیا،دیوتا جیسے استاد کا حکم سر آنکھوں پر،جوسلین خود مجھے ایئر پورٹ چھوڑ کر آئی،پرنس تمھیں میری ایک دوست وہاں ریسیو کرنے آئے گی ،تمھاری رہائش وغیرہ کا سار انتظام اسی کے پاس ہے،کسی بات کی فکر نہ کرنا،جوسلین نے پانچویں بار اپنی بات دہرائی،میں جہاز میں بیٹھا اور جب جہاز اتر ا اور میں ایئر پورٹ سے باہر نکلا تو سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔ زونگینگ کوان لی کھڑے تھے،دیوتاؤں کی مسکراہٹ جیسے،میں ان کے گلے لگ گیا،مجھے سہارا چاہیے تھا سہارا مل گیا،میرے بچے بہت بوجھ ہے تمھارے دل پر اس بوجھ کو اتار دو۔۔کیونکہ تقدیر کی اپنی پروگرامنگ ہے ۔اس نے مجھے میرا وارث دینا تھا۔باقی سب بہانے تھے ۔۔اور میرے دل سے سارا بوجھ اتر گیا،کوان لی نے یہی کہا تھا کہ آجاؤ میرے بچے،،اور میں اس فلائیٹ میں نہیں گیا تھا بلکہ دو دن بعد لاہور سے چائنہ کیلیے فلائیٹ لے لی تھی، مارشل آرٹ کے استادوں کا ملک چائنہ،کوان لی مجھے اپنے گھر لے گیا،شہری ہنگاموں سے دور اس کا گھر ایک خوبصورت وادی میں تھا ۔جس کے ایک طرف سرسبز پہاڑ تھے اور اس کا گھر بھی پہاڑ کے دامن میں ایک مسطح پہاڑ پر تھا ،ایکطرف سارا قصبہ تھا، جب ہم اس سے گزرےتو ہر شخص کوان لی کو سر جھکا کر سلام کرتا نظر آیا ،چائنیز طرزِ تعمیر کا خوبصورت گھر کافی وسیع تھا،اب میں نے یہیں رہنا تھا ،میں سب کچھ وہیں چھوڑ آیا تھا،کوان لی کی بیوی اسی کی طرح درویش صفت تھی،اس رات مجھے بڑی اچھی نیند آئی۔اگلے دن ناشتے کے بعد ہم بیٹھ گئے،یہ کوان لی کا ڈوجو یعنی پریکٹس ہال تھا،میرے بچے،جوسلین سے جب میں ملا تھا تبھی میں اس سے متنفر ہو گیا تھا،وہ ان لوگوں میں سے تھی جو دو منہ والے ہوتے ہیں،ان کا ایک چہرہ بڑا خوشنما ہوتا ے اور دوسرا بڑا زہریلا ،ایسا زہریلا جس کا کوئی علاج نہیں،اس نے تمھیں ایسےخوشنما جال میں پھنسایا تھا کہ تم ساری عمر اس کے اثر سے نکل نہیں سکتے تھے،اس نے تمھیں کہا کہ اپنی مرضی سے آؤ جبکہ یہ پھندا تھا ،پھر اس نے جو تمھیں بنانے کا پروگرام بنایا تھا وہ سب تمھیں اپنے زیرِ اثر رکھنے کیلیے تھاتم کچھ بننے کے چکر میں اس کے اشاروں پر چلتے رہتے اور کبھی اس کے اثر سے نہیں نکل سکتےتھے،کیونکہ اس کا یہ پروگرام کبھی ختم نہیں ہونے تھے ،اس کے پاس چالیں بہت تھیں۔خود کو تمھارا عاشق ظاہر کرنے کیلیے وہ تمھاری بیوی کی طرح خدمت کرتی رہی،،اسنے تمھارے خیالات سوچوں اور دل و دماغ پر قبضہ کرلیا تھا،تمھیں بس جوسلین ہی نظر آتی ھی اور بس،،قسمت نے یہاں سے پلٹا کھایا جب میں تم سے ملتاہوں،اس کے پروگرام میں مارشل آرٹ کا گرینڈ ماسٹر تھا لیکن تمھیں متاثر کرنے کیلیے اس نے سب سے بہترین ڈھونڈا۔یہ فن اس کیلیے لڑنے بھڑنے کیلیے تھا اور بس۔۔اگر میری جگہ کوئی بھی اور ہوتا تو اس کا پروگرام چلتے رہنا تھا ،بلکہ اسنے تمھیں مارشل آرٹ کی ٹریننگ سے نکلنے ہی نہیں دینا تھا،وہ دیکھ چکی تھی کہ مارشل آرٹ سے محبت تمھاری گھٹی میں پڑی ہے،لیکن کیسے یہ اسے بھی نہیں پتہ تھا،یہ قدرت کی پروگرامنگ تھی،،اس نے تم پر دولت کی بارش کر دی،یہ بھی اس کی ایک گہری چال تھی،حتی کہ اس نے مجھے بھی سونے میں تول دیا،تمھارے ملک میں آنٹیاں بچے پالتی ہیں اور خرچے لگا دیتی ہیں،بس یہی کچھ اس کیلیے تم تھے ۔ اور یہ بچے کا جیب خرچ تھا۔بس بچہ ذرا انمول تھا ، اس کاکوئی تم پر احسانات نہیں تھے بلکہ وہ ان احسانات کو غیر محسوس طریقے سے گنوا کر تمھیں اپنے کنٹرول میں رکھتی تھی ۔بڑی اونچے درجے کی فنکار تھی،،وہ ایک خوبصورت ناگن تھی۔ جو اپنے شکارکو اپنے بس میں کرلیتی ہے۔
نگینہ اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ،لیکن گھاؤ تو اس کا بھی بہت گہرا ہے،،آج سے تم مجھ سے وعدہ کرو گے کہ تم اپنی خرافات میں میری دی ہوئی کوئی طاقت استعمال نہیں کرو گے،ایک وقت آئے گا ان خرافات سے تمھارا دل بھر جائے گا،نگینہ کو بھی خود ڈھونڈو گے ،جب اسے سزا ملنی ہوگی وہ تمھیں مل جائے گی،اب جو تم سیکھو گے وہ کنگفو کا چھپا ہوا خزانہ ہے ۔اور خزانے ظرف والوں کے حوالے کرتے ہیں،تا کہ وہ اس کی صحیح حفاظت کریں،اور صحیح جگہ استعمال کریں،،تم لکھنا چاہتے ہو،لکھو ہم اس پر بھی بات کریں گے،قدرت نے یہ صلاحیت بھی تم میں رکھی ہے،اور کمال کی رکھی ہے،کوان لی نے آنکھیں بند کر لیں،میں نے بھی آنکھیں بند کر لیں،ہم اسی جگہ ایکدوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے،میرے بچے ہم اسوقت خواب میں ہیں ،اور ہمارے ان جسموں کو جدیدپیراسائیکالوجی میں آسٹرل باڈی کہتے ہیں،یہاں کی رفتار بہت تیز اور اختیارو طاقت کمال کا ہے،جیسے ہم خواب میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں ہو آتے ہیں، یا مشکل سے مشکل کام کر لیتے ہیں،،اسی طرح اس جسم سے ہم دنیا میں بھی کام لے سکتے ہیں،جیسے جیسے تمھاری مشق بڑھتی جائے گی اس جسم سے آہستہ آہستہ تم بھی کام لینا سیکھ جاؤ گے اور یہ جسم طاقتور ہوتا جائے گااور پھر اسی جسم کو دنیا میں بھی استعمال کر سکو گےبالکل میری طرح ۔کوان لی نے اپنے مکان کے ساتھ والے پہاڑ پر کک ماری اور وہ ریزہ ریزہ ہو گیا ،،ایک گھنٹے بعد ہم نے آنکھیں کھولی تو میرا نیا سفر شروع ہوچکا تھا۔ مراقبے کے علاوہ میں صبح سے شام تک جسمانی پریکٹس بھی کرتا،اور رات کو آرام کرتا،میں نے جو کچھ پہلے سیکھا تھا وہ ہی بہت کچھ سمجھتا تھا ،لیکن اب جو سیکھ رہا تھا تو سمجھا کہ اصل کنگفو تو یہ ہے کوان لی سے میری وابستگی،ایک استاد سے شاگرد کی تھی،پھر یہ روحانی رشتے میں تبدیل ہوگئی،اور پھر میں جیسے جیسے اس دیوتا کے قریب ہوتا گیا میں ان کا گرویدہ ہوتا گیا،انہوں نے کمال شفقت اور مہربانی سے مجھے سمیٹ لیا،اور اپنے بیٹے جیسا پیار دیا، کوان لی کی کوئی اولاد نہیں تھی،وہ اپنے بڑے سے مکان میں پر سکون زندگی گزار رہا تھا۔کوان لی،جڑی بوٹیوں اور آکو پنکچر سے علاج کرتا تھا یہی اس کی مصروفیت تھی،جڑی بوٹیوں سے علاج کنگفو کا ایک حصہ ہی ہے۔ کوان لی نے میری زندگی بدل دی،اگر وہ مجھے نہ ملتے تو میں آج بھی کسی آنٹی کا بچہ ہوتا ۔لیکن کوان لی نے مجھے فرش سے اٹھا کہ عرش پر بٹھا دیا،دلآویز کی دادی کے بعد کوان لی مجھے مخلص ترین رشتہ ملا،اتنا مخلص کہ میں اس کے اشارے پر جان بھی دے سکتا ہوں کوان لی کی بیوی لی جُو،آن۔(یعنی خوبصورت اور نرم دل) نے مجھے ماں کاپیار دیااور میرے اندر جو خلا تھا وہ اس نے پر کر دیا،وہ جانتی تھی کہ کوان لی نے مجھے اپنی وراثت کیلیے چن لیے ہے۔میاں بیوی میں بہت پیار تھا اور کوان لی اور اور اس کی بیوی نے محبت کی شادی کی تھی،ان کی نوک جھونک سے میں بہت لطف اندوز ہوتا تھا،اکثر مجھے انکی نوک جھونک میں کودنا پڑتا لیکن پھر میں ہی نشانہ بن جاتا،اسی طرح ہم بڑی خوش و خرم زندگی گزار رہے تھےاور مجھے یہاں آئے ہوئے چھ مہینے ہو گئے تھے،اس دوران مجھ میں بہت سی تبدیلیاں آئی ،اب میں نے حیران ہونا چھوڑدیا تھا کہ مافوق الفطرت بننا اصل میں انسان کی ہی قسمت میں ہے،ان دنوں میں نےپہلا آرٹیکل لکھا اور کوان لی نے اس کا چائنیز میں ترجمہ کر کے چھپوا دیا ،جب وہ چھپا تو مجھے خوشی ہوئی کہ میں لکھ سکتا ہوں۔نہیں بلکہ اس پہلے میں ایک نفسیات پر مقالہ لکھ چکا تھا وہ میں نے جوسلین کو دے دیا تھا،وہ شاید نہ چھپا ہو،اس طرح میں مقالہ جات کی طرف رجحان سازی رکھتا تھا ،سماجی ،معاشرتی،رسم رواج ،انسانی نفسیات،سیکس ،مذاہب،تواریخ ،میرے پاس لکھنے کو موضوع بہت تھے،خیر اس خشک موضوع سے آپ کو بچاتے ہوئے اس کو قصہ مختصر کردیتے ہیں،مزید چھ مہینے گزر گئے،مجھے ایک سال ہوگیا،اس دوران میں انٹرنیٹ پر مطالعہ اور پریکٹس اور کوان لی اور اس کی بیوی کی محبت بس یہ تین کام تھے مجھے،اور ان تین کاموں میں چھ مہینے اور گزر گئے مجھے کوان لی کے پاس ڈیڑھ سال ہوگیا تھا۔میں نے پچھلی زندگی کو بھلا دیا تھا،کچھ آرٹیکل اور لکھ دیے، کوان لی کھانا کھاتے ہوئے کسی سوچ میں گم تھا ،میں نے لی جُوآن کی طرف دیکھا اور اشارے سے پوچھا کیا بات ہے،،ان میں کوئی نوک جھونک تو نہیں ہو گئی،انہوں نے ہاتھ کہ اشارے سے فرضی مکھی اڑائی اور مجھے کہا فکر نہ کرو،میں یہ اشارے بازیاں دیکھ رہا ہوں ،کوان لی نے لی جُوآن سے کہا،انہوں نے کندھے اچکائے اور منہ بنا لیا،، میں نے چوپ اسٹک سے چاول کھاتے ہوئے کوان لی سے سے پوچھا کیا بات ہے ماسٹر ؟میرے بچے جو کچھ ہم سیکھتے ہیں کسی نہ کی جگہ اس کا ہمیں امتحان بھی دینا پڑتا ہے چاہے وہ زندگی کی کوئی مشکل ہو یا دنیا کا کوئی میدان،لی جُوآن نے اسے دیکھ اور پھر سمجھ گئی ہو کہ کیا بات ہے،ایک ہفتے بعد ہم اس قصبے سے نکلے اور کسی شہر میں پہنچ گئے،وہاں ایک عمارت میں ہمارا قیام ہوا،مجھے وہاں صرف مارشل آرٹسٹ نظر آئے تو سمجھ آئی کہ یہاں کوئی مقابلے وغیرہ ہو رہے ہیں،لیکن شام کو جب ماحول دیکھا تو پتہ چلا کہ یہاں صرف ماسٹرز آتے ہیں،اور یہ سال میں ایک بار ہوتا ہے ،مارشل آرٹ پر کئی مقابلے چائنہ میں ہوتے رہتے ہیں،لیکن یہ سب سے خاص اورہٹ کر تھا۔یہ عوا م الناس کےنہیں خواص لاخواص کے مقابلے تھے ہم نے اکھٹے شام کو دو مقابلے دیکھے،دونوں ہی ٹاپ کلاس تھی مجھے مزہ آیا،مقابلے فل کونٹیکٹ باڈی کے تھے ،یعنی جسم کے ہر حصے کو ہٹ کیا جا سکتا تھا۔ویسے تو موئے تھائی،کیوکشن ،کراٹے،تائیکوانڈو ۔جیت کون ڈو وغیرہ فل کونٹیٹ فنون تھے ،لیکن جس مقابلے میں چاہیں فل کونٹیکٹ رکھ سکتے ہیں،آنے والے ماسٹرز کوان لی کو جانتے تھے اور اسے دیکھ کر حیران تھے کیونکہ وہ ایسے مقابلے پسند نہیں کرتا،لیکن میں سمجھ گیا وہ یہاں کیوں آیا ہے وہ اپنے شاہکار کو دکھانے آیا تھا،شاید ان سب میں ایسی باتیں چلتی تھیں،یہ بھی تھا کہ ماسٹرز کے اس مقابلے میں وہ مجھے لا کر بتا رہا ہو کہ اس نے مجھے اپنی وراثت دے دی ہے،کیونکہ ا سپر کئی لوگ طنز بھی کرتے تھے کہ یہ تو قبر میں جائے گا لیکن کسی کو کچھ سکھائے گا نہیں۔ ویسے یہاں ہر بندہ کوان لی کے سامنے ایکبار جھک کے تعظیم ضرور دیتا تھا، ،دوسرے دن کوان لی کا مزاج بڑا خاص تھا،سامنے ایک ریڈبیلٹ ماسٹر ماسٹر بیٹھا ہوا تھا ،میں نے اسے آج ہی دیکھا تھا ۔خطرناک لگتا ہے ،میں نے جان بوجھ کر کہا، نالائق شاگردوں کوا یسا ہی کہنا چاہیے ۔،دیکھو اسے ،اس نے ریڈبیلٹ کیلیے ایک عمر صرف کر دی ہےاور خود کو دیکھو تم ابھی صِرف 21 کے ہو، ابھی تمھارا اس سے مقابلہ ہو گا،کیا ،میں نے مصنوعی حیرانگی سے کہا ۔کسی نالائق شاگرد کی طرح میرا نام مت ڈبو دینا،کوان لی نے ناراضگی سے کہا ، نوک جھونک کی عادت انہیں میرے ساتھ بھی پڑ گئی تھی،مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ کوان لی میرا فن دکھانا چاہتا ہے،آخر انہوں نے بھی تو کبھی خود کو منوایا تھا۔
کچھ ہی دیر میں اور ریڈبیلٹ والا آمنے سامنے کھڑے تھے،ہم نے جھک کر ایکدوسرے کو تعظیم دی،ریڈبیلٹ والا پرسکون نظر آ رہا تھا ،اس نے سٹانس بنایا اور اٹیک کرنا چاہا،میں اسی بات کا انتظار کر رہا تھا،میرا مکا اس کی تھوڑی کی طرف گیا،اس نے پھرتی سے اٹیکنگ پوزیشن سے خوبصورت بلاکنگ کی،لیکن وہ میرا مقصدنہیں سمجھا تھا ،،میرا مکا اس کی بلاکنگ سمیت اس کی تھوڑی کولگا،میں نے تو ضرب لگائی ہی نہیں تھی میں نے تو پش کیا تھا،ریڈبیلٹ اوپر کو اچھلا،میں اس کے پیچھے اچھلا ،میرا گھٹنا اس کی کمر پر تباہی لے آیا ،وہ اور اوپر ہوا،اور پھر نیچے کی طرف گرا اور میر ی کہنی اس کے سینے پر پڑی ،جب اس کا جسم نیچے گرا تو وہ بے ہوش ہوچکا تھا اور میں اس کے پاس ایسے اترا جیسے کوئی اڑتا ہوا نیچے آتا ہے،چار سیکنڈ پورے نہیں ہوئے اور ریڈبیلٹ ناک آؤٹ ہوچکا تھا۔جیسے انہونی ہوگئی تھی،کسی کو ایک لمحے کیلیے کچھ سمجھ نہ آئی ،میں ایسے وہاں کھڑا تھا جیسے کوئی ہےتو آجائے،اور سب سے بڑی کرسی پر بیٹھے ماسٹر نے وہیں سے چھلانگ لگائی اور میرے سامنے آکھڑا ہوا۔اسی کی سرپرستی میں تو یہ ساری فائیٹ ہو رہی تھیں،اوروہ استادوں کا ستاد تھا اور اس کا کلب ایسی جگہ تھی جہاں ماسٹرز بنتے تھے اور بنے ہوئے ختم ہو جاتے تھے۔کیونکہ اس کلب کو چلانے والا پورے چائنہ کا گرینڈماسٹر تھا،تمام چائنہ میں بیلٹوں اور کلبوں کی سطح کا سب سے بڑا استاد،پورے چائنہ میں اس کے ہزاروں شاگرد تھے ۔جس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا اس کا نام گونجنے لگتا تھااور جس کو وہ رد کردیتاوہ کہیں کا نہیں رہتا تھا، استادوں کا ا ستاد میرے سامنے آکھڑا ہوا تھا،اسے نہیں پتہ تھا کہ ریڈبیلٹ والا تو چارا تھا اصل نشانہ تو وہ خود تھا،اسی لیے کوان لی نے اس کے بیٹے ریڈبیلٹ والے سے میرا مقابلا کروایا تھا،اورمیں نے اسے کسی بچے کی طرح ہرایا تھا تا کہ وہ اپنے بیٹے کا بدلہ لینے جذبات میں خود ہی سامنے آجائے،، ہال میں مکمل خاموشی تھی،انگلش میں اسے پن ڈراپ خاموشی کہتے ہیں، اب نہ میں نے اس کو کوئی حملہ کرنے دینا تھا تا کہ وہ یہ نہ کہہ سکے کہ کوان لی کہ شاگرد پر اس نے حملہ کی ااور ا سنے بلاک کرلیا اور نہ اس پر ایسا حملہ کرنا تھا کہ وہ اسے بلاک کرسکے،مجھے کوان لی کے نام کی عزت رکھنی تھی،مقابلہ شروع ہوا، استادوں کے استاد کے تیور سے ہی میں سمجھ گیا کہ اس نے قاتلانہ حملہ کرنا ہے،کچھ حملے ضرب لگانے کیلیے اور کچھ توڑنے کیلیے اور کچھ ختم کرنے کیلیے ہوتے ہیں، استادوں کے استاد کو سمجھنا چاہیےتھاکہ میں عظیم کوان لی کا شاگرد ہوں،جیسے ہی مقابلہ شروع ہوا۔میں نے اس پر حملہ کر دیا۔میرا مکا اس کے چہرے کی طرف بڑھا ،یہ ایک آسان حملہ تھا ،اس نے اپنی کھڑی ہتھیلی سے میرا مکا ایک سائیڈ میں نکالنا چاہا ۔لیکن یہ تو تھا ہی ا سکی ہتھیلی کیلیے ،اس کے ہاتھ پر جیسے قیامت آگئی۔نیچے سے دوسرا مکا اس کی طرف گیا۔اس نے بلاک تو کرنا ہی تھا۔لیکن میں بھی چاہتا تھا کہ وہ بلاک کرے،میری تیکنیک ہی کچھ ایسی تھی۔کہ وہ بلاک کرے اور میں اسے نشانہ بناؤں کیونکہ میں اسے زیادہ موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔میرے دوسرے مکے نے اس کے دوسرے ہاتھ کا ستیاناس کردیا تھا۔اس کے ہاتھ کڑی پریکٹس سے پتھر بن چکے تھے۔لیکن وہ اگر پتھر تھا تو میرے لیے فولاد بھی موم تھا۔اب کی بار اس نے کک سے حملہ کیا،بڑی اچھی بات تھی اس نے یہی کرنا تھامگر میں تو وہاں نہیں تھا۔ میں اسکی سایڈ میں آچکا تھا۔اور میر ی کک اس کی طرف بڑھی اورپاؤں اس کی گردن پر پڑا۔ وہ پہلے ہی ایک غلطی کرچکا تھا،اور اب دوسری کرنے لگا تھا۔اب میرا پاؤں اس کی گردن پر پڑا تو زمیں کی طرف آیا،میں نے اس کی گردن کوزور سے جھٹکا لگایا تھا ،استادوں کا استاد منہ کے بل زمیں کی طرف آیا،لیکن اس نے گھٹنے زمیں پر ٹیک کر اپنے ہاتھ بھی ٹکا دیے اس طرح وہ زمیں چاٹنے سے بچ گیا۔لیکن یہ تو چال تھی،،اس کے گھٹنے زور سے لگےتھے اور ہاتھ پہلے ہی کمزور ہوچکے تھے۔میں نے چشم ِ زدن میں پاؤں گردن سے ہٹایا اور استادوں کے استا د کے کنپٹی پر مکا مارا۔اسکے ہاتھ اور گھٹنے زمیں پر تھے اور ذلت کو برادشت کر رہے تھےاسے بلاکنگ کا موقع ہی نہ ملا،میرے مکے سے وہ لڑکھتا ہو دور جا گرا اور بے ہوش ہو گیا، یہی تو کوان لی چاہتا تھا ۔ہال کو جیسے سانپ سونگھ گیا،پھر اضطرارای حالت میں دو ماسٹر میری طرف بڑھے،لیکن کوان لی ان کے سامنے آیا ان کو ایک ایک مکا مارا ،وہ دور جا گرے ۔یہ کوان لی کی دانشمندی تھی،نہیں تو ان ماسٹرز کے پیچھے اور لوگ بھی مجھ پر ٹوٹ پڑنے تھے ،ظاہر ہے پھر ان کا ساتھ اچھا نہیں ہونا تھا ،اور جو کوان لی چاہتا تھا وہ نہیں ہونا تھا ۔کوان لی کو سامنے دیکھ کر لوگوں کو ہوش آیا،سب کوان لی کے سامنے جھک گئے،ظاہر ہے وہ اسکے فن کا اعتراف کررہے تھے کوان لی کا شاگرد ،میں بھی اس کے سامنے جھک گیا،ہم وہاں دو گھنٹے رکے ،اتنے میں ریڈبیلٹ اور اس کا باپ ہوش میں آچکے تھے ،اور ہم سے مل کرہمیں جھک کرتعظیم دی،کوان لی نے مختصرراستے سے مجھے استادوں کے استاد سے اوپر کا درجہ دے دیا تھا،اب یہ بات کلبوں میں پھیلنے والی تھی،اس کے بعد کوان لی مجھے کئی کلبوں اور بدھسٹ ٹیمپلز میں لے گیا، کئی جگہ میں نے اپنے فن کا مظاہر ہ بھی کیا،ہر جگہ ہمیں تعظیم ملی،یقیناً یہ کوان لی کی عظمت تھی اور اب وہ مجھے اپنی جگہ دے رہا تھا،یہ یا ترادنیا سے میرا تعارف تھا ۔اور لوگ مجھے مان رہے تھے،مجھے عزت دے رہےتھے۔کیوں نہ دیتے عظیم کوان لی نے مجھے اپنا جانشین کہا تھا ۔ایک مہینے بعد ہم اسی قصبےمیں گھر واپس آگئے۔کوان لی اب بڑے اطمینان میں رہتا تھا،مجھے اس کے پاس ایک سال اور 8 مہینے ہوگئے تھے،بیٹا میرے پاس جوکچھ تھا وہ میں نے تمھیں دے دیا ہے۔میری ساری زندگی کی محنت اور میری ساری دولت یہی کچھ تھا جو میں تمھارے حوالے کر چکاہوں،میں خوش ہوں اور تم بھی کسی ظرف والے شاگرد کی تلاش میں رہنا ،، اسی طرح چراغ سے چراغ جلتے ہیں،،تمھیں واپس پاکستا ن جانا پڑے گا کوئی لینے آئے تو انکار مت کرنا،خدا نے تمھارے لیے ایک اور نعمت لکھی ہوئی ہے،ایک چیز تمھارے لیے رکھی ہے ،وہ لے لینا،یہ باتیں تو ان کی ہوتی ہیں جو جانے والے ہوں،اور چند دن بعد کوان لی چلا گیا بڑی خاموشی سے ۔وہ جیسے اسی انتظار میں تھا کہ میری تکمیل ہو اور وہ جائے، اس کی یاد میں رونے والے بہت تھے،لیکن ایک ایسی ہستی بھی تھی جو با لکل خاموش ہوگئی تھی،او ر وہ تھی لی جُوآن ۔ایک مہینے بعد وہ بھی چل بسی،شاید وہ اتنا ہی جدائی برداشت کر سکی تھی۔،لیکن جاتے ہوئے وہ سارا پیسہ جو کوان لی نے جوسلین سے لیا تھا ،وہ مجھے دے دیا۔چائنہ میں جتنے مذاہب ہیں وہ سب روح پرست ہیں،یعنی وہ روح کو اپنے آپ قائم و دائم مانتے ہیں، اور کوان لی کے چاہنے والوں کی نظر میں کوان لی آج بھی زندہ ہے،اور ان کی دعائیں سنتا ہے،میرا عقیدہ روح کے بارے میں ان جیسا تو نہیں ہے،لیکن اتنا تو میں بھی مانتا ہوں کے روح کو فنا نہیں ہے،اور جو کوان لی خوابوں میں مجھے سکھاتا تھا اور پہاڑوں کو ایک ٹھوکر سے گرا دیتاتھا وہ آج بھی زندہ ہے اور میرے ساتھ ہے۔مجھے کوان لی کے جانے کا دکھ تو بہت ہی ہوا، لیکن میں سنبھل گیا،اب میں تھا مراقبے تھے،لکھنا لکھانا تھا،لیکن میں لکھنے سے مطمن نہیں تھا،میں عالمی طور پر کچھ لکھنا چاہتا تھا،اور لکھا بھی۔ چار ماہ بعد ایک عورت مجھے ملنے آئی ،میں حیران رہ گیا،وہ جوسلین کی ایک رشتہ دار تھی، جوان لڑکی تھی،کبھی کبھار وہ جوسلین سے ملنے آجاتی تھی،اور جوسلین بھی اس سے مل لیتی تھے ،ویسے وہ ہر رشتے دار سے دور بھاگتی تھی۔تم یہاں ،؟ میں اسے دیکھ کر حیران ہوا،ہاں میں یہاں تمھیں لینے آئی ہوں،۔کو ان لی نے کہا تھا کوئی تمھیں لینے آئےتو چلے جانا،کس لیے آئی ہیں،میں پوچھے بنا نہ رہ سکا،اس نے خاموشی سے مجھے اپنا موبائل پکڑا دیا،اس میں جوسلین کی ویڈیو تھی ،اور وہ اس ویڈیو میں ایک غزل کے چند اشعار پڑھ رہی تھی،
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں
ترکِ محبت، ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں
دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں
سناٹا جب تنہائی کے زہر میں بجھتا ہے
وہ گھڑیاں کیونکر کٹتی ہیں، کیسے بتائیں تمہیں
جن باتوں نے پیار تمہارا نفرت میں بدلا
ڈر لگتا ہے وہ باتیں بھی بھول نہ جائیں تمہیں
(ظہور نظر)
جوسلین نے مجھے بلایا تھا،مجھے جانا ہی تھا۔تیسرے دن ہم لاہور پہنچ گئے ۔ تقریباً رات کے نو بجے تھے جب میں فلیٹ پہنچا۔ میں سیدھا بیڈروم میں گیا۔جوسلین کو دیکھاوہ ہڈیوں کا ڈھانچا بن چکی تھی،مجھے یقین نہیں آیا یہ وہی پھولوں جیسی جوسلین ہے۔میں اس کے پاس بیٹھ گیا،میں نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔مجھے دیکھ کر جوسلین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔کہاں چلے گئے تھے تم۔۔۔ کتنا ڈھونڈا میں نےتمھیں ۔اچھا ہوا تم آ گئے ۔میرے پاس وقت کم ہے اور تم سے بہت سی با تیں کرنی ہیں۔وہ رات میں اسی کے پاس بیٹھا رہا ۔جوسلین کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔وہ ٹمٹاتا ہوا چراغ تھی۔ ساری رات میں اسے جینے کی امید دیتا رہا لیکن وہ میری کسی بات میں نہ آئی ،مختصراً اس رات کا احوال بیان کرتا ہوں،جوسلین نے وہی لہنگا پہنا ہوا تھا جو اس نے ہماری پہلی رات پہنا تھا،اور اس کے گلے میں وہی چین تھی جو میں نے اسے گفٹ دی تھی۔ ۔۔۔۔۔پرنس آج تم پہلے سے زیادہ بھرپور نظرآرہے ہو۔یقیناً کوان لی نے تمھیں سب کچھ سونپ دیا ہے۔مجھے خوشی ہے کہ جاتے جاتے تمھاری تکمیل دیکھ لی،آج تم میرے خیالوں اور ارادوں سے کہیں زیادہ آگےچلے گئے ہو۔ پرنس میری جان صرف اسلیے اٹکی ہوئی ہے کہ میں تم سے معافی مانگ سکوں،مجھے انداز ہو گیا تھا کہ تمھیں میری مکاریوں کا پتہ چل گیا ہے ۔ میں تبھی سمجھ گئی تھی جب کوان لی نے تمھیں میرے سحر سے آزاد کردیا تھا۔تمھارے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں توخود کو بھی دھوکا دے رہی تھی،مجھے تو جانے کب تم سے محبت ہوگئی تھی۔وہی محبت جس سے میں ناآشنا تھی۔وہی محبت جو میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی،میرے لیے انسان بس کھیلنے کیلیے ہوتے ہیں۔اسی محبت نے مجھے ایسا پکڑا کہ ریزہ ریزہ کردیا ۔میں سمجھی مجھے سزا مل رہی ہے ۔لیکن جب میں نے اقرار کرلیا تو مجھے سکون ہوگیا۔تب مجھے اندازہ ہوا کہ محبت سزا نہیں ہے یہ تو جزا ہے میری کسی بھولی بسری نیکی کی۔محبت کے اقرار کے بعد مجھے پچھتاووں نے گھیر لیا۔مجھے محسوس ہوا کہ اپنے آپ سے لڑتے لڑ تے محبت کا اقرار کرنے میں بہت دیر کر دی ہے ۔دیکھو پچھتاووں اور تمھاری یاد نے میر ا کیا حال کر دیا ہے۔وہ آہستہ آہستہ بول رہی تھی۔بس تمھاری آخر دید کی منتظر تھی،پلیز مجھے معاف کر دو۔جوسلین نے ہاتھ جوڑ دیے ،آنسوؤں کی وجہ سے میرا گلا رُندھا ہوا تھا مجھ سے بولا نہ گیا ،میں نے سرہلا دیا۔مجھے آخر ی بار اپنی گود میں لے لو،میں تمھاری بانہوں میں مرنا چا ہتی ہوں،جوسلین نے انتہائی جذباتی لہجے میں کہا۔میں نے اس کے پاس بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔جوسلین نے پاس رکھی ایک فائل اٹھائی اور مجھے پکڑا دی،تم نے مجھے معاف کر دیا نہ،اس نے پھر پوچھا،ہاں جوسلین میری جان ،میرے دل سے سب کچھ دُھل گیا ہے اور صرف تمھاری محبت ہے ۔رات گئی اور صبح ہو چکی تھی ۔جوسلین مجھے محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔ وہ دیکھتی رہی،دیکھتی رہی،آخر اس کی رشتہ دار نے آگے بڑھ کر اس کی آنکھیں بندکر دیں۔ جوسلین جا چکی تھی۔اس نے سچ کہا تھا وہ بس میرا انتظار کر رہی تھی۔
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا۔
اس کے جنازے میں ا سکی برادری اور سب اس کے چاہنے والے شامل تھے۔اسےعیسائیوں کے قبرستان میں دفنایا گیا۔اسکی وہ رشتہ دار جو مجھے لینے گئی تھی۔وہ ان دنوں میرے ساتھ تھی۔اس کا نام ماریہ تھا اس نے مجھے بتایا ۔ جوسلین تمھیں دو سال سے ڈھونڈ رہی تھی ۔ ایک سال سے وہ بیمار رہنے لگی۔تب سے میں ان کے ساتھ رہتی ہوں۔کوان لی سے وہ پہلے بھی رابطہ کر چکی تھی اس کا خیا ل تھا تم دنیا میں کوان لی کے علاوہ اور کسی کہ پاس نہیں جاسکتے ۔ بیمار ہونے کے بعدبھی جوسلین نے کئی بار رابطہ کیا۔ چھ مہینے پہلے کوان لی نے کہا کہ تم اسی کے پاس ہو ۔حیرانگی کی بات ہے ہے انہی دنوں جوسلین نے خود سے تمھاری محبت کا اعتراف کیا تھا ۔اس سے پہلے وہ تم سے ناراض تھیں، تمھاری غیرموجودگی میں شکوہ کناں تھیں ۔پھر وہ اپنے احسانا ت یاد کرتی تھیں جو تم پر کیے،انہیں پتہ چل گیاتھا کہ تم امریکہ جانے والے ائیرپلین میں سوار ہی نہیں ہوئے تھے۔یہ شروع شروع کا وقت تھا آہتہ آہستہ انکو تمھاری غیرموجودگی ستانے لگی،وہ خود کو یہی ظاہر کرتی رہیں کہ انہیں تمھاری ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے خود کو مصروف کرنے کی بہت کوشش کی۔انکی دوستیاں بھی کافی تھیں۔لیکن کہیں ان ک سکوں نہ آیا۔ایک سال اسی طرح گزر گیا۔بڑی مضبوط ارادے کی تھیں،لیکن اپنے آپ سے لڑتے لڑتے بیمار رہنے لگی،بستر پر رہنے لگی، ان دنوں انہوں نے مجھے اپنے پاس بلا لیا، سارادن مجھ سے تمھاری باتیں کرتیں۔بس جیسے ہی انہوں نے اپنے آپ سے تمھاری محبت کا اعتراف کیا۔کوان لی جوسلین سے رابطہ کرتے ہیں کہ تم ان کے پاس ہو۔کوان لی نے کہا کہ جوسلین خود تمھیں لینے وہیں آجائے ۔جب جوسلین کو یہ پتہ چلا کہ تم یہیں ہو تو وہ سوچوں میں پڑ گئی کہ پتہ نہیں تم کیا کچھ کہو ۔وہ کہتی تھیں مجھے پرنس کے سامنے جانے کی ہمت نہیں ہے۔ان سوچوں نے اسے اور بیمار کر دیا،میں انہیں سمجھاتی رہی،کہ آپ ایکبار پرنس سے ضرور ملیں۔انہیں سوچوں اور پچھتاووں نے ان کی حالت مزید خراب کر دی،22 مہینوں میں پھولوں جیسی جوسلین کملا کر ہڈیوں کا ڈھانچا بن گئی،جوسلین موت کی متظر تھی اور ہر پل تمھیں یاد کرتی تھی۔لیکن اسے موت بھی نہیں آرہی تھی۔ تب اسے خیال آیا کہ وہ تم سے معافی مانگے گی،حیرت کی بات ہے پھر کوان لی نے خود رابطہ کیا ۔کہا کہ انہوں نے تمھیں سمجھایا ہے کوئی بھی آ کہ لے جائے جوسلین کی تو حالت خراب تھی اس نے مجھے بھیج دیا۔کیا؟ کوان لی نے تم لوگوں سے کب رابطہ کیا تھا؟تقریباً دو ماہ پہلے کیا تھا(میں نے اسے نہیں بتایا کہ وہ تو 4 ماہ پہلے وفات پا چکے ہیں،اس بات کا تو جوسلین کو بھی پتہ نہیں چلا)جوسلین نے مجھے جو فائل پکڑائی تھی ،اس نے اپنی ساری جائیداد میرے نام کردی تھی۔یہ فلیٹ بینک بیلنس،گاڑیاں۔جاگیر کی ہرچیز۔ایک سال سے یہ سب انتظام ماریہ سنبھال رہی تھی۔اس نے میرا ساتھ دیا۔اور تمام جائیداد کا انتظام سنبھالنے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ویسے بھی جوسلین کا لےپالک ہوتےہوئے ہر کوئی یہی توقع کرتا تھا کہ اس کی وراثت مجھے ملے گی۔کوان لی نےکہا تھا اگر کوئی تمھیں لینے آئےتو چلے جانا،وہاں بھی ایک نعمت تمھاری منتظر ہے،اور وہ نعمت یہی اربوں کی جائیداد تھی۔اس فائل میں ایک پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی تھی جو میرے اصل نام پر تھی،اس کے پیچھے ایک نوٹ لکھا ہوا تھا۔شاگرد استاد سے آگے ہی جاتے ہیں۔یہ لکھائی جوسلین کی تھی،میں نے ماریہ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے،اس نے بتایا کہ میں نے کبھی نفسیات پر مقالہ لکھا تھا وہ جوسلین نے چھپوا دیا تھا۔اسی پر مجھے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری ملی تھی۔
جوسلین ایک ایسی ناگن تھی جس کے سحر سے بچنا نا ممکن تھا۔لیکن وہ ناگن محبت کے ہاتھوں خود ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئی۔اور مجھے بھی توڑ گئی،،مجھے سنبھلنے کیلیے کچھ وقت چاہیے تھا۔ماریہ میرے ساتھ ہی فلیٹ میں تھی،اچھی جوان،خوبصورت لڑکی تھی۔ اسمارٹ تھی، 27 سال اس کی عمر تھی۔لگتا تھا اس کے گھر سے اس کا رابطہ ختم ہوگیا ہے اسی لیے ابھی تک یہیں ٹِکی ہوئی تھی۔محبت میں دھوکے والی بات تھی ۔ میں نے اسے زیادہ نہیں ٹٹولا،وہ کھانا پینا،فلیٹ کے کام،میرا خیال رکھتی تھی۔جوسلین کی وفات کے دسویں دن بعد جب میں سارا دن کی غزلیں سنتارہتا تھا۔ماریہ کمرے میں داخل ہوئی۔اس نے ایک گاؤن پہناہوا تھا،دروازے پر کھڑے ہو کر اس نے گاؤن اتار دیا،نیچے اس نے کچھ نہیں پہنا تھا۔وہ نشیلی چال چلتی ہوئی میرے پاس آئی۔اس کے جسم کے نشیب و فراز مجھے بہلانے لگے۔ماریہ نے میرے پاس آکر مجھے بھی ننگا کیا۔اور میرا عضو چوسنے لگی۔اس نے سٹارٹ اچھا کیا تھا،یہیں سے شروع کرنا چاہیےتھا۔مجھے جوش آنے لگا ۔اورجسم میں لہریں اٹھنے لگیں،لہریں طوفان بننے لگی۔میں نے ویسے بھی سنبھل جانا تھا،لیکن اس نے دوائی دی تو جلدی آرام آگیا۔چوستے چوستے اس نے میری طرف دیکھا اور میری آنکھوں میں دلچسپی دیکھ اور جوشیلے انداز میں چوسنے لگی۔ماریہ نے پتہ نہیں کیا سوچ کے یہ قدم بڑھایا تھا،یا تو وہ میرا غم بٹا رہی تھی ۔یا میری کشش سے اس کی بھوک جاگ گئی تھی۔یا وہ میرے ساتھ اپنا مستقبل محفوظ کر رہی تھی۔لیکن اس وقت مجھے کسی بات سے کوئی غرض نہیں تھی۔مجھے دلچسپی تھی تو اس کام سے جو وہ اسوقت کر رہی تھی۔ماریہ اتنی ماہر نہیں لگتی تھی، لیکن مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ماریہ نے مجھے اچھا مزہ دیا اور پھر میرے اوپر آکہ چوت کو عضو کے اوپر اچھی طرح ٹھیک کیا موری میں ٹوپی ڈالی اورآہستہ آہستہ اس پر اپنا وزن ڈال کراندر لینے لگی۔ماریہ کی چوت تنگ تھی،اور وہ اناڑی بھی لگ رہی تھی۔مجھے اس کی مدد کرنی پڑی جب اس کے اندر پورا چلا گیا تو اس نے سانس لیا،مجھے محسوس ہوا ماریہ کو درد ہوا ہے،میں پیچھے ٹیک لگا کے بیٹھا اور اس کی کمر سے پکڑ کر اسے سہارا دیا اور اس سے چودائی کروانے لگا۔کچھ دیر اسے درد محسوس ہوا جو اس کے چہرے پر دیکھا جا سکتا تھا ،پھر مزہ اسے بہانے لگا اور درد بھولنے لگا۔اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ماریہ کا جسم دلکش اور سیکسی تھا،اس کے نقش خوبصورت تھے۔سچی بات ہے یارو بعض اوقت تو لڑکی جوان ہو تو اتناہی کافی ہے۔خوبصورتی کا دوسرا نام ہی لڑکی ہے۔ماریہ اوپر نیچے ہو رہی تھی اور مجھ میں چودائی کا شوق جاگ رہا تھا۔کوان لی کے پاس رہتے ہوئے مجھے اس چودائی کے شوق نے بڑا ستایا تھا۔لیکن ایک تو مجھے کوان لی کا احترام بہت تھا اور ان میان بیوی کی محبت نے میرے قدم روکے رکھے۔ دوسرا اس سے چھپ کر کرنا مشکل تھا۔آخری چار مہینے جو میں چائنہ میں اکیلا رہا تھا تب میں نے قصبے میں سے ایک لڑکی کوپھنسا لیا تھا،لڑکی اچھی تھی ،خوبصورت تھی۔اور بھی اس میں کافی باتیں تھیں،اس نے مجھے کافی مزہ دیا۔ماریہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھی میں اس کی کمر سے پکڑ کراسے چودائی کرواتا رہا،پھر وہ تقریباً میرے اوپر ہی لیٹ گئی اور کچھ آگے پیچھے حرکت کرنے لگی،چوت کے اندر باہر ہونا چاہیے تھا اور وہ ہو رہا تھابلکہ جوش اور لذّت سے ہو رہا تھا۔پرنس مزہ آرہاہے نہ تمھیں،ماریہ نے پوچھا، ہاں یار اچھا لگ رہا ہے،،میں کوشش کرو گی تمھیں مزہ دوں اور تمھاری تنہائی ختم ہوجائے،ماریہ نئے تعلقات کی شروعات کررہی تھی۔ تنہائی ختم کر دی میری جان،اب تم روز مجھے مزہ دو گی،یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے،،ویسے بھی تمھیں دیکھ کر کون کافر خود پر قابو رکھ سکتا ہے۔ماریہ کی باتیں بتاتی تھیں کہ جوسلین نے اس سے کوئی راز نہیں رکھا،اب ماریہ پھر سیدھی بیٹھ گئی تھی اور گھوڑے پر سواری اچھی کر رہی تھی ۔۔اس کی تنگ چوت عضو کو بتا رہی تھی کہ ابھی مجھے زیادہ استعمال نہیں کیا گیا ہے،،،عضو اسے کہہ رہا تھا تم فکر نہ کرو میں تمھیں اچھی طرح استعمال کروں گا۔تمھیں نئے جہانوں کی سیر کراؤں گا،چوت نے کہا میرے محبوب نے مجھے دھوکا دیا اور سیل توڑ کے بھاگ گیا ،عضو نے کہا فکر نہ کرو میں دھوکہ نہیں دوں گا۔چوت اور عضو ملتے رہے اور رگڑ سے چنگاری نکلتی رہی۔چنگاری سے آگ بھڑکی جب خوب بھڑکی تو اس پر پانی ڈالنے کا وقت آگیا،تو ماریہ میرے اوپر گر پڑی ،پانی آگ پر پڑا ،اور خوب پڑا، ماریہ کے بعد کئی لڑکیوں آئی اور گئی ،پھر میں نے ان کی تعداد بھی یاد رکھنی چھوڑ دی۔ کوان لی کے بقول یہ خرافات بھی ایک دن ختم ہوجائیں گی ۔دولت بھی بڑھتی گئی۔اور لکھنے کا مشغلہ بھی جاری رہا۔ اپنی طرز میں دنیا یاتر ا بھی کی۔کنگفو بھی جاری تھا،لیکن ابھی تک کوئی شااگرد نہیں ملا جسے اپنی وراثت دے کر جاسکوں۔مجھے دلآویز نہ بھولی۔پھر مجھے راجو ملامیں نے دلآویز کو ڈھونڈنےکیلیے راجو کو لگا دیااسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے 2012 آگیا۔پھر وہ ملی اور ہم میں دوستی تو ہوگئی میں ابھی تک اس کے سامنے نہیں آیا تھا،وہ مجھے ساحل کے نام سے جانتی تھی۔ ایک رات میں نے جان بوجھ کر اس سے اپنے بارے میں اس کے خیالات جاننے کیلیے اسے اکسایا تو اس نے بتایا کہ اسے شہزادے سے نفرت ہے ۔وہ تو سوگئی کیونکہ اسے صبح کالج جاناتھا لیکن مجھے بکھری یادوں میں تنہا چھوڑ گئی اسی یادوں میں رات گزر گئی آنکھوں میں نیند کیا آنی وہ پلک جھپکنا بھی بھول گئیں۔ اگلی صبح جب میں ماضی کو اچھی طرح بھگت چکا تو نیند آ ہی گئی۔
یادِ ماضی۔۔ عذاب ہے ۔****
ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن قسط 14 "