Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ناگن (قسط گیارہ)

 

میں خود کو جوسلین کے خیالوں سے بہلانے لگا،،جوسلین میرا نتظار کررہی ہوگی،ہوسکتا ہے جیسے ہی آٹورکشہ فلیٹ کے دروازے پر رکے وہ باہر نکل آئے،،وہ مجھے پوچھے گی سوراخ کب اور کیسے ملا،،یقناً ا سے دیوار کے سوراخ کاپتہ ہوگا،،،اور اس سوراخ میں ہی وہ سبق لکھا ہےجو مجھے ساری عمر یاد رہے گا،،،،وہی ہوا،،
جیسے ہی آٹو رکشہ فلیٹ کے سامنے رکا،،فلیٹ کادروازہ کھلااور جوسلین باہر نظر آئی،،اسنے چپ چاپ رکشے والے کوکرایہ ادا کیا،،اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اندر لے آئی،،اندر آتے ہی اس نے دروازہ بند کیااور میرے گلے لگ گئی،،میں نے بھی اس کے گرد بازوؤں کا گھیراڈال دیا،ہم نے ایک طویل کس لی،،اور پھر بیڈروم میں آگئے،،نہالو،اس نے کہااور میں باتھ روم میں جاگھسا،،گرم پانی سےاچھی طرح جی بھر کے نہایا ،،میں روز نہانےکا عادی تھا لیکن ایکدن نہیں نہایا تھا ،اب طبیعت کوسکون آگیا،نہاکے نکلا تو جوسلین نے میرے پاجامہ اور ٹی شرٹ نکال دی تھی،،وہ پہن کر میں ایزی فیل ہوگیا،جوسلین میرے ساتھ لیٹ گئی،،دودھ دھی والا مل گیا تھا،،ایں ،،میں نے کہا کہ دودھ دھی والا مل گیا تھا ،جوسلین نے دوبارہ پوچھا ،،،ہاں مل گیا تھا،،اور بس میں کرائے کیلیے کیاکہا تھا ؟اسٹوڈنٹ ؟ جوسلین نے اگلا سوال کیا،،ہاں یہی کہا تھا میں نے مسکراتے ہوئے کہا،،،اور اگر تم بھاگ کے نہ جاتےتو مولوی دروازے میں داخل ہوتے ہوئے نہیں ملنا تھا اس طرح سنہری موقع تم نےضائع کردیناتھاجو کہ تم نے نہیں کیا،،،تو،جوسلین رک گئی،،،،،تو کیا ؟ میں نے پوچھا،،،،تو پھر سارے حربے آزما کہ کب پتہ چلا کہ یہ لڑکیاں نہیں پھنسے گی،،،اسی دن رات کو،،،،جب ان کے ساتھ کمرے میں سوئے تھے،،جوسلین شرارت سے مسکرائی،،ہاں میں نے مختصر جواب دیا،،،اور ۔۔۔۔۔دیوار میں سوراخ کا کب پتہ چلا،،اگلے دن شام کو،،،میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بتایا،،،میرے پرنس تم کامیاب ہوگئے،،اب تمھاری خوہش کے مطابق کل سے اگلا پروگرام شروع ہو جائے گا،،تو تم سمجھ گئے ہوگے کہ ہر شخص ساری دنیا سے بچا کہ بلکہ اپنے آپ سے بھی بچا کے اپنی دھلی دھلائی زندگی میں ایک سوراخ بناتا ہے ،،،جس سے وہ سیکس کا مزہ حاصل کرتا ہے ،،،بڑے بڑے شریف لوگ ،،،،،،بڑی بڑی پگڑیوں والے ،،،، بڑی بڑی ڈگریوں والے ،امیر اور غریب لوگوں کو تم انہیں اس سوراخ کے بغیر کبھی بھی جان نہیں سکو گے،،،،ہاں یہ بات میں آج صبح تمھاری طرف آتے ہوئے سمجھ گیا تھا،،،( پھر ساری زندگی میرا یہ اصول بن گیا کہ سب سے پہلے اس کی زندگی میں وہ سوراخ ڈھونڈا جائے جو اس نے ساری دنیا سے چھپا کربنایا ہوا ہے،ٹھیک ایسے ہی جیسے کمرے میں رکھا کمپیوٹر بذریعہ انٹرنیٹ اور موبائل آج کے دو بڑے سوراخ ہیں،،)پرنس ایک بات اور ہوجائے،،،جوسلین کچھ سنجیدہ تھی،،،،کیا،میں اس کی سنجیدگی دیکھ کر سمجھ گیا کوئی بہت خاص بات ہے،،تم نےاپنی ٹیچر پر بڑی ٹرائی کی،،،،،جو مجھ سے سیکھا وہ اس پر آزمایا،،لیکن اسے حاصل نہ کرسکے،،میری دل کی دھڑکن تیز ہوگئی،،آج یہ بات بھی دل پرلکھ لو کہ کسی بھی لڑکی کو اس کی مرضی کے بغیر تم کبھی حاصل نہیں کرسکتے،،،چاہے وہ تمھاری کشش کی شکار تمھیں چاہنے لگے،،چاہے تم اس کو اعضاءکو جتنا مرضی چھیڑو،،چاہے وہ دل سے کرنا بھی چاہتی ہو،،چاہے وہ تمھارے ساتھ تنہا بھی ہو،،تم اسے کبھی نہیں پاسکتے جب تک وہ خود نہ چاہے،،،تم ،،،،،کسی ،،،،،لڑکی ،،،،کو ،،،،،،،اس ،،،،کی،،،،،،مرضی،،،،کے ،،،،،بغیر ،،،،،،کبھی،،،،،حاصل،،،،،،نہیں،،،،،کر،،،سکتے،،،،،سم جھ گئے،،،وہ ٹیچر میری شاگرد تھی اور ذہین شاگرد تھی،،،مجھے پتہ تھا تمھارے منہ کوسیکس کا ذائقہ لگاہے اس کی جوانی اور حسن دیکھ کر تم اس سے چودائی کرنا چاہوگے مگر چار ،،،،سال،،،میں تم اسے حاصل نہ کرسکے،،،چار سال کافی ہوتے ہیں میں نے جوسلین کی بات سمجھتے ہوئے کہا،،،یہ بھی غنیمت ہے کہ تم نے کبھی ادھر ادھر ٹرائی نہیں کی،،ویسے بھی ان چار سالوں میں تمھارے پاس اتنا وقت نہیں تھا،،لیکن اب تمھارا داخلہ میں نے ،،،،،،یونیورسٹی میں کروا دیا ہے،،،سمجھانے کی ضرورت نہیں ،تم سمجھتے ہوگے،،،میرے جذبات کا خیال رکھنا،،،،تمھارا جو ٹیسٹ میں نے لیا ہے وہ بھی کچھ سوچ کر لیاہے ایک تو تم نے اس طرف کبھی سوچنا نہیں تھا دوسری طرف تمھیں ان کے بارے کچھ جانتے نہیں تھے ،،،اور تیسری طرف وہ سوراخ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی تھیں ،،،اور میں چاہتی تھی کہ تم یہ سوراخ ڈھونڈو ،،،لیکن وہ صرف ایک ٹیسٹ تھا ،،،اور اب نازیہ کا خیال دل سے نکال دینا،،،مجھے جھٹکے پر جھٹکے لگ رہے تھے،،،تم نے کہا تھا تمھیں لڑکیوں کو سمجھنے اور گھیرنے میں ماسٹر بنا دوں اور میں نے تمھیں چار سالوں میں دو کلیے بتا دیئے ہیں(اس سلسلے میں سب کچھ سکھا کہ پھر یہ دو کلیے بتائے،،شاید ہی کوئی ہو جو وہ سب سیکھے بغیر ان دو کلیوں کی اہمیت سمجھ سکے،،)،،،اب تم اس میں استاد ہو،،تم ساری رات کے جاگے ہوئے ہو،،بہتر ہے اب تم آرام کرو،،،تم نے کشتہ مروارید بھی نہیں لیا،چار سالوں میں یہ تمھارا پہلا ناغہ ہے،،آئندہ خیال رکھنا،،،میں ناشتہ بنانے لگی ہوں ،،،ناشتہ کر کے سونا،،اوکے جوسلین میری جان،،،،،جوسلین مسکراتے ہوئے ،کچن میں چلی گئی،،،اسے تو ٹیچر کا بھی پتہ تھا،،،نازیہ کا بھی پتہ ہے،،یہ بھی نہیں پوچھ سکا کے اسے اس دیوار کے سوراخ کاکیسے پتہ چلا،،،اور میں نے تو ارادہ کیا تھا کہ اب اس سے نگینہ والی بات کروں گا اور جوسلین کی دولت اور اختیارات کے ذریعے نگینہ کوڈھونڈ کر دلآویز کوپھنسا کر چودوں گا ،،اور اپنا انتقام پورا کروں گا،،لیکن یہاں تو یہ بھی ہوتا نظر نہیں آرہا،،،ظاہر ہے وہ دلآویز کو کیسے برداشت کرے گی،،ٹیسٹ میں تو کرلیا تھا،،دل نے سوال کیا،،،استادی شاگردی میں وہ ایک امتحان تھا،،جو بات اس نے سمجھائی ہے وہ میں ساری زندگی نہیں سمجھ سکتا تھا،،تمھاری نگرانی بھی تو کرواتی ہے،،خود ہی تو کہ رہی تھی کہ چار سالوں میں ادھر ادھر کہیں منہ نہیں مارا،،،فی الحال خاموشی ہی بہتر تھی،،کیونکہ وہ میری استاد تھی۔انہیں خیالوں میں تھا کہ جوسلین ناشتہ لے آئی ۔ناشتہ کر کے میں سو گیا،،اگلے دن سہہ پہر کا اٹھا ،،،جوسلین آچکی تھی،،اور کھانا بنا رہی تھی،،میں نے جا کر اسے پیچھے سے ہی گلے لگا لیا،،،اور اسے چومنے لگا،،،جوسلین نے میری محبت کا بھرپور جواب دیا،،میں نے پاجامہ نیچے کیا،،تو جوسلین نے مسکراتے ہوئے چولہا بندکیا،،ا س نے پروقار میکسی پہنی ہوئی تھی ،،میں نے اسے اوپر کیا،میں جانتا تھا جوسلین گھر میں ہو تو نیچے کچھ نہیں پہنتی تھی ،،،جوسلین نے کمر ٹکا کر ایک ٹانگ کھول لی اور میں نے اس کی چوت میں عضو داخل کر دیا،، دو دن تم نہیں ملے تو براحال ہوگیا تھا،،،میرا تو دل کرتا تھا کہ جیسے ہی تم آئے ہم چودائی کریں گے،،لیکن تم کافی تھکے ہوئے تھے،،اسلیے میں نے دل پرپتھر رکھ لیا،جوسلین فراق کی باتیں کرہی تھی جبکہ اب وصال تھا اور میں نے اس کا دھیان وصال کی طرف لگایا تو وہ سب بھول گئی،،،پندرہ منٹ بعد ہم فارغ ہوگئے،،،اب جوسلین نے نہانا ضرور تھا ،،بلکہ مجھے بھی نہانا پڑنا تھا،،،بڑی نفیس طیعت تھی اس کی،،نہا کہ کھانا کھا کہ کافی لیکر ہم ڈرائنگ روم میں آبیٹھے ،،،اب بتا بھی دو،کیا،،جوسلین نے پوچھا ،،میں نے اس کی طرف دیکھنا جاری رکھا،،،تمھارا مطلب ہے کہ مجھے دیوار کے سوراخ بارے کیسے پتہ چلا،،تو میں ان کے گھر گئی تھی ایک دفعہ ،،،،،نازیہ اوپن یونیورسٹی سے تھرڈ ایئر کر رہی ہے،،، جس یونیورسٹی میں پڑھاتی ہوں وہاں نازیہ اپنی اسائنمنٹ دینے آئی تھی،،جب اس نے اپنی ٹیوٹر کو اسائنمنٹ دی تواس وقت میں بھی وہیں تھی ۔میں اسے دیکھ کہ دنگ رہ گئی ،کیالڑکی تھی،،ویسے اس نے پورا پردہ کیاہوا تھا،لیکن اس وقت بس اس کا چہرہ دیکھا تھا ،،،ساتھ اس کا باپ تھا۔میں باتوں باتوں میں اس سے نتھی ہوگئی ،،،اور باتیں کرتے ہم باہر آئے تو میں نے ان کو آفر کی میں بھی نکل رہی ہوں ان کو بھی چھوڑ دیتی ہوں اسطرح میں ان کوچھوڑنے ان کے گھر بھی گئی ،،وہیں انہوں نے مجھے چائے کی آفر کی ،میں تو یہی چاہتی تھی،،مولوی تو ہمیں چھوڑ کر مسجد چلا گیا اور میں دو گھنٹے ان کے پاس رہی،،بس وہیں ان کا مزاج،عادات،،نفسیات،،اور خیالات کا پتہ چلا،،، نازیہ اپنے کمرے میں لے گئی وہاں میخ اور شیشہ بھی دیکھا میخ مجھے کچھ بڑی لگی،،اور دوسرے کمرے میں چائے پینے بیٹھے وہاں میخ کی نکلتی نوک بھی دیکھی ،،نازیہ ،رافعہ ،سعدیہ،اور شازیہ کی آنکھوں میں چودائی کی پیاس بھی دیکھی تو میں ساری بات سمجھ گئی،،آپ نازیہ کےساتھ کیوں گئی،،،میں پوچھے بناء نہ رہ سکا،،،میں کبھی لیسبن بھی کرتی تھی، اب کرنا ورنہ تو کچھ نہیں تھا بس ٹھرکا ٹھرکی میں چلی گئی ،،،جب سے تم ملے ہو،،سب کچھ چھوٹ گیا اور اب زندگی میں سکون ہی سکون ہے،،وہاں ان کاماحول دیکھ کر اور ساری بات سمجھ کر میں نے اس بات کو استعمال کرنے کافیصلہ کیا،،،اور تمھیں وہاں بھیج دیا،،یہ ہے کل کہانی،،جوسلین نے مجھے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا ،،،،جوسلین رافعہ کو دیکھ کر مجھے کچھ افسوس ہوا ہے کہ میں نے ان لڑکیوں کو سیکس کی راہ پرلگا کر اچھا نہیں کیا ہے ،،،رات سے کھٹکتی بات کو زبان پر لانے سے روک نہ سکا،،پرنس،،میری بات سنو،،یہ لڑکیوں تم سے پہلے سیکس کی راہ پر لگ چکی تھی،،،اور رافعہ نے آج نہیں تو کل اس رستے میں آنا ہی تھا،اس لڑکی کوروکنا مشکل تھا،،،اور تم ایک بات بتاؤ ،،کہ جب وہ سوراخ میں دیکھ رہی تھی تو تم نے ان سے کیا کہا،،میں نے کہا تھا جو تم دیکھ دیکھ کہ ترس رہی ہو وہ میں تمھیں ابھی دے سکتاہوں،،جوانی ضائع کرلو گی مگر ہاتھ کچھ نہیں آئے گا،،،ساتھ ہی میں ننگا ہو کر ان کے پاس گیا تھا،اس سے جب میراعضو لگا اور میں نے مموں کوچھوا تو وہ کچھ کہہ ہی نہ سکیں اور چودائی شروع ہو گئی،،میرے ننگے جانے پر جوسلین کافی محظوظ ہوئی ،،،،پرنس تم اگر یہ کہتے کہ اگر تم سب نے چودائی نہ کروائی تو تمھارے ابا کو بتا دوں گا تو پھر یہ غلط ہونا تھا یہ بلیک میلنگ ہو جانی تھی لیکن تم نے ایسا نہ کیا،،،،،تم نے ان کی مرضی سے کیا ہے ،،اسلیے یہ کوئی غلط کام نہیں ہوا،،یہ ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا،، کوئی ایسا جو ،ان کا راز جان جاتا۔۔اس نے یہ کر دینا تھا ۔یہ ہونا ہی تھا ،،اور ایک بات سمجھ لو کہ اگر تم ان کوبلیک میل کرتے تو تم نے اس ٹیسٹ میں فیل ہوجانا تھا ،،،لیکن مجھے یقین تھا کہ تم ایسا نہیں کرو گے،،کیونکہ یہ تمھاری فطرت میں نہیں ہے،،،شاید تمھیں زندگی میں بہترین سبق مل چکا ہے جس کی وجہ سے تم کسی سے اب زندگی بھر زبردستی نہیں کرسکتے۔۔میری آنکھوں کے سامنے نگینہ کاچہرہ آگیا ،،لیکن میں نے اس کے تاثرات چہرے پر نہیں آنے دیئے،،،جب میں نے اسے رافعہ کی چودائی کابتایا تو جوسلین خوب ہنسی،،،واہ تم نے رافعہ کو مزہ چکھادیا،،ایک بات کہنا چاہتا ہوں ،،ہاں کہو،، اس طرح اٹکنا کب سے شروع ہوگئے تم ،،،
میں چاہتاہوں تم ایک چکر مولوی کے گھر لگاؤ،،،اور ان لڑکیوں کو پریگنٹ ختم کرنے کیلیے کسی طریقہ سے ٹیبلٹ دے آؤ،،،،جوسلین نے غور سے میری طرف دیکھا،،،ٹھیک ہے میں یہ کام کر دوں گی ،،وہ بھی صرف اسلیے کہ تم ان کے خیالات ذہن سے نکال دو،،جوسلین نے مجھے جتایا،،،رقابت میں عورت اپنا سارا جینئس پن ختم کردیتی ہے،،عورت آخر عورت ہی ہوتی ہے،میں نے دل میں سوچا،،، ٹھیک ہے کل سے کام شروع ،،جوسلین نے جیسے اعلان کیا،،،میں پہلے دن یونیورسٹی گیا،،، جوسلین یہاں شروع سے پڑھا رہی تھی،،یہاں میں نے جوسلین کی علمی لحاظ سے عزت اور قدردانی دیکھی،،،بلکہ یہیں کیا پورے شہر میں ایک بہترین پروفیسر کے لحاظ سے اس کو مانا جاتا تھا،،پہلے دن ہی یونیورسٹی میں مشہور ہوگیا کہ جوسلین کے لے پالک بیٹے نے یہاں داخلہ لے لیاہے ،لیکن میں نے اسے کبھی زندگی میں ماں نہیں کہا نہ لوگوں کے سامنے اور تنہائی میں تو ممکن ہی نہیں تھا،،میں یہاں جوسلین کی ہی کلاس میں تھا،،اس سے بہتر شہر بھر میں نفسیات دان اور کون ہونا تھا،،دن گزرنے لگے،،گھر میں بھی جوسلین مجھے ٹیوشن پڑھانے لگی، نفسیات تو میں نے پچھلے سال ہی شروع کردی تھی۔اب اس سے ماسٹرز کرنے کا ارداہ تھا۔۔دوسری طرف اب سنجیدہ موضوعاتی کتابیں پڑھنے پر لگا دیا ،،،،،جیسےمختار مسعود کی آوازِ دوست ،قدرت اللہ کا شہابنامہ اور اشفاق احمد کی زاویہ سے میری ابتداء ہوئی اور پھر پیچھے مڑ کے نہ دیکھا----اور ساتھ ہی جوسلین نے مجھے شاعری پڑھنے کی طرف لگایا،،اس سے پہلے نثری اوردو ادب کا خلاصہ تو وہ مجھے کھول کے پلا چکی تھی،،اور یہ خلاصہ بھی اچھا خاصہ تھا،،میں اس سے ٹیوشن پڑھ رہا تھا کہ جوسلین اپنے مخصوص انداز میں لیکچر دینے لگی،پرنس،،اظہار کیلیے انسان نے سب سے پہلے اشاروں سے باتیں کرنا شروع کیا،، پھر اس میں تصویری زبانیں آگئی،،،،پھر اسے زبان کا شعور ہوا تو بول کرباتیں ہونے لگی،،مجسمہ سازی ،،مصوری ،،بھی اظہار کیلیے ہی اختیار کی گئی،، انسان جب شعور کی منزلیں طے کرتا ہوا لکھنے لگا تب نثری ادب آگیا،،اور شاعری آگئی،موجودہ دور میں الیکٹرونک میڈیا آیا تو اس میں فلمیں اور ڈرامے بھی اظہار کا ایک ذریعے ہی بنے،،کیونکہ یہ زبان فی زمانہ سب سے زیادہ سمجھی اور بولی جاتی ہے،،،،لیکن معلوم تاریخ سے لیکر آج تک اپنے جذبات کے اظہار کیلیے اپنے مدعا بیان کرنے کیلے شاعری سے بہتر ذریعہ سامنے نہیں آیا،،جو بات تم ایک پوری کتاب میں کہتے ہو وہی ایک شعر میں کہی جا سکتی ہے ،،اس سے تم شعر کی معنویت اور گہرائی کا اندازہ کرسکتے ہو،کہ کہاں ایک کتاب اور کہاں ایک شعر،۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں شاعری صرف محبت پر ہی کی جاتی ہے بلکہ محبت کو ہی شاعری سمجھا جاتا ہے،،اگر ہمارے شاعر ہجر وصال سے آگے کی سوچتے تو آج یہ قوم بھی عاشقی معشوقی ایک شوق کے طو پر کرتی ہوتی نہ کہ کُل وقتی کرتی ہوتی،،غو ر کرو ،،کیا مغربی اقوام سیکس نہیں کرتی ہم سے زیادہ سیکس کرتی ہے،،کیا وہ جواء نہیں کھیلتے کیا وہ شراب نہیں پیتے ،ہم سے زیادہ پیتے ہیں،لیکن وہ ترقی یافتہ اور ہم پس ماندہ ہیں،،اس لیے کے جو جزوقتی ہونا تھاوہ کل وقتی ہوگیا اور جوکل وقتی ہونا تھا وہ جز وقتی ہوگیا، عشقیہ شاعری کیلیے تو یہ ایک شعر ہی کافی ہے
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے
یا
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ ،
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
لیکن جب ہم زمانے کی گہرائیوں کو سمجھتے ہیں تو فیض احمد فیض ہمیں بتاتا ہے کہ
مجھے سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی وصل کی راحت کے سوا
دونوں قسم کی شاعر ی میں فرق تم نے دیکھ لیا ہے اب
شاعری پڑھنا مگر ایک دائرے میں بند مت ہوجانا،،یہ نہ ہو کہ وہیں گھومتے رہو،،،یہ جو کتابیں ہیں نہ ،یہ ہی سوچ کو بالغ کرتی ہیں،،جیسے جسم کی عمر ہوتی ہے نہ،،ایسے ہی ذہن کی بھی عمر ہوتی ہے،،بہت سے لوگ چالیس سال کے ہو جاتے ہیں،،لیکن وہ ذہنی طور پر بچے ہی ہوتے ہیں،،جب تم مجھے ملے تھے تم تب بھی ذہنی طور پر اچھے تھے لیکن اب توبلوغت سے بہت آگے نکل چکے ہو،،باقی کا کام شاعری کرے گی،،،،اب تم نفسیات میں ماسٹر کر رہے ہو،،لیکن درحقیقت تمھارا یہ وقت ماسٹرز سے آگے کا ہے پی ایچ ڈی کا ہے اب تم اپنے سیکھے ہوئے ہر فن میں ڈاکٹر بنو گے،،،ٹھیک ہے یہی تم چاہتے تھے نہ،،،میں نے سنجیدگی سے سر ہلا دیا،،اس طرح میرا یہ سفر شروع ہوچکا تھا۔۔سب سے زیادہ مجھے خوشی مجھے اسو قت ہوئی جب میرا مارشل آرٹ کا استاد آیا،،یہ ایک چائنیز تھا،میں اپنے استاد کا یہاں نام عظیم ترین استاد لکھوں گا۔ عظیم استاد بڑھاپے کی طرف مائل تھا اور درمیانے قد کا تھا،،پہلے پہل میں بس اتنا خوش ہوا کہ وہ چائنیز ہے اور کچھ اچھا ہوگا،،لیکن جب اس نے مجھے اپنا آپ ظاہر کیا، تو میں حیران رہ گیا،،،وہ ان استا دوں میں تھا جو خاص الخاص ہوتے ہیں،پہلے پہل میں یہی سمجھا کہ یہ جوسلین کی دولت کا کرشمہ تھا کہ ایسا استاد میری قسمت میں آیا، جوسلین کے بینک بیلنس کا خود اسے نہیں پتہ تھا وسیع و عریض جائیداد سے ملنا والا منافع جمع ہوتا جا رہا تھا ،اور جوسلین کو دولت اڑانے کا کوئی شوق نہیں تھا،اس نے میرا شوق پورا کرنے کیلے انٹرنیٹ پر دنیا کے جانے مانے ماشل آرٹ استاد ڈھونڈے ،2004 میں پاکستان میں انٹر نیٹ اتنا عام نہیں تھا بلکہ موبائل نیا نیا شروع ہوچکا تھا ،پھر وہ فون پررابطے کرنے لگی،، وہ یہ کام پچھلے چھ مہینے سےکر ر ہی تھی ان گنت دولت کی وجہ سے وہ چاہتی تھی کہ دنیا کا بہترین استاد حاصل کرے ،اس لیے وہ بڑے ناموں سے رابطہ کرتی رہی،،لیکن وہ سب یہاں آ کر ٹریننگ دینے سے انکاری تھے اور جو سلین مجھے کہیں بھیجنا نہیں چاہتی تھی ،،،بے شک جوسلین کی آفر ناقابل یقین تھی ،لیکن کوئی بھی اپنا بنا بنایا سیٹ اپ ،برسوں کی محنت چھوڑ کر آنے کیلے تیار نہیں تھا،چوٹی کے ماسٹرز سے جب بار بار رابطہ کیا جانے لگا اور اپنی واقفیت سے ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تو وہ جان چھڑانے لگے ،اور انہوں نے واضح انکار کی بجائے۔۔زونگینگ کوانلی ۔۔ کا نام لے دیا



ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن (قسط گیارہ)"