Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ناگن (آخری قسط)

 


دلآویز تقریباً تیار تھی اس نے مجھ سے ملنے کی خود خواہش کر دی تھی لیکن رستے میں نفرت کی دیوار کھڑی ہوئی تھی ۔اور اس نفرت کا مجھے کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا ۔ چودنا تو دور کی بات میں تو اس کے سامنے بھی نہیں آسکتا تھا ۔ دن رات میں اس سے نفرت نکالنے کا سوچتا دلآویز سے جو معلومات اکٹھی کی تھیں ،ان کا ازسرِ نو جائزہ لیتا ۔ہر بات کا تجزیہ کرتا ۔ لیکن کوئی حل نہیں مل رہا تھا ۔ اب دلآویز ملنے کا اصرار کرنے لگی تھی۔ اس نے مجھے اپنی تصویر ایم ایم ایس کر دی اور میری تصویر مانگتی تھی ۔دلآویز کا جو برین واش اس کا ماں نے سالوں میں کیا تھا میں نے وہ مٹا دیا تھا اور دلآویزکی نئی شخصیت بنا دی تھی ،میرا برین واش اس کے جذبات اور احساسات سے ملتا تھا میرا برن واش اس کے مزاج اور حساسیت کے مطابق تھا ۔ میری باتیں وہ تھیں جو اس کی عمر کی امنگوں کے مطابق تھیں ، اب نگینہ چاہتی بھی تو کچھ نہیں کر سکتی تھی ،اب نگینہ کو گھر میں مکمل باغی لڑکی کا سامنا تھا ،اور دلآویز اپنی مرضی کی زندگی گزار رہی تھی ۔ کہتی تھی تم اصل میں میرے لیئے ساحل ثابت ہوئے ہو، نگینہ یہی سمجھ رہی ہوگی کہ ،دلآویز کو اس کے رویئے نے باغی بنا دیا ہے۔ نگینہ کو پتہ نہیں تھا کہ شہزادہ واپس آچکا تھا ۔ میں اکثر دلآویز کی تصویر موبائل میں دیکھتا رہتا ۔ دلآویز اپنی ماں نگینہ کی جوانی تھی ۔ سرخ و سپید رنگت ۔گول مٹول چہرہ ۔بڑی بڑی نیلی آنکھیں ۔اور ان نیلی آنکھوں میں ایک جہان آباد تھا ۔بلاشبہ دلآویز اپنی نام کی طرح دلآویز ہی تھی اپنی ماں کی کاپی ہونے کے باوجود دلآویز نگینہ سے کئی گنا زیادہ خوبصورت تھی ۔ جانے کتنی دیر دلآویز کی تصویر دیکھتا رہتا اور سوچتا رہتا ۔ اسی دوران وہ تصویریں بھی دیکھ لیتا جو راجو نے کھینچ کے دی تھیں ، کیونکہ یہ ایک ہی فولڈر تھا جس میں صرف دلآویز کی تصویریں ہی پڑی تھیں اس میں ایک تصویر اس لڑکے کی تھی جو مجھ سے پانچ چھ سال بڑا تھا ۔اور نگینہ اور دلآویز کے ساتھ بازار گیا تھا وہ مجھے جانا پہچانا لگا تھا ،لیکن میں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا کیو نکہ میں ان کے برادری کے کئی چہروں سے شناسا تھا ۔آج بھی عادتاً دلآویز کی تصویریں (دلآویز روزانہ اپنی تصویر بھیجنے لگی تھی) دیکھتے ہوئے اس لڑکے کی بھی تصویر بھی سامنے آگئی۔ بےخیالی میں اس کی تصویر دیکھی اور آگے کرنے لگا تو ذہن میں ایک جھماکا ہوا ۔یہی تو تھا اس رات نگینہ کو چودنے والا ۔ بے شک اس کی عمرکی وجہ سے اس میں تبدیلی آئی تھی ،مگر یہی تو تھا جس کی وجہ سے میری زندگی تبدیل ہوگئی ہوتھی ۔ میں اس چہرے کو کیسے بھول سکتا تھا ،،،، نگینہ کے ساتھ یہ بھی برابر کا مجرم تھا ۔ میں بے اختیار اٹھ بیٹھا ۔ میرے یادوں میں نگینہ ہی چھائی رہی اور یہ پس منظر میں چلا گیا تھا ۔ مجھے یقین نہیں آیا کہ اس کا نگینہ سے ابھی تک تعلق ہے ۔ اس کا مطلب تھا نگینہ کا اس سے بڑا گہرا یارانہ تھا ۔ مجھے راجو کی یاد آئی اس کا نمبر ملانے لگا تھا کہ پھر ایک خیال آیا تو رک گیا یہ بات تو اب دلاویز بھی بتا سکتی تھی اور بہتر بتا سکتی تھی ۔رات کو جب دلآویز سے بات ہوئی تو میں نے کہا ۔ کئی دنوں سے میں تمھیں چھپ چھپ کے دیکھ رہا ہوں ،کئی بار تمھارے گھر آچکا ہوں ۔ اچھا تو مجھے کیوں نہیں بتایا میں بھی تمھیں ایک نظر دیکھ لیتی،دلآویز نے بڑے لاڈ سے کہا۔تم میرے سامنے کیوں نہیں آتے ساحل پلیز اپنی ایک تصویر ہی بھیج دو ۔دلآویز نے پھر وہی بات چھیڑ دی ۔یار دلآویز ،میں نے دو تین بار تمھارے گھر ایک لڑکے کو آتے جاتے دیکھا ہے کون ہے وہ میں نے رقیبانہ لہجے میں کہا ۔۔ وہ میرا منگیتر ہو گا ،تمھیں بتایا تھا اپنے منگیتر کا میں نے ، مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگتا ،دلاویز نے مجھے جتانا مناسب سمجھا ۔ ،دلآویز کی بات میرے اندر دھماکے کرنے لگی ،لیکن کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے میں تصدیق کر لینا چاہتا تھا ۔میں تمھیں اس کی تصویر بھیج رہا ہوں ۔دیکھ کربتاؤ کون ہے یہ ،میں نے اپنے لہجے میں حسد سموتے ہوئے پوچھا ،تا کہ دلآویز کچھ اور نہ سوچے،فوراً تصویر ایم ایم ایس کر دی۔تصویر دیکھتے ہی دلآویز کی آوازسنائی دی ،،،،،، ہاں یہی میرا منگیتر ہےدلآویز کی بات نے مجھے کسی گہری گھائی میں پھینک دیا ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نگینہ کا شہروز اور دلآویز کا شہروز ایک ہی تھا ،
نگینہ کہ خیالات تو بڑے سخت تھے اس بارے میں ۔بڑی غیرت مند بنتی تھی ۔ نگینہ کی بات آج بھی میری یادوں میں نقش تھی
شہزادے میں بے غیرت نہیں ہوں ،کہ جس لوڑے پہ ماں چڑھتی ہے اسی لوڑے پر بیٹی کو بھی چڑھا دوں ۔ ۔۔
دلاویز کی آواز خیالوں سے واپس مجھے دنیا میں لے آئی۔کیا بات ہے ساحل تم چپ کیوں ہوگئے ؟ رقیب کی تصویر کو دیکھ کے چپ ہی لگنی تھی ۔میں نے پہلی بار دلاویز سے واضح اظہار کیا۔ اب ایکشن کا وقت آگیا تھا ۔ تم نے تو بتایا تھا کہ یہ تمھارے ماموں کا بیٹا ہے ۔ اپنی یاداشت کے مطابق میں نے دلآویز سے پھر تصدیق کی ۔ ہاں یار ماموں کا ہی بیٹا ہے ۔میرے بچپن کا منگیتر ہے ۔میں تو مہروز کو تمھارا منگیتر سمجھ رہا تھا تم نے بتایا تھا یہ تمھارے ماموں کا بیٹا ہے (یہ وہی لڑکاتھا جو دلآویز کو یونیورسٹی چھوڑنے گیا تھا اور میں نے ان کا پیچھا کیا تھا )۔مہروز تو شہروز کا چھوٹا بھائی ہے ،اور شہروز میرا منگیتر ہے شاید میں اس کی وضاحت نہیں کی ہوگی اسلیے تمھیں غلط فہمی ہوگئی ۔ویسے تمھیں آج کیا ہو گیا ہے ، عجیب طرح سے باتیں کر رہے ہو ،نہیں کچھ نہیں جان ،بس ایسے ہی رقیب پھر رقیب ہوتا ہے ۔میں نے چاہت کے اظہار میں ایک قدم اور بڑھا دیا ۔واہ آج تو بڑے رومانٹک ہو رہے ہو ،مگر ملنے سے ڈرتے ہو ۔ملوں گا اب ہم ضرور ملیں گے۔ سچ میں ؟ دلاویز خوشی سی چلائی ۔ بتاؤ نہ کب ملیں گے ؟کیسے ملیں گے کہاں ملیں گے؟ پلیز جلدی کرو نہ ۔میں تمھیں سارا پروگرام بنا کے بتاتا ہوں تا کہ تمھاری کڑی نگرانی کرنے والی کو بھی کوئی شک نہ پڑے اور ہماری ملاقات بھی ہو جائے ۔ہماری اور باتیں ہونے لگی ۔ اور میں نے آج کال جلدی بند کر دی ۔ میرے اندر جیسے آگ لگی ہوئی تھی ،نگینہ کے سامنے آنے کا وقت آگیا تھا ۔کتنی پارسا بنتی تھی ،واہ نگینہ تمھیں ملا بھی تو بھائی کا بیٹا ۔ ساری دنیا کے مرد کیا مر گئے تھے ۔ اس کا مطلب تھا کہ نگینہ کو مجھ سے ضد کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس نے دلآویز اپنے اصل شہزادے کو سونپ دی تھی ۔ خیالات آتے گئے ۔ میں نے فوراً راجو کا نمبر ملایا ۔یس باس راجو نیند سے اٹھا تھا ۔رات کافی گہری ہوگئی تھی ۔ راجو تمھیں یاد ہو گا تقریباً دو مہینے پہلے تم نے دلآویز اور اس کی ماں کی تصویر بھیجی تھی ۔یس باس یا ہے راجو کی آواز سے فوراً نیند غائب ہوگئی ،اس کے ساتھ ایک لڑکے کی بھی تصویر تھی وہ تمھارے پاس ہے کہ ڈیلیٹ کر دی ؟سوری باس وہ تو میں نے آپ کو دینے کے بعد ڈیلیٹ کر دی تھی راجو نے مایوسی سے کہا ،آپ حکم کریں باس میں آپ کو دوبارہ لا دوں گا ۔ نہیں اس کی تصور تمھیں بھیج دیتا ہوں ،غور سے اسے دیکھ لو ،مجھے شک ہے دلآویز اور اس کی ماں آپس میں چودائی کرتے ہیں ۔ مجھے ان کے سیکس کی ویڈیو چاہیے ۔ جو مرضی کرو جتنا مرضی خرچہ کرو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے ۔مجھے ان کی ویڈیو چاہیئے ۔ مل جائے گی باس بس ان کی ٹائمنگ اور ٹھکانے کا پتہ لگنے دیں کہ یہ کہاں ملتے ہیں ،اور پھر ویڈیو آپ کے پاس ہو گی۔ٹائمنگ اور ٹھکانہ میں بُھولا نہیں تھا۔راجو ان کا ٹھکانا ان کا گھر ہی ہے اور ٹائمنگ وہ ہے جب دلاویز یونیورسٹی چلی جاتی ہے اور سرور خان جنرل سٹور پر چلا جاتا ہے ۔ روزانہ نہیں تو ہر دوسرے تیسرے روز ضرور ملتےہوں گے اور ایک بات یہ بھی ہے اس دوران ان دونوں کے سوا گھر میں کوئی نہیں ہوتا ہو گا،وہ دونوں تو اپنے کام میں مگن ہوں گے ،جب بھی شہروز آئے تم بھی گھر میں گھس جانا کیونکہ لاک کھولنا تمھارے لیے کوئی مسلہ نہیں ہے پھر ویڈیو بنا لینا ، میں نے راجو کو تفصیل سے سمجھایا ۔سمجھ گیا باس ،اب آپ بے فکر ہوجائیں ۔ٹھیک ہے راجو مجھے جلدی رپورٹ چاہیئے ۔ اور ڈرنا نہیں ،کچھ ہوا تو میں سنبھال لوں گا ۔ میں نے کال بند کر دی ۔عموماً میں اس وقت سو جاتا تھا مگر آج نیند نہیں آئی ،بے چینی سی کوئی بے چینی تھی ۔جاگتے جاگتے صبح ہوگئی ۔ مجھے راجو کا انتظار تھا ،راجو کو کم از کم تین چار دن تو لگیں گے ہی ۔ اب کچھ طبعت ڈھیلی ہوئی اور میں سو گیا ۔ پھر شام کو ہی اٹھا ۔ انتظار کروا ،کر واکے آخر چوتھے دن راجو نے ویڈیو لا دی دیکھنے کے بعد ویڈیو میں نے اپنے موبائل میں محفوظ کر لی ۔
راجو تم نے ایک بار پھر زبردست کام کیا ہے ،مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے میری باتوں پر عمل کیا ہے تم میں کافی تبدیلیاں نظر آرہی ہیں ،دیکھ لو لباس اور انداز بدلنے سے سڑک چھاپ اتر گئی ہے اور تم کسی اچھے گھرانے کے نوجوان لگ رہے ہو،آنٹیوں کو چھوڑ دیا ہے تم نے کہ نہیں ؟ میں نے اس سے یہ بات پوچھنی ہی تھی ۔چھوڑدیا ہے باس ۔راجو کی آنکھیں کہ رہی تھیں کہ وہ سچ بول رہا ہے ۔دوبئی چوک تو نہیں جاتے۔وہاں بڑی بڑی کاریں آکر رکتی ہیں اور بیگمات اپنی پسند کے بچے کو ساتھ لے جاتی ہیں،جو وہاں اسی مقصد کیلیے آتے ہیں،بیگمات یا تو پیسے دیکر اسی صبح واپس بھیج دیتی ہیں اور اگر پسند آ جائے تو اس کا ماہانہ لگا دیتی ہیں میں نےراجو کو پرکھنے کیلیے اس جگہ کا تفصیلی بتایا ،لیکن راجو کی آنکھوں میں کوئی دلچسپی نظر نہ آئی،،شاید اس کے دل میں میری باتیں اثر کر گئی تھیں۔پھر بھی میں آسانی سےاعتبار نہیں کرسکتا تھا ،اسے میری آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں ،ٹھیک ہے راجو ، اب اپنی گلی اور رشہ دار چھوڑ کہ کوئی لڑکی دیکھو، کوئی ایسی لڑکی جو تمھاری سمجھ کے مطابق سیکس کرنا چاہتی ہو، ایک بات کبھی نہیں بھولنا ہمیشہ یاد رکھنا ، ہر لڑکی پر لائین نہیں مارتے ۔صرف اس پر ٹرائی کرتے ہیں جو سیکس کر چکی ہو یا سیکس کرنا چاہتی ہو۔لڑکی کے منہ پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ کیا چاہتی ہے ۔ لڑکی کی چال ڈھال ،مزاج ،انداز ،آنکھیں ،آنکھوں میں سب کچھ لکھا ہوتا ہے ۔ہر چہرے پر ایک چھاپ ہوتی ہے ۔ہر پرسنالٹی کا ایک تاثر ہوتا ہے ۔ جیسے فرسٹ امپریشن اِز لاسٹ امپریشن کہتے ہیں نہ یہی ہر پرسنالٹی کا تاثر ہوتا ہے ؟ بس چہروں کو پڑھنا سیکھ لو اور پھر مزے ،جس پر ہاتھ ڈالو گے تمھاری گود میں آگرے گی ۔ ٹھیک ہے ،فی الحال اتنا ہی ۔تم پھر کبھی آنا تمھیں فیس ریڈنگ کے بنیادی پوائنٹ سمجھاؤں گا ۔ساتھ میں اس ویڈیو کے لانے کی کہانی بھی سنوں گا۔اوکے باس میں چلتا ہوں ۔ بائے ۔راجو کے جانے کے بعد میں نے جوش میں فوراً دلآویز کو فون کیا ۔یہ میرا ،اسے دن کو پہلا فون تھا۔دلآویز نے کال ڈراپ کر دی ۔ فوراً اس کا میسج آیا ، ابھی بات نہیں ہو سکتی میسج کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کل گھر سے تو یونیورسٹی جانا لیکن یونیورسٹی کی بجائے میرے فلیٹ پر آجانا ۔ میں نے اسے میسج کیا ۔ میں تمھیں لینے آؤں گا تو تمھارے لیئے ٹھیک نہیں ہو گا ۔ ،تم ٹیکسی میں آجانا میں نے اسے اپنا ایڈریس بتایا ۔میں اور بھی میسج کرتا مگر دلآویز کا میسج آگیا ۔رات کو بات کریں گے ،مجھے افسوس ہوا کہ جوش میں یہ بات کیوں بھول گیا تھا ۔ اوکے کا میسج ارسال کر کے میں رات کا انتطار کرنے لگا ۔نگینہ اور شہروز کے راز سے آگاہی کے بعد چار دن سے مجھے ایک پل بھی چین نہیں تھا ،انتظار تو میں اس وقت سے کر رہا تھا جب سے دلآویز ملی تھی ۔اور انتظار تو میں اس وقت سے کر رہا تھا جب مجھے نگینہ کے گھر سے جان بچا کے بھاگنا پڑا تھا اور انتظار تو اس وقت سے تھا جب نگینہ نے مجھے شہزادہ بنایا تھا ۔ہر پل میں نے انتظار ہی تو کیا تھا ۔اب نگینہ کی باری ختم ہونے والی تھی اب میری باری تھی ۔رات کو دلآویز سے پورا پروگرام طے ہوا ،اسے اچھی طرح اپنا ایڈریس سمجھایا ، اس رات نہ میں سویا نہ دلآویز سوئی نہ ہماری کال بند ہوئی ۔ کچھ وقت کے تعطل کے بعد صبح دلآویز کے گھر سے نکلتے ہی ہماری کال پھر شروع ہو گئی ۔ دلآویز ٹیکسی میں بیٹھ گئی ۔ اس دوران خامشی رہی ۔میری کال اس کیلیے حوصلہ تھی ۔ مقررہ جگہ پر اترنے کے بعد ہمای بات شروع ہو گئی ۔میں اسے گائیڈ کرتا رہا ۔اور میں نے فلیٹ کا دروازہ کھول دیا ۔ سامنے دل آویز چادر میں لپٹی کھڑی تھی ۔
دلآویز اندر آگئی اور میں نے دروازہ بند کر دیا ۔ہم ایکدوسرے کے سامنے بیٹھ گئے ۔دلآویز مجھے اشتیاق سے دیکھنے لگی ،ہم خاموش تھے ۔ کچھ دیر میں ہی دلآویز مجھے غور سے دیکھنے لگی ۔ پھر جیسے دلاویز چونک پڑی ،تم ،(ارتھ کوئیک شاکنگ )تم شہزادے ہو ، مجھے یقین نہیں آرہا ۔اس کا مطلب ہے مما کا خوف صحیح تھا ،تم اب تک ہمارے پیچھے ہو ،تم کیا سمجھتے ہو تم مجھے دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاؤ گے ۔ جن سے نفرت کی جاتی ہے نہ ،ان کو آسانی سے نہیں بھلایا جاتا ،اور تم تو وہ ہو جس سے میں نے دن رات نفرت کی ہے ۔ دلآواز کے الفاظ اس کے منہ میں تھے کی اچانک اس نے مجھ پر جھپٹا مارا ۔مگر میں اس کے لیئے پہلے سے تیار تھا ۔ میں نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے نہیں تو اس کے لمبے ناخن میرا چہرہ بگاڑ دیتے ۔ نفرت کی وجہ سے دلآویز میں جنونی طاقت آگئی تھی ، لیکن وہ مجھے نہیں جانتی تھی ،میں وہ کمزور شہزادہ نہیں تھا اب میں کوان لی کا وارث ہوں،جو کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔میں نے دلآویز کو صوفے پر پھینکا اور اس کہ پیٹ پر گھٹنا رکھ کہ اس کے ہاتھ پکڑ لیے ۔اس کو دبانے لگا ۔دلآویز کے چہرے سے تکلیف کا اظہار ہونے لگا۔ میں تقریباً دلآویز پر چڑھا ہوا تھا ۔اس دوران دلاویز انگلش میں مجھے گالیاں دیتی رہی ۔ میں نے بھی اپنی طاقت کے اظہار میں کمی نہ کی ، کچھ ہی دیر میں دلآویز کو سمجھ آگئی کہ وہ میرے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔دلاویز بتاؤ اس وقت میں تمھاری عزت لوٹ سکتا ہوں کہ نہیں ؟ بتاؤ کیا تم میرے بس میں ہو کہ نہیں ؟ میں جو چاہوں تمھارے ساتھ کر سکتا ہوں ۔اور کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔بولو،اس وقت میں تمھاری عزت لوٹ سکتا ہوں کہ نہیں ؟ تم اس وقت میرے بس میں ہو،اور کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ تم کہاں ہو ،میں تمھاری عزت لوٹ کر تمھیں مار کر بھی پھینک دوں تب بھی میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اس کا جسم ڈھیلا ہوا ۔ اور جنونیت ختم ہونے لگی ۔ آرام سے بیٹھ کے میری بات سنو ، میں نے اسے چھوڑتے ہوئے کہا،دلاویز کو سنبھلنے میں کچھ دیرلگنی تھی اتنی دیر پہلے سے رکھے لیپ ٹاپ پر اس کی مما اور شہروز کی فلم لگا کر لیپ ٹاپ ٹیبل پر گھما کےاس کی طرف کر دیا ۔ دلاویز چونک کر اسے دیکھااور پھر حیران ہوئی پھر اس کے چہرے پر تکلیف اور دکھ آگیا ،اس کے چہرے پر شاک کی کیفیت تھی ،یہ تمھارا منگیتر اور تمھاری پیاری مما ہے جو آپس میں چودائی کر رہے ہیں،جس دن دادی کا چالیسواں تھا اور تم اس رات اپنی نانی کے ساتھ چلی گئی تھی سرور خان تمھیں چھوڑنے چلا گیا تھا ۔ اس رات بھی شہروز اور تمھاری مما آپس میں یہی کام کر رہے تھے ،میں نے انہیں دیکھ لیا اور اگلی صبح تمھارے باپ کو بتانا تھا لیکن تمھاری پیاری مما اور شہروز نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا اور مجھے قتل کی دھمکیاں دینے لگے ایک مہینہ مسلسل مجھے دھمکاتے رہے ،دوسری طرف تمھاری ماں میرے اوپر بیٹا بنا کے مہربانیاں کرتی رہی ، ادھر ان کا کھیل بھی جاری تھا ،جب تم سکول اور تمھارا باپ کام پر چلا جاتا تھا ۔تو ان کا کھیل شروع ہو جاتا تھا ۔ میرا ضمیر مجھے سونے نہ دیتا ،میں نے نگینہ کو بتا دیا کہ مجھ سے اب یہ بات چھپائی نہیں جا سکتی تھی لیکن اس سے پہلے میں تمھارے باپ کو کچھ بتاتا نگینہ نے مجھ پر جھوٹا الزام لگا کر مجھے تمھارے باپ کے ہاتھوں مروانا چاہا ۔ اب تم مجھے بتاؤ ایک پندرہ سال کا لڑکا ایک چالیس سال کی صحت مند عورت پر حملہ کیسے کر سکتا ہے ؟کیا میں اتنا نادان تھا کے سرورخان گھر میں تھا اور میں نے تمھاری ماں کی عزت لوٹنی چاہی ۔ اب تم مجھے بتاؤ دلآویز کہ تمھاری مما کو کونسا ڈر تھا جو میرے بعد بھی اسے چین نہیں لینے دیتا تھا ۔
اس نے تمھارے دل میں میرے لیئے نفرت بھری ، اس نے مکان بدلے اس نے تمھارے باپ کا کام بھی چھڑوایا ۔ تمھاری ماں نے تمھاری زندگی جہنم بنا دی ،یہی ڈر تھا اسے کہ کہیں میں تمھیں یا تمھارے باپ کو سچ نہ بتا دوں ۔لیکن میں اپنی زندگی بچا نے کیلیے تمھاری برادری سے دور رہ رہا تھا ادھر اس نے تم پر پہرے بٹھا دیئے پھر سرور خان اور تمھارے دل میں میرے لیئے زہر ہی زہر بھر دیا ۔ اب بھی اگر تم مجھے غلط سمجھتی ہو تو یہاں سے جاسکتی ہو، لیکن دلآویز ٹس سے مس نہیں ہوئی ،دلآویز رو رہی تھی ،اس کی نظریں لیپ ٹاپ کی اسکرین پر تھی جس پر ویڈیو کب کی ختم ہوچکی تھی ۔دلآویز اگر میں نے تمھاری مما کی عزت لوٹنے کی کوشش کی تھی تو تمھاری اس وقت بھی لوٹ سکتا ہوں ،لیکن تم آزاد ہو جاؤ چلی جاؤ، دلآویز کے پاس رونے کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ اسے بہت بڑا دھچکا لگا تھا ۔وہ جیسے سکتے میں تھی ۔ آخر میں اٹھا اور دلآویز کے پاس بیٹھ کر اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا ۔ دلآویز اونچی اونچی آواز میں رونے لگی ۔ میں اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر دلاسا دیتا رہا ،اور اسے رونے بھی دیا ۔ رو ،رو کے دلآویز کی آنسو خشک ہوگئے ،اس کی ہچکیاں تھم گئی ، رونے دیئے جائے تو دل ہلکا ہوجاتا ہے ، تو تم نے اس رات موبائل پر خود کشی کا ڈرامہ کیا تھا ،دلاویز کی پہلی بات ہی دھماکا تھی ،ہاں وہ ایک ڈرامہ تھا تمھارے قریب آنے کیلیے تمھیں سچ بتانے کیلیے ۔ میں نے اقرار کیا ۔تو تم نے پہلے دن ہی مجھے یہ ویڈیو کیوں نہ دکھائی ؟ اتنے ڈرامےکیاضرورت تھی ۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ ویڈیو میں صرف دو دن پہلے ہی حاصل کر سکا ہوں ،اور دوسری بات یہ کہ میں تمھیں اس کے بغیر جو بھی بتاتا تم نے مجھے جھوٹا ہی سمجھنا تھا ۔ میں موبائل پر اپنی آواز کے ذریعے جو کر سکتا تھا وہ کیا، اور تمھاری مما نے جو تمھارا برین واش کیا تھا اس کا خاتمہ کر کے تمھیں زندگی کا احساس دلایا اور تمھاری شخصیت کو صحیح روپ دیا تا کہ تمہیں اچھے برے کا خود احساس ہو ۔۔ تم کب سے میرے پیچھے ہو ؟ دلآویز نے پھر سوال کر دیا ۔ کچھ عرصہ پہلے تم اپنے کزن کے ساتھ یونیورسٹی گئی اور ایک امیر زادے نے تمھیں بڑا تنگ کیا تھا ،وہ امیر زادہ میں ہی تھا ۔ میں ایک کام سے یونیورسٹی جارہا تھا پہلے تو تمھارے کزن کی خراب ڈرائیونگ کی وجہ سے میں نے اسے تنگ کیا پھر جب تمھاری نیلی آنکھیں دیکھی تو تمھارے پیچھے لگ گیا،جب مجھے یونیورسٹی سے پتہ چلا کہ تم دلآویز ہی ہو ،تو میں نے تمھارا پیچھا کر کے تمھارا گھر بھی دیکھ لیا اور پھر تم سے رابطہ کیا ،میں نے تمھیں سچ بتانا چاہا لیکن میرے پاس کوئی ثبوت نہ تھا۔میں تو کب سے تم لوگوں کو ڈھونڈ رہا تھا مگر تم پتہ نہیں کہاں جا چھپے تھے کہ میں تم لوگوں کو ڈھونڈ نہ سکا۔میری بات مکمل ہوئی تو دلآویز بھی خاموش ہوگئی۔ اب میں کیا کروں ؟ دلاویز نے خالی ذہن سے سوال کیا مطلب یہ ویڈیو ابا کو دکھا دوں ؟ دلاویز نے وضاحت سے پوچھا،اگر تم یا میں یہ ویڈیو تمھارے ابا کو دکھاتے ہیں ۔تو وہ تمھاری ماں کو مار دے گا اور خود جیل چلا جائے گا ۔ یقیناً تم یہ نہیں چاہو گی ۔ لیکن اب میں شہروز سے شادی نہیں کر سکتی ،مجھے تو وہ پہلے ہی ناپسند تھا اب تو مجھے اس سے اور مما سے نفرت ہوگئی ہے ۔ میں اسے یہ ویڈیو دکھا کر منگنی توڑنے پر مجبور کر دوں گا۔ لیکن مما اور شہروز بدستور ملتے رہیں گے،اس کا کیا حل ہے ،دلاویز نے ایک اور نکتہ اٹھا دیا ۔اس کیلیے تم یا میں یہ ویڈیو تمھاری مما کو دکھائیں گے اور اسے یہ کھیل ختم کرنے پر مجبور کریں گے ،نہیں تو یہ ویڈیو تمھارے باپ کی بجائے تمھارے ماموؤں کو دے دیں گے ۔ میرے پاس ہر سوال کا جواب تھا ۔ دلاویز نارمل ہوئی تو اسے خیال آیا کے ہم لپٹے ہوئے ہیں وہ شرما کہ مجھ سے علیحدہ ہوگئی ۔ بہتر یہی ہے اب تم چھٹی کے وقت ہی گھر جاؤ ،میں ناشتہ بنانے لگا ہوں تم نے کرنا ہے تو بتا دو ، نہیں تم ٹہرو میں ناشتہ بناتی ہوں ،دلآویز خود کو دلی صدمے سے بہلا رہی تھی اور دوسری طرف میرے ساتھ اس کا سلوک ایک محبوبہ جیسا تھا ۔ تم اتنے امیر کیسے بن گئے ،دلآویز نے ناشتہ بناتے ہوئے پوچھا ۔ جب میں تمھارے گھر سے بھاگا تو مجھے ایک مہربان مل گئی ،اس نے مجھے اپنے پاس رکھ لیا،وہ میری محسن تھی میری استاد تھی ، اس نے مجھے جینا سکھایا ۔ دنیا کو جیتنا سکھایا ،اس نے مجھے بہت کچھ دیا اور جاتے جاتے اپنی جائیداد بھی میرے نام کر گئی ۔جوسلین کو یاد کرت ہوئے آج بھی افسردگی آجاتی ہے ۔اس کے انجام نے رلا دیا تھا ۔ کتنی جائیداد ہے تمھارے پاس دلآویز نے بے اختیار پوچھا ۔ جب میں نے اسے اپنی جائیداد کی تفصیل بتائی تو وہ کافی حیران اور متاثر ہوئی ۔ ناشتہ کر کے ہم باتیں کرنے لگے ،دلاویز ویڈیو کو ہضم کر رہی تھی پھر ہم کچھ دیرشطرنج کھیلتے رہے اسے اس کا بالکل پتہ نہیں تھا کچھ دیر اسے یہ سکھاتا رہا ۔ پھر دلآویز میرے لیے دوپہر کا کھانا بنانے لگی ۔ اس وقت اس کے وجود سے گھر جگمگ کر رہا تھا ،دلآویز جاگتی آنکھوں خواب دیکھ رہی تھی ،میرا فلیٹ چل پھر کے دیکھ رہی تھی ۔کمروں میں کچھ ادھر ادھر سیٹنگ کر رہی تھی ۔ساتھ ساتھ اس کی باتیں بھی شروع تھی ۔اس وقت اس کی آنکھوں میں چمک تھی اور چہرے پر قوس قزح کے رنگ تھے وہ اس محبت سے سرشار تھی جس کا میں اظہار کر چکا تھا ،اب اسے ہماری شادی کا یقین ہوگیا تھا ۔ کھانا تیار کر کے ہم کھانا کھانے لگے ،اس کا روپ ایک مکمل محبوبہ تھا ۔دلآویز نے جب میرے منہ میں لاڈ سے نوالے ڈالے تو میرا دل پگھل گیا ۔۔ ۔
آؤعالمِ مدہوشی میں اک سجدہ کریں ۔۔۔۔۔ لوگ کہتے ہیں پرنس کو خدا یاد نہیں ہے ۔
اگر نگینہ مجھے اس رات شہزادہ نہ بناتی اور دادی کے باندھے ہوئے بند کو نہ توڑتی تو ہو سکتا ہے آج میری اوردلآویز کی شادی ہوجاتی اور میں ایک خوشگوار زندگی گزار رہا ہوتا ۔ دلآویز میری شکار تھی لیکن میں اسے دھوکہ نہیں دے سکتا تھا ۔ اس کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتا تھا ۔دلآویز چلی گئی اور مجھے تنہا کر گئی ،نئی پریشانیوں میں ڈال گئی ۔رات کو پھر جب فون پر بات ہوئی تو میں بہت سنجیدہ تھا ۔ ہماری باتیں ہونے لگی ۔دلآویز پرجوش تھی ،دلآویز اگر میں تمھارے باپ کے سامنے آتا ہوں تو وہ آج بھی مجھے قتل کرنا چاہے گا اور اگر اسے تمھاری مما کی وڈیو دکھا کے سچ بتا تا ہوں تو تمھاری مما ماری جائے گی اور باپ سولی پر چڑجھ جائے گا ۔ سوچ لو تم کیا چاہتی ہو،میں نے سوچوں میں الجھا دیا ۔دلاویز سمجھ گئی کہ ہماری شادی کا مطلب اس کے ماں باپ کی موت ہے ۔دلآویز ہم میں دوستی تو ہوسکتی ہے لیکن شادی نہیں ہوسکتی ۔دلآویز بھی یہ حقیقت سمجھتی تھی۔لیکن وہ یہ نہ سوچ سکی کہ اگر اس کے باپ کو سچ ہی نہیں بتانا تھا تو میں انکو دھونڈ کیوں رہا تھا ؟ اب اسے سیکس کی طرف لانے لگا ۔لطیفے، مزاق ۔ لڑکے لڑکیوں کے قصے کہانیاں ۔ شادی سے دوری اور سیکس سے نزدیکی میری باتوں کا محور تھا ۔دلاویز شرماتی لجاتی میری باتیں سنتی رہتی ۔ وہ میرا مدعا سمجھ گئی اور اس طرف سے کنی کترانے لگی۔ پتہ نہیں اس طرف سے نگینہ نے اس کے زہن میں کیا گانٹھا ہوا تھا۔ایک رات بات کھل گئی ۔ مما نے بتایا کے ایک لڑکی کی پہلے رات اس کے شوہر نے اسے چودا کہ اسے اسی رات ہسپتال جانا پڑا ۔ اس کی بلیڈنگ ہی نہیں رک رہی تھی ، اسی طرح ایک لڑکی کو پہلی رات اتنا چودا کے اس کا رحم کا ستیا ناس ہوگیا ۔ اگلے دن وہ گھر گئی تو کبھی واپس نہ آئی، دلآویز کے سارے واقعات میں یہی تھا کہ سیکس کرنے سے بہت درد ہوتا پھر بلیڈنگ نہیں رکتی ، اور شادی کے بغیر سیکس سے بچہ ہوجاتا ہے تو دنیا جینے قابل نہیں چھوڑتی ۔ میں سر پکڑ کے رہ گیا ،نگینہ پھر میرے سامنے آکہ کھڑی ہو گئی تھی ظاہر ہے نگینہ اسے یہ معاشرے کے غلط چہرے حفظِ ماتقدم کے طور پر دکھا چکی تھی ۔ہمارے معاشرے میں شادی کے دوسرے تیسرے دن ہونے والی طلاقیں اس بات کی نشانی تھی کہ کہیں کوئی زبردست مِس ٹیک ہوئی ہے
اس کا مطلب تھا کے دلآویز کے دل میں سیکس کے حوالے سے زبردست ڈر پایا جاتا ہے اس نے شرماتے لجاتے جو بتایا تھا اس سے کہیں زیادہ اس کے دل میں تھا ۔دلآویز میں تمھیں جی بھر کے پیار کرنا چاہتا ہوں ، میرا روں، رواں تمھیں پکارتا ہے تمھارے لیئے دن رات تڑپتا ہوں ۔ میری آنکھیں تمھاری دید کی منتظر ہیں ۔ یہ صرف شادی کے بعد ہوتا ہے دلآویز ایک ہی جواب دیتی ،شادی تو ہونی نہیں تو کیا ہم ساری عمر ایکدوسرے کیلیے ترستے رہیں گے ۔ اپنی ماں کو دیکھو اس نے زندگی کا مزہ لینے کیلیے کیا کچھ نہیں کیا اور ہم بس ترستے رہیں گے ۔ میں نے ناراض ہو کہ کال بند کر دی ۔شاید وہ کل میرے پاس دوڑی چلی آئے ۔ دلاویز کی کالیں اور میسجز آتے رہے مگر میں کوئی جواب نہیں دیا ۔
اگلی صبح یونیورسٹی ٹائمنگ کے وقت دلآویز میرے دروازے پر تھی ،میں نے دروازہ کھول کے اسے اندر آنے دیا مگر اس سے بدستور ناراض رہا ۔دلآویز مجھے مناتی رہی مجھے لبھاتی رہی مگر میں ناراض ہی رہا مان جاؤ نہ میرے ساحل ۔ دلآویز نے اپنی بانہیں میری گلے میں ڈال دی ۔ اچھا تو میں دیکھتی ہوں تم کیسے نہیں مانتے ، دلآویز میرے اوپر چڑھ گئی،مجھے گدگدی کرنے لگ گئی۔ ہم زور آزمائی کرنے لگے۔ دلاویز کی زلفیں کھل کے گھٹا بن گئی تھیں ۔ اس کے چہرے سے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ گھٹا ابھی بارش بن کے برس پڑے گی ۔ جسم کے ساتھ جسم لگا ہوا تھا اور یہ جسم دلآویز کا ستا رہا تھا۔اسے بتا رہا تھا کہ تم کسی خوشی سے محروم ہو میرا عضو اسے کچھ سمجھا رہا تھا ۔ اس کا سینہ میرے سینے میں کُھبا ہوا تھا ۔ دلآویز کے چہرے پر شفق کے رنگ بکھرے ہوئے تھے اس کی آنکھوں میں لال ڈورےتیر رہے تھے ،دلآویز بھی یہ تبدیلی سمجھ رہی تھی ،آخر وہ اٹھ کے بیٹھ گئی تو میں نے بھی صوفے پر لیٹے ہوئے اس کی گود میں سر رکھ دیا۔ ہم ایکدوسرے کو دیکھنے لگے، کتنی دیر گزر گئی میری آنکھیں اس سے کچھ کہ رہی تھیں ۔ دلآویز کی زلفوں نے میرے چہرے پر پھر گھٹا کر دی تھی ۔ماحول اس پر اثر انداز ہونے لگا،جس چیز سے وہ بھاگتی تھی۔آج وہ جذبات اس کے سامنے آگئے تھے ۔ساحل تم میرے لیئے ساحل ہی بن کے آئے ہو ، تمھارے ساتھ ان خوبصورت لمحوں کے کیلیے ساری زندگی قربان کر سکتی ہوں اور پھر دلاویز نے اپنے پھولوں جیسے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے ۔ ہم بڑی نرمی سے ایکدوسرے کے ہونٹ چوسنے لگے ۔ زبان اور ہونٹوں کے سنگم سے رنگین لمحات جنم لینے لگے ۔ دلآویز کا حُسن اس وقت اتنا سحر پھونک رہا تھا کہ بیان سے باہر تھا ۔ جب میں نے اس کی آنکھیں چومی تو شرم سے اس کے چہرے پر قوس قزح جیسی رنگینی تھی ۔ اس کے گال چومے تو دلاویز سمٹ کے مجھ سے لپٹ گئی کتنی دیر تو ایسے ہی ہم ایکدوسرے سے پیار بھرے لمحات گزارتے رہے ۔ گالوں کو چومتا چوستا تو ہونٹ اپنے پاس بلا لیتے ،ہونٹوں کا رس پینے لگتا تو آنکھیں بلا لیتی ۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کس کے پاس رکوں کسے کے پاس نہ رکوں ۔ میں ادھر سے ادھر بھٹکتا رہا ۔ مجھے احساس ہوا جیسے دلآویز سر جھکا کر بیٹھی ہے اس سے اس کا جسم تھکنے لگا تھا ۔میں اٹھ کے بیٹھ گیا ۔ ہم صوفے پر بیٹھے تھے ۔میں نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا دلآویز نے بانہیں میری گردن میں ڈال دی اور پھر کسنگ شروع ہو گئی ،اس کے نازک ہونٹ چومنے لگا ۔چوسنے لگا ۔ اس کی آنکھیں اس کے گال اس کی گردن ، گردن سے اس کے کندھے جتنے قمیض میں نظر آتے تھے ،میں دلآویز کو پیار کرنے لگا ۔میرا پیار اور میری قربت میرے ہاتھ اسے نئے جہاں کی سیر کرا رہے تھے ۔ اس کے جذبات میں اتھل پتھل ہونے لگی ،جسم میں تناؤ آنے لگا تو میں نے اس کی قمیض میں ہاتھ ڈال دیا ، دلآویز ہچکچائ اس ہچکچاہٹ میں ڈر تھا ۔ جان صرف تمھیں پیار کروں گا ،جی بھر کے پیار کروں گا ،میں صوفے پر تھا تو وہ میری طرف منہ کر کے میری ٹانگوں پر بیٹھی تھی ، میں نے اس کی قمیض اتار دی اور اس کے جسم کو چوسنے لگا ،بے تحاشا چومنے لگا۔ میرے ہاتھ آوارہ ہوگئے ، اس کے بدن سے مزہ لیتا رہا، پھر میں مموں کی طرف مڑ گیا ۔ دلآویز نے پھر ہچکچا کر مجھے روکنا چاہا ۔بس پیار ہی تو کر رہا ہوں تمھاری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو گا ۔میں نےاس کی برا اتار دی ، مجھے اس کے ممے بڑے دل کش لگے ۔ اور بے اخیتار اس کے ممے چوسنے لگا۔ میرے ہاتھ انہیں نرمی سے مسلنے لگے ۔ نیچے سے دلآویز کو میرا عضو ستانے لگا،مموں پر پہنچ جانے سے آگے سفر آسان ہو جاتا ہے ۔
میرا سفر بھی آسان ہونے لگا،دلآویز اس مزے ،میں بہکنے لگی ۔ دلاویز نے اپنی مرضی سے کھیل شروع کیا تھا لیکن اگلے مرحلوں میں اس کی شرم اور اس کا ڈر آڑے آ رہا تھا ۔ جیسے جیسے جسم کی گرمی بڑھ رہی تھی ویسے ویسے شرم بھی جا رہی تھی ۔ مگر ڈر ابھی تھا ۔یہ تو چودائی کے بعد ہی جانا تھا ۔ جب اتنی گرمی ہوگئی کہ اسکی شلوار اتر سکتی تھی تو میں اسے گود میں اٹھا کہ بیڈروم میں لے گیا۔ دلاویز کو بیڈ پر لٹا کر میں نے اپنی ٹی شرٹ اتار دی ۔پھر کچھ لمھے اس کے ممے چوستا ہوا نیچے آتا گیا اور تھوڑی سی شلوار نیچے کرتے ہوئے ٹانگیں چومتے ہوئے اس کی شلوار بھی اتار دی ۔دلاویز نے آنکھیں بند کر لی ،میں دیکھ رہا تھا ایک سایہ سا اس کے چہرے پر لہرایا تھا ، اس کی آنکھیں بند تھی میں نے فوراً اپنا پاجامہ اتارا اور اسے کے ساتھ لیٹ کر دلآویز کو ساتھ لپٹا لیا ۔ دلاویز کو محسوس ہو گیا کہ میں بھی ننگا ہوں ۔وہ کچھ اور ہی مجھ میں سمٹ گئی ۔ میں نے محسوس کیا چودائی کے لمحات قریب پا کہ اس کے جسم میں کپکپی تھی ۔ نگینہ نے یہ سائیڈ بھی زہن میں رکھی ہوئ تھی اور دلآویز کے دل میں اس کا ڈر بٹھا دیا تھا ،لیکن میرے زہن میں یہ بات نہیں تھی ۔اس لیئے نہ ہی اس کے حل کا مجھے موقع ملا تھا اب ، اس کا ایک ہی حل تھا اور وہ تھی چودائی ۔ ساحل پتہ نہیں تم میں کیا بات ہے ،میں بڑی بے بس ہوگئی ہوں ۔مجھے لگ رہا ہے جیسے تم ایک طاقتور مقناطیس ہو اور میں لوہے کا بے جان ٹکڑا ہوں ۔میں دلاویز کی ذہنی کیفیت سمجھ رہا تھا ۔نگینہ کی برسوں کی برین واش سیکس کے لمحات میں اسے کچھ اور کہ رہے تھے اور میری قربت اور اس کا جسم کچھ اور کہہ رہے تھے ۔ میں اپنے تمامتر تجربے سے اس کے جسم میں سیکس کی بھوک جگانے لگا۔ ہونٹوں سے مموں کو چوستا ہوا ،ہاتھ سے اس کی چوت کے لبوں کے اندر پہلے انتہائی حساس مقام کو چھیڑنے لگا ۔ کچھ ہی دیر میں دلاویز کا جسم تپنے لگا۔ سیکس کی بھوک جب جسم ہر حاوی ہو گئے تو میں نے اس کی ٹانگوں کھول کہ جگہ بنائی اور گھٹنے ٹکا کے عضو اس کی چوت پر رکھا ۔زیتوں کا تیل کی شیشی دراز سے پہلے ہی نکال چکا تھا کچھ اپنے عجو پر لگایا کچھ اس کی چوت میں لگایا۔ میں تو ویسے بھی صنفِ نازک کو درد دینے کا قائل نہیں تھا ،پھر دلآویز تو نفسیاتی طور پر بگڑا ہوا کیس تھا ۔اچھی طرح تسلی کے بعد میں اس کی چوت میں عضو ڈال دیا جتنی نرمی سے ڈال سکتا تھا ، عضو چوت میں گھستا گیا ۔ دلاویز کی آنکھیں بند تھیں اور ہونٹ بھنچے ہوئے تھے ۔میں نے سوچا اتنی تکلیف ہونی تو نہیں چاہیئے۔ادھر اپنا عضو اس کے پردہ بکارت پر جا کے روک دیا ۔ مجھے احساس ہوا دلاویز کا پردہ بکارت تھوڑا سخت ہے ۔اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے تھا ۔میں نے دل کڑا کے عضو پیچھے کر کے اس کے پردہ بکارت کے مطابق دھکا لگا دیا ۔عضو پردہ توڑتا ہوا چوت میں گھستا گیا اور ٹھک جا کے گہرائی میں رکا ۔دلآویز کی زور دار چیخ ابھری ۔ اس کا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہو گیا ۔۔ میں پریشان ہوگیا ،اتنے سخت ری ایکشن کی مجھےتوقع نہیں تھی ۔ میں تو معمولی سی تکلیف ہونے دیتا ہوں اور بعض اوقات معمولی بھی نہیں ہوتی ۔دلآویز کانپتے ہوئے جسم سے تھوڑا اٹھ کے چوت کو دیکھا تو اب اس کی چیخییں شروع ہو گئی ۔ چوت میں تیزی سے خون نکل رہا تھا ۔زوردار چیخ کی وجہ سے میں عضو پہلے ہی باہر نکال چکا تھا ۔ اور دلآویز ہسٹریائی کیفیت میں چیختی چلی گئی ۔ نگینہ کی مکاری مجھے مات دینے پھر آگئی تھی یہ ساری نفسیاتی الجھن اسی کی پیدا کی ہوئی تھی ، میں نے ایک زناٹے دار تھپڑ دلآویز کو دے مارا اور پھر دوسرا دے مارا ،ایک بار تو دلآویز کو بھی پتہ چلا ہو گا کہ کوئی تھپڑ پڑا ہے ، اس سے اتنا ضرور ہوا کہ وہ ہسٹریائی کیفیت سے نکل آئی ۔
دلاویز رونے لگی ، چوت سے خون ابھی تک نکل رہا تھا ۔شاید یہ اس کی ذہنی اُپچ تھی یا پردہ سخت تھا ۔بہرحال میں نے بیڈ کی سائیڈ سے دراز کے نیچے والا باکس کھولا اس میں میڈیسن پڑی ہوئی تھیں ،سب سیکس کے متعلق تھیں ،اس میں سے دو ٹیکے نکالے ۔ٹرانسامین کا ٹیکہ اس کی نس میں خون روکنے کے لیئے لگایا اور ڈکلوران اس کے چوکنے میں درد کے لیئے لگایا ۔ اس کاروائی کو دیکھ کے دلآویز نفسیاتی طور پر بھی بہتر ہوگئی۔ ساری چادر خراب ہو گئی ۔احتیاط کے طور پر میں نیچے موٹا کپڑا رکھا ہوا تھا امید تھی میٹرس بچ جائے گا،میرا موڈ سخت خراب ہوگیا ،میں ننگا ہی باہر آ کے صوفے پر بیٹھ گیا اور فریج سے بیئر نکال کے پینے لگا ۔ چودہ پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ دلآویز باہر آگئی ، اس کے چہرے پر شرمندگی تھی ۔ اور چوت والا حصہ دھلا ہوا تھا ۔ میری نظر اس کے جسم پر تھی ،
کیا خوب ، قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور۔۔
گویا قیامت میرے سامنے کھڑی تھی ۔ میں اسے بےخود دیکھتا رہا ۔ دلاویز نے بھی میری محویت محسوس کر لی ۔دلکش سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آگئی ۔ دلآویز میرے پاس آکہ گھٹنوں کے بل قالین پر بیٹھ گئی ۔ نیلی آنکھیں میں ساری مستی شراب کی سی تھی ۔ لگتا تھا کہ دلآویز کا ڈراتر گیا تھا ۔ دلاویز نے میرا عضو پکڑ لیا ۔ ہاتھوں سے اس کی منت کرنے لگی کہ کھڑا ہو جا،عضو تو اسے دیکھتے ہی کھڑا ہونے کیلیے تیار تھا ، ٹن کر کے اس نے دلآویز کو سیلوٹ کیا۔ دلاویز اس وقت مکمل سیکسی موڈ میں تھی ،اس نے میرا عضو منہ میں لے لیا۔ آہ ۔ میں نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ وہ ایسا کرے گی، لگتا تھا یہ کچھ دیر پہلے کی بدحواسی کا ازالہ تھا ۔ دلآویز کو اس کا پتہ تو نہیں تھا لیکن اس کی کوشش کامیاب تھی ، تھوڑا سا میں نے اسے سمجھایا اور پھر مزا لینے لگا ۔ کچھ دیر مزے لینے کے بعد میں نے اسے نیچے قالیں پر ہی لٹا دیا ،کشن اس کے سر کے نیچے رکھا اور اس کی ٹانگیں کھول کر پھر چودائی کی پوزیشن بنا لی ۔ آرام سے اس کے اندر ڈالا اور آہستہ آہستہ اس کی چودائی کرنے لگا ۔ دلآویز کے چہرے پر سکون تھا جیسے کوئی برسوں کا پیاسا کنویں پر پہنچ گیا ہو ۔ میری چودائی میں روانی تھی ۔ میں اسے چودنے کا بھر پور مزہ لے رہا تھا۔ میری زندگی میں یہ واحد لڑکی تھی جس کیلیے مجھے دس سال انتظار کرنا پڑا ۔ یہی وہ لڑکی تھی جس کیلیئے مجھے پر سکوں گھر سے نکالا گیا ۔ یہی وہ لڑکی تھی جسے پانا میری ضد تھی ،مگر پایا میں نے اسے اس کی مرضی سے تھا ۔ اب بڑے مزے سے اس چودائی کو انجوئے کر رہا تھا،کہتے ہیں شراب اور دشمنی جتنی پرانی ہو اتنا ہی مزہ دیتی تھی ۔ آج دلآویز مجھے بھرپور مزہ دے رہی تھی ۔ حُسنِ دلآویز کاجادو سر چڑھ کے بول رہا تھا ۔ میں نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کے اس کے ممے منہ میں لیے اور چوستے ہوئے دلآویز کی چودائی کرنے لگا ۔ اس اسٹائل میں تھوڑی سی مشکل ہوتی ہے پر لڑکی کو بہت مزہ آتا ہے ۔ دلآویز بھی اگلی وادی میں قدم رکھ چکی تھی اب میں نے رفتار تیز کر دی ۔ تھوڑ ا بیٹھ کے تھوڑا جھک کہ اس کے ممے اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کے چودائی کرنے لگا ۔ دوہرا مزہ اسے دینے کا مقصد چودائی کی حقیقت سے واقف کرانا تھا ۔ تا کہ پھراپنے مزے کیلیئے مجھے مزہ دیتی رہے ۔ پھر میں نے تھوڑا مشکل صحیح مگر اس کے ممے منہ میں لے کر چودائی کرنے لگا ،اوہہ ،،،ساحل ،،، کیا کر دیا ہے تم نے مجھے ،،دل کر رہا ہے تم ایسے کرتے رہو ،،بہت مزہ آرہا ہے میری جان،، دلآویز اب سیکس میں بہہ چکی تھی ،،اب اس کا دل دھکوں کو کرتا ہو گا،، ،،،یہی سوچ کر میں بیٹھ کر اسے زوردار دھکے مارنے لگا ،،،،، میرے دھکے رفتار اور طاقت میں اتنے ہی تھے جتنے پہلی بار اس کی چوت برداشت کر سکتی تھی ،،،،، ساحل تھوڑا تیز کرو نہ،دلآویز اور مانگ رہی تھی، ،، میں نے رفتار بڑھا دی ،،،،، دلآویز پہلے سسکنے لگی ،پھر آہیں بھرنے لگی،میں سمجھ گیا کہ اسے درد ہو رہا ہے مگر مزہ بھی آرہا ہے ، ،، ،، اب میرے جھٹکوں سے اس کا جسم ہل رہا تھا ،پھر اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے میں نے دھکوں کی شدت کم کر دی ،،،،پہلی بار کی چودائی اور ہوتی ہے اور ایک ہفتے بعد چودائی اور ہو جاتی ہے،،، مزے کیلیے میں اس کے اوپر لیٹ گیا اور اس کے چہرے کے سامنے چہرہ کر کے اسے چودنے لگا ،،، میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دلآویز کے چہرے پر شرم آنے لگی،،،، ایسے لمحوں میں چودائی کا بڑا مزہ آتا ہے ،،،،،،،بھلا بازاری عورتوں میں ایسی دلکشی کب مل سکتی ہے،،،،،،، یہ جذبات ہی تو ہوتے ہیں جو انسانی حرکات میں رنگ بھرتے ہیں ،،،، اب ایسے ساتھی کا کیا فائدہ جس میں اپنی بھوک سے کوئی دلکشی ہی نہ رہے ،،، چوادئی ہوتی ہے تو پھر پانی بھی نکلتا ہے اور یہ چودائی کا حاصل ہوتا ہے ،،،اسوقت ہم بھی منزل پر پہنچنے والے تھے،،،، ہمارے جسم مقناطیسی انداز میں لپٹے ہوئے تھے ،،، اور پھر دلآویز پہلی بار اپنی منزل پر پہنچی ،،،، اس کا پانی نکلنے لگا ،،،، میں بھی ارادے سے اس کے ساتھ تھا ،، ، میرا بھی پانی نکلنے لگا ،،، ہم نے ایکدوسرے کو جکڑا ہوا تھا ،،اسوقت حالت ہی ایسی ہو جاتی ہے کہ بانہوں میں جکڑ نے کو دل کرتا ہے ۔۔۔فارغ ہو کر ہم ساتھ ساتھ لیٹ گئے ،،،، دلآویز کے چہرے پر پرسکون مسکان تھی ،ہم لیٹے رہے ۔
پھر ہم صوفے پر بیٹھ گئے ،،، اب پھر میرا دل کر رہا تھا اور میں اسے گھوڑے پر چڑھانا چاہتا تھا ۔ میں اس کی چوت کے لبوں کے اندر پہلے حساس ترین مقام کو چھیڑنے لگا ، اور اس کے مموں کو منہ میں لے کر چوسنے لگا،کچھ ہی دیر میں دلآویز بے حال ہونے لگی ،اب تم چودائی کرو، کیا میں مجھے نہیں آتی چودائی کرنا ،پلیز اتنا مزہ آرہا تھا ،بڑا اچھا لگ رہا تھا تم ویسے ہی کرو۔ میں تمھیں سکھاتا ہوں کہ کیسے کرنا ہے ،ایسے کرو میرے اوپر ،عضو پر آکہ بیٹھو ، میں صوفے پر ٹیک لگا کہ تھوڑا لیٹا بیٹھ گیا ،، اے ،،،ہاں یوں اوپر بیٹھو ۔تھوڑا سا پیچھے ہو جاؤ ،آں ہاں ۔ٹھیک ، اب ہاتھ سے میرا عضو پکڑو ،ہاں ٹھیک ہے ،اسے اپنی چوت کی موری پر رکھو ،اب اپنا وزن آہستہ آہستہ اس پر ڈالو اور عضو کو اندر لو،ہاں ایسے ۔پورا لے لو ،آہ،، ہاں مزہ آگیا ،میں نے اس کی کمر سے پکڑ لیا ،اور اسے سہارا دے کے اوپر نیچے کرنے لگا ۔ ہاں تھوڑا اوپر نیچے ہوا کرو ۔اسطرح ،با لکل صحیح ۔ مزہ آ رہا ہے کہ نہیں ۔ دلآویزہ، او، دلآویزہ ؟۔ہاں کچھ کہا مجھے میرے ساحل ، میں یہ پوچھ رہا تھا کہ مزہ آیا ہے کہ نہیں۔؟ بہت مزہ آرہا ہے ساحل ، صحیح کہا تم نے کون کمبخت شادی کا انتظار کرے ۔ پیار کے ان لمحات پر زندگی واری جاسکتی ہے ۔آہ ساحل جسم کو کیا ہوگیا ہے ،رفتار اپنے آپ تیز ہو رہی ہے ۔ دل کرتا ہے تیز اور تیز کروں ،،، دلآویز کو مزہ آگیا ،وہ بہت اچھی سواری کر رہی تھی ،،،مزہ تو مجھے بھی آگیا،بلکہ جو سرُور مجھے آ رہا تھا ،وہ دلآویز نہیں سمجھ سکتی تھی،،، میرے رگ و پے میں ایسی طمانیت بھرتی جا رہی تھی ،،، جس کا دلآویز تصور بھی نہیں کر سکتی تھی،،،دس سال میرے دل و دماغ میں وہ رات ابھرتی رہی،،،اور میں عہد کرتا رہا کے یہ رات نگینہ کو واپس کر کے رہوں گا،،،،، برسوں کا انتظار اور یہ وصال ۔۔۔۔ کوئی اس کے سکوں کو محسوس نہیں کر سکتا ،، دلآویز کبھی مدہم کبھی تیز کبھی بیٹھ کہ کبھی لیٹ کہ چدائی کر رہی تھی،،، چوت اور ممے چھیڑ کے میں نے اس کی چابی بھر دی تھی اور اب اس چابی کی گرم سے دلآویز چدائی کرتی رہی ۔۔درمیاں میں کبھی میں اسے روک کے اسی اسٹائل میں رہتے ہوئے نیچے سے چودنے لگتا تھا ،مقصد اسے آرام دینا تھا ، تا کہ دلآویز اس جگہ اسی اسٹائل میں چدائی کرتی رہی،،،اسے نہیں پتہ تھا چار آنکھیں ہماری ہر حرکت نہایت باریک بینی سے دیکھ رہی ہیں،،، دلآویز چدائی کرتی رہی ،،، آہ ساحل مجھے کیا ہو رہا ہے ،،،، جسم میں جیسے سارا خون ایک ہی طرف جا رہا ہے ۔اوہ ۔۔۔ ساحل میری جان نکل رہی ہے ۔پلیز مجھے سنبھالو ، مجھے بانہوں میں لے لو ۔ دلاویز میرے اوپر گر کے مجھے بازوؤں سے جکڑ لیا ،اس کا وقت پورا ہو گیا تھا ،پانی نے اپنے نکلنے کی جگہ بنا لی تھی ،،،،لیکن میں نیچے سے اسے چودتا رہا،میرا وقت بھی آنے والا تھا،مجھے نیچے سے زور لگانا پڑا مگر دلاویز کے مزے کو رکنے نہیں دیا ۔ میں نے اپنی عادت کے خلاف صفائی کیئے بغیر کیچڑ میں ہی چودتا رہا ،میں بس آنے والا تھا ،اور پھر وہی کیفیت جب میں دلآویز سے لپٹ گیا ۔ بڑا پانی نکلا ،چودائی کے ساتھ ساتھ پانی کا تعلق جذبات سے بھی تھا ۔ اس کے بعد بس پھر میں تھا اور دلآویز تھی ۔نہ ہم رکے نہ ہم تھکے ، میں اسے سواری کراتا رہا وہ مجھے چوادئی کیلیے مجبورکرتی رہی ،آخر یونیورسٹی سے چھٹی کا ٹائم آگیا اور دلآویز مجھے الوداع کہ کر چلی گئی ۔ جب وہ چلی گئے دوسرے کمرے میں اپنا لیپ ٹاپ چیک کیا ،مائکرو کیمرے کے ذریعہ چوادئی کا کھیل اس میں ریکارڈ ہو گیا تھا۔ پورے گھر میں کیمرے تو پہلے ہی لگے ہوئےتھے کبھی کبھار اس کھیل میں ان کی ضرورت پڑ جاتی ہے ، آخر نگینہ کو بھی تو کچھ دکھانا تھا کہ نیئں ، کچھ سین ایڈیٹ کر کے میں نے ان کو کمبائین کر دیا ۔ خاص کر وہ سین اس میں ضرور ڈالا جس میں دلآویز گھوڑے پر سواری کر رہی تھی ۔ اس سین کیلیے ہی تو اسے سواری کروائی تھی ،کیونکہ اس سین سے پتہ چلتا تھا کہ سواری کرنے والا اپنی مرضی سے چودائی کر رہا ہے ،اب نگینہ سے ملنے کا وقت آگیا تھا کیونکہ ایک کام میں پہلے پورا کر چکا تھا ا ور دوسرا دلآویز والا اب ہوگیا تھا ۔
اگلا دن میری زندگی کا اہم دن تھا ،جب میں نگینہ سے ملا تھا ۔ اس دن کے لیئے میں نے بہت انتظار کیا تھا ۔ جب دلاویز یونیورسٹی اور بعد میں سرور خان جنرل سٹور پر چلا گیا تو میں کچھ فاصلے میں اپنی کار میں بیٹھا ان کو جاتے دیکھ رہا تھا جونہی وہ گئے میں کار لاک کر کے نگینہ کے گھر کی طرف چل پڑا اس کے گھر والی بیل بجائی ۔ کون ہے ؟ اندر سے نگینہ کی آواز آئی ،دروازہ کھولیں جی ۔مجھے شہروز نے بھیجا ہے ۔ شہروز نے کیوں بھیجا ہے بڑبڑانے کی آواز آئی جیسے ہی تھوڑا سا دروازہ کھلا ، میں دھکا دے کے اندار داخل ہو گیا نگینہ دروازے کی ٹکر سے گر پڑی تھی ۔ میں نے ریوالور نکال کے اس پر تان لیا اور دوسرے ہاتھ سے دروازہ بند کر دیا ۔ نگینہ نے مجھے پہچاننے میں دیر نہیں لگائی ۔ شہزادے تم ۔اس کی آواز میں حیرانگی اور خوف تھا اس کی نظریں میرے ریوالور پر تھیں ، اندر چلو میں نے ریوالور ہلاتے ہوئے کہا ۔ نگینہ نے تھوڑا پس و پیش کیا تو میں نے اسے بالوں سے پکڑا ،نگینہ نے چیخنے کی کوشش کی تو ریوالور اس کہ منہ میں گھسیڑ دیا اوراسے کھینچتا ہوا کمرے میں لے آیا ۔ اس دوران میرے چہرے پہ ایسے تاثرات تھے جیسے ابھی نگینہ نے کوئی مکاری کی نہیں اور ادھر میں نے اس کو شوٹ کر دینا ہے ۔ اسی لیئے نگینہ بھی چپ چاپ اندر چلی آئی ۔ اندر آکے میں نے اسے بیڈروم پر دھکا دے دیا ،اور خود اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔ جی نگینہ جی کیا حال ہے آپ کا ؟ مجھے آج دیکھ کہ حیران تو بڑی ہوئی ہو گی ۔ سچی بات ہے کہ تمھیں یہ سرپرائیز دے کر مجھے بہت مزہ آیا ، اب تمھیں میرے آنے کی کوئی امید نہیں رہی تھی اور اب میں آگیا۔ کیا دھانسو انٹری ہے میری یار ۔ میرا دل خوش ہوا ۔ قسم سے مزہ آ گیا ۔ نگینہ میری آمد کے جھٹکے سے سنبھلنے کی کوشش کر رہی تھی ۔اور سیدھا میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہ گھور رہی تھی اسے ریوالور کی کوئی پرواہ نہیں رہی تھی ۔(ریوالور صرف نگینہ کو دکھانے کیلیے تھا ورنہ مجھے اس کی کئی ضرورت تھی ) زیادہ ڈرامے بازی نہ کرو ۔ گولی مارنے آئے ہو وہی کرو ۔ نگینہ دھاڑی ۔اوہو ، تو تم بہادر بننے کی کوشش کر رہی ہو ، لیکن ذرا یہ بھی تو سوچو تمھارے بعد دلآویز کا کیا ہو گا ؟ یاد ہے تم نے مجھے کیا کہا تھا ۔
شہزادے دلآویز تمھاری کسی طرح نہیں ہو سکتی ۔
یکدم نگینہ پژمردہ نظر آنے لگی ۔ شہزادے میں مانتی ہوں میں تمھاری مجرم ہوں مجھے جو مرضی سزا دے لو ، مگر خدا کہ واسطے دلآویز کو معاف کر دو ۔ خدا کا واسطہ تو میں نے بھی دیا تھا نگینے ۔ میں نے اسے یاد دلایا ۔ نگینہ ایک لمحے کیلیے مایوس ہوئی پھر اس نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا ۔ اور بیڈ سے اتر کر بڑی ادا سے چلتی ہوئی میرے ساتھ آ کہ بیٹھ گئی ، بال کھلے ہوئے تھے اور دوپٹہ اس کا پہلے ہی گر گیا تھا ۔شہزادے اب اتنے کٹھور بھی نہ بنو ۔ ہم نے کچھ وقت اچھا بھی گزارا ہے ۔ اس کے ہاتھ میرے گھٹنوں پر تھے اور اس کے ممے کپڑوں سے باہر آنے کیلیئے اُتاولے ہو رہے تھے۔ نگینہ کی دعوتِ گناہ دیتی آنکھوں میں امید کی کرن تھی ،پتہ نہیں تمھارا جسم اب کیسا ہے ،میں نے اس میں دلچسپی ظاہر کی ،نگینہ کی آنکھوں میں چمک آگئی اس نے پھرتی سے اپنی قمیض اتار دی ، میں نے ریوالور سے برا کی طرف اشارہ کیا تو اس نے برا اور پھر کھڑے ہو کر شلوار بھی اتار دی ۔ میں نے کھڑا ہو کر اس کے گرد گھوم کر اسے دیکھا ، اور گانڈ پر ایک تھپڑ دے مارا،آؤچ ،،،،،نگینہ مڑ کہ شاکی نظروں سے مجھے گھورنے لگی ، دل تو کرتا تھا اسے اذیت ناک انداز میں چودوں ،مگر اب وہ چلتی پھرتی موت تھی ،اور اس بات کا ابھی اسے بھی نہیں پتہ تھا ،نگینہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت نے تم پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا ہے ۔ اور تم آج بھی کئی جوان لڑکیوں سے بہتر ہو،لیکن تم ایک ناگن ہو اور تمھاری ظاہری خوبصورتی کا فریب میرے لیئے بیکار ہے ،میں نے اپنی بات کہتے ہوئے اسے دھکا دیا نگینہ بیڈ سے جا ٹکڑائی اور گر پڑی ۔ اسےٹھکرا کے اس کی تذلیل کر کے میرے سینے میں ٹھنڈ پڑ گئی ، تمھاری یہ جرات نگینہ خان کی بے عزتی کرو،نگینہ پھرتی سے اٹھی اور خونخوار انداز میں مجھے پر جھپٹی ۔میں نے بیٹھےبیٹھے لات لمبی کر دی اپنے ہی زور میں بڑھتے ہوئے نگینہ کے پیٹ پر لات پڑی اور پیچھے جا گری ۔میں نے اٹھ کے اس کے تیں چار ٹھڈے مار دیئے ۔ نگینے میں وہ کمزور شہزادہ نہیں ہوں ۔ آج میں پرنس ہوں پرنس اور تم جیسی خون آشام آنٹیاں میرے پاؤں چاٹتی پھرتی ہیں ۔میں نے غصے میں اسے دو تین ٹھڈے اور دے مارے ۔ ایک ہاتھ سے اپنے بالوں کو ٹھیک کرتا ہوا میں صوفے پر بیٹھ گیا ،میرے ریوالور والا ہاتھ پھر اس کی طرف تھا ،نگینہ کچھ دیر بعد اٹھی اور بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر وہیں بیٹھ گئی ،اس کے چہرئے پر مسکینی چھائی ہوئی تھی ۔ بیٹا ۔ ۔۔۔۔۔ جو بھی ہو میں تمھاری ماں ہوں میں نے تمھیں پالا ہے ۔۔۔ میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔ دلآویز کو چھوڑ دو ۔ ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ۔ اس کے ننگے جسم کو دیکھتے ہوئے مجھے بے اختیار ہنسی آگئی ۔
میں تمھارا بیٹا نہیں ہوں ۔کیونکہ نہ تم نے مجھے پیدا کیا ہے اور نہ میں نے تمھارا دودھ پیا ہے ،میں نے ایک ایک لفظ کو چباتے ہوئے کہا ۔
نگینہ کا غصے سے چہرہ سیاہ پڑنے لگا ۔ اور شدتِ غضب سے اس کا جسم کانپنے لگا۔ نگینہ پھر مجھ پر جھپٹی ،میں بھی تیار تھا ۔ میں نے فوراًکھڑے ہو کہ اسے دھکا دیا، وہ گری اور میں اسے کے پیٹ پر بیٹھ گیا۔اور زناٹے دار چارپانچ تھپڑ جڑ دیئے ،نگینہ کا دماغ تو گھوم گیا ۔ میں نے پھر لگا تار پانچ چھ تھپڑ اور ٹھوک دیئے ۔ نگینہ کا دماغ ٹھکانے پر آگیا ،تم جان گئی ہو گی کہ تم سیر تھی تو اب میں سوا من ہوں ۔ نگینہ اپنے ننگے جسم کیساتھ بے بسی سے مجھے گھورتی رہی ۔اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کے سامنے کون ہے ،میں نے اپنا موبائل نکال کر دلآویز کی ویڈیو لگائی اور اسکرین نگینہ کی طرف کر دی ۔یہ دیکھو جس دلآویز کو مجھ سے بچانے کیلیے تم نے مجھے قتل کرنا چاہا آج تمھاری دلآویز ، اب میری ہے ۔ تم نے آنے والے وقتوں کیلیے اس کا برین واش کر دیا تھا ۔اور میں نے ا سکے برین واش کو اتار کے اپنے لوڑے پر چڑھا دیا ۔ اور تمھاری طرح زبردستی سے نہیں ،دلآویز کی اپنی مرضی سے اسے چودا ہے ،تمھیں اس ویڈیو میں نظر آئے گا کہ کتنے شوق سے دلآویز گھوڑے پر سواری کر رہی ہے ۔ویسے ایک بات ہے نگینے تمھاری بیٹی تم سے زیادہ پٹاخہ ہے میں نے ایک آنکھ دبا کہ نگینہ کے ہی اسٹائل میں کہا ،نگینہ گم سم چپ چاپ اسکرین دیکھے جارہی تھی ۔ جو تم نے مجھے دیا تھا وہ میں نے تمھیں آج واپس لوٹا دیا نگینے ،تمھاری بیٹی شہزادی بن گئی اور اس کی چوت کارستہ کھل گیا ہے ،اب یہ رستہ کھلا رہے گا اور لوگ یہاں سے گزرتے رہیں گے۔ تم سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ چوت کا رستہ ایک بار کھلنے کے بعد کبھی بند نہیں ہوا۔
نگینہ کو پھر جوش آیا اس نے پیچھے سے مجھےدونوں گھٹنے مارے لیکن میں انہی کا تو انتظار کر رہا تھا ۔ جیسے ہی مجھے اس کے جسم میں حرکت محسوس ہوئی میں نے دونوں کہنیاں پیچھے کی طرف اس کی رانوں پر دے ماری ، کہنیوں کی نوک اور رانوں کے گوشت کے ٹکراؤ سے نگینہ کی بھرپور تسلی ہوگئی ،کسی وقت یہی گھٹنے میری ہار کا سبب بنے تھے اور اب میرے لیے یہ بچکانہ حرکت تھی اوپر سے میں نے اس کے تین چار تھپڑ دے مارے ۔ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا کہ تم ہار گئی ہو ۔اور تمھیں ہرانے کیلے میں نے بہت کچھ سیکھا ہےاتنا کچھ کے تم میرے سامنے ایک بونی ہو اور بس۔تمھارا سارا خاندان مل کر بھ اب مجھ اکیلے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ تم نے بہت بڑی غلطی کی تمھیں مجھ کو بھولنا نہیں چاہیئے تھا ،یہ لو ایک ویڈیو اور دیکھو میں نے وہیں نگینہ کے ننگے پیٹ پر بیٹھے نگینہ اور شہروز کی ویڈیو لگا دی،ویڈیو دیکھتے ہوئے نگینہ کی بس ہوگئی اب لگ رہا تھا اس نے ہار مان لی ہے ۔اچھا تو تم نے اس ویڈیو کے ذریعے دلآویز کو اپنا بنایا ہو گا،نگینہ فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گئی ۔ میں اٹھا اور صوفے پر بیٹھ گیا ،اس شہروز کے متعلق ایک بات یاد آرہی ہے ،۔ٍٍٍشہروز کے متعلق کیا تھی وہ بات ؟ میں نے سوچنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔ کس بات کا کہہ رہے ہو، نگینہ بے اختیار پوچھ بیٹھی ۔
شہزادے میں بے غیرت نہیں ہوں ،کہ جس لوڑے پہ ماں چڑھتی ہے اسی لوڑے پر بیٹی کو بھی چڑھا دوں ۔ یاد آیا کچھ؟
میں نے نگینہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔ نگینہ نے کیا کہنا تھا چپ چاپ وہیں لیٹی رہی ۔ٹھیک ہے میں چلتا ہوں ۔میں اٹھ کے انگڑائی لیتے ہوئے کہا ۔۔ دلآویز کو تم اسکی ویڈیو یا اس کے سیکس کرنے کے متعلق تم کوئی بات نہیں کرو گی ورنہ تمھاری ویڈیو سرور خان اور تمھارے بھائیوں تک پہنچ جائے گی۔ تب تمھاری برادری تمھیں موت تو دے گی مگر بڑی ذلت کے ساتھ اور تم مر تو سکتی ہومگر ذلت پسند نہیں کرو گی ۔ٹھیک ہے میری جان ، اوکے نگینہ ۔ میں چلتا ہوں، بائےبائے، میں نے واپس چلنے کیلیے قدم بڑھائے ۔ مجھے گولی مارتے جاؤ شہزادے ۔گولی مار دو مجھے اب یہ زندگی نہیں جی سکتی ،، نگینہ چلائی ۔ اوہ ایک بات تو رہ ہی گئی ۔ میں دروازے کے پاس رک کہ اس کی طرف مڑا ۔ ویسے شہروز اور دلآویز کو یہ نہیں پتہ کہ تم ادھر ادھر بھی منہ مار لیتی ہو ، تمھیں یاد ہو گا کہ تم کچھ مہنیے پہلے ایک لڑکے سے ملی تھی زاہد اس کا نام تھا جوان تھا ،پپو تھا۔ زاہد نے جلد ہی تمھیں پھنسا لیا تھا ۔ وقت اور جگہ تمھارے پاس شروع سے ہے ،تم دونوں نے خوب چودائی کی تھی ،یاد آیا کچھ ، ہاں یاد تو آیا ہو گا،اصل میں وہ لڑکا بازاری عورتوں کا بڑا رسیا تھا ،وہاں سے اسے جنسی بیماریاں لگ گئی تھیں جن میں ایڈز نمایاں ہے ،اب سمجھ تو گئی ہو گی کہ تم ،شہروز اور سرور سب ہی مختلف بیماریوں کا نشانہ بن گئی ہو ، ۔ تمھیں کچھ محسوس ہونا شروع ہوگیا ہو گا ۔ دلآویز شہروز کو دینا تمھاری ضد تھی لیکن اب یہ ضد بیٹی کی زندگی کی مانگتی ہے ۔ یقیناً اب تم یہ شادی بھی نہیں کر سکو گی ۔ جب مجھے تمھارا پتہ چلا تھا اسی وقت میں نے اس لڑکے کو کسی کے ذریعے تمھاری ٹپ پہنچائی تھی ۔ اسے یہی بتایا گیا تھا کہ تم بڑی دھانسو قسم کی بچے باز ہو اور ساتھ ہی لاجواب پیس بھی ہو ،باقی کام خود بخود ہوگیا ۔۔ اب تم روز موت کا انتظار کرو گی اور دھیرے دھیرے سسک سسک کہ مرو گی ۔ نگینہ کی رنگت ہلدی کی طرح زرد ترین ہوگئی ۔ اس کی آنکھوں کی چمک ختم ہوگئی اور ویرانی ڈیرے جمانے لگی ۔ (چیک میٹ)چوت کا کھیل سب سے پرانا کھیل ہے شہزادےاور شہزادیاں اس کھیل کا حصہ بنتے رہتے ہیں ،اس کھیل میں ہمیشہ ایک شکار اور ایک شکاری ہوتا ہے کبھی میں شکار تھا آج میں شکاری ہوں۔(آئی ایم پرنس)۔میں ہوں پرنس۔
دائم آباد رہے گی دنیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا ۔۔(ختم شد)

ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن (آخری قسط)"