Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

استانی جی (قسط 12)


 

کافی دیر تک وہ ایک دوسرے کو چاٹتے رہے پھر وہ الگ ہو گئے اور لالہ کھڑا ہو گیا ۔۔۔اور روشنی میں میں نے دیکھا کہ لالے کا چہرہ باجی کی منی سے چمک رہا تھا ۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ میری طرح باجی بھی کافی دفعہ چھوٹی تھی ۔۔۔۔ پھر میں نے دیکھا کہ بجائے باجی لیٹنے کے وہ گھوڑی بن گئی اور مین دیکھا کہ بجائے لالہ باجی کے پیچھا جا کر اس کی چوت میں اپنا لن ڈالتا ۔۔۔۔۔ وہ آگے باجی کے منہ کی طرف آیا اور ۔۔۔ اپنا لن باجی کے منہ کے پاس لے گیا ۔۔۔۔ اور باجی نے تیزی سے اپنا منہ کھولا اور ۔۔۔لالے کا آدھا لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگی ۔۔۔ پھر جلد ہی باجی نے لالے کا لن اپنے منہ سے نکا لا اور اس پر تھوک پھینکا اور ۔۔۔لالہ اس کا تھوک اپنے لن پر ملتا ہوا ۔۔باجی کے پیچھے آ گیا ۔۔۔۔ اور پھر اس نے اپنے لن کے ہیڈ کو باجی کی چوت پر رکھا اور ایک ٹھوکر ماری ۔۔۔۔اور ۔۔لن پھسلتا ہوا ۔۔ باجی کی چوت میں چلا گیا ۔۔۔۔۔اور وہ دھکے مارنے لگا ۔۔۔ پہلے آرام آرام سے ۔۔ پھر تیز۔۔۔اور تیز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ان کے چودائی سین کو ہوش و حواس سے اس قدر بے گانہ ہو کر دیکھ رہی تھی کہ مجھے آس پاس کا بھی ہوش نہ رہا تھا ۔۔ اور ہوش تب آیا ۔۔۔۔۔ جب ۔۔۔ پیچھے سے کسی نے مجھے آواز دیکر بلایا ۔۔۔۔ پہلے تو میں اسے اپنا وہم سمجھی ۔۔۔۔ لیکن جب وہی آواز بار بار میرے کانوں میں گونجی تو میں چونک اُٹھی ۔۔۔کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا ۔۔۔ کیا دیکھ رہی ہو مرینے ۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔ اور میں نے مُڑ کر دیکھا ۔۔۔ تو دیکھا کہ عین۔۔۔۔ میرے۔۔ پیچھے خان جی کھڑے مجھے گھور رہے تھے۔۔۔۔مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر اس دفعہ وہ اشارے سے بولے ۔۔۔ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔؟ ان کو دیکھ کر میری تو سیٹی گم ہو گئی ۔چہرے کا رنگ اُڑ گیا ۔ اور میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔کیونکہ کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اس وقت بھی گھر آ سکتے ہیں ۔۔ اور ان کو دیکھ کر میری حالت ایسی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔ کہ جیسے کاٹو تو لہو نہیں ۔۔۔۔ اور میں تیزی کے ساتھ سوچنے لگی اب میں کیا کروں ۔۔۔ اندر باجی کی دھواں دھار چودائی جاری تھی ۔لالہ ان کی چوت میں دھکے پہ دھکا مار رہا تھا ۔ان کی ۔ کھڑکی بھی بند تھی ۔۔۔ کہ میں اونچی آواز میں باتیں کرتی ۔۔ کہ جے سُن کر وہ دونوں سنبھل جاتے ۔ یا چھُپ جاتے لیکن ایسا کچھ نہ تھا ۔۔۔ کچھ بھی نہ تھا ۔۔۔ میرا دماغ ماؤف ہو رہا تھا ۔۔۔ ۔۔ ہاتھ پاؤں شل ہو رہے تھے ۔۔۔ ڈر کے مارے میرے ہونٹ خشک ہو چکے تھے اور ان پر پیڑیاں سی بن گئی تھیں۔۔۔اور مجھے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی حل نظر نہ آ رہا تھا ۔۔اور میں سوچ رہی تھی کہ ۔۔ کیا کروں ۔۔ کس طرح ۔۔ ان لوگوں کو بچاؤں ۔ کیا کروں یہی سوچ سوچ کر میں پاگل ہو رہی تھی ۔۔۔ کہ اچانک ۔۔ خان جی بولے ۔۔ذرا میں بھی تو دیکھو ں کہ ۔ تم کھڑکی سے لگی اندر کیا دیکھ تھی ؟ اور پھر وہ اپنے قدم بڑھاتے ہوئے کھڑکی کی طرف آنے لگے ۔۔۔اور ۔۔۔۔اور ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟ ؟ ادھر خان جی کھڑکی کی طرف بڑھ رہے تھے ۔۔ ادھر ڈر کے مارے میرا حال بہت ہی بُرا ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میں شور مچانا چاہتی تھی تا کہ وہ لوگ ہوشیار ہو جائیں اور کچھ کر لیں ۔۔ ۔۔لیکن میری آواز میرے حلق میں ہی کہیں پھنس کر رہ گئی تھی ۔۔اور ۔ویسے بھی اب شور مچانے کا کوئی فائدہ بھی نہ تھا کہ ۔۔ شیشے والی کھڑکی سے اندر کا نظارہ تو کیا جا سکتا تھا مگر ۔۔۔ باہر سے کسی آواز کا اندر جانا بہت مشکل تھا اور اگر فرض کریں آواز اندر جاتی بھی ۔۔۔ تو جس حساب سے وہ لوگ لگے ہوئے تھے انہوں نے کسی بھی آواز پر دھیان نہیں دینا تھا ۔۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے ان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور سوچنے لگی کہ موجودہ صورتِ حال میں مجھے کیا کرنا چاہیئے ؟؟۔۔۔۔ اور پھر ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں ۔۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس صورتِ حال میں مجھے کیا کرنا ہے۔۔۔ اسی دوران خان جی کھڑکی کے پاس پہنچ چکے تھے ۔۔۔اندر کا نظارہ ان کے لیئے کسی طور بھی خوش کن نہ تھا ۔۔ اس لیئے کہ اندر ان کا سگا چھوٹا بھائی ان کی سگی چھوٹی بہن کو چود رہا تھا ۔۔۔۔۔ انہوں نے بس چند ہی سیکنڈ اندر کا نظارہ دیکھا پھر مزید دیکھنے کا ان میں یارا نہیں رہا ۔۔۔ اور وہ سر پکڑ کر نیچے بیٹھ گئے ۔۔۔ یقینا انہیں بہت گہرا صدمہ پہنچا تھا ۔۔۔اب میں آگے بڑھی اور ان کو سہارا دیکر اوپر اُٹھایا ۔۔۔۔ رنج ۔حیرت ۔ غم اور صدمے کی وجہ سے ان کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور وہ رو رہے تھے ۔۔۔۔میں نے ان کو رسمی سی تسلی دی اور پھر ان کو سہارا دیکر ۔۔۔۔۔اپنے کمرے کی طرف چلنے لگی ۔۔۔سارا راستہ وہ یہی بات بُڑبڑاتے رہے ۔۔۔ کہ مجھے اسی بات کا ڈر تھا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مزید بھی کچھ کہتے رہے لیکن وہ بات میری سمجھ میں نہ آ رہی تھی ۔۔ ۔۔۔۔۔کمرے میں آ کر میں نے ان کو بستر پر لٹا دیا اور پاس بیٹھ کر ان کی دل جوئی کرنے لگی ۔۔۔ پھر میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے اُٹھی کہ میں آ پ کے لیئے پانی لیکر آتی ہوں ۔۔ اور بہانے سے باہر گئی اور اپنے کمرے کے سامنے لگا ہوا پردہ نیچے گرا دیا ۔۔۔۔ یہ بھی ہمارا کوڈ تھا ۔۔کہ گھر میں کوئی اور بھی ہے ۔۔۔ اس لیئے محتاط ہو جاؤ۔۔۔ پانی پلانے کے بعد میں ان کا سر دبانے لگی ۔۔۔۔ اور ان سے بات چیت کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ میری کسی بھی بات کا کوئی واضع جواب نہ دے رہے تھے میرا خیال ہے گہرے صدمے کی وجہ سے وہ ایسا کر رہے تھے ۔۔۔اور میں سوچ رہی تھی کہ جب انہوں نے کھڑکی سے صنوبر باجی کا شو دیکھا تھا تو اگر وہ اسی وقت اپنا ردِعمل شو کر دیتے تو یہ ردِعمل ان کے لیئے بہت اچھا ہونا تھا کہ اس وقت کی چیخ و پکار سے ان کا اندر کا سارا غبار نکل جاتا ۔لیکن سارا غصہ اپنے اندر ہی دبا کر انہوں نے اچھا نہیں کیا تھا کیونکہ یہ بات خان جی اوران کی صحت دونوں کے لیئے خطرناک ہو سکتا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن اب ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ کیا ہو سکتا تھا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے جانے کے لیئے کہا ۔۔۔ لیکن میں نے انکار کر دیا ۔۔۔اور ڈھیٹ بن کے بیٹھی رہی اور ان کا سر دباتی رہی ۔۔۔۔ اس وقت ان کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا اور ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے اور وہ اپنی مُٹھیاں بھینچ بھینچ کر اپنے غصے کو دبانے کی کوشش کر رہے تھے پھر وہ بستر سے اُٹھے اور کمرے میں ٹہلنے لگے۔۔۔۔ اور میں بھی انتہائی غم ذدہ سا منہ بنائے ان کے سامنے بیٹھی ان کے اگلے ردِ عمل کا انتظار کرتی رہی ۔۔۔۔ کافی دیر کے بعد انہوں نے اپنے غصےپر کسی حد تک قابو پا لیا ۔۔۔۔ اور پھر میرے سامنے پلنگ پر بیٹھ کر بڑے ہی جلال سے کہنے لگے ۔۔۔۔ میرے گھر میں ان کا یہ گندہ کھیل کب سے جاری ہے ؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھ کر انتہائی خوفذدہ ہونے کی ایکٹنک کرتے ہوئے کہا ۔۔ کہ قسم لے لو خان جی آپ کی طرح میں نے بھی ان کو آج پہلی دفعہ اس حالت میں دیکھا ہے ۔۔۔۔ پھر ڈرتے ڈرتے بولی ۔۔۔ وہ آپ نے خود ہی تو میری ڈیوٹی لگائی تھی ۔۔۔ تو وہ میری بات سُنی ان سنی کرتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔۔۔ میں چاہوں تو ابھی ان دونوں کے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کر سکتا ہوں لیکن اس طرح سب لوگوں کو پتہ چل جائے گا اور ہمارے گھرانے کی بڑی بدنامی ہو گی ۔۔۔۔۔ اور پھر خود ہی بولے ۔۔۔۔ باہر اتنی دنیا پڑی ہے اس ہمت کو بھی اس گندے کام کے لیئے صرف اپنی بہن ہی نظر آئی تھی۔۔ انہوں نے یہ کہا اور پھر پریشانی کے عالم میں اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا اور رونے لگے اب میں اُٹھی اور ان کو چُپ کرانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔۔ اب انہوں نے اپنا سر میرے ساتھ جوڑ لیا اور روتے ہوئے بولے ۔۔۔۔ مرینے میں کیا کروں ؟ کس کو بتاؤں ۔۔؟ اور کیا بتاؤں کہ میرا بھائی اپنی بہن کے ساتھ خراب ہے اور پھر رونے لگے ۔۔۔ اس دوران میں ان کو مسلسل تسلیاں دیتی رہی جس سے ان کو کافی ڈھارس بندھی اور پھر میں نے ان کو بستر پر لیٹنے کو کہا اور اور خود بھی ان کے ساتھ چپک کر لیٹ گئی اور ان کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہی ۔اور ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ایسی باتیں بھی کرتی رہیں جس سے ان کا صدمہ کچھ کم ہو ۔۔۔میری کوشیشں رنگ لائیں اور ۔۔ کچھ ہی دیر بعد خان جی گہری نیند سو گئے ۔۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ خان جی کے ساتھ ہی میں بھی نیند کی آغوش میں چلی گئی ۔۔۔ کوئی ایک گھنےا کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں ہڑبڑا کر اُٹھی ۔۔۔ اور چند سیکنڈ تک میں بلکل خالی الذہن بیٹھی رہی پھر آہستہ آہستہ ۔۔۔۔ میری ذہن میں کچھ دیر پہلے کے سارے واقعات ایک ایک کر کے میری نظروں کے سامنے آنے لگے ۔۔۔۔۔ساری باتیں یاد آتے ہی میں پھرتی سے پلنگ پر سے اُٹھی اور باہر چلی گئی اور باہر دیکھا تو برآمدے میں صنوبر باجی بیٹھی سبزی چھیل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجےگ اپنے سامنے پا کر وہ ایک دم اُٹھ کر کھڑی ہو گئی اور بولی ۔۔۔ سب خیر تو ہے نا؟ تو میں ان کو ان کے کمرے کی طرف لے جاتے ہوئے بولی ۔۔۔ سب خیر نہیں ہے باجی اور پھر بلا کم و کاست ساری سٹوری ان کے گوش گزار کر دی ۔۔۔ جسے سُن کر وہ از حد پریشان ہوئیں اور مجھ سے بولیں ۔۔۔۔ اب کیا ہو گا ۔؟ تم ہی کچھ مشورہ دو کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیئے ؟؟؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔کہ میرا مشور تو یہ ہے کہ ۔ کہ فی الحال آپ لوگ سین سے غائب ہو جائیں ۔۔۔ اس دوران میں کچھ کرتی ہوں ۔۔۔ اور جیسے ہی حالات نارمل ہوئے میں آپ لوگوں کو بتا دوں گی ۔۔۔ میری بات صنوبر باجی کے دل کو لگی اور وہ بولی ٹھیک ہے میں کچھ دنوں کے لیئے اپنی بیٹی کے پاس کراچی چلی جاتی ہوں ۔۔۔۔ اور لالے سے بھی کہتی ہوں کہ وہ بھی کچھ دنوں کے لیئے منظر سے غائب ہو جائے ۔۔پھر انہوں نے جلدی جلدی میں اپنی پیکنگ کی اور پھر اسی تیزی سے وہ گھر سے باہر نکل گئیں ۔۔ اور جاتے جاتے کہہ گئی کہ اگر خان جی پوچھیں تو کہنا کہ کراچی اپنی بیٹی سے ملنے ایک ارجنٹ کام کے سلسلہ میں گئی ہوں ۔۔۔۔۔۔ خان جی دوپہر کے قریب اُٹھے اور مجھ سے بنا کوئی بات کئے باہر نکل گئے ۔۔۔ لیکن پھر وہ جلد ہی واپس لوٹ آئے ۔۔ اور اندر کمرے میں جا کر لیٹ گئے ان کے رویہ سے مجھے کافی تشویش ہوئی اور میں ان کے پاس چلی گئی اور ان سے ان کا حال احوال وغیرہ دریافت کیا ۔۔۔ اس واقعہ کے بعد آہستہ آہستہ وہ بستر پر لگ گئے ۔۔۔ اور ان کو مختلف بیماریوں نے گھیر لیا ۔۔۔۔ ہر چند کہ میں نے ان کی صحت کے لیئے کافی بھاگ دوڑ کی ۔۔۔ لیکن ایک دفعہ جب خان جی گر گئے تو پھر وہ دوبارہ نہ اُٹھ سکے ۔۔۔۔ اور آخرِ کار اس حادثے کے چھ ماہ کے اندر اندر ہی وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔۔۔ اس کے باوجود کہ میری ان کے ساتھ ونی ہوئی تھی محبت تو خیر مجھے کبھی بھی ان کے ساتھ نہ ہو سکی ۔۔۔۔۔۔لیکن اتنا عرصہ ان کے ساتھ رہ رہ کر مجھے ان کے ساتھ کافی انسیت سی ہو گئی تھی ۔۔اور کچھ بھی ہو آخر وہ میرے شوہر تھے ۔۔۔چنانچہ ان کے یوں جانے سے میرا دل بہت دکھا ۔۔۔ اور میں نے ان کا بڑا سوگ منایا ۔۔۔۔۔۔ خان جی مرنے کے بعد لالہ گھر میں ہی شفٹ ہو گیا تھا ۔۔۔۔اور صنوبر باجی بھی واپس آ گئی تھیں ۔۔۔ پھر عدت کے بعد کچھ تو صنوبر باجی کے دباؤ ۔۔۔اور کچھ چونکہ خان جی کا سارا کاروبار لالہ ہی دیکھتا تھا ۔۔اس لیئے کچھ کاروباری مجبوریوں کی وجہ سے بھی۔۔۔۔ کیونکہ مجھے کاروبار کی الف بے بھی نہ آتی تھی ۔ اس لیئے ان کے مرنے کے بعد ۔۔۔۔صنوبر باجی نے اپنے قریبی رشتے داروں کے مشورے اور میری مرضی سے میرا نکاح لالے کے ساتھ کر دیا ۔۔۔۔ ۔۔۔ہاں تو دوستو یہ تھی مرینہ کی وہ سٹوری جو اس نے مختلف ٹکڑوں میں مجھے سنائی تھی اور میں نے ایک ہی نشست میں آپ کے گوش گزار کر دی دوستو ویری سوری کہ مرینہ کی کہانی کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی تھی ۔۔۔ جس کے لیئے میں آپ لوگوں سے معذرت خواہ ہوں ۔۔۔۔ مرینہ نے اپنی سٹوری کا آخری ٹکڑا مجھے لیاقت باغ کی ایک بینچ پر بیٹھ کر سنایا تھا ۔۔۔ اور خان جی کی موت کا سُن کر مجھے بھی کافی دکھ محسوس ہوا تھا ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی مرینہ کی انکھوں میں خان جی کی موت کازکرکرتے ہوئے ایک نمی سی اُتر ائی تھی ۔۔۔۔ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں ۔۔۔تو سوتو اب ہم اپنی اصل سٹوری کی طرف واپس آتے ہیں ۔۔۔ مرینہ کو ہسپتال لانا لے جانا ۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ گھومنا پھرنا اور اس کے آگے پیچھے پھرنا ،اس کے ساتھ ہی نتھی رہنا میرے خیال میں ارمینہ کو یہ سب اچھا نہ لگ رہا تھا بلکہ مرینہ سے میری بے تکلفی ارمینہ کو کافی ناگوار گزر رہی تھی ۔۔۔ اسی لیئے تو میں کچھ دنوں سے دیکھ رہا تھا کہ ارمینہ مجھ سے کچھ کچھی کچھی سی رہنے لگی تھی ۔میری کسی بھی بات کا وہ سیدھے منہ جواب بھی نہ دے رہی تھی اور نہ ہی وہ مجھے کوئی لفٹ وغیرہ بھی دے رہی تھی۔۔ لیکن میں کیا کرتا کہ میں اس سلسہ میں مجبور تھا کیونکہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مرینہ ایک بولڈ خاتون تھی اور مجھے بڑے دھڑلے سے سب کے سامنے اپنے ساتھ لے جاتی ۔۔ اور میں انکار نہ کر سکتا تھا کیونکہ اس کے ساتھ جانے میں ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ ۔۔وہ اکثر بائیک کے پیچھے بیٹھی موقعہ ملنے پر میرا لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتی تھی اور خاص کر اپنے ممے میرے ساتھ جوڑ کر بیٹھتی تھی ۔۔جس کا مجھے بہت مزہ آتا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن اس کی تمام تر بےباکی اور کھلے پن کے باوجود بھی میں ابھی تک مرینہ کو چودنے میں ناکام رہا تھا ۔۔اور اس کی وجہ صرف اور صرف جگہ کا نہ ہونا تھا ۔۔۔۔۔۔ ایک دفعہ میں نے مریڈ کے قریب اس کو لن چسوانے کی کوشش کی تھی لیکن عین وقت پر اس علاقے کا چوکیدار آ گیا تھا جس کی وجہ سے ہم لوگوں کو نہ صرف وہاں سے بھاگنا پڑا تھا ۔۔۔۔۔۔بلکہ اس کے بعد مرینہ نے توبہ کر لی تھی کہ وہ کسی بھی سنسان جگہ پر نہ تو میرے ساتھ جائے گی اور نہ ہی کوئی ایسی ویسی کوئی حرکت کرے گی ۔۔۔ ہاں موٹر سائیکل پر بیٹھے بیٹھے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑنا اور ۔۔۔۔ پیچھے سے اپنے خوبصورت ممو ں کو میری کمر کے ساتھ جوڑ کر بیٹھنا اس کے بقول اور بات تھی ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اکثر استانی جی اور میڈم ندا کے گھر کا بھی چکر لگاتا رہتا تھا ۔۔۔۔ اور اسی دوران مجھے یہ افسوسناک خبر بھی ملی تھی کہ استانی جی کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ کچھ دن مزید وہا ں پر رُک گئیں تھیں ۔۔ایک دن کی بات ہے کہ میں ارمینہ کے گھر گیا تو دیکھا کہ ماسی اور مرینہ برآمدے میں بیٹھی گپ شپ لگا رہی تھیں جبکہ ارمینہ حسبِ معمول کچن میں گھسی کام کر رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے ماسی اور مرینہ باجی کو سلام کیا اور پھر ارصلا کے بارے میں پوچھنے لگا تو پتہ چلا کہ وہ کہیں گیا ہے ۔۔اسی دوران ارمینہ کچن سے باہر نکلی اور ماسی سے بولی ۔۔۔۔ مورے ٹماٹر۔۔۔نشتہ۔۔۔ ( ماں ٹماٹر ختم ہو گئے ہیں )۔۔۔اس کی بات سن کر ماسی کہنے لگی ۔۔۔ابھی منگواتی ہو ں اور پھرماسی نے مجھے پیسے پکڑاتے ہوئے کہا ۔۔ جاؤ بیٹا بازار سے آدھا کلو ٹماٹر لے آؤ ۔۔۔ میں نے ماسی کے ہاتھ سے پیسے پکڑے اور بازار چلا گیا اور واپسی پر ٹماٹر لا کر باقی پیسے اور ٹماٹر ماسی کو پکڑائے تو ان سے پہلے ہی مرینہ بولی ۔۔۔۔ بھائی یہ ٹماٹر کچن میں جا کر ارمینہ باجی کو دے آؤ۔۔۔ مرینہ کی بات سن کر گویا کہ میرے دل کی مراد بر آئی اور میں ٹماٹروں کا شاپر ہاتھ میں پکڑے کچن میں گیا اور ۔۔آرمینہ کو ٹماٹروں کا شاپر پکڑاتے ہوئے اس کے مموں پر ہاتھ لگایا تو وہ پھٹ پڑی اور بولی ۔۔۔یہ کیا بد تمیزی ہے ؟ تو میں نے اس سے کہا یہ بدتمیزی نہیں ہے محبت ہے میری جان اور ایک دفعہ پھر اس کے ممے دبا دیئے ۔۔۔ اس پر وہ خاصہ تلخی سے بولی ۔۔۔۔ اچھی محبت ہے ۔۔۔محبت مجھ سے کرتے ہو اور بائیک پر سارا سارا دن اس ماں ( مرینہ ) کوگھماتے رہتے ہو۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ وہ میری ماں نہیں آپ کی بڑی بہن اور مہمان ہے ۔۔۔ اور پھر بڑا سیرس سا منہ بنایا اور اس سے بولا ۔۔۔میری جان اگر تم کو یہ پسندنہیں ہے تو آئیندہ سے میرا بائیک چلانا بند ۔۔۔۔ میں نے اتنا کہا اور کچن سے باہر نکل آیا۔۔۔۔ برآمدے میں آ کر دیکھا تو ماسی اور مرینہ ویسے ہی بیٹھی باتیں کر رہی تھیں ۔۔۔ مرینہ کی نظر جیسے ہی مجھ پر پڑی ۔۔۔اس نے مجھےکہا ۔۔۔ایک منٹ رکو زرا ۔۔ مرینہ کی بات سُن کر میں وہیں رُک گیا اور وہ چارپائی اُٹھی اور جلدی جلدی چپل پہن کر میرے پاس کھڑی ہو گئی اور پھر اشارہ سے چلنے کا کہا ۔۔۔دروازے پر جا کر وہ رک گئی اورپھر مجھے بڑے غور سے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ کیا بات ہے یہ تمھاری شکل پر بارہ کیوں بج رہے ہیں ؟ارمینہ سے لڑائی ہو گئی ہے کیا ؟۔۔۔ تو جواب میں نے ان کو ساری بات بتا دی ۔۔۔ سُن کر مسکراتے ہوئے بولی ۔۔ ۔۔ارے یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ گھبرانے کی کوئی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔ تو میں نے قدرے تلخی سے اس سے کہا کہ گھبرانے کی کیوں ضرورت نہیں ہے جی ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔ یار ۔۔ بات بس اتنی سی کہ تمھاری یار کا سیکس پر شدید دل آیا ہوا ہے شرم کے مارے وہ سیدھا کہہ نہیں سکتی اس لیئے ایسے ڈرامے کر رہی ہے ان کی بات سُن کر میں نے ان سے کہا آپ کو کیسے پتہ؟؟ تو کہنے لگیں ارمینہ کو میں بہت اچھی طرح سے جانتی ہوں اور دوسری بات یہ ہے کہ میں بھی ایک عورت ہوں اور ایک عورت دوسری عورت کے جزبات خوب سمجھتی ہے ۔۔ اور پھر کہنی لگی مت بھولو کہ میں ارمینہ کی بہن بھی ہوں اور اس لحاظ سے میں اس کے جزبات کےاتار چڑھاؤ سے خوب اچھی طرح واقف ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ پھر مرینہ نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔۔۔ ۔۔چلوا یسا کرتی ہوں کہ میں تم کو ایک موقع دیتی ہوں ۔۔۔اور تم اس موقع کا پورا فائدہ اُٹھاؤ اور ارمینہ بے چاری کی طلب مٹا دو۔۔۔ تو میں نے ا ن سے کہا میں سمجھا نہیں باجی تو وہ کہنے لگی ۔۔۔یار آج رات ہم سب گھر والوں نے ایک جگہ کھانے پر جانا ہے ۔۔۔ میں ایسے کرتی ہوں کہ کسی بہانے سے ارمینہ کو ڈراپ کر دوں گی ۔۔۔اور تم آ کر اس کو سیکس کی ڈرپ لگا دینا اور اس کی پیاس مٹا دینا تو میں نے ان سے کہا کہ وہ تو مجھ سے بڑی سخت ناراض ہیں ۔۔۔ مان جائیں گی ؟ ۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔میری جان وہ کوئی ناراض شراض نہیں ہے ۔۔۔۔ بس اپنی سیکس ڈیزائیر کے ہاتھوں تنگ ہے ۔۔۔۔ تم اس کی خواہش پوری کر دو ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا پر کیسے ؟؟ ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔اب یہ بات بھی مجھے ہی بتانی پڑے گی ۔۔۔اور مجھے رُخصت کر کے دروازہ بند کر دیا ۔۔۔۔ مرینہ کی انفارمیشن پر میں مقررہ وقت سے کافی پہلے اپنے گھر کی چھت پر چڑھا اور اس بات کاا نتظار کرنے لگا کہ کب مرینیہ او ر اس کے گھر والے جائیں اور کب میں ان کے گھر جا کر ارمینہ کی لوں ۔۔۔۔ اور بار بار گھڑی دیکھتا کہ کب مرینہ اپنی فیملی کے ساتھ جائے اور میں جا کر ارمینہ کو چودوں ۔۔۔ ارمینہ کی چودائی کا سُن کر میرا لن بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اس لیئے میں نے واش روم میں جا کر ایک دفعہ ارمینہ کے نام کی مُٹھ مار لی جس سے مجھے کچھ سکون ملا اور میں پھر سے چھت پر کھڑا ہو گیا ۔۔۔ رات کے ساڑھے آٹھ بجے تھے جب مرینہ کے گھر والے ایک ایک کے اپنے گھر سے نکلنے لگے ۔۔۔ یہ دیکھ کر میرا لن پھر سے کھڑا ہو گیا اور میں اس انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ کب یہ لوگ جائیں اور میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن تھوڑی ہی دیر بعد میں نے دیکھ تو سب سے آخر میں ارمینہ بھی گھر سے برآمد ہوئی ۔۔۔ میرے خیال میں وہ تالے وغیرہ لگا رہی ہو گی ۔۔۔ ارمینہ کو اپنے گھر والوں کے ساتھ جاتے دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں مرینہ کو بے شمار گالیاں دیں اور ۔۔۔پھر سخت مایوس ہو کر لیٹ گیا لیکن نیند کہاں تھی ۔۔ لیکن میں کرتا بھی کیا ۔۔۔ پھر رات کے کسی پہر مجھے نیند آ ہی گئی ۔۔۔۔ پھر جب میں صبع اُٹھ کر ارصلا کو لینے ماسی کے گھر گیا تو میرا موڈ سخت آف تھا اور اس کے ساتھ ساتھ رات لیٹ سونے اور صبع جلد اُٹھنے کی وجہ سے میری آنکھیں بھی کافی سُرخ ہو رہیں تھیں ۔۔ سو جیسے ہی میں ارصلا کو لینے اس کے گھر کے اندر داخل ہوا تو سامنے ہی مرینہ کھڑی تھی مجھے دیکھتے ہی کہنے لگی ۔۔۔تیری صبع کہہ رہی ہے تیرے رات کا فسانہ ۔۔۔۔اور ہنس پڑی۔۔۔۔ پھر وہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی ۔۔ میں نےتو بڑی ٹرائی کی تھی یار مگر ابا نہ مانے اس لیئے ۔۔ ارمینہ بھی چلی گئی تھی ۔۔پھر کہنے لگی ۔۔ چلو کوئی بات نہیں پھر سہی ۔۔۔۔ کُڑی سیٹ تو ہے نا تیرے ساتھ تو میں نے جل کر کہا خاک سیٹ ہے۔۔۔ تو مرینہ مجھ سے کہنے لگی اچھا غصہ تھوک میں کچھ کرتی ہوں اتنے میں ارصلا بھی آگیا اور ہم دونوں سکول چلے گئے ۔ سکول سے واپسی پر میں نے ارصلا کو اس کے گھر چھوڑا اور خود اپنے گھر جانے لگا تو مرینہ نے مجھے آواز دیکر روک لیا ۔۔۔ اور بولی شام کو ریلوے سٹیشن جانا ہے تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں؟؟؟ تو کہنے لگی یار واپسی کا پروگرام ہے اور ٹرین پر حیدرآباد کے لیئے بکنگ کرانی ہے ۔۔۔ مرینہ کی واپسی کا پروگرام کا سُن کر پتہ نہیں کیوں میں اداس سا ہو گیا ۔۔ایسا لگا کہ جیسا کوئی اپنا بہت اپنا بچھڑ رہا ہو۔۔۔ اس لیئے میں مردہ قدموں سے اپنے گھر چلا گیا ۔۔۔ شام کو میں مرینہ کے ساتھ صدر گیا ۔۔۔ سٹیشن کے سامنے ہی ان کو بکنگ آفس تھا جہاں سے مرینہ نے اپنے لیئے بکنگ کرائی اور ہم سٹیشن کے راستے واپس گھر آنے لگے ۔۔ تو ریلوے سٹیشن پر کافی رش دیکھ کر میں نے مرینہ کہا کہ کافی رش ہے تو وہ بولی کوئ گاڑی آئی ہو گی ابھی میں نے سٹیشن کا گول چکر کراس کیا ہی تھا کہ اچانک پیچھے سے مرینہ چلائی ۔۔۔۔۔رُکو۔۔ رُکو ۔۔ مرینہ کی بات سن کر میں نے فوراً ہی بائیک کی بریک لگائی ور اس سے پوچھنے لگا کہ کیا ہوا باجی خیریت تو ہے نا۔۔۔ لیکن مُڑ کر دیکھا تو پیچھے مرینہ بائیک کی سیٹ پر نہ تھی میرے بریک لگاتے ہی وہ چھلالنگ لگا کر نیچے اُتری اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک خاتون کو پیچھے سے پکڑ لیا اور پھر وہ اس لیڈی کے ساتھ لپٹ گئی ۔ جیسے ہی مرینہ اس خاتون کے ساتھ لپٹی ۔۔۔۔ اس خاتون نے مرینہ کو دیکھ کر ایک نعرہ مارا ۔۔۔ مرینہ کی بچی ۔۔۔ یہ تم ہو ۔۔۔ اور پھر وہ دونوں ایک ساتھ چمٹ گئیں ۔۔ اور میں حیران پریشان اس خاتون کو دیکھنے لگا ۔۔۔ یہ ایک سانولے رنگ کی دبلی پتلی اور نمکین سی خاتون تھی جس نے سفید رنگ کا باریک سا لباس پہنا ہوا تھا اور اس پر برائے نام سا دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا ۔۔۔ جبکہ پیچھے سے اس کی سفید قمیض میں سے کالے رنگ کی برا کا سٹیپ بڑی ہی نمایاں نظر آ رہا تھا۔ اوپر سے اس ظالم نے قمیض بھی اتنی تنگ پہنی ہوئی تھی کہ پیچھےسے دیکھنے پر اس کی بڑی سی گانڈ اس کے بند چاک والی قمیض میں پھنس کر رہ گئی تھی ۔ ۔۔۔ اور میں کبھی اس کی گانڈ کے ابھاروں کو دیکھتا اور کبھی اس کے برا کے سٹیپ کو ۔۔۔ ۔۔۔ ادھر وہ دونوں مگن ہو کر آپس میں باتیں کر رہیں تھیں ۔۔۔۔ پھر اچانک وہ خاتون اپنی گھڑی کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ چل یار گھر چلتے ہیں ۔۔۔ اُن کے آنے کا ٹائم بھی ہو گیا ہے ۔۔۔ اس کی بات سُن کر مرینہ شرارت سے بولی ۔۔۔ تمھارا مطلب ہے کہ ۔ فادر کے آنے کا ٹائم ہو گیا ہے ۔۔ مرینہ کی بات سُن کر وہ دونوں ہنس پڑیں ۔۔۔پھر وہ خاتون مرینہ سے بولی ۔۔۔ واؤ۔۔۔۔۔ تم کو ابھی تک یاد ہے ؟ تو مرینہ بولی ۔۔ یہ بھی کوئی بھولنے والی بات تھی ۔۔۔۔ تو اس خاتون نے مرینہ سے پوچھا اچھا یہ بتا بکنگ کب کی ہوئی تو مرینہ نے جواب دیا ۔۔۔ پرسوں ۔۔۔۔ اس پر وہ خاتون بولی تو کل تم نے ہر صورت میرے گھر آنا ہے ۔۔۔ اور جیسے ہی وہ مرینہ کو اپنے گھر کا پتہ سمجھانے لگی ۔۔۔ وہ بولی ۔۔ مجھے خاک سمجھ آئے گا تم اس کو اپنا اڈریس سمجا دو۔۔۔ مرینہ کی بات سُن کر پہلی دفعہ اس خاتون نے میری طرف گھوم کر دیکھا ۔۔۔۔ اور میری طرف ایک بھر پور نگاہ ڈال کر بولی ۔۔۔ یہ صاحبزادہ کون ہے ؟ اور پھر مرینہ کی طرف منہ کر کے بولی ۔۔۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تمھارا بھائی تو ابھی بہت چھوٹا ہے ۔۔اس پرمرینہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے اس کو جواب دیا ۔۔۔ نہیں یہ ہمارا محلے دار اور فیملی فرینڈ ہے اور پھر اس نے میرا تعارف کروایا ۔۔۔۔ جسے سُن کر وہ بولی اوکے ۔۔۔ پھر مجھ سے کہنےلگی ۔۔۔ یہ بتاؤ مسٹڑ تم نے مکھا سنگ اسٹیٹ دیکھا ہے ؟ تو میں نے یس میں سر ہلا دیا ۔۔۔ پھر بولی ۔۔ مکھا سنگھ اسٹیٹ میں ملت سکول ۔۔۔۔۔۔ تو میں نے اس پر بھی سر ہلا دیا ۔۔۔ تو پھر اس نے مجھے ملت سکول سے اپنا گھر سمجھانا شروع کر دیا ۔۔۔۔ آسان سا پتہ تھا ۔۔۔ سو میں نے اس سے کہا کہ باجی ۔۔ آپ کا گھر ۔۔۔ فلاں کریانہ کے سامنے والی گلی میں بنتا ہے نا ؟ میری بات سُن کر وہ مرینہ کی طر ف مُڑی اور بولی لو جی بھائی نے سارا کام ہی آسان کر دیا ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ پھر وہ جاتے جاتے مرینہ سکو پھر تاکید کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ کل ضرور آنا ۔۔۔ میں تمھارا ویٹ کروں گی پھر کہنے لگی ۔۔۔ اگر نا آئی نا تو پھر دیکھ لینا ۔۔اور مرینے نے اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔ فکر نہیں کرو میں کال صبع ہر صورت تمھارے پاس ہوں گی ۔۔۔ اس کے بعد وہ دونوں آپس میں گلے ملیں اور پھر ہاتھ ملایا اور پھر وہ خاتون مرینہ کو اور مجھے ہاتھ ہلاکر ٹاٹا کرتے ہوئے وہاں سے چلی گئی اس کے جانے کے بعد میں نے مرینہ سے پوچھا باجی یہ کون تھی ؟ تو مرینہ کہنےلگی ۔۔ یہ میرے کالج کی دوست ۔ جوزفین تھی ۔۔۔ بڑی اچھی لڑکی ہے پھر وہ مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ کل اس کے گھر چلیں گے تو میں نےکہا باجی میں نے تو سکول جانا ہو گا ۔۔۔ تو وہ ہنس کر بولی ۔۔ ارے یار ایک دن اسکول نہ جاؤ گے تو کون سی قیامت آ جائے گی ۔۔ ویسے بھی تم نے کون سا کوئی بڑا افسر بننا ہے ۔ پھر مجھ سے کہنے لگی ایسا کرو کہ کل تم سکول سے پھٹا مارنا ۔۔ سب سے پہلے ہم جولی (جوزفین) کے گھر جائیں گے اس کے بعد مجھے موتی بازار لے جانا ۔۔۔وہاں میں نےتھوڑی سی شاپنگ کرنی ہے ۔ اس کے بعد مجھے گھر اتار کے تم فارغ ۔۔ دن حسبِ حکم میں نے سکول سے پھٹا مارا ۔۔۔ اور مرینہ کےگھر پہنچ گیا ۔ دیکھا تو وہ ناشتہ کر رہی تھی مجھے دیکھ کر بڑی خوش ہوئی اور بولی بستہ اندر رکھ دو ۔۔ میں زرا چائے پی لوں پھر ہم چلتے ہیں ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں مرینہ نے چائے ختم کی اور مجھے بائیک سٹارٹ کرنے کو کہا ۔۔۔۔ چنانچہ میں نے بائیک سٹارٹ کیا اور وہ جمپ مار کر پیچھے بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔ جولی کا گھر یاد ہے نہ۔۔۔ سب سے پہلے تم مجھے وہاں لے چلو ۔۔۔ ڈھوک کھبہ کے پاس ہی تو مکھا سنگھ اسٹیٹ ہے ۔۔ چنانچہ کچھ ہی دیر میں ہم وہاں پہنچ گئے۔۔ مرینہ کو دیکھ کر جولی بڑی خوش ہوئی ۔۔ اور مرینہ کو گلے لگاتے ہوئے بولی۔بڑا انتظار کرایا ہے تم نے ۔۔ ۔ ابھی ابھی وہ تمھارا انتظار کر کر کے گھر سے نکلے ہیں ۔۔۔ اگر تم تھوڑی دیر پہلے آ جاتی تو تمھاری اُن سے ملاقات ہو جانی تھی ۔۔۔ جولی کی بات سُن کر مرینہ کہنے لگی ۔۔۔ بڑا بے شرم ہے فادر اپنی سالی کے لیئے تھوڑا سا بھی انتظار نہیں کر سکتا تھا؟ اور پھر دونوں اندر چلے گئیں جاتے جاتے مرینہ کہنے لگی بائیک کو لاک کر کے اندر آ جاؤ ۔۔چنانچہ میں نے بھی ان کے دروازے کے ایک طرف بائیک کھڑا کیا اور اندر داخل ہو گیا ۔۔ یہ ایک کشادہ سا گھر تھا ۔۔اندر داخل ہو کر میں سوچ ہی رہا تھا کہ کس طرف جاؤں ۔۔۔ کہ اچانک مجھے جولی کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہی تھی چھوٹے بھائی ادھر آ جاؤ ۔۔۔ اور میں اس کی آواز کی سمت کی طرف چل پڑا ۔۔۔ یہ ان کا ڈرائینگ روم تھا ۔۔۔ جو کہ خاصہ سجا ہوا تھا ۔۔۔ میں جا کر ان کے سامنے بیٹھ گیا اور وہ دونوں مجھے اگنور کرتے ہوئے باتیں کرنے لگیں ۔۔۔ کچھ دیر بعد اچانک ہی جولی بولی ۔۔۔ سوری یار مجھے چائے کا تو یاد ہی نہیں رہا ۔۔۔پھر کہنے لگی تم بیٹھو میں تمھارے لیئے چائے کا بندبست کرتی ہوں ۔۔ اس کی بات سُن کر مرینہ نے اسے چائے سے بہت منع کیا لیکن ۔۔۔ وہ نہ مانی ۔۔ تب مرینہ بولی ۔ ۔۔میں یہاں بیٹھ کر کیا کروں گی چلومیں بھی تمھارے ساتھ کچن میں چلتی ہوں اور مجھے بیٹھنے کا کہہ کر وہ دونوں کچن میں چلیں گئیں ۔۔ ابھی ان کو گئے ہوئے پندرہ بیس منٹ ہی ہوئے تھے کہ میں نے مرینہ کی آواز سنی وہ مجھے بلا رہی تھی ۔۔۔ ان کی آواز سُن کر میں ڈرائینگ روم سے باہر نکلا تو دیکھا کہ مین گیٹ کے پاس ہی وہ کچن تھا اور اس وقت وہ کچن کے دروازے میں کھڑی تھی مجھے سامنے دیکھ کر بولی ۔۔۔ بائیک اندر کھڑی کر دو ۔اور واپس کچن میں چلی گئی ۔۔ ۔ مرینہ کی بات سُن کر میں چلتا ہوا مین گیٹ کی طرف گیا اور جولی لوگوں کا دروازہ کھول کر بائیک اندر لانے لگا ۔۔ جب میں ان کی گیلری میں پہنچا تو مجھے کچن سے ان کی باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔۔۔ جولی ۔۔مرینہ سے کہہ رہی تھی ۔۔۔ اس چھوٹے سے لڑکے کا ۔۔۔ ریئلی ۔۔۔؟؟ تو مرینہ کہنے لگی ۔۔۔یقین کرو ڈارلنگ شکل سے یہ ۔۔ لڑکا اور نیچے سے پورا مرد ہے بلکہ مرد سے بھی اوپر ہے ۔۔ ان کی یہ باتیں سُن کر میں وہیں رُک گیا اور کان لگا کر ان کی باتیں سننے لگا ۔۔۔ پھر میرے کانوں میں جولی کی آواز گونجی وہ مرینہ سے کہہ رہی تھی ۔۔ اوکے۔۔ ڈارلنگ تم اس لڑکے کا ڈک (لن) انجوائے کرو ویسے بھی مجھے موتی بازار میں ایک کام ہے پھر وہ مرینہ سے کہنے لگی تمھارے پاس پورا ایک گھنٹہ ہے امید ہے اس ایک گھنٹے میں تم اس لڑکے کو نچوڑ لو گی ۔۔۔ اور وہ دونوں ہنسیں لگیں۔۔۔ ان دونوں کی گفتگو سُن کر میرے سارے وجود میں ایک جوش سا بھر گیا اور۔۔۔ میری ملائیشئے کی شلوار میں ۔۔۔۔ ہچل چل سی مچ گئی ۔۔۔ میں نےجلدی سے بائیک ان کے صحن میں کھڑا کیا اور چپ چاپ ڈرائینگ روم میں داخل ہو گیا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد صرف مرینہ کمرے میں داخل ہوئی اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں کہ چائے کے ساتھ باقی کے لوازمات پڑے تھے ۔۔۔میرے سامنے تپائی پر ٹرے رکھتے ہوئے وہ کہنے لگی ۔۔ میں ابھی آئی اور ۔۔۔ واپس چلی گئی کچھ دیر بعد وہ ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی ۔۔۔ میری طرح آنے والے وقت کا تصور کرتے ہوئے اس کا چہرہ بھی لال سُرخ ہو رہا تھا۔۔۔ لیکن اس نے ایس کوئی بات نہیں کی اور مجھے چائے کا کپ دیتے ہوئے بولی لو چائے پیو ۔۔۔لیکن میرا سارا دھیان اس کی چوت کی طرف تھا جو میں مارنے ولا تھا ۔۔۔ اس لیئے میں نہ رہ سکا اور اس سے بولا ۔۔۔باجی آپ کی دوست کہاں ہے تو وہ مسکراتے ہوئے بولی زرا چینج کرنے گئی ہے ابھی آتی ہو گی ۔۔اور پھر کچھ دیر بعد جولی بھی ڈرائینگ روم میں داخل ہو گئی اس نے گہرے کالے رنگ کی عینک لگا رکھی تھا اور ہاتھ میں ایک بڑا سا پرس تھا ۔۔۔۔ اور ویسا ہی تنگ اور سیکسی سا لباس پہنا ہوا تھا کہ جس میں اس کا جسم صاف دکھتا بھی نہیں اور سامنے آتا بھی نہیں والا معاملہ بنا ہوا تھا ۔۔ اسے ڈرائنگ روم میں دا خل ہوتے دیکھ کر مرینہ بھی کھڑی ہو گئی اور اس کی دیکھا دیکھی میں بھی اپنی سیٹ سے اُٹھ گیا ۔۔ اندر آتے ہی اس نے ایک بڑی ہی گہری نظر مجھ پر ڈالی اور مرینہ سے بولی تم لوگ چائے پیو میں ابھی آئی ۔۔۔مرینہ ساتھ چلنے لگی تو وہ بولی نہیں میں باہر سے گیٹ کو تالا لگا جاؤں گی اس لیئے تم بے فکر ہو کر انجوائے کرنا ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے ایک بار پھر اس نے مجھ پر ایک بھرپور نظر ڈالی اور باہر نکل گئی۔۔۔۔ اس کے جانے کے دو منٹ بعد میں نے مرینہ سے پوچھا باجی آپ کی دوست کہاں گئیں ہیں تو وہ مسکرا تے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔۔ وہ جہاں بھی گئیں ہیں ۔۔ تم کو اس سے کیا ۔۔۔اور پھر وہ میرے قریب آ گئی اور بڑی ہی خمار آلود لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ کل میں نے واپس چلے جانا ہے ۔۔۔ ابھی مرینہ نے اتنا ہی کہا تھا کہ میری ہمت جواب دے گئی اور میں نے مرینہ کو اپنے گلے سے لگا لیا اور پھر اپنے آپ ہی ہمارے ہونٹ آپس میں جُڑ گئے ۔۔۔ اور میں نے مرینہ کا اوپر والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا ۔۔۔۔ مرینہ کے منہ کی مست مہک ۔۔۔ میرے سارے منہ میں سما گئی اور میں مزید جوش میں آ گیا ۔۔۔ادھر مرینہ بھی اپنے جزبات کے عروج پر لگ رہی تھی کیونکہ اس کے رسیلے ہونٹ الیفی کی طرح میرے ہونٹوں سے چپک گئے اور ہم ایسے کسنگ کرنے لگے کہ جیسے دینا میں اس کے سوا اس کو کوئی اور کام نہیں ہے میں کچھ دیر تک اس کے باری باری اس کے دونوں ہونٹؤں کو اپنے منہ میں لیکر چوستا رہا ۔۔۔ پھر میں نے ہلکے سے اپنی زبان کو ان کے مسوڑہوں پر پھیرنا شروع کر دیا ۔۔۔ وہ مست ہو گئی اور میری زبان کی ڈیمانڈ کو سمجھ کر اس نے میرے اپنا منہ لیئے کھول دیا ۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ اس کے منہ سے مست مہک کے ساتھ ساتھ بڑی گرم ہواڑ سی بھی آ رہی تھی ۔۔۔ مرینہ کی سانسوں کی اس گرمی نے مجھے بے قابو کر دیا اور میری شلوار میں میرا موٹا اور بڑا سا لن ایک دم تن کر کھڑا ہو گیا اور مرینہ کی رانوں کو ٹچ کرنے لگا ۔۔۔ میرے لن کو اپنی ٹانگوں میں محسوس کرتے ہی مرینہ نے اپنی دونوں ٹانگوں کو زرا سا کھول دیا اور میرے لن کو اپنے نرم نرم رانوں کے بیچ کر کے اس پر اپنی رانوں سے دباؤ ڈالنے لگی ۔۔۔ ادھر میں نے مرینہ کی زبان کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور اب اس کی لزت سے بھری زبان کو چوسنے لگا ۔۔۔ مرینہ کی زبان چوسنے سے مجھے اپنے اندر ایک جانی پہچانی سی آگ محسوس ہونے لگی ہوس کی آگ شہوت کی آگ۔۔ ۔۔۔ اور میں اس آگ کو محسوس کر کے جزبات کی شدت میں ہولے ہولے گھسے مارنے لگا۔۔۔۔ اور اس کی نرم نرم رانوں میں اپنا لن آگے پیچھےکرنے لگا۔۔۔ اُف مزے سے میرا بُرا حال ہو رہا تھا ۔۔۔ اسی دوران اپنی زبان چوسواتے ہوئے مرینہ نےمیرا ہاتھ پکڑا اور اپنے ایک ممے پر رکھ دیا ۔ اب میں نے مرینہ کا سینے پر ہاتھ پھیرا تو ۔۔۔ مجھے محسوس ہوا کہ مرینہ کے نپل کافی اکڑے ہوئے ہیں ۔۔۔ چنانچہ میں نے ان اکڑے ہوئے نپلز کو اس کے قیمض کے اوپر سےہی اپنی دونوں انگلیوں میں لیا اور مسلنے لگا۔۔۔۔پہلی بار میں نے مرینہ کی مست سی آواز سُنی ۔۔ہائی۔ئ ئ ئ ئ ئ۔۔۔تو میں نے اس کے زبان اپنے منہ سے نکالتے ہوئے اس سے پوچھا کیا ہوا باجی ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ مزہ آ رہا ہے اور میں نے اس کی بات سُن کر مزید دباؤ ڈالا اور اس کے نپلز کو مسلنے لگا ۔۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ویسے ہی لزت بھری ۔۔۔ آہیں بھرنے لگیں ۔۔۔وئی ۔ئ ۔ئ ۔۔۔۔پھر اس نے اپنی قمیض کو اوپر کیا اور اپنی برا ہٹاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ اب میرے ممے چوس ۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ مجھے تو آپ کی لزت بھری زبان کو چوسنا ہے تو وہ اسی مست لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ یہاں بھی لزت ہے میری جان ۔۔۔۔اور اس لزت کو اپنی زبان سی کشید کر لو ۔۔۔ساری لزت پی لو اور پھر اس نے خود ہی اپنے نپلز کو میرے منہ کے آگے کر دیا اور میں نے اس کے نپلز کو چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور مین نے دیکھا کہ مزے کے مارے مرینہ کی آنکھیں بند تھیں اور وہ اسی لزت بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی ۔۔۔اور چوس ۔۔۔۔۔میرا سارا دودھ پی جا میری جان ۔۔۔۔ آہ ہ ہ۔۔۔۔ کافی دیر تک مرینہ مجھ سے اپنے نپلز چوسواتی رہی ۔۔۔ پھر میں نے اس کو صوفے پر گرایا اور اس کی شلوار اتارنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اس نے خود ہی اپنی شلوار اتار دی اور ننگی ہو کر صوفے پر بیٹھ گئی اب میں آگے بڑھا اور گھٹنوں کے بل اس کی چوت کے پاس بیٹھ گیا ۔۔۔ اس مرینی کی چوت کا معائینہ کرنے لگا ۔۔۔ مرینہ کی چوت ۔۔۔ ابھری ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ مرینہ کی چوت کے ہونٹ کافی موٹے اور باہر کو لٹکے ہوئے تھے ۔۔ درمیان میں اس کی چوت کو شگاف کافی بڑا اور گہرا نظر آ رہا تھا۔۔مجھے اپنی چوت کی طرف گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔۔ میری چاٹو گے نہیں ؟؟ اور میں نے بنا کوئی جواب دیئے ا س کی چوت پر اپنے ہونٹ رکھ دئے اور آہستہ آہستہ اس کی بڑی سی چوت پر بوسے دینے لگا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی ایک انگلی اس کی چوت کے اندر داخل کر دی ۔۔۔ اندر سے مرینہ کی چوت بڑی گرم اور تھوڑی کھلی تھی اس لیئے میری انگلی آرام سے اس کی چوت کی سیر کرنے لگی ۔۔۔ پھر میں نے اپنی انگلی کو اس کی چوت سے باہر نکالا اور اس کی دونون پھانکوں کو اپنی انگلیوں کی مدد سے کھول کر اس میں اپنی زبان داخل کر دی ۔۔۔۔ اُفف۔ف۔ف۔ف۔۔ف۔۔ مرینہ کی نمکین چوت کا سوادیش پانی میری زبان پر لگ گیا اور میں نے مرینہ کی چوت کو اندر سے چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور اپنی زبان کو گول کر کے اس کی چوت میں اندر باہر کرنے لگا ۔۔۔۔ میرے اس عمل سے وہ بے حال ہو گئی اور کچھ ہی دیر بعد اس نے میرے سر کو پکڑا اور بڑی سختی سے اپنی پھدی کے ساتھ جوڑ لیا ۔۔۔ اور اندر کی طرف دبانے لگی ۔۔۔ یس۔۔۔۔ وہ ۔۔چھوٹ رہی تھی ۔۔اور میرا اندازہ سچ ثابت ہوا ۔۔۔ میرے منہ کو اس کی پھدی کے اندر دبے ہوئے ابھی چند ہی سکینڈ ہوئے تھے کہ ۔۔۔ اچانک مرینہ کا پورا جسم کانپا اور ۔۔۔۔۔ پھر اس کی چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔ اور اس کی چوت سے پانی بہہ بہہ کر میرے چہرے پر لگنے لگا ۔۔۔ جو کچھ تو میں نے پی لیا اور کچھ میرے چہرے پر ہی لگا رہ گیا۔۔۔۔ اس کی چوت نے پوری طرح سے اپنا پانی خارج کر دیا تو مرینہ کی گرفت بھی میرے سر پر ڈھیلی پڑگئی اور پھر اس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے میرے سر کو آزاد کر دیا اور جیسے ہی اس نے میرے سر سے اپنے ہاتھ ہٹائے میں نے جلدی سے اپنا چہرہ اس کی چوت سے الگ کر لیا اور ۔۔۔ گہرے گہرے سانس لینے لگا ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی مرینہ نے مجھے اُوپر اُٹھنے کا اشارہ کیاا ور میں اس کا مطلب سمجھ کر کھڑا ہو گیا ۔۔ میرا لن کسی کھمبے کی طرح کھڑا تھا ۔۔۔ جسے جلدی سے اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور پھر تھوڑا سا دبا کر چھوڑ دیا ۔۔۔اور مجھے شلوار اتارنے کو کہا میں نے جلدی سے اپنی شلوار اتاری اورساتھ ہی قمیض کو اوپر کر کے صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ میرے ساتھ اورل کرنے کی اب مرینہ کی باری تھی۔۔۔مرینہ میرے پاس آئی اور مجھے صوفے پر چِت لیٹنے کو کہا ۔۔۔۔اور اس کے کہنے پر میں چت لیٹ گیا اور پھر مرینہ نے کھڑے کھڑے اپنے ایک پاؤں کے تلوے سے میرے لن کے خاص کر ٹوپے پر مساج کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ واؤ ۔۔۔۔ یہ کام میرے ساتھ کسی نے پہلی مرتبہ کیا تھا ۔۔۔ اور اس کے نرم تلوے نے کمال ہی کر دیا ۔۔۔۔وہ اپنے تلوے کو چاروں طرف سے میرے سپارو پر پھیرنے لگی ۔۔۔ اور میں مزے سے بے حال اس کے سامنے صوفے پر لیٹا رہا اور اس کے اگلے سٹیپ کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔۔۔ کچھ دیر تک ایسا کرنے کے بعد وہ نیچے بیٹھ گئی اور میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی ۔۔۔ کیسا لگا تھا ؟ تو میں نے ایسے ہی حیرانگی کا مظاہرہ کرتےہوئے اس سے کہا کیا کیسا لگا تھا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو وہ ہنس کر بولی ۔۔۔ اُس وقت تو بڑی انکھیں بند کیے سی سی ۔۔سی ۔۔۔ کر رہے تھے اور اب ۔۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔سوری میں مزاق کر رہا تھا ۔ رئیلی مجھے آپ کو وہ سٹیپ بڑا اچھا لگا ۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ابھی تو بہت کچھ اور بھی اچھا لگے گا تم بس دیکھتے جاؤ ۔۔۔۔ پھر وہ میرے لن کو ہولے ہولے آگے پیچھے ۔۔۔اور۔ اوپر نیچے کرنے لگی ۔۔ اور کچھ دیر بعد وہ میرے لن پر جھکی اور تھوک لگا کر اسے چکنا کیا اور پھر سے لن کو آگے پیچھے کرنے لگی ۔۔۔چکنا ہونے کی وجہ سے بڑی آسانی سے اس کا نازک ہاتھ جڑ تک میرے لن مساج کر رہا تھا ۔۔۔ کچھ دیر تک وہ ایسا کرتی رہی ۔۔۔ پھر وہ میری مُٹھ مارتے ہوئے میری طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ لن چوسوں تمھارا؟؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ پلیز۔زز۔ز۔۔زز۔۔ز۔ز۔اور اس کے ساتھ ہی وہ نیچے جھکی اور اپنے منہ سے زبان نکال کر میرے لن کی ٹوپی پر پھیرنے لگی۔۔۔۔ اور کچھ دیر تک زبان پھرتی رہی۔۔۔ اور پھر اس نے آہستہ آہستہ اپنے ہونٹ کھولے اور میرے لن کو اپنے منہ کے اندر لے جانے لگی ۔۔۔ اُف ۔ف۔ف۔ اس کے ہونٹوں کی نرمی منہ کی گرمی اور لزت بھری سانسیں میں تو مزے کے مارے اپنا سر دائیں بائیں پٹخنے لگا۔۔۔ اور ساتھ ہی خود بخود مزے میں ڈوبی ہوئی آوازیں اور سسکیاں میرے منہ سے برآمد ہونا شروع ہو گئیں ۔۔۔آ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُف ف فف ۔۔۔۔۔اوہ ۔ہ ہ ہ ہ۔۔اور اس جیسی لزت آمیز آوازوں نے مرینہ اور ۔۔۔۔ ماحول کو مزید سیکسی بنا دیا ۔۔۔ اور وہ جوش میں آ کر پہلے سے بڑھ چڑھ کر میرے لن کو چوسنے لگی ۔۔۔ کافی دیر تک وہ میرے لن کو چوستی رہی ۔۔۔ پھر وہ اُٹھی اور بولی ۔۔۔ تم مجھے چودو گے یا میں چودں ؟ تو میں نے کہا جیسی آپ کی مرضی باجی ۔۔۔ تو میری بات سُن کر وہ بولی تم کو کونسا سٹائل پسند ہے تو میں نے کہا کہ ڈوگی ۔۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔ ٹھیک ہے مجھے بھی یہ ہی سٹائل اچھا لگتا ہے اور پھر اس نے صوفے کے بازو پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ اور مجھ سے کہنے لگی پیچھے سے آ کر میری چوت مارو۔۔ مرینہ کی بات سُن کر میں صوفے سے اُٹھا اور مرینہ کے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ اس اس کی خوبصورت گانڈ دیکھتے ہوئے اسے تھوڑا مزید جھکنے کو کہا ۔۔۔۔ اور ساتھ ہی تھوڑی ٹانگوں کو بھی کھلا کرنے کا بولا ۔۔۔میری بات سُن کر اس نے اپنی ٹانگیں کھول دیں اور تھوڑا نیچےکو جھک کر بولی ۔۔۔اب ڈال۔۔۔۔۔اور میں نے اس کی چوت کے لبوں پر اپنا لوڑا سیٹ کیا۔۔۔ اور ابھی دھکا مارنے ہی والا تھا کہ ۔۔۔ مرینہ خود ہی تھوڑا پیچھے کی طرف ہوئی اور میرا لن پھسلتا ہوا ۔۔۔ اس کی چکنی چوت کے اندر اتر گیا ۔۔۔۔۔ اور یوں میں نے اس کی چوت مارنی شروع کر دی ۔۔۔۔ اس وقت مرینہ اتنی مست ہو رہی تھی کہ میرے ہر گھسے کا و ہ اپنی گانڈ پیچھے کی طرف کرتے ہوئے جواب دیتی تھی ۔۔ بلاشبہ مرینہ ایک مست اور گرم عورت تھی اور وہ سیکس کو انجوائے کرنا بڑے اچھی طریقے سے جانتی تھی ۔۔ شروع شروع میں تو اس نے میرے گھسوں کا جواب دیا لیکن جب میں نے اس کی چوت میں سپیڈی گھسے مارنے شروع کئے تو اس کی بس ہو گئی اور ۔۔۔وہ چیخنے لگی ۔۔۔۔ اور اپنی اسی سیکسی آواز میں کہتی جاتی ۔۔۔ چودو ۔۔۔۔۔چودو۔۔۔۔مجھے چودو۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں مزید شدت سے اس کی چوت میں لن اندر باہر کرتا اور اس کے ساتھ ساتھ میں کوشش کرتا کہ میرا موٹا ٹوپا ۔۔۔ اس کی بچہ دانی پر ٹھوکر مارے اور میں اپنے اس مشن میں خاصی حد تک کامیاب رہا تھا ۔۔۔ کیونکہ کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔۔ اس کی چوت سے پچ پچ کی آوازیں تیز ہونے لگیں ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مرینہ کی سسکیاں اب آہوں میں بدلنے لگیں ۔۔۔ اور وہ بڑی شدت سے ۔۔۔۔۔ آہ و بکار کرنے لگی ۔۔۔آہ ۔۔۔وئی ئ ئ ئ ئ ئ ئ ئ ئ ۔۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ف۔ اور تیز مار ۔۔۔۔ مجھے چودو ۔چودو۔۔۔۔۔چو۔۔۔۔د۔۔۔۔و۔۔۔۔۔۔اور پھر میں نے دیکھا کہ مرینہ کا جسم جھٹکے لے رہا تھا ۔۔۔۔اور مرینہ کا سانس بھی اکھڑ چکا تھا ۔۔۔اور گو کہ لن اندر ڈالتے وقت مرینہ کی پھدی کچھ کھلی تھی لیکن بوقتِ منزل ۔۔ پتہ نہیں کیسے اس کی پھدی ایک دم تنگ ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی مرینہ نے ایک لمبی سے سسکی لی ۔۔۔۔آآ آ۔ہ ہ ہ ۔۔۔۔وئی مورے ۔۔۔رے رے ۔۔۔اور اس کسے ساتھ ہی اس کی چوت سے گرم پانی کا اخراج ہونے لگا ۔۔۔اور اپنے لن پر مرینہ کی چوت کا گرم پانی محسوس کرتے ہی میں نے اپنے جھٹکوں میں تیزی لائی ۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے بھی محسوس کر لیا کہ اب میرا لن بھی اپنی منی اگلنے لگا ہے ۔۔۔ اور یہ سوچ آتے ہی میں نے مرینہ کی چوت میں آخری گھسے مارنے شروع کر دیئے اور ۔۔۔پھر ۔۔۔۔پھر ۔۔۔ کچھ ہی سکینڈ کے بعد میرے لن نے اپنی ساری منی مرینہ کی گرم پھدی میں اگلنا شروع کر دی اس سے اگلے دن مرینہ ہم لوگوں سے رُخصت ہو کر واپس حیدر آباد چلی گئی ۔۔ سٹیشن پر سب کے ساتھ میں بھی خصوصی طور پر مرینہ کو الوداع کرنے گیا تھا ۔۔۔ سب سے ملنے کے بعد جب وہ میرے پاس آئی تو وہ دھیرے سے بولی ۔۔۔۔ تم سے ملنے والے ہر قسم کے مزوں کو کو میں کبھی نہیں بھلا پاؤں گی ۔۔۔ اور پھر ٹرین پر سوار ہو گئی ۔۔۔ اسی طرح چند دن گزر گئے اس دوران میں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح ارمینہ کو چوت مار سکوں لیکن کوئی چانس نہ بن پایا ۔۔ایس ستم ظریفی تھی کہ ارمینہ دینے کو تیار تھی میں لینے کو تیار تھا ۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیا بات تھی کہ ۔۔۔موقع ہی نہ لگ رہا تھا ۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے میں اور ارصلا چھٹی کر کے گھر آئے تو ماسی بولی ۔۔۔ ارصلا جلدی سے روٹی کھا کر ہوم وورک کر لو کہ پھر تم کو استانی جی کے گھر ٹیوشن پر بھی جانا ہے ۔۔۔ استانی جی کا نام سُن کر میرا دل باغ باغ ہو گیا اور میں نے ماسی سے پوچھا کہ ماسی یہ لوگ کب آئے ؟؟؟؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ بیٹے آئے تو یہ لوگ رات کو ہی تھے ۔۔۔ لیکن زیادہ رات ہونے کی وجہ سے ہم لوگوں کو صبع ہی معلوم پڑا ہے ۔۔۔ وہ بھی ۔۔ندا نے بتلا یا ہے ۔۔۔۔ ماسی کے منہ سے ندا میڈم کا نام سن کر میں نہال ہو گیا اور جلدی سے ان کو سلام کر کے گھر گیا اور بستہ پھینک کر سیدھا ندا میم کے گھر پہنچ کر ان کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ۔۔۔ دستک کی آواز پر وہی باہر نکلیں اور مجھے د یکھ کر بڑی خوش ہوئیں اور پھر انہوں نے ایک نظر گلی میں دیکھا اور پھر مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ جیسے ہی میں ان کے گھر کے اندر داخل ہوا ۔۔دروازہ بند کرتے ہی وہ مجھ سےاور میں ان سے لپٹ گیا۔۔۔ ان کے زبددست ممے میرے سینے میں کھب رہے تھے اور وہ بڑی گرم جوشی سے مجھے دبا رہی تھیں ۔۔ پھر میں نے اپنا منہ ان کے آگے کر دیا اور انہوں نے ایک بڑی ہی شارٹ لیکن مست کسنگ کی پھر اپنے منہ مجھے سے الگ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔اس کام کے لیئے یہ مناسب وقت نہیں ہے ۔۔۔ اور میں نے ان سے اپنے ناول کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگی تم سے وعدہ کیا تھا نہ ۔۔سو میری جان تمھارا ناول تم کو مل جائے بس تھوڑا ٹائم لگے گا ۔۔۔ اور پھر مجھ سے کہنے لگی۔۔ اب تم جاؤ کہ میں بھی زیبا کی طرف جا رہی ہوں ۔۔تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔ میڈم کیا میں ٹیوشن پڑھنے آ جاؤں تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ویسے بات تو میں نے کلئیر کر دی ہے لیکن پھر بھی تم آج نہ آؤ ۔۔۔ کال میں تم کو بتا دوں گی ۔۔۔ اور مجھے چلنے کا اشارہ کیا اور واپس جاتے جاتے بھی میں ندا میم کے خوصورت ممے دبانا نہیں بھولاتھا ۔۔ ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ میڈم کے آنے کی مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی ۔۔۔ اور میں واپس اپنے گھر جا رہا تھا ہ جیسے ہی میں اپنے گھر کے دروازے میں داخل ہوا تو ویسے ہی میری نگاہ ارمینہ کے گھر کی طر ف پڑ گئی۔۔۔۔دیکھا تو سفید ٹوپی والا برقعہ پہنے ماسی ارصلا کو لیکر یقینا اسی میڈم زیبا کے گھر افسوس کرنے جا رہی تھیں ۔۔۔۔ ماسی کو جاتے دیکھ کر ۔۔۔میرے دماغ کی بتی جلنے لگی ۔۔۔۔ اور پھر اچانک لن صاحب نے کہا بیٹا ۔۔۔ اس وقت ارمینہ گھر میں اکیلی ہو گی ۔۔۔اتنی سوچ آنا تھی کہ میں بھاگتا ہوا ۔۔۔ ماسی کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا ۔۔۔ اور جلدی سے پردہ ہٹا کر اندر دروازے پر ہلکا سا دباؤ ڈال کر دیکھا تو خوش قسمتی سے دروازہ کھلا ہو ا تھا ۔۔۔ دروازہ کھلا دیکھ کر میر ا دل دھک دھک کرنے لگا اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ ماسی کے گھر کے اندر داخل ہو گیا ۔۔۔اور چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔۔۔ مجھے ڈر تھا تو یہ کہ کہیں ارمینہ کا والد گھر پر نہ ہو ۔۔۔اس کے علاوہ مجھے او ر کوئی ڈر نہ تھا۔۔۔ اس وقت میرے دماغ پر منی چڑھی ہوئی تھی ۔۔۔ اور مجھے ہر طرف ارمینہ کی چوت نظر آ رہی تھی ۔۔ خیر دبے پاؤں ۔۔۔۔چلتے ہوئے میں نے ان کا صحن عبور کیا ۔۔۔ اور ادھر ادھر کی سُن گُن لینے لگا ۔۔۔ گھر میں گہری خاموشی اور ہر طرف سناٹے کا راج تھا ۔۔ پھر میں چلتا ہوا ۔۔۔ کچن میں چلا گیا ۔۔۔ دیکھا تو ارمینہ وہاں بھی نہ تھی۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ پھر میں چلتا ہوا ۔۔ ارمینہ کے کمرے کی طرف گیا ۔۔۔ تو مجھے ارمینہ کی دبی دبی سسکیوں کی آواز سنائی دی ۔۔۔ ارمینہ کی سسکیاں سُن کر میں حیران رہ گیا اور میں سمجھا کہ شاید وہ کسی اور کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی ہے یہ سوچ کر میں نے اپنے جوتے اتارے اور ننگے پاؤں ارمینہ کے کمرے کی طرف جانے لگا ۔۔۔ دیکھا تو اس کا دروازہ ادھ کھلا تھا اب میں اور احتیاط سے آگے بڑھا اور جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔اندر کوئی نہ تھا ۔۔۔ جبکہ ارمینہ بستر پر لیٹی تھی اور ایک سرہانہ اسکی ٹانگوں کے بیچ پڑا تھا اور وہ یہ سرہانے کو اپنی چوت پر رگڑ رہی تھی ۔۔۔ یہ دیکھ کر مجھے جوش آ گیا اور میں نے ہلکی سی آواز نکالی ۔۔۔آواز سنتے ہی ۔۔۔۔ ارمینہ نے چونک کر اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔۔ اور پھر میری طرف دیکھ کر اس کے چہرے پر اطمینان اور سکون چھا گیا اور وہ مجھے دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔آج میں تقدیر سے کچھ اور مانگ لیتی تو وہ بھی مل جانا تھا ۔۔۔ اور میں اس کے بستر کے پاس پڑی کرسی کو گھسیٹ کر اس کے پاس لے گیا اور پھر کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔۔ پھر میں ارمینہ کے چہرے پر جھک گیا اور اور اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا ۔۔۔ لیکن اس نے مجھے زیادہ دیر تک کسنگ نہیں کرنے دی اور اپنا منہ مجھ سے الگ کر لیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں بھی کرسی پر اطمینان سے بیٹھ گیا اور اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے سینے پر پھیرنے لگا۔۔۔ اور پھر ہاتھ پھیرتے پھیرے اس کے ممے دبانے لگا۔۔۔میرے اس عمل سے اس نے ہلکی سے سسکی بھری اور میرے ہاتھ کو اپنے نیچے لے گئی میں اپنے ہاتھ اس کے نیچے لے گیا اور سب سے پہلے سرہانے کو وہاں سے ہٹایا اور اپنا ہاتھ اس کی پھدی پر رکھ دیا ۔۔۔ جیسے ہی میرا ہاتھ اس کی پھدی پر پڑا اس نے فوراً اپنی دونوں ٹانگیں جوڑ لیں اور اپنی دونوں رانوں کو میرے ہاتھ کے گرد بانے لگی ۔جس کی وجہ سے میرا لن ایک دم اکڑ گیا اور ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اس وقت ارمینہ سخت گرم ہو رہی ہے چنانچہ میں کوئی بات کئے اس کے بستر پر چلا گیا اور جا کر اس کے اوپر جا کر اس طرح سے لیٹ گیا کہ جس سے میرا کم سے کم وزن ارمنیہ پر پڑے ۔۔ جیسے ہی میں اس پر لیٹا ۔۔ اس نے میرا لن پکڑ کر اپنی پھدی کی موری پر رکھ دیا تھا اور ساتھ ہی اپنی نرم رانوں کو میرے لن کے ارد گرد کس لیا تھا ۔۔۔۔۔ اور اب میرا لن ارمینہ کی دونوں رانوں کے بیچ اس کی پھدی کو ٹچ کر رہا تھا ۔۔ اور میرے ہونٹ ارمینہ کے ہونٹوں میں پیوست تھے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے نیچے والے دھڑ سے ارمنیہ کی پھدی پر ہولے ہولے سے گھسے بھی مار رہا تھا ۔۔۔ شلوار کے باوجود بھی میرا لن اس کے چوت کے رس سے گیلا ہو رہا تھا ۔۔۔۔ کچھ دیر تک تو ہم یہ گیلی گیلی کسنگ کرتے رہے ۔۔۔ لیکن چونکہ اس وقت ارمینہ بہت سخت گرم تھی اس لیئے جلد ہی میں نے یہ کسنگ ترک کر دی اور پھر اس نے مجھے اوپر اُٹھے کو کہا اور میں اوپر اُٹھا تو اس نے میری بیک پر ہاتھ لگا کر مجھے پاس آنے کو کہا ۔۔ اور میں سمجھ گیاا ور اس کے پاس چلا گیا اس نے میری قمیض کو ایک طرف کیا اور پھر شلوار کے اوپر سے ہی میرے لن کو اپنے منہ میں لے لیا اور اس پر ہلکے ہلکے دانت کاٹنے لگی ۔۔۔۔لن والی جگہ سے میری شلوار پہلے ہی اس کی چوت کے رس سے کافی گیلی تھی اب اور گیلی ہو گئی تھی ۔۔۔ پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر میرا نالہ کھولا اور میرے ننگے لن کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اپنے منہ کے پاس لے گئی اور پھر ایک بڑا ہی گرم چوپا لگایا ۔۔۔۔ اس کے بعد اس نے مجھے نیچے جانے کو کہا میں سمجھا وہ پھدی چٹوانا چاہ رہی ہے اس لیئے میں نے اس کی شلوار کھول کر اس کی چوت پر جیسے ہی اپنا منہ رکھنے لگا ۔۔۔تو اس نے منع کر دیا اور بولی ۔۔۔۔میرے اندر ڈالو۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں تھوڑا پیچھے ہوا ۔۔۔اورپھر اس کی شلوار جس کا نالہ پہلے ہی کھلا ہوا تھا اس کو اتار کر اس کے پاس رکھا اور پھر اپنی بھی ساری شلوار اتار کر اس کو ایک سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔۔۔ پھر میں نے اس کی ٹانگیں اُٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھیں اور ۔۔۔اپنے ٹوپے کو اس کی چوت کے نیچے والے آخری کونے پر رکھ کر ایک گھسہ مارا ۔۔۔۔ اور لن ارمینہ کی تنگ چوت میں جڑ تک اتر گیا ۔۔اُدھر لن اندر جاتے ہی کافی دیر سے چُپ سادھے ارمینہ نے ایک سسکی لی اور بولی ۔۔۔۔۔ مجھے چودتے کیوں نہیں میری جان ۔۔۔ اور پھر اس نے نیچے سے ایک گھسا مارا اور بولی ۔۔۔مجھے چودا کرو نا ۔۔۔ روا ۔۔۔ مجھے چودا کرو نہ ۔۔۔۔۔اس کی یہ سیکسی باتیں سُن کر مجھے بھی جوش چڑھ گیا اور میں نے اس کی چوت میں زوردار گھسے مارنے شروع کردیئے اور کمرہ ارمینہ کی سسکیوں اور سیکسی باتوں سے گونجنے لگا۔۔۔ وہ مسلسل ۔۔چلا رہی تھی مجھے چودا کرو نا ۔میں دودنا چاہتی ہوں ۔۔مجھے چودتے کیوں نہیں ۔۔ بہن چود مجھے چودتے کیوں نہیں ۔۔ اور اس کی باتیں سن سن کر میں پاگل ہوا جا رہا تھا اور اپنی فُل طاقت لگا کر اس کی چوت کے سارے کس بل نکال رہا تھا۔۔۔ اور اس کی چوت گرم پانی سے بھری ہوئ تھی ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ۔۔اس کی تنگ چوت میں گرم پانی کا سیلاب آیا ہوا تھا ۔۔۔ میرے خیال میں اس سیشن کے دوران ارمنیہ کافی دفعہ چھوٹی تھی لیکن فائینلی وہ۔۔۔ اس وقت شانت ہوئی کہ جب گھسےمارتے مارتے میں نے اپنے آپ کو چھوٹنے کے قریب محسوس کر تے ہوئے فُل ذور سے گھسے مارتے ہوئے ارمینہ سے کہا ۔۔ ارمینہ ۔۔۔میں ۔۔۔۔۔جانے لگا ہو ں ۔۔۔ یہ سُن کر ارمینہ نے میری کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔چھوٹ جا ۔۔۔ میری جان میری پھدی میں چھوٹ جا ۔۔۔۔۔اور پھر وہ چلائی ۔۔۔اور پھر اس نے میرے بازو کو بڑی سختی سے پکڑا اور بولی میں بھی ۔۔۔ میں بھی ۔۔اس کے ساتھ ہی اس کی چوت کے سارے ٹشو آٹو میٹک طریقے سے مریے لن کے گرد کسنا شروع ہو گئے اور ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔ اس کی پھدی اور میرے لن نے اکھٹا ہی اپنا اپنا پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور اس پانی سے اس کی ساری چوت بھر گئی اور ہم دونوں کا پانی بہہ بہہ کر اس کی چوت کی لیکر سے باہر لیک ہونے لگا ۔۔۔اس کے ساتھ ہی ہم دونوں ایک دوسے کے ساتھ چمٹ گئے ۔۔۔ دیر بعد اس نے میرے کندھوں کو تھپ تھپاتے ہوئے کہا ۔۔۔اُٹھ کر اپناآپ صاف کر لو ۔۔ اس کی بات سُن کر میں اُٹھا اور پھر پاس پڑی ہوئی اس کی شلوار سے ہی اپنا لن صاف کیا جبکہ وہ بھاگ کر واش روم میں چلی گئی ۔۔۔ واپس آئی اور میرے گلے سے لگ کر بولی شکریہ ۔۔۔دوست تم نے مجھے ٹھنڈا کر دیا ۔۔۔ ورنہ میں اپنی گرمی کے ہاتھوں جانے کیا کر دیتی ۔۔۔اور ایک اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کے ساتھ جوڑ دئے اور ۔۔۔ پھر ہم ایک بھر پور کسنگ کرنے لگے۔۔۔ ہم آپس میں بدن سے بدن ملائے منہ سے منہ جوڑے ۔اپنی اپنی ۔۔ آنکھوں کو بند کئے ۔۔۔ ایک بھر پور کسنگ کے مزے لے رہے تھے کہ ۔۔۔اچانک ایک غضب ناک آواز نے ہمیں چونکا دیا ۔۔۔۔۔ ارمینے ۔۔۔۔۔۔اور یہ آواز سُن کر ہمیں ایسا لگا کہ جیسے کسی نے ہمارے پیروں کے بیچ میں بم پھوڑ دیا ہو۔۔۔۔اور یہ آواز اور کسی کی نہیں بلکہ ارمینہ کی امی اور ماسی کی تھی ۔۔آواز سُن کر ہم نے جلدی سے اپنی اپنی آنکھیں کھولیں اور دڑتے ڈرتے سامنے دیکھا تو ماسی اپنے دونوں ہاتھ کولہوں پر رکھے بڑی شعلہ بار نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ ماسی پر نظر پڑتے ہی میرے تو ہوش و حواس گم ہو گئے اور ساری دنیا مجھے اپنے آنکھوں کے سامنے گھومتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔ ۔۔۔ اس سے قبل کہ ۔۔۔ میں کچھ ۔۔کہتا ۔۔یا کرتا ۔۔۔۔ ماسی بھوکی شیرنی کی طرح میری طرف بڑھی ۔۔۔ اس کے تیور دیکھ کر ۔۔۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔۔۔۔ اور ۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔


ایک تبصرہ شائع کریں for "استانی جی (قسط 12)"