Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

استانی جی (قسط 14)


 

راحیلہ نے جب مسلسل چور چور کہنا شروع کر دیا تو مجھے جیسے ہوش آ گیا …اس لیئے میں نے بجلی کی سی پھرتی اپنی شلوار اوپر کی اور جلدی سے اس آزار بند باندھا ۔اور ۔جوتے ہاتھ میں پکڑے اور دل ہی دل میں خود کو گالیاں دیتا ہوا واپس گھوما ا ور راحیلہ کے سامنے دیوار پر جا چڑھا ۔۔ اب چونکہ معاملہ زندگی اور موت کا بن گیا تھا ۔۔ اس لیئے آناًفاناً ۔۔۔شیخ صاحب کی دیوار سے چھلانگ لگا دی ۔۔ مجھے بھاگتے ہوئے دیکھ کر راحیلہ نے مجھے پکڑنے کی زرا بھی کوشش نہ کی بلکہ وہ کسی تنویمی عمل کے زیرِ اثر بس چیخوں پہ چیخیں ہی مارتی جا رہی تھی اور جیسے جیسے میرے کانوں میں راحیلہ کی چیخیں کی آوازیں سنائی پڑتیں ۔۔ میں اور تیزی سے بھاگنے لگتا ۔۔۔راحیلہ کی چھت سے چوہدری صاحب کا چھت تھوڑا ہی تو دور تھا ۔۔ چنانچہ میں بھاگنے کا ورلڈ ریکارڈ بناتا ہوا اگلے ہی منٹ میں چوہدری اشرف صاحب کی چھت پر پہنچ چکا تھا ۔۔یہاں پہنچ کر میں نے مُڑ کر دیکھا تو پیچھے ابھی بھی خیریت تھی کیونکہ یہ رات کے پچھلے پہر کا وقت تھا اور اس وقت لوگ گہری نیند میں ہوتے ہیں اور کسی بھی شخص کو گہری نیند سے اُٹھ کر بیدار ہونے ۔۔۔۔ حالات کو سمجھنے ۔۔۔اور پھر بستر سے اُٹھ کر باہر آنے ۔۔۔اور۔۔ شور کی سمت کا تعین کرنے ،......اور پھر دوڑ کر متعلقہ سمت کی طرف جانے میں میرے حساب سے ۔۔۔ کم از کم تین سے چار منٹ درکار ہوتے ہیں ۔۔ ۔۔۔ اور یہی تین چار منٹ میری بچت کا سامان تھے چوہدری صاحب کی دیوار پر چڑھ کر ایک دفعہ پھر میں نے شیخ صاحب کے گھر کی طرف نگاہ ڈالی ۔۔ تو ۔۔۔ابھی بھی وہاں ۔خیریت ہی نظر آئی ۔۔۔لیکن مجھے اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ اگر میں چند سیکنڈز میں نیچے نہ گیا تو پھر کوئی خیریت نہیں رہنی ۔۔۔ چنانچہ میں نے چوہدری صاحب کی گٹر لائین کا پائپ پکڑا اور ۔۔۔ نیچے اترنے سے پہلے ایک دفعہ پھر میں نے راحیلہ کی چھت کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں ایک مشہور شعر کا دوسرا مصرعہ پڑھا کہ" بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے" اور اس کے ساتھ ہی خود کو بےشمار گالیوں سے بھی نوازا ۔۔۔ کہ راحیلہ کو بھلا لن دکھانے کے ایڈوینچر کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔ اور پھر تیزی سے نیچے اترنا شروع ہو گیا ۔۔۔ نیچے اتر کر میں نے اپنے پیروں میں جوتی پہنی اور کسی ایکشن سے پہلے جھانک کر گلی میں دیکھا ۔ تو محلے میں ہلکی ہلکی ہل چل نظر آئی ۔۔اکا دکا گھروں کی لائیٹس جلنا شروع ہو گئیں تھیں ۔۔۔اور اس سے پہلے کہ سارے گھروں کی لائیٹس جلتیں ۔اور لوگ باہر نکلنا شروع ہوتے ۔۔میں نیواں نیواں ہو کر وہاں سے نکل گیا ۔۔۔ جس وقت میں نے گھر کے اندر قدم رکھا اس وقت تک محلے میں ہلا گلا شروع ہو چکا تھا ۔۔لیکن میں اس ہلے گلے کو نظرانداز کرتے ہوئے سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور بستر پر جا کر لیٹ گیا اور ابھی میں اس حادثے کے بارے سوچ ہی رہا تھا ۔۔۔کہ امی کمرے میں داخل ہوئیں انہیں دیکھ کر میں نے جلدی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔۔ اور سوتا بن گیا ۔ وہ میرے قریب آئیں اور مجھے ہلا کر بولیں ۔۔۔اُٹھو ۔۔۔۔۔۔ تو میں نے آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھےی کی ادا کاری کرتے ہوئے کہا ۔۔کیا ہوا ؟ تو وہ کہنے لگیں پتہ مجھے بھی نہیں ۔۔لیکن محلے میں کافی شور مچا ہوا ہے ۔زرا باہر جا کر پتہ کرو کہ یہ شور کیسا ہے ؟۔۔ تومیں نے بستر سے اُٹھتے ہوئے ان سے کہا اچھا میں دیکھتا ہوں اور ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے باہر چلا گیا ۔۔۔ دیکھا تو محلے کے مرد حضرات بایرنیں پہنے آنکھیں ملتے ہوئے ۔ایک دوسرے سے ۔ کیا ہوا ؟؟ ۔۔کیا ہوا ؟؟ ۔۔کی رٹ لگائے جا رہے تھے جبکہ خواتین اپنی اپنی چھتوں پر چڑھی تجسس بھری نگاہوں سے نیچے گلی میں ادھر ادھر دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔ میں نے تھوڑی دیر تک حالات کا جائزہ لیا پھر باقی لوگوں کی دیکھا دیکھی میں نے بھی ایک دو سے پوچھا کہ کیا ہوا ؟۔تو وہ کہنے لگا ۔۔ہونے کا تو پتہ نہیں البتہ اس طرف (شیخ صاحب کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) چور چور کی بڑی آوازیں آ رہیں تھیں اوراس بات پر سب متفق تھے کہ وہ چور چور کی آوازیں سن کر اُٹھے تھے اس سے آگے کیا ہوا کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔۔۔۔ اسی دوران میری نظر ماسی کی چھت پر پڑی تو وہاں ارمینہ کھڑی تھی گھڑی دو گھڑی ہماری آنکھیں چار ہوئیں تو اس نے ماسی سے نظر بچا کر آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ چور چور کا شور تمھارے لیئے تھا؟؟ ۔۔۔ تو میں نے اسے اشارے سے بتا دیا کہ جی یہ شور میرے لیئے ہی تھی لیکن میں بچ کر آ گیا ۔۔۔ میرا اشارہ سمجھتے ہی اس نے بڑے تشکر سے آسمان کی طرف دعا کے لیئے ہاتھ اُٹھا ئے ... اور پھر غالباً شکر ادا کر کے اس نے وہ اٹھے ہوئے ہاتھ اپنے منہ پر ہاتھ پھیرے اور پھر بڑی ہی محبت بھری نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔۔۔اور اس کی یہ ادا دیکھ کر میں ارمینہ پر دل و جان سے فدا ہو گیا ۔۔ ادھر محلے کے لوگ آپس میں قیاس آرائیں کرتے رہے کسی نےکہاکہ چور پچھلے محلے سے آیا تھا اور کسی نے کہا کہ وہ واردات کر کے نکل گیا ہے ۔غرض جتنے منہ تھے اتنی ہی باتیں تھیں ۔جبکہ حقیقت کیا تھی یہ بات صرف میں اور راحیلہ ہی جانتے تھے راحیلہ سے یاد آیا ۔۔۔ کہ اس وقت تقریباً سارا محلہ ہی اکھٹا تھا لیکن سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ شیخ صاحب نہ تو خود اپنے گھر سے باہر نکلے تھے اور نہ ہی ان کے ہاں کسی قسم کی ہل چل کے آثار نظر آئے ۔۔پھر آہستہ آہستہ ۔۔ ایک دوسرے کو ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے ہوئے سارے محلے والے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔۔۔ان کی دیکھا دیکھی میں بھی اپنے گھر آ گیا اور بستر پر جاتے ہی سو گیا ۔۔۔ اگلے دو تین دن تک ہمارے محلے میں اس رات والے واقعہ کی بازگشت سنائی دیتی رہی لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ نہ تو شیخ صاحب نے اور نہ ہی ان کی فیملی میں سے کسی نے اس واقعہ کے بارے میں کوئی بات کی اور نہ ہی اس واردات پر کوئی تبصرہ کیا اس لیئے چور والی بات محلے کے کاغزوں میں پُراسرار قرار پائی ۔۔۔ اس سے اگلے دن چونکہ مجھے میڈم ندا نے بلایا ہوا تھا اس لیئے میں نے اپنا بستہ سنبھالا اور میڈم کے گھر چلا گیا ۔۔۔ وہاں جا کر دروازے پر دستک دی تو میڈم خود باہر نکلیں اور مجھے اندر لے گئیں اور جب میں میڈم کے پیچھے پیچھے ان کے گھر میں داخل ہوا تو سامنے صحن میں کرسی پر ایک خوبصورت اور گوری چٹی خاتون کو بیٹھے ہوئے دیکھا اس نے آدھے بازؤں وال ی ڈھیلی ڈھالی قمیض پہنی ہوئی تھی جس میں اس کی گوری گوری بانہوں کے موٹے مسلز پھنسے ہوئے تھے ۔۔اور وہ ان مسلز میں بڑی اچھی لگ رہیں تھیں وہ خاتوں اتنی سڈول تھی کہ اس سے آگے موٹاپے کی سرحد شروع ہوتی ہے ۔اس خاتون کی خاص بات یہ تھی کہ اس نے ایک ہاتھ میں سونے کی بارہ چوڑیاں جبکہ دوسرے ہاتھ میں سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھے ۔۔ جبکہ کانوں میں بڑی بڑی بالیاں اور اس نے گلے میں موٹی سی سونے کی چین پہنی ہوئی تھی ۔۔۔گویا کہ وہ خاتون کیا تھی امارت کا چلتا پھرتا اشتہار تھا میں نے اس خاتون کو میڈم کے گھر میں پہلی دفعہ دیکھا تھا ۔۔ ۔ صحن میں پہنچ کر میڈم ندا نے مجھے چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شاہ بیٹا تم یہاں بیٹھ کر تھوڑا انتظار کرو ۔۔۔ میں بس ابھی آئی ۔اور پھر کمرے میں گھس گئی ۔۔۔ میڈم کے کہنے پر میں چارپائی کے بازو پر سر جھکا کر بیٹھ گیا ۔تو ڑی دیر بعد میڈم کمرے سے برآمد ہوئیں تو انہوں نے ایک بڑی سی چادر اپنے گرد لپیٹی ہوئی تھی ۔۔اس سے قبل کہ میڈم کچھ کہتی وہ خاتون میڈم سے کہنے لگی ۔۔۔ یہ لڑکا کون ہے ندا؟؟؟ ۔ میں نے اس کو پہلے کبھی تمھارے ہاں نہیں دیکھا تو میڈم نے جواب دیا کہ یہ لوگ ہمارے محلے میں نئے آئے ہیں پھر میرے بارے میں بتاتے ہوئے بولی یہ لڑکا زیبا کے ہاں ٹیوشن پڑھتا تھا لیکن کسی وجہ سے زیبا نے اس کو ٹیوشن سے نکال دیا ہے ۔۔ تو اس کی امی بے چاری بڑی پریشانی کے عالم میں میرے پاس آئیں تھیں اور بڑی منت سماجت کر رہی تھی کہ میں اس کی سفارش کروں تا کہ زیبا اس کو دوبارہ سے ٹیوشن پر رکھ لے ۔۔۔ پھر میڈم اس خاتون سے کہنے لگی شاہینہ تم تھوڑا آرام کرو میں بس اس لڑکے کو زیبا کے پاس چھوڑ کر ابھی آئی ۔۔ندا میم نے ابھی اتنی ہی بات کی تھی کہ اندر سے کسی بچے کی رونے کی آواز سنائی دی ۔۔جسے سنتے ہی ندا میم بولی لو جی ۔۔۔ارم بیٹی اُٹھ گئی ہے تم اس کو دودھ پلاؤ میں ابھی آئی پھر اس نے مجھے اشارہ کیا اور میں میڈم کے پیچھے پیچھے سر جھکا کر چلنے لگا ۔۔۔۔ گھر سے باہر نکلتے ہی میں نے میڈ م سے اندر والی خاتون کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگی ۔۔ یہ میری کزن شاہینہ ہے اس کی شادی اوکاڑہ میں ایک بہت بڑے آڑھتی کے بیٹے سے ہوئی ہے ۔۔۔۔اور جس سے اس کی شادی ہوئی ہے وہ بھی میرا کزن ہی لگتا ہے اور یہ ہر دوسرے تیسرے مہینے حساب کرنے کے لیئے یہاں غلہ منڈی میں آتے ہیں تو ہمارے ہی گھر ٹھہرتے ہیں پھر بولی ۔۔۔ یوں سمجھو کہ میرے خاوند کی وفات کے بعد ان لوگوں کے ہمیں بڑا سہارا دیا ہے۔۔ ویسے تو ان کے چھوٹے موٹے کام میرا بیٹا ہی کر دیتا ہے لیکن پھر بھی کاروبار ۔۔۔ کے سلسہ میں اس کو ہر دوسرے تیسرے ماہ پنڈی کا چکر لگانا ہی پڑتا ہے ۔۔پھر کہنے لگی ان کی ایک ہی بیٹی ہے جو کہ سات سال بعد پیدا ہوئی ہے ۔۔۔جو ابھی سوا سال کی ہے ۔۔۔ یہ لوگ کل رات کو ہی اوکاڑہ سے یہاں پہنچے ہیں اور ابھی کچھ دن ہمارے ہاں رہیں گے ۔۔۔ اتنے میں استانی جی کا گھر آ گیا ۔۔تو میڈم نے مجھے دروازے کے قریب رکنے کا اشارہ کیا اور میں رکا تو وہ بڑی ہی سیریس ہوکر رازدرانہ سی سرگوشی نما آواز میں کہنے لگی ۔۔۔ دیکھو شاہ۔۔۔ یہ جو تیرے میرے بیچ تعلق ہے نا ۔۔۔۔ خبردار اس کی بھنک بھی زیبا کو نہیں پڑنی چاہیئے ۔۔ پھر اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور ۔۔۔ آنکھیں نکالتے ہوئے بولی ۔۔۔ میری بات کو سمجھ رہے ہو نا۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ جی میم میں آپ کی بات کو اچھی طرح سے سمجھ گیا ہوں یہ سُن کر وہ کہنے لگی گُڈ۔۔۔ اب چلو ۔۔۔ اور مجھے استانی جی کے گھر لے گئی۔۔ جیسے ہی میں اور ندا میم استانی جی کے گھر میں داخل ہوئے تو وہ صحن میں بچوں کو سبق پڑھا رہیں تھیں مجھے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ایک شعلہ سا لپکا لیکن پھر ندا میم کو دیکھ کر وہ شعلہ مدھم پڑ گیا اور وہ اسی بے نیازی سے بچوں کو سبق دینے لگ پڑیں ۔۔۔ جبکہ میں اور ندا میم اس کے پاس جا کر رُک گئے اور ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگے ۔۔۔ کچھ دیر بعد استانی جی فارغ ہو گئیں اور ندا میم کو مخاطب کر کے بولیں ۔۔۔ شاہینہ کو بھی لے آنا تھا۔۔ تو ندا میم نے جواب دیا کہ اس کی بچی رو رہی تھی اس لیئے نہ آ سکی پھر ندا نے مجھے مخاطب کیا اور پہلے سے پڑھائی گئی پٹی کے مطابق کہنے لگیں ۔۔۔ چل معافی مانگ اپنی میڈم سے۔۔ اور میں نے بمطابق ہدایت استانی جی کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے اور بڑی مسکین سی آواز میں بولا ۔۔آئی ا یم سوری ٹیچر !!!!۔۔۔ اور مجرم کی طرح سر جھکا کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر ندا میم نے استانی جی کو کہا کہ دیکھو زیبا یہ اس بچے کی پہلی غلطی ہے اس لیئے اسے معاف کر دو پھر مزید کہنے لگیں ۔۔۔۔ زیبا جی تم کو تو معلوم ہے کہ بچوں سے غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں۔۔۔ اس لیئے ہمیں ان کو معاف کر نا چایئے ۔۔۔ میڈم ندا کی سفارش سُن کر استانی جی نے اس سے کہا کہ دیکھو ندا میں نے تم کو پہلے بھی کہا تھا کہ یہ لڑکا بے شک کلاس میں بیٹھے لیکن میں اس کو صرف اسی صورت میں پڑھاؤں گی کہ جب تم بھی یہاں موجود ہو گی ۔۔استانی جی کی بات سُن کر ندا میم بولی وہ تو ٹھیک ہے زیبا ۔۔۔ لیکن تم جانتی ہے کہ میرے گھر میں مہمان آئی ہے اس لیئے کچھ دن تک میں تمھارے ہاں نہیں آ سکتی ۔۔۔ ندا میم کی بات سُن کر ۔۔۔ استانی جی نے نہایت خشک لہجے میں اس سے کہا ۔۔۔تو ٹھیک ہے جب تم فارغ ہو جاؤ گی تو تب تم اس کو لے آنا ۔۔۔ اس کی بات سُن کر ندا بولی ۔۔۔ زیبا پلیز میری مجبوری سمجھو اور اس لڑکے کو کلاس میں بیٹھنے دو۔۔۔ لیکن استانی جی نے صاف انکار کر دیا ۔۔۔ اور بولی ۔۔۔ سوری ندا Rules are Rules ایک دفعہ جب میں نے کہہ دیا کہ یہ لڑکا تمھارے بنا اس گھر میں داخل نہیں ہو سکتا تو ۔۔۔ یہ نہیں آ سکتا ۔۔۔ استانی کی یہ بات سُننے کے بعد بھی ندا میم نے ان سے کافی ریکوسٹیں کیں لیکن وہ نہ مانی ۔۔۔ اور آخرِ کار ندا میم نے مجھے اپنے ساتھ لیا اور واپس چل پڑیں ۔۔ اور راستے میں بولیں۔اب کیا ہو سکتا ہے ۔۔میں نے تمھارے سامنے اس لکڑ بابی سے کافی درخواستیں کیں ہیں ۔۔۔لیکن وہ نہیں مانی ۔۔پھر کہنے لگیں ۔ اصولوں کی بڑی پکی ہے یہ زیبا بھی ۔۔۔ اسی دوران ہم استانی جی کے گھر سے باہر نکل آئے ۔باہر آ کر انہون نے مجھ سے کہا کہ تم ۔۔ ایسا کرو ایک دو دن مزید ریسٹ کر لو تو میں نے اس سے کہا کہ میڈم میرے تو ٹیسٹ شروع ہو رہے ہیں اور آپ کو پتہ ہی ہے کہ مجھے آتا جاتا کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کہنے لگیں تمھارے بات بھی ٹھیک ہے چلو ایسا کرو کہ جتنے دن یہ شاہینہ ہے تم میرے گھر میں ٹیوشن پڑھ لو ۔۔۔۔پھر چلتے چلتے رُ ک گئی اور بولی ۔۔۔ویسے تو تم کو پتہ ہے ۔۔۔لیکن ۔۔۔ تم جانتے ہی کہ شاہینہ میری قریبی رشتے دار ہے اس لیئے اس کے سامنے بھولے سے بھی کوئی ایسی ویسئ حرکت نہیں کرنی ۔۔۔ اور ہم دوبارہ ان کے گھر میں داخل ہو گئے ۔۔۔ جیسے ہی ہم ندا میم کے گھر میں داخل ہوئے تو سامنے ہی شاہینہ بیٹھی تھی اس نے ہمیں دیکھتے ہی کہا کہ کیا بات ہے منڈے کو چھوڑ کر نہیں آئی؟ تو میڈم نے قدرے غصیلے لہجے میں جواب دیا کہ یار تم تو زیبا کو اچھی طرح سے جانتی ہو ایک دفعہ اگر کسی بات پر اڑ گئی تو پھر اڑ گئی ۔۔۔ یہ سن کر شاہینہ کہنے لگی کہ کہتی کیا ہے وہ؟ تو میڈم نے جواب دیا کہنا کیا ہے یار۔۔اور پھر اس نے اپنی اور استانی جی کے درمیان ہونے والی ساری گفتگوسے اسے آگاہ کر دیا۔۔۔ساری بات سن کر وہ کہنی لگی بڑی ضدی ہے تمھاری دوست استانی جی ۔۔ شاہینہ نے یہ بات کہی اور پھر بچی کو لیکر اندر کمرےمیں چلی گئی ۔ شاہینہ کو جاتے دیکھ کر میڈم میری طرف گھومی اور بولی۔۔ چلو اپنا بیگ کھولو ۔اور پڑھائی شروع کرو۔۔اور میں اپنا بیگ کھولنے لگا ۔۔ اس کے بعد میڈم کہنے لگی کہ اب بتاؤ کہ تم کس سبجیکٹ میں زیادہ کمزور ہو؟ ؟ تو میں نے میڈم سے کہا ویسے تو میڈم میں سارے کے سا رے سجیکٹس میں بہت کمزور ہوں ۔۔۔پھر میں میڈ کے سامنے میتھ کی بُک رکھتے ہوئے کہا کہ میڈم یہ سبجیکٹ مجھے بلکل نہیں آتا ۔۔۔اور اس سے کہا کہ پلیز مجھے کچھ سمجھا دیں ۔۔۔میڈم نے میرے ہاتھ سے میتھ کی کتاب لی اور اسے دیکھنے لگی اتنے میں اندر سے شاہینہ نکلی اور میڈم کو مخاطب کر کے کہنے لگی کہ ۔۔ندا۔۔ یار بچی کا سیری لیک ختم ہو گیا اور پھر اس نے میڈ م کو پیسے پکڑاتے ہوئے کہا کہ زرا جلدی سے منگوا دو ۔۔۔تو میڈ م نے اس کو پیسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ تیرے پاس بڑے پیسے ہیں اور پھر اس نے شاہینہ کو اس کے پیسے واپس کردئےل اور اپنی برا میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالے اور مجھے دیتے ہو ئے بولی کہ تم ایسا کرو کہ دوڑ کے جا کے حبیب جنرل سٹور سے بچی کے لیئے سیری لیک تو لے آؤ اور میں نے میڈم سے پیسے پکڑے اور بھاگ کر سٹور سے شاہینہ کی بچی کے لیئے سیری لیک لے آیا اور پھر بقایا پیسوں کے ساتھ میڈم کو سیری لیک دینے لگا تو وہ بولی ۔۔۔ نہیں یہ سیری لیک شاہینہ کے دے آؤ ۔۔ چنانچہ میں نے ان کے ہاتھ سے سیری لیک کا ڈبہ پکڑا اور اندر کمرے کی طرف چل پڑا جہاں پر شاہینہ اپنی بچی کے ساتھ موجود تھی ۔۔۔جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ تو اس وقت شاہینہ اپنی بچی کو دودھ پلا رہی تھی اور جس وقت میں دروازے سے اس کے کمرے میں داخل ہوا تو عین اس وقت شاہینہ اپنی بچی کے منہ سے اپنا دودھ چھڑا رہی تھی ۔۔۔۔اور اندر داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ شاہینہ کے بہت موٹے ممے کے آگے بڑا سا براؤن رنگ کا نپل تھا اور جس چیز نے مجھے شہوت سے بھر دیا تھا ۔۔ اور میری ساری توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی وہ شاہینہ کے نپل سے نکلنے والا دودھ کا قطرہ تھا ۔۔۔ اور میں دیکھا کہ اس کے نپل سے دودھ کا موٹا سا قطرہ نکل کر باہر کی طرف گر رہا تھا اور یہ اتنا دلکش منظر تھا کہ میں خود پرقابو نہ رکھ سکا اور بے اختیار میرے منہ سے ایک سسکی سی نکل گئی۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ جسے سن کر شاہینہ نے ایک دم چونک کر میری طرف دیکھا اور واضع طور پر میری سسکی کی آواز سن کر اس کا منہ لال ہو گیا ۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میرے ٹٹے ہوائی ہو گئے اور میں سیری لیک کا ڈبہ وہاں رکھ کر باہر بھاگ آیا ۔۔ باہر آ کر دیکھا تو ندا میم میری میتھ کی کتاب کو اُلٹ پُلٹ کر کے دیکھ رہی تھیں مجھے دیکھتے ہی وہ کہنے لگی سوری یار مجھے تو اس کتاب کی ککھ سمجھ نہیں آرہی۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ میڈم آگے سے میرے ٹیسٹ شروع ہو رہیں اس لیئے پلیز کچھ کریں ۔۔۔تو وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔۔ اچھا اگر یہ بات ہے تو میں کچھ کرتی ہوں ۔۔۔ اور پھر اچانک ایسا لگا کہ جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو ۔۔۔تبھی وہ میری طرف دیکھ کر بولی لو جی تمھارا کا م ہو گیا ہے۔۔۔ تو میں نے ان سے پوچھا وہ کیسے میم ۔۔ تو وہ کہنے لگی یار یہ اپنی شاہینہ کس دن کام آئے گی اور پھر بولی ۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ سکول سے لیکر یونیورسٹی تک میتھ اس کا پسندیدہ مضمون تھا اور یہ اس سبجیکٹ میں ہمیشہ ہی فسٹ کلاس رہی ہے ۔۔۔ پھر میڈم نے وہاں سے ہی صد ا لگانی شروع کر دی ۔۔۔ اور بولی ۔۔۔شاہینہ یار فارغ ہو تو زرا ادھر آؤ ۔۔۔ ندا میم کی آواز سُن کر میری تو گانڈ ہی پھٹ گئی کیونکہ ابھی تھوڑی دیر قبل ہی میں نے شاہینہ کے ممے سے دودھ کا ایک قطرہ نکلتا ہوا دیکھ کر ۔۔۔ بے اختیار ایک بڑی ہی گرم سی سسکی لی تھی ۔۔اور واضع طور پر میری سسکی کی آواز سُن کر شاہینہ نے چونک کر میری طرف دیکھا بھی تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ کہیں وہ یہ بات ندا میم کو نہ بتا دے ۔۔ ویسے تو ندا میم نے مجھے کچھ بھی نہیں کہنا تھا کہ وہ خود بھی میرے ساتھ سیٹ تھی لیکن پھر بھی ایک معشوق ہونے کے ناطے وہ ۔۔۔ مجھ سے ناراض بھی ہو سکتی تھی جو کہ میں ہر گز افورڈ نہ کر سکتا تھا اسی اثنا میں میڈم کی آواز سن کر شاہینہ بھی کمرے سے باہر نکل آئی اور مجھ پر ایک گہری نظر ڈال کی بولی۔۔۔ کیا بات ہے ندا کویں شور مچا رہی ہو؟ تو میم نے اس سے کہا کہ یار زرا میتھ کی یہ بُک دیکھ کربتاؤ کہ یہ تمھاری سمجھ میں آتی ہے کہ نہیں؟ شاہینہ نے ندا کے ہاتھ سے کتاب پکڑی اور اسے دیکھنے لگی ۔۔۔ اور پھر بولی ۔۔۔ میں چیک کر کے بتاتی ہوں اور پھر وہ کتاب لیکر کر اندر چلی گئی اور کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد واپس آئی اور میڈم کو کتاب واپس کرتے ہوئی بولی ۔۔۔ میرا خیال ہے یہ کوئی مشکل کتاب نہیں ہے اس کی بات سُن کر میم نے اس سے کہا ۔۔اگر برا نہ مانو تو اس لڑکے کو میتھ کی یہ بُک پڑھا دو گی ؟ تو وہ کہنے لگی اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے میتھ تو ویسے بھی میرا پسندیدہ سبجیکٹ ہے ۔۔ تم کہتی ہو تو میں اسے ضرور پڑھاؤں گی ۔۔ اور اس کی بات سُن کر ندا میم نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ بیٹا شاہینہ کے ساتھ جا کر میتھ پڑھ لو اور دیکھو جو چیز تمہاری سمجھ میں نہ آئے اسے تم شاہینہ سے بار بار پوچھ سکتے ہو ۔۔اور پھر اس نے شاہینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ میتھ میں یہ لڑکا بہت ہی کمزور ہے اس لیئے اس کو اچھے سے پڑھانا اور پھر میم نے میری طرف دیکھا اور بولی اب جاؤ۔۔۔ ندا میم کی بات سُن کر شاہینہ کہنے لگی اندر نہیں یہیں پڑھاؤں گی کہ اندر ارم سو رہی ہے تو ندا بولی کوئی بات نہیں یہاں ہی پڑھا لو ۔۔۔اور پھر ندا میم یہ کہتے ہوئے وہاں سے اُٹھ گئی کہ میں تم لوگوں کےرات کے کھانے کا بندوبست کرتی ہوں ۔۔ اس کے جانے کے بعد شاہینہ نے کرسی کو میرے قریب کیا اور بلکل میرے سامنے بیٹھ گئی اور کتاب ہاتھ میں لیکر کر بولی تم اپنی کاپی پنسل نکالو۔ جب میں نے کاپی پنسل نکال لی تو وہ کہنے لگی بولو کہاں سے تم کو پڑھانا ہے تو میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے اس سے کہا کہ ۔۔۔وہ جی شروع سے ہی پڑھا دیں تو اچھا ہو گا ۔۔۔ میری بات سُن کر اس نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں ۔۔۔پھر اس کے بعد اس نے کتاب کے شروع کی ایک ایکسر سائز نکالی اور بڑے ہی انہماک سے مجھے وہ ایکسر سائز سمجھانے لگی ۔۔۔ ایکسرسائز سمجھتے سمجھتے اچانک میری نظر اس کےکھلے گلے کی طرف چلی گئی ۔۔۔ اس وقت اس نے اپنے سینے پر دوپٹہ نہیں پہنا ہوا تھا اور اس کےکھلے گلے والی قمیض میں سے اس کے گورے گورے اور موٹے ممے آدھے باہر کو نکلے ہوئے تھے ۔۔۔ اور ایک دفعہ جو میری نظر اس کے ادھ کھلے مموں پر پڑی تو ۔۔۔۔۔ پھر نہیں لوٹ کے نظر آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے خوبصور ت مموں سے چپک کر رہ گئی۔۔۔ ایکسر سائز سمجھاتے سمجھاتے اس نے کہیں سر اُٹھا میری طرف دیکھا ۔۔۔ لیکن میں تو ہر چیز سے بے نیاز اس کے گورے مموں کو گھورتا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ سوچ بھی رہا تھا ۔۔۔ کہ اس کے ان مموں کے موٹے نپل سے سے دودھ کا کتنا بڑا ۔۔۔۔ قطرہ نکلتا ہو گا ۔۔۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک میری آنکھوں کے سامنے شاہینہ کا ہاتھ لہرایا ۔اور میں چونک گیا مجھے چونکتے دیکھ کر اس نے چُٹکی بجاتے ہوئے کہا ۔۔۔اے مسٹر ۔۔کس سوچ میں گُم ہو ۔۔۔ اس کی چُٹکی کی آواز سُن کر میں گھبرا کر ۔۔۔ بولا ۔۔۔۔۔ سوری ۔۔سوری باجی ۔۔۔ میں وہ۔۔ وہ ۔۔ تب اس نے شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔اب مجھے سمجھ میں آئی ہے کہ ندا کے بغیر استانی جی تم کو کیوں نہیں اپنی کلاس میں بٹھا رہی تھی ۔۔۔ میں نے اس کی بات سُنی اور شرم سے سر جھکا لیا اور بولا ۔۔۔وہ سوری باجی ۔۔۔۔ تو وہ کہنےلگی ۔سدھر جاؤ بیٹا ۔۔۔اور ۔ پڑھائی پر دھیان دو ۔۔۔اور پھر یہ کہتے ہوئے اُٹھ کر چلی گئی کہ میں ابھی آئی ۔۔۔ اور سامنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ اور جب کچھ ہی دیر بعد واپس لوٹی تو اس نے اپنے سینے کو ایک بڑی سی چادر سے ڈھانپا ہوا تھا۔۔۔اور وہ آ کر اسی طرح میرے سامنے بیٹھ گئی اور پھر سے مجھے ایکسر سائز سمجھانے لگی ۔۔۔ اس دفعہ چونکہ اس نے اپنا مال ڈھانپ کر رکھا ہو ا تھا اس لیئے ایک دو دفعہ میں نے وہاں نظر ڈالی اور کچھ نہ پا کر ایکسرسائز سمجھنے لگا ۔۔ بلا شبہ شاہینہ ایک بڑی ہی انٹیلی جنٹ لیڈی تھی ۔۔۔اور اس کے سمجھانے کا انداز اتنا دلکش تھا کہ صرف دو تین گھنٹے کی محنت سے مجھ جیسا مہا نالائق بندہ بھی میتھ کی وہ ایکسر سائز سمجھ گیا ۔۔۔ دو تین دفعہ سمجھا کر اس نے مجھے ٹیسٹ دیا ۔۔۔اور میں وہ ٹیسٹ حل کرنے لگا اور وہ خود اُٹھ کر اندر چلی گئی ۔۔۔ اب یہ اس کا روز کا معمول بن گیا تھا کہ جب بھی اس نے مجھے پڑھانا ہوتا تو وہ اپنے سینے کو بڑی سی چادر سے ڈھانپ لیتی تھی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ جب شاہینہ مجھے پڑھا نہیں ہوتی تھی تو اس وقت وہ میرے سامنے دوپٹہ نہیں اوڑھتی تھی اور میں اس کے سفید سفید مموں کو نہ چاہتے ہوئے بھی گھورتا رہتا تھا مزے کی بات یہ ہے کہ وہ میری ان گستاخ نظروں کی گستاخی کو خوب اچھی طرح سے جانتی بوجھتی تھی لیکن کبھی بھی اس نے نہ تو مجھےگھورنے سے منع کیا تھا اور نہ ہی اس نے اس بات کا زکر کبھی ندا میم سے کیا تھا ۔البتہ کبھی کبھی مجھے یہ وہم ہوتا تھا کہ وہ میرے یوں گھورنے کو انجوائے کرتی تھی۔۔ لیکن اس کے برعکس پڑھائی کے معاملےمیں وہ بڑی سخت استانی تھی اس لیئے جب وہ مجھے پڑھانے کے لیئے بیٹھی تھی ۔۔۔ تو اپنی ہر دلکش چیز کو ڈھانپ لیتی تھی ۔۔لیکن جیسے ہی پڑھائی ختم ہوتی تو وہ مجھے ۔۔۔خصوصاً اپنے گورے گورے مموں کو دیدار کرانے میں کسی بخل سے کام نہ لیتی تھی ۔۔ اور اکثر مجھے ان کی جھلک بھی کروا لیتی تھی ۔۔۔ ایک دن کا زکر ہے ندا میم حسبِ معمول کچن میں رات کے کھانے کا بندوبست کر رہی تھیں ۔ویسے بھی اس نے مجھے کہا تھا کہ شاہینہ تھوڑے دنوں کی مہمان ہے اس لیئے جتنا ممکن ہو سکے اس سے میتھ سیکھ لو اس لیئے ان دنوں میں شاہینہ میم سے صرف اور صرف میتھ ہی سیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ سوالات وغیرہ سمجھا کر کہ اس نے مجھے کافی سارے ٹیسٹ دے دئےی جن کو میں حل بڑی توجہ سے حل کر رہا تھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ پڑھانے کے وقت بڑی سیریس ہو کر پڑھاتی ہے اس لیئے میں بھی سیریس ہو کر ہی پڑھتا تھا ۔۔سو اس دن کا زکر ہے کہ میں بڑی توجہ سے اس کے دئے ہوئے سوالات حل کر رہا تھا ۔۔ ۔۔ کہ اچانک اندر سے ارم کے رونے کی آواز سنائی دی ۔۔اس کے رونے کی آواز سنتے ہی شاہینہ بھاگتی ہوئی اندر گئی اور اسے چُپ کراتے ہوئے باہر لے آئی ۔ ویسے تو ارم کا یوں رونا کوئی اتنی بڑی بات نہ تھی ۔اور نہ شاہینہ میم کا یوں بھاگ کر جانا کوئی بڑی بات تھی ۔۔لیکن۔۔۔ بات تب بڑی بنی جب وہ روتی ہوئی ارم کو گلے سے لگائے باہر برآمدے میں (کہ جہاں وہ مجھے ٹیوشن پڑھاتی تھی) لے آئی ۔جہاں آ کر وہ ساتھ پڑی چارپائی پر بیٹھنے کی بجائے میرے سامنے کرسی پر آ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ اس وقت صوتِ حال یہ تھی کہ میرے سامنے ایک کرسی پڑی تھی درمیان میں ایک میز تھا جس پر میرا بیگ و کتابیں اور کاپیاں پڑیں ہوئیں تھیں اور میرے بلکل سامنے والی کرسی پر شاہینہ میم بیٹھتی روتی ہوئی ارم کو چُپ کرا رہی تھیں ۔۔ میں نے ایک نظر ان دونوں کو د یکھا اور پھر دئیے گئے سوالات کو حل کرنے لگا ۔۔۔ کچھ دیر بعد مجھے شاہینہ میم کی بڑی پیار بھری آواز سنائی دی وہ ارم سے کہہ رہی تھی ۔۔۔ دودھ پیو گی میری بچی ۔۔۔ میں نے میم کی آواز سُنی ضرور ۔۔۔ پر اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی ۔۔۔لیکن جب کچھ ہی سکینڈ کے بعد میں نے شاہینہ کی دوبارہ( لیکن تھوڑی لاؤڈ ) آواز سُنی (جیسے کہ وہ یہ بات مجھے سنا رہی ہو) وہ ارم کو مخاطب کر کے کہہ رہی تھی ۔۔۔ ماما کی جان ۔۔۔ ماما کا دودھ پپیو گی ؟؟؟ ۔۔۔۔ میم کی لاؤڈ آواز سُن کر میں نےمیں سر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو وہ ارم کو دودھ پلانے کے لئیے اپنی قمیض اوپر کر رہی تھیں ۔۔۔ اور ۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے شاہینہ میم نے اپنا اپنا خوبصورت مما ننگا کیا ۔۔۔۔ اور پھر ارم کے منہ کو نیچے سے پکڑ کر ا سے تھوڑا اوپر کیا ۔اور فائینلی اس کے منہ میں اپنا موٹا نپل دے دیا ۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف۔ف۔ ان کا گورا مما ۔۔۔ممے کے آگے موٹا سا نپل۔۔۔۔ یہ نظارہ دیکھ کر مجھے تو شلوار کے اندر تک مزہ آ گیا اور ۔۔۔ شلوار کے اندر جس نے مزہ لیا تھا ۔۔۔۔وہ بھی جھوم کر سر اُٹھانے لگا ۔۔۔ اور میں یک ٹک ارم کو شاہینہ میم کا دودھ پیتے ہوئے دیکھنے لگا۔۔۔۔ اور میں جانے کن سوچوں میں گم تھا کہ اچانک مجھے شاہینہ میم کی آواز سنائی دی ۔۔۔وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔اے مسٹر ۔۔ میرے دئےں ہوئے سوال حل کر لیئے؟ اس کی آواز سُن کر میں ہڑ بڑا اُٹھا اور چونک کر ان کی طرف دیکھنے لگا ۔۔ مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگی ۔۔۔ مسٹر مںُ تم سے کچھ کہہ رہی ہوں ۔۔۔ اور میں نے اس کی بات سن کر کان ۔۔۔ ج۔ج۔ جی میڈم ۔۔۔ بس ایک سوال رہ گیا ۔۔۔ تو وہ بولی جلدی وہ بھی سے حل کر لو میں ارم کو دودھ پلا کر چیک کروں گی ۔۔ اور انہوں نے جس ادا سے لفظ دودھ اپنے منہ سے ادا کیا تھا میں تو ان کی اس ادا پر قربان ہو گیا اور ان کے ادا سے کہے ہوئے دودھ میں جانے کیا جادو تھا کہ ۔۔ ۔ اس کی بات سُن کر میرے اندر خون کی گردش تیز ہو گئی ۔۔۔اور میں خواہ مخواہ ہی گرم ہونے لگا۔۔۔۔اور میرے سارے وجود میں ایک انجان سی مستی چھانے لگی۔۔۔ میں شاہینہ کے ممے کے سحر میں کھویا ہوا تھا اور ٹکٹکی باندھے اس کو دیکھ رہا تھا کہ اس نے ایک دفعہ پھر میری طرف دیکھا اور تھوڑا سختی سے بولی۔۔۔۔ سوال حل کر ۔۔۔اور میں اس کے دیئے گئے سوالات کو حل کرنے لگا ۔۔۔اسی دوران ۔۔۔ ندا میڈم کچن سے نمودار ہوئی اور شاہینہ کے سامنے چائے کی ایک بڑی سی پیالی رکھ دی اور بولی ۔۔۔ کیسا جا رہا ہے تمھارا سٹوڈنٹ ؟ تو شاہینہ بولی ۔۔۔ ویسے تو ٹھیک ہے ۔۔۔بس کچھ کمیاں ہیں وہ میں دور کر دوں گی ۔۔۔ندا میم نے یہ سنا اور واپس کچن میں چلی گئی جیسے ہی ندا میم کچن میں داخل ہوئی میں نے دیکھا کہ ارم دودھ پیتے پیتے سو گئی تھی اور یہ چیز شاہینہ میم نے بھی نوٹ کر لی اس لیئے اس نے ارم ے منہ سے اپنا نپل نکلا اور اسے ساتھ والی چاپائی پر ڈال دیا ۔۔۔۔۔ادھر شاہینہ نے جیسے ہی اپنا نپل ارم کے منہ سےنکالا ۔۔ایک دفعہ پھر میری آنکھوں کے سامنے میڈم شاہینہ کے گورے اور موٹے ممے کا نظارہ آ گیا ۔۔۔ اور پچھلی دفعہ تو شاہینہ کے نپل سے نکلنے والے صرف ایک قطرہء دودھ۔۔نے میرے دل و دماغ میں ہلچل مچائی تھی جبکہ اس دفعہ تو میں نے اس کے سفید ممے کے اوپر براؤن نپل سے دودھ کے کافی سارے قطرے نکلتے دیکھ لیئے تھے اور میں جو پہلے ہی کافی ہاٹ ہو رہا تھا یہ منظر دیکھ کر اب میں اور بھی ہاٹ ہو چکا تھا ۔ اور میرا گرمی کے مارے بہت برا حال ہو رہا تھا ۔۔۔ادھر ارم کو بستر پر لٹا کر دوبارہ میرے سامنے بیٹھی اور جیسے ہی اس نے چائے پینے کے لیئے پیالی کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔ تو ۔۔اچانک اس کا ہاتھ پھسلا اور ساری چائے نیچے گر گئی ۔۔۔۔ ۔۔۔جس سے برآمدے کا سارا فرش گندہ ہو گیا ۔۔ جیسے ہی میں نے دیکھا کہ میم سے چائے نیچے گری ہے میں اپنی سیٹ سے اُٹھا اور فرش صاف کرنے کے لیئے صافی لانے کے لیئے جونہی واش روم کی طرف جانے لگا ۔۔ تو شاہینہ میم نے مجھے سختی سے منع کرتے ہوئے کہ میں اپنے سوال حل کروں ۔۔۔یہ کام وہ خود کر لے گی چنانچہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ۔۔۔۔۔۔ واش روم کی طرف چلی گئی اور پھر واپسی سے ایک بڑا سا پرولا ( گندا کپڑا جس کو گیلا کر کے صحن وغیرہ صاف کرتے ہیں) برآمدے کے فرش پر رکھا ۔۔۔ پھر اس نے پیچھے سے اپنی قمیض کو اوپر کیا ۔۔۔۔ جس سے اس کی بڑی سی گانڈ کی دونوں پھاڑیاں نمایاں نظر آنے لگیں ۔۔جنہیں دیکھ کر میں سوال شوال بھول حل کرنا گیا اور چپکے چپکے اس کی بڑی سی گانڈ کا نظارہ کرنے لگا ۔۔قمیض اوپر کر کے پھر وہ اکڑوں فرش پر بیٹھی اور فرش پر پرولا (صافی) پھیرنے لگی ۔۔ اسے پرولا پھیرتے دیکھ کر اچانک میرے شیطانی زہن میں ایک خیال/پلان آیا ۔۔۔ اور پھر اگلے ہی لمحے میں نے اس پلا ن پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔اور پھر اس کے بعد میں نے بظاہر اپنی ساری توجہ ۔۔۔۔سوال حل کرنے پر رکھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنا بایاں پاؤں تھوڑا آگے کر کے اس کے انگھوٹھے کا رُخ اوپر کی طرف کر لیا ۔۔۔ اور انتظار کر نے لگا ۔۔۔اور پھر میرے اندازے کے عین مطابق شاہینہ میم پرولا پھیرتے پھیرتے ۔۔آہستہ آہستہ ۔ اپنی گانڈ میرے بایئں پاؤں کے انگھوٹھے کی طرف بڑھانے لگی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ہوتے ہوتے جیسے ہی اس کی گانڈ میرے انگھوٹھے کی رینج میں آئی میں نے اپنا انگوٹھا ۔۔۔۔تھوڑا آگے کر دیا۔۔۔۔ ۔ ۔جیسے ہی میرے پاؤں کا انگھوٹھا اس کی نرم گانڈ سے ٹچ ہوا ۔۔۔ وہ ایک دم ایسے اچھلی جیسے کہ اسے 440 وولٹ کا کرنٹ لگا ہو ۔۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ لیکن میں تو بڑا معصوم بنا اس کے دیئے ہوئے سوال حل کر رہا تھا ۔۔اس نے چند سکینڈ تک مجھے گھورا ۔۔۔ لیکن میں نے اس کے گھورنے کو مطلق لفٹ نہ کرائی ۔۔۔ اور پہلے سے بھی زیادہ انہماک سے سوال حل کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ آخر وہ عورت تھی ۔۔۔۔ اور میری ٹیچر بھی ۔۔۔اس لیئے چند سکینڈ میں ہی وہ میری شرارت کو سمجھ گئی لیکن ۔۔۔ کچھ نہ بولی ۔اور نہ ہی کوئی ردِعمل شو کیا۔۔اور اس کے بعد ۔ وہ ایک دفعہ پھر نیچے بیٹھی اور دوبارہ سے پرولا پھیرنے لگی ۔۔۔ اس دفعہ بھی جیسے ہی ۔۔۔۔۔۔۔اس کی موٹی گانڈ ۔ میرے انگھوٹھے کی رینج میں آئی میں نے ایک دفعہ پھر اپنا انگھوٹھا آگے بڑھایا اور اس کی نرم گانڈ سے ٹچ کر دیا ۔۔۔۔ لیکن پہلی بار کے برعکس اس دفعہ اس کا ردِعمل کافی مختلف تھا ۔۔۔اس نے میرے انگھوٹھے کو اپنی گانڈ پر محسوس تو کیا لیکن بے نیاز بنی رہی ۔۔۔ اور پھر اسی بے نیازی سے فرش پر پرولا پھیرنے لگی ادھر ۔۔۔۔ میرا انگھوٹھا ابھی بھی اس کی حسین گانڈ کو ٹچ کر رہا تھا ۔اور میرا خیال ہے کہ میرے انگھوٹھے کے اس ٹچ نے اس کو بھی مزہ دینا شروع کر دیا تھا اور میری طرح وہ بھی ۔۔ ہاٹ ہونے لگی تھی ۔۔۔۔ کیونکہ پرولا پھیرتے پھیرے اس نے اپنی گانڈ کو میرے انگھوٹھے سے صرف ایک انچ پیچھے کیا اور ۔۔اور۔۔ اب میرا انگھوٹھا اس کی چوت کے نرم لبوں کو چھو رہا تھا ۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤ۔۔ؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔صواد آ گیا بادشاہو۔۔۔کیونکہ ۔۔ ۔اپنی چوت کے لبوں پر میرے موٹے اور کھردرے انگھوٹھے کو محسوس کر کے بھی اس نے اپنا کوئی ردِعمل نہ شو کیا اور ۔۔۔۔ ایسے بنی رہی کہ جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔۔۔ ادھر جیسے ہی میرے انگھوٹھے کی نوک نے اس کی چوت کے نرم لبوں کو ٹچ کیا۔۔۔۔۔ میرا سارا وجود مستی میں بھر گیا ۔۔۔۔ اور پھر ایسے ہی پرولا پھیرتے پھیرتے اچانک پتہ نہیں کیسے اس کا ہاتھ میرے سامنے دھری میز پر لگا کہ جس سے میرا سکول بیگ ،کاپی پنسل اور دیرر اشیاء اس کے پاس نیچے فرش پر گر گئیں ۔۔۔ جیسے ہی میرا سامان فرش پر گرا اس نے ایک مستانی نظر سے مجھے دیکھا اور بولی ۔۔۔ چلو جلدی سے اپنا سامان اُٹھاؤ بھی کہ میں نے پرولا پھیرنا ہے ۔۔۔ اس کی مست آنکھوں میں کوئی ایسا پیغام ضرور تھا کہ جسے سنتے ہی میں بنا کوئی بات کیئے اس کے پاس نیچے بیٹھ گیا اور اپنا سامان اکھٹا کر نے لگا ۔۔سامان اٹھاتے اُٹھاتے میں نے دیکھا کہ ۔۔ میری ایک پنسل اور ربڑ اس کے سامنے اور تھوڑا آگے پڑی ہوئی تھی۔۔۔ اور وہ میری طرف سے بظاہر بے نیاز ہولے ہولے پرولا پھیر رہی تھی ۔۔۔میں نے ایک نظر شاہینہ میم کی طرف دیکھا اور پھر اپنی پنسل پر نظر ڈالی ۔۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اس وقت اس کی گانڈ کافی اوپر کو اُٹھی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔ اور میں اتنے قریب سے اس کی گانڈکے زیر و بم اور نشیب و فراز دیکھ رہا تھا اور اس کی موٹی گانڈ سے تھوڑا آگے ہی تو میری پنسل اور ربڑ پڑی تھی ۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے ہمت کی ۔۔۔۔اور میں نے اپنا ہاتھ اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان سے گزارا اور ۔۔اپنی پنسل اُٹھا لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ہاتھ کی واپسی پر۔۔۔۔ جان بوجھ کر لیکن بظاہر اتفاقاً اپنے اُلٹے ہاتھ کو اس کی گانڈ کی دیواروں پر رگڑ دیا ۔۔۔۔۔آہ۔۔۔ مجھے اس کا م میں اتنا مزہ آیا کہ میرے اندر تک شہوت بھر گئی اور ۔۔۔۔۔ اس کی گانڈ کی نرمی اور زبردست لمس سے میرا لن کھڑا ہو گیا ۔۔۔ لیکن اس وقت لن کھڑا ہونے کا کس کافر کو ہوش تھا ۔۔ اپنی گانڈ پر اتنا واضع مساج ہوتے دیکھ کر بھی اس نے مجھے کچھ نہ کہا اور وہ ویسے ہی اپنی گانڈ اوپر کئے بظاہر پرولا پھیرتی رہی ۔۔۔جس سے میری ہمت میں کچھ اور اضافہ ہوا اور اس دفعہ میں نے ربڑ اٹھانے کے لیئے اس کی ٹانگوں کے بیچ ہاتھ کیا ۔۔۔ میں چاہتا تو اس وقت پنسل کے ساتھ ساتھ ربڑ کو بھی ایک ہی بار میں اُٹھا سکتا تھا لیکن بوجہ میں نے ایسا نہ کیا تھا ۔۔۔ کیونکہ میں سکینڈ چانس بھی لینا چاہتا تھا چنانچہ میں نے اس دفعہ بھی دوبارہ ہاتھ آگے بڑھایا اور اسی طرح اپنے ہاتھ کو اس کی ٹانگوں سے گزارتے ہوئے ۔۔۔۔وہ ربڑ پکڑ لی اور پھر اپنے ہاتھ کو واپس لانے لگا ۔۔۔۔ اوراس دفعہ میں نے اپنا ہاتھ سیدھا رکھا اور اپنی دو انگلیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑا اوپر کر کے اس کی چوت کی پھانکوں کے درمیان پری دیا۔۔۔۔۔ جیسے ہی میری دو انگلیوں نے اس کی چوت کو مَس کیا ۔۔۔۔۔۔ واضع طور پر میں نے شاہینہ کے منہ سے ایک سسکی سُنی ۔۔۔۔اور میرا دل بلیوں اچھل پڑا۔ شاہینہ کو چوت کے لبوں کو چھو کر میں اتنا جزباتی ہو گیا تھا کہ موقعہ دیکھ کر میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے اپنے لن پر رکھ دیا۔پہلے تو اس نے اپنے ہاتھ کو لن پر نہ رکھا اور اسے سختی سے پیچھے ہٹا لیا ۔۔۔ لیکن جب میں نے زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر اٌور اسے اپنے لن پر رکھا ۔۔۔تو ۔۔۔۔ لن پر ہاتھ پڑتے ہی پہلے تو وہ تھوڑا سا چونکی ۔۔۔۔ پھر جیسا کہ اس جیسی ہر عورت کے ساتھ ہوتا ہے پھر اس نے حیرت سے مجھے اور پھر میری باڈی کو دیکھا ۔۔۔وہ ایک دبلے پتلے لڑکے کے ساتھ لگے اتنے بڑے لن کا تصور بھی نہ کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔ چنانچہ پہلے تو اس نے لن کو ہلکا سا چھو کر دیکھا ۔۔۔اور پھر اس کے سائیز کا اندازہ لگاتے ہی اس کی آنکھیں پھیل گئیں اور اس نے مرسی طرف دیکھتے ہوئے اپنے نیچے والا ہونٹ اپنے دانتوں تلے داب لیا اور پھر بے اختیار میرے لن پر اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کر لی ۔۔۔ اور میری طرف دیکھتے ہوئے اسے مسلسل دبانے لگی ۔۔۔۔جیسے اسے ابھی بھی اس بات یقین نہ آ رہا ہو کہ میرا لن اتنا بڑا اور موٹا بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ میرے لن کو دبا رہی تھی کہ اچانک کچن سے کچھ کھڑ کُھڑ کی آوار سنائی دی ۔۔۔اور یہ آواز سنتے ہی وہ ایک دم محتاط ہو گئی اور میرا لن چھوڑ کر میرے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی جبکہ میں سب کام بھول کر سوال حل کرنے لگا۔۔۔۔ اور آنے والے وقت کا اندازہ کرتے ہی لن کو شاباش دیتے ہوئے سوچا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور خاتون میرے لن کا نشانہ بننے والی تھی ۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ خوش قسمتی سے یہ آنٹی بھی کس قدر آسانی سے میرے ساتھ پھنس گئی ۔۔۔ میری اس شوخ سوچ پر میرے اندر سے آواز آئی کہ زیادہ اچھلنے کی ضروت نہیں تمہیں کیا معلوم تم نے آنٹی کو گھیرا ہے یا آنٹی نے تم کو پھنسایا ہے ؟ یہ خیال آتے ہی میں نے اپنی اس بونگی سوچ پر لعنت بھیجی اور پھر اپنا سامان اُٹھا کر میز پر رکھ دیا ادھر شاہینہ میم نے بھی صافی سے سارا فرش صاف کر لیا تھا اس لیئے وہ واش روم میں گئی اور واپس آ کر میرے قریب بیٹھ کر بولی ۔۔۔ ٹیسٹ دکھاؤ ؟؟ اور میں نے اپنی وہ کاپی جس پر سوال حل کیئے ہوئے تھے اس کے سامنے کر دیئے ۔۔۔ شاہینہ میم نے ایک بڑی ہی گہری اور میٹھی نظر مجھ پر ڈالی اور پھر میری کاپی چیک کرنے لگی۔۔۔۔ اس سے اگلے دن کی بات ہے کہ میں حسبِ معمول ٹیوشن کے لیئے ندا میم کے گھر جانے کے لیئے ان کے دروازے پر دستک دی تو اندر سے شاہینہ نکلی ۔۔۔۔ اور یہ پہلے موقع تھا کہ شاہینہ میم نے دروازہ کھولا تھا اس لیئے میں نے اندر داخل ہوتے ہوئے ان سے پوچھا کہ ۔۔ ندا میم کہاں ہیں ؟ تو وہ بڑے سخت لہجے میں کہنے لگی ۔۔ کہ بکواس نہ کرو اور اندر آ جاؤ ۔۔۔ اس کا موڈ دیکھ کر میں خاصہ سہم گیا کیونکہ اس خاتون کو کوئی پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ ہو جاتی تھیں ۔۔۔چنانچہ میں چُپ چاپ ان کے ساتھ گھر میں داخل ہو گیا اور برآمدے میں جا کر اپنے بیگ کر میز پر رکھا اور پھر اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھ گیا اس کے ساتھ ہی انہوں نے پہلے سے بنایا ہوا ایک پرچہ میرے سامنے رکھا اور بولی ۔۔آج تمھارا گرینڈ ٹیسٹ ہے ۔ چلو یہ سارے سوال حل کرو ۔۔میں نے اپنا بیگ کھولا اور پھر ایک نظر ۔ پرچہ کی طرف ڈالی اور پھر ایک نظر شاہینہ میم کی طرف دیکھا تو وہاں مجھے کافی سے زیادہ سختی نظر آئی۔۔۔ جسے دیکھ کر میں نے سر جھکایا اور ان کے دیئے ہوئے سوال حل کرنے لگا ۔۔۔ اسی اثنا میں گیلے بالوں پر تولیہ پھیرتے ہوئے ندا میم کمرے سے باہر نمودار ہوئی ۔۔۔اور ایک نظر مجھے اور پھر شاہینہ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ برآمدے کا ماحول بڑا ہی گھمبیر اور تناؤ ذدہ تھا میں بڑا سیریس وہ کر اور پریشانی کے عالم میں پرچہ حل کر رہا تھا جبکہ میرے سامنے شاہینہ میم بیٹھی مجھے خون خوار نظروں سے گھور رہی تھی ۔۔۔۔میم نے ایک نظر مجھے اور شاہینہ کو دیکھا ۔۔۔ اور پھر کہنے لگی ۔۔ ۔۔ بڑی سختی کر رہی ہو اپنے سٹوڈنٹ پر ۔۔۔ یہ سُن کر شاہینہ نے اسی سخت لہجے میں کہا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہ مانیں تو ایسا ہی کرنا پڑتا ہے ۔۔۔ اس پر ندا کہنے لگی اینی وے ۔۔آج جمعرات ہے اور تم نے زیبا کے ہاں ختم پر نہیں چلنا ؟ ان کی بات سُن کر شاہینہ بولی ۔۔۔یار پروگرام تو تھا پر ایک تو ارم اور دوسرا یہ صاحبزادے صاحب جو ابھی تک ویسے کے ویسے ہی ہیں ۔۔ اور میں سوچ رہی ہوں کہ جانے سے پہلے کچھ تو اس کے پلے ڈال ہی جاؤں۔۔ اس لیئے ۔۔ سوری میں نہیں جا سکتی۔۔ ۔۔شاہینہ میم کی بات سُن کر ندا میم بولی ۔۔۔ ایسے نہ کہو یار تم تو جانتی ہی ہو کہ یار زیبا میری ویری بیسٹ فرینڈ ہے اور وہ تم سے بھی اچھی طرح واقف ہے اس لیئے یہ بڑی بری بات ہے کہ اگر ۔۔۔ تم یہاں ہو کر بھی اس کے ہاں ختم پر نہ جاؤ ۔۔۔اس لیئے پلیز چلو ۔۔ ندا کی بات سُن کر شاہینہ کہنے لگی کہتی تو تم ٹھیک ہو ندا ۔۔۔ چلو ایسا کرتی ہوں میں اس لڑکے کا ٹیسٹ لیکر اور تھوڑا پڑھا کر آ جاؤں گی ۔۔۔ ویسے بھی زیبا کے ہاں تم بہت جلدی جا رہی ہو ۔۔ پھر کہنے لگی اچھا یہ بتاؤ کہ ختم کس ٹائم ہو گا تو ندا نے جواب دیا کہ مغرب کے آس پاس ۔۔۔ یہ سن کر شاہینہ بولی اس میں تو ابھی تین چار گھنٹے باقی ہیں ۔۔۔ اس لیئے تم جاؤ ۔۔۔ میں مغرب کے آس پاس آ کر ختم میں شرکت کر لوں گی ۔۔۔ شاہینہ کی بات سُن کر ندا میم اپنے کمرے میں چلی گئی اور کچھ دیر میں تیار ہو کر وہ باہر آئی اور مجھ سے بولی کنڈی لگا لو ۔۔ تو میری بجائے شاہینہ نے اسی کرخت لہجے میں کہا ۔۔۔ کہ دیکھ نہیں رہی یہ ٹیسٹ دے رہا ہے تم جاؤ میں خود دروازے کو لاک کر لوں گی ۔۔۔ شاینہ کا کرخت لہجہ سُن کر ندا میم ہنس کر بولی لگتا ہے شاہینہ کہ تم پر بھی ۔۔۔زیبا کا سایہ ہو گیا اور پھر جاتے جاتے رُک کر بولی ۔۔۔ یاد رکھنا میڈم مغرب کے آس پاس تم نے زیبا کے ہاں ہونا ہے اور باہر چلی گئی ۔۔۔ اس کو جاتے دیکھ کر شاہینہ میم اُٹھی اور دروازے کو کنڈی لگا کر واپس آ گئی ۔۔ ۔۔۔ اس وقت میں پوری یک سوئی کے ساتھ ایک بڑا ہی گنجلاک قسم کا سوال حل کر رہا تھا ۔۔۔ جب میں نے اپنی ٹانگوں کے درمیان کچھ محسوس کیا ۔۔۔ لیکن میں نے اس کو اپنا وہم جانا اور سوال کو حل کرتا رہا۔۔۔ لیکن پھر کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ کوئی نرم نرم چیز میری ٹانگوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی میرے لن پر مساج کر رہی ہے ۔۔۔ میں ایک دم چونک گیا اور تھوڑا چوکنا ہو کر بیٹھ گیا ۔۔۔ اگلے ہی لمحے میں نے شاہینہ میم کا نازک سا پاؤں بڑے واضع طور پر اپنے لن پر ٹچ ہوتا ہوا محسوس کیا ۔۔۔ یہ محسوس کرتے ہی میں نے سر اُٹھا کر اوپر دیکھا تو میڈم شاہینہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ میز پر اپنی دونوں کہنیاں ٹکائے ۔میری طرف دیکھ رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ۔۔ میز کے نیچے سے میرے لن پر اپنا پاؤں بھی پھیر رہی تھی ۔۔۔ تھوڑا آگے جھکنے کی وجہ سے مجھے اس کے گورے گورے بریسٹ صاف نظر آ رہے تھے۔۔۔ میم کو اس حالت میں دیکھ کر میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔۔۔ اور میں خالی خالی نظروں سے ان کو دیکھنے لگا ۔کیونکہ میں ان سے ہر گز اس بات کی توقع نہ کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے جب مجھے ایسے بے وقفوں کی طرح منہ پھاڑے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو مسکرا کر بولی ۔۔ کیوں ؟؟؟ کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہے ہو مجھے ۔؟؟۔۔۔تو میں ان کی بات نہ سمجھا اور ویسے ہی ہونقوں کی طرح ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ میڈم ۔۔۔ابھی تو آپ ۔۔؟؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔جی ابھی تھوڑی دیر پہلے جو میں نے آپ کے ساتھ کیا تھا اسی کے بارے میں بات کر رہی ہوں ۔۔۔پھر کچھ وقفہ دیکر بولی ۔۔ سُن لو میں نے تمھارے اور ندا کے ساتھ جو کیا تھا ۔۔۔ وہ سب ڈرامہ تھا ۔۔شاہینہ میم جو کہہ رہی تھی وہ میں سُن تو رہا تھا لیکن ۔ میں ابھی تک شاک کی حالت میں ان کی طرف دیکھے جا رہا تھا اور ابھی بھی میرے پلے کچھ نہ پڑ رہا تھا اور میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟؟؟ ۔۔۔اس لئے میں نے ہکلاتے ہوئے ان سے کہا ۔۔۔ پر میم آپ کو ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔مجھے ڈرامہ کرنے کی اس لیئے ضرورت تھی میرے چاند ۔۔۔ کہ مجھے جارحانہ موڈ میں دیکھ کر ندا مجھے اپنے ساتھ لے جانے پر زور نہ دے ۔اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ۔۔ میڈم تو پھر آپ نے جو میرے ساتھ کیا وہ کیا تھا ؟ ۔۔ تو وہ بڑے اطمینان سے کہنے لگی ۔۔ ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیئے اسے میرا سوانگ سمجھ لو ۔۔ان کی بات سُن کر میں نے ایک گہری سانس لی ۔اور ان کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر وہ تھوڑا مسکرائی اور کہنے لگی ۔۔۔کچھ سمجھے مسٹر بدھو ۔۔اور میں نے اثبات میں سر ہا دیا ۔۔ اس کے بعد وہ پھر مجھ سے بولیں ۔۔۔ ۔۔۔۔ ٹیسٹ والے سوالات حل کر لیئے؟؟ تو میں نے کہا بس تھوڑا سا رہ گئے ہیں تو وہ کہنے لگی ۔۔۔جلدی کرو کہ ابھی تم کو ایک دوسرا ٹیسٹ بھی دینا ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا پاؤں مزید دراز کیا اور میرے لن پر پھیرنے لگی ۔۔ شاہینہ کے پاؤں کا لمس پاتے ہی میرا لن ایک دم کھڑا ہو گیا ۔۔اور میں اس کے آدھے ننگے ممے دیکھنے لگا ۔۔پھر اس کے پاؤں کے تلوے کو اپنے تنے ہوئے لن پر محسوس کرتے ہی میں نے کرسی تھوڑی اور آگے کی طرف بڑھائی اور اپنی ٹانگوں کو مزید کھول کر کے اس کے آدھ کھلے مموں کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھنے لگا میرے آگے بڑھتے ہی اس نے اپنا دوسرا پاؤں بھی میرے لن کے پاس رکھ دیا اور اب وہ اپنے دونوں پاؤں کے تلوے میرے لن کے گرد جوڑکر ۔۔۔۔ مُٹھ مارنے کےسٹائل میں انہیں اوپر نیچے کرنے لگی ۔۔۔ شاہینہ کی اس حرکت سے مجھے بڑا مزہ آ رہا تھا ۔۔۔اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے مسلسل اپنے پاؤں کے تلوؤں کو اوپر نیچے کر رہی تھی ۔ اور میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس وقت اس کی آنکھوں میں بلا کی جنسی بھوک اور شہوت کے لال ڈورے تیرتے ہوئے صاف نطر آ رہے تھے ۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے نچلے ہونٹوں کو اپنے دانتوں تلے بھی دبا کر رکھا ہوا تھا اور یہ سٹائل شاہینہ میم پر اتنا زیادہ چچ رہا تھا کہ انہیں اس حالت میں دیکھ کر میرا لن سخت سے مزید سخت تر ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔تبھی میں نے ان سے پوچھا ۔۔۔ میرا کیسا ہے میم؟ میری بات سُن کر انہوں نے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں سے آزاد کرتے ہوئے کہا ۔۔ یقین کرو تمھارے اس کے ( لن پر پاؤں کا تلوا رگڑتے ہوئے) ۔۔ سائز نے تو مجھے ساری رات سونے نہیں دیا ۔ تو میں کہا اس کی کوئی خاص وجہ ۔؟؟؟؟؟؟؟۔تو وہ کہنے لگی اس کی خاص وجہ اس کی موٹائی اور لمبائی ہے ۔۔۔پھر وہ اپنے ہونٹوں پر شہوت بھرے انداز میں زبان پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔ تمہارے جتنا سائز تو میں نے بلیو موویز میں صرف حبشی لوگوں کا دیکھا تھا ۔۔۔۔ ان کی بات سُن کر میں باغ باغ ہو گیا اور ان سے بولا ۔۔۔ میم پلیز اپنے بریسٹ توتھوڑے اور ننگے کریں نا ۔۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے اپنے مموں کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔ یہ تو پہلے ہی اتنے زیادہ ننگے ہیں انہیں اور کتنے زیادہ ننگے کروں؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔۔سارے ننگے کریں نا پلیززز۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھ کر بڑے معنی خیز لہجے میں بولی ۔۔۔سارے کے سارے ننگے کردووں ۔۔۔؟ تو میں نے بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔۔ جی میم سارے کے سارے ننگے کردیں ۔۔۔ انہوں نے میری بات سُنی اور پھر بلا تکلف اپنی کھلے گلے والی قمیض میں ہاتھ ڈالا اور اپنے دونوں ممے باہر نکال دیئے ۔۔میم کے شاندار اور اتنے گورے بریسٹ دیکھ کر میرے منہ سے ایک بار پھر بلکل اسی طر ح سیکس سے بھر پُور سسکی نکل گئی جو میں نے ان کے پہلی بار نپل دیکھ کر بھری تھی۔۔۔ جسے سنتے ہی وہ مسکرائی اور بولی۔۔۔ پہلی دفعہ تمھاری اس سسکی نے ہی مجھے تمھارے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا اور تب میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ۔۔۔۔۔اس کے بعد وہ کہنے لگی ۔۔۔دیکھو میں نے تو تمہاری پسندیدہ چیز تمہارے سامنے ننگی کر دی اب تم بھی میری پسندیدہ چیز کو ننگا کرو نا ۔۔۔ شاہینہ میم کی بات سُن کر میں نے فوراً اپنا آزار بند کھولا اور اپنی شلوار کو نیچے کر دیا ۔۔۔ اور انہوں نے میرے ننگے لن کو اپنے پیروں کے نرم تلوؤں سے چھوا اور ایک گرم سی آہ بھر کر اس پر مساج کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ کافی دیر تک وہ میرے لن پر اپنے پیروں کا مساج اور میں ان کے مموں کو دیکھتا رہا ۔۔۔ پھر انہوں نے مجھے کہا ۔۔ کہ میرے بریسٹ کو دیکھتے ہی رہو گے یا ان کو اپنے ہاتھوں میں پکڑو گے بھی ؟ میم کی بات سُن کر میں نے اپنے ہاتھوں کو آگے بڑھایا اور ان کا ایک بریسٹ اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اسے دبا دیا ۔۔۔تو ۔۔۔ فوراً ہی ان کے تنے ہوئے نپل سے دودھ نکلنے لگا ۔۔۔اور میڈم نے ایک سسکی لی اور بولی ۔۔۔پاگل میرے بریسٹ کو نہیں نپلز کو مسلو۔۔۔ اور میں نے ان کے دونوں نپلز اپنی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں پکڑے اور انہیں مسلنے لگا ۔۔۔ جیسے جیسے میں میم کے نپلز کو اپنی انگلیوں کی مدد سے مسلتا ویسے ویسے میڈم کے پاؤں تیزی سے میرے لن کے گرد چلنے لگتے اور میں ۔۔۔۔ ان کے پاؤں کے مساج سے بے حال ہوتا جاتا پھر میم نے کمال مہارت سے اپنے دائیں پاؤں کا تلوا اوپر اٹھایا اور اس کو میرے ٹوپے کے اوپر پھیرنے لگی۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی مزے کی تیز لہر میرے جسم میں بجلی کی طرح دوڑنے لگی اور میں آہیں بھرنے لگا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میڈم شہوت بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔ مزہ آ رہا ہے ۔۔۔ تو میں نے سر ہلا دیا ۔۔۔ کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے آرڈر دیا کہ میں کرسی سے اُٹھ کر ان کے پاس آؤں اور میں نے بلا چوں و چرا ان کے حکم کی تعمیل کر دی ۔۔ اور میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے بڑے پیار سے میرے لن کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اسے سہلانا شروع کر دیا اور بولی ۔۔۔۔کیا بات ہے تمھارے اس مردانہ ۔۔۔ ہتھیار کی ۔۔۔۔۔اگر میں پنڈی رہتی ہوتی نا۔۔۔تو میں روزانہ اس کو اپنے اندر لیتی ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔ انہوں نے بڑے ہی پیار سے میرے ٹوپے پر دونوں ہونٹ جوڑ کر کس دی اور بولی ۔۔۔۔ کیسا مشروم کی طرح کا ہیڈ ہے تمھارے لن کا ۔۔۔۔ اور پھر انہوں نے میرے لن کو اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا اور مُٹھ مارنی شروع کر دی ۔۔۔ان کے نرم ہاتھوں کا لمس گو کہ مجھے بہت اچھا لگ تھا پھر بھی میں نے ان سے کہا کہ میڈم لن کو تھوڑا چکنا کر لیں ۔۔۔۔۔ میری بات سُن کر انہوں نے بہت سا تھوک جمع کیا اور لن پر مل کر تیز تیز ۔۔۔ہاتھ چلانے لگی ۔۔۔ان کے تیز تیز ہاتھ چلانے سے انکی چوڑیوں کی مخصوص جھنکار بھی فضا مین گونجنے لگی ۔۔۔۔ شڑنگ ۔۔شڑنگ ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میرے لن نے مزی کاایک موٹا سا قطرہ چھوڑا جو ٹوپے سے ہوتا ہوا باہر آیا تو اسے دیکھتے ہی میڈم نے اپنی زبان باہر نکالی اور لن سے باہر نکلنے والا مزی کا وہ موٹا سا قطرہ چاٹ لیا ۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بڑے مست لہجے میں بولیں ۔۔۔ بڑا نمکین ہے تمھارے لن سے نکلنے والا قطرہ ۔۔۔اور پھر مُٹھ مارتے ہوئے بولیں ۔۔۔ جب تم ڈسچارج ہوتے ہو تو تمھارے لن سے کتنی سپیڈ سے منی نکلتی ہے ؟ تو میں نے کہا مجھے یاد نہیں ۔۔۔ تو وہ بڑی حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگیں اور بولیں ۔۔ مُٹھ مارتے ہو نا ؟؟؟؟ تو میں نے کہا جی بہت ۔۔۔تو وہ بولیں پھر بھی ۔۔۔تو میں نے کہا میڈم جب میں چھوٹنے لگتا ہوں تو اس وقت میری آنکھیں خود بخود بند ہو جاتیں ہیں اس لیئے میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ ہنسے لگیں اور بولیں بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔۔۔۔۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ کیوں پوچھ رہی ہو ؟ تو کہنے لگیں کہ ڈسچارج کے وقت مرد کی منی لن سے اچھل کر جب باہر نکلتی ہے تو یقین کرو مجھے و ہ منظر بہت بھاتا ہے تو میں نے ان سے کہا ٹھیک ہے میم جب میں چھوٹنے لگوں گا اس وقت آپ کو بتا دوں گا ۔۔۔ابھی آپ تھوڑا لن چوس سکتیں ہیں ؟ میری بات سُن کر انہوں نے کہا کہ دیکھو بھولنا نہیں اور۔۔۔پھر اپنا سر ....جھکا کر میرا لن کو اپنے منہ میں لے ..لیا اور پھر مزے سے چوسنے لگیں ۔۔۔ اور بقول اس کے اس کا خاص نشانہ میرا ” بگ مشروم " تھا جس پر وہ بار بار اپنی زبان پھیرتی تھی اور جب بھی میرا لن مزے میں آ کر مزی کا کوئی موٹا سا قطرہ چھوڑتا وہ ندیدوں کی طرح اس پر جھپٹیں ا ور اسے اپنی زبان سے چاٹ کر میرے لن صاف کر دیتیں اور پھر اپنی نشیلی آواز میں مجھے بتاتی کہ تمھارے لن سے نکلنے والی مزی بڑی نمکین اور مزیدار ہے ۔۔ کچھ دیر تک وہ میرا لن چوستی رہی اور پھر اس نے اپنے منہ سے میرا لن نکلا اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔اے ۔۔تم بلیو مووی دیکھتے ہو نا ؟؟؟تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ پھر تو میری چوت چوسو گے ؟ تومیں پھر اثبات میں سر ہلایا تو وہ اُٹھ کر کھڑی ہو گئی اور اپنی شلوار اتار نے سے پہلے ادھر ادھر دیکھ کر بولی ۔۔۔ چلو اندر چلتے ہیں میں نے اپنی شلوار پہلے سے ہی اتاری ہوئی تھی لیکن شاہینہ میم نے کمرے میں جا کر اپنی شلوار اتاری اور پھر بیڈ کے کنارے پر جا کر بیٹھ گئی اور اپنی ٹانگیں کھول کر بولی ۔۔ میری چوت چوسو۔۔۔۔ اب میں شاہینہ میم کے پاس جا کر کھڑا ہوا اور پھر اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھ گیا اور اس کو مزید ٹانگیں کھولنے کو کہا ۔۔۔اس نے مزید ٹانگیں کھولیں اور پھر ہی گرسنہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ میں نے پہلے تو اپنی دو انگلیاں اس کی ننگی چوت پر پھیریں جس پر بالوں کا کوئی نشان تک نہ تھا ۔۔۔اور پھر ہولے سے اپنی ایک انگلی اس کی چوت میں داخل کر دی ۔۔۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔۔ف۔ف اس کی چوت اندر سے بہت ہی گرم اور پانی سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔ چنانچہ میں نے اپنی وہ انگلی اس کی چوت میں خوب گھمائی اور پھر ۔۔۔۔ وہ انگلی باہر نکال کر اس کے ہونٹوں کی طرف لانے لگا ۔۔۔اس نے اپنی منی سے لتھڑی ہوئی میری انگلی کو دیکھا اور اپنی زبان باہر نکال دی اور پھر میں نے اس کے سامنے اپنی انگلی کھڑی کی تو اس نے میری انگلی پر لگی اپنی ساری منی چاٹ لی اور پھر اپنا منہ میری طرف کیا اور ۔۔۔۔ میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے ۔۔۔اور ۔۔پھر اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی ۔۔۔اس وقت تک اس کی زبان پر اس کی منی کا ذائقہ موجود تھا جسے میں نے بڑی ہی خوش دلی سے چوسا اور پھر کافی دیر تک ہم ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈالے ایک دوسرے کی زبانیں چوستے رہے ۔۔۔۔۔ جب ہم نے ایک دوسرے کے ہونٹوں اور زبانوں کا سارا رس پی لیا تو ۔۔۔ ہم الگ ہو گئے۔۔اور پھر اس نے میرا سر پکڑا اور اپنی چوت کی طرف دبانا شروع کر دیا۔۔۔۔ میں اس کا اشارہ سمجھ گیا اور نیچے فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔۔اور اس کی چوت کو چومنے لگا ۔۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ میری زبان اس کی چوت کے نیچے کی طرف جانے لگی جہاں سے اس کی چوت کا گرم پانی رِس رِس کر چوت سے نیچے کی طرف نکل رہا تھا میں نے اپنی زبان اس کی چوت کے آخری سرے پر رکھی اور پھر ۔۔۔۔اس کی چوت کے اندر سے رِس رِس کر آنے والا پانی چاٹنے لگا ۔۔۔ اور ساتھ ساتھ اس کے چوت کے لبوں کو بھی چوستا رہا ۔۔۔ میری اس حرکت سے اس میں مزید جوش بھر گیا اور وہ ۔۔۔۔مست ہو کر سسکیاں بھرنے لگی ۔۔۔۔ اُوں ں ں۔۔۔اُوں ں ں ۔۔۔ آہ ۔۔ میری جان ۔۔۔تم کتنے مست ہو۔۔ کتنے ۔۔۔افف ف۔۔۔ چوس نا۔۔اوں ں ں۔۔۔اور چوس نہ ۔۔اور پھر اس نے میرا سر پکڑ کر اپنے موٹے اور پھولے ہوئے دانے پر رکھ دیا ۔۔۔۔۔ اور بڑی ہی شہوت بھری آواز میں بولی ۔۔۔ میرے دانے کو ایسے چوس جیسے ۔۔بلیو موویز میں ۔۔ لڑکیاں لن کو چوستی ہیں ۔۔۔اور میں نے اس کا پھولا ہوا دانہ اپنے دونوں ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا ۔پھر میں نے اس کا موٹا دانہ اوپر سے نیچے تک اپنی زبان سے چاٹا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ اپنی دو انگلیاں میڈم کی کھلی چوت کے دھانے میں ڈال دیں ۔۔۔۔۔اور ان کو تیزی سے ان آؤٹ کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری اس بات سے میڈم کو ڈبل مزہ ملنے لگا ۔۔۔اور وہ بے اخیتار ہو کر میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہو ئے بولی ۔۔۔۔۔۔ چوس۔س۔س۔س۔۔س۔س ،،،، میری پھدی چوس۔.۔۔س ۔۔۔میری جان مجھے بڑا مزہ آ ر ہا ہے ۔۔۔۔ اور پھر ۔کچھ ہی دیر بعد میڈم ایک بار اور چھوٹ گئی اور بولی بس۔۔۔اب بس کرو ۔۔اب اُٹھو اور اپنا یہ موٹا لن میری پیاسی پھدی میں ڈال دو ۔۔۔ میڈم کی بات سُن کر میں اوپر اٹھا اور اس کو گھوڑی بننے کو کہا ۔۔۔جو وہ جلدی سے بن گئی اور پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔۔ اپنا وعدہ یاد ہے نا ۔۔۔ تو میں نے لن اندر ڈالنے سے پہلے شرارتاً کہا کون سا وعدہ میڈم ؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ میرے سامنے چھوٹنے کا ۔۔اور پھر مجھے آنکھ مارتے ہوئے مستی سے بولی ۔۔۔۔اگر تم میرے سامنے نہ چھوٹے نا تو جان سے مار دوں گی ۔۔۔اور پھر اپنا منہ آگے کر کے بولی ۔۔۔اب ڈال بھی۔۔۔۔۔۔ اور میں میڈم کے پیچھے آیا اور اپنا بڑا سا لن اس کی چوت کے دھانے پر رکھا اور ہلکا سا دھکا لگایا ۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایاتھا کہ میڈم کی چوت کافی کھلی ، گرم اور پانی سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔اس لیئے لن آسانی سے پھسلتا ہوا ۔۔۔ میڈم کی چوت میں چلا گیا ۔۔۔اور میڈم نے ایک شہوت بھرا نعرہ لگا یا۔۔۔آہ۔۔۔۔۔ اور بولی ۔۔۔ میری جان اپنے لن کو میری پھدی کی گہرائی تک لے جاؤ ۔۔۔اورپھر میں نے پیچھے ہٹ کر ایک فل سپیڈ سے میڈم کی پھدی میں گھسا مارا تو ۔وہ۔۔۔مستی میں چلا کر بولی ۔۔۔۔یس ۔۔۔۔۔ایسے ہی گھسے مار ۔۔۔۔میری جان میری پھدی کو ایسے ہی گھسوں کی ضرورت ہے ۔۔۔اور پھر میں اس کے بعد میں نے اس کی چوت میں نان سٹاپ گھسوں کی برسات کر دی ۔۔۔اور میرے ہر گھسے پر وہ اوں۔۔۔ اوں ۔۔۔۔آہ ۔۔۔اور سسکیوں میں یہی کہتی ۔۔۔۔یس ۔یس ۔ ۔۔۔ میری پھدی ایسے ہی گھسے مانگتی ہے ۔۔۔۔اس طرح کافی دیر تک میں مختلف سٹائلوں میں اس کی پھدی مارتا رہا ۔۔۔اور ہر سٹائل میں اس کی پھدی میں جب پاور فل گھسے مارتا تو ۔۔۔ آگے سے وہ بڑی خوش ہوتی اور کہتی ۔۔۔ کہ۔۔یس ۔۔یس ۔ میری پھدی ایسے ہی گھسے مانگتی ہے ۔۔۔اور پھر گھسے مارتے مارتے وہ ٹائم بھی آ گیا کہ جب لن صاحب کے فارغ ہونے کا ٹائم آگیا ۔اس وقت وہ سیدھی لیٹی تھی اور میں اس کے اوپر چڑھ کر گھسے مار رہا تھا ۔۔ چنانچہ جب میں نے گھسے مارنے بند کئے اور اپنے لن کو اس کی پھدی سے۔تو وہ بولی ۔۔اچھا اچھا ۔۔۔تو وہ ٹائم آگیا ہے ۔اور جلدی سے اُٹھ کر بیٹھ گئی میں پہلے ہی گھٹنوں کے بل کھڑا تھا ۔۔۔۔اس لیئے میم نے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ٹوپے پر لگی اپنی چوت کی منی کو چاٹ کر بولی ۔۔۔ تم نے تو میری بس کرا دی تھی ۔۔۔ تم نہ بھی اُٹھتے تو میں تم کو منع کرنے والی تھی ۔۔پھر اس نے اپنا منہ میرے ٹوپے کی سیدھ سے کافی اوپر کیا اور بولی ۔۔۔ پہلے قطرے کو اچھل کر یہاں تک آنا چایئے ۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ تیز ی کے ساتھ میرے لن پر ہاتھ چلانے لگی ۔۔۔۔۔۔ اور اس کی تیز تیز مُٹھ مارنے سے ۔۔اس کی چوڑیوں کی وہی مخصوص اور دلکش اور مترنم آواز کمرے میں سنائی دینے لگی ۔۔شڑنگ شڑنگ ۔۔۔۔ شڑنگ ۔۔۔۔۔شڑنگ ۔۔۔۔۔اور اس میوزیکل ۔۔ مُٹھ کے دوران ہی میرے لن سے منی کا پہلا قطرہ نکلا اور ۔۔۔ اچھل کر عین اس کے منہ پر جا گرا اور پھر اس نے میرے لن کو نیچے سے دبا لیا تا کہ مزیڈ منی باہر نہ نکلے اور میری طرف دیکھ رک بولی ۔۔۔۔میرا اندازہ ٹھیک تھا نا ۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ میرے ٹوپے کے عین سامنے کر دیا اور نیچے سے لن پر دباؤ ختم کر دیا ۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ میرے لن سے منی کا فوارا نکلا ۔۔جو سیدھا اس کے کھلے ہوئے منہ میں جا گرا اور ۔۔اس کے بعد ۔۔۔ جیسے جیسے منی کے قطرے ۔۔۔ میرے لن سے اچھل اچھل کر باہر گرتے گئے ۔۔۔۔وہ سب کے سب اپنے منہ میں لیتی گئی ۔۔اور پھر میری منی کے پانی سے اس کا منہ بھر گیا ۔۔۔ اور میرے لن سے بھی پانی نکلنا بند ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد میڈم شاہینہ وعدے کے مطابق فارغ ہو کر نہا کر استانی جی کے ہاں ختم پر چلی گئی اور میں بیگ اُٹھائے ۔۔۔ گھر کی طرف روانہ ہوا ۔۔۔ اور پھر عین اس وقت کہ میرا ایک پاؤں ۔۔۔گھر کے اندر اور ایک پاؤں باہر تھا میں نے شیخ صاحب کی دوسری بیوی راحیلہ کو دیکھا ۔وہ ہامرے گھر سے باہر نکل رہی تھی ۔اور سے دیکھتے ۔۔۔ ہی میرے چودہ طبق روشن ہو گئے ۔۔۔اور میرے چہرے کا رنگ فق ہو گیا ۔۔۔ اور میرے زہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ ہو نہ ہو یہ میری شکایت لگانے ہی آئی ہوگی ۔۔۔ اس لیئے اسے دیکھتے ہی میں واپسی کے لیئے مُڑ ا۔۔۔۔ اور جیسے ہی میں واپس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ پیچھے سے ایک کرخت آواز سنائی دی ۔۔۔اور اور راحیلہ کو دیکھ کر جیسے ہی میں واپسی کے لئے مُڑا ۔۔لیکن ۔۔پیچھےسے ایک کرخت آواز جو کہ یقیناً راحیلہ کی ہی تھی نے مجھے رکنے کا بولا ۔۔۔مرتا کیا نہ کرتا میں وہ آواز سُن کر واپس ہو لیا ۔۔۔اور پھر بڑا ہی مسکین سا منہ بنا کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔۔۔اب صورتِ حال یہ تھی کہ ہمارے گھر کے دروازے پر راحیلہ اور شیخ صاحب کی پہلی بیگم نفیسہ کھڑی تھیں جبکہ ان کے پیچھے امی کھڑی تھیں اور یہ سب کی سب میری ہی طرف دیکھ رہیں تھیں اور میں بندہ ء مسکین اپنی شکل کو کچھ زیادہ ہی مسکین بناتے ہوئے ان کے اگلے حکم کا منتظر تھا ۔۔ پھر راحیلہ نے ہی قدرے سخت لہجے میں سوال کیا اور پوچھنے لگی کہ یہ تم واپس کہاں جا رہے تھے ؟ تو میں نے بڑی عاجزی سے کہا کہ وہ جی میری کتاب استانی جی کے گھر رہ گئی تھی وہ لینے جا رہا تھا۔۔تو راحیلہ نے کہا کہ ٹھیک ہے تم کتاب لے آؤ لیکن شام کو تم نے ہمارے گھر آنا ہے راحیلہ کی بات سُن کر میں نے امداد طلب نظروں سے اپنی بے بے (امی) کی طرف تو وہ مجھ پچکارتے ہوئے بولیں۔۔۔ چلا جاویں پترا ۔۔اور جو بھی کام راحیلہ باجی تم سے کہے وہ کر دینا ۔ کہ ہمسائیوں کا بڑا حق ہوتا ہے ۔۔۔ امی کی بات سُن کر میں نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چمپت ہو گیا اب میرے دل میں کُھد بُد شروع ہو گئی تھی کہ راحیلہ باجی نے مجھے شام کو اپنے گھر میں کیوں بلایا ہے ؟؟ اور راحیلہ باجی لوگوں کو ایسا کون سا کام آن پڑا ہے جو کہ میرے بغیر نہ ہوتا تھا ۔۔ ۔چنانچہ میں اسی شش وپنج میں ادھر ادھر گھومتا رہا اور پھر ۔کافی دیر بعد واپس گھر آ گیا اور سیدھا امی کے پاس چلا گیا اور ان سے سارا معاملہ دریافت کیا کہ یہ لوگ کیوں آئے تھے ؟ تو انہوں نے بتلایا کہ جیسا کہ تم جانتے ہی کہ نفیسہ بیگم ( شیخ صاحب کی بڑی بیگم ) تو اکثر ہی ہمارے گھر آتی رہتی ہیں بے چاری بڑی سادہ اور اچھی خاتون ہیں اور اتنے امیر ہو کر بھی تکبر کا ان میں نام و نشان نہیں ہے اب مسلہ یہ ہے کہ چھوٹی بیگم (راحیلہ ) نے اپنے بیڈ روم میں ایک نئی کپڑوں والی الماری اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر چھوٹی موٹی آلٹریشنز کرانی تھیں ۔ اور اس سلسلہ میں انہوں نے شیخ صاحب سے الماری بنانے و دیگر چھوٹے موٹے کام کرنے کا کہا تو انہوں نے چھوٹی بیگم کو صرف اس شرط پر الماری بنوانے اور دیگر کام کرانے کی حامی بھری ہے کہ ان کا کوئی اپنا اعتباری بندہ مستریوں کے سر پر کھڑا ہو کر یہ کام کرائے گا اور اسکی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایک تو ان کا گھر سامان سے بھرا پڑا ہے دوسرا ۔۔تم کو معلوم ہی ہے کہ شیخ صاحب پردے کے معاملے میں خاصے سخت ہیں اور ۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ مستریوں کے سامنے ان کی کوئی خاتون آئے ۔۔چنانچہ مستریوں کی نگرانی و دیگر کاموں کے لیئے قرعہء فال تمھارے نام پڑا ہے اور ۔ اسی سلسلہ میں نفیسہ بیگم کو لیکر راحیلہ آج ہمارے گھر آئی تھی اور مجھ سے تمھارے بارے میں اجازت طلب کر رہی تھی جو میں نے انہیں بخوشی دے دی ہے ۔۔۔ پھر امی نے مجھے ایک زنانہ سوٹ دکھایا اور بولیں یہ سوٹ راحیلہ ان کے لیئے بطور گفٹ لائیں تھی ۔اور سوٹ کو دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ ان کو امی نے ان کو کیوں اجازت دی تھی ۔۔اصل بات یہ تھی کہ راحیلہ نے نگرانی کے لیئے میرا ہی نام کیوں لیا تھا ؟ یہ بات مجھے کچھ سمجھ میں آتی تھی اور کچھ نہ آ رہی تھی ۔۔۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں تھا کہ امی نے دوسرا حکم سناتے ہوئے کہا کہ میں نفیسہ بیگم کے گھر جاؤں اور تم کو جو بھی کام راحیلہ باجی کہیں وہ بلا چوں و چرا کروں ۔۔ ۔۔۔امی کی بات سُن کر میں نے سکول بیگ رکھا اور شیخ صاحب کے گھر کی طرف چل پڑا گیا ۔۔۔جا کر دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے نفیسہ بیگم نے دروازہ کھولا اور مجھے لیکر اپنے ڈرائنگ روم میں آ گئیں وہ چونکہ ہمارے گھر اکثر آتی رہتیں تھیں اورامی کی دوست بھی تھیں اس لیئے میری ان سے اچھی گپ شپ تھی مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر نفیسہ بیگم جنہیں ہم نفیسہ آنٹی کہتے تھے نے بھی مجھے عین وہی کہانی سنائی کہ جسکے بارے میں امی مجھے پہلے ہی بتا چکیں تھیں بس انہوں نے اس میں ایک نئی بات کا اضافہ کیا اور وہ کہ بات بات کرتے کرتے اچانک آنیم میری طرف جھکیں اور سرگوشی نما آواز میں کہنے لگیں ۔۔ ۔اس کام کی نگرانی کے لیئے ۔۔ راحیلہ اپنے ایک رشتے دار کا کہہ رہی تھی لیکن تمہیں تو معلوم ہے کہ مجھے راحیلہ کے رشتے دار مجھے ایک آنکھ نیںے بھاتے اس لیئے میں نے شیخ جی سے تمھارے بارے میں بات کی تھی جسے انہوں نے مان لیا ہے پھر کہنے لگی اس کی وجہ یہ ہے کہ پتر ایک تو توُ اپنے گھر کا بندہ ہے اور اپنا دیکھا بھالا بھی ہے اور دوسرا یہ کہ تیری ماں میری بڑی اچھی دوست ہے اس لیئے ہمارے لیئے تم سے زیادہ اور کون بااعتبار ہو سکتا ہے ؟ پھر وہ اسی سرگوشی میں کہنے لگیں ۔دیکھو بیٹا تم میرے بیٹے جیسے ہو اس لیئے تم نے راحیلہ کی کڑی نگرانی کرنی ہے اگر یہ کسی کام میں زیادہ خرچہ وغیرہ کرےیا شیخ صاحب سے طلب کرے تو تم نے مجھے ضرور بتا نا ہے اور اس کے بعد انہوں نے مجھے میرے خفیہ امور کے بارے میں کہ جن کے لیئے میری خدمات ہائیر کی گئیں تھیں بریفنگ دی اور بتایا کہ میں نے کس کس بات پر خاص دھیان دینا ہے اور کس بات کی کڑی نگرانی کرنی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا بس ایک دو دن کی بات ہے تم سکول سے چھٹی کر لینا۔۔ تو تمھاری بڑی مہربانی ہو گی ۔اسی اثنا میں راحیلہ باجی بھی وہاں آ گئیں اور میرے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ کر خاص کر میرے ساتھ باتیں کرنے لگی ۔۔۔ اور میرے ساتھ گپ شپ کرتے وقت راحیلہ کا رویہ میرے ساتھ اس قدر نارمل تھا کہ ایک پل کے لیئے تو مجھے شک سا ہونے لگا کہ شاید اس رات چھت پر راحیلہ نہیں کوئی اور تھی پھر دل میں یہ بھی خیال آتا کہ شاید راحیلہ نے مجھے پہچانا نہیں تھا ۔کیونکہ میں نے اس کی باتوں سے اور بات کرتے وقت اس کی آنکھوں میں ایک دفعہ بھی اس رات والی کہانی کا شائبہ تک نہ دیکھا تھا ۔۔ امی اور نفیسہ بیگم کے بعد راحیلہ نے بھی مجھے وہی سٹوری سنائی جو کہ میں پہلے ہی سن چکا تھا اور وہ یہ کہ شیخ صاحب اپنے گھر کا کام کسی اعتباری بندے کی نگرانی میں کرانا چاہتے تھے اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگی اور تم کو معلوم ہے کہ جیسے ہی میں نے تمھارا نام صاحب کو بتایا تو وہ فوراً ہی تمہاری نگرانی میں کام کرانے پر راضی ہو گئے اس کی بات سُن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ پتہ نہیں یہ ٹھیک کہہ رہی ہے یا نفیسہ آنٹی درست کہہ رہیں ہیں ۔۔۔اور پھر اس اندازے پر پہنچا کہ نفیسہ بیگم ہی درست کہہ رہیں ہو ں گی۔کیونکہ اس کام میں صرف میں ہی ان کے لیئے مخبری کا کام سرانجام دے سکتا تھا ۔۔ اس کے بعد راحیلہ مجھ سے کہنے لگی ۔۔ صبع صبع مستری لوگ آ جائیں گے اس لیئے ابھی تم میرے آؤ کہ ہم کچھ ہلکا پھلکا سامان سٹور روم میں شفٹ کر لیں ۔۔۔ راحیلہ کی بات سُن کر نفیسہ بولی ۔۔۔۔ پہلے بچے کو کچھ کھانے پینے کے لیئے تو کچھ دو نا اور پھر یہ کہتے ہوئے خود ہی اُٹھ کر چلی گئی کہ میں اسکے لیئے کچھ کھانے کو لاتی ہوں ۔۔ نفیسہ آنٹی کے جانے کے بعد میں اور راحیلہ ڈرائینگ روم میں اکیلے رہ گئے اور وہ پھر سے میرے ساتھ باتیں کرنے لگی ۔۔۔۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے ایک دفعہ بھول کر بھی اس رات والے واقعہ کا نہ تو مجھ سے زکر کیا اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی اشارہ تک کیا کہ جس سے پتہ چلتا ہو کہ اس نے مجھے پہچان لیا ہے میرا خیال ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایساکر رہی تھی کہ بات پر پردہ ہی پڑا رہے تو بہتر ہے ۔۔ اور پھر میں نے سوچا کہ اگر وہ ایسا چاہتی ہے تو ٹھیک ہے میں بھی اس رات والے واقعہ کے بارے میں نہ تو اس سے کوئی کروں گا اور نہ ہی اس کو کسی اشارہ کنارے میں بھی یہ واقعہ جتلاؤں گا جیسے ہی یہ سوچ میرے دماغ میں آئی مجھے ایک بہت بڑی الجھن سے نجات مل گئی اور میں بھی راحیلہ کی طرح نارمل ہو گیا پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر تم ایک دو دن چھٹی کرنے سے تمہاری پڑھائی کا تو کوئی حرج نہیں ہو گا نا؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ باجی جی سکول سے چھٹی کی تو خیر ہے لیکن میں ٹیوشن سے ہر گز چھٹی نہیں کروں گا میری بات سُن کر وہ کہنے لگی ٹھیک ہے لیکن کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ تم ٹیوشن سے چھٹی کیوں نہیں کرو گے ؟؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ایک تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ استانی جی بڑی سخت ہیں اور دوسری بات یہ کہ اگلے ہفتے میرے کچھ ٹیسٹ بھی ہیں جن کی آج کل وہ مجھے تیاری کر وا رہی ہیں اور اگر اس تیاری کے دوران اگر میں نے کوئی چھُٹی کر لی تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ اس سے میرا بڑا حرج ہو گا۔۔میری بات سُن کر وہ کہنے لگی ٹھیک ہے ٹیوشن کےو قت تم چلے جانا پھر ہنستے ہوئے بولی ۔۔فکر نہ کرو ۔۔ تم نے یہاں صرف مزدوروں کی نگرانی یا پھر اگر ان کو کوئی چھوٹی موٹی چیز درکار ہو گی تو وہ لا کر دینی ہے جبکہ ۔۔باقی کا کام مستری لوگ خود کر لیں گے اتنے میں نفیسہ بیگم ٹرے میں چائے اور اس کے دیگر لوازمات لے آئیں ۔۔۔ ابھی ہم چائے پی رہے تھے کہ اچانک باہر سے دستک کی آواز سنائی دی ۔۔ دستک کی آواز سُن کر نفیسہ بیگم اُٹھی اور بولی آپ چائے پیو میں دیکھتی ہوں اور ڈرائنگ روم سے باہر چلی گئی پھر کچھ دیر بعد واپس آئی اور کہنے لگی ۔۔۔۔وہ راحیلہ ۔۔۔۔۔ باہر مستری صاحب سوزوکی پر لکڑی اور اپنے دیگر اوزار وغیرہ لائے ہیں ۔۔۔ نفیسہ بیگم کی بات سن کر راحیلہ نے مجھے اشارہ کیا اور ہم دونوں باہر چلے گئے راحیلہ نے مجھے کہا کہ سوزوکی پر لادی ہوئی لکڑیوں میں سے ایک لکڑی کا تختہ بطور نمونہ اسے لا کر دکھاؤں اور میں نے مستری صاحب سے لکڑی کا ایک نسبتاً چھوٹا سا پیس لیا اور راحیلہ کو جا کر دکھا دیا ۔۔۔ میرے ہاتھ میں ہی اس نے لکڑی کے چھوٹے سے تختے کا اچھی طرح معائینہ کیا اور اسے کافی دیر تک اُلٹ پلٹ کر دیکھتی رہی اور پھر مجھ سے کہنی لگیں کہ تم جاؤ اور مستری صاحب سے کہو کہ وہ اپنا سامان صحن میں جبکہ لکڑیوں کے پھٹے برآمدے میں رکھو ا دو ۔۔۔۔ اور میں نے سوزوکی کے ساتھ آئے مزدوروں اور مستری صاحب کو راحیلہ بیگم کا پیغام دے دیا انہوں نے میری ہدایت سنیں اور پھر بڑے سلیقے سے سارا سامان متعلقہ جگہوں پر رکھ دیا اور پھر جاتے جاتے مستری نے مجھے کہا وہ صبع آٹھ بجے کے قریب آ جائے گا اتنے میں آپ لوگ کمرہ خالی کر لینا اور چلا گیا ۔۔۔اس کے جانے کے بعد راحیلہ اور نفیسہ آنٹی برآمدے میں آگئیں اور ایک بار پھر وہ دونوں وہاں پڑے ہوئے سامان کا بارک بینی سے جائزہ لینے لگیں ۔۔ اور اس دوران میں شیخ صاحب کی لڑکی کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا جو پتہ نہیں کس کھُڈ میں چھپی بیٹھی تھی کہ باوجود کوشش کے بھی میں ابھی تک اس کی ایک جھلک بھی نہ دیکھ سکا تھا ۔۔۔ پھر اس کے بعد میں نے اور راحیلہ نے مل کر راحیلہ کے بیڈ روم کا چھوٹا موٹا سامان ان کے سٹور روم میں شفٹ کر دیا اورجب چھوٹا چھوٹا سارا سامان ان کے سٹور روم میں شفٹ ہو گیا تو راحیلہ مجھ سے کہنے لگی کہ تھینک یو ڈئیر ۔۔تمھارا آج کا کام ختم ہو گیا ہے اور اب تم چاہو تو واپس اپنے گھر جا سکتے ہو اور باقی کا ہیوی سامان صبع مزدور اُٹھا لیں گے ۔۔ راحیلہ کے کہنے پر میں واپس جانے لگا تووہ میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔ یاد رکھنا کہ صبع تم نے ٹھیک سات ساڑھے ساتھ بجے ہمارے گھر میں آنا ہے ۔۔۔ پھر اچانک ہی بولی ۔۔۔۔ ہاں گھر سے ناشتہ کر کے نہ آنا۔۔ کیونکہ تمھارے کل کا ناشتہ ہمارے ہاں ہو گا ۔۔۔ میں نے اس کی بات سُن رک اثبات میں سر ہلا یا اور وہاں سے چلا آیا ۔۔ اگلے دن صبع صبع میں بنا ناشتہ کیئے ان کے گھر چلا گیا ۔اور جا کر دستک دی تو جواب میں ۔۔ دروازہ شیخ صاحب نے ہی کھولا تھا اور مجھے دیکھتے ہی انہوں نے بڑی گرم جوشی سے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور پھر میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگے تھینک یو بیٹا ۔۔ میں تمھارا بڑا مشکور ہوں تو میں نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں انکل۔۔ یہ تو میرا فرض تھا ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کہنے لگے ۔۔۔ ویسے یہ کام تو ۔۔ میرا یا میرے بیٹے فہد کے کرنے کا تھا لیکن جیسا کہ تم کو معلوم ہی ہے کہ فہد ( شیخ صاحب کا بیٹا) اپنی بہن کو لیکر چاچا کے ہاں کراچی گیا ہوا ہے اگر وہ بھی یہاں ہوتا تو تمہیں ہم کبھی بھی زحمت نہ دیتے۔۔۔ اتنے میں پیچھے سے نفیسہ آنٹی کہنے لگیں کہ ۔۔۔ شیخ جی اس کو شکریہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں یہ بھی اپنے گھر کا ہی بیٹا اور فہد جیسا ہی ہے ۔۔تو شیخ صاحب نے اس کو جواب دیا کہ ۔۔۔ بات تو تمھاری ٹھیک ہے لیکن پھر بھی شکریہ ادا کرنے کا میرا حق بنتا ہے اور پھر آنٹی کو مخاطب کر کے کہنے لگے ۔۔۔ نفیسہ بیگم ۔۔۔ بیٹے کو کچھ کھانے کو دو اور خود مجھ سے معذرت کرتے ہوئے اندر چلے گئے اور آنٹی نے مجھے بیٹھنے کا کہا اور خود ناشتہ لینے کچن میں چلی گئیں۔۔۔ میں آنٹی کا بنایا ہوا ناشتہ کر رہا تھا کہ اندر سے شیخ صاحب نکلے ان کے پیچھے پیچھے راحیلہ بھی تھی جس نے شیخ صاحب کا بیگ پکڑا ہوا تھا اور ان کے ساتھ خوش گپیاں کرتی ہوئی چلی آ رہی تھی ۔۔ راحیلہ کو یوں شیخ صاحب کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتی دیکھ کر آنٹی مجھ سے سرگوشی میں کہنے لگیں کہ بڑی ہی ففا کٹن ہے یہ عورت بھی ۔۔ اور پھر اس کے بعد انہوں نے زیرِ لب راحیلہ کی شان میں قصیدے پڑھنے شروع کر دیئے اتنے میں شیخ صاحب میرے قریب پہنچ گئے اور بولے پتر زرا دھیان سے کام کروانا اور پھر باہر نکل گئے ۔راحیلہ بھی ان کے پیچھے پیچھے ان کو باہر تک چھوڑنے گئی اور پھر شیخ صاحب کو الوداع کر کے واپس ہمارے پاس آگئی اور میرے ساتھ ناشتے میں شریک ہو گئی ۔۔۔ہمارے ناشتہ ختم کرتے کرتے مستری لوگ بھی آ گئے اور میں نے راحیلہ کی ہدایت کے مطابق مزدوروں سے سارا ہیوی قسم کا سامان اُٹھوا کر اس کی بتائی ہوئی جگہ پر رکھوا دیا ۔۔۔ اور وہاں سے واپسی پر جب میں نے راحیلہ کو اس امر کی رپورٹ دی تو اس نے مجھے شاباش دی اور بولی میں نے مستریوں کے لیئے چائے بنائی ہے یہ جا کر ان کو دے آؤ۔۔ سہ پہر کا وقت تھا اور مستری لوگ کھانا کھانے کے بعد اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے ۔۔۔ کہ میں راحیلہ کے پاس گیا اور بولا باجی مستریوں نے کھانا بھی کھا لیا ہے اورمیں نے ان سے پوچھ کر آ رہا ہوں کہ ان کو کسی چیز کی ضروت تو ہیں ۔۔۔ تو انہوں نے کہا ہے کہ فی الحال ان کو کسی بھی چیز کی ضرورت نہ ہے ۔۔۔ اس لیئے اگر آپ کی اجازت ہو تو میں ٹیوشن پڑھنے جا سکتا ہوں ؟؟؟؟ میری بات سُن کر وہ چونک گئی اور گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں کب تک واپس آ جاؤ گے؟ تو میں نے کہا ایک دو گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے تو وہ کہنے لگی زرا جلدی آنے کی کوشش کرنا ۔۔اور میں نے ہاں کہہ کر وہاں سے گھر آ گیا اور اپنا بیگ اُٹھا کر ندا میم کے گھر کی طرف جانے لگا ۔۔ وہاں جا کر دروازے پر دستک دی تو شاہینہ میم نے دروازہ کھولا اور میرے اندر داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ بند کر کے پہلے تو مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور پھر بنا کوئی بات کیئے اپنا منہ میرے منہ کےساتھ جوڑ لیا اور کسنگ کرنے لگی ۔۔۔ پہلے تو میں اس کے اس رویے سے حیران ہوا پھر ۔۔ اس کے بعد ۔ میں نے بھی اس کی کسنگ کا بھر پور جواب دینا شروع کر دیا اور خاص کر اس کی زبان کو خوب چوسا ۔۔۔ کچھ دیر بعد شاہینہ میم نے خود ہی اپنا منہ میرے منہ سے ہٹایا تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔ خیریت تو ہے میم ؟ تو وہ کہنے لگی ہاں خیر ہی ہے ۔۔۔ پھر میں نے ان سے ندا میم کے بارے پوچھا تو کہنے لگیں تمھاری دستک سے ایک منٹ پہلے ندا نہانے کے لیئے واش روم میں داخل ہوچکی تھی ۔۔۔تو میں نے ہنس کر کہا تبھی اتنی عیاشیاں ہو رہیں تھیں ۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ مسکرائی اور بولی ۔۔عیاشیاں نہیں یار ۔۔۔۔ کل ہم لوگوں نے واپس اپنے شہر چلے جانا ہے ۔۔ اس لیئے میں نے سوچا پتہ نہیں پھر موقعہ ملے نہ ملے ۔۔ چنانچہ تم سے جی بھر کر کسنگ تو کر لوں ۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں تھوڑا سا اداس ہو گیا اور بولا ۔۔۔ میم واقعہ ہی آپ لوگ کل جا رہے ہو؟ تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ ہاں یار جانا تو ہے کہ پیچھے کے بھی کام دیکھنے ہیں۔۔۔ پھر مجھے کہنے لگی فکر نہ کرو میں اگلے ماہ پھر آؤں گی ۔۔۔۔ البتہ اس وقت تم سے پیار کرنے کا موقعہ ملے گا یا نہیں اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتی یہ کہہ کر وہ ایک دفعہ پھر میرے ساتھ لگ گئی ۔۔۔ اور پھر میرا نیم کھڑا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے دبانے لگی۔۔۔ پھر ندا کے آنے سے پہلے پہلےاس نے مجھے ایک گرینڈ ٹیسٹ دیا جسے میں حل کرنے لگا اور اسی دوران ندا میم بھی نہا کر ہمارے پاس ہی بیٹھ گئی اور اپنے بال خشک کرتے ہوئے شاہینہ سے بولی ۔۔۔کچھ گزارا ہوگیا ہے اس لڑکے کا ؟ تو شاہینہ نے جواب دیا ۔۔۔۔ جو جو بھی پڑھایا تھا اس کا ٹیسٹ بنا کر دیا ہے ۔۔۔ جسے یہ حل کر رہا ہے ۔اب اس کا یہ ٹیسٹ بتائے گا کہ اس کو میری ٹیوشن کا کتنا فائدہ ہوا ہے ۔۔۔۔ ٹیوشن سے فارغ ہونے کے بعد میں بوجھل دل سے واپس گھر آیا ۔۔۔ شاہینہ میم کے جانے کا سُن کر پتہ نہیں کیوں میں تھوڑا سا اپ سیٹ ہو گیا تھا؟ ۔۔ گھر آ کر میں نے اپنا بیگ رکھا اور پھر حسبِ وعدہ شیخ صاحب کے گھر چلا گیا ۔۔۔وہاں گیا تو مستری لوگوں کو ویسے ہی اپنے اپنے کاموں میں مصروف پایا ۔۔ جیسے کہ میں ان کو چھوڑ کر گیا تھا چنانچہ میں چلتے چلتے ان کے پاس کھڑا ہو گیا اور بڑے مستری صاحب سے باتیں کرنے لگا ۔۔اسی دوران ایک مزدور مجھے ایک پرانے سے گتے کا کارٹن دیتے ہوئےبولا کہ صاحب جی گتے کا یہ کارٹن مجھےکمرے کے کونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )۔۔ لوہے کی ا لماری کے پیچھے سے ۔ملا ہے ۔۔ میں نے ا س کے ہاتھ سے وہ کارٹن لیا اور باہر نکل کر سٹور روم کی طرف بڑھ گیا ادھر میں سٹور کے دروازے سے کمرے کے اندر داخل ہو رہا تھا کہ میری نظر راحیلہ پر پڑی جو کہ بڑی تیزی کے ساتھ سٹور سے باہر نکل رہی تھی ۔۔۔چنانچہ اس کا دروازے سے باہر نکلنا اور میرا دروازے میں اندر داخل ہونا ۔۔۔۔ ایک ساتھ ہوا جس کی وجہ سے میری اس کے ساتھ ایک زور دار ٹکر ہو گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے ہاتھ سے گتے کا وہ کارٹن نیچے گرگیا ۔۔۔ اس کے گتے کی حالت آگے ہی خاصی ناگفتہ بہ تھی ۔۔۔ اور اس ٹکر کی وجہ سے جو یہ نیچے گرا ۔۔۔۔ تو گتے کا وہ خستہ حال کارٹن پھٹ گیا ۔ جس کی وجہ سے کارٹن کے اندر پڑی اس کی مختلف اشیاء بکھر کر نیچے گر گئیں ۔۔۔ یہ دیکھ کر بیک وقت میں نے راحیلہ سے اور راحیلہ نے مجھ سے معذرت کی اور پھر ہم دونوں ہی نیچے جھک کر کارٹن سے گر کر بکھرنے والی اشیاء جمع کرنے لگے ۔۔۔ ایک بات جو میں نے خاص طور پر نوٹ کی تھی وہ یہ کہ اس کارٹن کو دیکھ کر راحیلہ بُری طرح سے چونکی تھی اور مختلف اشیاء جمع کرتے ہوئے مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ کہ یہ کارٹن تم کو کہاں سے ملا ہے ؟ تو میں نے جواب دیا کہ یہ کارٹن مجھے ایک مزدور نے دیا تھا اور اسے یہ کارٹن لوہے کی الماری کے پیچھے سے ملا تھا راحیلہ سے بات کرنے کے ساتھ ساتھ میں ایک فوٹو البم سے بکھری ہوئی تصویریں بھی اکھٹی کر رہا تھا ۔۔۔ تصویریں اکھٹی کرتے کرتے اچانک میری نظر ایک تصویر پر پڑ گئی ۔۔اور ۔۔۔۔ وہ تصویر دیکھ کر میں بُری طرح چونک گیاتھا چنانچہ میں نے اس تصویر کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور پھر بڑے ہی غور سے اس تصویر کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔۔وہ تصویر راحیلہ کی تھی جس کے ساتھ ایک لڑکا کھڑا تھا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ جو لڑکا تھا اس لڑکے کو دیکھ کر ہی تو میں بُری طرح سے چونکا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔ یہ ۔۔یہ وہی لڑکا تھا جس نے اس رات راحیلہ کے ساتھ نا کام سیکس کیا تھا اس رات میں نے اس لڑکے کو دیکھ کر جان تو لیا تھا کہ یہ لڑکا میرا کہیں دیکھا بھالا ہے لیکن پہچان نہ پایا تھا ۔۔۔اور پھر اس رات کے بعد میرے دماغ میں راحیلہ اور دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ یہ لڑکا بھی چھایا ہوا تھا ۔۔۔ اور باوجود کوشش کے بھی مجھے یاد نہ آ رہا تھا کہ اس لڑکے کو میں نے کہاں پر دیکھا ہے؟؟ لیکن راحیلہ کے ساتھ اس کی تصویر کو دیکھتے ہی مجھے یاد آ گیا کہ یہ لڑکا کون ہے ۔اور اسے میں نے کہاں دیکھا ہے ۔۔ اور مجھے یاد آیا کہ ایک دن ہمارا فٹ بال کا میچ تھا۔ اور یہ لڑکا بھی مخالف ٹیم کی طرف سے سنٹر ہاف کی پوزیشن پر کھیل رہا تھا ۔۔ لیکن اس کی گیم انتہائی خراب اور گندی تھی نہ تو یہ پیچھے سے آئے ہوئے پاس کو آگے فارورڈ کی طرف دھکیل سکتا تھا اور نہ ہی یہ ہماری ٹیم کے فارورڈ کے کسی کھلاڑی سے بال کو چھیننے کی صلاحیت رکھتا تھا اس لڑکے کے علاوہ مخالف ٹیم کے باقی لڑکوں کی گیم بہت اچھی تھی لیکن پھر یہ ہو ا کہ اس لڑکے کے خراب کھیل کی وجہ سے واضع طور پر وہ لوگ یہ میچ ہار گئے ۔۔ تب میں نے مخالف ٹیم کے ایک لڑکے سے جو کہ میرا دوست تھا سے پوچھا کہ یار یہ لڑکا اتنا گندہ کھیلتا ہے اس کے باوجود بھی تم لوگ اس لڑکے کو کھلا رہے ہو اسکی کیا وجہ ہے ؟ ۔۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ میری بات سُن کرمیرے دوست نے بہت برا سا منہ بنایا تھا اور جل کر بولا تھا کہ بھائی اور کوئی یہ کھیلے نہ کھیلے یہ بندہ ضرور کھیلے گا تو میں نے جب اس سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہاکہ اس لیئے کہ یہ لڑکا ہمارے کپتان صاحب کی سویٹ ڈیش ہے ۔۔۔ نام اس کا افضال خان ہے ۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ دوست کی یہ بات سُن کر میں نے بڑے غور سے افضال کی طرف دیکھا تھا جو اس وقت تک کِٹ اتار کر نارمل کپڑے پہنے کپتان کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا ۔۔۔مجھے یوں غور سے دیکھتے ہوئے دیکھ کر دوست کہنے لگا کیوں تمھارا بھی دل آ گیا ہے اس کی موٹی بنڈ کو دیکھ کر ؟ تو میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے اس سے کہا ہرگز نہیں یار میں تو بس صرف اس کا جائزہ لے رہا تھا یہ سن کر دوست بولا ۔۔ جائزہ جتنا مرضی ہے لے لو لیکن میری بھی بات سُن لو کہ یہ لڑکا کپتان کے علاوہ کسی کو نہیں دیتا ۔۔۔۔ مجھے یوں غور سے تصو یر کو دیکھتے ہوئے اچانک ہی راحیلہ نے ہاتھ بڑھا کر اس تصویر کو میرے ہاتھ سے چھین لیا اور پھر تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ میں بھی تو دیکھوں کہ بھلا تم اس تصویر کو اتنے غور سے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اور پھر ۔۔۔۔ جیسے ہی اس کی نظراپنے ساتھ کھڑے افضال پر پڑی وہ بری طرح سے چونک گئی اور وہ کبھی مجھے اور کبھی تصو یر کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔۔ یہ یہ ۔۔۔ لڑکا میرا کزن ہے ۔۔۔ تو میں نےاس سے کہا ۔۔ باجی میں نے کب کہا ہے کہ یہ لڑکا آپ کزن نہیں ہے ؟ میں دیکھ کہ راحیلہ کے چہرے کا رنگ اُڑا ہوا تھا اور ۔۔۔وہ مسلسل میری طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ مجھ سے کیا عُزر پیش کہے؟اور پھر جب اس نے بے دھیانی میں کوئی چوتھی دفعہ مجھ سے کہا کہ ۔۔۔یہ ۔۔ یہ ۔۔ میرا کزن ہے تو میں نے اس کی حالت سے محظوظ ہوتے ہو ئے کہا ۔۔۔ راحیلہ باجی یہ آپ کا اچھا کزن ہے جو مین دروازے کی بجائے چھت سے آپ کو ملنے آتا ہے ۔۔۔ میری اس بات کا کرنا تھا کہ ایسا لگا کہ جیسے راحیلہ کو 440 وولٹ کا کرنٹ لگا ہو۔۔۔۔ اس کا چہرہ جو کچھ دیر پہلے پیلا پڑا ہوا تھا میری بات سُن کر لال ٹماٹر ہو گیا تھا تب اس نے بڑے غصے اور نفرت سے کہا ۔۔ وہ میرا کزن ہے چاہے وہ چھت سے آئے یا دروازے سے تم کو اس سے کیا مطلب ہے ؟ راحیلہ کی بات سے زیادہ اس کے لہجے نے مجھے تپا دیا تھا اور مجھے بھی تھوڑا غصہ آ گیا کہ ایک تو یہ چور ہے اوپر سے چترف بھی کر رہی ہے چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ ٹھیک ہے باجی میں آپ کی بات کو درست مان لیتا ہوں تو کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ میں نفیسہ بیگم سے اس رات جو کچھ آپ کے چھت پر واردات ہوئی اس کا زکر کروں ؟ میری اس بات نے راحیلہ کے چودہ طبق روشن کر دیئے ۔۔۔ اور وہ بڑی بے یقینی سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولی !!! اوہ۔۔۔۔۔ یو ۔۔۔ یو ۔۔ بلیک میلر ۔۔۔تمہیں شرم نہیں آتی ایسی باتیں کرتے ہوئے ۔۔۔۔ تو میں نےڈھیٹ بن کر اس سے کہا کہ اس میں شرم کی کون سی بات ہے ۔۔۔ تو وہ تپ کر بولی کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ تم دوسروں کے گھروں کی ٹوہ لو ۔۔۔ اور پھر پھونکارتے ہوئے بولی ۔۔اگر تم نے افضال والی بات نفیسہ بیگم کو بتائی تو تم کو بھی یہ بتانا پڑے گا کہ تم آدھی رات کے وقت ہمارے چھت پر کیا کر رہے تھے؟ راحیلہ کی بات سُن کر میں نے اس سے کہا کہ کون کم بخت یہ کہہ رہا ہے کہ میں بھی اس وقت آپ کی چھت پر موجود تھا ۔۔۔ میں نے تو صرف نفیسہ آنٹی کو صرف یہ بتانا ہے کہ آنٹی میں نے اپنے چھت سے کیا دیکھا پھر میں نے اس کے غصے سے بھرے لال لال چہرے کو دیکھ کر کہا ۔۔۔۔ آپ بھول رہیں ہیں راحیلہ باجی کہاگر میں اپنی پانی والی ٹینکی پر چڑھوں تو مجھے آپ کے گھر کا چھت بلکل صاف نظر آتا ہے ۔۔۔ اور پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے مزید کہا کہ ۔۔۔ میں نے بس آنٹی کو یہی کہنا ہے کہ اس رات میں نے اپنی چھت سے آپ کے گھر میں کسی سائے کا اترتے دیکھا تو میں سمجھا چور ہے اور میں بھاگ کر اپنی ٹینکی پر چڑھا اور پھر میں نے دیکھا کہ ۔۔۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ راحیلہ کی ہمت جواب دے گئی اس نے فوراً ہی میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور ۔۔۔ بولی بس کرو۔۔ پلیزززز ۔۔بس کرو ۔۔۔ اس کے کہنے پر میں نے مزید کوئی بات نہ کی اور پھر اپنے منہ پر رکھا اس کا ہاتھ ہٹا دیا اور اس کی طرف دیکھنے لگا ۔ اور میں نے دیکھا کہ کہ میرے بات سن کر راحیلہ بیگم نہ صرف تھر تھر کانپ رہی بلکہ جیسے ہی میں نے اس کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹایا تو دیکھا کہ وہ بڑی مشکل سے اپنا رونا کنٹرول کر رہی تھی ۔۔ اور میں جان گیا تھا کہ میں نے انجانے میں نفیسہ آنٹی اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے کیونکہ میں جب بھی نفیسہ آنٹی کا نام لیتا تھا تو نہ صرف یہ کہ اس کے چہرے کا رنگ اُڑ جاتا تھا بلکہ اسی وقت وہ اپنے ہونٹ بھی چبانے لگتی تھی ۔۔۔کافی دیر چُپ رہنے کے بعد وہ مجھ سے رندھی ہوئی آوا ز میں بولی ۔۔۔ نفیسہ بیگم کو یہ سب بتانے سے تمیں کیا مل جائے گا؟ تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے کچھ ملے نہ ملے کم ازکم حقائق تو سامنے آ جائیں گے ۔۔ میری بات سُن کر وہ کمزور سی آواز میں بولی ۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ تمھارے ان حقائق سے کسی غریب کا گھر تباہ ہو جائے گا؟ اس کی بات سُن کر مجھے بڑا افسوس ہوا ۔۔۔ کیونکہ آنٹی کو راحیلہ کا سیکس سین بتانے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا ۔۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں بھی لن مار بندہ تھا ۔۔۔ اور جیسے میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا کوئی راز فاش ہو ویسے ہی میں کسی اور کا راز فاش کرنے میں بھی کوئی دلچسپی نہ رکھتا تھا کیونکہ میں نے کسی سے سنا تھا کہ اگر میں کسی کا راز رکھوں گا تو کوئی میرا راز بھی رکھے گا ۔۔۔۔۔ اور یہ جو باتیں میں نے راحیلہ سے کیں تھیں پہلے تو محض اس کو چھیڑنے کی غرض سے ۔۔۔پھر غصے سے کہہ دیں تھیں ۔۔لیکن میں دیکھ رہا تھا میری باتوں کا راحیلہ بیگم نے بڑا گہرا اثر لیا ہے ۔۔۔ پھر میں نے دیکھاکہ راحیلہ ۔۔ نیچے زمین کی طرف نظریں گاڑے کسی گہری سوچ میں گم تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ہولے ہولے کانپ بھی رہی تھی ۔۔۔ میری باتوں نے اسے بہت زیادہ ڈرا دیا تھا ۔۔تب میں نے اس کا سر اوپر اٹھایا اور بولا ۔۔۔۔ بس اتنی ہی بہادری تھی آپ میں؟؟ میرا اتنا کہنا تھا کہ راحیلہ بیگم نے بڑی ہی مجروح نظروں سے میری طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں سے ٹب ٹب آنسو بہنے لگے ۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ دینا کا سب سے مشکل کام کسی عورت کو روتے ہوئے دیکھنا ہے ۔اور میرا خیال ہے کہ ٹھیک ہی کہتے ہیں ۔۔کیونکہ راحیلہ بھی انت کی خوبصورت تھی اور اس کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو۔۔۔اُف۔۔۔۔۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے آنسو نکل کر سیدھے میرے دل میں ترازو ہو رہے تھے ۔۔ اس کے بعد وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگی اور مجھے سمجھ نہ آ رہا تھا کہ میں کیا کروں ۔۔آخر میں نے اس سے کہا سوری راحیلہ جی ویری سوری ۔۔اوپر سے مجھے اس بات کا بھی خدشہ پیدا ہو رہا تھا کہ کہیں نفیسہ آنٹی نہ آ جائیں چنانچہ میں نے راحیلہ کو ہاتھ سے پکڑا اور سٹور روم میں لے گیا اور اندر لے جا کر راحیلہ سے ایک دفعہ پھر سوری کی ۔۔۔ لیکن وہ مسلسل روئے جا رہی تھی ۔۔۔اور مجھ سے اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے گرنے والے آنسو ۔۔برداشت نہ ہو رہے تھے ۔۔۔اسے چُپ کراتے کراتے پتہ نہیں کب میں نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا ۔۔اس نے بھی کوئی احتجاج نہ کیا اور میرے گلے سے لگ گئی اور پھر اس نے میرے کندھوں پر اپنا سر رکھا اور ویسے ہی ہچکیوں کے درمیان روتی رہی ۔میں نے اسے دلاسہ دینے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ پیہم روتی ہی رہی ۔۔۔۔پھر میں نے اسے چپ کرانے کی غرض سے اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سُرخ ہو رہیں تھیں اور ان سرخ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر مجھے بلکل پتہ نہیں چلا کہ کب میں نے اپنا منہ راحیلہ بیگم کے منہ کے پاس کیا اور کب اسے بے تحاشہ چومنے لگا ۔۔۔۔ اور اس کی گالوں بہنے والے نمکین پانی کے سارے آنسو ۔۔۔اپنے ہونٹوں سے چوس لیئے اس کے بعد میرے ہونٹ نیچے آئے اور میں نے راحیلہ کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا اور اس کے ہونٹوں کا رس پینے لگا ۔۔۔۔ میرے اس ایکشن سے وہ کچھ دیر تو ہکا بکا رہی لیکن جب میں نے اپنی زبان کو اس کے منہ کے اندر کی طرف دھکیلا تو ۔۔۔۔اسے جیسے ہوش آ گیا اور اس نے پہلے تو اپنی زبان کو چھپائے رکھا لیکن میری زبان کی مسلسل تلاش سے شاید اسے رحم آ گیا اور اس نے اپنی زبان کو میرے حوالے کردیا ۔۔ اور پھر میں مزے لے لے کر اس کی ذائقہ دار زبان کو چوسنے لگا ۔۔میری اس زبان کے بوسے نے راحیلہ کو بھی شاید مست کردیا تھا کیونکہ اب وہ رونا دھونا بھول کر ۔۔۔۔ میرے زبان کی چوسائی کے مزے لینے لگی اور پھر اس دوران وہ میرے ساتھ بلکل چپک کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔ اس کے اس طرح چپکنے سے نیچے سے میرے لن نے سر اُٹھایا اور ایک دم مست ہاتھی کی طرح تن کر اس کی ٹانگوں سے گزرتا ہوا اس کی پھدی کے نرم لبوں سے جا ٹکرایا۔۔جیسے ہی میرے لن کی نوک نے راحیلہ کی پھدی کی نوک کو ٹچ کیا جیسے ہی میرے لن نے اس کی چوت کے نرم لبوں کو ٹچ کیا ۔ مزے کی ایک تیز لہر نے میرے سارے بدن میں دوڑنا شروع کر دیا اور ۔۔ میں نے اس کو بڑی ہی مضبوطی ہے اپنے ساتھ لگا لیا ۔۔ اور اس سکے ساتھ ہی میں نے اس کے منہ سے ۔۔اوئی ۔۔ کی آواز سنی اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک سسکی بھری۔۔۔ تو میں نے اس سو پوچھا راحیلہ جی۔۔ کیا ہوا ؟؟ میری بات سُن کر وہ اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر بولی ۔۔۔ تمھارا ۔۔۔یہ۔۔(لن کو ہاتھ لگا کر) مجھے چُبھ رہا ہے ۔۔۔ اور پھر اس نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اپنی پھدی کی لائین پر سیٹ کر کے میری طرف دیکھ کر دیکھنے لگی ۔۔۔ اسے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر میں تو اس پر نہال ہو گیا اور اس سے بولا ۔۔۔۔۔ آئی لو یو ۔۔۔راحیلہ جی ۔۔ میرا محبت بھرا جملہ سن کر اس کی آنکھوں میں چمک سی آئی اور پھر وہ سرگوشی میں بولی۔۔۔۔ پھر تو مجھے نہیں بلیک میل کرو گے ؟ تو میں نے آپ کو اس سے کہا میں پہلے بھی کب بلیک میل کیا ہے ؟؟؟ تو وہ اسی مستی بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔۔ مجھے بلیک میل نہ کرنا ۔۔۔ بس جیسے تم کہو گے میں کروں گی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ہونٹوں کو ایک بار پھر میرے ہونٹوں کے ساتھ جوڑ دیا ۔۔۔ کافی دیر کسنگ کرنے کے بعد جب اس نے خود ہی اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ہٹائے ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ راحیلہ جی سوری اگر میری کوئی بات آپ کو بُری لگی ہو تو ۔۔ پھر مزید کہنے لگا ۔ راحیلہ باجی آپ بے فکر رہو میں آپ کی کوئی بھی بات کسی کو بھی نہیں بتاؤں گا ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ دھیرے سے مسکرائی اور میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہونا ؟ تو میں نے کہا کہ جتنی مرضی ہے بڑی قسم اُٹھوا لیں میں آپ کا راز کسی کو نہ دوں گا ۔۔۔ ہاں اگر ۔۔۔۔ اور ابھی میں اتنی ہی بات کہہ پایا تھا کہ اچانک مجھے نفیسہ آنٹی کی آواز سنائی دی وہ ڈرائنگ روم کے دروازے پر کھڑی مجھ سے کہہ رہی تھیں بیٹاوہ مستری صاحب تم کو بالا رہے ہیں ۔۔۔ میں نے نفیسہ آنٹی کی بات سُنی اور اچھا آنٹی کہا اور پھر ۔۔۔ میں نے افضال اور راحیلہ کو تصویر کو اٹھا کر اپنی جیب میں ڈالا اور بھاگ کر مستری کی طرف چلا گیا ۔۔۔ وہاں گیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں جا کر ہارڈ وئیر کی دکان سے گلیو لے آؤں کے اس کی گلیو ختم ہو گئی ہے میں نے مستی کی بات سنی اور راحیلہ کے پاس چلا گیا اور اس سے پیسے لیکر بازار چلا گیا ۔۔۔ واپسی پر میں نے مستری کو گلیو دی اور پھر اس سے کے پاس ہی کھڑا ہو گیا ۔۔۔ اور پھر ان کی چھُٹی کے ساتھ ہی میں بھی راحیلہ لوگوں کو بتا کر گھر آ گیا ۔۔۔ تو آتے ہوئے نفیسہ بیگم نے مجھ سے کہا بیٹا صبع کا ناشتہ بھی تم نے ہمارے ہاں سے کرنا ہے میں نے ان کی بات سنی اور۔۔۔ جی اچھا۔۔۔ کہہ کر واپس گھر آ گیا ۔۔۔ اگلے دن جب میں شیخ صاحب کے گھر گیا تو راحیلہ نے دروازہ کھولا ۔۔۔ اوروہ مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر چلی گئی ۔۔۔۔اور پھر کچھ دیر بعد پچھلے دن کی طرح شیخ سے کمرے سے برآمد ہوئے ان کے ساتھ راحیلہ تھی جس نے حسبِ سابق ا ن کا بیگ اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا شیخ صاحب میرے پاس رکے اور ایک دفعہ میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولے امید ہے آج سارا کام ختم ہو جائے گا ۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے ایک دفعہ پھر میرا شکریہ ادا کیا اور مجھ سے ہاتھ ملا کر باہر چلے گئے راحیلہ بھی ان کے ساتھ ہی گئی اور ان کو الوداع کر کے وہ واپس آگئی اور میرے پاس بیٹھ کر بولی ۔۔۔۔ ناشتے میں کیا لو گے؟ اور میں نے دیکھا کہ مجھ سے بات کرتے ہوئے اس کی آواز میں ہلکی سی لرزش تھی ۔۔ تو میں نےاس پوچھا کہ باجی وہ آنٹی نظر نہیں آ رہیں ۔۔۔ میری بات سُن کر اس کے چہرے پر ایک ناگواری کے تاثرات ابھرے اور کہنے لگی ۔۔ آج بُڑھیا کی طبیعت کچھ خراب ہے اس لیئے وہ اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہے کچھ دیر بعد نازل ہو جائے گی ۔اور اس کے بعد وہ مجھ سے باتیں کرنے لگی اور پھر باتیں کرتے کہنے لگی ۔۔۔ نا تم نے ۔ ناشتہ کرنا ہے ؟؟۔۔تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔تو وہ کہنے لگی تمھاری خاطرآج میں نے بھی ناشتہ نہیں کیا تھا ۔۔اب تم آئے ہو تو ۔۔۔چلو تم بیٹھو ۔۔۔۔ میں ناشتہ لاتی ہوں پھر ہم مل کر ناشتہ کریں گے اور وہ چلی گئی اور ۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد بڑا ہیوی قسم کا ناشتہ لے آئی اور میرے سامنے رکھتے ہوئے بولی تم شروع کرو میں تمہاری اور اپی چائے لیکر آتی ہوں ۔۔ پھر ایک پھیکی سی مسکراہٹ سے میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ سارا ہی نہ کھا جانا میں نے بھی ناشتہ کرنا ہے ۔۔۔ یہ کہا اور چلی گئی پھر کچھ دیر بعد ایک ٹرے میں چائے لے آئی میز کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔ اوہ ۔۔تم نے ابھی تک نہیں کیا ؟ اس کی بات سُن کر مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اپنے لہجے کو ذومعنی بناتے ہوئے کہا کہ راحیلہ جی آپ کہیں گی تو کروں گا نا ۔آپ کی مرضی کے بغیر تو میں نہیں کر سکتا ۔۔۔میری بات سن کر وہ تھوڑا چونکی اور پھر مسکراتے ہوئے ویسے ہی ذومعنی لہجے میں بولی ۔۔ چلو اب میں کہہ رہی ہو ۔۔۔ میرے ساتھ کر لو۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اور ہم ناشتہ کرنے لگے ۔۔۔ناشتہ کرتے کرتے اچانک اس نے سر اُٹھایا اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔۔ وہ تمھارے پاس میری ایک تصویر تھی ؟ تو میں نے انجان بنتے ہوئے کہا کہ کون سی تصویر باجی ۔۔۔؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔وہ میرے کزن والی۔۔ تو میں نے جیب سے اس کی تصویر نکالی اور کہا کہ آپ اس کی بات کر رہی ہیں ۔۔۔ تو اس نے میرے ہاتھ سے تصویر پکڑی اور پھر میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔ دیکھا میرے کزن کتنا خوبصورت ہے ۔۔۔ تو میں نے جل کر جواب دیا ۔۔۔۔ جی نرا خوبصورت ہی ہے ۔تو وہ کہنے لگی ۔۔ مجھے ۔ تم سے جلنے کی بُو آ رہی ہے ۔۔۔تو میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا اس میں جلنے کی کیا بات ہے؟ میری بات سُن کر وہ کہنے لگی لاکھوں میں ایک ہے میرا کزن ۔۔۔اتنی دیر میں میں نے چائے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ بولی میں دیتی ہوں ۔۔۔ اور اُٹھ کر میرے لیئے کپ میں چائے ڈانےلگی ۔۔۔ اور میری نظر اس کے خوبصورت مموں پر جا پڑی جو اس کی فٹنگ والی قمیض میں پھنسے ہوئےتھے اور میں یک ٹک ان کو دیکھنے لگا ۔۔۔ وہ سمجھ گئی کہ میں اس کے مموں کو تاڑ رہا ہوں ۔۔۔اس نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ بری بات ۔۔۔۔ کسی کی چیزوں کو ایسے نہیں تاڑتے تو میں نے کہا ۔۔۔ کیا کروں جی تاڑنے والی چیز کو تو تاڑنا ہی پڑتا ہے ۔۔۔تو وہ اسی ٹون میں بولی ۔۔۔ پہلے کبھی نہیں دیکھے ؟ تو میں نے مست آواز میں کہا ۔۔۔ اُف پہلے کی بات نہ پوچھو راحیلہ جی ۔۔۔ کہ پہلے تو ہم نے اس سے بھی زیادہ پرائیویٹ چیزیں دیکھیں ہیں (یہاں میری مراد اس کی پھدی سے تھی جو اس رات میں نے چھت پر دیکھی تھی) ۔۔۔ میری بات سن کر اس کے چہرے پر ایک رنگ سا آ گیا تاہم وہ بھی مستی کے موڈ میں تھی بولی۔۔۔تمھیں پتہ ہے نا ۔۔۔ وہ پرائیوٹ چیز تمھارے لیئے نہیں ہے ۔۔۔ اس لیئے منہ دھو رکھو۔۔۔۔ اتنی دیر میں مستری لوگ بھی آگئے تھے اور میں تھوڑی دیر کے لیئے ان کے پاس کھڑا ہوا ۔۔ پھر میرا جی نہ لگا اور میں واپس ڈرائینگ روم میں آگیا جہاں راحیلہ بیٹھی تھی ۔۔ مجھے دیکھتےہی بولی کیا چاہیئے؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ چاہیے تو ۔۔ پتہ نہیں آپ دیتی ہیں کہ نہیں۔۔؟ میری بات سُن رک وہ کہنے لگی بڑے بدتمیز ہو تم ۔۔ اور ہنسنے لگی۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ سوال تم پہلے بھی مجھ سے کر چکے ہو۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ جی کیا تھا اور ۔۔ چور بن گیا تھا۔۔۔ میری بات سن کر وہ ہنس پڑی اور بولی ۔۔۔ تم بھی عجیب ہو ۔۔۔ نہ جان نہ پہچان اور آ دھمکے تھے ۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے اس سے کہا کہ راحیلہ جی اب تو جان پہچان ہو گئی ہے ۔۔۔اب تو۔۔کیا خیال ہے آپ کا؟ اس نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔چلو چلو ۔۔۔ منہ دھو رکھو۔۔۔ اتنے میں مستری نے مجھے آواز دی اور میں اس کے پاس چلا گیا دیکھا تو راحیلہ کی الماری بن چکی تھی ۔۔۔ بس پیچ ورک باقی تھی کہنے لگا ۔۔۔ زرا ایک نظر باجی کو دکھا دو ۔۔ ویسے تو میں نے ان کی ہدا یت کے مطابق ہی بنائی ہے لیکن اگر اس میں کچھ کمی و بیشی کرنی ہے تو ابھی بتا دیں۔۔۔ مستری صاحب کی بات سُن کر میں راحیلہ کے پاس گیا اوراسے ساری بات بتائی ۔۔۔ میری بات سن کر اس نے کہا ہاں چلو دیکھتے ہیں اور پھر بولی ۔۔ وہ صوفے پر میری چادر پڑی ہے زرا دینا ۔۔۔ تو میں نے اس کے ٹائیٹ فٹنگ قمیض میں پھنسے ہوئے مموں کی طرف دیکھ کر ۔۔۔ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔رہنے دیں ایسے ہی ا چھی لگ رہی ہیں تو وہ کہنے لگی ۔۔ بدتمیز جو تم نے دیکھا ہے وہ مستریوں کو تو نہیں دکھا سکتی نا۔۔۔۔ اور اس کی بات سن کر ۔۔۔ میری شلوار میں لن نے سر اُٹھا کر اس کی اس بات پر غورکرنا شروع کر دیا۔ ۔۔۔۔۔ پھر اس نے اچھی طرح سے چادر اپنے بدن سے لپیٹ لی اور میرے ساتھ اپنے کمرے کی طرف چل پڑی وہاں پر مستری اکیلا ہی کھڑا تھا جبکہ باقی مزدوروں کو اس نے باہر نکال دیا تھا ۔۔۔وہاں جاکر کچھ ایسی صورت بنی کہ الماری کے پاس مستری اور راحیلہ کھڑے تھے چونکہ مجھے اس کی الماری میں کوئی دلچسپی نہ تھی اس لیئے میں راحیلہ کے ساتھ لیکن قدرے ہٹ کے کھڑا تھا ۔۔ادھر جب مستری راحلیہ کو اس کا فائینل ڈئزائن سمجھا رہا تھا تو وہ کمنٹری کے ساتھ ساتھ ایکشن میں بھی بتاتا جاتا تھا اس کے ساتھ ساتھ راحیلہ بھی اسی ایکشن میں آگے پیچھے ہو رہی تھی ۔۔۔کرتے کرتے ایک ٹائم وہ بھی آیا کہ مستری کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے راحیلہ عین میرے سامنے کھڑی ہو گئی ۔۔۔ اور پھر پیچھے ہوتے ہوتے ایک لحظے کے لیئے اس نے اپنی گانڈ میری فرنٹ باڈی سے جوڑ دی ۔۔۔ یہ بس ایک دو سیکڈ ہی ہو ا ہو گا ۔۔۔ لیکن ان دو سکینڈ میں مجھے اس کے جسم کا اندازہ ہو گیا ۔۔۔ اس کا جسم بڑا ہی نرم تھا ۔۔ اور بڑی سی گانڈ ۔نری ۔ تباہی تھی ۔۔ اس نے تو چند سیکنڈ تک گانڈ میرے ساتھ جوڑ کر اپنا اشارہ دے دیا اب میں ہوشیار ہو گیا ۔۔ اور پھر طریقے سے راحیلہ کے پیچھے چلنا شروع ہو گیا ۔۔۔ اور پھر میں موقعہ ملتے ہی اس کے ساتھ اپنی باڈی ٹچ کر کے اپنا مزہ لے لیتا تھا ۔۔۔۔ راحیلہ کا تو پتہ نہیں لیکن مجھے اس کھیل میں بڑا مزہ آنا شروع ہو گیا تھا ۔ادھر وہ مستری کو ہدایت دے رہی تھی کہ یوں کرو۔۔۔ یہ ،۔۔ایسے کر دو۔۔ادھر میں بار بار اس کے ساتھ ٹچ ہو رہا تھا اور اس کے جسم کی نرماہٹ مجھے گھائل کیئے دے رہی تھی۔۔۔ آخر کار ۔۔ مستری کا وہ سیشن بند ہوا اور راحلیہ نے میری طرف دیکھ کر چلنے کا اشارہ کیا ۔۔ اور جیسے ہی ہم ڈارئینگ روم میں پہنچے وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور بولی ۔۔ یہ کیا بدتمیزی ہو رہی تھی ؟ تو میں نے انجان بن کر کہا کس قسم کی بدتمیزی جی ؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ وہ جو تم مستری کے سامنے کر رہے تھے۔۔۔ تو میں نے کہا نہیں جی میں تو وہ بدتمیزی مستری کے پیچھے چھپ کر کررہا تھا ۔۔۔ میری بات سن کر وہ مسکرائی ۔۔۔اور میں نےاس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھی ۔۔۔ اور مجھے اپنے اور اس کے جسم سے شہوت کی بُو آنے لگی ۔۔۔۔وہ مجھ سے کہہ رہی تھی ۔۔ ۔۔۔اگر مستری دیکھ لیتا تو۔۔؟ ۔۔ اس کی بات سن کر میں نے فائینل راؤنڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور اس کے قریب جا کر بولا مستری کیسے دیکھ سکتا تھا آگے تو آپ تھیں ۔۔۔اور پھر تھوڑا گھوما اور جا کر اس کو پیچھے سے گلے لگا لیا اور فوراً ہی میرا لن کھڑا ہو گیا جو اس کی گانڈ کی دراڑ میں جا کر پھنسنے لگا ۔۔۔ اس نے خود کو مجھ سے چھڑانے کی واجبی سے کوشش کی اور بولی ۔۔۔ ۔۔کیا کر رہے ہو ۔۔۔ اگر اس بڑھیا نے دیکھ لیا تو؟ ۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ آپ نے خود ہی تو مجھ سے کہا ہے کہ ان کی طبیعت کچھ خراب ہے تو وہ بولی۔۔۔۔ تم ایک منٹ بیٹھو میں دیکھ کر آتی ہوں ۔۔ مجھ میں صبر کہاں تھا میں نےاس سے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں ۔۔۔اور پھر ہم دونوں دبے پاؤں چلتے ہوئے ۔۔۔۔نفیسہ بیگم کے کمرے میں پہنچے تو وہ سوئی ہوئیں تھیں ۔۔ لیکن پھر جب راحیلہ نے نفیسہ کی نبض دیکھنے کے لیئے نیچے جھکی تو پیچھے سےمیں نے اپنا لن اس کی گانڈ کی دراڑ میں پھنسا لیا اور ہلکے ہلکے گھسے مارنے لگا۔۔۔اس نے ایک نظر پیچھے کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ تم سے صبر نہیں ہوتا ؟؟؟لیکن میں نے راحیلہ کی بات سُنی ان سنی کرتے ہوئے اس کی گانڈ کی طرف اپنے لن کو دھکیلنا جاری رکھا ۔۔ پھر اس نے نفیسہ بیگم کی نبض سے ہاتھ ہٹایا اور مجھے مخاطب کر کے بولی۔۔۔ میں نے صبع جو گولی دی تھی اس سے ان کابخار ٹوٹ گیا ہے اور اب یہ بلکل ٹھیک ہیں اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔ اور مجھے اشارہ کیا ور ہم دونوں چلتے ہوئے واپس ڈرائینگ روم میں پہنچ گئے۔۔ وہاں پہنچ کر اس نے مجھے سامنے بٹھایا اور بولی آخر تم چاہتے کیا ہو ؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں وہی چاہتا ہوں جو اس رات آپ سے کہا تھا ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی شلوار کے اوپر سے اپنے موٹے اور لمبے لن کو پکڑ کر مسلنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور پھر اس کے سامنے لہراتے ہوئے بولا ۔۔۔۔راحیلہ جی ۔زرا س کا سائز تو ملاحظہ فرمائیں؟ ۔۔۔ میری بات سُن کر اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی ۔۔۔ چور۔۔۔۔۔۔پھر سیریس ہو گئی اور کہنے لگی آخر تم چاہتے کیا ہو؟ تو میں نے ا ن سے کہا ابھی بھی بتانے کہ ضرورت ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں ؟ تو وہ بولی ۔۔۔ ہاں مجھے پتہ ہونا چاہیئے کہ تم مجھ سے کیا چاہتے ہو تب اچانک میرے پاؤں کے انگھوٹے سے لیکر دماغ لیکر منی بھر گئی اور میں راحیلہ کے بلکل قریب آ گیا اور شہوت بھرے انداز میں اس سے کہنے لگا ۔۔۔ راحیلہ جی ۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ میرے لن کو آپ کی پھدی لینی ہے ۔۔۔ میرے منہ سے۔۔۔لن پھدی کا لفظ سن کر اس نے ایک گرم آہ بھری ۔۔شہوت اس کے سر پر اس پر پہلے ہی چڑھی ہوئی تھی بس ویسے ہی وہ میرے ساتھ ڈرامہ کر رہی تھی لیکن جب میں نے صاف ننگے الفاظ میں ۔۔ لفظ ۔۔۔لن اور پھدی کہا ۔۔ تو میرے یہ الفاظ سن کر یک دم وہ بھی شہوت کے نشے میں ٹُن ہوگئی ۔۔۔ اور پھر شہوت بھرے لہجے میں مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔۔ اے مسٹر !!!!۔۔کیا تم جانتے ہو کہ میں ایک جنسی بلی ہوں ۔۔۔ اور میری جنسی خواہش بہت بڑھی ہوئی ہے ۔ تم جو مجھ سے چاہ رہے ہو وہ ٹھیک ہے پر کیا تم ۔۔ مجھے پورا کر لوگے ؟ یہ سن کر میں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور بولا ۔۔۔۔۔۔ اگر آپ جنسی بلی ہو تو میں جنسی بلا ہو ں۔۔۔۔ پھر اس کا ہاتھ اُٹھا کر اپنے لن پر رکھ دیا اور بولا ۔۔۔۔۔ اس جنسی بلے کا جنسی اعضاء اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دیکھ لو کہ ۔۔۔۔ اور پھر مجھے بتاؤ کہ میرا یہ جنسی اعضاء تمھاری جنسی اعضاء کو پورا کر لے گا ۔۔۔اب اس نے میرا لن پکڑا اور دباتے ہوئے بولی۔۔۔۔ ایسا نہ ہو کہ میں اسے پیار کروں اور یہ میری گرم سانسوں کی تاب نہ لاتے ہوئے رو پڑے ۔۔ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔۔ تم گرم سانسیں کیا گرم پھدی بھی اس پر رکھ کر دیکھ لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جب تک تم کو رولا نہ دے گا ۔۔۔۔ یہ نہیں روئے گا۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔ جب یہ روتا ہے ۔۔۔ تو اس کے پانی کی دھار باریک ہوتی ہے یا ۔۔۔ گاڑھی ؟ تو میں نے کہا تم اس کو منہ میں ڈالو۔۔۔۔۔ اور خود اس بات کا اندازہ لگاؤ کہ لن سے نکلنے والی پانی کی دھار پتلی ہو گی یا گاڑھی ۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ نیچے صوفے پر بیٹھ گئی اور میرے لن کو پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے ٹچ کرتے ہوئے بولی۔۔میں بہت گرم ہوں اور ۔ میری پھدی تو مجھ سے بھی بہت زیادہ گرم ہے ۔۔۔ اور پھر اس نے اپنے منہ سے ایک گرم سی ہوا چھوڑی اور بولی میرے منہ سے نکلنے والی اس گرم ہواڑ سے بھی سو گنا زیادہ گرم ہے میری پھدی۔۔۔۔۔اور اپنا منہ کھول کر لن کو اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔۔اور کپڑے کے اوپر سے ہی چوسنے لگی ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنی شلوار کا آزار بند کھولا اور ۔۔۔ اس کے منہ سے لن نکل لیا اور کہا ۔۔۔۔۔۔ میری جان میرا ننگا لن چوسو نا ۔۔۔ اس نے نیچے سے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ٹوپے پر زبان پھیر کر بولی ۔۔۔۔ ننگے لن کا اپنا ہی مزہ ہے ۔۔پھر کہنے لگی ۔۔اس وقت ۔ میرے ہونٹوں کو تمھارے ننگے لن کی بہت ضرورت تھی اور منہ کھول کر اپنے ہونٹوں میں میرا لن لے لیا اور منہ کے اندر ہی ٹوپے پر زبان پھیرنے لگی۔۔۔اور پھر اس نے لن کو اپنے منہ سے نکلا اور بولی ۔۔ ہوں ں ں ۔۔۔۔ تمھارا لن بھی بہت گرم ہے ۔۔۔ اسے چوس کر مجھے بڑا ۔۔صواد آ رہا ہے اور پھر اس نے لن کو چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔اور اس کے بعد اس نے لن کو منہ سے باہر نکالا اور اس کی جڑ سے لیکر اوپر تک اس پر اپنی زبان پھیرنی لگی ۔۔۔ اور پھر میری طرف دیکھ کر شہوت بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔۔ میری زبان کا ٹیسٹ کیا کیساہے ؟؟ تو میں نے کہا راحیلہ جی آپ کی زبان ذائقہ چوسنے اور چوسوانے ۔۔۔دونوں میں شاندار ہے تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔زبان ہی نہیں میری ہر شے شاندار ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرا لن اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔ کافی دیر تک وہ چوپا لگاتی رہی پھر اس نے میرے لن کو منہ سے ہٹایا اور اپنی قمیض کو اوپر کے بولی ۔۔ جیسے میں نے تمھارا لن چوسا ہے نا ویسے ہی تم بھی میرے مموں کو چوسو۔۔۔ میں نیچے جھکا تو وہ بولی پہلے اپنی شلوار کو باندھ لو ۔۔۔ اس کی بات کو سن کرمیں نے اپنی شلوار اوپر کی اور آزار بند باندھ کر گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گیا ۔۔۔اور اس کی مموں کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ کیا شاندار ممے تھے اس کے ۔۔۔ موٹے ۔۔۔پیور سفید اور اس پر اس کے بڑے بڑے نپل ۔۔۔ جو اس وقت اکڑے ہوئے تھے۔۔۔ میں نے ایک ہاتھ میں اس کا لیفٹ مما پکڑا اور اس کا نپل مسلنے لگا جبکہ دوسرے ممے کے نپل پر اپنے ہونٹ لگائے اور پہلے تو زبان لگا کر اسے خوب چاٹا ۔۔۔ پھر اسے اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنے لگا۔۔۔ میری اس ادا سے وہ مزید گرم وہ گئی اور ہلکی ہلکی سسکیاں لینے لگی ۔۔آہ۔۔۔ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔اُف۔۔۔ تم ۔۔ بڑے ہی سیکسی ہو میری جان ۔۔۔ اس طرح میں نے باری باری اس کے دونوں ممو چوسے اور ان کے ہارڈ نپلز کو مسلا۔۔۔۔ پھر وہ خود ہی صوفے پر نیم دراز ہو گئی اور اپنی ٹانگیں کھول لیں ۔۔ اور میں سمجھ گیا کہ اب مجھے اس کی چوت چاٹنی ہے۔۔۔ چنانچہ میں نے اس کے مموں کو اپنے منہ سے نکا لا اور پھر اس کے پیٹ پر زبان پھیرنے لگا ۔۔۔ پیٹ سے ہوتے ہوئے میری زبان اس کی ناف تک آ گئی اور میں نے اپنی زبان کے اس کی ناف میں ڈال کر چاٹنا شروع کر دیا ۔۔ نیچے سے وہ ایک دم تڑپی اور بولی ۔۔اُٖ ف ف ف ۔۔ یہ کیا کر رہے ہو ظالم ۔۔۔ لیکن میں نے اس کی کوئی بات نہ سُنی اور اس کی ناف کی گہرائی میں اپنی زبان کو پھیرتا رہا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں اپنا ایک ہاتھ اس کی پھدی پر لے گیا اور اسے اپنی مُٹھی میں پکڑ کر دبا دیا ۔۔۔وہ میرے نیچے سے ایک دم اچھلی ۔۔۔اور بے اختیار اس کے منہ سے ۔۔اوئی ۔۔۔۔ نکل گیا اور بولی۔۔۔۔ تم تم۔۔۔ بڑے سیکسی ہو میری جان ۔۔۔ اور پھر میں نے شلوار کے اوپر سے ہی اس کی چوت پر انگلیاں رگڑنیاں شروع کر دیں۔۔۔اور وہ مزے سے بے حال ہوتی گئی ۔۔۔۔اور ۔۔۔ سسکیاں بھرتے ہوئے بس یہی کہتی ۔۔سیکسی ۔۔۔۔۔ ہائے ۔۔۔۔ اُف۔۔۔ اور پھر میں نے ایک ہاتھ اس کی شلوار کے کے آزار بند کی طرف کیا اور ۔۔۔اسے ۔۔ کھولنے ہی لگا تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی ۔۔۔ایک منٹ ۔۔ میں نے اس کے آزار بند سے ہاتھ ہٹایا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔ مجھے ایسے دیکھتے ہوئے دیکھ کر اس نے گھڑی کی طرف اشارہ کیا اور بولی ۔۔۔ مستریوں کے لنچ کا ٹائم ہو گیا ہے پہلے ان کو جانے دو ۔۔ اس کی بات سن کر مجھے بھی یاد آ گیا کہ ٹھیک ایک بجے مستری لوگ کھانا کھانے جاتے ہیں چنانچہ میں جلدی سے اُٹھا اور اپنا لن نیفے میں اڑس کر باہر نکلنے لگا ۔۔۔۔۔تو راحیلہ بولی ایک منٹ ۔۔۔تو میں نے اس سے کہا اب کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔زرا اپنے شکل مبارک تو دیکھو ۔۔۔ ملکہء جزبات نظر آ رہے ہو ۔۔۔ اس کی بات سن کر دو گھڑی وہاں ٹھہر گیا پھر اس نے مجھے پانی کا ایک گلاس دیا جو میں نے پیا تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی اب ٹھیک ہے ۔۔۔ اور میں باہر نکل گیا اور راحیلہ کے کمرے کی طرف گیا تو مستری لوگ ہاتھ وغیرہ دھو رہے تھے پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ کھانا کھانے کے لیئے قریبی ہوٹل میں چلے گئے ان کے جانے کے بعد میں نے کنُڈی لگائی اور تیز تیز قدموں سے راحیلہ کے پاس پہنچ گیا ۔۔۔تو وہ بولی کچھ کرنے سے پہلے کیونں نہ پہلے اس بڑھیا کو دیکھ آئیں ۔۔۔۔ تو میں نے کہا چلو ۔۔۔اور ہم نفیسہ بیگم کے کمرے میں چلے گئے اس دفعہ اس نے مجھے دروازے پرہی رُکنے کا اشارہ کیا اور خود اندر چلی گئی ۔۔۔ اور جا کر نفیسہ بیگم کے پاس بیٹھ گئی اور اس کی نبض چیک کرنے کے بہانے اسے ہلا جلا کر دیکھا تو وہ ویسے ہی بے سدھ سوئی پڑی تھی ۔۔۔۔ وہاں سے مطئمن ہونےکے بعد وہ اُٹھی اور مجھے بھی ساتھ چلنے کا اشارہ گیا راستے میں میں نے اس سے پوچھا کہ کیا پوزیشن ہے ؟ تو وہ بولی بُڑھیا ۔۔۔ بے خبر سو رہی ہے ۔۔ جیسے ہی ہم ڈرائینگ روم میں پہنچے ۔۔۔۔ایک دفعہ پھر وہ مجھ سے لپٹ گئی اور میرے منہ میں اپنی زبان دے دی ۔۔۔ اور میں نے پوری تندہی سے اس کی زبان کو چوسا اس کے ہونٹوں کو چوما اس کی گردن پر بوسے دیئے اور پھر اس کو صوفے پر گرا دیا ۔۔۔ اور اپنی شلوار کھولی ۔۔۔اور پھر اس کی شلوار کا ازار بند کھول کر اسے نیچے سے ننگا کر دیا ۔۔۔اور ابھی میں اپنا منہ اس کی پھدی کے قریب لانے ہی لگا تھا کہ وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ مجھے تمھارا لن چوسنا ہے چنانچہ میں نے اس کی پھدی چاٹنے کا پروگرام مؤخر کر دیا اور ۔۔۔ اور اپنے تنے ہوئے لن کو اس کے قریب کر دیا ۔۔۔۔۔ اُف ۔۔۔۔ اس نے کسی بھوکے کی مانند میرے لن کو اپنے منہ میں داخل کیا اور اسے چوسنے لگی ۔۔۔۔ اس کے منہ کی گرمی ہونٹوں کی نرمی اور ۔۔۔۔ زبان کا زائقہ ان سب نے مجھے سسکیاں بھرنے پر مجبور کر دیا اور میں آہستہ آہستہ مزے سے کراہنا شروع ہو گیا ۔۔۔ آہ۔۔۔آوہ۔۔۔۔ سس۔۔۔۔ میری سیکسی آوازیں سن کر اس نے میرے لن کو اپنے منہ سے باہر نکلاا اور بولی ۔۔۔۔ یہ تم سسکیاں کیوں بھر رہے ہو ؟ مزہ آ رہا ہے۔۔۔ تو میں نے کہا بہت مزہ آ رہا ہے میری جان ۔۔۔ تو اس نے ٹوپے کے گرد زبان پھرتے ہوئے کہا ۔۔۔میں اچھا لن چوستی ہوں نا۔۔۔ تو میں نے کہا بہت اچھا ۔۔۔ اور اس کے بعد اس نے کچھ دیر تک میرا لن چوسا اور مجھے مسلسل لزت بھری کراہیں لینے پر مجبور کر دیا۔۔ کچھ دیر لن چوسنے کے بعد اس نے اپنے منہ سے میرا لن نکلا اور بولی ۔۔۔ اب تم میری چاٹو ۔۔۔ اب میں نیچے جھکا اور پہلے تو اس کی چوت کا جائزہ لیا۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ اس کی چوت پر بہت گوشت تھا اور وہ اوپر کی طرف ابھری ہوئی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔چوت کے لب ۔۔۔ کافی کھلے تھے اور چوت کے اوپر سے لٹکے ہوئے تھے ۔۔۔اس کا مطلب تھا کہ اس نے بہت سیکس کیا ہے ۔۔۔ خاص بات یہ تھی کہ اس کی چوت بلکل صاف تھی اور تازہ شیو کے آثار صاف نظر آ رہے تھے ۔۔۔ پھر میں نے اپنی انگلی کے پوروں سے اس کی بنا بالوں والی پھدی پر مساج کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ پہلے تو وہ مزہ لیتی رہی پھر کہنے لگی۔۔۔ چوت چاٹ میری جان ۔۔۔۔ میں تمھاری زبان کو اپنی پھدی کے اندر دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔۔ میں نے اس کی بات سُنی اور اپنی زبان نکال کر اس کی پھدی کی دراڑ ۔۔جو کہ کافی کھلی اور لیس دار پانی سے بھری ہوئی تھی پر زبان رکھی اور نیچے سےاوپر تک اپنی زبان کو لے گیا ۔۔۔۔۔ اس کی چوت کا لیس دار پانی جو کہ چوت سے نکل کر باہر کی طرف آ رہا تھا اور کچھ پہلے سے ہی اس پر لگا ہوا تھا ساراے کا سارے میری زبان کی لپیٹ میں آ گیا۔۔۔ اور میں اس کا یہ نمکین پانی چاٹ گیا ۔۔۔ پھر میں نے اپنی زبان کو اس کی پھدی کے اندر ڈالا ۔۔۔اُف۔ف ف ۔۔۔ اس کی پھدی اندر سے بہت ہی گرم تھی ۔۔۔۔ اور جگہ جگہ لیس دار پانی لگا ہوا تھا میں نے وہ سارے کا سارا لیس دار پانی چاٹ کر صاف کیا ۔۔۔لیکن جہاں جہاں سے میں یہ لیس دار پانی چاٹ کر صاف کرتا ۔۔۔اس کی پھدی کی دیواریں دوبارہ وہ پانی چھوڑ دیتیں تھیں۔۔۔ میری پھدی چاٹنے کے دوران وہ بھی میری طرح ۔۔۔ لزت بھری سسکیاں لیتی رہی تھی ۔۔۔اُوہ ۔۔۔۔۔۔اُف۔۔۔اوئی ۔۔۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔۔ تم کتنا گرم ہو ۔۔۔۔ زبان اور اندر لے جا نہ ۔۔۔ جیسی آوازیں نکلتی رہیں تھیں ۔۔۔ کافی دیر تک میں اس کی پھدی کو چاٹتا رہا اور وہ میرے نیچے ماہیء بے آب کی طرح تڑپتی رہی ۔۔۔اور اس کی پھدی پانی چھوڑتی رہی ۔۔۔۔ اس کے بعد اچانک وہ اوپر اُٹھی اور بولی ۔۔۔۔ چوت ۔۔چھوڑ ۔۔۔اب میری پھدی مار۔۔۔۔ اس کی بات سن کر جیسے ہی میں نے اپنا منہ اس کی پھدی سے ہٹایا اور نے بڑی ہی پھرتی سے اپنی پوزیشن تبدیل کی اور اور صوفے پر اُلٹی ہو کر ڈوگی بن گئی اور اپنی بڑی سی گانڈ کو ہلا کر بولی ۔۔۔ جلدی ڈال ۔۔جلدی ڈال۔۔۔۔۔۔ میں اُٹھا اور اس کی گانڈ کے پیچھے چلا گیا اور اپنا بڑا سا لن نکا ل کر اس کی چوت کے منہ پر رکھا اور ۔۔۔ لن کو اس کی چوت کے اندر دھکیل دیا۔۔۔۔ ابھی میں نے ادھا گھسہ ہی مارا تھا ۔۔ کہ اس نے اپنی گانڈ پیچھے کی طرف پُش کیا اور میرا لن دوڑتا ہوا اس کی سارے پھدی میں داخل ہو کر اس کے بچہ دانی سے جا ٹکرایا ۔۔۔۔اور پھر اس کے بعد لن پھدی کی لڑائی شروع ہو گئی ۔۔ میں ایک گھسہ مارتا اور راحیلہ جواب میں دو دفعہ اپنی چوت کو میرے لن کی طرف دے مارتی ۔۔۔اور ساتھ ساتھ اس کی سسکیاں ۔۔اُف ۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے منہ میں کوئی۔۔۔ سی ڈی ۔۔فٹ ہے جس میں نان سٹاپ سسکیاں بھری ہوئیں تھیں ۔۔ کما ل کی بات ہے کہ وہ بیک وقت میرے لن کی طرف گھسے بھی مارتی تھی اور سسکیاں بھی لیتی تھی ۔۔۔اُف۔ف۔ف۔۔ جان۔۔۔ تیرا۔۔۔لن ۔۔۔ہائے ،۔۔۔میری پھدی۔۔۔اپف۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔اوئی۔۔۔۔ اور مار نا ۔۔۔ شدید گھسے مار۔۔۔ پھاڑ نا۔۔۔ ہائے میری چوت۔۔۔۔ اس ک پھدی کی گرمی اور اس کے منہ سے نکلنے والی نان سٹاپ سسکیوں نے مجھے بلکل وحشی بنا دیا تھا اور میں جنگلیوں کی طرح بغیر کسی وقفے کے اس کی چوت مار رہا تھا ۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔ اچانک اس نے اپنی پھدی کو میرے لن کے گرد لپیٹنا شروع کر دیا۔۔۔گھسے مارنے بند کر دیئے۔۔۔۔۔ اور ساری توجہ اپنی چوت کو میرے لن کے گرد کسنے میں لگا دی۔۔۔۔۔اور پھر اس نے ایک لمبی مگر ۔۔۔۔لزت سے بھر پور سسکی لی۔۔۔اور اس کی چوت کی دیواروں سے آبشار کی طرح پانی بہنے لگا ۔۔۔اور ۔۔پھر ۔ اس ۔۔۔کےس اتھ ہی میں نے بھی ایک لمبی سی ۔۔اوہ ۔۔۔اوہ ۔۔۔۔۔ کی اور۔۔۔ میرے لن سے نکلنے والا پانی اس کی چوت کے پانی سے مکس ہونے لگا ۔۔۔۔ اور کچھ سکیڈ تک ہم دونوں میں جھٹکوں کا مقابلہ ہوتا رہا اور ہم دونوں ہی پانی چھوڑتے رہے۔۔۔ ہم چھوٹنے کے مراحل سے تو نکل گئے تھے مگر ابھی تک ہمارا سانس بحال نہ ہوا تھا ۔۔۔ کہ کمرے میں ایک تیسری آواز۔۔۔ گونجی ۔۔۔ ہائے میں مر جاؤں ۔۔۔ اور یہ آواز ہمارے لیئےکسی ایٹم بمب کی آواز سے کم نہ تھی ۔۔۔ ہم نے نے بیک وقت۔۔۔ مُڑ کر دیکھا ۔۔۔۔ تو نفیسہ بیگم دروازے میں اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھے پھٹی پھٹی نظروں سے کبھی مجھے اور کبھی راحیلہ کو دیکھ رہیں تھیں۔۔۔ چند سیکنڈ کے لیئے سارا منظر ہی سٹل ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ نفیسہ بیگم باری باری ہمیں اور ہم دونوں خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔ اور ہمیں ہوش تب آیا کہ جب ۔۔۔نفیسہ بیگم ۔۔۔ اپنے دونوں ہاتھ منہ پر رکھے الٹے پاؤں واپس بھاگی۔۔۔جیسے ہی نفیسہ بیگم واپس ہوئی ہم دونوں کو جیسے ہوش آ گیا ہو ۔۔۔ بجلی کی سی پھرتی سے را حیلہ اور میں نے کپڑے پہنے اور۔۔۔ کپڑے پہن کر ہم دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔ اور پھر راحیلہ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح نیچے صوفے پر بیٹھ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر رونے لگی۔۔ اور بولی یہ کیا ہو گیا ۔۔یہ کیا ہو گیا ۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میں بے چین ہو گیا ۔۔۔ اور بولا ۔۔ چُپ کرو ۔۔ میری جان ۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہو گا ۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر روتے ہوئے بولی ۔۔۔ میں برباد ہو گئی ۔۔ اور تم کہہ رہے ہو کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔ پھر وہ روتے ہوئے بولی ۔۔۔ تم کو پتہ ہے یہ مجھے پہلے ہی نہیں جینے دے رہی ۔۔۔اوپر سے ۔۔۔اس نے مجھے۔۔۔اور پھر سے رونے لگی۔۔۔تو میں نے اسے چُپ کراتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ اب ہم کیا کریں؟؟ میری بات سُن کر ایسا لگا کہ جیسے اس کے زہن میں کسی آئیڈیا نے سر اُٹھایا ہے ۔۔۔چنانچہ راحیلہ نے میری طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ ایک ہی طریقہ ہے کہ یہ بڑھیا کسی کو نہ بتائے۔۔۔۔ وارنہ تو اس نے مجھے زلیل و خوار کر دینا ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ اُٹھ کھڑی ہوئ اور بولی ۔۔۔ شاہ ۔۔ مجھے تمھاری مدد کی ضرورت ہے ۔۔۔ کیا تم میری مدد کرو گے؟ تو میں نے کہا تم حکم کر کے دیکھو یار ۔۔۔۔ تو وہ ۔۔بڑے ہی مضبوط لہجے میں بولی ۔۔۔ میری طرح تم نے بڑھیا کی بھی لینی ہے ۔۔۔ اس کی چوت مارنی ہے ۔۔۔ وہ بھی میرے سامنے ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں حیران رہ گیا اور بولا ۔۔۔ وہ اس بات پر مان جائے گی؟ تو وہ کہنے گلی ۔۔۔ وہ کہاں مانے گی لیکن ہم نے اس کی لینی ہے ۔۔۔ ورنہ یہ مجھے تباہ کر دے کی اور مجھ سے میرا سُکھ چین سب چھین لے گی۔۔۔ پھر اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بولی۔۔۔۔ بولو میرا ساتھ دو گے نہ؟ تو میں نے کہا ۔۔ لیکن راحیلہ۔۔۔۔ میں ۔۔نفیسہ آنٹی کو ۔۔۔۔۔میرے جواب سے راحیلہ کا چہر ہ ایک دم سرخ ہو گیا اور اس کا بلڈ یشر بھی شوٹ کر گیا ۔۔۔۔اور ایک منٹ میں ہی اس پر اس رات والی حالت طاری ہو گئی ۔۔۔ اور پھر اس نے مجھے گریبان سے پکڑ کر کہا ۔۔بولو میرے سامنے نفیسہ کا ریپ کرو گے ۔۔۔؟ یا میں شور مچاؤں ۔؟؟؟؟؟ ۔۔ میں تو پہلے ہی برباد ہو گئی ہوں ۔۔۔ لیکن تم کو بھی نہیں چھوڑوں گی۔۔۔ میں اس کی آنکھوں میں دیوانگی کی جھلک دیکھ کر بڑا پریشان ہوا اور ابھی اتنا ہی بولا تھا کہ ۔۔۔وہ۔۔ کہ اس نے اپنا پورا منہ کھولا اور ابھی وہ چیخ مارنے ہی لگی تھی کہ میں نے اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس سے بولا ۔۔۔راحیلہ پلیزززززز۔لیکن وہ اپنے ہوش میں نہ تھی ۔۔۔ اور اس وقت اس کی بلکل وہی کنڈیشن تھی جو اس رات کو تھی ۔۔۔ اس ی آنکھیں باہر کو نکلی ہوئیں تھیں چہرہ سرخ تھا اور وہ ہولے ہولے کانپتے ہوئے اسی دیوانگی کے عالم میں بولی ۔مجھ سے ہیچر میچر مت کرو کہ ۔۔ یہ میری زندگی اور موت کا مسلہ ہے۔۔۔۔۔ ۔۔۔تم اگر میرا کام کرتے ہو تو ٹھیک ۔۔۔۔ ورنہ میں نہیں تو کوئی بھی نہیں۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے چیخ مارنے کے لیئے دوبارہ اپنا منہ کھولا ۔۔۔۔۔ اور اس سے قبل کہ وہ چیخ مارتی میں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے جیسا تم کہو گی ویسا ہی میں کروں گا۔۔۔ میری بات سُن کر اس نے چیخنے کا ارادہ ترک کر دیا اور بولی ۔۔۔ تم ۔۔۔ نے اگر کوئی ہینکی پھینکی کرنے کی کوشش کی تو یاد رکھنا ۔۔۔۔ اور پھر مجھ سے بولی ۔۔۔آؤ میرے ساتھ ۔۔ اور وہ مجھ سے آگے تقریباً بھاگتے ہوئے نفیسہ بیگم کے کمرے کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔اور میں بھی اسی رفتار سے اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا ۔۔۔۔آندھی اور طوفان کی طرح ہم نفسہ آنٹی کے کمرے میں پہنچے ۔۔۔ دیکھا تو نفیسہ آنٹی بڑی پریشانی کے عالم میں کمرے ٹہل رہیں تھیں۔۔۔ہمارے اندر داخل ہوتے ہی وہ ہم پر برس پڑیں اور بولیں ۔۔۔۔۔ دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔ تت۔۔تت۔اندر داخل ہونے کی ۔ تمھاری ہمت کیسے پڑی ۔۔فوراً یہاں سے دفعہ ہو جاؤ ۔۔ورنہ۔۔۔۔ ابھی آنٹی نے اتنا ہی کہا تھا ۔۔ کہ راحیلہ کسی چیل کی طرح نفیسہ آنٹی پر جھپٹی اور اس کے دونوں بازو قابو میں کر لیئے ۔۔۔ یہ دیکھ کر نفیسہ بولی ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔یہ ۔۔۔ تم اچھا نہیں کر رہی راحیلہ ۔۔۔۔ مجھے چھوڑ دو ورنہ پچھتاؤ گی ۔۔لیکن راحیلہ نے اسے چھوڑنے کے لیئے تھوڑی پکڑا تھا ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ نفیسہ بیگم نے خود کو راحیلہ سے چھوڑانے کی بڑی کوشش کی لیکن ۔۔ دھان پان سی آنٹی راحیلہ جیسی ڈشکری عورت سے خود کو کہاں چھوڑا سکتی تھی ۔۔۔ اس لیئے پہلے تو وہ محض دھمکیاں ہی دیتی رہی پھر ۔۔ہمت ہار گئی اور منت ترلوں پر آ گئی۔۔۔ لیکن راحیلہ نے اس کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے نفیسہ بیگم کو گھیسٹ کر پلنگ کی طرف لے گئی اور پھر اس کو پلنگ پر گرا کر مجھ سے بولی ۔۔۔ اس کا ناڑا (آزار بند) کھول کے مجھے دو۔۔۔ راحیلہ کی بات سںن کر آنٹی کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور بولی ۔۔۔ یہ ۔یہ بے ہودگی ہے ۔۔۔ خبردار جو کسی نے میرے ناڑے کی طرف ہاتھ بھی بڑھایا تو۔۔۔ لیکن میں اس کے قرب بستر پر پہنچ گیا یہ دیکھ کر نفیسہ بیگم نے کافی ۔۔ٹانگیں چلائیں لیکن ناکام رہیں اور میں نے ان کی قمیض کو اوپر کیا اور ان کی شلوار سے ازار بند نکال کر راحیلہ کے حوالے کر دیا۔۔۔ مجھے اپنی شلوار سے نالہ نکالتے ہوئے دیکھ کر حیرت کے مارے نفیسہ بیگم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور ۔۔۔ وہ مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔ مجھے تم سے یہ امید نہ تھی۔۔۔۔تم تو میرے بیٹے جیسے ہو ۔۔۔۔۔پلیز زززز زززززززز ۔۔ایسا مت کرو ۔۔۔ جیسے ہی میں نے نفیسہ بیگم کا نالہ راحیلہ کی طرف کیا اس نے پھرتی سے نالہ پکڑ کو پلنگ کی نکڑ سے نفیسہ بیگم کا ایک ہاتھ باندھ دیا ۔۔۔ اور بولی ۔۔ یہاں کہیں نفیسہ کی دوسری شلوار دیکھو ۔۔۔اور اس میں سے اس کا دوسرا نالہ نکال کر مجھے دو۔۔۔۔۔۔میں نے ادھر ادھر دیکھا تو سائیڈ پر ایک ٹوکری میں نفیسہ بیگم کے میلے کپڑے پڑے تھے چنا نچہ میں نے وہاں سے اس کی شواار کو پکڑااور آزار بند نکال کر راحیلہ کے حوالے کر دیا ۔۔۔۔اس آزار بند سے راھیلہ نے آنٹی کا دوسرا ہاتھ پلنگ کے دوسرے کونے سے مضبوطی سے باندھ دیا ۔۔۔ نفیسہ بیگم حیرت کے مارے یہ سب کاروائیاں دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔ اور اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ یہاں کیا کاروائی ہونے جا رہی ہے ۔۔۔سمجھ تو ان کو اس وقت آئی جب راحیلہ نے آگے بڑھ کر اس کی شلوار اتار دی اور مجھ سے بولی چلو تم بھی اپنی شلوار اتارو۔۔۔۔۔۔ راحیلہ کا حکم سُن کر میں نے نفیسہ بیگم کی طرف دیکھا اور ۔۔۔۔ تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد اپنی شلوار اتار دی ۔۔۔ یہ دیکھ کر آنٹی کی سمجھ میں ساری بات آ گئی اور وہ کہنے لگی۔۔۔۔ یہ نا کرو پلیزززززززززز۔۔ ایسا نہ کرو ۔۔۔۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگی ۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔مم ۔۔۔ تمھاری امی کی بیسٹ فرینڈ ہوں ۔۔تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو ۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔ میری عزت پر ہاتھ نہ ڈالو ۔۔ مین نے آنٹی کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے پلنگ پر چڑھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر نفیسہ بیگم دھائی دینے لگی کہ۔۔۔ میں نے کبھی ایسا گندہ کام نہیں کیا ۔۔پھر مجھ سے بولی۔۔۔۔ بیٹا تم بھی اس حرافہ کے کہنے میں آ گئے ہو ؟؟؟ حرافہ کا لفظ سن کر ڑاھیلہ اک دم تپ گئی اور اسے ڈانٹ کر بولی۔۔۔چُپ بڑھیا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ باہر گئی اور بجلی کی سی تیزی سے واپس آئی تواس کے ہاتھ میں بڑی سی چھری تھی ۔۔۔جو وہ نفیسہ بیگم کے سامنے لہراتے ہوئے دانت پیس کر بولی۔۔۔۔۔۔ بڑھیا اس کے بعد اگر تم نے ایک لفظ بھی منہ سے نکلا تو میں تم کو جان سے مار دوں گی۔۔۔۔ راحیلہ کی آواز میں ضرور کوئی ایسی بات تھی کہ۔۔۔ نفیسہ بیگم ایک دم ڈر گئی اور راحیلہ کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر ہکلاتے ہوئے بولی ۔۔۔ مم ۔۔میں کچھ نہیں بولوں گی ۔۔۔۔ میں۔۔۔مم۔۔۔۔۔ شور بھی نہیں کروں گی۔۔۔ ۔۔۔ بس تم یہ چھری میرے آگے سے ہٹا دو۔۔۔ اور بلکل چُپ کر کے پھٹی پھٹی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔ اب مین بستر پر چڑھا اور آنٹی کی ٹانگیں اپنے کندھے پر رکھنے ہی لگا تھا ۔۔۔ کہ راحیلہ بولی۔۔۔۔ پہلے اس کو (لن ) کو تو کھڑا کر لو ۔۔۔ پھر وہ میرے پاس آئی اور چھری کو بائیں ہاتھ میں منتقل کیا اور دائیں ہاتھ سے میرا لن پکڑ کا اسے آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔۔ اور پھر نفیسہ کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔ دیکھ بڑھیا کیسا زبردست لن ہے اس کا ۔۔۔۔ شیخ صاحب سے ڈبل ہے نا ۔۔۔ اور پھر میری مُٹھ مارنے لگی۔۔۔۔اس کے مُٹھ مارنے سے میرے لن میں جان آنا شروع ہو گئی اور ۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔جیسے جیسے میرا لن بڑا ہوتا جاتا ۔۔۔نفیسہ بیگم حیرت سے کبھی مجھے اور کھبی میرے لن کی طرف دیکھتی تھی ۔۔۔ ادھر راحیلہ نے اپنا منہ آگے کیا اور میرے لن پر بہت سارا تھوک لگا کر بولی ۔۔۔ بڑھیا تم نے کبھی شیخ کی مُٹھ ماری؟ اور پھر میرے لن پر طرف تیز تیز ہاتھ چلا کر بولی ۔۔۔۔ ایسے مُٹھ مارتے ہیں اس کے ساتھ ہی وہ رُک گئی اور بولی ۔۔۔ لیکن شیخ صاحب تو لن چسوانے کے بڑے شوقین ہیں ۔۔ مجھے یقین ہے بڑھیا تم نے بھی شیخ کے بڑے چوپے لگائے ہوں گے ۔۔۔۔۔آج میرے اس یار کا بھی لن چوس کے د یکھو ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔اور پھر اس نے مجھے لن سے پکڑ کر نفیسہ بیگم کے منہ کے قریب کر دیا میرے لن کو اپنے قریب دیکھ کر نفیسہ آنٹی نے سختی سے اپپنا منہ بند کر دیا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر راحیلہ چھری لہرا کر بولی۔۔۔ چل بڑھیا ۔۔۔۔ڈرامے نہ کر اپنا منہ کھول اور ۔۔۔ میرے یار کا چوپا لگا۔۔۔۔ مرتی کیا نہ کرتی ۔۔۔ نفیسہ بیگم نے ایک نظر مجھے پھر میرے لن اور ایک نظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غصے میں بھپری ہوئی راحیلہ کی طرف دیکھا اور اپنا منہ کھول دیا اور راھیلہ نے میرا لن پکڑ کے اس کے منہ میں ڈال دیا ۔۔۔اور بولی ۔۔۔چل چوپا لگا ۔۔۔۔ آنٹی نے بمشکل میرے لن کو تھوڑا سا چوسا اور بولی۔۔۔۔ راحیلہ پلیززززززززز ۔۔۔میرے ساتھ ایسا نہ کرو۔۔۔ اس کی بات سن کر راحیلہ بولی چلوا یسا نہیں کرتے اور مجھے پیچھے جانے کو کہا ۔۔۔۔ اور میں پیچھے گیا اور آنٹی کی ایک ٹانگ کو اُٹھا نےسے پہلے حسبِ عادت اس کی پھدی کی طرف دیکھا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔ آنٹی کی چوت پر کافی گھنے اور کالے رنگ کے بالوں کا ایک جنگل سا اُگا ہوا نظر آیا ۔۔۔ میں تھوڑا نیچے جھکا تو ان کی چوت سے گھنے بالوں اور چوت کی مکس ۔۔۔ عجیب سی مہک آ رہی تھی ۔۔۔ابھی میں ان کی چوت کا جائزہ لے ہی ر ہا تھا کہ پیچھے سے راحیلہ نے کہا ۔۔۔اب ڈال بھی دے بڑھیا کی چوت میں اپنا لن ۔۔۔ اور میں نے نفیسہ بیگم کی چوت کو سونگنے کا ارادہ موقوف کیااور اپنا لن ان کی چوت کے اینڈ پر رکھا اور اندر ڈال دیا ۔۔۔ اور ایک دو گھسے مرے لیکن مزہ نہ آیا ۔۔اور رک گیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر راحیلہ بولی ۔۔۔۔ کیوں کیا ہوا۔۔۔؟ تو میں نے کہا آنٹی کی چوت بہت خشک ہے ۔۔۔ میری بات سُن کر راحیلہ بولی ۔۔۔اگر خشک ہے تو ابھی تر کئے دیتی ہوں ۔۔۔اور پھر اس نے چھری ایک طرف رکھی اور وہ نفیسہ بیگم کی ٹانگوں کی طرف آئی اور ان کی پھدی پر اگے گھنے جنگل کو دیکھ کر حیران رہ گئی اور بولی۔۔۔ بال رکھنے کی بڑی شوقین ہو بڑھیا ۔۔۔۔۔۔ ادھر آنٹی نے شرم کے مارے اپنا سر جھکا دیا ۔۔۔۔ اور کچھ نہ بولی ۔۔۔ اسی اثنا میں راحیلہ کا منہ ۔۔آنٹی کی چوت تک آ گیا تھا۔۔۔اور ۔۔۔ پھر میری طرح راھیلہ نے بھی اپنی ناک نفیسہ بیگم کی چوت پر رکھ دی اور چند سیکنڈ تک اس کی مہک سے لطف اندوز ہوتی رہی ۔۔۔ پھر اس نے سر اوپر اُٹھایا اور بولی۔۔۔۔بڑھیا تیری پھدی سے بڑی مست مہک آ رہی ہے ۔۔۔ اور پھر اس نے بے کود ہو کر آنٹی کی چوت پر زبان رکھ دی اور اسے چاٹنے لگی۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی راحیلہ نے اپنی زبان آنٹی کی چوت پر رکھی آنٹی کے منہ سے ایک سسکی نکلتے نکلتے رہ گئی اور میں سمجھ گیا کہ آنٹی چوت چٹوانا اچھا لگتا ہے ۔۔۔کیونکہ جیسے جیسے راحیلہ کی زبان آنٹی کی چوت کے اندر جاتی مریے خیال میں نفیسہ آنٹی اسے انجوائے کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد راحیلہ نے نفیسہ بیگم کی چوت سے سر اُٹھایا اور بولی ۔۔۔ چل اب ڈال کہ میں نے اس بڑھیا کی چوت میں نمی تو کیا سیلاب بھر دیا ہے ۔۔۔ اور پھر اس نے ایک چوپا میرے لن کا بھی لگایا ااور اس کے سساتھ ہی اس سے نفیسہ بیگم کی چوت سے نکلا پانی میرے لن پر مل دیا اور بولا ۔۔۔ پیل دے سالی کی چوت۔۔۔۔۔راحیلہ کی بات سُن کر میں نے اپنا موٹا سا لن آنٹی کی چوت میں ڈال دیا۔۔ راحیلہ ٹھیک کہہ رہی تھی ۔۔۔ اس دفعہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پہلی والی پھدی نہیں میں نے راحیلہ کی چوت میں لن ڈال دیا ہے کیونکہ آنٹی کی پھدی میں راحیلہ کی چٹائی سے پانی کا سیلاب آیا ہوا تھا ۔۔۔۔اور چوت اندر سے کافی گرم ہو گئی تھی ۔۔۔ چنانچہ میں نے لن ڈالا اور گھسے مارنے لگا ۔۔۔ یہ دیکھ کر راحیلہ بھی جوش میں آ گئی اور ۔۔۔جیسے مجھے چود رہا تھا ۔۔۔۔ ایسے ہی اس بڑھیا کو بھی چود ۔۔۔ اور۔میں نے آنٹی کی چوت میں بتتدریج گھسوں کی رفتار میں اضافہ کرنا شروع کر دیا اور ۔۔۔ آنٹی کی تنگ چوت کو بہت مارا۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ میرے لن سے پانی کا ۔۔۔اخراج نزدیک آ گیا اور مجھے سرخ ہوتے دیکھ کر بولی ۔۔۔چھوٹنے لگے ہو؟ تو میں نے کہا یس۔۔۔ میں جا رہا ہوں ۔۔۔تو وہ بولی۔۔۔۔ اس بڑھیا کی چوت کو ۔ اپنی منی سے بھر دے ۔۔۔۔ اور اس کی بات سُن کر ہی میرے لن نے ۔۔۔۔۔ گاڑھے پانی کا سارا ۔۔۔رس ۔۔۔۔۔نفیسہ بیگم کی چوت میں اتارنا شروع کر دیا۔۔۔ جب میرے لن کا پانی پوری طرح سے آنٹی کی چوت میں بہہ گیا ۔۔۔تو میں اُٹھا اور آنٹی کی شلوار سے اپنا لن صاف کیااور کپڑے پہن کر راحیلہ کی طرف اگلے اقدام کے بارے میں جاننے کے لیئے دیکھا تو ۔۔۔وہ بولی۔۔۔ تم اپنےگھر جاؤ ۔۔۔ میں سب سنبھال لوں گی۔۔۔۔چنانچہ میں نے جلدی سے گھر آگیا اور۔۔۔ بستر پر لیٹ کر آج کے حادثے کے بارے میں میں سوچنے لگا۔۔۔۔۔ ابھی مجھے گھر آئے ۔۔کچھ ہی دیر ہوئی تھی ۔۔۔ کہ ہمارے دروازے پر ایک ذوردار دستک ہوئی۔۔۔۔ پھر دوسری ۔۔۔۔۔پھر تیسری۔۔۔۔ اور پھر ہمارا دروازہ مسلسل بجنے لگا۔۔۔۔ میں دوڑ کر باہر گیا اور دروازہ کھولا تو سامنے والی شخصیت کو دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمیں نکل گئی۔۔۔۔اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ۔۔۔ وہ شخصیت اور کوئی نہیں ۔۔۔نفیسہ بیگم کی تھی ۔۔اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آنکھیں سُرخ انگارہ ہو رہیں تھیں اور ان سے شعلے نکل رہے تھے اور ایک وحشت ناچ رہی تھی۔۔۔۔۔ نفیسہ بیگم کو دیکھ کر جو پہلا خیال میرے ذہن میں آیا وہ بھاگنے کا تھا ۔۔۔۔ابھی میں بھاگنے کی سو چ ہی رہا تھا کہ نفیسہ بیگم آگے بڑھیں ۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ………………………………………


ایک تبصرہ شائع کریں for "استانی جی (قسط 14)"