تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی بےوقوف مہمانوں کو کانچ کے گلاس میں پانی دیتے ہیں اس کی بات سُن کر میں دوبارہ آگے بڑھا اتنی دیر میں میرا لن ارمینہ کی نرم گانڈ کا لمس پا کر نیم کھڑا ہو چکا تھا ۔ ۔ ۔ اور اتنی دیر میں ۔۔ میں یہ بی جان گیا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ارمینہ اب کچھ نہ کہے گی چنانچہ میں نے بے دھڑک ہو کر ارمینا گانڈ کے ساتھ اپنا نیم کھڑا لن چپکا کر ایک کانچ کا گلاس لیا اور لن کو اس کی گانڈ کے ساتھ چپکائے ہوئے بولا ۔۔ ۔ ۔ باجی یہ کیسا ہے ؟ تو و ہ بولی ٹھیک ہے پر تم ایسا کرو کہ جگ اور دو تین گلاس اور بھی نکال لو ایسا نہ ہو کہ اور خواتین بھی پانی مانگ لیں اور میں اس کی وہ بات سمجھ گیا جو اس نے نہیں کہی تھی اور بظاہر اس سے بولا اچھا باجی ۔ ۔ ۔ ۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا لن جو اس وقت تک فُل کھڑا ہو چکا تھا ارمینہ کی گانڈ کی دراڑ میں پھنسا لیا اور شلیف سے گلاس نکالنے لگا ۔۔۔ اور پھر ایک ایک کر کے سارے گلاس وہاں سے نیچے اتار کر سنک کے پاس پڑی ٹوکری میں رکھتا گیا ۔ ۔ جب سارے گلاس اُتر گئے تو وہ بولی ۔ ۔ ۔ ارے اتنے سارے گلاسوں کا کیا کرنا ہے ۔۔ وہاں تو بس ایک دو گلاس بھی کافی ہوں گے ۔ ۔ ۔ دو تین گلاس نیچے چھوڑ کر باقی واپس رکھ دو ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کا واضع اشارہ تھا کہ وہ اپنی گانڈ میں میرے لن کوابھی مزید انجوائے کرنا چاہتی تھی ۔۔۔ ۔۔۔۔
اتنے واضع اشارے کے بعد بھی اگر میں موقعہ سے فائدہ نہ اُٹھاتا تو میرے جیسا چُغد اور بے وقوف اور کوئی نہ تھا چنانچہ اس کی بات سُن کر میں نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑا۔ ۔ ۔ اور ارمینہ جو کہ تھوڑا جھک کر برتن ہنگال رہی تھی کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اس کو تھوڑا سا اور نیچے کی طرف جھکایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور حیرت انگیز طور پر۔ ۔ ۔ جیسے ہی ارمینہ نے میرا ہاتھ اپنی کمر پر محسوس کیا وہ خود ہی کچھ اس طرح سے نیچے کو جھکی کہ جس سے اس کی بہت خوبصورت اور موٹی گانڈ مزید باہر کو نکل آئی اور اس نے سنک پر اپنی دونوں کہنیاں ٹکا دیں ۔ ۔ ۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کی گانڈ کے دونوں پٹ الگ الگ کر کے اپنی ایک انگلی اس کی گانڈ کی دراڑ میں ڈالی اور سیدھا اس کی موری پر لے گیا اور پھر وہاں اپنی انگلی رکھ کر دوسرے ہاتھ سے لن کو پکڑا اور اپنا ٹوپا عین ارمینہ کی موری پر رکھ کر پیچھے سےایک ہلکا سا دھکا لگایا اور ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔میرے اس عمل سے ٹوپا سیدھا جا کر اس کی گانڈ کی موری سے ٹچ ہوگیا ۔اُف ۔ف۔ف۔ اس کی گانڈ کا رنگ بہت ہی گرم اور نرم تھا جسے محسوس کرنےہی میرا لن اور بھی تن گیا ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھ ہی میں نے آگے بڑھ کر ایک گلاس اٹھایا اور اس کو اوپر شلیف پر رکھنے سے پہلے ایک نظر ارمینہ پر ڈالی تو ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک چائے کی پیالی تھی ۔ ۔ سنک کا نل کھلا ہو تھا جس سے پانی نکل کر بہہ رہا تھا ، ، ، ارمینہ کی آنکھیں بند تھیں اور وہ سٹل حالت میں جھکی میرے لن کو اپنی خوبصورت گانڈ میں انجوائے کر رہی تھی ۔۔ ۔ ۔ یہ دیکھ کر میرا جوش کچھ اور بڑھ گیا اور میں نے وہ گلاس نیچے سنک پر رکھا اور ارمینہ کو کمر سے پکڑ لیا اور ایک ذور دار گھسا مارا ۔ ۔ ۔۔ لن کا اگلا سرا جو پہلے ہی ارمینہ کی گانڈ کے رنگ کر ٹچ کر رہا تھا اب تھوڑا کھسک کر اس کے رنگ میں داخل ہو گیا اور ۔ ۔ ۔ جیسے ہی ٹوپا اس کی موری میں داخل ہوا ۔ ۔ ۔ پہلی بار میں نے ارمینہ کے منہ سے ایک ہلکی مگر لذت آمیز سسکی کی آواز سُنی ۔۔۔ وئی ۔ ۔وئی ۔ ۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی گانڈ کو تھوڑا گھوٹ لیا ۔ ۔ ۔ ۔ جس سے مجھے کنفرم ہو گیا کہ لن کا تھوڑا سا اگلا حصہ اس کی گانڈ میں داخل ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس نے مستی میں آ کر دو تین دفع اپنی گانڈ کو اوپن کلوز کیا ۔۔ ۔ ۔ آہ کیا بتاؤں دوستو. . . !! ۔۔۔۔۔ کہ مجھے اس کام میں کتنی لزت ملی ۔۔۔۔ اور میرا لن لوہے کی طرح سخت ہو گیا اور بُری طرح سے اکڑ گیا ۔ ۔ ۔ پھر میں نے اس کو کمر سے پکڑا اور تھوڑا پیچھے ہو کر پہلے سے زرا زیادہ گھسہ مارا ۔ ۔۔ اور اس دفعہ کپڑوں سمیت تقریباً آدھا ٹوپا اس کی گرم گانڈ میں اُتر گیا ۔۔ ۔ اور ارمینہ نے اس دفعہ پھر پہلے سے کچھ بلند آواز ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ فُل لزت میں ڈوبی ہوئی سسکی لی ۔ ۔ اُف ۔ف۔ف۔ مم ۔ ۔ آہ ہ ہ ہ ۔ مورے ۔ ۔ ۔۔ ۔اور اپنا ہاتھ بڑھا کر مجھے پیچھے سے اپنی طرف پُش کرنے لگی ۔ ۔ ۔ اس کے بعد ابھی میں تیسرا گھسا مارنے ہی والا تھا کہ اچانک ماسی کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہی تھی ارمینہ بچہ ۔ ۔ ۔ پانی جلدی سے بھیجو ۔ ۔ ماسی کی آواز سُن کر ہمارا لزت بھرا سارا طلسم ٹوٹ گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور آواز سنتے ہی ارمینہ بجلی کی سی پھرتی سے میرے آگے سے ہٹی اور سنک سے فوراً ایک گلاس اٹھا کراس میں پانی بھرا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھے دیتے ہوئے بولی جلدی جاؤ ۔۔ ورنہ امی آگئیں نا تو ہمیں اس حالت میں دیکھ کر ہم دونوں کے ہی ڈکرے (ٹکڑے ) کر دے گی ۔۔
پھر اس کی نظر میری شلوار میں تنے ہوۓ لن پر پڑی جس کی وجہ سے شلوار آگے کو کافی آگے کو اُٹھی ہوئی تھی اور ایک تنبو سا بنا نظر آ رہا تھا کو دیکھ کر فکر مندی سے بولی اس کو کیا کرو گے؟؟ تو میں نے اس سے کہا کہ باجی آپ اس کی پرواہ نہ کریں اس کا بھی بندوبست ہے میرے پاس ۔ ۔ ۔۔ اور پھر بنا کوئی بات کیے میں نے لن پکڑ کر اپنی شلوار کے نیفے میں اڑوس لیا اور پھر شرارتاً اپنی قمیض کو آگے سے اُٹھا کر اسے اپنا موٹا سا ٹوپا دکھایا جو شلوار کے نیفے سے باہر نکلا ہوا صاف نظر آ رہا تھا اور منہ کھولے کھڑا تھا ارمینہ نے تھوڑا آگے بڑھ کے میرے ٹوپے کا یہ حال دیکھا اور بولی ۔۔۔ بے چارہ ۔۔۔ پھر میں نے اس نے پوچھا یہ بندبست ٹھیک ہے نا ارمینہ باجی ؟ ۔ ۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔ مجھے نہیں معلوم ۔۔۔ اور پھر مصنوعی غصے سے مجھے دھکا دیکر کر بولی ۔۔۔ اب دفعہ بھی ہو جاؤ ۔۔۔۔ اور میں وہاں سے چلا گیا ۔۔۔ اور آنٹی کو پانی کا گلاس دیکر بھاگا بھاگا گھر پہنچا کیونکہ میرا لن مجھے کسی طور بھی چین نہیں لینے دے رہا تھا کہ آنکھوں کےسامنے ابھی تک ارمینہ کی نرم گانڈ کا ہیولا آ رہا تھا اس لیئے لن کا علاج کرنے کے لیئے میں سیدھا واش روم میں گیا اور ارمینہ کی مست اور نرم گانڈ کے نام پر ایک زور دار مُٹھ ماری کہ اس کے بغیرچارہ نہ تھا ۔
مُٹھ مار کے جب میں کچھ ٹھنڈا ہوا اور ارمینہ کی گانڈ کی خماری کچھ کم ہوئی تو مجھے یاد آیا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے تو میڈم کے گھر جانا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سوچ آتے ہی میں وہاں سے بھاگا بھاگا میڈم کے گھر پہنچا ۔ ۔ اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔ ۔ ۔ تو میڈم نے اندر سے ہی آواز دی کون ہے؟؟ آ جاؤ دروازہ کھلا ہے ان کی آواز سُن کر میں گھر کے اندر داخل ہو گیا دیکھا تو وہ سامنے برآمدے میں کھڑی دروازے ہی کی طرف دیکھ رہی تھیں ۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی وہ بولی ۔ ۔ تم۔۔ !! ۔تم نے تو کافی دیر پہلے آنا تھا یہ اتنی لیٹ کیوں آئے ہو ؟؟ تو میں نے جواباًً ا رمینہ کے بھائی کا سارا واقعہ سُنا دیا لیکن درمیان میں ارمینہ والی بات سرے سے ہی گول کر گیا سُن کر بولی خیر یہ کام بھی تم نے اچھا کیا ہے۔ ۔ ۔ پھر میری طرف دیکھ کر بڑے ہی معنی خیز لہجے میں بولی ۔ ۔ پر تم لیٹ ہو گئے ہو؟؟ تو میں نے جواب دیا وہ کیسے میڈم ۔ ۔ ۔ تو وہ کہنے لگی وہ اس طرح جان ۔ ۔ کہ تمھاری استانی جی میرا مطلب ہے زیبا کی امی جو کہ لاہور کے ایک مشہور ہسپتال میں گزشتہ کافی دنوں سے داخل تھیں کو آج ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے اور وہ آج کل والی پوزیشن میں آ گئی ہے سو اس کو لیکر زیبا کے بھائی اپنے گاؤں چلے گئے ہیں اور اس کے ساتھ یہاں سے میں اور زیبا بھی ابھی اس کے گاؤں کے لیئے روانہ ہو رہے ہیں میرا بیٹا دکان سے گاڑی لیکر کر آتا ہی ہو گا اور پھر ہم نکل جائیں گے میڈم کی یہ بات سن کر میرے تو ٹٹے ہی ہوائی ہو گئے اور میں نے انتہائی پریشانی سے کہا کہ ۔ ۔ میڈم وہ میرا ناول ۔۔۔؟؟؟ میری بات سُن کر وہ اچانک ہی چونک اٹھی اور سر پر ہاتھ مار کر بولی ۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ۔ سوری یار مجھے یاد نہیں رہا پھر مجھ سے کہنے لگی ۔ ۔ ۔۔ یقین کرو میں صبع زیبا کے پاس تمھارے ہی کام گئی تھی لیکن اس کی امی کی پریشانی سُن کر بھول گئی اور جب میں واپس آ رہی تھی یقین کرو میرے دماغ میں یہ بات گھوم رہی تھی کہ میں زیبا کے پاس کسی کام سے آئی تھی وہ کیا کام تھا ۔۔۔ یقین کرو یاد نہیں آ رہا تھا اب تم نے بتایا تو یاد آ گیا ہے کہ میں کس کام سے وہاں گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ تو میں نے کہا میڈم سے کہا کہ پلیز میڈم اب جا کر میرا کام کر دیں نا تو وہ کہنے لگی سمجھا کرو نا اس وقت تو یہ بات ناممکن ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی بات سُن کر میں نے مایوسی سے ان کی طرف دیکھا اور بولا ۔ ۔۔ میڈم آپ لوگ کب واپس آؤ گے ؟ تو وہ بولی یار کچھ کہہ نہیں سکتے اگر خدانخواستہ زیبا کہ امی فوت ہو گئیں تو ظاہر ہے کہ ہم لوگ دسواں کر کے ہی آئیں گے یہ سُن کر میں نے ان سے کہا اتنی دیر میں تو میڈم ربا میری جان نکال دے گا ۔ ۔ ۔ ۔
یہ سن کر جیسے انہیں کچھ یاد آ گیا ہو ۔۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔ ۔ ایسے ہی وہ تمھاری جان نکال دے گا ۔ ۔ پھر وہ اپنے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بولیں ۔ ۔ ۔ جب تم دس دن کا کرایہ اس کے منہ پر مارو گے تو وہ تم کو کچھ نہیں کہے گا اور پھراپنے گلے میں ہاتھ ڈالے ڈالے میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔ کیا خیال ہے ۔۔۔ میں جو بڑےہی اشتیاق سے ان کے ہاتھ کو گلے میں جاتے دیکھ رہا تھا ۔۔ ۔ ہولے سے بولا ۔ ۔ ایک دفعہ وہ بھی دکھا دیں نا ۔ ۔ تو میڈم شرارت سے بولی وہ کیا ۔۔ دیکھنا ہے تم نے ؟ ۔ ۔ تو میں نے کہا وہ آپ کی خوبصورت ۔ ۔ ۔۔ چھاتی !! میری بات سن کر ان کو جیسا نشہ سا ہو گیا ہو بولی ۔۔۔ میری چھاتیاں کیا بہت خوبصورت ہیں ؟ تو میں نے کہا میڈم بہت نہیں بہت ہی زیادہ پیاری ہیں ۔ ۔ ۔ یہ سُن کر وہ خمار آلود لہجے میں بولیں ۔ ۔ ۔ اندر آ جاؤ میں تم کو یہ کوخوبصورت چیز دکھاتی ہوں تو میں نے کہا میں کنڈی لگا آؤں ۔ ۔ تو وہ کہنے لگی نہیں اتنا ٹائم نہیں ہے پھر وہ میرے ساتھ کمرے کی جانب بڑھتے ہوئے بولی ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم سکول سے سیدھے میرے پاس آ جاتے نا تو پھر ہم کنڈی لگا کے تسلی سے یہ کام کرتے فی الحال تو بس ۔۔۔ اور ہم کمرے میں داخل ہو گئے ۔ ۔ ۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میڈم نے اپنی قمیض اوپر کے برا بھی ہٹا دی اور اپنی دونوں چھاتیاں ننگی کر کے بولی ۔ ۔ ۔ لوجی بھر کر دیکھ لو اپنی پسندیدہ چھاتیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میری نظروں کے سامنے میڈم کی گوری چٹی موٹی موٹی چھاتیاں تھیں ۔ ۔ ۔۔ جن کے اوپر براؤن رنگ کا نپل ۔ ۔ ۔۔ عجیب شان سے کھڑا تھا ۔ ۔ ۔ جسے دیکھ کر میں آپے سے باہر ہو گیا اور جا کراپنے دونوں ہاتھوں میڈم کی خوبصورت چھاتیوں کو تھام لیا ۔ ۔ ممے ہاتھ میں پکڑتے ہی میرا لن تن گیا اور مجھ پر ایک عجیب سا نشہ چھا گیا ۔۔۔ اور میں نے میڈم کی طرف دیکھا تو وہ آنکھیں بند کیے اپنے مموں پر میرے ہاتھوں کا مزہ لے رہی تھیں ۔اور پھر ہولے ہولے۔ ۔ ۔ میں ان کا ممے دبانے لگا
۔ کچھ دیر ان کے ممے دبانے کے بعد میں نے ان کا ایک مما اپنے منہ میں لیا اور زبان نکال کر ان کے نپل پر پھیرنے لگا ۔۔۔ پھر میں نے اسے اپنے دونوں ہونٹؤں میں دابا اور اس کو چوسنے لگا۔ ۔ ۔ اور ساتھ ہی میڈم کےمنہ سے ایک آہ نکلی اور وہ کہنے لگی ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم دوپہر کو آتے نا تو ۔۔ ۔ ۔توکیا ہی بات تھی پھر انہوں نے میرے منہ سے اپنا وہ والا مما نکالا اور دوسرے میرے آگے لا کر بولی اب اس کو چوسو ۔ ۔۔ ۔ اور پھر میں نے اس کو بھی ویسے ہی چوسنا شروع کر دیا جیسا کہ پہلے کو چوس رہا تھا ۔۔۔ کچھ دیر تک ممے چسوانے کے بعد انہوں نے شلوار کے اوپر سے ہی میرا لن پکڑ لیا اور اسے دباتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔ سالے اگر تم پہلے آ جاتے تو ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میم اپنا فقرہ مکمل کرتی ۔ اچانک گلی کی نکڑ سے کار کے ہارن کی آواز سنائی دی جسے سنتے ہی وہ ایک دم سنبھل سی گئیں اور جلدی سے اپنے ممے قمیض کےاندر کر لئے اور مجھے دو سو روپے دیکر کر بولی یہ پیسے تم کرائے کی مد میں لائیبریری والے کو دے دینا اور فکر نہ کرنا اگر ہم مزید لیٹ ہو گئے تو کسی سے ادھار لیکر کرایہ دے دینا میں آ کر تم کو دے دوں گی پھر انہوں نے مجھے ایک ٹائیٹ سی جھپی لگائی اور بولی وہ پہلے زیبا کے گھر جائے گا تم جلدی سے نکل جاؤ ۔۔۔ اور میں نے اس سے پیسے لیئے اور گھر آ گیا ۔۔۔۔
اگلے دن میں حسبِ معمول اٹھا اور تیار شیار ہو کر سکول جانے کے لئےجیسے ہی گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ سامنے سے ارمینہ کے گھر سے ماسی ارصلا کو لیکر میری ہی طرف آ رہی تھیں انہیں دیکھ میں تھوڑا شرمندہ سا ہو گیاکیونکہ میں نے ماسی کو کہا تھا کہ میں خود ارصلا کو لے جایا کروں گا ۔ چنانچہ ماسی سے نظر ملتے ہی میں نے کہا ۔ ۔ ۔ سوری ماسی جی میں نے تو سمجھا تھا کہ آج ارصلاچھٹی کرے گا تو میری بات سُن کر ماسی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ ہاں بیٹا ۔ ۔ تمھارا نہیں اس کا بھی یہی خیال تھا ۔ ۔ اور پھرارصلا سے بولی بھائی کے ساتھ سکول جاؤاور جب تک یہ تمھارے پاس نہ آئیں تم نے سکول کے گیٹ سے باہر نہیں نکلنا پھر وہ میری طرف مخاطب ہوئی اور کہنے لگی بچے یاد سے ارصلا کو اپنے ساتھ لانا اور واپس اپنے گھر کی طرف مُڑ گئی – میں دیکھا کہ ارصلا کا موڈ خاصہ خراب تھا چنانچہ میں نے اسے ویسے ہی چھیڑنے کے لیئے کہا یار تم نے آج چھٹی کرنی تھی میری بات سُن کر وہ بڑے تلخ لہجے میں بولا ۔ بھائی جان آپا نے نہیں کرنے دی خیر آج تو اس نے میری چھٹی روک لی ہے دیکھتا ہوں وہ کل کیسے مجھے چھٹی کرنے سے روکتیں ہیں ۔۔ تو میں نے اس سے کہا کیوں کل کوئی خاص بات ہو گی کیا تو وہ بولا ۔ ۔ خاص نہیں بھائی جان بہت خاص بات !! تو میں نے اس سے پوچھا کہ کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے تو وہ چلتے چلتے رُک گیا اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا بھائی جان آج مرینہ آپا جو آ رہی ہیں ۔ تو میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا گویا پوچھ رہا تھا کہ یہ مرینہ آپا کون ہے۔۔
تو وہ میری نظروں کا مفہوم سمجھ کر بولا بھائی جان مرینہ میری سب سے بڑی بہن ہے جو کہ حیدر آباد میں رہتی ہیں اور آج 4 بجے کی ٹرین سے پنڈی آ رہی ہیں تو میں نے اس سے ویسے ہی پوچھا کہ تو تم اپنی آپا کو لینے ریلوے سٹیشن جاؤ گے ؟ تو وہ کہنے لگا میں ہی نہیں امی اور دا جی (ابا) بھی جائیں گے اس کی بات سُن کر میرا کان کھڑے ہو گئے اور میرے شیطانی دماغ میں یک لخت ایک خیال بجلی کی سی تیزی سے کوندا ۔ ۔ ۔اور میں نے دھڑکتے دل سے اس سے پوچھا کیوں تم ماسی اور چاچا ہی جاؤ گے ؟ ارمینہ باجی کو ساتھ نہیں لے جاؤ گے ؟ تو وہ لاپرواہی سے بولا دا جی (ابا) کہتے ہیں سٹیشن پر لڑکیوں کا کوئی کام نہیں اس لیئے وہ گھر پر ہی رہے گی اور ارصلا کی بات سُن کر میرے دماغ میں شیطانی منصوبہ بننے لگا اور میں دل ہی دل میں اس کے تانے بانے جوڑنے لگا اور اسی دوران ارصلا کا سکول بھی آ گیا اور وہ مجھے ٹاٹا کرتے ہوئےسکول چلاگیا اور میں ۔۔۔۔۔ اپنے منصوبے کے بارے میں سوچنے لگا
سکول سے واپسی پر میں نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور تین بجے ہی چھت پر جا کر ناکہ لگا لیا میرا فوکس ماسی کا گھر تھا کہ کب وہ لوگ گھر سے جائیں اور میں وہاں جا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقریباً سوا تین بجے کے قریب ارصلا کا والد جسے وہ دا جی کہتے تھے ایک رکشہ لیکر آیا اور اسے اپنے دروازے کے پاس کھڑا کرے کے خود اندر چلا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی دو تین منٹ بعد ہی ماسی اور ارصلا خان اپنے والد کے ساتھ گھر سے باہر برآمد ہوئے اور وہ سب جلدی سے رکشے میں بیٹھ گئے ۔۔۔ اور رکشہ چل پڑا ۔۔۔۔ اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ یہ سب دیکھتا رہا جب رکشے کو گئے ہوئے کوئی دس منٹ ہو گئے تو میں اپنے چھت سے نیچےاترا اور خود بخود میرے قدم ماسی کے گھر کی طرف اُٹھ گئے کہ جہاں اس وقت گھر میں ارمینہ اکیلی تھی لیکن اس سے قبل میں بھاگا بھاگا بازار گیا اور PCO پر جا کر ریلوے انکوائری والوں سے پوچھا کہ کیا کراچی سے آنے والی ریل ان ٹائم ہے یا نہیں تو انہوں نے میری توقع کے عین مطابق بتلایا کہ مطلابہ ٹرین دو گھنٹے لیٹ ہے اور یہ ٹائم بڑھ بھی سکتا ہے ۔۔۔یہاں سے مطمئن ہو کر میں واپس اپنی گلی کی طرف آیا ۔۔۔ اور ۔۔۔پھر ۔۔ احتیاطً میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو ساری گلی کو سنسان پایا ویسے بھی گرمیوں کی دو پہر کو کم ہی لوگ گھروں سے نکلتے ہیں سو میں جلدی سے ارمینہ کے گھر کے پاس گیا حسبِ معمول دروازے پر پردہ لٹکا ہوا تھا میں نے وہ پردہ ہٹایا تو دروازے بند تھا یہ پہلی دفعہ تھی کہ میں نے ان کے گھر کا دروزہ بندپایا تھا ورنہ یہ ہمیشہ ہی کھلا ہی ملتا تھا ۔۔۔ خیر میں نے پردے کے اندرہی رہتے ہوئے دروازے پرہلکی سی دستک دی لیکن کوئی جواب نہ آیا پھر میں نے قدرے ذور کی دستک دی تو اندر سے ارمینہ کی آواز سنائی دی ۔۔۔ کون ۔؟؟؟؟۔
۔ اور اس کے ساتھ ہی دروازہ کھلا اور میں نے دیکھا تو میرے سامنے میرے سپنوں کی رانی ارمینہ کھڑی تھی اس نے سُرخ رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا جس میں قیامت لگ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔مجھے دیکھتے ہی اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کولہوں پر رکھے اور بولی جی فرماؤ ؟؟ ۔۔۔ تو میں نے کہا مجھے اندر آنا ہے تو وہ بولی گھر میں اس دقت کوئی نہیں ہے ۔۔ تو میں نے جواب دیا کہ اسی لیئے تو میں اندر آنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ قدرے غصے سے بولی کیا مطلب ہے تمھارا ؟ تو میں نے جلدی سے کہا وہ ۔۔۔ وہ باجی میرا آپ سے ایک بڑا ضروری کام ہے پلیز اندر آنے دیں نا ۔ ۔ ۔۔ میر بات سن کر اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر مجھے اندر آنے کے لیئے راستہ دے دیا اور جیسے ہی میں اندر داخل ہوا اس نے دروازہ لاک کیا اور بولی ہاں جی بولو کیا ضروری کام تھا ؟تو میں نے کہا باجی میں یہاں نہیں بتا سکتا آپ پلیز اندر چلیں نا ۔ ۔ تو وہ کچھ نخروں کے میرے ساتھ اندر جانے پر راضی ہو گئی اور پھر ہم ان کے ڈرائینگ روم میں آ گئے وہاں اس نے مجھے ایک کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور خود میرے سامنے کھڑی ہو کر بولی جلدی بولو کیا کام ہے ؟ تو میں اس کی بات سُن کر گھبرا گیا اور ۔۔۔۔ سر نیچا کر کے بیٹھا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ دیر تک تو اس نے میرے جواب کا نتظار کیا پھر کہنےلگی ۔۔ کچھ بولو بھی ۔۔ یہ منہ میں گھونگنیاں ڈالے کیوں بیٹھےہو ۔ ۔ تو میں نے سر اٹھایا اور ڈرتے ڈرتے ارمینہ سے بولا ۔ ۔ ۔ ۔ باجی آپ بہت خوبصورت ہیں اور مجھے بہت اچھی لگتی ہیں میری بات سن کر اس کے چہرے کا رنگ سُرخ ہو گیا اور وہ کہنے لگی بس یہی اطلاع دینے کے لیئے آپ یہاں تشریف لائے تھے ؟ اس کی بات سُن کر میں ایک بار پھر گڑبڑا گیا اور سوچنے لگا کہ ابتدا کیسے کروں کہ ارمینہ ناراض بھی نہ ہو اور کام بھی بن جائے سوچتے سوچتے میں نے ارمینہ کی طرف دکھا تو وہ میری ہی طرف دیکھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے دوپٹے کے پلو کو کبھی رول کرتی اور کھبی اسے کھول رہی تھی اس کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے کا رنگ بھی کچھ زیادہ ہی سُرخ ہو رہا تھا اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان بھی پھیر رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ارمینہ کی یہ حالت دیکھ کر میں نے خود پر ایک سو ایک دفعہ لعنت بھیجی اور کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور بلکل ارمینہ کے سامنے کھڑا ہوا اور اس سے بڑے ہی رومینٹک لہجے میں بولا ۔ ۔ باجی میں آپ کے خوبصورت گال پر ایک چمی کر لوں ؟ اور پھر ۔ ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ۔ ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ بنا اسکی اجازت کے اچانک آگے بڑھا اور اس کے لال گال کو چوم لیا ۔۔۔ اس نے فوراً ہی مجھے دھکا دیکر پرے کیا اور بولی یہ کیا بے ہودگی ہے ؟ تو میں نے کہا باجی یہ بے ہودگی نہیں پیار ہے اور پھر آگے بڑھ کر اس کو دوبارہ چومنے کی کوشش کی ۔ ۔
لیکن اس نےہاتھ ہٹا کر مجھے اپنے سے پرے کر دیا اور بولی تم عجیب لڑکے ہو مجھے باجی بھی کہتے ہو اور میرے ساتھ بےہودہ حرکات بھی کرتے ہو ۔۔ میں نے محسوس کیا کہ ارمینہ کا لہجہ بات کرتے ہوئے کوئی غصیلا نہ تھا بلکہ کافی ہموار تھا ۔۔ ۔ جیسے وہ اس صورتِ حال پر مزہ لے رہی ہو ۔ یہ دیکھ کر میں بھی شیر ہو گیا اور اس سے بولا ۔۔۔۔ کہ اگر آپ باجی کہنے پر ناراض ہوتی ہیں تو میں آپ کو ڈارلینگ بھی کہہ سکتا ہوں ۔ ۔ میری بات سُن کر اس کا رنگ کچھ اور سُرخ ہو گیا اور وہ سامنے لگی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔ ۔ ۔ ڈالنگ کے بچے ۔ ۔ ۔۔ بھاگو یہاں سے ۔ ورنہ ابھی دا جی (ابا) آ گئے نا تو ۔ ۔تمھاری یہ ساری شوخیاں اور ۔ شرارتیں نکال دیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ارمینہ کی بات سُن کر میں نے اس سے کہا باجی جی آپ ۔ ۔ اپنے دا جی کی آپ فکر نہ کرو کیونکہ وہ کم از کم دو گھنٹے بعد آئیں گے۔ ۔ میری بات سن کر وہ ایک دم چونک گئی اور بولی یہ تم کیسے کہہ سےتن ہو؟ تو میں نے اس سے کہا میں اسیے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے پاس آنے سے پہلے میں نے پی سی او سے ٹرین کے بارے میں معلومات کیں تھیں اور ریلوے والوں نے مجھے بتلایا تھا کہ ٹرین کم از کم 2 گھنٹے لیٹ ہے میری بات سُن کر ارمینہ نے ایک گہرا سانس لیا اور بولی ۔ ۔ بڑے تیز ہو تم ۔ ۔
ارمینہ کی بات سُن کر میں آگے بڑھا اور اسے گلے لگا کر بولا میں کوئی تیز نہیں ہوں ڈارلینگ یہ سب آپ کے پیار نے سکھایا ہے اور ایک بار پھر اس کو چوم لیا اب کی بار اس نے واجبی سی مزاحمت کی اور بولی ۔ ۔ مجھے چھوڑو بد تمیز ۔ ۔ لیکن بدتمیز کہاں چھوڑنے ولا تھا ۔ ۔ سو میں نے دوبارہ سے اپنے ہونٹ اس کے لال گالوں پر رکھے اور بولا بس تھوڑا سا پیار کرنے دو نا جان ۔۔ ۔ تو وہ میری باہوں میں کسمساتے ہوئے بولی ۔ ۔ ۔ اُف اور کتنا پیار کرو گے اب چھوڑ بھی دو نا ۔ ۔ لیکن میں نے اس کو نہیں چھوڑا اور پھر میں نے اپنے ہونٹوں سے زبان باہر نکالی اور اس کے لال گال کو چاٹ لیا ۔ ۔ ۔ ارمینہ کے منہ سے ایک لزت بھری سسکی نکلی ۔۔۔ سس۔سس۔ اور بولی ۔ یہ کر رہے ہو تم ؟؟ تو میں نے مستی میں ڈوبے لہجے میں کہا آپ سے پیار کر رہا ہوں میری جان ۔ ۔ ۔۔ اور پھر میری یہ زبان گھومتے گھومتے اسکے نرم ہونٹؤں پر پہنچ گئی اور میں نے اپنی زبان ارمینہ کے نرم ہونٹوں پر رکھی اور آہستہ آہستہ اپنی زبان کو ارمینہ کے نرم ہونٹوں پر پھیرنے لگا ۔ ۔ ارمینہ کے ہونٹ ایسے نرم تھے کہ جیسے پنکھڑی کوئی گلاب کی سی ہو ۔ ۔ ۔۔ کچھ دیر تک تو میں اپنے زبان اس کے ہونٹؤں پر پھیرتا رہا پھر بڑی ہی آہستگی سے میں نے اپنے زبان کو اس کے منہ میں داخل کرنے کی کوشش کی پہلے تو اس نے اپنے ہونٹ نہ کھولے لیکن جب میں اپنے زبان سے بار بار اس کے ہونٹوں پر دستک دیتا رہا تو پھر اس نے تھوڑا سا منہ کھولا اور میں نے بجائے زبان اس کے منہ میں دینے کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے اوپر ولا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا ۔اور اس کے منہ سے صرف ۔ ۔ آہ ہ ۔ کی آواز ہی نکل سکی کیونکہ پھر میں نے اپنا منہ اس کے منہ سے جوڑ لیا تھا ۔ وہ اس عمل میں ایکٹولی تو میرا ساتھ نہ دے رہی تھی لیکن اب مجھے منع بھی نہیں کر رہی تھی بلکہ میری ساتھ کسنگ کا لطف اُٹھا رہی تھی ۔ ۔ ارمینہ کے ہونٹ چوسنے کے ساتھ ساتھ اب میں نے ایک ہاتھ اس کے ممے پر رکھا اور اسے دبانے لگا
۔۔ جب میں اس کا مما دباتا تو اس کے منہ سے بے اختیار ایک آہ سی نکلتی تھی ۔ ۔ اؤئی ۔ ۔ ارمینہ کے ہونٹ چوستے چوستے میں نے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈال دی ۔ ۔ اُ ف ف ف ۔۔۔فف ۔۔۔ ارمینہ کے منہ سے بڑی ہی دلکش سی مہک آ رہی تھی اور اس کی زبا ن سے جب میری زبان ٹکرائی تو ارمینہ کے گرم جسم کو ایک جھٹکا سا لگا اور اس نے میرے گلے میں باہیں ڈال دیں اور مجھے بڑا ہی ٹائیٹ ہگ دیا ۔۔ ۔
اور اس کی اس ٹا ئیٹ جھپی کی وجہ سے میرا لن جو اس وقت تک فُل مستی میں آ چکا تھا ارمینہ کی رانوں کے عین بیچ میں آ گیا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ ارمینہ اپنی نرم رانوں سے میرے لن کو دبا رہی ہے وہ بار بار اپنی رانیں میرے لن کے گرد ٹائیٹ کر لیتی اور کبھی کبھی تو لن کو رانوں میں دبا کر تھوڑا سا آگے پیچھے بھی ہو جاتی تھی جس سے میرے لن کو عجیب لزت ملتی اور ۔ ۔پھر ۔۔ میرے منہ سے بھی لزت بھری سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں اور پھر میں نے ارمینہ کو دوسری طرف گھما دیا ۔ اور اس کی گانڈ کو اپنے سامنے کر لیا ۔ اب ارمینہ کی موٹی گانڈ میرے لن سے ٹچ ہو رہی تھی سو میں نےلن پکڑا اور ارمینہ کی گانڈ کی موری پر رکھا اور اسے دبا دیا اور خود اپنے ہونٹ اس کے صراحی دار گردن پر رکھ دیئے اور انہیں چومنے لگا ۔ ۔ ۔ میرے اس عمل سے ارمینہ کے منہ سے سسکیوں کا طوفان سا نکلا آہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔ ۔ ۔ اور وہ بے اختیار ہو کر اپنی گانڈ کو مرہے لن سے رگڑنے لگی ۔ ۔ اب میں نے پیےھھ سےاس کی قمیض کو اوپر کیا اور اس کے مموں کو ننگا کر کے اس کے موٹے موٹے نپل اپنی انگلیوں میں لیکر انہیں مسلنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ میری اس حرکت سے ارمینہ کے جزبات بے قابو ہو گئے اور وہ ایک دم اپنے نپل چھڑاکے میری طرف مُڑی اور میرا لن اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور اسے آگے پیچھے کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کے ساتھ جوڑ لیئے اور پھر کسنگ کرنے لگی کچھ دیر کسنگ کے بعد وہ تھوڑا پیچھے ہٹی اور بنا کچھ کہے مجھے اندر کمرے میں لے گئی اور جا کر بیڈ پر لیٹ گئی ۔ ۔
اس کی دیکھا دیکھی میں نے بھی اپنے جوتے اتارے اور بیڈ پر چلا گیا اور عین اس کے اوپر لیٹ کر اپنا لن اس کی چوت پر رکھا اور پھر اسے کے منہ میں اپنا منہ دیکر کر اسکی لزت میں گم ہو گیا ۔ پھر میں اپنا منہ اس کے منہ سے الگ کیا اور ۔ ۔ ۔ ۔ آہستہ آستہ نیچے کی طرف آنا شروع ہو گیا ۔۔۔ اور ارمینہ کی قمیض کو اوپر کر کے اس کے ممے چوسنے لگا ۔۔۔ اور کافی دیر تک باری باری اس کے ممے چوستا رہا اس دوران میرا لن مسلسل اس کی گرم چوت پر دستک دیتا رہا تھا جسے وہ کبھی کھبی اپنے ہاتھ میں پکڑ کے اپنی چوت پر رگڑ بھی لیتی تھی ۔ ۔
کافی دیر ممے چوسنے کے بعد میں تھوڑا اور نیچے جھکا اور ارمینہ کی شلوار کا آزار بند پکڑ کر اسے کھولا اور پھر اس نے خود ہی اپنے چوتڑ اٹھا کر مجھے اپنی شلوار اتارنے میں مدد دی ۔ ۔ واؤؤؤؤؤؤؤو۔ ۔ ۔ جیسے ہی اس کی شلوار نیچے ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ میرے سامنے ارمینہ کی موٹی اور ابھری ہوئی چوت میری آنکھوں کے سامنے آگئی ۔ ۔ آہ ہ ۔۔ اس کی چوت کے دونوں لب اندر کی طرف مڑے ہوئے تھے اور اس ابھری ہوئی چوت پر ہلکے ہلکے سیاہ بال تھے جو سفید پھدیپر بڑے بھلے لگ رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان بالوں کو دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا کہ جیسےچوت کی ایک ہفتہ قبل شیو کی ہو ۔۔۔ ارمینہ کی شاندار چوت دیکھ کر میں اسے چومنے کے لئے تھوڑا اور نیچے جھکا ۔ ۔ ۔۔اور ۔ ۔ اچانک ارمینہ نے اپنےدونوں گھٹنے آگے کر دئے جس کی وجہ سے میرا منہ اس کی چوت تک نہ جا سکا اور میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ میری ہی طرف دیکھ رہی تھی مجھے اپنی طرف دیکھ کر وہ بولی ۔ ۔ گندی فلمیں دیکھتے ہو؟ تو میں نے کہا بہت ۔ تو وہ پھر کہنے لگی پہلے کبھی ایسا کیا ہے تو میں نے سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہا نہیں یہ فسٹ ٹائم ہے ۔ ۔ تو وہ اپنے گھٹنے نیچے کرتےہوئے بولی۔ ۔
۔ ۔ ۔ میری چاٹنے کو بہت دل کر رہا ہے ؟ تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا تو وہ اپنی چوت کے دانے پر ہاتھ رکھ کر بولی ۔۔ اسے چھوستے ہیں تم ایسا کر و اس کو اپنے ہونٹوں سے پکڑواور منہ لیکر اس کو خوب چوسو ۔ ۔ ۔ اس کی بات سُن کر میں نے اپنا سر نیچے جھکایا اور ارمینہ کی چوت پر منہ رکھ دیا ۔ ۔ ۔ ۔ واؤؤؤؤ۔ اس کی چوت سے بڑی ہی سیکسی مہک آ رہی تھی --- سو سب سے پہلے میں نے اس کی شاندار پھدی کا ایک زور دار چما لیا ۔۔۔ ۔ اور پھر اس کے بعد اس کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔۔
اب میں نے اس کے دانے کی طرف جو نگاہ کی تو دیکھا کہ ارمینہ کی چوت کا دانہ کافی پھولا ہوا تھا ۔۔۔۔ اور رنگ میں ڈارک براؤن تھا چنانچہ ارمینہ کی فرمائش پر میں نے اپنے منہ سے زبان باہر نکالی اور اس پھولے ہوئے دانے پر رکھ کر اسے چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ جیسے ہی میری زبان ارمینہ کے دانے سے ٹچ ہوئی ارمینہ کے منہ سے ایک سسکی نکلی اور وہ جوش میں آ کر ُاٹھ کر بیٹھ گئی اور بڑے غور سے میری کاروائی دیکھنے لگی ۔۔ادھر کچھ دیر تو میں نے اس کی چوت کے دانے پر زبان پھیری پھر میں نے سر اُٹھا کر ارمینہ کی طرف دیکھا اور اس سے بولا ۔ ۔ ۔ ارمینہ جی ایک بات پوچھوں تو وہ قدرے نشیلی آواز میں بولی ضرور پوچھو !! تو میں نے اس سے کہا کہ کیا آپ کے شوہر بھی آپ کی چوت چوستے تھے تو وہ قدرے افسردگی سے
بولی ۔۔۔ نہیں یار وہ پکا پٹھان ہے اس نے کبھی بھی میری چوت کو نہیں چوسا ۔ ۔ ۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ وہ کیا پسند کرتا تھا تو ہو کہنے لگی اس کو تو بس دو ہی کام پسند تھے تو میں نے پوچھا وہ کون سے۔ ۔ ؟؟؟؟؟ تو وہ بولی ایک تو اپنا ۔ ۔ وہ ۔۔ ۔ ۔چسوانا اور دوسرا ۔
۔ ۔ وہ کہتے کہتے رُک گئی تو میں نے اصرار کے پوچھا دوسرا کام کونسا اور پہلا کونساارمینہ جی ؟ تو وہ کہنے لگی دوسرا وہی جو ہر پٹھان کو پسند ہے ۔ تو میں نے کہا وہ کون سا ۔۔ تو وہ قدرے شرماتے ہوئے بولی ۔ ۔ ۔ ۔ یار وہی ۔ ۔ ۔ گانڈ مارنا ۔۔۔۔ ۔۔ تو میں نے حیرانی سے اس سے پوچھا ارمینہ جی تو کیا وہ آپ کو آگے سے نہیں کرتے تھے ؟ تو وہ کہنے لگی یار آگے سے کرنے کے علاوہ اس کو یہ دو کام از حد پسند تھے تو مین نے اس سے کہا اب پہلا والا کام بھی بتا دیں پلیز ۔ ۔ تو کہنے لگی تم پکے بدمعاش ہو تم کو سب معلوم ہے لیکن پھر میرے اصرار پر کہنے لگی ۔۔ ۔ وہ سکنگ یار ۔۔ یہ سُن کر میں نے اس
کہا ارنیبہ جی ۔ ۔ کیا آپ میرا ۔ بھی ۔ چوسو گی نا۔ ؟ تو وہ بلا تامل کہنے لگی ہاں میں تمھارا یہ موٹا اور لمبا سا۔۔۔۔ ضرور چوسوں گی ۔۔ پر اس سے پہلے تم جیسے میں کہتی ہوں میری چاٹو ۔۔ تو میں نے اس سے کہا اوکے ۔۔ ارمینہ جی ۔۔۔ اور اس کی چوت پر سر جھکا دیا پھر وہ کہنے لگی اب تم ۔ ۔ اپنے ہونٹوں میں میرا یہ موٹا دانا لو اور اسے ایسے چوسو جسے تھوڑی دیر پہلے تم میرے ممے چوس رہے تھے اور میں نے ارمینہ کے کہنے پر اس کے دانے کو اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگا ۔۔۔۔ اس کا دانہ بہت گرم تھا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی چوت سے بڑی ہی مست سمیل بھی آ رہی تھی ۔۔۔ وہ مجھے اپنی چوت کا دانہ چوستے ہوئے دیکھ رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی انگلیوں سے میرے بالوں میں کنھی بھی کرتی جا رہی تھی اور وقفے وقفے سے سسکیاں بھی لیتی جا رہی تھی ۔آہ ہ ہ ۔۔۔ اُف ،ف،ففف ۔۔۔ اوہ ۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد میں نے اس کی آواز سُنی وہ اپنی مست آواز میں کہہ رہی تھی ۔۔۔۔ دانہ چوسنے کے ساتھ ساتھ اپنی دو انگلیاں بھی میری پھدی میں بھی ڈال دو ۔۔۔ اور پھر میں نے جیسے ہی اس کی گرم پھدی میں اپنی دو انگلیاں ڈالیں وہ ایک دم سے تھرا کر رہی گئی اور بولی ۔۔آہ ۔ ۔ ۔ ہ ہ ۔۔ فاسٹ ۔۔۔ فاسٹ ۔۔۔ اپنی انیوے ں کو تیزی سے میری پھدی کے اندر باہر کرو اور میں نے ایسا ہی کیا تو وہ ایک لمبی سی سسکی لیکر بولی ۔۔۔ ش ش ش۔۔ شاباش بچے تم بہت اچھے جا رہے ہو ۔ ۔
:
۔ ۔پھر کچھ دیر
بعد وہ مجھ سے بولی اب اپنے منہ سے میرا دانہ ہٹا دو ۔ ۔ ۔ اور میں نے اسکے دانے کو منہ سے باہر نکال لیا اور بولا اب کیا کروں تو وہ کہنے لگی ۔ ۔ ۔ اب تم میری پھدی چاٹو ۔ ۔ ۔ اور اپنے رانوں کو مزید کھول کر بولی اپنی زبان یہاں ۔ ۔ ۔ ( پھدی کے اینڈ کی طرف اشارہ تھا ) پر رکھو ۔ ۔اور پھر کہنے لگی اس سے پہلے تم اپنی دونوں انگلیوں سے میری پھدی کے لب کھولے کرو ۔ ۔ اس کی بات سن کر میں نے انے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اس کی چوت کے لبوں کو ممکن حد تک کھلا کیا اور ۔ ۔ ۔ اب ارمینہ کو پھدی کا اندرونی حصہ میری نظروں کے سامنے تھا میں نے ایک نظر ارمینہ کو دیکھا اور پھر اپنی زبان اس
کی چوت کے اندرونی حے پر رکھ کر اسے چاٹنا شروع کر دیا ۔اس کی چوت کی دیواریں سالٹی سے پانی سے اٹی پڑیں تھیں میں نے آہستہ آہستہ ان دیواروں کو اپنی زبان سے صاف کرنا شروع کر دیا ۔ ۔ کچھ ہی دیر بعد ارمینہ گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے ایسے تڑپی کہ جیسے جل بن مچھلی ۔۔۔۔ اوراس نے بڑی سختی سے میرا سر پکڑ لیا اور خود اپنی پھدی کو میرے منہ پر رگڑنے لگی ۔۔۔ پھر کچھ ہی دیر بعد اس کا سارا وجود کانپا اور ۔۔۔ اس کی پھدی سے سالٹی سا پانی بہنے لگا جو سیدھا میرے منہ میں جا رہا تھا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس پانی کو اپنے منہ میں لینے پر اس لیئے مجبور تھا کہ اس نے میرے سر کوبڑے ہی زور سے اپنی پھدی پر دبایا ہوا تھا ۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد ا نے میرا سرسے اپنے ہاتھ ہٹا لیئے اور تیز تیز سانس لینے لگی ۔۔۔۔
اس کو تیز تیز سانس لیتے دیکھ میں سیدھا لیٹ گیا اور جب اس کے سانس کچھ بحال ہوئے تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے تنے ہوئے لن پر رکھ دیا ۔ ۔ ۔ میرے لن پر اپنا ہاتھ پڑتے ہی جیسے اس کو ہوش آ گیا وہ فوراً نیچے میرے لن پر جھکی اور اپنے منہ سے زبان نکال کر میرے ٹوپے پر پھیرنے لگی ۔۔۔اور اپنی زبان کو میرے ٹوپے کے چاروں طرف گول گول گھمانے لگی اور پھر اس نے میرے ٹوپے کو اپنے منہ میں لے لیا اور اپنے ہونٹوں میں لیکر اس کو چوسنے لگی ارمینہ کا یہ انداز اس قدر دلکش تھا کہ میں اونچی آواز میں سسکیاں لینے لگا ۔۔ آہ ہ ہ۔ ۔ ہ ۔ ہ ۔ ۔۔۔ اُف فف۔ف۔ف۔ اور لن پہلے سے زیادہ تن گیا
لیکن وہ اس بات سے بے نیاز مسلسل لن کو چوسے جا رہی تھی ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے منہ سے میرا لن نکالا اور مجھے متوجہ کر نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کرنے لگی اب میں نے اس کے اشارے کی طرف دیکھا تو اس نے اپنی لمبی سی زبان اپنے منہ سے کافی باہر نکالی ہوئی تھی اور اس کی زبان کی نوک پر میری مزی کا ایک موٹا سا قطرہ پڑا ہوا تھا جواس نے مجھے دکھانے کے بعد اپنےمنہ کے اندر لے گئ اور وہ قطرہ نگھل لینے کے بعد مجھ سے بولی تمھارے لن بہت مزی چھوڑ رہا ہے ۔
۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا آپ کو کیسی لگتی ہے یہ مزی ؟ تو وہ کہنے لگی زبردست ۔۔۔ مجھے یہ بڑی پسند ہے اور ایک
بار پھر نیچے جھک گئی اور میرا لن پر اپنی زبان پھیرنے لگئی اور ایک بار پھر میرے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنے لگا کچھ دیر تک میرا لن چوسنے کے بعد وہ نیچے لیٹ گئی اور بولی ۔۔۔ میرے اوپر آؤ ۔ ۔ ۔۔ اور میں ارمینہ کی دونوں ٹانگوں میں جا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اس نے جلدی اے اپنی ٹانگیں میرے کندھوں پر رکھ دیں اورپھر اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے لن کو پکڑ لیا پھر اس نے اپنے منہ سے تھوڑا سا تھوک اپنے منہ سے نکال کر ا پنے بائیں ہاتھ کی تین انگلیوں پر لگایا اور میرے ٹوپے پر مل دیا ۔۔۔ پھر لن کو اپنی چوت کے لبوں پر رکھا اور کچھ دیر وہاں رگڑتی رہی اور
پھر اس نے میرا ٹوپے کو چوت کے آخر میں رکھ دیا اور بولی ۔۔۔۔ دھکا لگا ۔۔۔ میری جان ۔۔۔۔ اور میں نے تھوڑا پیچھے ہو کر ایک ہلکا سا دھکا لگایا تو لن تھوڑا کھسک کر اس کی ٹائیٹ چوت میں چلا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے ایک لزت آمیز سسکی بھری ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔ اور بولی ۔۔ ۔ ۔بڑا موٹا لن ہے تمھار ا۔۔۔ ۔۔ اس کی یہ لزت آمیز سسکی کی آواز سُن کر میں نے ایک اور زور دار دھکا لگایا تو لن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھلستا ہوا اس کی چوت کی آخری دیوار سے جا ٹکرایا اور ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی آرمینہ کے منہ سے ایک زور دار چیخ برآمد ہوئی ۔۔۔۔ وئی وئی مورے ۔۔ اس لڑکے نے میری چوت پھاڑ دی ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس کی چوت میں دھکے لگانا سٹارٹ کر دئےچ۔ ۔ ۔ اور لن اندر باہر کرنے لگا ۔۔۔ اس کی چوت اندر سے بڑی ہی تنگ اور پانی سے بھری ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ جیسے ہی
میں دھکا مارتا وہ ایک دلکش چیخ کے ساتھ میرا حوصلہ بڑھاتی اور کہتی ۔ ۔ ۔۔ زور سے میری جان ۔۔ آج میری چوت کو پھاڑ دو ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر میں بھی جوش میں آ گیا اور پھر نان سٹاپ دھکے پے دھکا مارنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مارتا گیا وہ چیختی گئی اور مجھے ہلا شیری دیتی گئی ۔۔۔۔۔۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر آخر وہ ٹائم بھی آ ہی گیا جب ۔۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ ۔۔۔ میں اس کے بعد ۔۔۔ اور دھکے نہیں مار سکوں گا ۔۔ اور میں نے دھکوں کو روک دیا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ مجھ سے بولی کیا ہوا ؟ تو میں نے کہا میرا خیال ہے کہ میں بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سنتے ہی وہ کہنے لگی ۔۔۔ اوکے ۔۔۔
میں بھی بس کچھ ہی دھکوں
میں جانے والی ہوں پھر اس نے میرے کندھوں سے اپنی ٹانگیں نیچے کیں اور فوراً ہی ڈوگی سٹائل میں ہو گئی اور بولی ۔۔۔ آخری گھسے فل سپیڈ سے مارنا ۔اورمیں ارمینہ کے پیچھے آ گیا اور لن اس کی چوت پر رکھ کر ایک زور دار گھسا مارا ۔ اور پھر مارتا گیا ۔۔۔ مارتا گیا ۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ مجھے لگا کہ میری ٹانگوں کا سارا خون ایک جگہ جمع ہونے لگا ہے ۔۔۔۔۔ اور میں ۔۔ ۔ ۔ ۔ نے ایک زور دار گھسہ مارا ۔۔۔ یہ میرا گھسہ ۔ ۔ ۔آخری گھسہ ۔ ۔ثابت ہوا اور اس کے ساتھ ہی میرے لن سے منی نکل نکل کر ارمینہ کی چوت میں گرنے لگی ۔۔۔ ادھر ارمینہ کے سانس بھی تیز ہوئے اور اس کی چوت نے میرے لن کو چاروں طرف سے جکڑ لیا ۔۔۔۔۔ اور وہ اپنا نچلا حصہ میرے نچلے حصے کے ساتھ جوڑ کر بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹ میری جان ۔ میراے اندر چھوٹ ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کا جسم بھی ۔۔ کپکپایا ۔۔۔ تھرتھرایا۔۔ اور اس نے ایک زور دار چیخ ماری ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ آہ ۔۔۔۔۔۔ میں گئی ۔ئ ئ ئ ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کی چوت سے گرم گرم پانی بہہ کر میریے لن سے ہوتا ہوا باہر نکلنا شروع ہو گیا اور یہ گرم گرم پانی میرے لن کو مزید گرم کرنے لگا ۔۔۔ کچھ دیر بعد جب ہم مکمل چھوٹ گئے تو وہ پیچھے مڑی اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور میرا منہ ۔۔چومتی گئی ۔۔۔چومتی گئی ۔۔۔چومتی گئی…………
ایک تبصرہ شائع کریں for "استانی جی (قسط 3)"