Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

استانی جی (قسط 4)

 


کافی دیر تک ارمینہ میرے ساتھ لپٹ کر مجھے چومتی رہی پھر وہ بیڈ سےنیچے اتری اور واش روم کی طرف جاتے ہوئے ایک پرانا سا کپڑا میری طرف پھینکتے ہوئے بولی ۔ ۔ ۔۔ یہ لو اور اس سے اپنے وہاں (لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) پر لگا ملبہ صاف کر لو ۔۔ اور میں نے اس سے کپڑالیکر لن اور اس کے آس پاس لگی اپنی اور ارمینہ کی لگی ہوئی منی اچھی طرح صاف کی اور پھر وہ کپڑاپھینک کر جلدی سے پاس پڑے ہوئے اپنے کپڑےاٹھا کر پہن لیئے۔۔۔ اتنی دیر میں ارمینہ بھی واش روم سے واپس آ گئی تھی آتے ساتھ ہی اس نے بیڈ پر رکھی اپنی شلوار پہنی جبکہ قمیض اس نے پہلے ہی پہن رکھی تھی اس کے بعد وہ میری طرف مُڑی اور مجھے اپنے گلے سے لگا کر بولی ۔ ۔ ۔ جان جی ۔۔۔جی تو بہت چاہ رہا ہے کہ تمھارے ساتھ مزید مستیاں کروں ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن مجبوری ہے ۔۔کہ ۔ ۔ ۔۔ گھر والوں کے آنے کا ٹائم بھی ہو گیا ہے اس لئے باقی مستیاں پھرکبھی کریں گے اورپھر اس نے مجھ ہاتھ ملایا اور میں نے اس کے لال گال پر ایک چمی دی اور گھر آ گیا ۔اور راستے میں اس کے بارے میں ہی سوچتا رہا کہ بظاہر وہ کس قدر ریزرو قسم کی لڑکی ہے ۔۔۔ پھر مجھے اس کے سینے کی گولائیاں اور دیگر چیزیں یاد آنا شروع ہو گئیں ۔۔۔ اور اسی اثنا میں ۔۔ میں گھر پہنچ گیا ۔۔۔۔۔اور جاتے ساتھ ہی سیدھا واش روم میں نہانے کے لیئے میں چلا گیا ۔ اور ارمینہ کی تنگ چوت اور خاص کر اس کےلال لال گالوں کا تصور کرتے ہوئے نہانے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ پھر پتہ نہیں کیسے اچانک ہی میرے زہن میں ربے کا خیال آ گیا اور اس کے ساتھ ہی یاد آیا کہ ۔۔۔ مجھے تو لائیبریری بھی جانا تھا ۔ ربے کی سوچ آتے ہی ارمینہ کا تصور جانے کہاں چلا گیا ۔۔۔ اور اس کی جگہ میرے ذہن میں ربے کا منحوسچہرہ آ گیا ۔۔جسے سوچ کر میں خاصہ بے مزہ ہوا ۔۔ اور پھر میں جلدی سے نہا کر ۔۔۔ اس کی دکان کی طرف بھاگا اور راستے میں دعا کرتا رہا کہ اس کی دکان کھلی ہو۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس بہن چود کا موڈ بھی اچھا ہو -
اور جیسے ہی میں ربے کی دکان کے قریب پچاتھ تودُور سے مجھے اس کی دکان بند نظر آئی ۔ ۔ ۔۔ یہ دیکھ کر میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔۔۔ لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو اس کی دکان پر ایک بڑا سا کاغذ چپکا ہوا نظر آیا ۔۔ اور میں چلتے چلتے اس کی دکان پر لگے نوٹس کے پاس پہنچا ۔اور اسے پڑھنے لگا ۔۔۔۔ دوستو ۔۔۔ یقین کرو وہ نوٹس پڑھ کر مجھے ایک عجیب سی کمینی خوشی ہوئی ۔۔۔ اس پر لکھا تھا۔۔
"بوجہ وفات والد صاحب دکان 15 دن کے لیئے بند رہے گی '"
اور نیچے فٹ نوٹ میں ربے نے اپنے گاؤں کا پتہ بھی لکھا تھا جو ضلع ساہیوال کے قریب کا کوئی گاؤں تھا ۔۔ نوٹس پڑھ کر میں نےساتھ والے دکان دار سے پوچھا کہ ربے کے والد صاحب کب فوت ہوئے ہیں ؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگا کہ یہ آج صبع کی بات ہے- اس کے بعد میں اپنے پرانے محلے چلا گیا اور یار دوستوں کے ساتھ خوب گپ شپ لڑا کر رات کو واپس گھر آ گیا ۔۔

اگلی صبع تیار ہو کر جب میں سکول جانے کے لیئے گھر سے نکلا تو میں کشمکش کا شکار ہو رہا تھا کہ ارصلا کو لینے اس کے گھر جاؤں کہ نہ جاؤں ۔۔ کیونکہ ارصلا نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی بڑی باجی اسے چھٹی کروا دے گی پھر سوچا کہ یہ بات تو ارصلا نے مجھے کل بھی بتائی تھی لیکن ارمینہ نے اس کو چھٹی نہ کرنے دی تھی ارمینہ کا نام ذہن میں آتے ہی میرے انگ انگ میں اک جل ترنگ سا بجنے لگا اور میں خود سے یہ کہتا ہوا ارمینہ کے گھر کی طرف چل پڑا کہ ارصلا سکول جائے یا نہ جائے ۔میری بلا سے ۔ میرے جانے سے ارمینہ کا دیدار تو ہو جائے گا نا ۔۔ یہ سوچ کر میں نے نے ارصلا کے گھر کا پردہ ہٹایا اور اندر داخل ہو گیا ۔۔۔ سامنے ہی ماسی پٹھانی کھڑی تھی میں نے اسے سلام کیا اور ارصلا کے بارے میں پوچھا تو وہ بڑی شفقت سے بولی ۔۔۔ بیٹا ارصلا کا موڈ تو چھٹی کا ہے پر تم ارمینہ کو تو جانتے ہی ۔۔۔۔ وہ اسے ایسا نہیں کرنے دے رہی ۔۔۔ اس لیئے ارصلا روٹھ کر چھت پر چلا گیا ہے اور ارمینہ بھی اس کے ساتھ ہی چھت پر موجود ہے اور وہ دونوں چھت پر اسی بات کا فیصلہ کر رہے ہیں ۔۔۔۔ کہ سکول سے چھٹی کی جائے یا نہ ۔۔۔۔ پھر وہ مجھ سے کہنے لگی بیٹا آپ بھی اوپر جا کر اپنے دوست کو کچھ سمجھاؤ۔ ماسی کی بات سُن کر میں ان کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا اور جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھنے لگا ابھی میں آدھی ہی سیڑھیاں چڑھا تھا کہ اچانک مجھے اوپر سےارمینہ آتی دکھائ دی اسے آتے دیکھ کر مجھےشرارت سوجھی اور میں ایک دم سیڑھیوں کے درمیان کھڑا ہو گیا اور جیسے ہی ارمینہ میرے قریب آئی میں نے اپنا سر نیچے کیا اور ارمینہ کی خوبصورت چھاتیوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا ۔۔۔۔ارمینہ کی نرم نرم چھاتیاں میرے ہاتھوں میں تھیں اور میں انہیں بڑے پیار سے دبا رہا تھا ۔۔ حیرت انگیز بات یہ ہے ارمینہ نے میری چھاتیاں پکڑنے پر نہ تو کوئی مزاحمت کی تھی اور نہ ہی وہ منہ سے کچھ بولی ۔۔۔۔۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے اپنی چھاتیوں کو برا سے نہیں ڈھکا ہوا تھا سو۔ ۔ ۔ ۔ اس کی پتلی سی قمیض کے اوپر سے ہی میں نے اسکے گول گول اور نرم مموں کو پکڑ کرخوب دبایا ۔۔اور پھر ۔۔۔۔۔۔پھر دوسرے ہی لمحے میں اپنا ایک ہاتھ اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ لے گیا اور اس کی چوت سے اپنا ہاتھ ٹچ کر دیا ۔۔۔ یہ سب میں نے اتنی جلدی میں اور آناً فانناً کیا کہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اس سے قبل کہ وہ مجھ سے کچھ کہتی یا کوئ ری ایکشن دیتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں جلدی سے سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر کی طرف بھاگ گیا ۔۔۔۔
جیسے ہی میں چھت پر پہنچا ۔ ۔۔ ۔۔ تو سامنے ہی ارصلا کھڑا تھا اور اس کے ساتھ ۔۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔ اس کے ساتھ ارمینہ کھڑی تھی ۔۔۔۔۔ ارمینہ کو ارصلا کے ساتھ کھڑے دیکھ کر کچھ دیر تو میں ششدر کھڑا اس کو دیکھتا رہا اور پھر یاد آیا کہ اگر ارمینہ یہاں کھڑی ہے تو وہ ۔۔۔ وہ ۔۔ لڑکی جس کے میں نے ابھی ابھی ممے دبائے ہیں ۔۔۔ تو وہ کون تھی ۔۔۔۔۔ ہو نہ ہو وہ ۔۔۔۔ ارصلا اور ارمینہ کی بڑی بہن مرینہ ہو گی ۔۔۔تو۔۔ تو ۔۔تو ۔۔کیا میں نے ارمینہ کی جگہ مرینہ کے ممے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔ اُٖف ف ف ففف ۔۔ یہ بات سوچتے ہی میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ گئی اور میری ٹانگیں جواب دیں گئیں ۔۔ اور کانوں میں سیٹیاں سی بجنے لگیں اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ ۔ ۔ خیر میں گرتا پڑتا ان کے پاس پہنچا اور ان کے پاس چپ چاپ کھڑا ہو گیا ۔۔۔ ارمینہ جو میری طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔۔مجھے دیکھ کر ۔۔ تھوڑا فکر مندی سے بولی ۔ خیر تو ہے نا ؟؟ کافی پریشان لگ رہے ہو ؟؟ ۔۔ تو میں جواباً ایک نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا ۔ جی ۔۔ میں ۔۔ ۔میں ۔ ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی اگر تم ٹھیک ہو تو یہ تمھارے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں ؟ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا ارصلا کہنے لگا بھائی آپ جاؤ میں آج چھٹی کروں گا ۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر ارمینہ اس سے کہنے لگی ۔۔۔۔ ارصلا پلیز ۔ ۔ !!! تم پہلے ہی پڑھائی میں کافی کمزور ہو ۔۔۔ لیکن ارصلا نے اس کی بات سنی ان سنی کرتےہوئے بولا ۔۔۔جب مرینہ باجی نے بھی چھٹی کا کہہ دیا ہے توآپ کو کیا تکلیف ہے ؟؟؟؟؟؟ ۔ ۔تو ارمینہ بولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو چندا ۔۔ابھی ارمینہ نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کی پیچھے سے ماسی کی آواز آئی وہ ارمینہ سے کہہ رہی تھی کہ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹا کیوں ضد کر رہی ہو ارصلا کو چھٹی کرنے دو نا ۔۔۔۔۔ بھلا ایک دن کی چھٹی سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔ بیٹا آپ کے آنے کا بہت شکریہ ۔۔۔ ارصلا آج چھٹی کرے گا تمہیں سکول سے دیری ہو رہی ہو گی تم جاؤ ۔۔ اور میں ماسی کی بات سُن کر واپس مڑا اور تیزی سے ان کے گھر سے باہر نکل گیا کیونکہ میرے دل میں مرینہ کا شدید خوف تھا۔۔ سکول جاتے ہوئے سارے راستے میں ، میں اسی حادثے کے بارے میں سوچتا اور خود کو کوستا رہا ۔۔۔۔ لیکن اب پچھتائے ۔۔۔ کیا ہو سکتا تھا ۔۔۔

سکول پہنچ کر بھی یہ واقعہ میرے دماغ سے چپکا رہا اور میرے سارے وجود پر ایک عجیب انجانا سا خوف طاری رہا اسی لیئے چھٹی کر کے میں سیدھا گھر گیا اور پھر وہاں سے اپنے پرانے محلے چلا گیا اور شام کو واپس آیا تو گھر والوں نے بتلایا کہ ارصلا دو تین چکر لگا چکا ہے ۔۔۔چونکہ صبع والی بات کے حوالے سے میرے دل میں چور تھا اس لیئے ان کی یہ بات سُن کر میری تو گانڈ ہی پھٹ گئی چنانچہ جلدی سے کوئی بہانہ بنا کر گھر سے باہر چلاگیا کہ اب میں رات کو ہی گھر آؤں گا ۔۔۔ ابھی میں اپنے گھر سے باہر ہی نکلا تھا کہ سامنے سے مجھے ماسی پٹھانی آتی ہوئی دکھائی دی ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی بولی ۔۔۔ ارے بیٹا کہاں رہ گئے تھے تم ۔۔۔؟ میں نے تین چار دفعہ ارصلا کو بھیجا لیکن پتہ چلا کہ تم گھر پر نہیں ہو اور اب میں خود آئی تو تم کہیں جا رہے ہو ۔۔ اس کی بات سن کر پتہ نہیں میں کیا سمجھا اور بولا ۔۔ وہ ۔۔وہ ۔۔ ماسی ۔۔ میں ایک کام سے گیا تھا ۔۔۔ تو وہ بولی چلو کوئی بات نہیں ۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بڑی شفقت سے کہنے لگی ۔تم کافی پریشان سے لگ رہے ہو ۔۔۔ بیٹا خیریت تو ہے نا ؟ ۔۔۔پھر کہنے لگی اگر کوئی ایسی بات ہے تو مجھے بتاؤ ؟ اور اب میں اس کو کیا بتاتا کہ صبع اس کی چھوٹی بیٹی کے بھلیکھے میں ،میں اس کی بڑی بیٹی کے ممے دبا بیٹھا ہوں ۔اور ا س کی چوت پر بھی ہاتھ لگا بیٹھا ہوں ۔۔ اور اب ڈر کے مارے میری گانڈ پھٹی جا رہی ہے ۔۔لیکن نہ کہہ سکا اور کہا تو بس اتنا کہ نہیں ماسی ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ اور پھر میں نے ان سے کہا حکم کریں ۔۔ماسی کہ میں نے سنا ہے کہ آپ مجھے یاد کر رہیں تھیں ۔۔۔ ؟؟ تو وہ سر ہلا کر بولی ہاں بیٹا اصل میں بات یہ ہے کہ مرینہ کو ایک بڑے ہی ضروری کام سے ہمارے رشتے دار کے گھر جانا ہے اور اس کے دا جی (والد صاحب) کے پاس ٹائم نہیں ہے جبکہ میں نہ تو خود وہاں جانا چاہتی اور نہ ہی کسی بیٹے یا بیٹی کو اس کے ساتھ ان رشتے داروں کے گھر بھیجنا چاہتی ہوں اور مصیبت یہ ہے کہ اس کے دا جی اس کو اکیلا بھی نہیں جانے دے رہے تو ایسے میں ایک تم ہی مجھے نظر آئے جو کہ جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ تم بائیک بھی چلانا جانتے ہو اس لیئے میں تمہیں مرمینہ کے ساتھ لال کُڑتی تک بھیجنا چاہ رہی تھی ۔۔۔مرینہ کے ساتھ جانے کا سُن کر بے اختیار مجھے پنجابی کا ایک محاورہ یاد آ گیا کہ "موسیٰ ڈریا موت کولوں تے موت اگے کھڑی "۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میں صبع سے جس خاتون سے بچتا پھر رہا تھا تقدیر مجھے اسی کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ اب میں نے آخری چارے کے طور پر ماسی کے سامنے تھوڑا سا ہیچر میچر کیا لیکن شاید ان کا بھی کام کام ضروری تھا ۔۔ اس نے میری ایک نہ سُن ی اور ۔۔۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔۔۔ میں ماسی کے ساتھ اس کے گھر کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔۔

ماسی کے گھر پہنچ کر اس نے مجھے ڈرائینگ روم میں بیٹھنے کو کہا اور خود دوسرے کمرے میں چلی گئی تھوڑی ہی دیر بعد میرے سامنے مرینہ کھڑی تھی ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ مرینہ اور ارمینہ کا جسم ، قد کاٹھ بلکل ایک جیسا تھا (تبھی تو صبع میں نے دھوکا کھایا تھا ) چہرہ البتہ دونوں کا مختلف تھا جیسے ارمینہ کے گال قدرتی لال تھے اور مرینہ کے گال گورے تھے ان میں لالگی نہ ہونے کے برابر تھی اسی طرح مرینہ کی آنکھوں میں ایک شرارت ناچتی تھی اور ارمینہ کی آنکھوں میں گہری اداسی نظر آتی تھی اسی طرح مرینہ کا چہرہ بیضوی تھا جبکہ ارمینہ کا قدرے لمبوترا تھا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ مرینہ نے میری طرف ایک گہری نظر سے دیکھا اور ماسی سے بولی اچھا تو اس لڑکے نے میرے ساتھ جانا ہے ؟ تو ماسی سر ہلا کر بولی ۔۔۔ ہاں یہی وہ معشوم (لڑکا) ہے جو تمہارے ساتھ جائے گا اور پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔ بچارہ بڑا ہی نیک اور اچھا لڑکا ہے پھر ماسی مجھ سے مخاطب ہو کر بولی بچہ جلدی سے جا کر موٹر سائیکل سٹارٹ کرو ۔۔ اور میں ڈرائینگ روم سے نکل کر ان کے برآمدے میں آ گیا جہاں ان کے دا جی کا موٹر سائیکل کھڑا تھا اور اس پر ایک بڑا سا کپڑا پڑا ہوا تھا میں نے وہ کپڑا وہاں سے ہٹایا اور بائیک کو کک ماری تو وہ پہلی کک پر ہی سٹارٹ ہو گیا چنانچہ میں اس پر بیٹھ گیا اور اسے گرم کرنے کی نیت سے ہلکی ہلکی ریس دینے لگا ۔ کچھ دیر بعد جب مرینہ کمرے سے باہر نکلی تو وہ سر تا پا ایک بڑی سی چادر سے ڈھکی ہوئی تھی اور اس نے اپنے چہرے پر نقاب بھی کیا ہوا تھا ۔ وہ چپ چاپ میرے پیچھے بیٹھ گئی اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی چلو ۔۔! اور میں نے موٹر سائیکل چلا دی ماسی نے پہلے سے ہی دروازہ کھولا ہوا تھا ۔۔۔ میں موٹر سائیکل بھی چلا رہا تھا اور اس بات پر بھی بڑا حیران ہو رہا تھا کہ میں نے اس کے ممے دبائے اور اس نے ابھی تک مجھے کچھ بھی نہیں کہا اور نہ اس نے ابھی تک میری کوئی شکایت وغیرہ لگائی تھی ۔۔۔ اس کی خاموشی مجھے بُری طرح چُبھ رہی تھی ۔۔ اور میں اندیشہ ہائے دور دراز میں کھویا بائیک چلا رہا تھا ۔۔۔ جب ہم لیاقت باغ کے قریب پہنچے تو میں نے پہلی دفعہ مرینہ کی آواز سُنی وہ کہہ رہی تھی کہ ذرا بائیک کو لیاقت باغ کے اندر لے چلو !۔۔۔ اس کی آواز سُن کر میں تھوڑا کنفیوز ہوا اور بولا ۔۔۔ لیکن ماسی جی تو کہ رہی تھیں کہ ہم نے لال کڑتی جانا ہے ؟ تو میری بات سُن کر وہ بولی ۔۔ ہاں ہم نے جانا تو لال کُڑتی ہی ہے ۔۔۔ لیکن فی الحال تم بائیک کو لیاقت باغ لے جاؤ ۔۔شام کا وقت تھا ۔۔ ہلکا ہلکا اندھیرا چھا رہا تھا جب ہم لیاقت باغ کے اندرنسبتاً ایک ویران سےگوشے میں واکنگ ٹریک کے ساتھ لگے بینچ پر جا کر بیٹھ گئے ۔۔ اندر سے تو مجھے کچھ کچھ اندازہ تھا ۔۔۔ کہ چکر کیا ہوسکتا ہے ۔۔۔ لیکن پھر بھی بینچ پر بیٹھتے ہی میں نے اس سے کہا ب ہم یہاں کیوں آئے ہیں باجی ؟؟ ؟ میری بات سُن کر تو وہ جیسے پھٹ پڑی اور بڑے ہی زہر آلود لہجے میں بولی ۔۔

اچھا تو اب یہ بھی مجھے بتانا پڑے گاکہ ہم لوگ یہاں کیوں آئے ہیں ؟ تو میں نے۔۔ جو سب سمجھ چکا تھا ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا ۔۔ سوری ۔۔۔ میں سمجھا نہیں ؟ تو وہ ایک دم غصے میں آ گئی اور کہنے لگی ۔۔۔ ۔۔۔ ابھی بتاتی ہوں بہن چود !! ۔۔۔ اس کے منہ سے اتنی بڑی مردانہ گالی سن کر میرا تو پتِہ پانی ہو گیا ۔۔لیکن میں نے ۔ بڑا ہی مسکین سا منہ بنا کر کہا ۔۔۔ میں نے کیا کیا ہے باجی ؟؟؟؟ ۔۔۔ تو وہ ایک دم غصے سے بولی ۔۔۔ بہن چود کے بچے ۔۔۔ ۔۔۔ صبع تم نے میرے ساتھ کیا حرکت کی تھی ؟؟ ۔۔۔۔ اس کی بات سن کر اور اس کا غصہ دیکھ کر میں نے معافی مانگنے میں ہی عافیت جانی اور بولا ۔۔۔ وہ باجی مجھ سے غلطی ہو گئی تھی پلیز معاف کر دیں اور ساتھ ہی اپنے دونوں ہاتھ جو ڑ دیئے ۔۔ مجھے یوں معافی مانگتے دیکھ کر شاید اس کو کچھ ترس آ گیا اور وہ بولی ٹھیک ہے میں تم کو معاف کر سکتی ہوں ۔۔۔۔ لیکن ایک شرط پر ۔۔ تو میں نے جھٹ سے کہہ دیا باجی مجھے آپ کی ہر شرط منظور ہے ۔۔ میری بات سن کر وہ قدرے تیزی سے بولی پہلے سُن تو لے سالے ۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ یہ جو حرکت صبعتم نے مجھ سے کی تھی ۔۔۔ سچ بتا ۔۔ تم نے مجھے ارمینہ سمجھا تھا نا ؟ اب میں پھنس گیا تھا ۔۔۔۔ سچ بتاتا ۔۔ تو مرتا ۔۔۔ جھوٹ بولتا تو مرتا ۔۔۔ پھر میں نے سوچا کہ جب مرنا ہے تو۔۔۔کیوں نہ میں جھوٹ بولوں کہ اس طرح کم از کم ارمینہ کی تو جان بچ سکتی تھی ۔۔ چنانچہ میں نے مرینہ کی طرف دیکھا اور ۔۔۔ اور بولا۔۔۔ نہیں باجی ۔۔۔ وہ میں ۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں فقرہ مکمل کرتا اس نے مجھے تھپڑ مارنے کے لیئے اپنا ہاتھ اُٹھا یا اور بولی ۔۔۔۔ حرامزادے۔۔۔ !!! سچ سچ بتا ۔۔۔۔ ورنہ ابھی ایک دوں گی نا ۔۔۔تو تم کو نانی یاد آ جائے گی۔ میرے دل میں چونکہ پہلے سے ہی چو رتھا اس لیئے میں اس کی ڈانٹ سُن کر ڈر گیا اور آئیں بائیں شائیں کرنے لگا ۔لیکن جب اس نے دوبارہ کڑک لہجے میں کہا تومیں اور بھی ڈر گیا اور اس سے بولا ۔۔۔ وہ ۔۔باجی ۔۔ وہ باجی ۔۔ اور پھر ایک اور ڈانٹ سن کر میں نے اس کو الف سے یے تک ساری سٹوری سنا دی لیکن یہاں بھی ارمینہ کو چودنے اور کچن میں ہونے والا واقعہ گول کر گیا ۔۔۔ جب میں اس کو سٹوری سنا رہا تھا تو اچانک وہ درمیان میں بولی ۔۔۔ یہ بتاؤ ۔۔ اس کے ساتھ تم نے ابھی تک " وہ والا " والا کام کیا ہے یا نہیں ؟ ؟ تو میں نے کہا کہ نہیں باجی ابھی تو ہماری کہانی شروع ہی ہوئی ہے ۔
میری سٹوری سُن کر وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گئی اور پھر کافی دیر تک سوچنے کے بعد بولی چلو اب تم مجھے لال کڑتی لے چلو ۔۔۔۔ چانچہ جیسے ہی میں اُٹھا ۔۔۔ اس نے ایک دم مجھے بازو سے پکڑکے نیچے بٹھا دیا اور پھر اسی خونخوار لہجے میں بولی ۔۔۔ دیکھو ۔۔۔!!! ارمینہ کے ساتھ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو میرا اس کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔۔۔ تم نے میرے ساتھ ایسی حرکت کی تھی اس لیئے میں نے تم سے یہ وضاحت مانگی ہے ۔۔۔ پھر وہ اچانک مکا لہرا کر ۔۔۔ بولی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ خبردار ۔۔ یہ جو تیرے اور میرے بیچ بات ہوئی ہے اس کی بِھنک بھی ارمینہ کو نہیں پڑنی چاہیئے ۔۔۔ اور پھر مزید آنکھیں نکال کر بولی ۔۔۔۔ میری بات سمجھ گئے ہو نا ۔۔۔ تو میں نے کہا جی میں آپکی بات اچھی طرح سے سمجھ گیا ہوں ۔۔۔۔ تو اس دفعہ وہ تھوڑا نرم لہجے میں کہنے لگی کہ دیکھو میں تمھارے اور اس کے معاملے میں بلکل نہیں پڑنا چاہتی ۔اور نہ ہی مجھے اس سے کچھ غرض ہے ۔۔ اور پھر مجھے اُٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ بات ابھی اور اسی وقت ختم سمجھو ۔۔۔ آج کے بعدہم اس بارے میں کوئی گفتگو نہیں کریں گے ۔ اس کے بعد ہم لالکڑتی چلے گئے ۔۔۔۔ یہ لالکڑتی سے واپسی کی بات ہے کہ مین سڑک پر اچانک ایک گدھا گاڑی والا میرے سامنے آ گیا اور میں نے بڑی مشکل سے موٹر سائیکل کو ادھر ادھر کے ایک تنگ سے راستے سے بائیک گزاری ۔۔۔ اس وقت تو مرینہ کچھ نہیں بولی لیکن جیسے ہی بائیک تھوڑا آگے بڑھی تو ۔۔ اچانک وہ پیچھے سے کہنے لگی ۔۔ بات سُنو !!۔۔۔ تم وہاں بریک لگا کر رُک بھی سکتے تھے پھر یہ اتنا رسک لینے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو میں نے کہا کہ ۔۔۔ وہ باجی اچانک بریک لگانے سے آپ ناراض بھی ہو سکتی تھی اس لئے میں نے یہ رسک لیا تھا ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ بولی ۔۔۔ اس میں ناراض ہونے کی بھلا کون سی بات تھی ؟ میں پیچھے بیٹھی یہ سب کچھ خود بھی تو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ پھر وہ میری بات کی تہہ تک پہنچ کر بولی ۔۔۔ بیٹا ہمیں سب پتہ چلتا ہے کہ کب بریک ضرورتاً لگائی گئی ہے اور کب غیر ضروری طور پر۔۔۔ اس لئے تم اس بات کی فکر نہ کیا کرو۔۔۔ اور ضرورت کے مطابق کام کیا کرو ۔۔ خواہ مخواہ رسک لینے کی کوئی ضرورت نہ ہے ۔۔

ہمیں گھر پہنچے پہنچتے رات کے ۔دس گیارہ بج چکے تھے ۔۔چنانچہ جیسے ہی ہم گھر میں داخل ہوئے تو سامنے ہی ماسی اور ارمینہ کھڑی تھیں ۔۔۔ خیر خیریت کے بعد ماسی نے سب سے پہلے مرینہ سے میرے بارے میں سوال کیا تو مرینہ کہنے لگی ۔۔۔ بہت اچھا لڑکا ہے اور بڑی ہی میچور بائیک چلاتا ہے ۔۔ یہ کہہ کر وہ جلدی سے واش روم میں گُھس گئی اور ماسی کچن میں جاتے ہوئے ارمینہ سے بولی ۔۔۔ ارمینہ بھائی کو باہر چھوڑ کر دروازہ لاک کر لو ۔۔۔ جبکہ ارمینہ وہیں کھڑی رہی پھر میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہولے سے بولی ۔۔۔ بات سنو ۔۔!! مرینہ کے سامنے نہ تو تم نے مجھ سے زیادہ بات کرنی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی ویسی حرکت ۔۔۔ اتنے میں دروازہ آ گیا تو وہ مجھے باہر نکال کر ایک دفعہ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔۔ میری بات سمجھ گئے ہو نا ؟؟ تو میں نے اس سے کہا جی میں اچھی طرح سے سمجھ گیا ہوں ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ مطمئن ہو گئی اور اس نے ہاتھ ملانے کی غرض سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا یا اور بولی۔۔۔ اوکے اب تم جاؤ ۔۔۔ وہ دروازے کے اندر اور میں باہر کھڑا تھا اور میرے پیچھے پردہ لگا ہوا تھا سو کسی کے دیکھنے کا ہر گز کوئی چانس نہ تھا چنانچہ جیسے ہی اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کی طرف بڑھایا میں نے اس کو اپنی طرف کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور جلدی سے اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے اور ایک زبردست ۔۔۔ اور گیلی سی کس دینے لگا ۔۔اس نے ایک جھٹکےسے خود کو مجھ سے الگ کیا اور اپنے ہونٹ کہ جن پر میرا تھوڑا سا تھوک لگا رہ گیا تھا صاف کر کے بولی ۔۔ بد تمیز ۔۔۔ اور دھڑام سے دروازہ بند کے اندر چلی گئی۔۔۔

اگلے ایک دو دن میں روٹین کے مطابق ماسی کے گھر جاتا رہا اور ارصلا کو ساتھ لیکر سکولے جاتا اور لاتا رہا ۔۔ہاں اصلا کو ساتھ لے جاتے وقت اگر مرینہ اُٹھی ہوتی تو ۔مجھ سے بڑی گرم جوشی سے ملتی ۔۔۔ لیکن وہ اس ٹائم سوئی ہوتی تو واپسی پر مجھ سے ضرور گپ شپ کرتی اس کے بر عکس ارمینہ ہمارے آنے کے ٹائم سے پہلے ہی کہیں ادھر ادھر ہو جایا کرتی تھی ۔۔۔ پتہ نہیں وہ اس قدر محتاط کیوں تھی ؟؟؟ جبکہ اس کی بڑی بہن بڑی ہی دبنگ اور کافی کھلی ڈھلی تھی ۔۔دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ لیکن میرا یہ حال تھا کہ جب تک میں ارمینہ کو دیکھ نہ لوُں مجھے سکون نہ ملتا تھا اس لئے میں شام کو بھی گاہے ان کے گھر چکر لگاتا رہتا تھا ۔۔ جہاں ارمینہ تو نہیں البتہ مرینہ سے گپ شپ ضرورہو جایا کرتی تھی بلکہ اب تو مرینہ سے بہت اچھی دوستی بھی بن گئی تھی ۔۔ لیکن اس کے باوجود اس دن کے بعد ۔۔۔ پھر کبھی اس نے بھولے سے بھی میرے اور ارمینہ کے تعلقات کے بارے میں کوئی بات نہ کی تھی-سالی بات کی بڑی پکی تھی ۔۔
ایک دن کی بات ہے کہ میں ارصلا کے ساتھ اس کے گھر پہنچا تو گرمی کی وجہ سے ہم دونوں کا پیاس سے بُرا حال تھا ۔ ہم گھر میں داخل ہوئے تو حسبِ معمول ماسی نے ہمارا استقبال کیا لیکن مرینہ کہیں دکھائی نہ دی ورنہ عام طور پر مرینہ بھی ماسی کے ساتھ ہی ہوتی تھی چونکہ اس دن گرمی کچھ ذیادہ ہی سخت تھی اس لیئے میرا خیال ہے وہ اندر کمرے میں ہو گی جبکہ ارمینہ کو حسبِ معمول کچن میں ہونا چایئے تھی ۔ ماسی تو ہمیں پیار وغیرہ کر کے باہر نکل گئی کہ اس کا گھر میں بیٹھنا ویسے بھی دشوار ہوتا تھا ۔ گرمی کے دن تھے اور مجھے بڑی سخت پیاس محسوس ہو رہی تھی اور یہی حال ارصلا کا بھی تھا چنانچہ جیسے میں نے پانی کا ذکر کیا ۔تو اس زکر کے ساتھ ہی ۔ ارصلا اور میں نے ٹھنڈا پانی پینے کے لیئے کچن کی طرف دوڑ لگا دی ۔۔۔ ارصلا چونکہ مجھ سے تھوڑا آگے کھڑا تھا سو وہ مجھ سے پہلے کچن میں پہنچ گیا اور جلدی سے گلاس اٹھا کر جو کہ کولر کے پاس ہی پڑا ہوتا تھا پانی ڈالنے لگا اس لئے جب میں کچن میں پہچا تو وہ کولر سے پانی ڈال رہا تھا سو میں اس کے پاس کھڑا ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔۔۔ اسی دوران اچانک ہی میری نظر ارمینہ پر پڑی ۔۔۔ جو ہم سے بے نیاز کوئنٹر پر جھکی غالباً آلو چھیل رہی تھی ۔ چونکہ یہ ہمارا تقریباً روز کا ہی رولا ہوتا تھا اس لیئے عام طور پر اس نے کبھی ہمارا نوٹس نہ لیا تھا اور خاص کر جب سے مرینہ ان کے گھر آئی تھی تو اس کا رویہ مجھ سے کچھ یوں ہو گیا تھا ۔۔کہ جیسے جانتے نہیں ۔۔۔ اس معاملے میں وہ آخری حد تک محتاط خاتون تھی ۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ارصلا تو کولر سے پانی ڈال رہا تھا اور میری نظر اتفاق سے ارمینہ سے ہوتی ہوئی اس کی گانڈ کی طرف چلی گی وہ کچھ اس ادا سے کائنٹر پر جھکی آلو چھیل رہی تھی کہ اس کی موٹی سے گانڈ خاصی سے زیادہ باہر کو نکلی ہوئی تھی اوپر سے غضب یہ تھا کہ اس کی قمیض بھی گانڈ والی جگہ سے ہٹی ہوئی تھی ۔۔ جس کی وجہ سے اس کی بُنڈ کے دونوں پٹ بہت ہی نمایاں نظر آ رہے تھے ۔۔۔ جس کو دیکھ کر میں ۔۔ تو ۔۔۔ پاگل سا ہو گیا ۔اس کی گانڈ کے کریک کو دیکھ کر میرے منہ میں پانی بھر آیا ۔ وہ تو مگن ہو کر اپنا کام کر رہی تھی اور غالباً اسے اس بات کا اندازہ بھی نہ تھا کہ ا س کی گانڈ پیچھے سے کیسا غضب ڈھا رہی ہے ۔۔ ارمینہ کی یہ حالت دیکھ کر بے اختیار میرا ہاتھ اس کی خوبصورت گانڈ کی طرف رینگ گیا ۔۔ لیکن ۔۔۔ اس سے پہلے میں نےکن اکھیوں سےایک نظر ارصلا پر ڈالی تو وہ زمین پر اکڑوں بیٹھا پانی پی رہا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں غیر محسوس طریقے سے کھسکتاہوا کولر کی اس طرف ہو گیا کہ جہاں پر ارمینہ اپنی بڑی سی گانڈ نکالے آلو چھیل رہی تھی ۔۔۔ اب میں نے ایک نظر ارصلا کی طرف دیکھا تووہ تقریباً پانی پی چکا تھا اور اب دوسرا گلاس بھرنے کی تیاری کر رہا تھا ۔۔۔ سو میں اس کی طرف سے تھوڑا مطمئن ہو گیا اور پھر میں نے اپنا بائیاں ہاتھ آگے کیا ۔۔۔ اور ارصلا کی طرف دیکھتے ہوئےبڑی ہی آہستگی سے اپنے ہاتھ کو ارمینہ کی گانڈ کی طرف لے گیا اور بڑی آہستگی سے اپنے ہاتھ کو وہاں رکھ دیا ۔۔آہ۔ہ۔ہ۔ہ ۔۔ ارمینہ کی گانڈ بڑی ہی نرم تھی ایسے جیسے روئی کا کوئی گال ہو ۔۔چنانچہ اس کی گانڈ پر ہاتھ لگاتے ہی ۔ میں تو مست ہو گیا اور میرا سارا بدن مستی میں ڈوب گیا ۔اور ارمینہ کی گانڈ پر مساج کرنے لگا ۔۔گانڈ پر مساج کرتے کرتے ۔ میں نے ارصلا کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہی احتیاط سے اپنی دو انگلیاں ارمینہ کی گانڈ کے چھید میں دے دیں ۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف جیسے ہی میں نے انگلیاں اس کی گانڈ کے چھید میں ڈالیں تو ایسا لگا کہ جیسے اس نے اپنی ٹانگیں تھوڑی سی اور کھول لیں ہوں ۔۔۔ اور میں نے اپنی انگلیاں اس کی گانڈ کے چھید کے آس پاس پھیرنی شروع کر دیں ۔۔۔ اس کا چھید نرم اور اندر سے بہت گرم تھا ۔۔۔ اتنا گرم کہ اس کی گرمی میرے لن تک آ گئی تھی اور میرا لن کھڑا ہو کر بار بار جھٹکے کھانے لگا ۔۔۔ ادھر میںاپنی انگلیوں کی مدد سے بڑی ہی نرمی اور ملائمت سے اس کی گانڈ کے چھید کے بیچ مساج کر رہا تھا ۔۔۔اور میرا سارا وجود ۔۔۔ ۔ ۔ اس کی چھید کی گرمی سے مزید گرم ہو رہا تھا ۔۔اور ساتھ ساتھ میرا ۔ لن بھی جھٹکے کھا رہا تھا لیکن میری ساری توجہ لن سے زیادہ اس کی نرم گانڈ کی طر ف تھی ۔۔۔ اس وقت تک ارصلا پانی پی کر جا چکا تھا اور مجھے پانی پینے کا کوئی ہوش نہ تھا بلکہ میں تو مست ہو کر مسلسل گانڈ کو سہلا رہا تھا ۔۔ اچانک مجھے پتہ نہیں کیا ہوا کہ میں نے جوش میں آ کر اپنی ایک انگلی اس کے چھید کے عین درمیان اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور انگلی کو اس سوراخ کے اندر گھسانے کی کوشش کرنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ تب اچانک وہ پیچھے کی طرف مڑی اور ۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھ بولی ۔۔۔ آں آں ۔۔۔سوری دوست رانگ نمبر ۔۔ ۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔ اوہ ۔۔ میں جس کو ارمینہ سمجھ کے چھیڑخانی رہا تھا ۔۔ وہ ۔ ۔ ۔ وہ ۔۔ وہ ۔ ۔ تو ۔ ارمینہ نہیں بلکہ مرینہ تھی ۔۔۔ارمینہ کی جگہ مرینہ کو دیکھ کرمجھے بڑا سخت شاک لگا اور میرا تو رنگ ہی اُڑ گیا اور اس سے پہلے کہ میں کوئی بات اپنی صفائی میں کہتا وہ مجھ سے بنا کوئی بات کئے کچن سے باہر نکل گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں ہکا بکا ہو کر اسے جاتا دیکھتا رہا ۔۔۔ اور پھر جیسے ہی و ہ باہر نکلی کچھ ہی دیر بعد میں بھی وہاں سے تقریباً بھاگتا ہو ا وہاں سے نکل گیا اور گھر آ کر دم لیا ۔۔۔۔

گھر آ کر میں اپنے کمرے میں لیٹ گیا اور اس واقعہ کے بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔۔ جیسے جیسے میں اس واقعہ پر غور کرتا گیا مجھ پر ایک عجیب سا ۔۔ ۔ ۔ انکشاف ۔۔۔۔۔۔ ہوتا گیا ۔اور اچانک میرے دماغ میں ایک بات ایسی بات آئی کہ میں ۔۔۔ جو لیٹا ہوا تھا ایک دم اُٹھ کر بیٹھ گیا اور ۔۔۔ اسی بات پر غور کرتا گیا ۔۔۔ وہ بات جو میرے دماغ میں آئی تھی وہ یہ تھی کہ ارمینہ کی جگہ وہاں مرینہ وہاں کیوں تھی؟ کیونکہ میں نے اس کو کچن میں کم کم ہی دیکھا تھا اور خاص طور پر جب ہم سکول سے واپس آتے تھے تو اس وقت تو ارمینہ ہی ہانڈی روٹی کرتی تھی ۔۔۔ آج مرینہ کیوں ؟ دوسری بات یہ کہ میں نے اس کی گانڈ پر کافی دیر تک مساج کیا تھا ۔۔۔ وہ اس وقت کیوں نہیں بولی تھی ؟ وہ چاہتی تو جب میں نے پہلے دفعہ اس کی گانڈ پر ہاتھ رکھا تو ۔۔۔۔۔ تو۔۔ اس کو اسی وقت مجھے منع کر سکتی تھی ۔۔لیکن اس نے مجھے منع نہیں کیا ۔۔۔ کیوں نہیں کیا ؟ اور کیوں اس نے میری انگلیوں کو اپنی موسٹ پرائیوٹ جگہ (گانڈ کا سوراخ ) تک رسائی دی ؟ اور جب میں نے انگلی اس کے سوراخ میں دینا چاہی تو اس وقت ہی ۔۔ وہ کیوں بولی ؟ اس سے پہلے کیوں نہ بولی ۔؟؟؟؟؟؟۔۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا بھی تو صرف اتنا ۔۔۔ کہ ۔ ۔ آں آں ۔۔۔ رانگ نمبر ۔۔۔۔۔ مجھے اس گستاخی پر ذرا بھی نہیں ڈانٹا ۔۔۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ جیسے جیسے میں اس کی کیا وجہ ہے پر غور کرتا گیا مجھ پر انکشاف ہو تا گیا ۔۔۔ کہ اس کا مطلب ہے کہ۔۔۔ ہے کہ ۔۔۔۔۔مرینہ بھی ۔۔۔۔ یس س۔س۔س سس ۔۔۔ اور پھر میں نے دل ہی دل میں اس بارے میں ایک فیصلہ کیا اور مطمئن ہو کر اپنے دوستوں سے ملنے باہر نکل گیا ۔۔۔۔
تقریباً 10 یا ساڑھے دس کا وقت کا تھا جب ارصلا ہمارے گھر آیا تواس وقت میں دینا کا سب سے بور کام یعنی کہ ہوم ورک کر رہا تھا اس نے آتے ساتھ ہی مجھے کہا کہ بھائی تم کو ابھی اور اسی ہمارے گھر میں بلایا جا رہا ہے اس پر میں نے اس سے پوچھا کہ خیریت تو ہے نا ؟ تو وہ کہنے لگا بھائ جان خیریت نہیں ہے تو آپ کو بلانے آیا ہوں نا ۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے ہوم ورک چھوڑا اور امی کو بتا کر اس کے ساتھ چلا گیا ۔۔جب میں اس کے گھر پہنچا تو برآمدے میں مرینہ اور ماسی بے چینی سے ٹہل رہیں تھیں۔ میرے جاتے ہی ماسی تیزی سے بولی بچہ جلدی سے بائیک اسٹارٹ کرو تمھارے ساتھ مرینہ نے ایک بڑے ضروری کام سے جانا ہے میں نے سوالیہ نظروں سے مرینہ کی طرف دیکھا تو وہ بھی جلدی سے بولی تم بائیک سٹارٹ کرو میں تم کو راستے میں بتاؤں گی اس کی بات سُن کر میں چُپ چاپ بائیک کر طرف گیا اور اور اسے سٹارٹ کر کے مرینہ کے پاس لے گیا اس نے جلدی سے جمپ ماری اور میرے پیچھے بیٹھ کر بولی ۔۔۔ ذرا جلدی چلو ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ جانا کہا ں ہے تو وہ کہنے لگی سی ایم ایچ جانا ہے اور پھر مجھ سےبولی ۔۔۔ تم نے سی ایم ایچ ہسپتال دیکھا ہے نا ؟ تو میں نے اثبات میں سر ہلا کر کہا کہ جی دیکھ ہے اور ۔۔۔پھر ہمارا بائیک CMH کی طرف چل پڑا ۔۔راستے میں میرے پوچھے پر مرینہ نے بتلایا کہ اس کے ایک سسرالی رشتے داروں میں سے ایک بابا جی وہاں پر داخل ہیں اور ان بابا جی کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے کل ایمر جنسی میں ان کا آپریشن تجویز کیا ہے اور آپریشن کرنے کے لیئے جو پیسے ڈیمانڈ کئے گئے ہیں اس وقت اُتنی رقم ان کے پاس موجود نہ ہے اور رقم انہوں نے کل صبع ہر صورت میں جمع کرانی ہے اور وقت ہم لوگ وہ رقم ان لوگوں کو دینے جا رہےہیں ۔۔۔ اور چونکہ مرینہ کے ابا نامعلوم وجوہات کی وجہ سے وہاں جانا نہ چاہتے تھے اس لئے ۔ اس لیئے میری خدمات حاصل کی گئیں ہیں ۔باتیں کرتے کرتے ۔جب میں ہم لوگ لیاقت باغ پہنچے تو اچانک سڑک کراس کرتے ہوئے ایک بندہ عین بائیک کے سامنے آ گیا جس کی وجہ سے مجھےایمر جنسی میں بریک لگانا پڑ گئی ۔۔۔۔۔ اور جیسے ہی میں نے بریک لگائی ۔۔۔۔ مرینہ ۔۔۔۔ پھسل کر میرے ساتھ لگ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر چند کہ اس نے ایک بڑی سی چادر لی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی ۔۔۔ میں نے اپنے دائیں کندھے پر اس کے نرم ممے کا لمس محسوس کیا ۔ ۔۔ اس کے نرم ممے کا لمس محسوس کرتے ہی مجھے دوپہر والا واقعہ یاد آ گیا اور ۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔ اس کی گانڈ کی نرمی ۔۔۔ بھی یاد آ گئی ۔۔۔۔ اور گانڈ کا یاد آنا تھا کہ میرا لن کھڑا ہو گیا اور میرے سارے وجود میں یک مُشت شہوت سی بھرنے لگی ۔۔۔ تب مجھے اپنا دوپہر والا فیصلہ یاد آگیا اور اس کے ساتھ ہی میں نے اس سیکسی لیڈی پر ٹرائی مارنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔

بریک کی وجہ سے مرینہ نے بس تھوڑی ہی دیر تک اپنے ایک ممے کو میرے دائیں کندھےکے ساتھ لگایا تھا ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد وہ نارمل ہو کر دوبارہ اپنی سابقہ پوزیشن پر واپس چلی گئی تھی ۔۔۔ لیکن اب میں کسی موقعہ کی تاڑ میں تھا کہ کب میں اس کے ممے کو دوبارہ اپنے ساتھ مس کروں ۔۔۔ اور پھر جلد ہی وہ موقعہ بھی آ گیا ۔۔۔ جیسے ہی ہماری بائیک موتی محل کے اشارے کے قریب پہنچی تو اچانک اشارہ بند ہو گیا جسے دیکھ کر میرے دل کی مراد بر آئی ۔۔۔۔۔ چانچہ اشارہ کو بند دیکھ کر میں نے ایک ذور دار بریک لگائی اور ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی مرینہ ایک دفعہ پھر موٹر سائیکل پر پھسلتی ہوئی میرے ساتھ آ کر لگ گئی ۔۔۔۔ اور اس دفعہ پھر میرے سارے وجود نے اس کے بڑے اور نرم ممے کا لمس اپنے کاندھے پر محسوس کیا ۔۔۔واؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔۔ اور۔۔ایک دفعہ پھر سُرور کی ایک تیز لہر میرے سارے جسم میں دوڑ گئی اور ۔ میں مزے کے ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نےبڑے محتاط انداز میں موٹر سائیکل کے بیک مرمر سے اس ۔۔۔۔ کے تاثرات کو نوٹ کیا ۔۔۔ لیکن اس کا چہرہ بلکل نارمل تھا ۔پھر میں نےچوری چوری موٹر سائیکل کا بیک شیشہ اس طرح سیٹ کیا کہ مجھے اس چہرہ نظر آتا رہے ۔۔۔ یہ اس لئے کہ میں اس کے تاثرات کو بھی نوٹ کرنا چاہتا تھا ۔۔ اس لیئے میں مطمئن ہو گیا اور اشارہ کھلنے پر دوبارہ چل پڑا ۔۔۔اشارے سے تھوڑی ہی دور جا کر میں نے ایک دفعہ پھر بریک لگائی اور وہ پھر سے میرے ساتھ جُڑ گئی اور میں اس کے نرم مموں کا لُطف لینے لگا ۔۔۔۔ اس کام میں مجھے اتنا مزہ آیا کہ اس کے بعد میں نے تھوڑے تھوڑے وقفے سے تین چار دفعہ اور بریک لگادی جب آخری دفعہ بریک لگی تو پیچھے سے اچانک مرینہ پھٹ پڑی اور وہ بڑے کرخت لہجے میں بولی ۔۔سالے ۔ اگر اب تم نے بریک لگائی نا ۔۔۔۔تو میں پیچھے سے تمہیں ایک ایسا جھانپڑ دوں گی کہ تم کو نانی یاد آ جائے گی ۔۔۔ پھر زہر خند لہجے میں بولی ۔۔۔ تم مجھے جانتے نہیں۔۔۔۔۔ ایک منٹ میں تمھاری یہ ساری شوخیاں نکال دوں گی ۔۔۔ اس نے یہ دھمکی اتنے کھردرے لہجے میں دی تھی کہ جسے سُن کر میں سہم گیا اور میرے ٹٹے ہوائی ہو گئے اور میں خود کو سنے لگا کہ۔۔۔۔ اتنی بھی کیا جلدی تھی ۔۔۔۔ بہن چود تھوڑی ٹھنڈی کر کے نہیں کھا سکتا تھا ۔؟؟ ۔۔ اور پھر میں دل ہی دل میں خود کو گالیاں دیتا بظاہر چپ چاپ ۔۔ بائیک چلانے لگا ۔۔۔۔ میں اپنے آپ کو مسلسل کوسنے دیتا ہوا چل رہا تھا میرا خیال ہے اس نے یہ بات محسوس کر لی تھی کہ وہ مجھے کچھ ذیادہ ہی ڈانٹ گئی تھی اس لئے اس نے مجھ سے بڑے نرم لہجے میں پوچھا ۔۔ کیا بات ہے تم ناراض ہو گئے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا نہیں باجی ۔۔۔ پھر دوسری ہی سانس میں بولا سوری باجی ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی سوری کی بات نہیں ۔۔۔ تم کو پتہ ہے کہ تم کو یہ ڈانٹ کیوں پڑی ہے ؟ تو میں نے شرم کے مارے اسے کوئی جواب نہ دیا کچھ دیر تک وہ میرے جواب کا انتظار کرتی رہی ۔ ۔ ۔ ۔۔ پھر ہولے سے بولی ۔۔۔ میں نے تم کو اس لیئے ڈانٹا تھا کہ تمھارے بار بار بریک لگانے کی وجہ سے ایک کار والے نے مسلسل ہمارا پیچھا کرنا شروع کر دیا تھا تو میں نے کہا لیکن باجی میں نے تو نہیں دیکھا تو وہ بولی ۔۔۔ یہی تو بات ہےایسی حرکات فرماتے ہوئے اگر تم ادھر ادھر بھی دیکھنے کی زحمت گوارہ کر لیتے ..... تو مجھے تمہیں ڈانٹنے کی نوبت ہر گز نہ آتی ۔۔۔ تو میں نے شرمندہ سا ہو کر کہا آئی ایم سوری باجی ۔۔۔اور پھر میں بڑی شرافت سے بائیک چلانے لگا ۔۔کچھ دور جا کر ۔۔۔ جب بائیک .. مال روڈ سے ہوتا ہوا ایک ویران سی جگہ پر پہنچا تو مرینہ ۔خود ہی تھوڑا آگے ہو کر بولی ۔۔ کیا بات ہے تم کچھ اَپ سیٹ سے لگتے ہو ؟؟ ۔۔۔۔ اور پھر ۔۔ کھسک کر وہ میرے ساتھ لگ گئی اور اپنا جسم میری بیک کے ساتھ چپکا کر بولی ۔۔۔۔۔ اب خوش ہو !!!۔۔۔ مرینہ کے یوں میرے ساتھ لگنے سے میری تو گویا لاٹری ہی نکل آئی تھی ۔۔۔ چنانچہ میں نے شیشے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔ باجی .... تھوڑا اور ساتھ لگو نا ۔۔۔ میری بات سن کر اس نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اوربلکل میرے ساتھ چپک گئی ۔۔۔۔ اور میں اس کے نرم جسم کا مزہ لینے لگا ۔۔۔ پھر مجھے دوپہر والا واقعہ یاد آ گیا اور میں نے مرینہ سے کہا ۔۔باجی ۔۔۔ آپ کو بُرا تو نہیں لگا تھا تو وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولی ۔۔ کیا برا نہیں لگا؟ تو میں نے مختصراً دوپہر والا واقعہ دھرا دیا سن کر ۔ بولی ۔۔ ارے نہیں وہ تو میں بس ویسے ہی تم سے شرارت کر رہی تھی ۔۔۔ پھر وہ بڑے معنی خیز لہجے میں بولی ۔۔۔ ویسے تمھاری انگلیاں بڑی مہارت سے چلتی ہیں ۔جسے سُن کر میں خوش بھی ہوا ۔۔ اور تھوڑا سا ۔۔ ۔ ۔ شرمندہ بھی ہو گیا ۔۔۔ پھر میں نے بیک شیشے سے اس کی طرف دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔۔ ۔۔آج کل تمھاری ارمینہ سے دوستی کیسی جا رہی ہے ؟ تو میں نے بڑی افسردگی سے جواب دیا ۔۔کیا بتاؤں باجی ۔۔ جب سے آپ آئی ہو وہ ۔۔۔ وہ تو بلکل بھی نہیں لفٹ کرا رہی ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔سُن کر وہ کہنے لگی ہاں مجھے خوب اندازہ ہے ۔۔۔ وہ بچپن سے ہی بڑی ۔۔۔ محتاط لڑکی ہے ۔۔۔پھر اپنا ایک بریسٹ میرے کندھے سے رگڑتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔ پریشان نہ ہو ۔۔۔ جب میں یہاں سے چلی جاؤں گی تو وہ تم کو خوب عیش کرائے گی ۔۔۔ اس کو یوں میرے ساتھ بریسٹ رگڑنے سے مجھے پھر سے ہوشیاری آ گئی اور میں نے کچھ دیر بعد اس کا ہاتھ جو میرے سینے پر ٹکا تھا ۔۔ کو پکڑ کر اپنی گود میں رکھ دیا ۔۔ فوراً ہی اس نے اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا لیا ۔لیکن بولی کچھ نہیں ۔۔ کچھ دیر بعد میں نے پھر وہی حرکت کی۔۔ اور جیسے ہی اس کا ہاتھ پکڑ ا اس نے دوبارہ تھوڑا سختی سے اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا لیا ۔۔۔۔ . تو میں نے اس سے کہا باجی پلیز۔۔۔!!!!۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔۔ تم باز نہیں آؤ گے تو میں نے کہا اس میں ہرج ہی کیا ہے پلیز میری خاطر۔۔۔۔ اپنا ہاتھ رکھ لیں نا ۔۔۔۔ تھوڑے سے نخرے کرنے کے بعد اس نے اپنا ہاتھ میری گود میں رکھ دیا جہاں پر ایک تنا ہوا لن اس کا منتظر تھا ۔۔۔

میری التجا سُن کر اس نے ہاتھ تو رکھ دیا لیکن ظالم نے اپنا ہاتھ ایسے اینگل سے میری گود میں رکھا کہ جہاں پر صرف ہلکا سا میرا ٹوپا اس کے ساتھ مَس ہو رہا تھا ۔۔ جس کی وجہ سے میں بے چین سا ہو گیا کیونکہ ۔مجھے اس بات کی شدید حاجت ہو رہی تھی کہ اب وہ میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑے ۔ادھر میری حاجت شدید سے شدید تر ہو جا رہی تھی ۔۔۔۔ اور وہ ۔۔ انجان بنی بیٹھی تھی۔پھر جب بات میرے بس سے باہر ہو گئی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ دیا اور اس سے بولا ۔۔۔ اس کو پکڑیں نا پلیز!!!!!!!۔۔ میری درخوست سُن کر اس نے ایک لمحے کے لئے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔اور ۔ پھر ۔دوسرے ہی لمحے ۔۔ اپنے ہاتھ کو وہاں سے ہٹا لیا ۔۔۔ اور اب بات میری برداشت سے باہر ہو گئی تھی کیونکہ میرے لن کو اس بات کی شدید طلب ہو رہی تھی کہ وہ اس کو پکڑ کر دبائے ۔۔۔ چنانچہ میں نے اس کے ہاتھ کو دوبارہ پکڑا اور زبردستی اپنے لن پر رکھ کر بولا ۔۔۔ اسے تھوڑا سا دبا دیں ۔پلیززززز۔۔۔ تو وہ تھوڑا شرارت سے بولی میں کیوں دباؤں ؟؟؟؟؟ ۔۔۔ تو میں نے دوبارہ کہا ۔۔۔مجھے نہیں معلوم ۔۔۔۔آپ بس سے ہاتھ میں پکڑ کر دبا دیں ۔۔۔۔۔پلیز۔زززززززز ۔ اور اپنی بات پر ذور دیتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔۔اس کو تھوڑا سا دبا دیں نا ۔۔۔ میری فریاد سُن کر بولی ۔۔۔ ایک تو تمھاری فرمائشیں ہی نہیں پوری ہوتیں اور اس کے ساتھ ہی مرینہ نے اپنی مُٹھی میں میرا لن پکڑ لیا۔۔۔۔ ۔۔۔۔ جیسے ہی اس کا ہاتھ میرے لن پر پڑا ۔۔۔ وہ ایک دم چونک سی گئی ۔۔۔۔ اور پھر اس نے ۔۔اپنی انگلیوں کی مدد سے میرےلن کا ناپ تول کیا ۔۔۔۔ اور وہ نہ رہ سکی ۔۔۔۔۔ بڑے ہی ستائشی لہجے میں بولی ۔۔۔۔ کمال ہے ۔۔چھوٹے ۔ تمھارا شیر تو ۔۔۔بہت بڑا ہے ۔۔ کسی بڑے آدمی سے بھی بڑا ہے ......اور اس سے قبل کہ میں اس کو کوئی جواب دیتا اس نے میری گود میں رکھا ہوا اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹایا اور بولی وہ سامنے فروٹ والی ریڑھی کے پاس با ئیک روک لو اور میں نے وہاں بائیک روکی تو اس نے کچھ پھل وغیرہ مریض کی تیمار داری کے لیئے ۔۔۔ اور ہم ہسپتال کی جانب روانہ ہو گئے جو اب تھوڑے ہی فاصلے پر رہ گیا تھا ۔۔ راستے میں، میں نے مرینہ سے پوچھا کہ باجی یہ ہسپتال میں آپ کا کون داخل ہے تو وہ کہنے لگی ۔ ۔ ۔۔۔ میرا تایا سسر ۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں تو حیران ہی رہ گیا اور اس سے بولا کہ ۔۔ اتنا قریبی رشتہ ......بھی پھر بھی آپ کے والدین میں نے کوئی بھی مریض کی عیادت کے لیئے نہیں آیا تو میری بات سُن کر وہ ایک دم اداس سی ہو گئی اور کھو ئے ہوئے لہجے میں بولی ۔۔۔ وہ آئیں گے بھی نہیں۔۔۔۔۔ تو میں نے ان سے پوچھ لیا اس کی کیا وجہ ہے تو وہ بولی ۔۔۔ہے ایک وجہ ۔۔جو میں تمہیں ۔ پھر کبھی بتاؤں گی ۔۔۔پھر وہ موضوع تبدیل کرنے کی خاطر مجھ سے کہنے لگی کہ ۔۔۔ تم کو معلوم ہے کہ میں تم اچھی بائیک چلا سکتی ہوں ؟ تومیں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا ۔۔ کیا سچ باجی آپ بھی موٹر سائیکل چلا لیتی ہو تو وہ چمک کر بولی ہاں۔۔ ماڑا ....موٹر سائیکل چلانا کون سا مشکل کام ہے ۔۔۔ پھر میں نے ا س سے پوچھا کہ.... باجی آپ نے بائیک چلانا کہاں سے سیکھا ...؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگی .. جب ہم حیدر آباد رہتے تھے تب سے میں نے اسے چلانا سیکھا اور پھر کہنے لگی مانو گے بائیک چلانے کے ایک ہفتے کے بعد ہی میں اس میں کافی ماہر ہو چکی تھی ...تو میں نے حیران ہو کر پوچھا ۔۔ بس ایک ہفتے بعد۔۔؟؟؟؟؟ پر وہ کیسے؟؟ تو وہ کہنے لگی وہ ا یسے میری جان کہ اس ایک ہفتے میں نے دن رات بس بائیک ہی چلائی تھی ۔۔۔ اتنے میں CMH کا گیٹ آ گیا جسے دیکھ کر وہ ایک دم پیچھے ہو کر نارمل انداز میں بیٹھ گئی اور میں نے پارکنگ میں بائیک روکی تو وہ مجھ سے کہنے لگی تم یہاں رُکو میں بس ابھی آئی ۔۔۔ اور پھر وہ اس نے مجھ سے فروٹ کا شاپر لیا اور تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی ہسپتال کے اندر داخل ہو گئی ...............

وہاں کھڑے کھڑے مجھے کافی دیر ہو گئی تھی جب ایک چھوٹا سا لڑکا ہاتھ میں جوس کا ڈبہ لیئے میرے پاس آیا اور آکر پوچھنے لگا کہ آپ کا نام شاہ ہے ؟ تو میں نے کہا جی میں ہی شاہ ہوں ۔۔۔ میری بات سُن کر اس نے جوس کا ڈبہ میرے ہاتھ میں پکڑایا اور بولا ... یہ مرینہ آنٹی نے بھیجا ہے اور وہ کہہ رہی ہیں کہ آپ اندر آجاؤ کیونکہ ان کو تھوڑی اور دیر ہو سکتی ہے ۔لیکن میں نے جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ان سے کہیں کہ میں یہاں ہی ٹھیک ہوں ۔۔ میری اس بات پر ا س نے واجبی سا اصرار کیا اور پھر۔۔ وہ یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ جیسے آپ کی مرضی ۔۔۔۔اس کے جانے کے بعد میں نے جوس کے کے ڈبے کے ساتھ چپکا سٹرا الگ کیا اور پھر مزے سے جوس پینے لگا ۔۔۔ کوئی ایک گھنٹہ کے بعد مجھے مرینہ پارکنک کی طرف آتی دکھائی دی جسے دیکھ کر میری جان میں جان آئی اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا اس نے خود ہی اپنے دیر سے آنے کی معذرت کرتے ہوئے بتلایا کہ اس وہ تو جلد آنا چاہ رہی تھی لیکن اس کے تائی ساس اور اس کی فیملی اس کو نہیں آنے دے رہی تھی -پھر وہ مجھ میرے پیچھے بیٹھ گئی اور ہم گھر کی طرف چل پڑے ۔۔ ۔ اس وقت آدھی رات کا وقت تھا اور آس پاس کی سڑکیں کافی سنسان تھیں چنانچہ تھوڑا دور جا کر میں نے مرینہ سے کہا باجی آپ بائیک چلاؤ گی ؟ تووہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ ہاں ضرور ۔۔ اور میں نے ایک نسبتاً اندھیری جگہ پر پہنچ کر اپنی بائیک روک لی اور اسکے ساتھ ہی وہ بائیک نیچے اتری اورآگے آکر بیٹھ گئی ۔جبکہ میں اس کے پیچھے بیٹھ گیا ۔اور اس نے موٹر سائکل چلانا شروع کر دیا ۔۔ ۔ اس کے چلانے کا ا نداز بتا رہا تھا کہ وہ ۔۔۔ واقعہ ہی اچھا خاصا بائیک چلا لیتی ہے ۔۔۔ کچھ دور جا کر میں کھسک کر اس کے پیچھے آ گیا ۔۔۔ اور پھرمیں نے اس کے نرم اور گداز جسم کے ساتھ اپنا جسم چپکا لیا ۔۔۔ اس نے بس ایک لحظہ کے لیئے بیک مرمر میں میری طرف دیکھا ۔۔۔ اور پھر سامنے کالی سڑک پر دیکھنے لگی ۔۔۔۔ اس کے ساتھ چپکنے سے میری فرنٹ تھائیز اس کی بیک سائیڈ سے ٹچ ہوئی ۔۔۔ اُف فف ۔۔۔ اس کی نرم اور موٹی گانڈ کا لمس پاتے ہی میرا سارا جسم گرم ہو گیا اور لن سر اُٹھانے لگا ۔۔۔۔۔۔ اور میرے ہاتھ جو کہ بائیک کی پشت پر تھے آگے آ گئے اور میں نے اس کے پیٹ کے اوپر ہاتھ رکھ لیا اور ۔۔۔۔ سفر جاری ہو گیا ۔۔۔
کچھ دیر چلنے کے بعد وہ شیشے میں سے دیکھتے ہوئے مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔میں کیسا بائیک چلا رہی ہوں ؟؟ ۔۔۔ مجھے اس کی بائیک چلانے کی ہوش ہی کہاں تھی میں تو اس کی نرم گانڈ کی نرمی میں مست تھا ۔۔۔ لیکن اس کے سوال کا جواب بھی دینا ضروری تھا اس لیئے میں نے اس کا کو ذور سے پکڑ کر دباتے ہوئے کہا۔۔۔۔باجی آپ بڑا ۔۔ ذبر دست بائیک چلا رہی ہیں تو وہ بولی مسکہ نہیں لگاؤ سچ سچ بتاؤ نا ۔۔۔۔ تو میں نے کہا رئیلی میں سچ ہی کہہ رہا ہوں میری بات سن کر اس نے ایک ادا سے سر جھٹکا اور موٹر سائیکل کی ریس بڑھا دی ۔۔۔۔
اور میں جس کا اب تک سارا دھیان اس کی گانڈ پر تھا اچانک اس کے بالوں کی طرف دھیان چلا گیا ۔۔۔ کیا لمبے اور سلکی سلکی بال تھے ۔۔۔ اور بالوں سے زیادہ اس کی گردن کتنی گوری اور کتنی دلکش تھی ۔۔ چنانچہ میں اپنا منہ اس کی گردن پر لے گیا اور دونوں ہونٹ جوڑ کر اس کی خوبصورت گردن کو چوم لیا ۔۔میری اس حرکت سے ۔ موٹر سائیکل چلتے چلتے تھوڑا سا ڈولا اور پھر اس کے منہ سے ایک لذت آمیز سسکی نکلی ۔۔۔ سس س۔س۔س۔س ۔۔اور وہ شیشے میں میری طرف دیکھ کر دبے دبے لفظوں میں بولی ۔۔۔ کیا کر رہے ہو؟ تو میں نے جواب دیا میں آپ کو پیار کر رہا ہوں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی دوبارہ اپنے ہونٹ اس کی گردن پر رکھ دیئے اور تین چار دفعہ لگا تار اس کی گردن کو چوم لیا ۔۔۔ اب کی بار پہلے کی نسبت بائیک ذرا کم ڈولا ۔۔۔ کہ شاید وہ اس کے لئےپہلے سے تیار تھی اور اسکے ساتھ ہی اس کے منہ سے لذت بھری سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں ۔۔۔ آہ ۔ہ ۔۔ سس ۔س۔۔س۔س اور وہ پھر ایک گہری سانس لیکر کر بولی ۔۔۔ مت کرو پلیز ۔۔۔لیکن میں اس کی پلیز ۔۔ کے سننے کے موڈ میں ہر گز نہ تھا چنانچہ اس دفعہ میں نے اس کی چادر تھوڑی سی پیچھے کی اور اس دایاں کاندھا ننگا کر کے اس پر ایک شاندار کس کردی ۔۔۔ میرے ہونٹوں کا لمس پاتے ہی وہ پھر سے بے چین ہو گئی اور ۔۔۔ سسکیاں بھرنے لگی ۔۔۔۔ اسی دوران میرا لن بھی شہوت میں آ چکا تھا اور وہ ۔۔بری طرح سے اس کی گانڈ سے ٹچ ہو رہا تھا ۔۔۔ چنانچہ کچھ دیر بعد اس نے اپنا ایک ہاتھ پیچھے کیا اور لن پر رکھ کر بولی ۔۔۔ تمھارا یہ مجھے بہت چُبھ رہا ہے ۔۔۔ تو میں نے لن کو ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔اور اس کی موٹی گانڈ کے کریک پر رگڑتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔ تو کچھ ایسا کریں نہ کہ یہ آپ کو نہ چھبے۔۔۔ تو وہ کہنے لگی بھلا میں کیا کر سکتی ہوں ؟ ۔۔۔تو اسی دوران میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آ گیا تھا ۔۔ اور میں نے مرینہ سے کہا کہاگر آپ اپنی سیٹ سے تھوڑا اوپر اٹھو گی تو اس کا بندوبست ہو سکتا ہے ۔۔۔ وہ میری بات کا مطلب سمجھ گئی اور پھر وہ موٹر سائیکل پر تقریباًکھڑی ہوگئیں اور بولی یہ لو ۔۔۔۔۔سو میں نے جلدی سے اسکی اور اپنی قمیض کو تھوڑا سا سائیڈ پر کیا اور لن سیٹ پر رکھ کر ۔۔۔اس کو نیچے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ ۔ ۔میرا اشارہ پا کر ۔ وہ دھیرے دھیرے نیچے بیٹھنے لگی اور میں اس کے بیٹھنے کے انداز کو دیکھ کر دیکھتے ہوئےاپنا لن ان کی گانڈ کے کریک کے بیچ میں سیٹ کرنے لگا ۔۔۔فائنلی وہ بائیک کی سیٹ پر بیٹھ گئی اور میرا ۔۔۔لن عین اسکی کی گانڈ کے کریک میں دھنس گیا ۔۔۔ یعنی کہ اس کی دونوں پھاڑیوں کے بیچ میں آ گیا ۔۔۔ ۔چونکہ میرا لن کافی موٹا اور لمبا تھا اور اس حساب سے اس کی گانڈ کا کریک کافی تنگ تھا اس لئے لن صاحب اس کے کریک میں پھنسا ہوا تھا اور دوسری بات یہ کہ لمبا ہونے کی وجہ سے لن کا اگلا سرا۔۔۔۔ مرینہ کی گرم چوت کے نازک لبوں کو بھی ٹچ کر رہا تھا ۔۔ میرے تو مزے ہو گئے تھے کہ ۔ لن کے آس پاس اس کی گانڈ کا نرم گوشت۔۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف۔ اور ٹوپے کو چھوتے ہوئے ان کی پھدی کے نرم ہونٹ ۔۔۔۔ کیا بتاؤں یارو۔۔۔مجھے اور میرے لن کو ۔۔۔ مجھے کتنا سُرور مل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اُفف ف ف فف ۔۔۔ ۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے مرینہ کو پیچھے سے پکڑ کر اپنے دونوں ہاتھ ان کے مموں پر رکھ دیئے ۔۔۔۔ اور ان کو دبانے لگا ۔۔۔۔

۔ اور مرینہ باجی ۔۔۔۔آہستہ آہستہ ۔۔ اب اس کے جزبات بھی بھڑکنے لگے تھے ۔۔۔ اور اب وہ مستی میں آ کر اپنی گانڈ کو میرے لن کے گرد اپن کلوز کرتی جا رہی تھی ۔۔۔ جس سے میرا لن ایک انوکھے مزے سے لطرف اندوز ہو رہا تھا۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی گانڈ کا دباؤ میرے لن پر بڑھاتی تھی اور کبھی اپنی گانڈ کو لن پر رگڑتی تھی ۔۔۔ گویا آگ دونوں طرف برابر کی لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔خود میرے بدن میں بھی شہوت کا غلبہ دم بدم کچھ ذیادہ ہی ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔ پھر میں اپنے دونوں ہاتھ ان کی قمیض کے اندر لے گیا اور برا کو ہٹا کر ان کے ممے ننگے کر دیئے اور پھر ان کے ننگے مموں کو دبانے لگا ۔۔۔ انہوں نے ایک تیز سسکی لی ۔۔۔ اور بیک شیشے میں میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔اُف ۔ ۔ف۔ف۔ف ۔۔۔۔۔ تو میں کہا کیا ہوا باجی ۔۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔۔ کتنے ظالم ہو تم ۔۔۔ تو میں نے بھی ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ کیسے باجی ؟ تو وہ کہنے لگی کتنی بےدردی سے میرے بریسٹ دبا رہے ہو ۔۔۔ تو میں نے کہا میرے دبانے سے آپ کو درد ہو ہو رہا ہے یا مزے آ رہا ہے ؟ تو وہ شہوت سے بھر پُور لہجے میں بولی ۔۔۔۔۔ مزہ آ رہا ہے میری جان !!!۔۔ آدھی رات کا وقت تھا سڑک سنسان تھی ۔۔۔ اور ہم دونوں ۔۔۔ جنسی کھیل میں مشغول تھے ۔۔۔۔ اور اس نے بائیک کی رفتار بھی بہت کم کر دی تھی ۔۔۔۔ ۔ہم دونوں مسلسل موٹر سائیکل کے بیک شیشے سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ مجھے مرینہ کی آنکھوں میں سُرورکے جنسی ڈورے تیرتے صاف نظر آ رہے تھے ۔۔۔۔ اس وقت وہ اپنی مستی کے عرج پر تھی ۔۔۔۔ ایسے میں وہ میری طرھ دیکھتے ہوئے ۔مخمور اور نشلی آواز میں بولی ۔۔۔۔ہے !!!!!!۔۔۔ میرے یہ کیسے ہیں ؟ تو میں نے کہا مست ہیں میری جان ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ میرے نپلوں کو اپنی انگلیوں میں لیکر مسلو نا ۔۔۔اس کی بات سُن کر میں نے اس کے مموں سے ہاتھ ہٹایا اور اس کے موٹے موٹے نپل جو اس وقت اس کے مموں پر اکڑے کھڑے تھے کو اپنی انگلیوں میں لیا اور انہیں ۔بڑی بے دردی سے ۔۔۔ مسلنے لگا۔۔کچھ ہی دیر بعد اس کے جسم نے ایک جھٹکا کھایا اور ۔۔۔ مجھے اپنے لن کی ٹؤپی پر کچھ گرم سا پانی سامحسوس ہوا اور میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔۔ مرینہ ۔۔۔میری جان ۔۔ آپ کی چوت سے پانی رِ س رہا ہے تو وہ بڑی ہی مست ہو کر بولی ۔۔۔۔ میری چوت کے پانی سے تمھارا لن گیلا ہو رہا ہے نا ؟ تو میں کہا یس۔س۔س۔س۔ ۔۔۔ آپ کی چوت کا پانی آب میرے لن تک پہنچ گیا ہے۔ تو وہ بولی تمھارے لن کو کیسا لگا میری چوت کا پانی ؟؟؟؟؟ تو میں نے جواب دینے کی بجائے ایک گھسہ ان کی گانڈ کی طرف مارا ۔۔۔ جس کی وجہ سے میرا ٹوپا اس کی گیلی چوت کے لب سے ٹکرایا ۔۔۔۔ اور بولا ۔۔۔ باجی آپ بتاؤ میرا یہ کیسا لگا ؟ تو وہ بولی ۔۔۔۔۔ بہت اچھا اور بہت ذبردست ۔ہے ۔۔۔ اس نے ابھی سے مجھے گیلا کر دیا ہے ۔۔۔۔۔ پھر وہ تھوڑا سا آگے کو جھکی اور ۔۔۔۔ اپنی گانڈ کو تھوڑا پیچھے کی طرف کر لیا ۔ ۔ ۔ ۔ اس اینگل سے میرا لن اب ان کی گانڈ کی حد کو عبور کر کے میرا ٹوپا ان کی چوت کے لبوں کے تھوڑا اندر کی طرف جانے لگا ۔جس سے مجھے از حد مزہ آیا اور ۔۔۔ میں نے جوش میں آ کر ان کے نپلوں کو بڑی سختی سے مروڑا ۔۔۔۔۔۔اور ان کو باقی جسم کو فل پاور سے ۔۔ اپنی طرف بھینچا ۔ ۔ ۔۔ آہ ۔۔اپنی اس حرکت سے میں نے مرینہ باجی کی ۔ گانڈ اور چوت دونوں کا ایک ساتھ مزہ لے لیا تھا ۔۔۔ اب وہ بھی فُل مست ہو چکی تھی اور بار بار آگے ہو کر اپنی چوت کے لبوں کے اندر میرا ٹوپا ۔۔۔لے رہی تھی ۔۔۔ اسی دوران میں اپنا منہ ان کے کان کے پاس لے گیا اور ان کے کان کی لو کو چو س کر بولا ۔۔۔۔ مرینہ ۔۔ جی آپ کی چوت بڑی گرم ہے ۔۔۔ انہوں نے ایک ہلکی سی لذت آمیز سسکی بھری اور کہنے لگی ۔۔۔ یہ جو تم نے میری ۔۔۔ کے بیچ میں کیا ہوا ہے یہ بھی کیا کم گرم ہے ۔۔۔ تو میں نے کہا مرینہ باجی ۔۔۔ آپ کو پتہ ہے میرا لن جب آپ کی چوت کے لبوں کو چھو تاہے نا ۔۔۔ تو مرے اندر ایک عجیب سا کرنٹ دوڑ جاتا ہے ۔۔۔۔ تو وہ عجیب سے لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔۔ یقین کرو ۔۔ تمھارے ٹوپے کے اس ٹچ نے میرے اندر ایک ایسی آگ بھڑکا دی ہے جس کو میں تم سے بیان نہیں کر سکتی پھر میں نے ان سے کہا کہ اپنی گردن گھما کر ذرا پیچھے کی طرف منہ کریں ۔۔۔ تو وہ بولی کیوں ؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ پلیز کریں نا ۔۔ تو اس نے اپنا منہ پیچھے کیا تو میں نے اپنا منہ آگے بڑھا کر اس لمحے کے لئے اس کے ہونٹوں کو چوم لیا ۔۔۔ ۔۔۔۔ ہونٹوں سے ہونٹ ملتے ہی دونوں کے بیچ لگی ہوئی آگ اور بھڑک اٹھی اور اس بار اس نے خود منہ پیچھے کیا اور بولی اپنی زبان نکالو ۔۔۔ تو میں نے اپنی زبان نکالی۔۔۔ اب مرینہ نے بھی اپنے منہ سے سانپ کی طرح اپنی زبان باہر نکلی اور اسے لہراتے ہوئے میری زبان سے ٹکرا دی ۔۔ ایک لمحے کو مجھے ایسے لگا کہ جیسے ان کی زبان نے میرے بدن میں آگ بھر دی ہو ۔۔۔۔ادھر انہوں نے کچھ سیکنڈ کے لیئے اپنی زبان میری زبان سے ٹکرائی اور پھر وہ ۔۔۔ پھر سیدھی ہو کر بائیک چلانے لگ پڑی ۔۔ پھر اگلے ہی لمحے وہ ۔۔۔۔۔ بائیک پر بیٹھے بیٹھے آگے کو جھکی اور اپنی گانڈ کے دراڑ میں پھنسے لن پر گھسے مارنے لگیں ۔اور اپنی گانڈ کو میرے لن پر بری طرح رگڑنے لگی ۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ جھٹکے لے لے کر لمبے لمبے سانس بھی لینے لگی ۔۔۔اور پھر میں نے اپنے لن کے اگلے سرے پر ۔ ۔ مرینہ کی پھدی کا بہت سارا گرم پانی محسوس کیا ۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ چھوٹ چکی تھی ۔ ۔۔۔ جب اسکا سانس کچھ بحال ہوا ۔۔۔ اور وہ تھوڑی نارمل ہو گئی تو انہوں نے ادھر ادھر دیکھ کر مجھ سے پوچھا کہ یہ ہم کہاں آ گئے ہیں؟؟؟ تو میں جو کہ ان کے ساتھ سیکس میں بری طرح سے مگن تھا ۔۔۔ ان کے کہنے پر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔۔ تو وقت ہمارا بائیک ایوب پارک کراس کر رہا تھا یہ دیکھ کر میں نے کہا کہ مرینہ باجی ہم کافی آگے نکل آئے ہیں میری بات سُن کر نے بیک مرمر سے میری طرف دیکھا اور بڑے سیکسی لہجے میں کہنے لگیں واقعہ ہی ہم کافی آگے نکل چکے ہیں اور ساتھ ہی لن پر گھسہ مار دیا۔۔۔ پھر وہ بڑے حیرانی سے بولیں ۔۔۔ ہا ۔ ۔ ۔۔ تم بھی تک ڈسچارج نہیں ہوئے ؟؟؟؟؟؟ تو میں کہا کہہ میڈم جی میں نے کیا کیا ہے جو ڈسچارج ہووں ، ۔ ۔ میری بات سُن کر وہ بڑی شوخی سے بولی ۔۔ اچھا تو ذرا یہ بتاؤ کہ گزشتہ کافی ٹائم سے میری ۔۔۔۔ گانڈ کے کریک ۔اور چوت کے لبوں پر تمھارا ۔۔ یہ کیا کر رہا تھا؟ تو میں نے بھی اسی شوخی سے ان کو کہاکہ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کر رہا تھا آپ بتاؤ نا ؟ تو وہ بولی ۔۔۔ بدتمیزیں کر رہا تھا ۔اور کیا کر رہا تھا ۔۔ اور پھر انہوں نے بائیک کی رفتار تیز کر دی اس پر میں نے ان سے کہا کہ باجی اگلے یو ٹرن سے واپس موڑ لو۔۔۔۔ تو انہوں نے بجائے آگے جانے کے وہیں بائیک روک لی اور مجھ سے کہنے لگی نہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔ اب تم بائیک چلاؤ ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ کیوں ڈسٹرب کر رہی ہیں ۔۔۔ اچھا بھلا میں مزے کر رہا تھا ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی فکر ناٹ ۔۔ میں تمھارے مزے میں فرق نہیں آنے دوں گی ۔۔۔ بہت ہو گیا بس اب تم چلاؤ اور پھر بولی ۔۔۔۔مجھے پتہ چل گیا ہے اگر بائیک میں ہی چلاتی رہی نا تو۔۔۔۔۔ صبع تک ہم یقیناً ہم لاہور کے آس پاس ہوں گے اس لئے مہربانی کر کے اب تم بائیک چلاؤ ۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "استانی جی (قسط 4)"