چنانچہ نا چاہتے ہوئے بھی میں آگے آ گیا اور بائیک پر بیٹھ گیا اب وہ میرے پیچھے بیٹھی لیکن اس دفعہ وہ میرے پیچھے مردانہ سٹائیل میں بیٹھی ۔۔۔ یعنی دونوں ٹانگیں ادھر ادھر کر کے ۔۔۔ اور پھر اس نے پیچھے سے میری قمیض کو سائیڈ پر کیا اور اور میرے ساتھ جُڑ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ وہ اس طرح میرے ساتھ جُڑی بیٹھی تھی کی ان کی گیلی پھدی میری گانڈ سے بلکل جُڑی ہوئی تھی اور ان کی پھدی کا گیلا پن مجھے بڑا ۔۔مزہ دے رہا تھا ۔۔۔ پھر میں نے تھوڑا آگے سے یو ٹرن لیا اور بائیک واپس صدر کی طرف موڑ لیا ۔۔۔اور منہ پیچھے کر کے مرینہ سے کہا ۔۔۔ باجی ایک کس تو دو۔۔۔ تو وہ بائیک سے تھوڑا اوپر اٹھی اور میرے ہونٹؤں سے ہونٹ جو ڑدیئے اور اس کے ساتھ ہی میں نے بائیک اور سلو کر دی اور ان کے نرم ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر ایک لحظے کے لیئے چوسا اورپھر چھوڑ دیا ۔۔۔۔ پھر میں نے مرینہ سے کہا ۔۔۔۔ باجی میرا پکڑیں نا ۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر اس نے میرے پیٹ پر رکھا ہوا اپنا ہاتھ ہٹایا اور لن پر رکھ دیا ۔۔۔ پھر بولی ۔۔۔۔ تمھارا شلوار کیوں گیلی ہے تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ کمال ہے آپ بھول گئیں یہ آپ کی اپنی ہی پھدی کا گیلا پن ہے ۔۔۔ سن کر وہ کھیسانی سی ہنسی ہنس کر بولی ۔۔۔۔۔ ہاں ہاں معلوم ہے یا ر۔۔۔ پھر اس نے میری شلوار کا نالا کھولا اور میرا ننگا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔ اور دھیرے دھیرے میری مُٹھ مارنے لگی ۔۔۔ لن کو پکڑنے کے کچھ دیر بعدوہ پھر سے گرم سے گرم ہوتی گئی اور ۔۔۔۔ اور بولی ۔۔۔۔۔ کمال ہے ۔۔۔ تم ابھی بھی قائم ہو ۔۔۔۔ پھر اس نے ۔میرے ۔۔ لن کو اپنا تھوک لگا کر گیلا کیا اور ہلکی ہلکی مُٹھ مارنے لگی ۔۔۔ اور کبھی کبھی میں منہ پیچھے کی طرف کر کے اس کے ہونٹ چوم لیتا تھا ۔۔۔۔ ہاں جب میں اور وہ اپنی زبانیں لڑاتے تو ۔۔۔ ہم دونوں مزید گرم سے گرم تر ہو جاتے تھے ۔۔ ۔۔۔ایک آدھ دفعہ میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کر کے شلوار کے اوپر سے اس کی پھدی پر بھی رکھا تو گیلے پن کی وجہ سے اس کی ریشمی شلوار اس کی چوت کے ساتھ چپکی ہوئی تھی ۔۔۔۔ ایسی ہی ایک بار جب میں نے شیشے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے کہا کہ باجی ایک کس تو دو نا ۔۔۔ تو وہ اوپر اٹھی اور اپنی زبان میرے ہونٹوں پر پھیرنے لگی ۔۔۔۔اور ساتھ ہی بڑی زور سے میرا لن بھی دبا دیا ۔۔۔ جس سے میری ہوشیاری میں سو گنا اضافہ ہو گیا اور میں نے ۔۔ مرینہ سے کہا باجی ایک بات پوچھوں؟ تو وہ اسی نشیلے لہجے میں بولی ۔۔۔ پوچھ میرے چندا ۔۔۔۔۔ تو میں نے کہا کیا آپ نے کبھی سکنگ کی ہے ؟ تو وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ تمھارا مطلب ہے لن چوسنا ہے ؟ تو میں نے کہا جی باجی ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ تمھیں کیا لگتا ہے تو میں نے بے دھڑک ہو کر کہا کہ میرے خیال میں آپ جیسی سیکسی لڑکی لن ضرور چوستی ہو گی ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ،۔۔۔ تم درست کہہ رہے ہو ۔۔ جو لڑکی بلیو فلم دیکھ لے خاص طور پر اپنے مرد کے ساتھ ۔۔۔ تو اس کا ۔۔ چاہے جی چاہے نہ چاہے اسے لن چوسنا پڑتا ہے ۔۔۔ تو میں نے کہا کہ ۔۔۔ تو کیا آپ بے دلی سے لن چوستی ہو ۔۔ تو وہ ایک دم اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولی ۔۔۔۔ شروع شروع میں عجیب لگتا تھا اب تو مزہ آتا ہے ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ باجی کیا آپ میرا لن چوسو گی ؟ تو وہ بولی ہاں ضرور چوسوں گی ۔۔۔۔ تو میں نے کہا کیا آپ ابھی میرا لن چوس سکتی ہو؟ تو وہ بولی ۔۔۔ یہاں ؟ اس وقت ہم سٹیٹ بینک کے سامنے سے گزر رہے تھے ۔۔ تو میں نے کہا نہیں باجی کسی سنسان جگہ پر ۔۔۔ تو کہنے لگی ۔۔۔۔ یار پھر کبھی تسلی سے تمھارا لن چوسوں کی لیکن ۔۔۔۔۔ یہاں ۔۔۔ خطرہ ہو گا یار ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔دیکھیں نا ۔۔۔رات کتنی گہری ہو گئی ہے ۔۔۔ سڑکیں بھی سنسان ہیں ۔۔۔ ایسے میں بس تھوڑی سی دیر کے لیئے آپ میرا لن اپنے منہ میں لے لو گی تو کچھ بھی نہیں ہو گا ۔۔۔ وہ نہیں مان رہی تھی لیکن تھوڑے سےاصرار اور منت ترلوں کے بعد وہ بالآخر مان ہی گئی ۔۔۔ اور میرے لن کو آگے پیچھے کرتے ہوئے بولی ۔۔ٹھیک ہے بائیک کسی سنسان جگہ پر لے جاؤ۔۔۔
جس وقت مرینہ میرے لن چوسنے پر آمادہ ہوئی اس وقت ہم مریڑ چوک سے تھوڑا پیچھے تھے فوری طور پر تو مجھے کچھ سمجھ نہ آیا اور پھر میں نے جیسے ہی مریڈ چوک کراس کیا میرا بائیک خود بخود ہی دائیں طرف مُڑ گیا اور میں مریڑ چوک سے ساتھ ہی بائیں طرف مُڑ گیا ۔۔۔ تھوڑا آگے گیا تو وہاں کافی درخت اور اندھیرا تھا ۔۔۔ میں نے بائیک نالہ لئی جانے والے ایک کچے راستے پر موڑ لی ۔۔۔ مرینہ کے ہاتھ کی گرفت میرے لن پر کافی سخت ہو چکی تھی ۔۔۔اور میں نے بیک مرر سے دیکھا کہ وہ بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی جیسے خیالوں میں میرا لن چوس رہی ہو ۔۔۔۔پھر جیسے ہی میں کچے راستے پر مُڑا وہ بولی ۔۔۔ موٹر سائیکل کی ہیڈ لائیٹ آف کر دو ۔۔۔ اور مین نے موٹر سائیکل کی ہیڈ لائیٹ آف کر دی اور پھر تھوڑا آگے جا کر ایک محفوظ جگہ پر بائیک روک لی ۔۔۔ وہاں کافی اندھیرا تھا لیکن چاندنی رات کی وجہ سے ہم دونوں ایک۔۔۔ دوسرے کوباآسانی دیکھ رہے تھے۔۔۔ سامنے ہی نالہ لئی بڑی خاموشی سے بہہ رہا تھا ۔۔۔ وہ بائیک سے نیچے اتری اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ جگہ تو خاصی محفوظ لگ رہی ہے اور مجھے اشارہ کیا اب میں بائیک کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اور وہ میرے سامنے زمین پر اکڑں بیٹھ گئی اور میں بائیک کو کھڑا کر کے اس کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہوا تھا ۔۔۔ اس نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔ اور بولی ۔۔۔ یقین کرو ۔۔۔ میرا دل بھی لن چوسنے کو کر رہا تھا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ میری جان تم نے بتانا تھا نا ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ تم نے کہہ دیا ایک ہی بات ہے پھر اس نے اپنا سر نیچے کیا اور اپنے نرم ہونٹوں کی گرفت میں میرا لن کا ہیڈ لے کر اسے اپنے منہ میں لے جانے لگی ۔۔۔ آہ۔ہ ۔ ہ۔۔۔ میری آہ سُن کر اس نے لن کو منہ سے نکالا اوربولی ۔۔۔ جان!! ۔۔ تیرا لن بڑا مزیدار ہے۔۔ ۔ میں یہ سارے کا سارا کھا جاؤں گی ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔۔تو میں نے کہا میری جان ۔۔۔ یہ لن تمھارا اپنا ہے چاہے اسے کھا ؤ ۔چاہے اسے چوسو ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ٹھیک ہے لیکن پہلے اسے میں کون آئس کریم کی طرح چاٹوں گی ۔۔۔ پھر تیرا لن منہ میں لے کر چوسوں گی ۔۔ پھر کھا جاؤں گی ۔۔۔ وہ فل مستی میں تھی اس کی ہر ادا میں سیکس بھرا ہوا تھا ۔۔۔ اس کی آواز میں سیکس تھا ۔۔۔پھر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی اب میں تیرے لن کو گیلا کروں گی اور پھر اس نے دونوں ہونٹ جوڑے اور لن پر تھوک دیا اور ۔۔۔ پھر منہ کھول کر آہستہ آہستہ میرا لن اپنے منہ میں لینے لگی ۔۔۔ اور پھر بڑے مست چوپے لگانے لگی ۔۔۔ اور میرے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنے لگا ۔۔۔ ایسے ہی ایک موقعہ پر جب اس نے اپنی زبان کو میرے لن کے نیچے ولای وین پر پھیرا تو میں نے قدرے لؤڈ ۔۔۔ آواز میں ۔۔۔ سسکی بھری ۔۔۔آہ ہ ہ ۔۔۔ اُف ۔ف۔ف۔فف۔ میرا خیال ہے مزے کے مارے میرے منہ سے کچھ زیادہ ہی اونچی آواز میں سسکیاں نکلنے لگ گئیں تھی ۔۔۔ ایسے ہی ایک لمحے میں جب میں نے زوردار آواز میں سسکی لی ۔۔۔تو اچانک دور سے ایک آواز آئی۔۔۔
۔ یہ کون خانہ خراب کا بچہ ہے ؟۔۔۔۔۔۔آواز سنتے ہی مرینہ نے اپنے منہ سے میرا لن نکلا۔۔۔ اور ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔۔ لیکن میں نے اس کو بالوں سے پکڑا اور اپنے لن پر اس کا منہ رکھ دیا ۔۔۔اس نے اپنا منہ کھولا اورمیرے لن کو اپنے منہ کے اندر لے لیا ۔۔۔ اور ابھی وہ لن پر اپنے منہ کو نیچے سے اوپر لا ہی رہی تھی کہ ۔۔۔وہی کرخت آواز مردانہ آواز دوبارہ سنائی دی ۔۔۔۔ادھر کیا ہو رہا ہے ؟؟؟ اور اس کے ساتھ ہی ہمیں دور سے ایک ہیولہ سا اپنی طرف آتا دکھائی دیا ۔۔۔اس کو دیکھتے ہی مرینہ نے لن منہ سے نکلا اور بولی ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ کوئی آ گیا ہے ۔۔۔اتنے میں اس ہیولے کی کرخت آواز دوبارہ سنائی دی ۔۔ٹہرو ۔ کتے کا بچہ ۔۔۔ ام آج تم کو نہیں چھوڑے گا ۔۔۔ وہ آواز سنتے ہی مجھے مرینہ کو خوف سے بھر پور لیکن سرگوشی نما آواز سنائی دی ۔۔۔۔۔یہ تو افضل لالہ کی آواز ہے پھر اس کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔ بھاگ سالے ۔۔۔۔۔ ورنہ یہ ہم دونوں کو زندہ نہیں چھوڑے گا ۔۔۔ میں نے بھی افضل لالہ کی آواز سن لی تھی ۔۔۔ چونکہ میرا مرینہ لوگوں کے گھر کافی آنا جانا تھا۔اس لیئے میں بھی افضل لالہ کو اچھی طرح جانتا تھا وہ بے حد کرخت اور ڈنگر ٹائپ بندہ تھا ۔۔جو کہ میرے خیال میں اس علاقے کی چوکیداری کرتا تھا ۔۔۔چنانچہ اس کی آواز سُن کر خود میرے بھی ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے تھے اور میں مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کروں ۔؟؟۔۔۔ اور افضل لالہ دم بدم گالیاں دیتا ہوا ۔۔۔قریب سے قریب تر آ رہا تھا ۔۔۔تب مجھے مرینہ کی انتہائی خوفزدہ آواز سنائی دی ۔۔۔وہ پاس آ رہا ہے ۔ جلدی کر ۔۔۔۔۔ اور میں نے شلوار اوپر کی ۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ تبھی قدرے اور قریب سے افضل لالہ کی خونخوار آواز ۔۔۔ آئی۔۔۔۔۔۔ ٹھہر و ۔۔۔خانہ خراب ،۔۔۔ام ابھی تمھارا تکہ بوٹی کرتا ہے ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ ایک دفعہ پھر مرینہ مجھ سے مخاطب ہو کر تقریباً چیختے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ تم کھڑے کیوں ہو؟ بائیک سٹارٹ کرو۔۔حرامی۔اس کی بات سُن کر میں نے کک مارنے کے لیئے اپنا پاؤں مارا ۔۔۔ تو مجھے لگا کہ جیسے میرا پاؤں من بر کا ہو گیا ہے اور مجھ سے کک نہ ماری گئی ۔۔۔۔یہ دیکھ کر وہ مزید طیش میں آ گئی اور بولی ۔۔۔ کک کیوں نہیں مار رہے ہو َ؟۔ تو میں نے بجائے اصل بات بتانے کے اس سے بے بسی سے کہا ۔۔۔۔ میری شلوار میں سے ناڑا (آزار بند) نکل گیا ہے ۔۔۔۔۔تو وہ ہزیانی میں بولی ایسے ہی سٹارٹ کر ۔۔۔۔ جلدی۔۔۔ شلوار ۔۔۔ آگے جا کر پہن لینا ۔۔۔ابھی چل ۔۔۔۔اس کی بات سُن کر میں ہمت کی ۔۔۔ اور دوبارہ بائیک کو کک ماری تو وہ ۔۔۔سٹارٹ نہ ہوا ۔۔۔ تو مرینہ بولی اب کیا ہوا ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔یہ سٹارٹ نہیں ہو رہا ہے ۔ پتہ نہیں شاید پٹرول ختم ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں افضل لالہ اور قریب آ گیا تھا ۔۔۔۔اسے دیکھ کر میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا تا جا رہا تھا ۔۔۔۔ پھر کہیں دور سے مجھے مرینہ کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔۔۔۔ بھاگ۔۔۔ اور میں نے بھاگنے کی کوشش کی تو ۔۔۔۔۔ شلوار میرے ۔۔۔ پاؤں میں پھنس گئی ۔۔۔۔۔ اورمیں نے پھر بھی بھاگنے کے لئے قدم اٹٹھایا تو میرے قدم من من بھر کے ہو گئے ۔۔ادھر ۔۔۔۔اففل لالہ گالیا ں بکتا ہوا ۔۔ہمارے قریب آتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔قریب ۔۔۔۔ اور قریب آ رہا تھا ۔۔۔۔ اور قریب ۔۔میرے پاؤں میں شلوار پڑی تھی ۔۔۔۔قدم من من بھر کے ہو رہے تھے اور ۔۔تب میں نے مرینہ کی طرف بڑی ہی بے بسی سے دیکھا اور کہا آپ جاؤ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔۔۔۔ اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا ۔۔اور میں بلکل مایوس ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔کہ اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضل لالہ کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور خود کو ہر قسم کو صورتِ حال کے لیئے تیار کر لیا ۔۔ میری یہ حالت دیکھ کر مرینہ نے مجھے دھکا دیکر پیچھے کیا اور پھر ا س نے موٹر سائیکل کو ہینڈل سے پکڑ کو ایک ذوردار کک ماری تو ۔۔۔ خوش قسمتی سے پہلی ہی کک پر بائیک اسٹارٹ ہو گیا یہ دیکھ کر مرینہ نے فوراً چھلانگ لگائی اور جلدی سے بائیک پر بیٹھ گئی اور پھر چیختے ہوئے بولی ۔۔۔ جلدی بیٹھ ۔۔۔ ۔میں اتنا ڈرا ہوا تھا کہ ۔۔۔ فوری طور پر مجھے کچھ سمجھ نہ آیا ۔۔۔ لیکن جیسےبائیک چلا۔۔میں جیسے ہوش میں آ گیا اور میں نے بھی چھلانگ لگائی اور چلتی ہوئی موٹر سائکل پر عورتوں کی طرح مرینہ کے پیچھے بیٹھ گیا ۔۔۔۔ مجھے بیٹھتے دیکھ کر مرینہ نے بائیک کو فُل ریس دی اور موٹر سائیکل کو ہوا کی رفتار سے بھگا نے لگی ۔۔ اتنی دیر میں افضل لالہ ہمارے کافی قریب پہنچ چکا تھا لیکن جیسے ہی اس نے دیکھا ۔۔۔۔کہ ہم لوگ ۔۔بھاگ رہے ہیں تو وہ گالیاں دیتا ہوا نیچے جھکا اور زمین سے پتھر اُٹھا کر ہماری طرف پھینکا ۔۔جو اُڑتا ہو ا ہماری طرف آیا لیکن بائیک سے کچھ ہی فاصلے پر جا گرا ۔۔۔۔۔ مرینہ بائیک کو طوفانی رفتار سے چلا رہی تھی ۔۔۔ اور پھر جیسے ہی ہم مریڑ چوک سے کمیٹی چوک کی طرف مُڑے۔۔ تو تھوڑی دور جا کر اس نے بائیک کر رفتار نارمل کر لی ۔۔۔ اور پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولی ۔۔۔۔۔ شکر ہے جان بچی۔۔۔ پھر اس نے کچھ فاصلہ طے کر کے بائیک کو ایک نیم تاریک جگہ پر روکا اور ۔۔۔ بڑے غصے سے بولی ۔۔۔۔ جاؤ وہ سامنے دیوار کے پاس پیشاب کے سٹائل میں بیٹھ کر اپنی شلوار میں نالا (آزار بند ) ڈال لو ۔۔۔۔اور میں بائیک سے نیچے اترا اور سیدھا دیوار کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور ۔۔۔۔ شلوار میں نالا ڈال کر واپس آ گیا ۔۔۔ دیکھا تو وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے بائیک کے پاس کھڑی میری ہی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جب میں اس کے قریب پہنچا تو میں نے ۔۔ ایک نظر سڑک پر ڈالی تو نیم تاریک سڑک کافی ۔۔۔۔ سنسان تھی ویسے بھی ہم ایک اندھیری جگہ پر کھڑے تھے اس لیئے ۔۔ دیکھے جانے کے چانس کافی کم تھے ۔۔۔ اس طرف سے مطمئن ہو کر میں آگے بڑھا اور مرینہ کو اپنی باہوں میں لے لیا اس نے خود کو مجھ سے چھڑانے کی بڑی کوشش کی لیکن میں نے اپنی گرفت ہی اتنی مضبوط رکھی تھی کہ وہ خود کو مجھ نہ چھُڑا سکی ۔۔ کچھ دیر بعد اس نے یہ جدوجہد ترک کر دی اور ڈھیلی پڑ گئی ۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنے دونوں ہونٹ اس کی صراحی دار گردن پر رکھ دئیے اور اس کو چوم کر بولا ۔بڑے ہی رومینٹک انداز میں بولا ۔۔ آئی لو یو ۔۔۔ ڈارلنگ ۔ ۔ ۔ میری بات سُن کر وہ تلخی سے بولی ۔۔۔۔ اگر میں بائیک اسٹارٹ نہ کرتی نہ۔۔ تو آج تمھاری یہ ساری آئی لو یو نکل جانی تھی ۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں شرمندہ ہوئے بغیر بولا ۔۔ سٹارٹ تو میں بھی کر لیتا ۔۔۔۔لیکن ۔۔۔ میرا نالا (آزار بند ) نکل گیا تھا ۔۔میری شیخی سُن کر وہ بڑے طنزیہ انداز میں کہنے لگی ۔۔ ۔۔۔۔ جی مجھے پتہ ہے کہ تمھارا نالا نکل گیا تھا لیکن سالے بائیک کو کک مارنی تھی اس میں نالا کہاں سے آگیا ؟؟؟؟اس کی بات سن کر میں سمجھ گیا کہ ایسے بات نہیں بنے گی ۔۔چنانچہ ۔۔۔ میں نے بجائے کوئی نیا بہانہ گھڑنے کے ۔۔۔ دوبارہ اپنے ہونٹ اس کی گردن پر رکھے۔۔۔ اور ۔۔۔ انہیں چومتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ آئی یم سوری باجی ۔۔ !! ۔۔اور اس کی گردن کو چومتا گیا ۔۔۔۔ میرے منہ سے سوری سُن کر وہ کچھ ڈھیلی پڑ گئی ۔۔ پھر اس نےہاتھ بڑھا کر میرا منہ اپنی گردن سے ہٹایا ۔۔۔۔ اور میری ٹھوڑی کو انگلی سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا اور بولی ۔۔۔۔ دیکھو مجھے بزدل مردوں سے سخت نفرت ہے ۔۔۔ آج تو معاف کرتی ہوں لیکن آئیندہ اس بات کا خاص خیال رکھنا ۔۔۔۔ پھر مجھے موٹر سائیکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ بائیک چلاؤ ۔۔۔ اور میں نے بائیک سٹارٹ کیا اور وہ حسبِ سابق مرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی ۔ راستے میں ۔۔ میں نے ادھر ادھر کی کافی باتیں کیں جس سے اس کا مُوڈ کافی حد تک بحال ہو گیا ۔اور پھر جب اس کا مُوڈ پہلے کی طرح اے ون ہو گیا تو میں نے اس سے وہ سوال کیا جو مجھے کافی پریشان کر رہا تھا ۔۔۔چنانچہ میں نے اس سے کہا باجی ایک بات پوچھوں ؟ تو وہ بولی کہو۔۔ میں نے منع کب کیا ہے؟ تو میں نے کہا کہ باجی ۔۔۔۔ آپ کے سسرال کا اتنا قریبی بندہ ہسپتال میں ایڈ مٹ ہے لیکن آپ کے گھر سے کوئی بھی انہیں نہیں دیکھنے آیا ؟اس کی کیا وجہ ہے؟؟ ۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی ۔۔۔۔ میرے والدین اس لیئے اسے دیکھنے نہیں آتے کہ میری یہاں شادی نہیں ہوئی تھی بلکہ میں " ونی" ہوئی تھی ۔۔۔۔ اس وقت تک مجھے " ونی" کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا اس لیئے میں نے حیرانی سے پوچھا کہ باجی یہ "ونی "کیا ہوتا ہے ؟ ۔۔۔
دوستو ۔۔ اس کے بعد اس نے مجھے "ونی " کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور پھر اس نے اپنی ونی ہونے کی کہانی سنائی ۔۔۔ مرینہ نے یہ کہانی مختلف اوقات میں ٹکڑوں میں مجھے سنائی تھی لیکن میں آپ کو مرینہ کی یہ کہانی ایک ہی نشست میں سناؤں گا ۔۔۔ ہاں اس میں جو زیادہ دکھی باتیں ہیں وہ میں نے اس کی کہانی سے حزف کر دیں ہیں کہ میرا خیال ہے لوگ پہلے ہی بڑی پرابلمز میں ہیں اور وہ انٹرٹیمنٹ کے لیئے یہاں آتے ہیں نا کہ دکھی ہونے کے لیئے ۔۔۔ ویسے بھی میرے خیال میں سیکس سٹوری میں دکھی باتیں مزہ نہیں کرتیں ۔۔۔ایک بات اور ۔۔ اس کہانی میں ، میں نے اپنی طرف سے داستان کو رنگین کرنے کے لیئے کچھ مسالہ بھی ڈالا ہے ۔۔۔ آیئے میں آپ کو مرینہ کی کہانی سنائیں ۔۔۔
مرینہ کے مطابق ان کی فیملی کا تعلق باجوڑ ایجنسی سےہے ۔ اس کے دادا بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آ کر باجوڑ سے کراچی آئے تھے کہ اس زمانے میں کراچی ہی ایک ایسی جگہ تھی کہ جہاں لوگ کام کی تلاش میں آیا کرتے تھے لیکن بد قسمتی سے ان کے دادا کا کراچی جیسے شہر میں بھی کام نہ بنا چنانچہ اس کے بعد وہ وہاں سے حیدرآباد آ گئے یہاں ان کو اپنے گاؤں کے کسی دوست نے لکڑیوں کے ٹال پر جاب دلا دی اور یوں انکا کام چلا نکلا -دادا کی دیکھا دیکھی خاندان کے باقی فرد بھی حیدر آباد میں آکر بس گئے جس کی وجہ سے حیدرآبا دمیں ان کا اچھا خاصہ خاندان اکھٹا ہو گیا تھا مرینہ کے بقول ان کے دادا کے چار بیٹے تھے جس میں سے ان کے والد کا نمبر تیسرا تھا ۔دادا کی وفات کے بعد یہ لوگ الگ الگ ہو گئے پھر ان کے والد نے اپنی محنت اور لگن سے اپنا ایک الگ لکڑیوں کا ٹال بنا لیا جبکہ اس کے بھائی کسی اور کے ٹال پر کام کرتے تھے - ٹال کے ساتھ ساتھ اس کے والد نے کچھ دوسرے کام دھندے بھی شروع کر دیئے جس کی وجہ سے یہ لوگ کافی خوش الحال ہوگئے ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کے ابا نےاپنی بچیوں کو حیدرآباد کے اچھے سکولوں میں داخل کرا دیا ۔۔۔ ان کےدوسرے بھائی ترقی کی اس دوڑ میں ان سے خاصے پیچھے رہ گئے تھے۔ چنانچہ وہ اس کے ابا کی خوش حالی کو دیکھ کر ان سے کافی حسد کرنے لگےتھے ۔۔۔
مرینہ کے مطابق اس کے ولد ایک لکی آدمی تھے اور ان میں کاروباری سوجھ بوجھ انتہا کی تھی یہی وجہ تھی ان کا کام دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔۔۔۔ مرینہ اپنے گھر میں والدین کی سب سے بڑی لڑکی تھی جس کی وجہ سے اس کے والد اس سے بے انتہا پیار کرتے تھے مرینہ کے بقول وہ بھی اپنے والدسے بہت پیار کرتی تھی پھر اس نے یہ بھی بتلایا کہ جہاں اس کے والد میں کاروباری سوجھ بوجھ انتہا کی تھی وہاں ان میں ایک بہت بڑی کمزوری بھی تھی اور وہ کمزوری یہ تھی کہ وہ ۔۔ غصے کے بڑےہی تیز تھے اور ان میں برداشت کا مادہ بلکل بھی نہ تھا ۔۔۔قصہ مختصر ایک دن ٹال پر اس کے والد کا اس کے چچا کے سالے کے ساتھ کسی بات پر سخت جھگڑا ہو گیا اور یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ اس کے والد نے غصے میں آ کر اس کو اینٹ دے ماری۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ موقعہ پر ہی ہلاک ہو گیا ۔۔۔ اب اس کے چچا نے اس کے والد کے خلاف 302 کا مقدمہ درج کروا دیااور جس کے مدعی وہ خود بنے ۔۔۔۔ پولیس اس کے والد کو گرفتار کر کے لے گئی اور اسکے ساتھ ہی ۔۔۔۔ مرینہ کے بقول ان لوگوں پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔۔۔ برادری جو پہلے ہی ان لوگوں کی ترقی کی وجہ سے جیلس تھی ۔۔۔۔ اس قتل کے بعد اور بھی ان کی مخالف ہو گئی اور صورتِحال یہ ہو گئی کہ ساری برادری ایک طرف تھی اور مرینہ کے گھر والے ایک طرف ۔۔۔ اس پرمزید ستم یہ ہوا کہ والد کی نرینہ اولاد نہ تھی بلکہ ساری بیٹیں ہی بیٹیں تھی اور جو نرینہ اولاد تھی بھی (ارصلا) وہ ابھی چند ہی ماہ کا تھا ۔۔۔ چنانہا ایسے میں اگر کسی نے ان کی کوئی ہیلپ کی اور وہ بھی چوری چھپی تو وہ فرید تھا اس کے چچا کا بڑا بیٹا ۔۔۔ فرید اور مرینہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور بات کافی آگے تک گئی ہوئی تھی لیکن فرید کی امی اور والد چونکہ ان لوگوں کے سخت خلاف تھے اس لیئے یہ دونوں کسی مناسب موقعہ کی تلاش میں تھے ۔۔۔ قتل کے کیس میں جب اس کے والد اندر ہوئے تو ایسے میں کوئی بھی ان کی مدد کو تیار نہ ہوا ۔۔۔ مرینہ کہتی ہے ان لوگوں سے تفتیش کے نام پر پولیس اتنا زیادہ پیسہ لے گئی کہ یہ لوگ تقریباً کنگال ہو گئے یہاں تک کہ ان کے پاس ٹیکیو ں پر بھاگ دوڑ کے بھی پیسے نہ رہے ۔۔۔اور ۔۔ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اب ان کے حالات ٹیکسیوں پر پھرنے کی مزید اجازت نہیں دیتے ۔۔۔ تو مرینہ نے کہ جس کو پہلے ہی بائیک چلانا آتی تھی اب وکیلوں کے پاس بہ امرِ مجبوری ٹیکسی کی بجائے بائیک پر جانا شروع کر دیا ۔۔ مرینہ کے بقول یہ دور ان کے لیئے بہت ہی مشکل دور تھا ۔۔۔ ساری برادری ان سے ناطہ توڑ گئی تھی ایسے میں ایک فرید ہی ان کے کام آیا ۔۔۔۔ وہ کسی طرح ان کو بتا دیتا تھا کہ آپ لوگ فلاں وکیل کے پاس پہنچو میں بعد میں آتا ہوں تو جب یہ لوگ وہاں پہنچتے تھے تو فرید پہلے سے ہی وہاں موجود ہوتا تھا جس کی وجہ سے بقول مرینہ اس کی عزت بہت دفعہ صرف فرید کی وجہ سے بچی تھی ۔کیونکہ وہ جس بھی وکیل کے پاس جاتے تو اس کی سب سے پہلے نگاہ اس کی جوانی پر جاتی تھی ۔۔۔اور ہر کوئی اس کی جوانی کو ہی دیکھتا تھا ۔قصہ مختصر جب سیشن کورٹ سے ان کے والد کی ضمانت خارج ہوگئی تو ان لوگوں نے ہائی کورٹ جانے کی ٹھانی ۔۔۔۔ فرید کا ایک کلاس فیلو تھا جس کا والد حیدر آباد کا مشہور وکیل تھا اور جو صرف ہائی کورٹ کے کیس لیتا تھا ۔۔۔ فرید نے منت سماجت کر کے ان کے والد سے ٹائم لیا اور مرینہ اور اس کی امی وقتِ مقررہ پر وکیل صاحب کے آفس پہنچ گئیں ۔اور انہیں والد کے قتل کیس کی فائیل دے دی ۔
انہوں نے ساری فائل پڑھنے کے بعد مرینہ اور اس کی والدہ کو بتایا کہ ان لوگوں نے آپ کا کیس اتنا پکا بنایا ہوا ہے کہ آپ کے والد کی ہائی کورٹ سے بھی ضمانت ہونا بہت مشکل ہے ۔۔۔ اور ان کے پوچھنے پر مزید بتاہا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے خیال میں اس کیس میں ان کے والد کا بچنا بہت مشکل ہے ۔۔۔۔ ان کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔مرینہ کہتی ہے وکیل صاحب کے منہ سے سزائے موت کا سُن کر دونوں ماں بیٹی کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی تھی اور وہ دونوں خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور وہیں رونے لگ گئیں ۔۔۔۔ تبھی فرید نے وکیل صاحب سے پوچھا کہ انکل ۔۔۔ کوئی اور طریقہ ہے جس سے ان کے والد کی جان بخشی ہو سکے؟؟ تو انہوں نے کہا ہاں ایک ہے اگر آپ کر سکو۔۔ تو۔۔!!!
دکیل صاحب کی بات سے ہماری کچھ ڈھارس بندھی اور ہم دونوں ماں بیٹی نے رونا دھونا چھوڑ کر ان سے پوچھا کہ وہ کیا طریقہ ہے؟؟ تو اس نے بتایا کہ ۔۔وہ ہے قصاص !! اگر آپ لوگ مقتول کے خاندان کو خون بہا ادا کر دیں تو آپ کے بندے کی جان بخشی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔ ورنہ دوسری صورت میں آپ کا بندہ پھانسی پربھی لٹک سکتا ہے ۔۔۔ پھانسی کا نام سُن کر ہم دونوں کی جان نکل گئی ۔۔۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ مجھے اپنے والد سے بہت محبت ہے اس لیے میں نےتہیہ کر لیا تھا کہ میں ہر صورت اپنے والد کی جان بچاؤں گی ۔۔۔ چنانچہ ہم نے اپیل کا فیصلہ مؤخر کر دیا ۔ویسے بھی دا جی( ابو) کو جیل میں گئے ہوئے سات آٹھ ماہ تو ہو ہی چکے تھے اور میرا خیال تھا کہ چاچا لوگوں کا غصہ اب کافی حد تک ٹھنڈا ہو چکا ہو گا یہ سوچ کو ہم نے صُلع کے لیئے بھاگ دوڑ شروع کر دی ۔۔
مرینہ کہتی ہے کہ فیصلہ کرنے کے بعد وہ سب سے پہلے اپنے والد کے پاس گئے اور ان سے وکیل صاحب سے ملاقات اور ان کی رائے سے آگاہ کیا ۔۔ سارا ماجرا سُننے کے بعد ظاہر ہے دا جی کافی پریشان ہوئے لیکن اس کے باوجود بھی وہ صلع کے لیئے کسی طور بھی راضی نہ ہو رہے تھے لیکن جب امی نے ان کو اپنی چھوٹی چھوٹی بچیویوں کا واسطہ دیا اور بتلایا کہ ان کے اندر ہونے کے ساتھ ہی ٹال پر ان کے ملازموں نے ان کو بہت ہی کم پیسے دیئے ہیں اور ذیادہ تر ملازم چچا کے ساتھ مل گئے ہیں اور پھر امی نے اس کے ساتھ ہی ان کو جزباتی بلیک میل بھی کیا تو دا جی یہ ساری صورتِ حال جان کر صُلع کے لیئے راضی ہو گئے ۔ ابا کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد ہم لوگ دادا کے چھوٹے بھائی جو ابھی زندہ تھے کے پاس گئے ۔۔۔ اور ان کو ساری بات سنا کر مدد کی درخواست کی۔ ۔۔اندر سے تو وہ بھی چچا لوگوں کے حق میں تھے لیکن شکر ہے کہ انہیں ہماری درد بھری داستان سن کر ہم پر رحم آ گیا اور انہوں نے ہمیں اپنی مدد کا یقین دلا دیا اور ۔۔۔۔ کچھ دن بعد آنے کا کہا ۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے چچا اور اس کے سالوں کے ساتھ صلع کے لیئے کوششیں کرنا شروع کر دیں ۔۔۔۔ اس بات کے دس پندرہ دنوں کے بعد ایک دن چھوٹے دادا ہمارے گھر آئے اور بتایا کہ وہ لوگ صلع کے لیئے تیار ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ صلع کے لیئے تین شرطیں پیش کر رہے ہیں ۔۔اور۔ وہ تینوں شرطیں خاصی ذلت آمیز تھیں ۔جنہیں سن کر میرا تو خون کھول اُٹھا ۔ لیکن ہماری پوزیشن ایسی تھی کہ ۔۔۔ ہم انکار نہ کر سکتے تھے ان کی پہلی شرط یہ تھی کہ ۔۔۔جیل سے رہائی کے بعد ۔ ابا یہ علاقہ چھوڑ دیں اور بطور تاوان اپنا ٹال چچا کے حوالے کردیں۔۔۔ تیسری شرط ونی کی تھی کیونکہ مرنے والے کا بڑا بھائی اس کا وارث تھا جو کہ ایک خاصہ خوشحال متمول اور کافی اثر و رسوخ والا آدمی تھا اور جس کا حیدرآباد میں ٹرانسپورٹ کابہت بڑا کاروبار تھا نام اس کا قاسم تھا لیکن خاندان کے سب چھوٹے بڑے اس کو قاسم چاچا کہتے تھے اس کیس میں سارا خرچہ قاسم چا چا ہی کر رہا تھا جبکہ مرینہ کے چچا تو بس برائے نام ۔۔۔ہی صرف اپنے کینے کی وجہ سے اس کیس میں پیش پیش تھے ۔۔۔ قاسم چاچا کی بیوی کافی عرصہ پہلے فوت ہو چکی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ قاسم خان جس کی اس وقت عمر بلا مبالغہ 70 کے قریب ہو گی اور یہ ونی قاسم چا چا کے ساتھ ہونی تھی ۔۔۔ چھوٹے دادا کی شرطیں سُن کر ہم نے ان سے کچھ ٹائم مانگا اور پھر مشورہ کے لیئے دا جی کے پاس جیل چلے گئے ۔۔۔ پہلی دو شرطوں پر تو انہوں نے کوئی خاص رسپانس نہ دیا لیکن جب ان کو بتایا گیا کہ میری ونی قاسم چاچا کے ساتھ ہونی ہے ۔۔۔ تو وہ تڑپ اُٹھے اور بولےان بے غیرتوں کو اتنی بھی شرم نہیں آیہ کہ قاسم خان تو مجھ سے بھی 10۔15 سال بڑا ہےاور میری بیٹی اس کی پوتی کے برابر ہے میں بھلا اپنی پیاری بیٹی کو اس کے ساتھ کیسے ونی کر دوں؟؟ ۔۔۔۔ پھر میں نے ہمت کی اوردا جی کو سمجھایا کہ اس کے بغیر اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے اور پھر ان سے کہا کہ دا جی آپ نے مجھے کسی نہ کسی کے ساتھ تو بیاہنا تھا نا ۔تو آپ سمجھ لو کہ میرا نصیب ہی یہی تھا ۔ میری قربانی سے کم از کم باقی لوگ تو سکھی ہو جائیں گے اور ان کو بتایا کہ میری بہنیں جوان ہو رہیں ہیں ان کے سر پر آپ کا سایہ بہت ضروری ہے ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کافی دیر تک چپ رہے ۔۔۔ماحول کافی سوگوار ہو گیا تھا ۔ میں امی اور دا جی (ابو) ہم تینوں ہی رو رہے تھے اور میں نے پہلے دفعہ اپنے دا جی کو یوں بچوں کی طرح روتے ہوئے دیکھا تھا وہ ۔۔۔۔ ساری بات سمجھتے تھے لیکن ۔۔۔ میری ونی کے لیئےوہ کسی بھی طور بھی راضی نہ ہو رہےتھے ۔ پھر میں نے ان کو ذور دے کر بتلایا کہ دا جی میں آپ کے لیئے ونی ہونے کے لیئے خوشی سے راضی ہوں آپ پلیز میری فکر نہ کریں ۔۔۔
میری بات سُن کر وہ پھر سے رونے لگے اور بولے ۔۔۔ بیٹا میری غلطی کی سزا تم کیوں جھیلو؟ لیکن میں نے اور امی نے منت سماجت کر کے ان کوبڑی ہی مشکل منا لیا کہ اس کے بغیر اور کوئی چارہ بھی نہ تھا اور میرا خیال ہے یہ بات وہ بھی اچھے طرح سے سمجھتے تھےخیر ان کی طرف سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہم وہاں سے چھوٹا دادا کے گھر گئیں اور ان کو ساری صورتِحال بتائی ۔۔۔ سُن کر انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن ایک دفعہ وہ خود بھی دا جی سے ملنا چاہیں گے کہ مردوں کی بات اور ہوتی ہے اور عورتوں کی بات اور ۔۔۔۔ ان کی یہ بات سُن کر مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن جبر کر گئی اور ہم ماں بیٹی وہاں سے گھر آگئے ۔۔۔۔ دوسرے یا تیسرے دن چھوٹے دادا ۔۔۔ دا جی کے پاس جیل گئے اور ان سے ساری باتیں ڈسکس کیں اور پھر دا جی کی منظوری کے بعد اگلے جمعہ کو ان کے گھر ہمارے خاندان کا جرگہ ہوا ۔۔۔ جس میں ابا کی طرف سے میں اور امی پیش ہوئیں ۔۔۔ ساری شرطیں پہلے ہی سے طے تھیں لیکن اس کے باوجود جرگے کے سامنے یہ ساری شرطیں ایک دفعہ پھر رکھی گئیں اور جرگے کے سامنے چھوٹے دادا نے دا جی کی ضمانت دی ۔۔۔ اور یوں سارے معاملات طے ہو گئے جرگہ میں ظاہر ہے قاسم چاچا بھی موجود تھا جو بار بار میری طرف میری طرف للچائی ہوئ نظروں سے دیکھ رہے تھے اور ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ مجھے وہیں ۔کھڑے کھڑے اپنے ساتھ لے جائیں ۔۔ اسی دوران انہوں نے اسی وقت مجھ سے نکاح بھی کرنا چاہا لیکن جرگہ نے انہیں اس بات کی اجازت نہ دی اور حکم دیا کہ سب سے پہلے دا جی کی رہائی ہو گی پھر اس کے بعد کوئی اور بات ۔۔۔
اس جرگے کے ایک ماہ بعد دا جی گھر آ گئے اور پھر انہوں نے اپنا ٹال چچا کے نام کر دیا اور خود یہاں پنڈی میں جانے کی تیاری کرنے لگے جس نے میری فیملی نے پنڈی کے لیئے ٹرین میں بیٹھنا تھا اسی دن صبع صبع میرا قبل میرا نکاح قاسم خان سے ہو گیا ۔۔۔
گو کہ میرا نکاح صبع صبع ہی ہو گیا تھا لیکن میں نے لڑ بھڑ کر اس وقت تک رُخصتی سے انکار کر دیا تھا کہ جب تک میرے والدین گاڑی پر بیٹھ کر چلے نہیں جاتے۔ چنانچہ میری یہ خواہش مان لی گئی اور وہ لوگ چھوٹے دادا کو وہاں چھوڑ کر واپس چلے گئے ۔۔ جانے سے پہلے امی مجھے ایک طرف لے گئیں اور کہنے لگیں دیکھو میری بچی یہ جو باتیں میں تم سے کر رہی ہوں ان کو غور سے سنو اور انہیں اپنے پلو سے باندھ لو اور پھر انہوں نے مجھے شادی کے متعلق بہت معلومات دیں جن میں سے کافی ساری باتوں کا مجھے پہلے سے ہی علم تھا ان باتوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے مجھے ایک بات پر خاصہ زور دیا اور وہ بات یہ تھی کہ میں ہر ممکن اپنے خاوند کا دل جیتنے کو کوشش کروں انہوں نے بتلا یا کہ تم جہاں جا رہی ہو وہ سب تمھارے اور تمھارے باپ کے دشمن لوگ ہیں وہ تم پر ہر ممکن سختی کریں گے اور تم کو ذلیل و رسوا کرنے کا کوئی بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے لیکن تم نے ہمت نہیں ہارنی ۔۔۔ کسی طرح بھی ہو اپنے خاوند کا دل جیتنا ہے اور اس کو اپنی مُٹھی میں کرنا ہے تبھی تمھارا گزارا ہو گا ورنہ یہ لوگ تم کھا جائیں گے اور خاص طور پر کہا کہ چاہے کچھ بھی ہو تم نے ہمت نہیں ہارنی ۔۔۔ میں نے بڑے غور سے ماں کی باتیں سنیں اور ان کو یقین دلایا کہ میں ان پر دل و جان سے عمل کروں گی۔۔۔۔ اور بوجھل دل کے ساتھ ان کو رخصت کیا جسے ہی دا جی لوگ گھر سے سٹیشن کے لیئے نکلے چھوٹے دادا جی نے مجھے ساتھ لیا اور قاسم چاچا کے گھر چھوڑ آئے ۔۔۔ قاسم چاچا کی حویلی میں نوکر چاکروں کے علاوہ چار لوگ رہتے تھے جن میں ایک تو دا جی کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا اور اب کل تین لوگ تھے ایک قاسم چاچا ۔ دوسرا ان کی بہن صنوبر ۔۔۔ جس کو ہم صنوبر پھوپھو کہتے تھے صنوبر پھوپھو ایک بھاری بھر کم عورت تھی لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہ موٹاپا ان پر بہت جچتا تھا اور اس موٹاپے میں بھی وہ بڑی ہی خوبصورت اور دلکش نظر آتیں تھیں۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت کم ایسی لیڈیز دیکھیں ہیں جن پر موٹاپا سجتا ہو ۔۔ صنوبر پھوپھو کوئی پینتالیس چھیالس سال کی ۔۔۔ ہوں گی اور یہ بیوہ تھیں ان کی ایک بچی تھی جس کی شادی کراچی میں ہوئی تھی اور وہ کبھی کبھی ملنے آتی تھی دوسری شخصیت جو قاسم چاچا کے گھر میں رہتی تھی وہ ان کا چھوٹا بھائی ہمت خان تھا ۔۔۔ جو کبھی کھبار ہی گھر آتا تھا قاسم چاچا کا ٹرانسپورٹ کا کام عملاً اس نے ہی سنبھالا ہوا تھا ۔۔ سننے میں آیا تھا کہ وہ ایک لوفر بندہ تھا ۔۔۔لیکن اس کو ہم نے کم ہی گھر پر دیکھا تھا وہ زیادہ تر ٹرانسپورٹ اڈے پر اپنے بنائے ہوئے ڈیرے پر ہی پایا جاتا تھا ۔اورلڑکوں کا زیادہ شوقین تھا اسی وجہ سے اس نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی ۔۔ قاسم چاچا کی دوسری بہن جو کہ میری چاچی بھی لگتیں تھیں اوروہ اپنے کے گھرمیں رہتی تھیں نہایت ہی خبیث خاتون ہیں چاچا کو دا جی کے خلاف ابھارنے میں اس کا مین کردار تھا ۔
چھوٹے دادا جی مجھے صنوبر پھوپھو کے حوالے کر کے خود باہر مردان خانہ میں چلے گئے ۔۔جہاں پر برادری کے اچھے خاصے لوگ جمع تھے اور ایک جشن کا سماں تھا ۔۔ یہ شام کا وقت تھا صنوبر پھوپھو مجھے ایک کمرے میں لے گئیں جو کہ کافی سجا ہوا تھا اور یہ قاسم چاچا کا کمرہ تھا وہاں جا کرمیرے منہ سے ویسے ہی نکل گیا کہ ۔۔۔۔کہ پھوپھو یہ تو قاسم چاچا کا کمرہ ہے ۔۔۔میری بات سن کر انہوں نے فوراً میرے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی اور بولی خبردار ۔۔ چاچا وہ شادی سے پہلے تھے اب وہ تمھارے شوہر اور خان جی ہیں ۔۔۔۔اس لیئے آج سے تم ان کو خان جی کہا کرو گی ۔اور مجھے صنوبر پھوپھو کی بجائے صنوبر باجی کہو گی ۔۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے ایک سرخ رنگ کا دلہن والا جوڑا دیا اور بولی نہانے کے بعد کر اسے پہن لینا ۔۔ اور میں جیسے ہی نہانے کے لیئے جانے لگی تو انہوں نے میرے ہاتھوں میں ایک بال صفا کریم پکڑائی ۔۔۔ تو میں نے ویسے ہی روا داری میں ان سے پوچھ لیئے کہ اس کا کیا کرنا ہے ؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ وئی ۔۔!! تم کو یہ بھی نہیں معلوم کہ آج تمھاری پہلی رات ہے اور تم بالوں والی ۔۔۔ کے ساتھ اپنے خاوند کے پاس جاؤ گی ۔۔؟ پھر بڑے معنی خیز لہجے میں بولیں میرا خیال ہےتم بات کو سمجھ گئی ہو گی ۔۔ان کے کہنے پر مجھے یاد آیا کہ دا جی قتل کی بھاگ دوڑ میں میں بڑا عرصہ ہوا میں تو اپنے نچلے حصے کی صفائی کرناہی بھول گئی تھی یہ بات یاد آتے ہی میں نے صنوبر پھو پھو کے ہاتھ سے کریم لی اور واش روم میں گھس گئی ۔۔ واش روم میں کپڑے اتارتے ہی دیکھا تو سامنے ایک قدِآدم شیشہ لگا ہوا تھا چنانچہ ہینگر پر کپڑے لٹکاتے ہی میں اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور اپنا جائزہ لینے لگی ۔۔۔۔اسی دوران میر ی نظر اپنے کسے ہوئے بدن سے ہوتی ہوئی اپنی چوت کی طرف گئی ۔۔۔۔ دا جی کےقتل کیس میں اسے بھول ہی گئی تھی ۔۔اب جو دیکھا ۔تو۔۔ وہاں بالوں کا ایک گھنا جنگل اگا ہوا تھا ۔۔۔۔ پھر میں نے اپنی پھدی پر بڑھے ہوئے بالوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔ اور ان میں انگلیاں پھیرنے لگی ۔۔ ۔۔پھر اچانک ۔۔۔۔ مجھے صنوبر ۔۔۔۔ پھوپھو کی کہی ہوئی یہ بات یاد آگئی کہ ۔ آج تمھاری پہلی رات ہے ۔۔یہ سوچ آتے ہی ۔میں نے ۔شرم سے سوچا ۔۔ اُف ۔ مجھے پہلے کیوں نہ ۔ان بالوں کو کاٹنا یاد آیا ؟؟۔۔پھر میں نے سوچا کہ ۔ اگر صنوبر پھوپھو مجھے کریم نہ دیتی تو ؟؟ ۔۔۔ میں ایسی ہی ۔۔وہ کیا سوچتے ؟؟۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی شرم سے میرا چہرہ سُرخ ہو گیا ۔۔ اور میں نے دل ہی دل میں صنوبر پھوپھو کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔ صنوبر پھوپھو کے ساتھ ہی مجھے ان کا کہا ہوا یہ فقرہ بھی یاد آ گیا کہ ۔ آج تمھاری سہاگ رات ہے ۔۔سہاگ رات۔۔۔۔۔ سہاگ رات کا یاد آتے ہی میرے پورے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی اور ۔۔۔ میرے اندر کچھ عجیب سی فیلنگ بھرنے لگیں ۔اور میں یہ سوچ کر ہی شرم سے دوھری ہو گئی ۔کہ آج رات ۔۔ میری ۔۔۔۔چوت ۔۔ ماری جائے گئی یہ خیال آتے ہی ۔۔۔ بے اختیار میرا ہاتھ اپنی بالوں والی پھدی کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔اورمیں نے اپنی پھدی کے بالوں کو ایک طرف ہٹا کر۔ چوت کے لبوں پر لے گئی ۔۔۔ یہ لب آپس میں جُڑے ہوئے تھے ۔۔ پھر میں نے انہیں انگلیوں کی مدد سے کھول دیا ۔۔ ۔۔اور ۔۔ شیشے کے سامنے اپنی چوت کا معائینہ کرنے لگی ۔اُفف ف ۔ اندر یہ کتنی سُرخ تھی ۔ اور ۔میں اپنی سُرخ سُرخ پھدی کو دیکھ مست ہونے لگی ۔۔۔۔ پھر اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی مڈل فنگرکو اپنی پھدی کے اندر ڈال دیا اور اسے ادھر ادھر گھمانے لگی ۔۔آہ۔ہ۔ہ۔ہ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میرے اوپر ایک عجیب سا سرور ۔چھانےلگا خصوصاً یہ سوچ کر کہ ۔۔۔ آج اس پھدی میں قاسم چا چا کا لن جائے گا ۔پتہ نہیں قاسم چا چا ۔۔۔ او ۔۔ خان جی کا لن کتنا بڑا ہو گا ۔۔۔ میری اس تنگ سی پھدی میں جا پائے گا بھی کہ نہیں ۔۔؟؟
یہ بات سوچ سوچ کر ۔۔۔۔میں مست ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر تک میں نے فنگرنگ کی ۔۔ پھر میں نے اپنے غیر ضروری بالوں پر کریم لگانا شروع کر دی ۔۔۔۔ کریم لگانے کے بعد اچانک خیال آیا کہ ۔۔۔ یہ لوگ تو ہمارے دشمن ہیں ۔۔ پھر میں ایسا کیوں سوچ رہی ہوں ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے امی کی کہی ہوئی بات یاد آ گئی کہ چونکہ میرا جینا مرنا اب اسی گھر میں ہے ۔۔۔۔ اور اس گھر میں رہنے کے لیئے یہ بات اشد ضروری ہے کہ میں ہر صورت میں اپنے خاوند کا دل جیتوں ۔۔۔ اور اس کا دل اسی صورت میں جیتا جا سکتا ہے کہ ۔۔۔۔۔ اسی طرح میری اندر مختلف سوچوں نے یلغار کر دی کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے ۔۔۔۔ کافی سوچ بچار کے بعد میں نے یہی فیصلہ کیا کہ جیسا بھی ہے قاسم خان جی اب میرا خاوند ہے اور مجھے سب سے پہلےاس کو قابو کرنا ہے اور اسے قابو تبھی کیا جا سکتا ہے کہ جب میں اسے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ خیال آتے ہی میں ایک دفعہ پھر گرم ہونا شروع ہو گئی اور ۔۔۔میری ۔۔۔چوت۔۔۔۔میں ہلکی ہلکی آگ لگنے لگی ۔۔۔۔
نہانے کے بعد ایک دفعہ پھر میں نے شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے ننگے بدن خصوصاً اپنی پھدی کو اندر باہر سے اچھی طرح چیک کیا ۔۔۔۔ تو میری چوت کے لبوں سے ہلکا ہلکا پانی رِس کا باہرکی طرف آ رہا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔ پھر میں نے ایک انگلی چوت میں ڈالی وہ اندر سے کافی گیلی ہو رہی تھی ۔۔۔۔پھر میں نے اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا یا اور آنے والے وقت کے بارے میں سوچتے ہوئے۔۔۔ کپڑے پہننے لگی ۔۔۔
میں جب واش روم سے باہر آئی تو صنوبر باجی ایک خاتون کے ساتھ پہلےسے موجود تھیں اورمیرا خیال ہے کہ وہ دونوں میرا ہی انتظار کر رہیں تھیں کیونکہ جیسے ہی میں باہر آئی صنوبر نے میرا ہاتھ پکڑا اور ڈریسنگ کے سامنے بٹھا دیا ۔۔۔۔ فوراً ہی دوسری خاتو ن جو کہ بیوٹیشن تھی آگے بڑھی اور اس نے میرا میک اپ کرنا شروع کر دیا اور ایک دو گھنٹے لگا کر مجھے تیار کر دیا ۔او وقت رات کے 9/10 ہوں گے ۔۔ جب میں میک کرا کے فارغ ہوئی تو صنوبر باجی نے مجھے پلنگ پر بیٹھنے کو کہا اور پھر انہوں نے سائیڈ پر سرسوں کے تیل کی بوتل رکھی اور ساتھ ہی ایک صاف سا کپڑا مجھے پکڑاتے ہوئے بولی ۔۔۔ رکھ لو ۔۔اور پھر بڑے ہی معنی خیز لہجے میں بولی ۔۔۔ یہ بڑے کام آئے گا ۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی تپائی پر بیٹھ کر وہ میرے ساتھ باتیں کرنے لگیں ۔۔گو کہ ۔ اس وقت تک اس کا میرے ساتھ رویہ بڑا ہی دوستانہ تھا لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ان کا یہ سارا عمل جعلی جعلی سا لگ رہا تھا ۔۔۔ خیر رات کے کوئی بارہ ایک بجے خان جی کمرے میں داخل ہوئے ۔۔ اس وقت انہوں نے سفید کاٹن کا سوٹ پہنا ہوا تھا اور اس کے اوپر کالی واسکٹ تھی ۔۔۔ سر پر سفید ٹوپی تھی اور گلے میں کافی سارے نوٹوں کے ہار پڑے تھے جو غالباً ان کے دوستوں نےپہنائے ہوں گے ۔۔۔ خان جی کے اندر داخل ہوتے ہی صنوبر باجی اُٹھی اور خان کو مبارک دیتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی لیکن فوراً ہی واپس بھی آگئی اس کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا جو اس نے بڑی خاموشی سے تپائی پر رکھا اور پھر اسی خاموشی سے چلی گئی۔۔ خان جی بھی اس کے پیچھے پیچھے دروازے تک گئے اور بولے ۔۔۔ اور تو کچھ نہیں ہے نا ؟ تو وہ بولی ۔۔ اور کچھ نہیں خان جی ۔۔۔ اور وہ باہر نکل گئی ۔۔ اس کے جاتے ہی خان جی نے دروازے کو لاک کیا اور میرے پاس مسہری پر آ گئے اس وقت تک میں نے اپنے چہرے کو دوپٹے سے چھپا لیا تھا ۔۔۔یعنی کہ گھونگٹ آگے کر لیا تھا ۔۔۔ وہ آئے اور انہوں نے بڑے پیار سے میرا گھونگٹ اُٹھا یا۔۔۔۔ مجھے میک اپ میں دیکھ کر وہ دنگ ہی رہ گئے ۔۔۔ اور کافی دیر تک وہ مجھے یک ٹک دیکھتے رہے ۔۔۔ پھر ہولے سے بولی ۔۔۔۔ مرینہ ۔۔۔۔ تم تو اپنی ماں سے بھی زیادہ خوبصورت ہو۔ اور پھر انہوں نے اپنی واسکٹ کے جیب سے ایک انگھوٹھی نکالی اور مجے اپنا ہاتھ آگے کرنے کو کہا میں نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور تو وہ اسے دیکھ کر چونک گئے اور بولے ۔۔۔صنوبر نے تم کو مہندی کیوں نہیں لگائی ۔؟؟ لیکن میں نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا اور بس چُپ چاپ سر جھکائے بیٹھی رہی ۔۔ وہ کافی دیر تک میرے جواب کے منتظر رہے لیکن جب میں نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ خود ہی کہنے لگے چلو کوئی بات نہیں اس کے بعد انہوں نے مجھ سے بات چیت شروع کر دی اور بولے ۔۔۔۔ دیکھو جو ہونا تھا ہو گیا ۔۔۔ اب اس کو یاد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد انہوں نے کافی دیر تک میرے ساتھ باتیں کیں اور اپنے گھر کے بارے میں سمجھاتے رہے کہ مجھے کیا کرنا ہوگا زیاددہ تر باتیں وہی کر رہے تے میں تو بس ہوں ہاں میں جواب دے رہی تھی ۔۔۔ ۔ضروری باتیں کرنے کے بعد انہوں نے اپنا ہاتھ میری ٹھوڑی پر رکھا اور میرا چہرہ اوپر کرتے ہوئے شوخی سے بولے ۔۔ سارا وقت میں ہی بولے جا رہا ہوں کچھ تم بھی بولو نا ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔میں کیا بولوں خان جی ؟؟ ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگے کچھ بھی ۔۔۔۔ لیکن میں چپ رہی پھر اس کے بعد انہوں نے میرے حسن کی تعریف کرنی شروع کر دی اوراسکے ساتھ ہی میرے نزدیک ہو گئے اور پھر انہوں نے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر رکھ دیا اور مجھے ہلکا سا بوسہ دیا ۔۔۔۔ جو مجھے بڑا اچھا لگا اس کے بعد انہوں نے میرے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لے لیا اور ان کو چوسنے لگے ۔۔۔ آہ ،،ہ ۔۔ ان کے اس عمل سے میرے اندر مستی چھانے لگی ۔۔۔
کافی دیر تک وہ میرے ہونٹ چوستے رہے اس کے بعد انہوں نے مجھے نیچے لٹا دیا اور خود میرے اوپر آ گئے اور ایک دفعہ پھر میرے ہونٹ چوسنے لگے ۔۔۔ جس سے میری مستی میں اضافہ ہونے لگا ۔۔ پھر انہوں نے میری قیمض اوپر کی اور برا ہٹا کر میری چھاتی کو ننگا کر دیا ۔۔۔ اور خود پاس بیٹھ گئے ۔۔۔ پھر انہوں نے میرے نپل کو اپنی دونوں انگلیوں میں پکڑا اور اسے مسلنے لگے ۔۔۔۔ اور مسلتے گئے ۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ نیچے جھکے اور میری ایک چھاتی کو اپنے منہ میں لے لیا اور میرے نپل کو چوسنے لگے ۔۔۔ اور میں جو مست ہو رہی تھی اب آہستہ آہستہ میرے نیچے آگ لگنا شروع گئی ۔۔۔۔۔ لیکن وہ میری اس آگ سےبے خبر باری باری میرے دونوں نپلوں کو چوسے جا رہے تھے ۔۔۔۔ اور نیچے سے میری آگ تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی ۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ خان جی میرے نپلز کو چھوڑ کر اب نیچے لگی آگ کا بھی کچھ کریں ۔۔۔۔ لیکن میں مجبور تھی کچھ کہہ نہ سکتی تھی ۔۔۔
کچھ دیر بعد انہوں نے مر ے نپلز سے اپنا منہ ہٹایا اور میری طرف دیکھ کر بولے کیا خیال ہے ؟؟ میں کچھ نہ سمجھی اور بولی کس بات کا ؟ تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنی قمیض اتارنے لگے واسکٹ وہ پہلے ہی اتار چکے تھے ۔۔۔۔ قمیض اتارنے کے بعد انہوں نے اپنی شلوار بھی اتار دی ۔۔۔ جیسے ہی انہوں نے اپنی شلوار اتاری ۔۔۔ میں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا جب وہ پورے ننگے ہو گئے تو انہوں نےمیری آنکھوں پر رکھا میرا ہاتھ ہٹایا اور بولے۔۔۔ کس بات سے شرما رہی ہو میری جان ۔۔!!! اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا ۔۔۔۔ تب میں نے ان کے مردانہ عضو کی طرف دیکھا تو حیرت کے مارے میری آنکھیں پھٹنے کے قریب ہو گئیں ان کا "وہ " بہت بڑا اور خصوصاً اس کا اگلا سرا بہت موٹا تھا ۔ ۔۔۔۔ اور یہ سوچ کر ہی مجھے غش آنے لگا کہ خان جی کا اتنا بڑا ۔۔ میری تنگ سی چوت میں کیسے جائے گا؟؟ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ خان جی بولے اس کو دباؤ ۔۔۔ اور میں نے ان کا وہ پکڑ کا ہلکا سا دبا یا اور پھر ۔۔ اسے چھوڑ دیا ۔۔۔ ان کا وہ بہت گرم اور سخت اکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔جب میں نے ان کے اس سے ہاتھ ہٹایا تو ۔۔۔۔ہنس پڑے اور بولے ،۔۔۔ کیاگ ہے میرا لن ؟ لیکن میں نے کوئی جواب نہ دیا پھر وہ مجھ سے بولے میں نے اپنی شلوار اتار دی ہے تم بھی اپنے کپڑے اتارو ۔۔۔ میرا بھی یہی جی چاہ رہا تھا ۔۔۔ لیکن شرم کے مارے میں کچھ نہ کہہ سکتی تھی ۔۔ انہوں نے بھی میری یہ حالت بھانپ لی اور پھر وہ آگے بڑھے اور خود ہی میرے کپڑے اتار دئے اب میں ان کے سامنے ننگی پڑی تھی ۔۔۔ انہوں نے ایک نظر میرے ننگے سراپے پر ڈالی اور پھر وہ ٹانگوں کے بیچ آ گئے اور دونوں ٹانگوں کے بیچ بیٹھ کرانہوں نے اپنا ہاتھ میری پھدی پر رکھ دیا ۔۔۔ اور بولی ۔۔۔اوئے ۔۔۔۔ کتنی گرم ہے تمھاری۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر میری چوت کے دانے کو مسلنے لگے ۔۔۔ جس سے میری تن میں ایک عجیب سی ہلچل مچ گئی اور مجھے خواہ مخواہ انگڑائیاں آنے لگیں اور شہوت کی وجہ سے میرا سارا جسم کانپنے لگا ۔۔۔ پھر انہوں نے میری آنکھوں میں دیکھا تو وہاں بھی انہیں شہوت کے لال ڈورے تیرتےنظر آئے ۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے میری ۔۔۔ ہپس کے نیچے ایک تکیہ رکھا اور خود میری ٹانگوں کے درمیان اکڑوں بیٹھ گئے اور پھر پاس پڑے سرسوں کے تیل کی شیشی سے کافی سارا تیل نکلا اور اپنے لن پر اچھی طرح مل دیا پھر انہوں نے اپنے اس کا بڑا سا ٹوپ میری چوت کے لبوں پر رکھا اور میری طرف دیکھ کر بولے ۔۔۔۔ بس تھوڑی سی تکلیف ہوگی ۔اور پھر میری ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھ لیں ۔۔۔ اور اپنے لن کو میری چوت کے نشانے پر رکھ کر ہلکا سا دھکا لگا دیا ۔۔ ان کے لن کا نوکیلا سرا پھسل کر میری چوت کے تھوڑا سا اندر چلا گیا ۔۔۔ جو میں نے اپنی چوت میں محسوس کیا اور پھر میں نے شرم کے مارے اپنی آنکھوں کو اپنے بازؤں سے ڈھانپ لیا انہوں نے میری اس حرکت کا کوئی نوٹس نہ لیا ۔۔۔ کیونکہ ان کی سار ی توجہ میری چوت کی طرف تھی ۔۔۔۔۔
اس کے بعد ۔۔۔ پہلےتو انہوں نے میری چوت میں اپنے لن کے اگلے سرے کو بڑے آرام سے اِن آؤٹ کرنا شروع کر دیا ۔۔ ان کا لن اندر جاتے ہی میری چکنی چوت کی دیواروں نے مزید چکناہٹ چھوڑنے شروع کر دی ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے میری تنگ چوت میں ان کے لن کے اگلے سرے کو آنے جانے میں کافی آسانی ہو گئی ۔جب ان کے لن کے آنے جانے میں کچھ روانی آ گئی تو وہ رک گئے اور مجھے مخاطب کر کے بولے ۔۔۔ مرینہ جان ۔اب میں سارا لن تمھارے اندر ڈالنے لگا ہوں ۔تمھیں ۔بس ۔تھوڑا سا درد ہو گا ۔۔۔۔ پھر اس کے بعد انہوں نے ایک زور دار ۔۔۔ جھٹکا مارا اور ۔۔۔۔ ان کا سارا لن میری چوت میں اتر گیا ۔۔۔۔۔ لن اندر جاتے ہی درد کی ایک تیز لہر ۔۔۔ میرے سارے بدن میں پھیل گئی اور پھر ۔۔۔ اس درد کی وجہ سے ۔۔۔ خود بخود ہی میرے منہ سے چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔ اوئی مورے ۔۔۔ خوگی کی ۔۔۔ خوگی کی ۔۔۔۔۔۔ (ماں مجھے درد ہو رہا ہے ) ۔۔۔ انہی چیخوں کے درمیان مجھے خان جی کی آواز سنائی دی ۔۔۔ چپ شا ماڑا ۔۔ اس شے نشتا ۔(چپ ہو جاؤ کچھ بھی نہیں ہے ) لیکن مجھے خود پر کنٹرول نہ تھا اس لیئے میری چیخیں جاری رہیں ۔۔۔ خان جی کچھ دیر تک تو کہتے رہے ۔۔۔۔ اس شے نشتہ ۔۔۔۔لیکن ان کے ہر گھسے پر میری جان نکل رہی تھی اس لیئے جب انہوں نےدیکھا کہ میر ی چیخیں نہیں بند ہو رہیں تو انہوں نے ہاتھ آگے بڑھا کر میرے منہ پر رکھ دیا ۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر میری چوت کی دھلائی شروع کر دی ۔۔ مجھے ان کی اس چودائی سے مزہ بھی آ رہا تھا اور درد بھی ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ اس طرح کافی دیر گزر گئی ۔۔۔اس دوران میں کافی دفعہ فارغ ہوئی لیکن وہ ظالم نہ ہوا ۔۔ آخر ۔ ۔۔۔۔ کوئی 20،25 منٹ بعد میں نے دیکھا کہ خان جی کو سانس چڑھا ہوا ہے اور وہ بری طرح سے ہانپ رہے ہیں گو کہ اس دوران میں کافی دفعہ چھوٹ چکی تھی ۔۔۔ لیکن خان جی کی یہ حالت دیکھ کر میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ میری پھدی کی ساری دیواریں خان جی کے لن کے ساتھ چمٹ سی گئیں ہیں ان اس کے ساتھ ہی خان جی نے لمبے لمبے سانس لیئے ۔۔۔ اور ان کے لن نے منی چھوڑنا ۔۔۔۔ شروع کر دی ۔۔۔۔اور میں نے اپنی چوت کے اندر ۔۔۔ خان جی کے لن کا یہ گرم گرم پانی اپنی پھدی کے اندر جمع ہوتا ہوا محسوس کیا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ایک عجیب سا نشہ میرے سارے وجود پہ چھا تا گیا ۔اور اس نشے اور غنودگی کی وجہ سے خود بہ خود میری آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں ۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "استانی جی (قسط 5)"