Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

استانی جی (قسط 6)

 

 

کچھ دیر بعد خان جی میرے اوپر سے اُٹھے اور اپنے لن کو میری چوت سے کھینچ کے باہر نکلا اور فوراً ہی واش روم کی طرف روانہ ہو گئے ان کے جانے کے کچھ دیر بعد میں بھی اُٹھ گئی اور میں نے دیکھا تو بیڈ کی سفید چادر میری چوت کے خون سے رنگی ہوئی تھی میں اٹھی اور اپنی چوت پر ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ کافی سوجی ہوئی تھی اتنی دیر تک پٹائی نے اس کا برا حال کر دیا تھا ۔۔۔ ابھی میں اپنی چوت اور بیڈ پر بچھی چادر کا جائزہ لے رہی تھی کہ واش روم سے خان جی باہر آئے اور آکر میرے پاس کھڑےہو گئے اور بیڈ کی چادر پر لگے خون کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور مجھے اپنے گلے سے لگا کر بولے تم نے بڑا مزہ دیا ہے مرینہ ۔۔ میں نے ان کی بات سُنی اور اور واش روم میں چلی گئ وہاں جا کر اچھی طرح اپنی چوت صاف کی اور اس کے آس پاس کا ایرا صاف کیا اپنی پرائیوٹ جگہوں کو اچھی طرح دھونے میں کافی دیر لگ گئی ۔۔ چنانچہ فارغ ہو نے کے بعد جب میں واپس آئی تو خان جی ۔۔۔ بیڈ پر لیٹے تھے اور ان کا وہ ۔۔ کسی کھمبے کی طرح اکڑا کھڑا تھا جسے دیکھ کر میں خاصی حیران ہوئی کہ ابھی تو ۔۔۔۔۔پھر ۔۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ خان جی نے اس دن سپیشل گولیاں کھائی ہوئی تھیں ۔جس کی وجہ سے ان کا " وہ" نیچے ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا چنانچہ جیسےہی میں واپس بیڈ پر آئی تو خان جی نے اشارے سے مجھے اپنے ساتھ لیٹنے کو کہا ۔۔۔ اور میں ان کے ساتھ لیٹی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے اس پر رکھ دیا اور بولے اس کے سہلاؤ ۔۔۔۔

ان کے کہنے پر میں نے ان کا اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے سہلانے لگی ۔۔۔ تو وہ بولے ۔۔۔بتاؤ کیسا لگا ۔۔؟ تو میں نے شرماتے ہوئے جواب دیا کہ ۔۔ بہت اچھا ۔ اور وہاں سے ہاتھ ہٹا لیا تو وہ کہنے لگے ۔۔۔ ایک اور دفعہ لو گی ؟؟ میں نے ان کی بات تو سنی لیکن کوئی جواب نہ دیا ۔( حال آں کہ میرا دل چاہ رہا تھا لیکن ۔۔ شرم کے مارے بتا نہ سکتی تھی ) ۔۔ وہ کچھ دیر تک میرے جواب کا انتظار کرتے رہے ۔۔پھر میری خاموشی کو رضامندی سمجھتے ہوئے وہ بیڈ سے اُٹھے اور بولے ۔۔۔ اب تم اُلٹی ہو جاؤ ۔ میں ان کی اس بات کا مطلب نہ سمجھی اور سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھنی لگی میری بات سمجھ کر انہوں نے ایکشن کرتے ہوئے کہا ایسے اور وہ ڈوگی سٹائل میں ہو گئے ۔۔۔ ان کی دیکھا دیکھی میں بھی ان کے سامنے ڈوگی بن گئی اور وہ میرے پیچھے آ گئے اور ایک میری گانڈ پر ہاتھ پھیرنے لگے ۔۔۔ جس کی وجہ سے مجھے بڑا مزہ ملا ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑا اور اس کی نوک میری چوت پر پھیرنے لگے ۔اُف ف۔ف ۔ف ان کی اس حرکت سے میری چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور جب انہوں نے دیکھا کہ اب میں فُل گرم ہو گئی ہوں تو انہوں نے پیچھے سے اپنا موٹا لن میری چوت کے لبوں پر رکھا اور ۔۔۔ دھیرے دھیرے میری چکنی چوت میں اپنا لن اندر ڈال کر ان آؤٹ کرنا شروع کر دیا ۔سچی بات یہ ہے کہ پہلی بار کی نسبت اس دفعہ مجھے بڑا مزہ مل رہا کہ کیونکہ اس دفعہ ان کا "وہ " میری چوت میں پھنس پھنس کرآ جا رہا تھا اور ان کی اس رگڑائی سے میں بے حال ہو رہی تھی اور میں مزے کے ساتویں آسمان پر پہنچ چکی تھی ۔۔ ان کے ہر گھسے سے میں مزے کی نئی منزلوں کو چھو رہی تھی ۔۔۔ پچھلی بار کی طرح اس دفعہ بھی انہوں نے کافی ٹائم لگایا ۔۔ اور ایک دفعہ پھر ان کے اس نے میرے اندر ہی پچکاری ماری ۔۔ جس سے میرا انگ انگ شانت ہو گیا ۔۔ اور میں نڈھال سی ہو کر بستر پر گر گئی ۔اور پھر جب ان کے بعد میں واش روم سے واپس آئی تو یہ دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ان کو لن ابھی بھی اکڑا کھڑا تھا۔۔میں نے ان کے لن کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگے ۔۔۔

پہلے دو شارٹ تو میں نے آگے سے لگائے تھے اب تیسرا اور آج رات کا آخری شارٹ میں تمھارے پیچھے سے کروں گا اور مجھے دوبارہ ڈوگی بننے کو کہا ۔۔۔ پیچھے سے کرنے کا سُن کر میری تو جان ہی نکل گئی ۔۔ پر میں بوجہ انکار نہ کرسکتی تھی اس لیئے ان کے حکم کے مطابق میں ڈوگی بن گئی ۔۔ اس دفعہ کی شارٹ نے جس میں کہ انہوں نے مجھے پیچھے سے کیا ۔تھا ۔۔ جس نے میرا بُرا حال کر دیا ۔۔ اور میری چھوٹے سے سوراخ میں ان کا تنا بڑا سا لن جانے کی وجہ سے ۔۔ میری پھٹ گئی اور جب پہلی دفعہ ان کا اندر جا رہا تھا تو مجھے ایسا لگا کہ ۔۔۔۔ میری گانڈ کے اندر ایک آگ کا گولہ ۔۔ جا رہا ہے ۔۔۔ جس کی وجہ سے درد کے مارے میرا برا حال ہو گیا اور میری وہاں سے کافی خون بھی نکلا ۔۔۔ لیکن اس بے دردی پر میری چیخ و پکار کا کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے ویسے ہی میری گانڈ مارنی جاری رکھی ۔۔۔۔ اور مجھ پر زرا ترس نہ کھایا ۔۔۔ادھر میرے درد کا تو پوچھو نا اتنا درد ہوا کہ پہلی دفعہ شدید درد اور کر ب کی وجہ سے میرے آنسو نکل آئے اور ۔۔۔۔۔ ۔۔

اس طرح میری شادی شدہ زندگی کی شروعات ہو گئیں ۔۔۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں خان جی تقریباً روز ہی مجھے چودا کرتے تھے اور خاص طور پر پیچھے ضرور ڈالتے تھے پیچھے ڈالنے سے شروع شروع میں تو مجھے بڑا درد ہوا لیکن پھر آہستہ آہستہ میری گانڈ کے ٹشو کھل گئے اور ان کے لن کی موٹائی کے ساتھ ایڈجسٹ ہوگئے اور پھر کچھ عرصہ بعد میں دونوں طرف سے یوزڈ ٹو ہو گئی اور پھر اس کے بعد ایک وقت وہ بھی آیا کہ مجھے پیچھے سے بھی کروانے میں مزہ آنے لگا ۔۔کچھ عرصہ تو خان جی نے مجھے جم کر چودا ۔۔۔۔ پھر اس چودائی میں وقفہ آنا شروع ہو گیا اور خان جی جو روز مجھے چودتے تھے اب دوسرے تیسرے دن چودنے لگے پھر اس کے بعد انہوں نے ہفتے بعد مجھے چودنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔

دوائیوں کا اثر کم ہونے لگا تو ان کے لن کی تڑ بھی کم ہو گئی اور تین ماہ بعد ایک دن میں نے ان کا لن پکڑ کر دیکھا تو وہ خاصہ ڈھیلا ڈھالا تھا ۔۔۔ لیکن مجھے اس کی کوئی خاص پرواہ بھی نہ تھی کہ میرا خیال تھا کہ میں خان جی کے دل میں گھر کر چکی تھی لیکن پھر یوں ہوا کہ جیسے جیسے ان کا لن ڈھیلا پڑتا گیا ۔۔ویسے ویسے میرے ساتھ خان جی کارویہ کچھ عجیب ہوتا جا رہا تھا۔۔ ۔ پھر اس کے بعد پتہ نہیں کیا میرا وہم تھا یا کیا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ دن بدن میرے ساتھ خان جی کا برتاؤ کچھ سخت سے سخت ہوتا جا رہا تھا دوسری طرف صنوبر باجی کا بھی یہی حال تھا ۔۔ شروع شروع میں ان کا میرے ساتھ برتاؤ بڑا ہی دوستانہ تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ انہوں نے بھی میرے ساتھ سختی برتنا شروع کر دی ۔۔شادی سے پہلےانہوں نے نے گھر میں کام کاج کے لیئے ایک لڑکی رکھی ہوئی تھی جو میری شادی کے کچھ عرصہ بعد تک تھی لیکن پھر۔۔۔۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ انہوں نے اس کو بھی چھٹی دے دی ۔۔۔ اور مجھ سے گھر کے سارے کام کروانے شروع کر دئیے۔۔گھر کے کام کرنے میرے لیئے کوئی مشکل نہ تھا کہ جب میں جوان ہوئی تھی تو میں نے امی کو چُھٹی دیر خود گھر کے سارے کام اپنے ذمہ لے لیئےتھے ۔۔ لیکن یہاں مجھے جس چیز کا سخت افسوس تھا وہ ان دونوں کا رویہ تھا ۔۔۔۔اگر گھر کے لوگ سختی کریں اور خاوند آپ کے ساتھ سیٹ ہو تو کام چل جاتا ہے لیکن اگر گھر والے بھی ٹھیک نہ ہوں اور شوہر صاحب کا رویہ بھی درست نہ ہو تو بڑی تکلیف ہوتی ہے ۔خاص کر صنوبر باجی تو ہر وقت غصہ میں رہتی تھیں اور مجھے طعنے دینے دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھیں ۔۔۔۔ پتہ نہیں کیوں صنوبر باجی کو طعنے دینے میں کیوں اتنا مزہ آتا تھا ۔۔۔ خیر میں یہ سب برداشت کرتی گئی اور کوشش کرنے لگی کہ کسی طرح خان جی کو راضی رکھوں۔۔ لیکن وہ بھی ہر وقت ناک بھوں چڑھائے رکھتے تھے اور میں حیران تھی کہ ایسا کیوں تھا ۔۔ پھر میں نے اس بات پر غور کرنا شروع کر دیا کہ خان جی کا موڈ کس وقت اور کس وجہ سے آف ہوتا ہے تا کہ میں اس بات سے پرہیز کروں ۔۔ اور پھر کچھ دنوں کی جاسوسی کے بعد مجھ پر یہ بات آشکارا ہوئی کہ ۔۔۔۔

۔ یہ سب کیا دھرا صنوبر باجی کا ہے ۔۔۔ وہی خان جی کو اُلٹی سیدھی پٹیاں پڑھاتی رہتی تھی جس کی وجہ سے خان مجھ سے بات بے بات پر ناراض ہوتا تھا ۔۔۔ یہ سب جان کر میں سوچ میں پڑ گئی کہ اس صنوبر کا کیا علاج کروں ۔۔۔۔؟؟ میں اس کی شرارتوں سے کیسے توڑ کروں؟؟ کہ میں ان کی ریشہ دوانیوں سے عاجز آ چکی تھی ۔۔۔کافی عرصہ سوچتی رہی لیکن کچھ سمجھ نہ آیا پھر ۔۔ ایک دن میری ایک پرانی کلاس فیلو اور سہیلی مجھ سےملنے آئی ۔۔۔اور مجھے مرجھائے دیکھ کر ۔ وہ بھی پریشان ہو گئی ۔۔۔ اور مجھ سے میری اس پریشانی کا سبب پوچھا تو میں نے ساری حقیقت بتا دی ۔۔۔سُن کر وہ بھی سوچ میں پڑ گئی تب میں نے اس سے کہا کہ یار اس کا آخر حل کیا ہے ؟ سوچ سوچ کر اس نےمجھے کہاکہ میری جان اس کاایک ہی حل ہے کہ تم صنوبر کی کوئی کمزوری پکڑو ۔۔۔۔ اور پھر اس کی اس کمزوری کو اپنی طاقت بناؤ ۔۔۔بس یہی ایک طریقہ ہے ۔۔۔ ورنہ یہ عورت تمھاری زندگی میں زہر گھولتی رہے گی ۔ اور تمھارے خاوند کو مزید تمھارے خلاف کرتی رہے گی ۔اپنی دوست کی یہ بات میں نے اپنے پلو سے باندھ لی اور پھر ۔۔ میں تاڑ میں رہی کہ صنوبر باجی کی کوئی کمزوری پکڑوں ۔۔۔ ایک دفعہ ایسا ہو جائے تو ۔۔ میں اس صنوبر کی بچی کو ایسا سبق سکھاؤں گی کہ سالی یاد کرے گی ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد میں نے صنوبر کی کمزوریاں تلاش کرنا شروع کر دیں ۔

۔۔لیکن کافی کوشش کے بعد بھی میں اس کی کوئی خرابی کوئی کمزوری نہ تلاش کر سکی ۔۔ یہ بات میں نے اپنی دوست کو بتائی تو اس نے کہا کہ تم اس سلسلہ میں اپنے کام والی کی مدد لو یہ لوگ اپنے مالکوں کے ہر راز اور ساری کمزوریوں سے خوب واقف ہوتے ہیں ۔۔ دوست کی یہ بات میرے دل کو لگی اور ایک دن میں اپنے کام والی کے گھر چلی گئی ۔۔۔۔۔ اور پھر بڑی منت سماجت اور ۔۔ کچھ نقدی خرچ کرنے کے بعد اس نے مجھے ایک ٹپ دی ۔۔۔۔اس کی یہ ٹپ سن کر میں تو ہکا بکا رہ گئی ۔۔۔ اور پھر بے یقینی کے عالم میں اس سے بار بار اس بات کی تصدیق کی ۔۔۔ اور جب مجھے پکا یقین ہو گیا کہ ۔ کہ بات ایسی ہی تھی ۔۔ لیکن اس میں کافی رسک تھا ۔۔۔ لیکن کیا کروں کہ یہ رسک لیئے بنا چارہ بھی نہ تھا ۔۔پھر مجھے خیال آیا کہ اگر سچ مچ یہ کام ہو گیا تو ۔۔۔۔ صنوبرباجی تو بے موت ماری جائے گی ۔۔۔ اور اس کام نہ کرنے کا سوچا پھر میرے اندر ااچانک یہ سوچا ابھری کہ اس نے تمھارے ساتھ کون سی نیکی کی ہے جو تم اس کا اتنا خیال کر رہی ہو ؟ اور سالی کی کمزوری پکڑو اور ۔۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے اپنا کام جاری رکھنے کی ٹھانی ۔۔۔۔ ٹپ ہی ایسی تھی کہ ۔۔ جس کی وجہ سے وہ۔۔ ماری جاتی ۔۔۔ اور وہ ٹپ یہ تھی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ ٹپ یہ تھی کہ۔۔۔۔۔کام والی کے مطابق صنوبر باجی کا ایک ٹال والے لڑکے کے ساتھ افئیر تھا ٹال کا نام سُن کر میں چونک اُٹھی تھی اور پھر جب میں نے اس سے ٹال کے بارے میں پوچھا تو اس نے اسی ٹال کے بارے میں بتایا جو کہ پہلے ہمارے پاس ہوتا تھا پھرجرگہ کی وجہ سے ہمیں وہ ٹال چا چا کے نام کرنا پڑا تھا ۔۔ اس کے بعد جب میں نے اس سے متعلقہ لڑکے کے بارے میں پوچھا تو وہ جس لڑکے کی بات کر رہی تھی اسے میں اچھی طرح سے جانتی تھی ۔ اس کا نام دلاور خان تھا جسے دا جی نےہی نوکر رکھا تھا ۔دلاور خان ۔ کافی ہینڈسم ۔۔۔ شریف اور اپنے کام سے کام رکھنے و الا لڑکا تھا۔ ۔اسی لیئے میں کام والی کے منہ سے دلاور خان کا نام سن کر بہت حیران ہوئی تھی کیونکہ رشتے میں دلاور صولبر کا بھانجھا لگتا تھا ایک ہی خاندان ہونے کی وجہ سے وہ ہمارا بھی رشتے دار تھا لیکن صنوبر باجی کے ساتھ اس کا بہت ہی قریبی رشتہ تھا وہ صنوبر باجی کی چاچا کی بیٹی کا لڑکا تھا ۔ دلار کی بڑی بہن ثمن میری دوست اور کلاس فیلو تھی اسی لیئے اس کے کہنے پر میں نے کچھ عرصہ دلاور کو میتھ کی ٹیوشن بھی دی تھی ۔ تبھی تو میں اس کو اچھی طرح سے جانتی تھی اس وقت یہ کافی بھولا بھالا اور معصوم سا لڑکا ہوا کرتا تھا ۔۔ ۔ اس کام والی کے بقول اگر میں ان دونوں کو عین حالتِ سیکس میں پکڑ لوں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا کام بن سکتا ۔۔اس میں ایک مسلہ یہ تھا کہ دلاور خان روز نہیں ۔۔۔بلکہ ہفتے میں ایک آدھ دن ہی ہمارے گھر آتا تھا لیکن مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی اس کو اپنے گھر دیکھا ہو ۔۔ چنانچہ میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ آخر دلاور کے آنے کا ٹائم کیا ہے ؟؟ ۔۔ تو اس نے بتا یا کہ عام طور پر یہ لڑکا اس وقت آپ کے گھر آتا ہے جس وقت آپ خان جی کو ناشتہ وغیرہ دے کر ریسٹ کرتیں ہیں اس کی بات سُن کر مجھے یاد آیا کہ واقعی میں خان جی کے جانے کے بعد ایک دو گھنٹے سوتی تھی پھر اس کے بعد میں اُٹھ کر گھر کی صفائی وغیرہ کیا کرتی تھی اور میں اکثر اس بات پر بڑی حیران ہوا کرتی تھی کہ ویسے تو صنوبر باجی کو میری ہر بات بُری لگتی تھی لیکن آج تک اس نے میرے دوبارہ سونے پر کوئی تنقید نہ کی تھی ۔۔۔۔اور میرے دوبارہ سونے پر ان کی تنقید نہ کرنے کی وجہ آج میری سمجھ آئی تھی ۔۔ خیر اس کی ساری کہانی سننے کے بعد اب میں اس تاڑ میں رہنے لگی کہ کب دلاور صنوبر باجی کے کمرے میں جائے اور میں چھاپہ ماروں ۔۔ اور اس سلسسلہ میں۔۔ میں نے ساری پلانگ بھی کر لی تھی کافی دن تک ریکی کرنے کے باوجود بھی جب مجھے کوئی موقعہ نہ ملا تو میرے دل میں شک گزرا کہ کہیں کام والی لڑکی نے پیسوں کے لالچ میں مجھے بےوقوف تو نہیں بنا گئی ؟ لیکن پھر خیال آتا کہ جس وقت وہ یہ بات بتا رہی تھی تو اس وقت وہ ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہی تھی کہ اگر کسی کو پتہ چلا گیا کہ اس نے مخبری کی ہے تو اس کی خیر نہیں ۔۔۔۔ پھر میرے دل میں ایک اندیشہ آیا کہ کہیں اس نے صنوبر باجی کو نہ بتا دیا ہو کہ میں ا ن کی ٹوہ میں ہوں ؟ خان اندیشوں کے باوجود بھی میں نے صنبر کی رکھوالی نہ چھوڑی ۔۔ جو کہ بڑی آسان تھی اب میں آپ کو اپنے گھر کی لوکیشن کے بارے میں بتاتی ہوں یہ ایک بڑا سا گھر ہے جس میں کافی زیادہ کمرے اور کھلا صحن اور بڑا سا برآمدہ تھا ۔۔۔لیکن اس وقت میں آپ کو صرف اپنی اور صنوبر باجی کے کمرے کی لوکیشن با رہی ہوں ایک طرف خان جی کا یعنی ہمارا کمرہ تھا ۔۔ کمرے کے آگے بڑا سا برآمدہ تھا پھر صحن اور صحن کے سامنے دو کمرے تھے جن میں سے ایک صنوبر باجی کے پاس تھا اور مزے کی بات یہ تھی کہ صنوبر باجی کے کمرے کا دروازہ میری کھڑکی میں سے صاف نظر آتا تھا ۔۔۔ میں روز خان جی کوناشتہ وغیرہ دیتی پھر انکو دروازے تک الوداع کرنے جاتی ۔۔ اور پھر مین گیٹ لاک کر کے بظاہر کمرے میں سونے کے لیئے چلی جاتی تھی ۔۔۔۔ لیکن میں بجائے سونے کے جا کر کھڑکی کے ساتھ لگ جاتی تھی لیکن پتہ نہیں کیا بات تھی کہ اتنے دن ہو گئے تھے اور میرا کام نہ بنا تھا ۔۔۔ اور اب تو میں اس کام سے تھوڑی تھوڑی مایوس سی ہو گئی تھی ۔۔۔پھر۔۔۔۔۔

ایک دن کی بات ہے کہ میں نے حسبِ معمول خان جی کے آگے ناشتہ رکھا تو ناشتہ کرتے وقت میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ اپ سیٹ سے ہیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا خان جی کچھ گڑ بڑ ہے کیا۔۔؟؟ تو وہ بولے نہ یارا گڑبڑ کیا ہو گئی اصل میں مجھے کچہری ایک تاریخ پر جانا ہے اور صنوبر نے بھی جانا ہے سوچ رہا ہوں کہ ٹائم کو کیسے سیٹ کروں کیونکہ مجھے ٹھیک 8 بجے کچہری پہنچنا ہے اور تم کو معلوم ہے کہ ساڑھے آٹھ بجے بُلارا شروع ہو جاتا ہے اور نو بجے صنوبر کوبھی ایک جگہ چھوڑنا ہے سوچ رہا ہوں کہ میں وہاں سےکیسے آ کر اسے لے جاؤں گا کہ ٹائم کی بڑی پرابلم ہے ۔۔اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کروں ؟؟ ۔۔ ان کی یہ بات سُن کر میری ہنسی چھوٹ گئی اور میں نے ان سے کہا بس یہی بات ہے؟؟ جس کے لیئےآپ اتنے پریشان ہو ؟ تو وہ بولے ۔۔۔ یہ کوئی معمولی بات ہے ؟ پھر میری طرف دیکھ کر بولے ۔۔ نہ یہ تم ہنس کس بات پر رہی ہو ۔۔ تو میں نے کہا ہنسی اس بات پر ہوں خان جی کہ یہ واقعہ ہی یہ بڑی معمولی بات ہے پھر میں نے ان کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ خان جی آپ ایسا کرو کہ جاتے ہوئے صنوبر باجی کو بھی ساتھ لے جاؤ اور تاریخ بھگتا کر ان کو واپس لے آنا ۔۔۔ میری بات سُن کر انہوں نے اپنے سر پر ہاتھ مارا اور بولے ۔۔۔ واقعہ ہی یہ تو بڑی معمولی سی بات تھی پتہ نہیں میری سمجھ میں کیوں یہ بات نہ آئی ۔۔۔ پھر کہنے لگے اصل میں صنوبر کی بچی نے مجھے اُلجھا دیا تھا وہ کہتی تھی کہ اسے ٹھیک 9 بجے جانا ہےتو میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ تھوڑا پہلے چلی جائیں گی تو کیا حرج ہے؟؟ میری بات سُن کر انہوں نے مجھے کہا بات تو تمھاری ٹھیک ہے پھر مجھ سے بولے کہ جا کر صنوبر کو کہو کہ وہ تیاری کر لے کہ وہ ابھی میری ساتھ جا رہی ہے ۔۔ میں نے جا کر صنوبر باجی کو خان جی کا پیغام دیا تو انہوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ ہے کے کہا کہ میں نے کون سا تیار ہونا ہے ؟ خان جی کو کہوجب کہیں میں آ جاؤں گی ۔۔۔۔۔ قصہ مختصر ناشتہ کے بعد وہ دونوں گھر سے چلے گئے اور پیچھے میں گھر میں اکیلی رہ گئی ۔۔۔


ان کے جانے کے کوئی دس پندرہ منٹ کے بعد باہر کے دروازے پر بڑی ہی ہلکی آواز میں دستک کی آواز آئی ۔۔ جسے میں نے اسے اپنا وہم سمجھتے ہوئے سنی ان سنی کر دی ۔۔۔ لیکن پھر جب یہ آواز وقفے وقفے سے دوبار پھر سہ بارہ سنائی دی ۔۔۔ تو میں تھوڑا حیران بھی ہوئی کہ پتہ نہیں کون ہے جو گھنٹی کی موجودگی میں بھی دستک دے رہا ہے ۔۔۔۔۔ ؟پھر خیال آیا کہ کوئی فقیر نہ ہو چنانچہ میں باہر دروازے پر گئی اور کنڈی کھولتے ہوئے بولی کون ؟۔۔۔ لیکن کوئی جواب نہ آیا ۔۔۔ پھر میں نے دروازہ کھول کر دیکھا تو سامنے دلاور کھڑا تھااور اس کے ہاتھ میں ایک شاپر تھا ۔۔۔ مجھے اپنے سامنے دیکھ کر وہ کچھ گھبرا سا گیا اور بولا ۔۔۔ باجی صنوبر خالہ کہاں ہے ؟ تو میں نے اسے کہا کہ وہ تو خان جی کے ساتھ کہیں گئی ہے تو وہ بولا یہ شاپر ان کو دے دینا اور پھر وہ جانے کے لیئے مڑنے لگا ۔۔ تو میں نے اس سےثمن کے بارے میں پوچھا ۔۔۔ کہ وہ کیسی ہے؟ تو اس نے کہا ٹھیک ہے اس پر میں نے کہا دلاور ۔۔ اندر آ جاؤ کچھ چائے پانی پی لو ۔۔۔۔۔۔ پہلے تو وہ انکار کرتا رہا پھر میرے اصرار پر اندر آ گیا ۔۔ پتہ نہیں کیوں وہ اندر آتے ہوئے۔۔۔ کچھ گھبرا رہا تھا ۔۔۔ لیکن میرے اصرار پر وہ اندر آ گیا۔۔۔۔ میں نے دروازہ بند کیا اور اسے اپنے ساتھ لیکر ڈرائینگ روم کی طرف چلنے لگی ۔۔ میرا ذہن بڑی تیزی کے ساتھ کام کر رہا تھا ۔۔۔ اور میں سوچ رہی تھی کہ کیوں نہ اس سے ہی وہ بات اگلوا لوں ۔لیکن کیسے ؟ اسی ادھیڑ پن میں اس کے ساتھ جا رہی تھی کہ ڈائیریکٹ پوچھنے میں ۔۔کہیں بات بگڑ ہی نہ جائے ۔ اس میں کافی رسک ۔تھا لیکن پھر خیال آیا کہ دلاور میرا سابقہ سٹوڈنٹ بھی ہے اور میری دوست کابھائ یھی ۔۔۔ اس لیئے مجھے یقین تھا کہ وہ میری بات مان لے گا اور مجھے ساری بات بتا دے گا پھر ا س کے بعد سوچیں گے ۔۔۔ چانچہ میں نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے ہوا میں تیر چلاتے ہوئے بڑے سرسری سے لہجے میں کہا کہ ۔۔۔ کہ صنوبر باجی تو کافی دنوں سے تمھارا انتظار کر رہیں تھیں پر پتہ نہیں تم کہاں رہ گئے تھے ؟ میری سرسری سی بات کے کہے ہوئے جال میں وہ آ گیا اور بولا باجی میں خالہ کو بتا کر تو گیا تھا کہ میں ایک ہفتے کے لیئے کراچی جا رہا ہوں ۔۔۔ پھر وہ ایک دم چونک گیا اور گہری نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا لیکن بولا کچھ نہیں بولا۔۔ادھر میں نے ایسے ظاہر کیا کہ جیسے میں نے یہ بات معمول کے مطابق کی تھی ۔۔ اور اسے اس بات کا بلکل بھی احساس نہ ہونے دیا کہ میں نے اس کی غلطی پکڑ لی ہے۔۔۔ میں نارمل رہی اور اس کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی ۔۔اور پھر میں نے اسے بجائے ڈرائینگ روم میں بٹھانے کے برآمدے میں ہی بٹھانے کا فیصلہ کر لیا اور اس فیصلے کے تحت ۔۔۔ میں اسے لیکر برآمدے میں چلی گئی کمرے میں اس لیئے بھی نہ لے گئی کہ ۔۔۔ اگر کوئی اچانک آ جائے تو ہم کو سامنے پا کر کوئی بات نہ بنا سکے اسی لیئے میں نے مین گیٹ کو بھی لاک نہ کیا تھا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر صنوبر باجی اچانک آ بھی جائے تو اسے یہی لگے کہ میں روٹین میں اس کے ساتھ بی ہیو کر رہی ہوں ۔۔

اسے وہاں بٹھا کر میں چائے بنانے کے لیئے کچن میں چلی گئی اور سوچتی رہی کہ بات کیسے شروع کروں ۔۔ پھر سوچ سوچ کر ایک آئیڈیا ذہن میں آیا ۔۔ اور پھر میں نے اس آئیڈیا پر کافی غور کیا اور مذید کوئی اچھی تدبیر نہ سمجھ میں آئی تو میں نے اسی ترکیب پر عمل کرنی کی ٹھان لی۔۔ چائے لا کر میں اس کے پاس پہنچی اور پلان کے مطابق اس کے آگے چائے رکھ کر خود دکھی سا منہ بنا کر بیٹھ گئی ۔۔ اس نے بڑے غور سے مجھے دیکھا اور پھر بولا باجی کیا بات ہے خیریت تو ہے نا ؟ تو میں نے کہا تم اچھے بھائی ہو کبھی بہن کے بارے میں پوچھا بھی نہیں کہ میں کس حال میں ہوں ؟؟ ۔۔ تم کو پتہ تو ہے کہ ان لوگوں نے میرے گھر والوں کو یہاں سے دیس نکالا دے دیا تھا ۔۔ یہاں آ کر میں نے پھر ایک ٹھنڈی سانس لی ۔۔۔ اور ڈبڈبائے ہوئے لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ بھائی تم تو ۔۔ جانتے ہی ہو کہ میں ۔۔۔ ان کے گھر جن کا قتل ہوا ہے ونی ہوئی تھی اب تم خود اندازہ لگا لو کہ یہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہوں گے؟ اس کے ساتھ ہی میں نے پھر دکھ بھری سانس لی اور اداس نظروں سے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔ میں نے دیکھا کہ میری اس ایکٹنگ سے وہ خاصہ متاثر نظر آ رہا تھا ۔۔ کیونکہ اس کے چہرے پر میں نے تشویش کے آثار دیکھ لیئے تھے اس لیئے میں نے اس کی مذید ہمدردی لینے کے لیئے کہا کہ تم کو پتہ ہے کہ لوگ مجھ پر کتنا ظلم ڈھا رہے ہیں ؟ جیسا کہ مجھے پتہ تھا کہ وہ ایک کم سن اور جذباتی لڑکا سا تھا اوپر سے میں نے اداکاری ہی ایسی کی تھی کہ وہ میرے جھانسے میں آ گیا اور ۔۔ میری بات سُن کر وہ ایک دم طیش میں آ گیا اور بولا کیا ہوا ۔۔ باجی کہ آپ کے والدین یہاں نہیں ہیں ۔۔ لیکن ہم تو موجود ہیں نا ۔۔۔۔ آپ مجھے اس شخص کا نام بتائیں جو آپ کو تنگ کررہا ہے باقی میرا کام ہے اس کی بات سن کر میں دل ہی دل میں خوش ہوئی کہ میرا کام بن رہا ہے لیکن بظاہر اسی ٹون میں بولی کہ ۔۔ سب سے ذیادہ تو تمھاری خالہ مجھے تنگ کرتی ہے اور مجھ پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اس کے بعد میں نے اس کو صنوبر کے ظلم کے کچھ جھوٹے سچے واقعات سنائے جسے سُن کر وہ بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا ۔۔ لیکن باجی صنوبر خالہ تو کہتی ہے کہ اس نے آپ کو پھولوں کی طرح رکھا ہوا ہے اس پر میں نے بظاہر بڑے سرسری لہجے میں اس سے پوچھا کہ یہ بات انہوں نے تم سے کب کہی ؟ تو وہ کہنے لگا کہ میں خالہ سے اکثر آپ کے بارے میں پوچھتا رہتا ہوں ؟ اس پر میں نے اس سے وہ بات پوچھی کہ جس کے لیئے میں نے سارا کھیل رچایا تھا ۔۔۔ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے بڑے ذومعنی لہجے میں پوچھا کہ کیا تم خالہ سے ملتے رہتے ہو؟؟ ۔۔میری بات سُن کر وہ کچھ گڑبڑا ساگیا اور بولا۔۔ جی ۔جی ی ی۔وہ ۔۔۔ کام کے سلسلہ میں ۔۔۔ وہ خالہ کو جب بھی کوئی کام ہوتا ہے نا تو میں ہی ان کے سارے کام کرتا ہوں ۔۔ تب میں نے ڈائیریکٹ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بولی ۔۔۔ صنوبر خالہ کو تم سے کیا کیا کام ہوتے ہیں ؟؟ ۔۔۔ میری اس بات پر ایک دم سے اس کا چہرہ لال ہو گیا اور وہ ۔۔۔ کھوکھلے لہجے میں کہنے لگا ۔۔۔ وہ ۔ ۔۔وہ ۔ جو بھی کام۔ہو ۔۔۔ ۔۔ پھر وہ ایک دم چُپ ہو گیا اور ۔۔۔ اپنا سر نیچے کر لیا ۔۔۔ اور خاموش ہو گیا ۔۔۔ تب میں نے اس سے مخاطب ہو کر کہا ۔۔۔ دلاور بھائی مجھے سب پتہ ہے کہ صنوبر بر باجی آپ سے کون کون سے کام کرواتی ہیں ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ تڑپ سا گیا اور بولا ۔۔۔۔ باجی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔ میرا صنوبر خالہ کے ساتھ ایسا ویسا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اور نہ وہ ایسی عورت ہے کہ اپنے بھانجے کے ساتھ ۔۔۔۔ اور پھر اچانک ہی اسے احساس ہوا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔۔ اس لیئے وہ ایک دم چُپ ہو گیا ۔۔۔۔ اور۔۔۔ اب وہ پوری طرح میرے جال میں پھنس چکا تھا ۔۔۔

تب میں نے اس سے کہا کہ میں نے کب کہا کہ تمھارا صنوبر باجی کے ساتھ ایسا ویسا کوئی تعلق ہے ؟ تو وہ ایک دم گھبرا گیا اور بولا ۔۔باجی مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے ۔۔۔ اور اُٹھ کھڑا ہوا ۔۔ لیکن اب میں اسے اتنی آسانی سے کیسے جانے دیتی ۔؟؟ ۔۔ اس لیئے میں نے اس کا ہاتھ پکڑ ا اور اسے بٹھاتے ہوئے بولی ۔۔۔ میرے بھائی مجھے سب پتہ ہے کہ تم کس ٹائم صنوبر باجی کے پاس آتے ہو اور وہاں کیا کیا کرتے ہو۔۔۔ پھر میں نے کام والی سے حاصل کی ہوئی معلومات کی مدد سے اس کو اس کے آنے کا ٹائم اور پھر واردات کے بارےمیں بتا دیا ۔۔۔ جسے سن کر وہ بڑا پریشان ہوا ۔۔ اور شرم اس اس کا منہ سُرخ ہو گیا ۔۔ پھر۔اوراس نے اپنا منہ نیچے کر لیا اور ۔۔۔۔۔۔اپنی انگلیاں چٹخنے لگا ۔۔۔ میں نے اسے کچھ نہیں کہا ۔۔۔بس اس کا ری ایکشن د یکھتی رہی ۔۔۔ کافی دیر بعد اس نے سر اوپر کیا اور بولا ۔۔ باجی ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔ تب میں اٹھی اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔ تم میری بہت اچھی دوست کے چھوٹے بھائی ہو تو اس لحاظ سے تم میرے بھی چووٹے بھائی ہو ۔۔۔ میں تمھارا یہ راز راز ہی رکھوں گی ۔۔ بس تم میرا ایک کام کر دو۔۔۔ ؟ میری بات سُن کر اس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔ جیسے پوچھ رہا ہو ۔۔ کہ کیا کام ۔۔؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ پہلے تم وعدہ کرو کہ تم میرا کام کرو گے تو میں تم کو بتاؤں گی کہ کام کیا ہے ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ مری ہوئی آواز میں بولا ۔۔۔۔ باجی آپ بتاؤ ؟؟ تو میں نے اس سے کہا ایسے نہیں پہلے وعدہ کرو۔۔۔ وہ عجیب شش وپنج میں پڑ گیا تھا ۔۔۔ لیکن پھر اس نے تھوڑا حوصلہ کیا اور بولا ۔۔۔۔ پہلے آپ بتاؤ ؟؟ تو میں نے اس سے کہا کہ تم مجھے صنوبر باجی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑوا دو ۔۔ میری بات سُن کر وہ بولو ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔۔ میں یہ میرا مطلب ہے اس سے آپ کو کیا فائدہ ہو گا ؟ تب میں نے اس سے کہا کہ میرے بھائی۔۔۔ جیسا کہ تم جانتے ہو کہ صنوبر باجی نہ صرف مجھ پر بڑے ظلم کرتی ہے ۔بلکہ میرے خلاف خان جی کو بھی اُلٹی سیدھی پٹیاں پڑھاتی ہے ۔۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ جب تم اور وہ ۔۔۔ ۔۔۔۔ تو میں تم کو پکڑ لوں ۔۔۔ اس پر وہ بولا ۔ابھی تو آپ کہہ رہی تھیں کہ آپ نے ہمیں دیکھا ہے ۔۔۔۔تو آپ نے ہمیں اس وقت کیوں نہ پکڑا تھا ؟ ۔۔اس کی بات میں دم تھا اس لیئے میں نے فوراً ہی ایک جھوٹ گھڑا اور ۔۔۔۔ اس پر احسان کرتے ہوئےبولی ۔۔ کہ تم کو معلوم ہے کہ اگر میں تم لوگوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لوں ۔۔ جو میرے لیئے کچھ مشکل نہیں ۔۔۔۔تو تم لوگوں کا کیا انجام ہو گا ۔؟؟ انجام کا سن کر اس نے ایک جھرجھری سی لی اور کانوں تک سُرخ ہو گیا ۔۔۔ لیکن بولا کچھ نہیں تب میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اس سے کہا کہ ۔۔ میں یہ بھی کر سکتی تھی ۔۔ لیکن بھائی میرے سامنے تم تھے ۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ مجھے صنوبر کی تو کوئی پرواہ نہیں لیکن تم بے موت مارے جاتے ۔۔۔ میری بات سُن کر اس کے چہرے پر تشکر بھرے جزبات ابھرے اور اس نے کہا آپ کا بہت بہت شکریہ باجی ۔۔۔۔ لیکن بتاؤ میں کیا کروں؟؟ تو میں نے اس سے کہا کہ۔۔۔۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ میں تم دونوں کو ۔۔۔ اُس ۔۔۔ حالت میں دیکھ لو ں تو وہ کہنے لگا اس سے کیا ہو گا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔ تو میں نے اسے جواب دیا کہ ۔۔۔ اس سے یہ ہو گا کہ تمھاری خالہ میرے سامنے کانی ہو جائے گی اور آئیندہ میرے خلاف سازشیں نہیں کرے گی ۔۔۔ اس کے بعد بھلے تم اس کو روز کرو۔۔۔ میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہو گا ۔۔۔ میں یہ سب صرف اپنی سیفٹی کےلیے کر رہی ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر اس نے ایک گہرا سانس لیا اور بولا ۔۔۔باجی کہیں اس سے کوئی مسلہ تو نہیں ہو گا نا َ؟؟؟؟؟؟۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے کو کہا کہ اس سلسلہ میں، میں تم کو ہر قسم کی گارنٹی دینے کے لیئے تیار ہوں ۔۔۔

میری بات سُن کر وہ کسی سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔ اور کافی دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور بولا ۔۔۔ باجی ایک بات ہے ۔۔۔ فرض کرو میں آپ کا کام کر دیتا ہوں ۔۔۔ آپ ہمیں ۔۔۔ مطلوبہ حالت میں پکڑ بھی لیتی ہیں۔۔ فرض کرو صنوبر باجی اپنا وہ ردِعمل نہیں دیتی جس کی آپ ان سے توقع کر رہی ہو ؟ تو آپ بتاؤ ایسے میں میرا کیا ہو گا ۔۔ ؟ تو میں نے کہا میں تمھارا مطلب نہیں سمجھی ؟ تو وہ کہنے لگا فرض کرو آپ نے ہمیں پکڑ لیا ۔۔ اور بجائے۔۔۔ شرم سار ہونے کے صنوبر خالہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں یعنی بات اس کے اُلٹ ہو جاتی ہے تو ۔۔؟ اس کے بعد میرا کیا ہو گا؟ ۔۔ آپ لوگوں کے جھگڑے میں میں تو مفت میں مارا جاؤں گا ۔۔؟ یہ بات کرتے وقت میں نے محسوس کیا کہ دلاور ٹھیک کہہ رہا تھا لیکن میں اس کے سامنے یہ بات نہ کر سکتی تھی اس لیئے اس سے کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ تم کوئی غیر نہیں ۔۔۔ بلکہ رشتے میں اس کے بھانجے لگتے ہو ۔اگر وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوئی تو ۔۔۔ پھر تم کو پتہ ہے پھر بات بہت دور تک جائے گی ۔۔ جس میں سراسر اس کا اپنا ہی نقصان ہے اور تم جانتے ہو کہ ۔ وہ بڑی سمجھدار خاتون ہے اتنا بڑا رسک وہ کبھی بھی نہیں لے گی ۔۔۔میری دلیل سن کر وہ کہنے لگا ۔۔۔ چلو آپ کی بات مان لیتے ہیں وہ رسک نہیں لیتی ہمیں اس حالت میں دیکھ کر وہ آپ کے نیچے لگ جاتی ہے ۔۔ باجی اس سے آپ کا تو کام ہو جائے گا ۔۔ لیکن ۔۔ مجھے اس کام میں کیا فائدہ ہو گا ۔۔۔؟ میں آپ کے لیے اتنا بڑا خطرہ کیوں مول لوں۔۔۔؟ تو میں نے کہا کہ وہ اس لیئے کہ میں تمھاری بہن ہوں ۔۔۔ تو وہ کہنے لگا دوسری طرف میری خالہ ہے ۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو مجھے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی ۔۔۔۔۔ بات نظر آئی ۔۔ عورت ہونے کے ناطےمیں اس بات کو خوب سمجھتی تھی لیکن چُپ رہی ۔۔۔ اور ۔۔ پھربھولی بن کر پوچھنے لگی ۔۔ کہ تم چاہتے کیا ہو؟ تو وہ عیاری سے بولا ۔۔۔ باجی میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کا کام کروں۔۔۔بدلے میں آپ میرا ۔۔۔ کام کرو۔۔۔ اس کی بات سن کر میں ۔۔۔سٹپٹا گئی اور بولی ۔۔۔ دلاور ۔۔۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ میں تمھاری بہن ہوں ۔۔ میری بات سُن کر وہ بڑی بے باقی سے بولا ۔۔۔باجی وہ ٹھیک ہے لیکن اس وقت میں آپ سے ایک سودا کر رہا ہوں ۔۔۔ اگر آپ کو منظور ہے تو ٹھیک ورنہ میں جاتا ہوں ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ جانے کے لیئے اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ اور بولا ۔۔۔۔ اور ہاں جاتے جاتے آپ کو یہ بات بھی بتا دوں کہ میں آپ کی یہ ساری گفتگو صنوبر خالہ کو بتاؤں گا ۔۔ اور یہ بھی بتاؤں گا کہ آپ مجھ سے کیا چاہتی تھیں ۔۔۔ ۔۔ اس کے منہ سے یہ بات سُن کر میری تو جان ہی نکل گئی ۔۔۔ کہاں میں نے اس کو اس لڑکے کو جزباتی بلیک میل کر کے اس سے اپنے مطلب کی ساری بات اگلوا لی تھی اور کہاں یہ کہ وہ لڑکا مجھے سیدھے سیدھے بلیک میل کر رہا تھا ۔۔اس وقت یہ کتنا سیدھا معصوم اور جزباتی لگ رہا تھا اور اس وقت ۔ جس طرح اچانک اس نے پینترا بدلہ تھا اس نے مجھے حیران کر دیا تھا اور میں اس سے اس بات کی توقع نہ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔؟ ۔۔

سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کاو کروں ؟؟۔۔۔ میں جس دلاور کو جانتی تھی وہ ایک سیدھا سادھا معصوم اور بھولا بھالا سا لڑکا تھا ۔۔ اور میرا خیال تھا کہ وہ آسانی سے میرے جھانسے میں آ جائے گا ۔۔ اور وہ آ بھی گیا تھا ۔لیکن پھر ۔۔۔ اسے کیا ہوا ۔۔ کہ ۔ اچانک سارا معاملہ ہی اُلٹ ہو گیا تھا ۔میں اس کے اس رُوپ سے بلکل ناواقف تھی اگر مجھے پتہ ہوتا کہ وہ اس قدر تیز ہو گیا ہے تو میں کی ا بھی اس کے سامنے اپنے سارے پتے نہ شو کر تی ۔لیکن کیا کرتی اب تو میں اسے سب کچھ بتا چکی تھی جس کے بعد ۔ وہ مجھے سامنے سامنے بلیک میل کر رہا تھا ۔۔ وہ دلاور کتنا بھولا لگ رہا تھا اور یہ ۔۔۔ہ دلاور ۔ توبہ توبہ ۔۔۔۔۔ یہ دلاور اپنے رویے سے پکا حرامی لگ رہا تھا ۔۔ اس کی آنکھوں میں ہوس ناچ رہی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔ پھر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ شرم کرو میں نہ صرف تمھاری بہن ہوں بلکہ تمھاری بہن کی دوست بھی ہوں۔۔۔ اور میں نے آج تک سوئے اپنے خاوند کے کسی کے ساتھ یہ کام نہیں کیا ۔۔میری باس سُن کر وہ ہنسنے لگ پڑا اور بولا ۔۔۔ باجی جب میں اپنی خالہ کو کر سکتا ہوں تو پھر آپ کو ۔۔بھی۔۔کرنے میں کیا حرج ہے؟؟ ۔ پھر وہ مجھے سے بولا ۔۔ کو ئی مجبوری نہیں ہے باجی ۔۔۔۔۔ اگر آپ راضی نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں ۔۔ پھر وہ مجھ سے کہنے لگا اچھا باجی اب میں چلتا ہوں ۔۔ لیکن بعد میں گلہ نہ کرنا ۔۔۔ اور پھر اس نے جانے کے لیئے قدم بڑھا دیا ۔۔۔ اس کی دھمکی سن کر میری تو جان ہی نکل گئی تھی اور میں ۔خود کو سنے دینے لگی کہ اس کے ساتھ ڈرامہ کرنے کی ضرورت تھی ۔چپکے سے ان کو پکڑ لیتی پھر جو ہوتا دیکھا جاتا ۔۔ ۔۔۔ لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا ۔بجائے اس کے کہ میں اس کے جزبات سے کھیلتی وہ مجھے بلیک میل کر رہا تھا ۔۔۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد میں نے اس سے کہا کہ ۔۔ دیکھو بھائی نہیں ۔۔ سمجھ لو۔۔۔ نہ میں نے تم سے کچھ کہا نہ تم نے سنا ۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگا سوری باجی ۔۔۔ لیکن میں صنوبر باجی کو ضرور بتاؤں گا ۔۔ پھر وہ میرے سامنے کھڑ ا ہو گیا ۔۔ تو اچانک میری نظر اس کی شلوار پر پڑی تو ۔۔ میں نے دیکھا کہ آگے سے اس کی شلوار کافی اُ ٹھی ہوئی ہے ۔۔۔مطلب اس کو سخت ہوشیاری آئ ہوئی تھی ۔۔ ۔۔۔تب میں نے اس کے ۔۔۔۔لن کی طرف کن اکھیوں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ پلیز بھائی سب کچھ بھول جاؤ ۔۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگا ایک شرط پر بھول سکتا ہوں کہ آپ میرا کا م کر دیں ۔۔۔ تو میں نے اس سے قدرے کمزور لہجے میں کہا کہ ۔ایسا نہ کرو بھائی ۔اس سے تم کو کیا ملے گا ؟ تو وہ بڑی عیاری اور بے باکی سے کہنے لگا ۔۔۔۔ مجھے نہیں آپ کو بھی مزہ ملے گا باجی ۔۔۔۔ ۔اور پھر اس نے مجھے کمزور پڑتے دیکھ کر کنے لگا ۔باجی اگر آپ میرا کام کر دیں گی نا تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ خالہ کو ایسی حالت میں پکڑواں گا کہ جس کو دیکھ کر آئیندہ وہ آ پ کے سامنے ساری زندگی نہیں ہل سکے گی ۔۔۔پھر اس کے بعد وہ لن ہاتھ میں پکڑے ہوے میرے اور قریب آ گیا ۔۔۔ اور لن کو سہلاتے ہوئے بولا۔۔۔آپ کی مرضی ہے باجی۔یاتو آپ میرے لئے ۔۔ یا ۔۔۔۔۔۔۔خالہ کے ساتھ ساتھ خان جی کے غیظ وغضب کے لیئے بھی تیار ہو جاؤ ۔تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔یہ خان جی بیچ میں کہاں سے آ گئے تو وہ اسی پُر ہوس لہجے میں بولا ۔۔۔۔ جب یہ بات خالہ کو پتہ پڑے گی تو آپ کو سبق سکھانے کے لیئے وہ خواہ مخواہ یہ بات خان جی کے کانوں تک پہنچائیں گی ۔۔خان جی نام سُن کر میں ایک دم لڑ کھڑا سی گئی اور اس سے بولی ۔۔۔ایسا نہ کرنا پلیز ۔۔ آخر ۔۔۔ میں ۔۔۔ میں تمھاری بہن لگتی ہوں ۔۔۔۔سُن کروہ ۔کہنے لگا ۔۔۔ ا ایک دفعہ پھر سوچ لو باجی ۔۔۔اور میری بات مان لو ۔۔ورنہ۔۔۔ دوسری صورت میں آپ کی اس گھر میں جو تھوڑی بہت عزت ہے وہ بھی خاک میں ملنے والی ہے ۔۔۔۔۔ میں اس کی بات سمجھ رہی تھی وہ حرامی ٹھیک کہہ رہا تھا اگر وہ ویسا ہی کرتا ۔۔ جیسا کہ وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔تو میری اس گھر میں کوئی جگہ نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یوں پریشان دیکھ کر وہ لن ہاتھ میں پکڑے ہوئے میرے اور قریب آ گیا ۔۔۔ اوراپنے لن کو سہلاتے ہوئے بولا۔۔آپ کو آخری موقع دے رہا ہوں ایک دفعہ پھر ۔سوچ لو باجی اگر اپ میرے ساتھ تعاون کرو گی تو میں گارنٹی سے کہتا ہوں کہ آپ کی آئیندہ زندگی بہت اچھی ہو گی ۔۔۔ جبکہ دوسرے صورت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا باجی ۔۔ آپ کو سب سے زیادہ خطرہ صنوبر خالہ سے ہے نا ۔تو میں نے ہاں میں سر ہلایا تو وہ کہنے لگا آپ کا یہ خطرہ صرف اور صرف میں ہی دور کر سکتا ہوں ۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میں بری طرح پھنس گئی تھی ۔۔۔۔۔ اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں لڑکے کی بلیک میلنگ سے خود کو کیسے محفوظ رکھوں ۔۔۔ پر کچھ بھی نہ سوجھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے ۔۔ یوں گوں مگوں کی حالت میں دیکھ کر۔۔۔ کہنے لگا سوچنے کا ٹائم نہیں ہے باجی ۔۔۔۔۔۔۔ جو کرنا ہے جلدی سے بتا دو،۔۔۔ مجھے ایک ضروری کام سےبھی جانا ہے ۔۔۔۔ اور وہ چلنے لگا تو اس جاتے دیکھ کر پتہ نہیں کیسے اچانک میرے منہ سے کیسے نکل گیا ۔۔۔۔ لیکن دلاور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ تم اپنا وعدہ پورا کرو گے ؟؟۔۔۔۔۔ میری یہ بات سُن کو وہ چیتے کی طرح میری طرف لپکا اور ۔۔۔ ۔میرے اتنے قریب کھڑا ہو گیا کہ مجھے اس کے لن کی نوک مجھے چبھنے لگی لیکن میں انجان بنی کھڑی رہی تھی ۔۔۔۔ تب اس نے لن کو میری تھائی سے رگڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ جو وعدہ مرضی ہے لے لو۔۔۔ باجی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پٹھان کا بچہ ہو ں اپنی بات سے کبھی نہیں پھروں گا اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا ایک ہاتھ میرے ممے پر رکھا اور اسے دبانے لگا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ ۔۔۔۔یہ تم کیا کر رہے ہو ۔۔



ایک تبصرہ شائع کریں for "استانی جی (قسط 6)"