سلام دوستو، تقریباً دو سال سے زیادہ عرصے کے بعد، میں آج ایک نیا سلسلہ شروع کرنے جا رہی ہوں، اس بار اردو میں۔ (یہ میری زندگی کی کہانی نہیں، بلکہ میرے کالج کے بہترین دوست سے متاثر ہے، جس سے میں نئے سال کی شام کو ممبئی کے ایک پب میں دوبارہ ملی)۔ کافی عرصے سے میں چند ایک تھریڈز پر تبصرے کرتی آئی ہوں، لیکن آج سے میں باضابطہ طور پر آپ سب کے ساتھ ایک بار پھر رشتے کی بنیاد رکھ رہی ہوں، امید ہے کہ میں مایوس نہیں ہوں گی۔ میں اردو میں زیادہ ماہر نہیں ہوں، لیکن اپنی پوری کوشش کروں گی کہ اچھا لکھ سکوں۔
کہانی کے کردار:
- آشنا، 20 سال، 5 فٹ 6 انچ {پیشہ: ایئر ہوسٹس}
- ویرندر، 33 سال، 5 فٹ 11 انچ {پیشہ: کامیاب بزنس مین}
کہانی میں کئی کردار ایسے ہیں جو وقت آنے پر اپنی چھاپ چھوڑیں گے، لیکن مرکزی کردار آشنا اور ویرندر ہی رہیں گے۔ تو آئیے شروع کرتے ہیں...
یہ کافی لمبی کہانی ہے، صبر رکھیے گا۔
ہوا یوں کہ آشنا کے والد اور ویرندر کے والد سگے بھائی تھے۔ ویرندر اس وقت 25 سال کا ایک نو جوان تھا۔ مضبوط جسم اور تیز دماغ شاید خدا کسی کسی کو ہی نصیب میں دیتا ہے۔ ویرندر ایسی شخصیت کا مالک تھا۔ مارکیٹنگ میں ایم بی اے کرنے کے بعد اس نے اپنے والد کے کاروبار کو جوائن کر لیا تھا۔ ویرندر کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں، اور اس کی چھوٹی بہن سی اے کی تیاری کر رہی تھی۔ پورا خاندان ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا، لیکن ریتو (آشنا کی ماں) کی موت کے بعد انہوں نے کافی زور دیا کہ راجن (آشنا کے والد) دوسری شادی کر لیں یا ان کے ساتھ آ کر بس جائیں۔ راجن دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا تھا، اور اپنی وکالت کا جو سکہ اس نے اپنے شہر میں جمایا تھا، وہ دوسرے شہر جا کر دوبارہ جمائیں، اس کے لیے وقت نہیں تھا۔ اسی سلسلے میں ایک بار ویرندر کے والدین اور چھوٹی بہن راجن کے شہر گئے تاکہ کسی طرح اسے منا کر اپنے ساتھ لے آئیں، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ انہوں نے راجن کو منا تو لیا اور اپنے ساتھ لے آئے، لیکن راستے میں ایک سڑک حادثے نے سب کچھ ختم کر دیا۔
جب ویرندر کو اس کا علم ہوا تو وہ خود کو سنبھال نہ سکا اور یک دم خاموشی کے اندھیرے میں ڈوب گیا۔ آشنا اور ویرندر نے مل کر ان کا آخری رسم ادا کیا، لیکن ویرندر کسی ہوش و حواس میں نہ تھا۔ آشنا کی عمر چھوٹی ہونے کی وجہ سے ویرندر کی کمپنی کے پی اے نے سمجھداری دکھاتے ہوئے اسے جلد ہی بورڈنگ اسکول بھیج دیا تاکہ وہ اس غم کو بھول سکے، لیکن ویرندر کو تو جیسے ہوش ہی نہ تھا کہ وہ کون ہے اور اسے اس بچی کو سنبھالنا ہے۔ آشنا کے دل و دماغ پر ویرندر کی شخصیت کا کافی گہرا اثر پڑا۔ وہ اس سے نفرت کرنے لگی، اور اسی نفرت کا اثر تھا کہ دونوں بھائی بہن بارہ سال تک ایک دوسرے سے نہ ملے، یا یوں کہیں کہ آشنا نے کبھی ملنے کا موقع ہی نہ دیا۔
دھیرے دھیرے ویرندر کی زندگی میں ٹھہراؤ آتا چلا گیا۔ وہ سب سے کٹنے لگا، لیکن اپنے کاروبار کو بخوبی انجام دیتا اور آشنا کی فیس اور دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھتا، لیکن آشنا کو اس کی ذرا سی بھنک بھی نہ پڑنے دی۔ وہ جانتا تھا کہ آشنا اسے پسند نہیں کرتی، اور اس نے بھی اسے منانے کی کوشش نہیں کی۔ زندگی سے کٹ سا گیا تھا وہ، اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ کوئی اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ دن بھر کام اور شام کو گھر میں جِم، یہی اس کی روٹین رہ گئی تھی۔
لیکن اس کی زندگی میں کوئی تھا جسے وہ اپنا ہر حال سناتا، میرا مطلب ہے لکھ کر بتاتا۔ جی ہاں، آپ نے ٹھیک سمجھا، ویرندر کو تنہائیوں میں ڈائری لکھنے کی عادت تھی۔ وہ گھنٹوں بیٹھ کر لکھتا رہتا۔ اس ڈائری میں وہ کیا لکھتا، یہ کسی کو بھی نہیں معلوم تھا۔ کسی کو کیسے پتہ چلتا، اس قدر عالیشان بنگلے میں اس کے علاوہ صرف ان کا پرانا نوکر بہاری ہی رہتا تھا، جو کہ ان پڑھ تھا۔ پہلے وہ باہر نوکروں کے کوارٹر میں رہتا تھا، لیکن اب وہ گراؤنڈ فلور پر بنے ایک اسٹور میں سو جاتا تھا تاکہ رات کو بھی اگر ویرندر کو کسی چیز کی ضرورت پڑے تو وہ فوراً اسے پورا کر دے۔ اکثر وہ رات کو اٹھ کر ویرندر کے کمرے تک جاتا، اور اگر ویرندر ڈائری لکھتے لکھتے سو گیا ہوتا تو اسے اچھی طرح چادر سے ڈھانپ کر کمرے کی روشنی بند کر دیتا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ویرندر جِم کرنے کے بعد کچھ دیر آرام کرتا، فون پر کاروبار کی کچھ ڈیلز کرتا، اور پھر رات کے کھانے کے بعد اپنے کمرے میں ڈائری لکھنے بیٹھ جاتا۔ لوگوں کی نظر میں اس کی یہی زندگی تھی، لیکن اس کی زندگی میں اور بھی کئی طوفان تھے جن کی سرد ہوا سے صرف ویرندر ہی واقف تھا۔
وارڈ بوائے کے جانے کے بعد آشنا نے اپنی جیکٹ کی زپ بند کی۔ آج کافی سردی تھی۔ سرد ہوائیں جسم کو جھنجھوڑ رہی تھیں۔ آشنا ڈاکٹر کے کمرے کی طرف مڑی ہی تھی کہ اس کے قدم رک گئے۔ وہ دوبارہ مڑی اور کیبن کے شیشے سے اس نے ویرندر کو دیکھا، پھر تیزی سے مڑ کر ڈاکٹر کے کمرے کی طرف چل دی۔(جاری ہے)