صفحہ 1: 20-04-2000۔ (یہ تاریخ اس حادثے کے 3 دن پہلے کی ہے)
ویرو، آج میں بہت خوش ہوں۔ مجھے لگا کہ لندن جانے کے بعد تم مجھے بھول جاؤ گے، پر 12-12-1999 کو جب تم نے مجھے شادی کے لیے پروپوز کیا تو میں ایک دم حیران رہ گئی۔ میں اس وقت تم سے بہت باتیں کرنا چاہتی تھی لیکن مجھے جانا پڑا۔ میرا لاسٹ سمسٹر تھا اور میں مس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ تم بھی تو یہی چاہتے تھے کہ میں انجینئر بنوں۔ اتنے مہینوں سے نہ میں تم سے رابطہ کر سکی اور نہ تم نے کوئی فون کیا۔ میں جانتی ہوں کہ تم مجھ سے ناراض ہوں گے۔ لیکن اب میں آ گئی ہوں، ساری ناراضگی دور کرنے۔ میں نے اپنی ایک منزل پا لی ہے اور اب میں واپس آ گئی ہوں تمہیں حاصل کرنے۔
یہ ڈائری میری طرف سے ایک چھوٹی سی بھینٹ ہے۔ تمہاری جو بھی ناراضگی ہے تم مجھے اِس پر لکھ کر بتا سکتے ہو کیونکہ مجھے پتہ ہے تم مجھے کچھ بولو گے نہیں اور کسی کے سامنے بات کرنے سے تو تم رہے ہو۔ لگتا ہے ہماری شادی کی بات بھی مجھے ہی اپنے گھر والوں سے کرنی پڑے گی۔ میں 3 دن بعد تمہارے گھر مدھو سے ملنے آؤں گی، تم جو لکھنا چاہتے ہو اِس ڈائری میں لکھ کر مجھے چوری سے پکڑا دینا۔ ویسے ایک بات بولوں "آئی لو یو ٹُو ویرو"۔ اشنا ایک ایک لفظ کو دھیان سے پڑھ رہی تھی۔ اُس نے اگلا پَنّا پلٹا۔
20-04-2000:
وُوووووووو، آئی لو یو روپالی۔ تم نہیں جانتی آج میں کتنا خوش ہوں۔ تم کو لندن میں ہمیشہ مس کیا اور گھر آنے پر پتہ لگا کہ تم بنگلور میں انجینئرنگ کرنے چلی گئی ہو۔ میں جانتا تھا کہ تم مجھ سے پیار کرتی ہو پر کہنے سے ڈرتی ہو، اِسی لیے میں نے ہمت کرکے تمہیں اُس دن پروپوز کر دیا۔ اُس دن اچانک تم ملی تو میں رہ نہیں پایا، میں نے اپنے پیار کا اظہار کر دیا پر تم بنا کچھ بولے ہی چلی گئی۔ میں کافی ڈر گیا تھا کہ شاید تم مجھ سے پیار نہیں کرتی۔ اگر اُس دن تمہارے پاپا ساتھ نہ ہوتے تو میں بھی تمہارے ساتھ بنگلور آ جاتا۔ خیر کوئی بات نہیں، میں تم سے کبھی ناراض نہیں تھا اور نہ ہی کبھی ہوں گا۔ کل مام-ڈیڈ اور مدھو، چاچو کے گھر جا رہے ہیں، اُن کے آتے ہی میں اُن سے بات کر لوں گا ہماری شادی کی۔ تم میری ہو روپالی۔ میں تمہیں ہر حال میں پا کر رہوں گا۔ میں نے ابھی تک اپنے آپ کو سنبھال کر رکھا ہے اور اُمید کرتا ہوں کہ تم بھی میرے جذبات کی قدر کرو گی اور مجھے رُسوا نہیں کرو گی۔ بس اتنا ہی لکھوں گا اِس ڈائری میں۔ اپنے دل کا حال میں تمہیں مل کے تمہاری آنکھوں میں دیکھ کر کہوں گا۔
اور ہاں ہو سکے تو یہ ڈائری مجھے جلد واپس کر دینا تاکہ میں اُن پلوں کے بارے میں لکھ سکوں جو اب مجھے تمہارے بن گزارنے ہیں جب تک تم میری نہیں ہو جاتی۔ اشنا نے بیڈ کے ساتھ رکھے سٹول سے پانی کا گلاس اُٹھایا اور اُسے پینے لگی۔ پانی اِتنا ٹھنڈا تھا کہ وہ سِپ کر کے اُسے پینا پڑا۔ اشنا کا شریر کوئلٹ کی وجہ سے کافی گرم ہو گیا تھا۔ سِپ بائی سِپ پانی پینے سے اُسے کافی سکون مل رہا تھا۔ اشنا نے موبائل میں ٹائم دیکھا ابھی صرف 11:00 ہی بجے تھے۔ اُس نے ساری ڈائری آج رات ہی پڑھنے کی ٹھان لی اور پھر سے بیڈ پر کوئلٹ کے اندر گھُس کر اگلا پَنّا پلٹا۔
صفحہ 2: 27-05 2000.
آج کافی دنوں کے بعد ڈائری لکھنے بیٹھا ہوں۔ اِن بیتے دنوں میں میں نے بہت کچھ کھویا ہے۔ میرے ماں باپ، میری چھوٹی لاڈلی بہن، میرے چاچو سب مجھے اکیلا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے اِس دُنیا سے چلے گئے ہیں۔ 23-04-2000 کا دِن میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ اُس دن میں کافی خوش تھا۔ اپنے فیملی ممبرز کا ویٹ کر رہا تھا اور اُنہیں خوشخبری دینا چاہتا تھا کہ میں نے اُن کی بہو ڈھونڈ لی ہے پر شاید بھگوان کو یہ خوشی منظور نہیں تھی۔ میرا پورا پریوار اِس حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔ وہ دِن مجھ سے سب کچھ چھین کر گزر گیا تھا۔ میں اِس قدر صدمے میں چلا گیا تھا کہ میری بہن اشنا کا بھی مجھے کوئی خیال نہ رہا۔ میں اُسے ذرا بھی سنبھال نہیں پایا۔ 28-04-2010 کو وہ بھی مجھ سے ناراض ہو کر چلی گئی، میں اُسے روکنا چاہتا تھا پر مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں اُس کا معصوم چہرہ دیکھ سکتا۔ اُس بیچاری نے اِتنی چھوٹی عمر میں کچھ ہی سالوں میں اپنے ماں باپ کو کھو دیا تھا۔ میں اُس کی ہر ضرورت تو پوری کر سکتا ہوں پر اُس کے ماں باپ کی کمی کو پورا نہیں کر سکتا۔ اِسی لیے میں نے اُسے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ شاید اگر اُسے میں روک لیتا تو اُسے مجھے اور مجھے اُسے سنبھالنا نہایت مُشکل ہوتا۔ اِتنے سال گھر سے باہر رہنے کے کارن مجھ میں کچھ سوشل کمیاں تھیں جس کارن میں اُسے خوش نہ رکھ پاتا، اِسی لیے اُس کا دُور جانا ہی اُس کے لیے ٹھیک تھا۔
یہ پڑھتے پڑھتے اشنا کی آنکھوں سے آنسو ٹپک کر ڈائری پر گر پڑے۔ جِس اِنسان کو وہ مطلبِی سمجھتی تھی وہ اُس کے لیے اِتنا سوچتا ہے، اُسے اِس چیز کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا۔ جِس گُناہ کے لیے وہ وریندر کو سزا دے رہی تھی وہ گُناہ وریندر نے کبھی کیا ہی نہیں اور اگر کیا بھی تو اُس کی بھلائی کے لیے۔ اشنا کا مَن زور زور سے رونے کو کر رہا تھا۔ اُس نے کسی طرح اپنے آپ کو سنبھالا اور ڈائری پڑھنے لگی۔ ہر ایک پَنّا پڑھ کر وریندر کی عزت اشنا کی نظروں میں بڑھنے لگی۔ اُسے پتہ چلا کہ کیسے وریندر نے اُسے کئی بار ملنے کی کوشش کی پر اشنا نے ہمیشہ اُسے اِگنور کیا۔ یہاں تک کہ ایک بار وریندر خود اُس سے ملنے اُس کے بورڈنگ سکول میں آیا پر اُس نے اپنی سہیلی کو یہ کہہ کے وریندر کو واپس بھیج دیا کہ اشنا ایجوکیشنل ٹور پر گئی ہے۔ اشنا اِن سب کے لیے اپنے آپ کو کوس رہی تھی۔ کچھ پَنّے پڑھنے کے بعد اشنا کو پتہ لگا کہ روپالی کے بار بار سمجھانے پر وریندر وہ حادثہ نہیں بُھلا پا رہا تھا۔ روپالی نے کسی اُس سے شادی کی بات کی تو وریندر نے صاف منع کر دیا کہ اُسے ایک سال تک ویٹ کرنا پڑے گا۔ مگر روپالی نے اُسے 4 مہینوں کا وقت دیا اور چلی گئی۔ وریندر نے کافی بار اُس سے ملنے کی کوشش کی پر وہ ہر بار شادی کی ضد کرتی اور اِس طرح دھیرے دھیرے دونوں میں ڈفرنسز بڑھتے گئے۔ وریندر کو یقین تھا کہ روپالی دھیرے دھیرے مان جائے گی۔ مگر اُس کا یقین اُس دِن ٹوٹا جِس دِن روپالی اُس کے گھر اُسے اپنی شادی کا کارڈ دینے آئی۔ اُن لمحوں کے وریندر نے کیسے بیان کیا اُسے پورا پڑھنا اشنا کے بس کا نہیں تھا۔۔ وریندر اُسے بے اِنتہا مُحبت کرتا تھا پر روپالی اُس کی مُحبت ٹھکرا کر کسی اور کی ہونے والی تھی۔ وریندر نے دل پر پتھر رکھ کر اُس سے شادی کرنے کا بھی کہا پر روپالی نے اُسے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ وہ ایک نارمل زندگی شاید ہی دوبارہ جی پائے۔ وریندر نے اُسے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ دھیرے دھیرے نارمل ہو رہا ہے اور اُس حادثے کو بُھلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وریندر نے اُسے یہاں تک کہا کہ اگر روپالی ساتھ دے تو وہ جلد سے جلد ایک نارمل زندگی جی سکے گا۔ مگر روپالی نے اُس کا دل یہ کہہ کر توڑ دیا کہ وریندر اب کافی دیر ہو چکی ہے۔ جب تم مجھ سے دور جانے لگو تو اویناش (روپالی کا ہونے والا) نے مجھے سہارا دیا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ ایک نارمل مرد ایک لڑکی کو کیسے خوش رکھ سکتا ہے۔ مجھے تو شک ہے کہ تم اِس کے لائق بھی ہو یا نہیں۔
اِتنا سب پڑھنے کے بعد اشنا کو روپالی سے نفرت سی ہو گئی۔ اشنا سوچنے لگی کہ روپالی کیسی لڑکی ہو گی جو وریندر کے پَوتر پیار کو ٹھکرا کر کسی اور کے بازوؤں میں چلی گئی، کیا لڑکیوں کو صرف سہارا چاہیے جو ایک سے نہ ملا تو وہ دُوسری طرف چلی جائیں گی، پیار ایسا تو نہیں ہوتا۔ حالانکہ اُس نے کبھی کسی سے پیار نہیں کیا پر اُس کا دِل یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ کیسے ایک اِنسان اِتنا گر جاتا ہے کہ وہ کسی سے اَسیِم پیار کی قربانی دینے سے بھی نہیں کتراتا۔
اشنا نے گھڑی کی طرف دیکھا جو کہ رات کا 1:00 بجا رہی تھی۔ اشنا نے اپنی آنکھیں پونچھیں اور آگے پڑھنا شروع کیا۔ آگے زیادہ تر پیجز پر اُس کا روپالی کو منانا لکھا تھا پر وہ نہیں مانی اور اویناش سے شادی کر لی۔ وریندر نے لکھا کہ اُس دِن وہ سارا دِن گھر سے باہر نہیں نکلا۔ اُس کے بعد تو جیسے اُس کی روٹین سی بن گئی۔ گھر سے آفس، آفس سے گھر۔ بس اِتنی ہی زندگی رہ گئی تھی وریندر کی۔ اگلے کافی پیجز پر ہر دِن ڈیٹس کے حساب سے تھوڑا بہت ہی لکھا تھا، پر اُس پر اِتنی بار اووررائٹ کیا گیا تھا کہ اشنا کو اُسے پڑھنا بہت مُشکل ہو گیا تھا۔ ہر لائن کے اینڈ میں لکھا ہوتا "آئی لو یو روپالی، پلیز کم بیک، آئی کانٹ لِیو وِداؤٹ یو"۔ اُس کے بعد تو ہر لائن پر بس روپالی کا ہی نام تھا جِس میں وریندر اُسے معافی مانگتا اُسے گڑگڑاتا۔ اشنا سوچنے لگی کہ وریندر کتنا بھولا اِنسان ہے کہ وہ روپالی کے دھوکے کو اپنی غلطی مان کر دل ہی دل میں گھُٹ رہا ہے۔ ساری ڈائری ختم کرتے کرتے اشنا کو 3:30 بج گئے، جیسے ہی وہ ڈائری کے مڈل میں پہنچی، ایک ڈیٹ نے اُسے چونکا دیا۔(جاری ہے)