میرا نام فرحان ہے، میری عمر 21 سال ہے اور میں بی کام کر
رہا ہوں۔ مجھ سے بڑی ایک بہن ہے، فائزہ، جو 26 سال کی ہے اور گریجویشن کے بعد ایک کمپنی
میں نوکری کرتی ہے۔ کہانی شروع کرنے سے پہلے میں آپ کو اپنی بہن کے بارے میں بتا دوں۔
میری بہن بہت خوبصورت ہے، اس کا گورا رنگ، لمبے کالے بال، پتلی کمر، بھرے ہوئے چھوٹے
اور سب سے زیادہ دلکش اس کے چھاتی ہیں جو گول اور تنے ہوئے ہیں۔ میری بہن کا چھاتی
کا سائز 36 ہے، اب آپ اندازہ لگائیں کہ میری بہن کیسی ہوگی۔
اب کہانی کی طرف آتا ہوں۔ میرے دوست زیادہ اچھے نہیں ہیں،
میرے زیادہ تر دوست اوباش اور عیاش ہیں۔ لڑکیوں کو چھیڑنا، فحش فلمیں دیکھنا، شراب
پینا، یعنی ان میں وہ ہر خرابی تھی جو بگڑے ہوئے رئیسی زادوں میں ہوتی ہے۔ شروع میں
مجھے ان سے ملنا عجیب لگتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ میں بھی ان کے رنگ میں رنگتا گیا۔
میرے دوست اکثر میری بہن کا ذکر گندے الفاظ میں کرتے تھے۔ پہلے مجھے غصہ آتا تھا، لیکن
بعد میں مجھے ان کی باتیں بری نہیں لگتی تھیں۔ جب وہ کہتے کہ "تیری بہن کیا مال
ہے، کبھی اسے ہمارے پاس لے آ، ہم اسے جنت کی سیر کرائیں گے" تو میں مسکرا دیتا
تھا۔ اب میری بہن کے لیے میری نظریں بھی بدل گئی تھیں اور میں بھی اپنے دوستوں کی طرح
اسے ہوس بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا تھا۔
ایک دن میں کالج کے لیے گھر سے بائیک پر نکلا۔ آدھے رستے
میں مجھے یاد آیا کہ میں ایک کتاب گھر پر بھول گیا ہوں۔ کتاب لینے کے لیے میں واپس
مڑ گیا۔ میری بہن فائزہ اپنے دفتر جانے کے لیے گھر سے کچھ دور بس اسٹاپ پر کھڑی ہوتی
تھی کیونکہ اس کی بس وہاں سے ملتی تھی اور وہ سڑک اکثر سنسان ہوتی تھی۔ جب میں واپس
آیا تو میری بہن بس اسٹاپ پر کھڑی نظر آئی۔ میں نے سوچا کہ چلو اسے تھوڑا آگے تک لفٹ
دے دیتا ہوں تاکہ اسے بس آسانی سے مل جائے۔ ابھی میں کچھ دور ہی تھا کہ میری بہن کے
سامنے ایک کلٹس کار آ کر رکی۔ میں بھی دور ہی رک گیا۔ کار میں میرے چار اوباش دوست
بیٹھے تھے۔ فائزہ انہیں دیکھ کر چونک گئی۔ اتنے میں دو دوست کار سے اترے اور فائزہ
سے بدتمیزی کرنے لگے۔ فائزہ انہیں منع کر رہی تھی، لیکن وہ اسے تنگ کرتے رہے۔ فائزہ
نے غصے میں آ کر میرے ایک دوست جاوید کو تھپڑ مار دیا۔ جاوید نے غصے میں فائزہ کو پکڑ
لیا اور کار میں بٹھانے لگا۔ فائزہ خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جاوید کی مدد
کے لیے فرقان اور امتیاز بھی آگے بڑھے اور تینوں نے فائزہ کو زبردستی کار کی پچھلی
سیٹ پر بٹھا دیا۔ سڑک پر میرے علاوہ کوئی نہیں تھا، اس لیے میرے دوستوں کو کوئی پریشانی
نہیں ہوئی۔ میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کو دل میں آیا کہ اپنی بہن کی مدد کروں،
لیکن میں رک گیا کہ دیکھوں میرے اوباش دوست میری بہن کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
میرے دوست میری بہن کو لے کر چل پڑے۔ یہ علاقہ سنسان تھا،
اس لیے انہیں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ میں نے فاصلہ رکھ کر ان کا پیچھا شروع کیا۔ جاوید
کا شہر سے کچھ دور ایک فارم ہاؤس تھا، جہاں میں اپنے انہی دوستوں کے ساتھ کئی بار رنڈیوں
کو چود چکا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ فارم ہاؤس کی طرف جا رہے ہیں تو میں نے اپنی
بائیک سست کر دی تاکہ وہ مجھے نہ دیکھ سکیں۔
تھوڑی دیر میں کار میری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ میں سست
رفتار سے فارم ہاؤس پہنچ گیا۔ گیٹ بند تھا، لیکن دیوار پھلانگنا میرے لیے کوئی مسئلہ
نہیں تھا۔ میں نے بائیک جھاڑیوں میں چھپائی اور دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو گیا۔
پارکنگ میں ایک اور کار کھڑی تھی، یعنی میرا پورا گروپ میری بہن سے مزے لینے کے لیے
وہاں موجود تھا۔ ہم دوستوں کے گروپ میں سات لڑکے ہیں: جاوید، امتیاز، فرقان، ذاکر،
جنید، کامران اور میں۔
میں دبے قدموں اندر گھسا۔ فارم ہاؤس دو منزلہ تھا۔ ایک کمرے
میں میں نے انہیں دیکھ لیا۔ دروازہ مکمل بند نہیں تھا، اس لیے میں وہاں سے ہٹ گیا کہ
کہیں مجھے دیکھ نہ لیں۔ لیکن میں دیکھ چکا تھا کہ میرے دوستوں نے میری بہن کی قمیض
اتار دی تھی اور وہ صرف شلوار اور بریزر میں تھی، ان سے منتیں کر رہی تھی۔ میرے دوستوں
نے مجھ سے چھپ کر یہ منصوبہ بنایا تھا، اس لیے میں نہیں چاہتا تھا کہ انہیں میری موجودگی
کا پتا چلے۔ میں باہر اس کمرے کی کھڑکی کی طرف آیا۔ کھڑکی کھلی تھی اور اس پر پردہ
پڑا ہوا تھا۔ اب میں آسانی سے اندر کا منظر دیکھ سکتا تھا۔
اندر جاوید نے میری بہن کو پکڑا ہوا تھا۔ اب میری بہن کا
بریزر بھی اتر چکا تھا اور اس کے بڑے گول چھاتی ننگے تھے۔ میں اپنی بہن کے سیکسی چھاتی
دیکھ کر حیران رہ گیا۔ جاوید میری بہن کی شلوار اتارنے کی کوشش کر رہا تھا اور میری
بہن بچنے کی کوشش میں تھی، جبکہ باقی دوست بیٹھے مزہ لے رہے تھے۔ ذاکر کے ہاتھ میں
ہینڈی کیم تھا، وہ ویڈیو بنا رہا تھا۔ جاوید ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا، "ڈارلنگ!
شرافت سے ہمارا ساتھ دو تو تمہیں بھی مزہ آئے گا، ورنہ آج تیری چوت اور گانڈ ہم سب
مل کر پھاڑ دیں گے۔" میری بہن نے نفرت سے کہا، "حرامی! تیری کوئی بہن نہیں
کیا جو تو دوسروں کی بہن کے لیے ایسی باتیں کر رہا ہے؟" جاوید ہنسا اور بولا،
"ڈیئر! میری کوئی بہن نہیں، اگر ہوتی تو میں خود اس کی چوت اور گانڈ پھاڑ دیتا۔"
اس پر سب دوست ہنسنے لگے اور میں بھی مسکرا دیا۔
اس وقت میری بہن کے ساتھ جو ہو رہا تھا، اسے دیکھ کر مجھے
ذرا بھی غصہ نہیں آ رہا تھا۔ میں چاہ رہا تھا کہ جاوید جلد سے جلد میری بہن کو ننگی
کر دے تاکہ میں اس کے خوبصورت جسم کا نظارہ کر سکوں۔ تھوڑی دیر بعد جاوید نے فائزہ
کی شلوار اتار دی، پھر اس کی پینٹی پکڑ کر کھینچی اور پھاڑ دی۔ اب میری بہن مکمل ننگی
تھی۔ جاوید ہنستے ہوئے پھٹی ہوئی پینٹی ہاتھ میں لے کر کھڑا تھا اور باقی دوست بھی
ہنس رہے تھے، جبکہ فائزہ اپنے جسم کو چھپانے کے لیے کپڑا ڈھونڈ رہی تھی، لیکن اس کے
کپڑوں پر میرے دوستوں کا قبضہ تھا۔ ذاکر مسلسل ویڈیو بنا رہا تھا اور فائزہ رونے لگی۔
جاوید ہنستے ہوئے بولا، "میری جان! رونے کا کوئی فائدہ
نہیں، کیونکہ تجھے چودے بغیر ہم یہاں سے جانے نہیں دیں گے۔" پھر اس نے اپنے دوستوں
سے کہا، "یارو! دو گروپ بنا لو اور اس خوبصورت چڑیا سے مزے کرو۔" فرقان اور
امتیاز اٹھ کر جاوید کے پاس آئے اور تینوں نے میری بہن کو پکڑ کر بستر پر لٹا دیا۔
فائزہ نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی تو جاوید نے دو زور دار تھپڑ مارے، جس سے وہ چپ
ہو گئی۔ اب تینوں میرے دوست میری بہن کے جسم سے کھیل رہے تھے۔ کوئی اسے چوم رہا تھا،
کوئی اس کے چھاتی دبا رہا تھا، کوئی اس کی چوت کو چاٹ رہا تھا۔ فائزہ رو رہی تھی اور
اس کی آہستہ آہستہ چیخیں نکل رہی تھیں۔ باقی تین دوست یہ منظر مزے سے دیکھ رہے تھے
اور ویڈیو بنا رہے تھے۔ باہر میں بھی کھڑا مزہ لے رہا تھا۔ میں نے اپنی پینٹ اور انڈرویئر
اتار دیا تھا اور اپنے کھڑے لنڈ کو سہلاتے ہوئے اندر کا منظر دیکھ رہا تھا۔
اتنے میں جاوید نے اپنے سارے کپڑے اتار دیے اور اس کا لنڈ
آزاد ہو گیا۔ اس نے اپنا لنڈ فائزہ کے منہ سے لگایا اور بولا، "چل رنڈی! اسے چوس۔"
میری بہن نے منہ پھیر لیا تو جاوید نے زبردستی اپنا لنڈ اس کے منہ میں گھسا دیا۔ فائزہ
کی آنکھیں باہر آ گئیں۔ جاوید نے کہا، "شرافت سے ہمارا ساتھ دے، ورنہ بہت پچھتائے
گی۔" اب میری بہن کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، اس نے مجبوراً جاوید کے لنڈ کو چوسنا
شروع کر دیا۔ جاوید نے 15 منٹ تک اپنا لنڈ چسوایا، پھر اس نے فائزہ کے منہ میں اپنا
رس چھوڑ دیا۔ جب اس نے لنڈ باہر نکالا تو فائزہ کے منہ سے رس نکلنے لگا۔ جاوید نے دوستوں
سے کہا، "یارو! پہلے ہم سب باری باری اس رنڈی کو اپنا رس پلائیں گے، پھر اس کی
چدائی کریں گے۔" سب نے اس مشورے کو پسند کیا۔
پھر ایک ایک کر کے میرے چھوں دوستوں نے میری بہن کو اپنا
رس پلایا۔ جب سب فارغ ہو گئے تو انہوں نے میری بہن کی چدائی شروع کی۔ جاوید سب سے پہلے
آیا۔ اس نے فائزہ کی ٹانگیں اٹھائیں، اس کے چھوٹوں کے نیچے تکیہ رکھا اور اپنا لنڈ
اس کی چوت میں گھسا دیا۔ میری بہن چیخ پڑی۔ جاوید نے تیز تیز جھٹکے مار کر اسے چودنا
شروع کر دیا۔ فائزہ تڑپ رہی تھی، لیکن جاوید کو مزہ آ رہا تھا۔ 25 منٹ تک چدائی کے
بعد جاوید نے اپنا رس فائزہ کی چوت میں چھوڑ دیا۔ پھر فرقان، امتیاز اور باقی سب نے
باری باری میری بہن کو چودا۔ باہر میں یہ سب دیکھ کر چار بار اپنا رس دیوار پر چھوڑ
چکا تھا۔
جب سب فارغ ہو گئے تو تین ڈھائی گھنٹے گزر چکے تھے۔ میری
بہن کی حالت خراب تھی۔ دوستوں نے اسے کھانا دیا اور ایک گھنٹے آرام کرنے دیا۔ پھر چدائی
کا دوسرا راؤنڈ شروع ہوا جو چار گھنٹے چلا۔ شام ہو گئی تو انہوں نے فائزہ کو کہا کہ
کل صبح اسی اسٹاپ پر ہمارا انتظار کرے۔ فائزہ نے کہا، "آج تمہارا دل نہیں بھرا
کیا؟" جاوید ہنسا اور بولا، "تو اتنی زبردست چیز ہے، ایک دن میں کیسے دل
بھرے گا؟ اب روز تیری چدائی کریں گے۔" فائزہ گھبرائی اور بولی، "نہیں، میں
روز نہیں آ سکتی، میری نوکری کا کیا ہوگا؟" جاوید نے کہا، "نہ آئی تو زبردستی
لے آئیں گے اور تیری ویڈیو شہر بھر میں پھیلا دیں گے۔ نوکری چھوڑ دے، ہم تجھے تنخواہ
سے زیادہ پیسے دیں گے۔ اب تو ہماری رنڈی بن کر رہنا ہوگا۔" میری بہن نے سر جھکا
لیا۔ اس کے پاس اب کوئی راستہ نہیں تھا۔
میرے دوستوں نے نہایا اور فائزہ کو بھی نہلایا۔ نہانے کا
منظر میں باہر سے نہ دیکھ سکا کہ نہاتے ہوئے انہوں نے میری بہن کے ساتھ کیا کیا۔
40 منٹ بعد وہ نہا کر نکلے، کپڑے پہنے اور فائزہ کو لے کر چلے گئے۔ میرے دوستوں کے
جانے کے 15 منٹ بعد میں بھی نکلا، اپنی بائیک نکالی اور گھر پہنچ گیا۔ ابھی تک فائزہ
گھر نہیں آئی تھی، یعنی وہ ابھی میرے دوستوں کے ساتھ تھی۔ میں نے دیوار کی گھڑی دیکھی
تو شام کے 6:30 بج رہے تھے۔ فائزہ عام طور پر 7:30 تک گھر آتی تھی، یعنی ابھی ایک گھنٹہ
باقی تھا۔ 7:30 بجے فائزہ آئی تو وہ بالکل نارمل تھی، اس کے ہاتھ میں کچھ شاپنگ بیگ
بھی تھے۔ لگتا تھا دوستوں نے اسے شاپنگ کروا دی تھی، اسی لیے وہ وقت پر آئی۔ بہن نارمل
تھی تو میں نے بھی کوئی ردعمل نہ دکھایا اور خاموش رہا۔ اب مجھے اگلے دن کا انتظار
تھا کہ کل میرے دوست فائزہ کی کیسے چدائی کریں گے۔
اگلے دن میں ناشتے کے بعد کالج کے بہانے گھر سے نکلا اور
سیدھا فارم ہاؤس پہنچ گیا۔ بائیک چھپا کر میں نے کل والی پوزیشن سنبھال لی۔ ایک گھنٹے
انتظار کے بعد میرے دوست فائزہ کے ساتھ فارم ہاؤس آ گئے۔ آج فائزہ کو پتا تھا کہ اسے
کیا کرنا ہے، اس لیے اس نے خود ہی اپنے سارے کپڑے اتار دیے۔ میرے دوستوں نے بھی اسے
ننگا دیکھ کر کپڑے اتار دیے۔ آج میری بہن نے خود سب کے لنڈ باری باری چوسے۔ جاوید نے
فائزہ سے کہا، "ڈارلنگ! آج ہم سب مل کر تیری گانڈ ماریں گے اور کل سے تیری دو
یا تین کے گروپ میں چدائی کریں گے۔" گانڈ مارنے کی بات سن کر میں جوش میں آ گیا
اور دلچسپی سے اندر کا منظر دیکھنے لگا۔ کل کی طرح پہلی باری جاوید کی تھی۔ اس نے فائزہ
کو کتیا کی طرح چاروں ہاتھ پاؤں پر کھڑا کیا۔ جاوید نے کریم اٹھائی، اپنے لنڈ پر لگائی
اور فائزہ کی گانڈ کے اندر بھی انگلی سے کریم لگا دی۔ پھر اس نے اپنا لنڈ فائزہ کی
گانڈ پر رکھا اور زور دار جھٹکا مارا۔ کریم کی وجہ سے لنڈ پھسلتا ہوا ایک ہی جھٹکے
میں اندر چلا گیا۔ جھٹکا اتنا زور دار تھا کہ فائزہ چیختے ہوئے گر پڑی۔ جاوید نے اسے
دوبارہ کھڑا کیا اور پھر جھٹکا مارا۔ فائزہ پھر چیخی اور گر گئی۔ اس بار جاوید نے اسے
کھڑا نہ کیا اور اسی پوزیشن میں اس کی گانڈ مارنے لگا۔ فائزہ درد سے تڑپ رہی تھی اور
چیخ رہی تھی۔
کل سے زیادہ آج مجھے اپنی بہن کی چدائی دیکھنے میں مزہ آ
رہا تھا۔ میں اپنے لنڈ کو زور زور سے مسل رہا تھا۔ ادھر جاوید پوری طاقت سے فائزہ کی
گانڈ پھاڑ رہا تھا۔ کمرہ فائزہ کی چیخوں سے گونج رہا تھا، جس سے جاوید سمیت ہم سب کو
مزہ اور جوش بڑھ رہا تھا۔ جاوید نے 35 منٹ تک تیز جھٹکوں سے فائزہ کی گانڈ ماری۔ جب
وہ ہٹا تو فرقان فوراً فائزہ پر چڑھ گیا اور اس کی گانڈ میں لنڈ ڈال کر زور زور سے
جھٹکے مارنے لگا۔ فائزہ پھر چیخنے لگی۔
پھر باری باری میرے سب دوستوں نے فائزہ کی گانڈ ماری۔ کل
انہوں نے صرف اس کی چوت چودی تھی، لیکن آج صرف گانڈ ماری جا رہی تھی۔ آج بھی سب نے
دو دو بار فائزہ کی گانڈ ماری۔ پھر انہوں نے بتایا کہ کل اس کے دونوں سوراخوں سے بیک
وقت چدائی ہوگی۔ جب وہ چلے گئے تو میں بھی نکل گیا۔ شام کو فائزہ باجی کل کی طرح اپنے
دفتر کے وقت پر آئیں۔ آج وہ بہت خوش لگ رہی تھیں، لگتا ہے دوستوں نے آج کچھ زیادہ پیسے
دیے تھے۔ اگلے دن میں پھر ان کے آنے سے پہلے فارم ہاؤس پہنچ گیا۔ آج میری بہن کی چدائی
دیکھ کر بہت مزہ آیا کیونکہ آج میرے دوستوں نے تین تین کے گروپ میں اسے چودا۔ جب ایک
دوست اس کی چوت میں، دوسرا گانڈ میں اور تیسرا منہ میں لنڈ ڈال کر چود رہا تھا تو میں
جوش سے پاگل ہو رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر
فائزہ کو چودوں۔
پھر میرے دوست روز میری بہن کی چدائی کرنے لگے اور میں کالج
جانے کے بجائے اس کی چدائیاں دیکھتا تھا۔ چار دن میں ہی فائزہ کی ساری شرم ختم ہو گئی
اور انہوں نے اسے اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ پانچویں دن انہوں نے اسے شراب پلائی اور فحش
فلم دکھائی۔ اب فائزہ خود ان سے فحش فلمیں منگواتی تھی اور فلموں کے انداز میں چدائی
کرواتی تھی۔ میری بہن میری طرح بےغیرت ہو گئی تھی۔ وہ چدائی کے دوران گالیاں بھی دیتی
اور مزے لے کر چدواتی تھی۔ میں نے دو ماہ تک چھپ چھپ کر اس کی چدائیاں دیکھیں۔ ان دو
مہینوں میں مشکل سے تین چار بار ہی اس کی چدائی کا پروگرام miss
کیا، ورنہ ہر پروگرام پورا دیکھا۔
دو ماہ بعد میری چوری پکڑی گئی۔ میرے دوستوں نے مجھے چدائی
دیکھتے ہوئے دیکھ لیا۔ چھپنے کا فائدہ نہ تھا، تو میں اندر چلا گیا۔ فائزہ پہلے مجھے
دیکھ کر گھبرائی، لیکن اگلے ہی لمحے نارمل ہو گئی۔ جاوید نے میری کمر پر ہاتھ مارتے
ہوئے کہا، "سالے! کب سے جاسوسی کر رہا ہے؟" میں مسکرایا اور بولا،
"پہلے دن سے، جب تم لوگ میری بہن کو زبردستی یہاں لائے تھے، تب سے آج تک تین چار
دن چھوڑ کر ہر پروگرام دیکھا، جس میں تم لوگ اسے کتے کی طرح چودتے تھے۔" فرقان
بولا، "سالے! چھپ کر دیکھتا تھا، کیسا لگتا تھا؟" میں مسکرایا اور بولا،
"اچھا لگتا تھا، مزہ آتا تھا تبھی تو دیکھتا تھا۔" جاوید بولا، "کیا
تیرا دل نہیں چاہتا تھا اپنی بہن کو چودنے کا؟" میں نے فائزہ کو دیکھا جو مجھے
دیکھ رہی تھی۔ میں بولا، "دل تو چاہتا تھا، اب بھی چاہتا ہے کہ میں بھی تم لوگوں
کے ساتھ مل کر اسے چودوں۔" جاوید نے فائزہ سے پوچھا، "ڈارلنگ! اگر تیرا بھائی
بھی ہمارے ساتھ تجھے چودے تو کیسا لگے گا؟" فائزہ مسکرائی اور بولی، "اگر
میرے بھائی کا لنڈ بڑا اور مضبوط ہوا تو مجھے اچھا بھی لگے گا اور مزہ بھی آئے گا۔"
جاوید نے مجھ سے کہا، "آ جا شیر! میدان میں شکار تیار
ہے، چیر ڈال۔" میری تو کب سے آرزو تھی کہ میں اپنی سیکسی بہن کو چودوں۔ میں نے
فوراً کپڑے اتار دیے۔ میرا 8 انچ لمبا اور 2.5 انچ موٹا لنڈ دیکھ کر فائزہ خوش ہوئی۔
میں نے اپنا لنڈ اس کی چوت میں گھسایا اور کتوں کی طرح اسے چودنے لگا۔ فائزہ کو بھی
مجھ سے چدوانے میں مزہ آیا اور وہ سسکیاں لینے لگی۔ اب میں روز اپنے دوستوں کے ساتھ
مل کر فائزہ کو چودتا تھا۔ ہم دن میں فارم ہاؤس میں اور رات کو گھر پر اس کی چدائی
کرتے تھے۔ امی ابو کا کمرہ نیچے تھا اور ہم بہن بھائی کا کمرہ اوپر، تو جب امی ابو
سو جاتے، میرے دوست گھر آتے اور صبح تک فائزہ کی چدائی کرتے۔ رات کی چدائیاں شروع ہونے
کے بعد ہم نے دن میں روز چودنا بند کر دیا، اب دو تین دن کے وقفے سے فارم ہاؤس میں
چودتے تھے۔
چدوا چدوا کر فائزہ کی چدائی کی بھوک بڑھتی جا رہی تھی۔
کبھی کبھی ہم سات دوست اسے چود کر تھک جاتے، لیکن اس کی بھوک ختم نہ ہوتی۔ اب ہماری
ان چدائیوں کو دو سال ہو گئے تھے۔ ان دو سالوں میں اس کی بھوک دیکھ کر ہم نے گروپ میں
دوستوں کی تعداد بڑھا دی۔ اب ہم دس لوگ تھے اور میری بھوکی بہن سب سے مزے لے کر چدواتی
تھی۔ انہی دنوں امی ابو نے فائزہ کی شادی کا ارادہ کیا تو وہ پریشان ہو گئی کیونکہ
وہ دس لڑکوں سے چدوانے کی عادی تھی، ایک آدمی اسے کیسے مطمئن کرتا؟ ہم سب دوست بھی
پریشان تھے کہ اب لڑکی کا بندوبست کرنا پڑے گا، اور جو بھی اس سے شادی کرے گا وہ اس
کی کھلی ہوئی چوت اور گانڈ دیکھ کر سمجھ جائے گا کہ فائزہ کیسی لڑکی ہے۔
اس پریشانی کا حل جاوید نے نکالا۔ اس کا ایک دوست کینیڈا
میں رہتا تھا جس نے بتایا کہ وہاں ایک پاکستانی آدمی ہے جو ایک بولڈ لڑکی سے شادی کرنا
چاہتا ہے۔ فائزہ اس کے لیے بہترین تھی۔ فائزہ نے اس سے ملنے کی خواہش کی۔ ایک ہفتے
بعد وہ شخص پاکستان آیا۔ وہ 32 سال کا خوبصورت آدمی تھا۔ اس سے ملنے کے بعد فائزہ شادی
کے لیے تیار ہو گئی۔ اس نے گھر رسہ بھیجا، ہم سب دوستوں نے گارنٹی دی اور رسہ پکا ہو
گیا۔ فائزہ شادی کے بعد کینیڈا چلی گئی۔ یہاں ہمیں لڑکیوں کے لیے پریشانی ہوئی، لیکن
فائزہ کینیڈا میں بہت خوش ہے۔ اس کا شوہر مجھ سے بھی بڑا بےغیرت ہے۔ وہ خود تو فائزہ
کی چدائی کرتا ہی ہے، پیسے لے کر اسے انگریزوں سے بھی چدواتا ہے۔ شوہر کو پیسے ملنے
کی خوشی ہے کیونکہ اسے ایسی بیوی چاہیے تھی، اور فائزہ خوش ہے کیونکہ ایک لنڈ سے اس
کی بھوک نہیں مٹتی تھی۔ اب اسے روز نئے نئے انگریزوں سے چدوانے کا موقع ملتا ہے۔(ختم شد)