پیاری بھابھی

 

ہیلو دوستو، میرا نام عامر ہے۔ یہ میری پہلی سیکس کہانی ہے، لیکن یہ کہانی ایک سچی واقعے پر مبنی ہے۔


ابھی میں ایک بہت بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا ہوں۔


یہ  کہانی اس وقت کی ہے جب مجھے بی ٹیک کے لیے کراچی کے ایک آئی آئی ٹی کالج میں داخلہ مل گیا تھا۔


میں کالج میں داخلہ لے چکا تھا، لیکن وہاں جانے کے لیے ابھی ایک ماہ کا وقت تھا۔


اسی دوران میرے ایک دوست نے مجھے لو اسٹوری فورم کے بارے میں بتایا۔ پہلے میں نے ایک دو کہانیاں پڑھیں۔ انہیں پڑھنے کے بعد مجھے بہت لطف آیا اور مجھے اتنا مزہ آنے لگا کہ اب میں روزانہ  سیکس کہانیاں  ضرور پڑھتا ہوں۔


اس  کہانی میں میں آپ کو اپنی بھابی کی چدائی کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے کس طرح بھابی کے ساتھ چدائی کا مزہ لیا اور ان کے بانجھ ہونے کے الزام کو ختم کیا۔


اس وقت میری عمر اکیس سال تھی۔ میں دیکھنے میں بہت خوبصورت تھا۔ میرے لن کی لمبائی کافی اچھی تھی اور یہ تین انچ موٹا تھا۔ میری باڈی بھی ایتھلیٹک تھی۔ سکس پیک ایبز بھی تھے۔ میں سمارٹ بھی تھا اور اب بھی ہوں۔


لیکن میں بہت سادہ تھا، اتنا کہ اس وقت تک میں نے ایک بھی گرل فرینڈ نہیں بنائی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ میں بنا نہیں سکتا تھا۔ لیکن جب بھی کوئی لڑکی پروپوز کرتی، میں انکار کر دیتا کیونکہ مجھے پڑھائی پر توجہ دینی ہوتی تھی۔


لو اسٹوری فورم میں سیکس کہانیاں پڑھنے کے بعد میرا لڑکیوں اور بھابھیوں کی طرف رجحان بڑھنے لگا تھا۔


میری خالہ پنجاب کے ایک گاؤں میں رہتی ہیں۔ خالو گاؤں کے سرپنچ ہیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ چھوٹے کا نام راشد ہے اور بڑے کا نام ساجد۔ دونوں دیکھنے میں ٹھیک ٹھاک ہیں۔


راشد بھائی گاؤں کے قریب کے شہر میں آر ٹی او میں کام کرتے ہیں، اور ساجد بھائی کراچی میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتے ہیں۔


ساجد بھائی کی شادی عائشہ بھابی سے ہوئی۔ ان کی شادی کو چار سال ہو گئے تھے، لیکن ان کا اب تک ایک بھی بچہ نہیں ہوا تھا۔ اس وجہ سے بھابی کو اپنی ساس سے طعنے سننے پڑتے تھے۔


بھائی اور بھابی ابھی کراچی میں ہی رہتے ہیں۔


میرے کراچی جانے میں ایک ماہ کا وقت تھا۔ میں فارغ تھا تو لو اسٹوری فورم پڑھنے میں وقت گزارنے لگا۔


سیکس کہانیاں پڑھتے پڑھتے ایک ماہ کیسے گزر گیا، کچھ پتا ہی نہیں چلا۔


میں نے کراچی جا کر کالج کے ہاسٹل میں رہنے کا سوچا تھا۔ بھائی نے تو بہت کہا کہ عامر ہماری طرف رہ لے گا ، لیکن ابو نے کہا کہ  تم لوگوں کو بلا وجہ پریشانی اٹھانی پڑے گی۔


میں ہاسٹل میں رہنے لگا۔


ایک دن بھائی کا فون آیا کہ عامر، اگر وقت ہو تو آج گھر آ جاؤ۔ تم سے کچھ بات کرنی ہے۔


میں نے جلدی سے گاڑی اٹھائی اور ان کے گھر پہنچ گیا۔ وہاں بھابی نے گیٹ کھولا۔


میں اپنی بھابی کو پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کیا خوبصورت لگ رہی تھیں بھابی!سرخ و سفید رنگ ، پر  نیلی شلواز قمیض، ۔، فگر 34-30-36 کا، بالکل قیامت لگ رہی تھیں۔ بھابی کے ممے  نہ بہت بڑی تھیں، نہ بہت چھوٹے ، اور گول مٹول گانڈ تو ان کے خوبصورت بدن کا سب سے شہوت انگیز انگ تھی۔


تبھی میرے کانوں میں ایک میٹھی سی آواز آئی: "بھائی جی، اندر تو آئیں۔ کیا یہیں کھڑے رہیں گے؟"


میں تھوڑا سا ہلا اور خود کو سنبھالتے ہوئے بولا: "ہاں… ہاں بھابی جی۔"


میں اندر آیا تو سامنے بھائی بیٹھے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیٹھنے کو کہا اور میرا حال احوال پوچھنے لگے۔


پھر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں اور اسی میں دو گھنٹے گزر گئے۔


پھر بھائی کو یاد آیا کہ جس کام کے لیے انہوں نے مجھے بلایا تھا، وہ تو بتانا ہی بھول گئے۔


بھائی: "ارے یار، وہ یہ بتانا تھا کہ میرا پروموشن ہو گیا ہے۔"


ان کی بات پوری ہوتی اس سے پہلے ہی میں نے انہیں مبارکباد دے دی۔


پھر وہ بولے: "لیکن ایک مسئلہ ہے۔"


میں: "وہ کیا؟"


بھائی: "مجھے ایک سال کے لیے ٹریننگ کے لیے دبئی جانا پڑے گا اور تمہاری بھابی یہاں اکیلی رہ جائیں گی۔"


میں: "تو کیا ہوا، آپ بھابی کو گاؤں بھیج دیں۔"


بھائی: "ارے وہی تو، تمہیں پتا ہے کہ ہمارا کوئی بچہ نہیں ہے۔ اس وجہ سے امی  کا رویہ عائشہ کے خلاف ہی رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ اسے طعنے دیتی رہتی ہیں۔ پھر عائشہ بھی نوکری چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی۔"


میں: "تو میں اس میں کیا کر سکتا ہوں؟ اگر میرے لائق کوئی کام ہو تو میں ضرور کر دوں گا۔"


بھائی: "اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو تم یہیں رہ جاؤ۔ بس ایک سال کی تو بات ہے۔"


میرے دل میں تو ایک دم خوشی کی لہر سی دوڑ گئی۔ لیکن خود کو سنبھالتے ہوئے میں نے کہا: "میں ایک بار ابو سے پوچھ لیتا ہوں۔"


بھائی کو میری یہی بات پسند تھی کہ میں کوئی بھی کام بڑوں سے پوچھ کر ہی کرتا ہوں۔


تو بھائی بولے: "وہ میں نے پہلے ہی پوچھ لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں شام کو عامر کو بتا دوں گا۔ پھر میں نے تم سے پوچھنا مناسب سمجھا۔"


یہ بات ختم ہوئی اور میں کچھ دیر بعد بھائی کے گھر سے ہاسٹل چلا گیا۔


کچھ دیر بعد ابو کا فون آیا اور میں نے شام کو ہاسٹل سے شفٹ کر لیا۔


ادھر ایک کمرے میں میں نے اپنا سارا سامان سیٹ کر لیا۔ بھائی کا گھر بہت بڑا تھا۔ یہ چار کمروں کا مکان تھا۔ میرا کمرہ اوپر والی منزل پر تھا۔ وہاں صرف ایک بیڈروم تھا۔ بہت ہی شاندار گھر تھا۔


سامان سیٹ کرتے کرتے رات ہو گئی۔ میں نیچے کھانا کھانے آیا۔


بھابی کھانا بنا رہی تھیں اور بھائی سامان پیک کر رہے تھے۔


میں: "بھائی، کب جانا ہے؟"


بھائی: "کل صبح کی فلائٹ ہے۔"


پھر سب نے کھانا کھایا اور سونے چلے گئے۔


میری نیند رات کو تقریباً ایک بجے کھلی۔ میں پانی پینے نیچے کچن میں گیا تو بھائی کے کمرے سے لڑائی کی آواز سنائی دی۔


میں نے توجہ دی، لیکن کچن سے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میں ان کے کمرے کے دروازے سے کان لگا کر سننے لگا کہ کیا ہو رہا ہے۔


بھابی: "ایسی نوکری کی کیا ضرورت ہے؟ ویسے ہی تم مہینے میں ایک بار مشکل سے کر پاتے ہو۔ اب اوپر سے ایک سال۔ میری تو قسمت ہی پھوٹی ہے۔ مجھے ابو کی بات مان لینی چاہیے تھی، کم از کم اتنا کمزور لن تو نہ ملتا۔"


بھائی: "زیادہ گرمی ہے تیرے اندر تو کوٹھا کھول لے۔"


بھابی: "تم سے پیار کر کے غلطی کر دی۔"


یہ کہہ کر بھابی رونے لگیں۔


بھائی انہیں منانے لگے۔


میں واپس اپنے کمرے میں آ گیا اور بھابی کے بارے میں سوچ سوچ کر مٹھی مارنے لگا۔ پھر سو گیا۔


صبح جب میری نیند کھلی تو صبح کے دس بج چکے تھے۔ آج اتوار تھا، اس لیے مجھے کوئی فکر نہیں تھی۔


پھر یاد آیا کہ آج تو بھائی جانے والے ہیں۔ میں بھاگ کر نیچے آیا تو پتا چلا کہ بھائی جا چکے ہیں۔


بھابی: "ناشتہ کر لو عامر!"


جیسے ہی میری نظر بھابی پر پڑی، میں پھر سے گرم ہو گیا۔ بھابی نے نیلی جینز اور سفید شرٹ پہنی تھی۔ وہ ایسی ہاٹ لگ رہی تھیں جیسے کوئی بالی ووڈ اداکارہ سامنے کھڑی ہو۔


میں: "ہاں بھابی، بھوک تو بہت زور سے لگی ہے۔"


بھابی نے دو پلیٹوں میں ناشتہ لگایا اور ہم دونوں ناشتے کے لیے بیٹھ گئے۔


اب بھابی بالکل میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھی تھیں۔


میں نے پہلی بار انہیں اتنا قریب سے دیکھا تھا۔ میں تو بس ان کے تنے ہوئے چھاتیوں کو دیکھ رہا تھا۔


بھابی ناشتہ کرنے میں مصروف تھیں۔


جیسے ہی انہوں نے میری طرف دیکھا تو پوچھنے لگیں: "کچھ چاہیے؟"


میں: "نہ… نہ کچھ نہیں۔"


میری آواز دب سی گئی۔ وہ سمجھ گئیں کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں، لیکن انہوں نے کچھ نہیں کہا۔


یہاں میرا لن عروج پر تھا۔ میں نے ہاتھوں سے لن کو دبایا، لیکن وہ میرا لن تھا، اس طرح ماننے والا نہیں تھا۔


میں بھابی سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔


میں نے جان بوجھ کر کہا: "بھابی، بھائی کا تو پروموشن ہوا ہے، پھر بھی آپ دونوں لڑ رہے تھے!"


بھابی: "تمہیں کیسے پتا؟"


میں: "رات کو میں پانی پینے کے لیے نیچے آیا تو پتا چلا کہ آپ دونوں لڑ رہے تھے۔"


بھابی نے حیرت سے کہا: "ت… تو کیا تم نے ساری باتیں سن لیں؟"


میں نے جان بوجھ کر کہا: "ہاں۔"


بھابی ہاتھ جوڑ کر کہنے لگیں: "یہ سب کسی کو مت بتانا پلیز… ورنہ ہر جگہ میری بے عزتی ہو جائے گی۔"


میں: "لیکن ایسی کیا بات ہے کہ آپ کا بچہ نہیں ہوا؟"


بھابی کو شاید اتنی جلدی مجھ سے ایسے سوال کی توقع نہیں تھی۔


وہ جواب دینے کی بجائے رونے لگیں۔ میں انہیں چپ کرانے کے لیے ان کے پاس چلا گیا اور انہیں تسلی دینے لگا۔


میں نے پوچھا: "مسئلہ کیا ہے بھابی؟"


بھابی: "تمہارے بھائی کا سپرم کاؤنٹ کم ہے۔"


پھر انہوں نے مجھے رپورٹ لا کر دکھائی اور کہا: "اسی وجہ سے میں ان سے لڑ رہی تھی، لیکن میں نے تمہارے بھائی کو اس کے بارے میں اب تک نہیں بتایا۔"


مجھے میرا تیر نشانے پر لگتا نظر آیا۔


میں نے زیادہ دیر نہ کرتے ہوئے ایک اور تیر چلایا۔


میں: "بھابی، آپ کہہ رہی تھیں کہ مہینے میں ایک دو بار… آپ شاید کچھ اسی طرح کی بات کر رہی تھیں؟"


بھابی: "تو تم نے وہ بھی سن لیا!"


میں: "ہاں، لیکن میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ آپ مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہیں۔ آپ مجھے صاف صاف بتائیں کہ کیا ہوا… شاید میں آپ کی مدد کر سکوں۔"


بھابی: "و… وہ… تمہارے بھائی کا چھوٹا اور پتلا ہے… اسی وجہ سے ہمیں کوئی بچہ نہیں ہے۔ پھر رپورٹ تو تم نے دیکھ ہی لی ہے۔"


میں: "لیکن بھابی، ٹیسٹ ٹیوب بیبی بھی تو کیا جا سکتا ہے نہ!"


بھابی: "ہاں، لیکن سپرم ڈونیٹ کون کرے گا؟ اگر کسی کو پتا چلا تو تمہارے بھائی کی بدنامی ہو گی۔"


اب میں نے ڈرتے ہوئے کہا: "بھابی، ایک راستہ ہے۔ اگر کوئی بھروسے والا آدمی یا آپ کا دوست ہو تو آپ ٹرائی کر کے دیکھ سکتی ہیں۔"


بھابی تقریباً چیختے ہوئے بولیں: "پاگل ہو کیا… تم میرے بارے میں ایسی سوچ بھی کیسے سکتے ہو!"


وہ کھڑی ہوئیں اور سیدھا کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔


میں بہت ڈر گیا اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ میں سوچنے لگا کہ اگر بھابی نے یہ سب بھائی کو بتا دیا تو… یا میری ماں کو بتا دیا تو کیا ہو گا۔


پھر کچھ دیر بعد نہ جانے کیسے میرا ہاتھ میرے لن پر چلا گیا اور میں ایک بار کو سب کچھ بھول گیا کہ بھابی کے ساتھ میری کیا غلطی ہوئی تھی۔


اگلے ہی لمحے میرا لن بھابی کی اٹھی ہوئی چھاتیوں اور بھری ہوئی گانڈ کو یاد کر کے تن گیا۔ ہاتھ لن پر چلنے لگا اور کچھ ہی منٹوں میں لن نے پانی چھوڑ دیا۔


منی کے اخراج کے بعد ایک دم سے تھکاوٹ ہو گئی اور میری آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں۔ مجھے گہری نیند آ گئی۔


سیدھا شام کو میری آنکھ تب کھلی جب کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔


میں نے جیسے ہی گیٹ کھولا تو سامنے بھابی تھیں۔


میں: "بھابی، صبح والی بات کے لیے معافی مانگتا ہوں، آئندہ نہیں ہو گا۔"


بھابی: "ایسی کوئی بات نہیں ہے، معافی تو مجھے مانگنی چاہیے تھی۔ میں بلا وجہ تم پر غصہ ہو گئی۔"


میں چپ رہا۔


بھابی: "وہ سب ٹھیک ہے، چلو ڈنر کر لو… رات ہو گئی۔"


میں نے جیسے ہی وقت دیکھا تو آٹھ بج رہے تھے۔


آٹھ بجے کا وقت دیکھ کر میں ایک دم سے چونک کر بولا: "ارے اتنا وقت ہو گیا… مجھے ہوش ہی نہیں رہا۔"


بھابی ہنسنے لگیں اور بولیں: "زیادہ تھکاوٹ سے گہری نیند آ گئی ہو گی۔"


میں بھابی کی طرف دیکھنے لگا۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ مجھے تھکاوٹ ہوئی تھی، یہ بھابی کو کیسے پتا چلا۔ کہیں بھابی نے مجھے مٹھ مارتے ہوئے دیکھ تو نہیں لیا تھا۔


اب تک آپ نے پڑھا تھا کہ میں بھابی کی یاد میں مٹھی مار کر سو گیا تھا۔ مجھے شام کو بھابی نے ہی جگایا اور میرے ساتھ مذاق کرنے لگیں۔


اب آگے بھابی اور دیور کی چدائی:


بھابی سے بات ہونے کے بعد میں نے سر جھٹکا اور ڈائننگ ٹیبل پر آ گیا۔


جب بھابی نے کھانا لگایا اور ہم دونوں کھانے لگے۔


بھابی: میں نے اس بارے میں بہت سوچا۔  

میں نے جان بوجھ کر پوچھا: کس بارے میں؟


بھابی نے شرماتے ہوئے کہا: ارے اسی بارے میں… میں تمہارے بھائی کو دھوکا تو نہیں دے سکتی۔ اگر کسی کو پتا چل گیا تو اور بھی زیادہ پریشانی ہو گی… اور عزت کا کیا ہو گا!


میں: اگر ایسا نہیں کیا تو ویسے بھی ان کی عزت جانی ہے۔ کوئی بھروسے والا نہیں ہے کیا؟


میں نے جان بوجھ کر ایسا کہا، لیکن بھابی شاید پہلے سے ہی سب کچھ سوچ کر آئی تھیں۔


بھابی: ہے تو، لیکن وہ مانے گا کیا؟  

میں تھوڑا اداس ہوتے ہوئے بولا: کون ہے وہ خوش نصیب؟


بھابی: تم۔  

یہ سن کر پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا۔


میں: بھابی، ایک بار پھر سے بولو، کچھ سنائی سا نہیں دیا؟  

بھابی ہنس کر بولیں: ہاں تم۔


میں دل میں خوشی کے مارے اچھل پڑا۔ اپنے لیے یہ سنتے ہی میرا لن کھڑا ہو گیا۔


میں: سچ میں… بھابی، کیا میں آپ کے کام آ سکتا ہوں؟  

بھابی: ہاں، یہاں پر تمہارے سوا کوئی نہیں ہے۔ ویسے بھی تم ایک سال یہاں رکنے والے ہو تو میں نے سوچا تم ہی ٹھیک ہو۔


میں خود کو سنبھالتے ہوئے آہستہ سے بولا: ٹیسٹ ٹیوب والا یا سادہ؟


بھابی نے آنکھ دبائی اور کھل کر بولیں: پہلے تو ٹیسٹ ٹیوب کا سوچا، لیکن تمہارا خیمہ دیکھ کر دل بدل لیا۔


جب بھابی نے یہ کہا تو میرا نوالہ ہاتھ میں ہی رہ گیا اور میں ان کی طرف دیکھنے لگا۔


بھابی نے مدھر انداز میں انگڑائی لی اور پھر سے آنکھ دبا دی۔


اب میں سیدھا اٹھا اور بھابی کے قریب چلا گیا۔  

بھابی مجھے اپنے قریب دیکھ کر مسکرا دیں۔


میں نے ان کا چہرہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کیا اور ان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر زوردار بوسہ لینے لگا۔  

بھابی بھی میرا ساتھ دینے لگیں۔


پانچ منٹ تک ہمارا بوسہ چلتا رہا۔


تبھی بھابی کو اچانک ہوش آیا، وہ مجھے ہٹا کر بولیں: پہلے کھانا تو کھا لو پیارے دیور جی!  

میں نے کہا: میرا پیٹ تو اب بعد میں بھرے گا… چلیں پہلے آپ کا پیٹ بھر دوں۔


بھابی ہنسیں اور بولیں: تمہارے منہ میں کشمش۔  

میں نے کہا: ہاں اب تو میرے منہ میں تینوں کشمش ہوں گی۔


بھابی ہنسیں اور بولیں: تینوں کیسے؟ دو ہی تو ہوتی ہیں۔


میں نے سمجھ لیا کہ بھابی اپنے چھاتیوں کے نپل کو کشمش کہہ رہی ہیں۔


میں نے کہا: چلو بتاتا ہوں کہ تیسری کشمش کہاں ہوتی ہے۔


بھابی کو میری بات سے ایک دم خیال آ گیا اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔


میں نے کہا: سمجھ میں آ گیا؟  

بھابی بولیں: بڑے بدمعاش ہو… میری نیچے والی کشمش تک بھی پہنچ گئے۔


میں نے کہا: میں بدمعاش نہیں ہوں بھابی، آپ کا پیارا سا دیور ہوں۔  

یہ کہہ کر میں نے بھابی کو گود میں اٹھایا اور بیڈ روم میں لے گیا۔


میں نے بھابی کو بوسہ دیا اور بستر پر پٹخ دیا، پھر اپنی ٹی شرٹ جیسے ہی اتاری۔


بھابی: واہ، تمہارے تو سکس پیک ایبز ہیں۔  

میں: میرے تو وہاں بھی سکس پیک ایبز ہیں بھابی۔


یہ سن کر وہ جلدی سے اٹھیں اور میرا لوئر اتار کر سیدھا لن پکڑ لیا۔


پہلے تو کچھ دیر تک بھابی لن کو دیکھتی رہیں۔ پھر بولیں: اتنا بڑا لن!  

یہ کہہ کر بھابی نے منہ میں لن لے لیا۔


یہ میرا پہلا سیکس تجربہ تھا تو میرے منہ سے سسکیاں نکلنے لگیں۔  

میری آنکھیں بند ہو گئیں۔


وہ میرے لن کو لالی پاپ کی طرح چوس رہی تھیں۔ کبھی پورا لن منہ میں لے لیتیں، تو کبھی سر پر زبان پھیرنے لگتیں۔


میں تو بس آنکھیں بند کر کے مزا لے رہا تھا۔


بھابی کا منہ اتنا گرم تھا کہ میرا لن ان کا منہ چودنے لگا۔  

میں ان کے بال پکڑ کر آگے پیچھے کرنے لگا۔


پتا ہی نہیں چلا کہ میری رفتار کب بڑھ گئی۔  

کچھ دیر جھٹکے دیتے ہی میرا منی ان کے منہ میں نکل گیا۔ ان کا پورا منہ بھر گیا۔


بھابی نے میرا منی پی لیا اور لن چاٹ کر صاف کر دیا۔


اب میرا لن مرجھا چکا تھا۔


بھابی بولیں: دیکھو تمہارا مرجھا گیا ہے… پھر بھی چار انچ کا ہے۔ اتنا تو تمہارے بھائی کا کھڑا ہو کر ہوتا تھا۔ وہ بھی بالکل پتلا سا۔  

میں: بھابی، آج تو آپ نے جنت کا مزا چکھا دیا… ویسے یہ غلط ہے کہ میں پورا ننگا ہوں اور آپ اب تک کپڑوں میں ہیں۔


بھابی: لو تو تم ہی اتار لو، میں نے کہاں روکا ہے۔


وہ سیدھی ہو کر بستر پر لیٹ گئیں۔


میں نے جلدی سے بھابی کی شرٹ ان کے بدن سے الگ کر دی۔


انہوں نے اندر سیاہ رنگ کی برا پہنی تھی۔ برا میں چھپے بھابی کے دونوں چھاتی گویا اندر سے باہر آنے کو ترس رہے تھے۔


میں چھاتیوں کو برا کے اوپر سے ہی دبا رہا تھا اور برا کو نیچے سرکا کر انہیں ایک ٹک دیکھنے لگا۔


بالکل رسیلے آموں کی طرح تھے۔ نہ بہت بڑے، نہ بہت چھوٹے… بالکل نئی نویلی دلہن کی طرح تھے جیسے آم ابھی پکے نہ ہوں۔


میں نے جیسے ان کے ننگے چھاتی دبائے تو ایک الگ ہی لذت کا احساس ہوا۔


بس پھر کیا تھا… میں بھوکے بھیڑیے کی طرح ٹوٹ پڑا۔  

کبھی ایک دودھ چوستا تو دوسرے کو دباتا… کبھی دوسرے کو چوستا اور پہلے کو دباتا۔ آگے کا تو جیسے میں بھول ہی گیا کہ اس کے آگے بھی کچھ کرنا ہے۔


بھابی بھی بڑے پیار سے مجھے اپنے دودھ چسوا رہی تھیں۔


ان کا ایک ہاتھ میرے سر پر جما ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ کی دو انگلیوں سے بھابی مجھے اپنا نپل پکڑ کر چسوا رہی تھیں۔  

میں بھی نپل کو کھینچ کھینچ کر چوس رہا تھا۔


بھابی کے حلق سے میٹھی آہیں اور کراہیں نکل رہی تھیں: آں آںہ پی لو… میری پوری چھاتی کھا لو دیور جی… آہ آج پہلی بار مجھے یہ سکھ مل رہا ہے۔ تمہارے بھائی نے تو کبھی میری چھاتی کا مزا لیا ہی نہیں۔ آہ کاٹو مت میری جان چوسو آںہ آہ۔


بھابی کے دونوں دودھ چوستے چوستے میرا لن تن کر سلامی دینے لگا تھا اور بھابی کی چھاتییں ایک دم لال پڑ گئی تھیں۔  

اب شاید انہیں درد بھی ہونے لگا تھا۔


بھابی تھوڑا کراہ کر بولیں: دیور جی، ان کو کھانے کا ارادہ ہے کیا… درد ہو رہا ہے۔  

میں: بھابی، ابھی تو پتا نہیں کہاں کہاں درد ہو گا۔


بھابی: کیا میں اب بھی بھابی ہوں؟  

میں: سوری جانِ من، اب سے جانو… ٹھیک ہے۔ مگر اب تم بھی دیور نہ بولو میری جان۔


بھابی: ٹھیک ہے… میرے راجہ!  

پھر بھابی کی ٹائٹ جینز کو میں نے ایک جھٹکے میں اتار پھینکا۔


ان کی پتلی سی بالکل سفید دودھ سے بھی صاف کمر پر سیاہ رنگ کی پینٹی تھی۔  

بھابی کے جسم پر بس ایک ڈوری والی پینٹی ہی بچی تھی۔


اسے بھی میں نے انگلی میں پھنسا کر الگ کر دیا۔


جیسے ہی الگ کیا، پیاری سی چھوٹی سی گلابی گلابی چوت کے دیدار ہو گئے۔


پہلے تو میں نے چوت پر ہاتھ پھیرا، پھر انگلی چوت کے سوراخ پر رکھ کر اسے اندر ڈال دیا۔  

جیسے ہی انگلی اندر ڈالی، بھابی تھوڑا سا کانپ سی گئیں۔


میں انگلی سے بھابی کی چوت کا جائزہ لینے لگا۔


بھابی نے کسمساتے ہوئے کہا: آہ میرے راجہ، تمہاری تو انگلی ہی میرے لیے موٹی ہے۔  

میں نے کہا: ابھی سب ٹھیک ہو جائے گا جانو… میری انگلی، لن، سب کچھ چوت کھا جائے گی۔ اس کے بعد جب تمہارے کھیت میں میں بیج بونگا نہ… تو نو ماہ بعد فصل بھی اسی سوراخ سے نکلے گی۔


بھابی خوش ہو گئیں اور بولیں: جان، اگر ایسا ہو گیا تو میں سچ میں تمہاری بہت شکر گزار ہوں گی۔ میں نے کل رات تمہارے بھائی سے بڑی مشکل سے دو بار چدوایا تھا کہ اب سال بھر تک چوت میں کچھ نہیں جا سکے گا… اور انہوں نے بھی میرے اندر اپنا رس ٹپکاتے ہوئے کہا تھا کہ خدا نے چاہا تو اس بار تمہاری کوکھ ضرور بھر جائے گی۔


یہ سن کر میں نے کہا: جانو، اس بار جب تمہاری ماہواری کچھ اشارہ دے، تو اسی وقت تم بھائی کو خوشخبری دے دینا کہ ان کی محنت کامیاب ہو گئی۔ تاکہ تمہاری عزت بنی رہے اور تم ماں بھی بن جاؤ۔


بھابی بچے کی ماں بننے کی بات سن کر ایک دم خوش ہو گئیں اور مجھے چومنے لگیں۔


میں نے بوسے کے بعد کہا: جانو، اس بار تم نے منہ میں کشمش والی بات نہیں کی؟  

بھابی ہنس دیں اور بولیں: دو کشمش کا مزا تو لے ہی چکے ہو، اب تیسری کا مزا بھی لے لو۔


میں نے یہ سنتے ہی ان کی ٹانگیں کھول دیں اور ان کی رس کی بوندوں سے چمچماتی چوت پر اپنا منہ لگا دیا۔


بھابی کی آںہ نکل گئی: آںہ مر گئی رے… آہ میری جان چوس لو اس ناکارہ کو… سالی بہت کھجلاتی ہے۔


میں نے بھابی کی کلٹ کو اپنے ہونٹوں میں دبا کر کھینچنے لگا اور بھابی کی آہیں زور سے نکلنے لگیں۔


دو منٹ میں ہی بھابی کی گانڈ اوپر اٹھنے لگی اور ان کے دونوں ہاتھوں نے میرے سر کو اپنی چوت پر دبا لیا۔


کچھ ہی لمحوں میں بھابی کا بدن اینٹھنے لگا اور ان کی چوت نے رونا شروع کر دیا۔  

چوت کا رس بھلبھلا کر رِسنے لگا اور بھابی نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں سے چادر کو بھیچ لیا۔


میں بھابی کی چوت سے ٹپکتے رس کو چاٹنے لگا اور ان کی چوت کو چاٹ چوس کر صاف کر دیا۔


کچھ وقت کے لیے ہم دونوں نڈھال ہو کر لیٹ گئے۔


میرے اندر ابھی بھی جوش تھا اور میں بھابی کے ایک دودھ میں منہ لگائے اسے چوس رہا تھا۔


بھابی میرا سر سہلا رہی تھیں: جان، آج تم نے مجھے بغیر چودے اتنا مزا دے دیا… اتنا تو میں دس بار چد کر بھی نہیں لے سکتی تھی۔  

میں نے کہا: جانو، ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے۔ جب میں تمہیں چودوں گا تب بتانا کہ کیسا لگا۔


اسی طرح کی باتوں میں ہمارے بیس منٹ گزر گئے تھے۔


اب میں بھابی کے اوپر چڑھ گیا اور اپنے کھڑے لن کو بھابی کی چوت پر رگڑنے لگا۔  

بھابی بھی اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر اپنی چوت کی پھانکوں میں میرے لن کا سر گھسوا کر مزا لینے لگیں۔


میں نے کچھ دیر بعد بھابی سے کہا: اب میں اندر ڈال دوں یا ابھی رکنا ہے؟  

بھابی بولیں: ڈال دو نہ… میری چوت میں چیونٹیاں رینگ رہی ہیں۔


میں نے سر کو چوت کی پھانکوں میں سیٹ کیا اور ہلکا سا دباؤ دے دیا۔  

میرا ایک چوتھائی لن بھابی کی چوت کو چیر کر اندر گھس گیا۔


بھابی کی چیخ نکل گئی: آں آںہ مر گئی جان… میری پھٹ جائے گی… آںہ آہستہ کرو۔


میں آہستہ آہستہ بھابی کی چوت کو بھوسڑا بناتا گیا اور میرا پورا لن چوت میں پیوست ہو گیا۔


کچھ منٹ تک بھابی کو بہت درد ہوا، پھر چدائی کا مزا آنا شروع ہو گیا۔


میں نے بھابی کو ہچک کر چودا اور بیس منٹ بعد اپنا لن رس ان کی چوت میں چھوڑ دیا۔


اس رات بھابی نے مجھ سے تین بار چدائی کا مزا لیا۔ پھر ہم دونوں ننگے ہی چپک کر سو گئے۔


تقریباً دس دن تک زبردست چدائی ہوئی اور جب ماہواری کا وقت گزر گیا، تو بھابی بہت خوش ہو گئیں۔  

انہوں نے بھائی کو فون پر مبارکباد دی کہ انہیں حمل ٹھہر گیا ہے۔


میں بھابی کے ساتھ ان کے شوہر کی طرح رہنے لگا اور نو ماہ بعد بھابی نے ایک خوبصورت بیٹی کو جنم دیا۔


آج بھی جب کبھی موقع ملے میں اور بھابھی بھرپور سیکس کرتے ہیں ، ہماری پیاری بیٹی ہم دونوں کو ہی بہت پیاری ہے مگر بھائی اس سے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں ۔(ختم شد)

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی