میں 43 سال کا ہوں اور میری بیوی نیتو 37 سال کی ہے۔ نیتو آج بھی بہت سیکسی اور ہاٹ دکھتی ہے۔ اس کا گدھرایا ہوا جسم بہت ہی پرکشش ہے۔ لوگ اسے گندی نظروں سے گھورنا نہیں چھوڑتے، چاہے جوان ہو یا بوڑھا، سب اسے ہوس بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ کئی بار نیتو کو لوگوں نے اکیلے میں گندی گندی باتیں بھی کی ہیں۔ نیتو نے مجھے کئی بار بتایا کہ لوگ مجھے گندی باتیں کہتے ہیں۔ میں اسے اکثر کہتا ہوں کہ کہنے دے، تو اس طرف دھیان نہ دیا کر، لوگوں کا کام ہی اور کیا ہے؟ میں نیتو کو ہمیشہ سکرٹس اور ٹاپ ہی پہننے کو کہتا ہوں، کبھی کبھی جینز بھی پہنتی ہے اور جب گاؤں جاتا ہوں تو صرف ساڑی وغیرہ ہی استعمال کرتی ہے۔
ارے ہاں، آپ کو بتانا بھول گیا، میں دہلی کا رہنے والا ہوں لیکن میری نوکری کی وجہ سے میرا تبادلہ یوپی کے ایک شہر میں کیا گیا ہے۔ اس لیے میں اور نیتو یوپی کے اس چھوٹے سے شہر میں رہنے آ گئے۔ ہمیں یہاں آئے ہوئے صرف 4 دن ہی ہوئے ہیں۔ فی الحال ایک چھوٹے سے ہوٹل میں رہ رہے تھے۔ دہلی میں ہمارے سارے رشتے دار تھے، یہاں ہم دونوں اس نئی جگہ پر بالکل بے سہارا تھے۔ میں نے نیتو سے کہا تھا کہ نہ آؤ، دہلی میں ہی رہو، لیکن وہ نہیں مانی، بولی کہ جیسے آپ رہو گے، میں بھی رہ لوں گی۔
اس شہر سے میری کمپنی کا ورکشاپ کافی دور تھا اور اس کے آس پاس رہنے کی کوئی اچھی جگہ بھی نہیں تھی۔ ہم نے ان 4 دنوں میں کئی مکان کرائے پر ڈھونڈے لیکن کچھ نہیں ملا۔ ایک دن ورکشاپ کا ایک چوکیدار افضل، جس کی عمر تقریباً 60 سال کی ہوگی، اس نے بتایا کہ صاحب ایک گھر ہے، لیکن وہ گھر شہر اور ورکشاپ کے درمیان کے راستوں میں ہے۔ ایک چھوٹا سا محلہ ہے، اگر آپ چاہتے ہیں تو چل کر دیکھ لیں۔ پسند آئے تو ٹھیک، ورنہ کہیں اور ڈھونڈیں گے۔ میں نے کہا، ہاں ہاں ٹھیک ہے، آج ہی چلتے ہیں۔ ابھی دو بجے ہیں، میں مینیجر سے کہہ کر تمہاری بھی آدھے دن کی چھٹی کرا دیتا ہوں، پھر ہم چلتے ہیں۔
میں نے مینیجر سے کہہ کر افضل کے ساتھ گھر دیکھنے نکل پڑا۔ میں نے کمپنی کا سکوٹر لے لیا تھا۔ کچھ دیر بعد ہائی وے پر چلنے کے بعد افضل بولا، صاحب آگے اس کچی سڑک سے اندر چلو۔ کچی سڑک سے کچھ اندر آتے ہی کچھ مکان دکھنے لگے۔ سڑک کنارے ایک دو دکانیں دکھ رہی تھیں۔ پھر افضل بولا، بس صاحب آگے دائیں مڑ کر رُک جاؤ۔ میں رُک کر دیکھا، وہاں چھوٹے چھوٹے مکان تھے، ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر تھے۔ کچھ عورتیں گلیوں میں کھڑی تھیں، سب مجھے ہی گھور رہی تھیں۔ مجھے لگا کہ میں پہلی بار آیا ہوں تو سب دیکھ رہے ہوں گے۔ افضل بولا، صاحب آپ رُکو، میں چابی لے کر آتا ہوں۔ وہ 4-5 مکان چھوڑ کر ایک مکان میں اندر گیا اور کچھ ہی دیر میں چابی لے کر آ گیا۔ ہم جہاں رُکے تھے، اس نے اس کے سامنے ایک مکان کا دروازے کا تالا کھول کر مجھے کہا، آؤ سر دیکھو۔ میں نے دیکھا، دروازہ کھولتے ہی ایک چھوٹا سا آنگن تھا۔ آنگن کے ایک طرف دو چھوٹے چھوٹے باتھ روم تھے اور باتھ روم کے باہر ایک ہینڈ پمپ لگا تھا۔ پھر سامنے دو کمرے تھے، ایک چھوٹا سا اور ایک بڑا سا۔ دونوں کمروں کے درمیان ایک چھوٹی سی کچن تھی۔ کمرے دونوں ہوادار تھے۔ کھڑکی کھولی تو ٹھنڈی ہوا آنے لگی۔ کھڑکی کے سامنے ایک چھوٹی سی نہر تھی، اس لیے ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی۔ میں نے پھر آنگن سے چھت پر جانے والی سیڑھیوں سے چھت پر گیا۔ چاروں طرف ہریالی تھی۔ مجھے گھر بہت پسند آیا، لیکن آس پاس بہت سناٹا سا لگ رہا تھا۔ میں نے افضل سے کہا، گھر تو ٹھیک ہے، لیکن بہت سنا سنا سا ہے۔ اس نے کہا، صاحب یہاں کسی بات کا ڈر نہیں ہے اور یہاں سب مل جل کر رہتے ہیں۔ میرا گھر بس تھوڑا دور ہی ہے۔ میری بیوی اس محلے کی لیڈر ہے۔ آپ لوگوں کو یہاں کوئی پریشانی نہیں ہوگی، آرام سے رہ سکتے ہیں۔
کچھ دیر بعد میں نیتو کو لے آیا۔ اسے گھر دکھایا، اسے بہت پسند آیا۔ جب نیتو کو گھر دکھا رہا تھا، تو آس پاس کے کچھ لوگ اور عورتیں نیتو کو گھور رہے تھے۔ نیتو سکرٹس اور ایک ٹاپ میں تھی، سیکسی لگ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد افضل کی بیوی آئی اور مجھے نماںتے کر کے نیتو کو سمجھانے لگی کہ یہاں سب اچھا ہے وغیرہ۔ میں تھوڑا باہر کا ماحول دیکھنے نکلا، تو دیکھا ایک بوڑھا شرابی گلی کے نکڑ پر ایک عورت سے کچھ بدتمیزی کر رہا تھا اور بوڑھا کہہ رہا تھا، شالی رنڈی، تو دیکھ میں تیرا کیا کرتا ہوں، تجھے ننگا کر کے گھر سے نکال دوں گا۔ مجھے سُن کر بہت برا لگا، تو میں نے کہا، اَے بوڑھے، شرم نہیں آتی ایک عورت کو ایسی گندی بات بولتے ہوئے؟ تو وہ عورت بولی، بھائی صاحب، آپ جاؤ، یہ پی کر روز ایسی ہی کرتا ہے۔ یہ سنتے ہی بوڑھا بولا، شالی، تیرے باپ کا نہیں پیتا، میں اپنی کمائی کا پیتا ہوں۔ پھر میری طرف دیکھ کر، کیا بات ہے بھائی، اس کا گاہک ہے کیا جو اس کی خاطر داری کر رہا ہے؟ میں نے کہا، کیا مطلب، آپ کیا اناپ شناپ بول رہے ہو؟ پھر بوڑھا بولا، ارے بھائی، یہ میری بیوی ہے، لیکن شالی دھندہ کرتی ہے۔ یہاں کی ساری عورتیں رنڈی ہیں۔ پھر تم کیا یہاں شیر کرنے آئے ہو؟ چلو بھاگو یہاں سے، ورنہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ اتنی دیر میں افضل آ گیا، بولا، صاحب چلو، یہ بیک کار آدمی ہے۔ اتنی دیر میں بوڑھا بھڑک گیا اور افضل کو بولا، شالے، تو بہت شریف بن رہا ہے۔ تو اور تیری بیوی، شالے، یہاں کی ساری عورتوں کو رنڈی بنایا ہے، ماد رچو د، اور ہمیں بیک کار آدمی بولتا ہے۔ افضل بولا، صاحب چلو یہاں سے۔ میں چپ چاپ چل پڑا اور کچھ سوچنے لگا۔ اتنی دیر میں نیتو آ گئی اور پوچھنے لگی، کیا ہو رہا تھا، وہ بوڑھا کیوں چلا رہا تھا؟ افضل بولا، ارے چھوڑو، وہ شالا بیبڑا ہے، کچھ بھی بولتا ہے۔ میں نے نیتو سے کہا، چلو چلتے ہیں۔ نیتو بولی، لیکن کیا ہوا؟ گھر مجھے پسند ہے اور افضل جی کی بیوی نے مجھ سے کہا کہ وہ میری پوری دیکھ بھال کرے گی اور میرا خیال رکھے گی۔ میں نے کہا، ہاں ٹھیک ہے، کل اتوار ہے، کل دیکھتے ہیں۔ پھر میں نیتو کو لے کر ہوٹل آ گیا۔
اگلے دن صبح 10 بجے میں نے نیتو سے کہا، چلو پھر گھر کا فائنل کر لیتے ہیں۔ میں نے نیتو سے کہا، سنو، تم وہ بالکل ہاٹ بن کر چلو۔ تمہاری ٹانگیں اتنی خوبصورت ہیں، انہیں چھپاؤ نہیں۔ وہ بلیک والا سکرٹ پہنو، جس سے تمہاری سیکسی ٹانگیں گھٹنوں تک دکھتی ہیں اور ٹائٹ والا کوئی ٹی شرٹ پہن لو۔ آج اس محلے کے لوگوں کا حال دیکھتا ہوں۔ نیتو نے پہلے نہ نہ کی، پھر وہی پہنی جو میں نے اسے کہا تھا۔
ہم کچھ دیر میں وہاں پہنچ گئے۔ افضل کے گھر گئے، وہ نہیں تھا۔ اس کی بیوی نے دیکھتے ہی کہا، آؤ سر جی، ہم تو سمجھے آپ لوگ نہیں آؤ گے۔ چلو، اچھا ہوا آ گئے۔ میں نے پوچھا، افضل جی کہاں گئے؟ تو وہ بولی، بازار گئے ہیں، تھوڑی دیر میں آ جائیں گے۔ کچھ دیر بعد افضل بھی آ گیا۔ ہم نے اسے کچھ پیسے دیے اور کمرے کی چابی لے کر کہا کہ ہم آج سے ہی رہنا چاہتے ہیں۔ میں کچھ ضروری سامان لے آتا ہوں۔ افضل جی، آپ چلو گے میرے ساتھ؟ وہ فوراً بولا، ہاں کیوں نہیں؟ میں نے کہا، نیتو، تم افضل جی کی بیوی کے ساتھ گھر کی صفائی کر لو۔ گھر میں ایک پلنگ تو ہے ہی، گدھا اور باقی سب لے آتا ہوں۔
گھر کا سب سامان سیٹ ہو چکا تھا۔ اس دن رات ہم نے ہوٹل میں کھانا کھا لیا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے ہم رات کو جلدی ہی سو گئے۔ صبح 9 بجے میں اور افضل آفس کے لیے چلے گئے۔
اگلے دن میں کام پر نہیں گیا۔ آفس جانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ میں نے افضل سے کہہ دیا کہ مینیجر سے کہہ دینا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس لیے نہیں آ سکا۔
دوپہر کو میں گھر کے باہر نکل کر یوں ہی ٹہل رہا تھا تو دیکھا کہ افضل کے گھر میں دو لوگ آئے۔ دونوں کی عمر 60 سال سے زیادہ ہی ہوگی اور اندر چلے گئے۔ کچھ دیر بعد ربیعہ نکلی اور کہیں جانے لگی۔ تو میں اس کے پیچھے چپکے چپکے چلنے لگا۔ دیکھا کہ ربیعہ ایک گھر پر گئی اور کچھ دیر بعد ایک 35-36 سال کی عورت اس کے ساتھ ربیعہ کے ساتھ نکلی اور ربیعہ اسے اپنے ساتھ اپنے گھر پر لے آئی۔ کافی دیر تک کوئی نہیں نکلا تو میں افضل کے گھر کے پیچھے گیا۔ پیچھے چھوٹے چھوٹے جھاڑ تھے، اس طرف اور کوئی گھر نہیں تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک کھڑکی کھلی ہے۔ میں کھڑکی کے پاس جا کر سننے لگا کہ اندر کیا بات ہو رہی ہے۔ اندر سے ربیعہ کی آواز سنائی دی، وہ کسی سے بول رہی تھی... ارے بھائی، آپ اس کے ساتھ اس کے گھر چلے جاؤ، یہ ابھی اکیلی ہی ہے اور راجو بھائی کے لیے میں کوئی اور بندوبست کر دیتی ہوں۔ یہاں رنڈیوں کی کمی تو ہے نہیں نہ؟ اتنی دیر میں ایک آدمی کی آواز آئی، ربیعہ بیگم، کچھ نیا منگاؤ نہ، میں تو یہاں کی ساری رنڈیوں سے مزے لے چکا ہوں، اب ان سے بور ہو گیا ہوں۔ میں کب سے تمہارے پاس آتا ہوں، لیکن تم میرا ٹھیک سے دھیان ہی نہیں رکھتی ہو۔ تبھی ربیعہ بولی، اَے پونم، جا، عزو بھائی کو لے جا اور ٹھیک سے ان کی خدمت کرنا اور بعد میں آ کر مجھ سے اپنی قیمت لے جانا۔ تو دوسری عورت کی آواز آئی، میں تو آپ کے سارے مہمانوں کا پورا خیال رکھتی ہوں، آپ فکر نہ کریں۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ وہ عورت ایک آدمی کے ساتھ نکلی اور اپنے گھر کی طرف چلی گئی۔ میں پھر سے کھڑکی کے پاس آ گیا اور سننے لگا۔
ربیعہ بولی، آپ بیٹھو، میں آپ کے لیے بندوبست کرتی ہوں۔ تو وہ آدمی بولا، اس بار کوئی نیا مال لاؤ نہ۔ ربیعہ بولی، ارے راجو بھائی، کچھ دن انتظار کرو، پھر دیکھنا، میں نے آپ کے لیے ایک مست مچھلی کو پھانس لیا ہے۔ بس کچھ دن سَور کرو، پھر دیکھنا، ایک دن وہ آپ کے بستر پر ہوگی۔ لیکن ابھی نہیں، کچھ دن لگیں گے اسے اس دھندے میں آنے میں۔ وہ آدمی بولا، کون ہے اور کہاں رہتی ہے؟ کیسی مال ہے؟ ربیعہ بولی، اسی محلے میں ابھی ابھی رہنے آئی ہے اور مست چیز ہے۔ سالی بہت خوبصورت اور سیکسی ہے۔ اچھے بھاؤ میں بکے گی۔ بس سالی ایک بار مان جائے، پھر اس سے میں زبردست دھندہ کرواؤں گی اور سب سے پہلے اسے آپ کے ساتھ ہی سلاؤں گی۔ بس راجو بھائی، تھوڑا انتظار کرو۔ تبھی وہ آدمی بولا، ارے ربیعہ بیگم، اب تو مجھے وہی چاہیے۔ آج ہی بلاو نہ اس رنڈی کو، کیوں تڑپا رہے ہو مجھے؟ ربیعہ، ارے نہیں نہیں، آج تو بالکل نہیں ہو سکتا۔ آج تو اس کا پتی بھی گھر پر ہے۔ ایک دو دن رکنا ہوگا آپ کو۔ فی الحال آج کسی اور سے کام چلاو۔ میں چائے بنا کر دیتی ہوں، آپ چائے پیو، تب تک میں کوئی اور لے آتی ہوں۔
میں یہ سب سُن کر سمجھ گیا کہ یہ لوگ نیتو کی ہی بات کر رہے تھے۔ لیکن مجھے پتا نہیں کیوں غصہ نہیں آ رہا تھا، بلکہ ایک عجیب سا مزا آ رہا تھا یہ سوچ کر کہ کیا میری بیوی بھی اب یہاں کی رنڈی کہلائے گی۔ میں کچھ سوچ کر گھر کی طرف چلنے لگا اور کچھ سوچنے لگا۔
نیتو نے بہت دیر نہ نہ کرنے کے بعد مان لیا اور جانے لگی۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔ پتا نہیں کیا ہونے والا ہے۔ نیتو جیسے ہی کچھ دور گئی، میں نے دروازے میں تالا لگایا اور پھر سے افضل کے گھر کے پیچھے اس کھڑکی پر پہنچ گیا۔ اس کھڑکی سے سب سنائی دیتا تھا۔ چھوٹا سا گھر تھا۔
نیتو کو کسی طرح میں نے منایا۔ نیتو کسی طرح مان گئی اور جانے لگی۔ تو میں نے کہا، سُن، تو اپنی پینٹی اتار دے۔ صرف سکرٹ میں جا، وہاں تو سب اتارنے ہی ہوں گے۔ میں نے خود اس کے سکرٹ کے اندر ہاتھ ڈال کر پینٹی نیچے کر دی۔ نیتو بالکل چپ تھی۔ پھر وہ آہستہ آہستہ جانے لگی۔ نیتو کے جاتے ہی میں نے دروازے کو لاک کیا اور افضل کے گھر کے پچھواڑے میں پہنچ گیا۔ کھڑکی آدھی کھلی تھی۔ باہر سے جھانکنے پر اندر سب دکھتا تھا اور اندر سے بہت جھاڑ اور پیڑ ہونے کی وجہ سے صاف نہیں دکھتا تھا۔ میں نے سوچا، آج اپنی بیوی کی چدائی دیکھنے کا صحیح موقع ملا ہے۔
بوڑھا نیتو کو اپنی جھانگ میں بٹھا کر اس کی دونوں چھاتیوں کو دباتے ہوئے بولا، آج سے تو میری رکھیل ہے۔ تجھے ہر طرح سے میں استعمال کروں گا۔ بول رنڈی، کیا کہتی ہے؟ نیتو آہستہ سے بولی، جی، آپ جیسے کہو، کروں گی۔ پھر بوڑھا بولا، کل تجھے میں ایک دوست کے گھر لے جاؤں گا۔ وہاں تجھے ہم چار آدمی مل کر ایک ساتھ چودیں گے۔ بول، چدوائے گی نہ؟ نیتو، چار چار نہیں، پلیز۔ مجھے اس کی عادت نہیں ہے۔ تبھی بوڑھا بولا، تو اب ایک رنڈی ہے۔ تجھے سب سیکھنا پڑے گا اور ہم تجھے سب سکھائیں گے۔ اور تیرے سے زبردست دھندہ کرواؤں گا۔ تو اب بازارو رنڈی ہے۔ چل، ابھی پہلے میرے لنڈ کو چاٹ اور اسے کڑا کر۔ نیتو گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کی لنگی اٹھا کر لنڈ چاٹنے لگی۔ کافی دیر چاٹنے سے اس کے منہ میں جھاگ بھر گیا تھا۔ مجھے یہ سب دیکھ کر میرا لنڈ بھی کھڑا ہو گیا۔
پھر بوڑھا بولا، چل شالی، کھڑی ہو جا۔ نیتو جیسے کھڑی ہوئی تو بوڑھا بولا، منہ کا جھاگ نگل جا، اس سے تجھے اور مزا آئے گا۔ نیتو نے نگل لیا۔ پھر بوڑھا بولا، آ جا راند، پہلے تیری گانڈ ماروں گا، پھر تیری چدائی کروں گا۔ نیتو کو بولا، چل شالی، کتیا بن جا۔ نیتو کتیا بن کر اپنی گانڈ بوڑھے کی طرف کر دی۔ بوڑھے کا موٹا سا کالا لنڈ دیکھ کر میں بھی چونک گیا اور سوچنے لگا کہ آج تو نیتو کی چت یہ پھاڑ ڈالے گا۔
اس نے نیتو کی کمر پکڑ کر اپنے لنڈ کو نیتو کی گانڈ میں گھسانے لگا۔ نیتو کی سسکنے کی آواز آ رہی تھی۔ وہ بول رہی تھی، پلیز، آہستہ کرو۔ تو بوڑھا بولا، ماد رچو د راند، تھوڑا برداشت کر۔ اب سب تیری گانڈ بھی ماریں گے۔ اور تجھے تو میں اس بازار کی دو کوڑی کی راند بناؤں گا۔ تجھے ننگا گھماؤں گا، شالی۔ بوڑھا بولے جا رہا تھا اور اب زور زور سے نیتو کی گانڈ میں اپنا لنڈ دھکا دے رہا تھا۔ نیتو بس آہ ہُو کیے جا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد بوڑھا رُک گیا اور نیتو کے گانڈ میں تھوڑا پانی نکال دیا۔ پھر بولا، اَے رنڈی، جلدی سے لنڈ کو اپنے منہ میں لے اور جو میرے لنڈ کا پانی ہے، سب چاٹ کر صاف کر، پھر تیری چت پھاڑتا ہوں۔ نیتو اٹھی اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔ بوڑھا لیٹ گیا تھا۔ اس کے لنڈ سے سفید سفید پانی نکل رہا تھا۔ نیتو نے اس کے لنڈ کو ہاتھ سے پکڑ کر کہا، اسے چاٹنا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ میں نہیں چاٹوں گی۔ تبھی بوڑھا بھڑکتے ہوئے بولا، ماد رچو د دو کوڑی کی راند، تیری اتنی اوقات کہ تو مجھے منع کرے گی؟ چل کتیا، چاٹ اسے، ورنہ تجھے ننگا کر کے اس محلے میں ابھی گھماؤں گا۔ تجھے سب کا لنڈ چاٹ کر صاف کرنا ہے۔ آگے دیکھ تیرے ساتھ میں کیا کیا کرتا ہوں۔ تو اب ایک راند ہے اور اپنے گاہک کو ہر طرح سے خوش کرتی ہے۔