میں 25 سال کا لڑکا ہوں اور جم فٹ ہوں۔ میرا قد لمبا ہے اور میرا لنڈ 8.5 انچ کا ہے اور کافی موٹا بھی ہے۔
میں ہمیشہ سے بہت ہورنی تھا اور میں نے بہت سی عورتوں کو چودا۔ میرا رنڈیوں کا کاروبار ہے، لیکن یہ سب میں نے اپنی بہن، خالہ اور ممانی سے شروع کیا۔
یہ سب 4 سال پہلے شروع ہوا تھا۔ مجھے ہمیشہ سے ہی چدائی کا شوق تھا۔ لیکن نارمل چدائی میں مجھے مزہ نہیں آتا تھا۔ میں لڑکیوں کو رنڈیوں کی طرح چودتا تھا اور ان کو انسان ہی نہیں سمجھتا تھا۔ میری رف چدائی کی وجہ سے، کافی لڑکیاں مجھ سے دوری بنا کر ہی رکھتی تھیں۔
اسی وجہ سے میری کوئی بھی گرل فرینڈ 2-3 مہینے سے زیادہ میرے ساتھ نہیں رکتی تھی۔ اس سے میری چدائی برداشت ہی نہیں ہوتی تھی۔ میری اپنی خالہ عائشہ پہ ہمیشہ سے ہی نظر تھی۔ تھی تو وہ بہت سیکسی۔ کافی سلم تھی وہ، لیکن بوبس اور گانڈ اس کے بڑے تھے۔
34″26″32″ کا فگر تھا اس کا۔ میں عائشہ کے نام کی اکثر موتھ مارا کرتا تھا۔ میری ہمیشہ سے خواہش تھی، کہ اس کو چودوں اور دوسروں سے بھی چدواؤں۔ مجھے لڑکیوں کو ہیوملیٹ کرنے میں بہت مزہ آتا تھا۔
اب ہوا یہ، کہ عائشہ کی شادی ہو رہی تھی۔ مجھے عائشہ کو اس کی شادی سے پہلے کسی بھی حال میں چودنا ہی تھا۔ لیکن شادی کی مصروفیت میں کچھ کرنے کو نہیں ملا۔ شادی کے دن مجھے پتہ تھا، کہ آج عائشہ کی سیل کھلنی تھی۔
میں نے ایک لیٹر پر لکھ دیا، کہ شادی کی رات آنکھوں پہ پٹی باندھ کر رکھنا۔ پھر وہ لیٹر عائشہ کو دے دیا اور بولا، کہ اس کے ہسبینڈ نے دی تھی۔ اس نے لیٹر پڑھی اور شرما گئی۔ اس کو یہ نہیں پتہ تھا، کہ میں نے کیا پلان کیا تھا۔
شادی کی رات سے پہلے میں نے اس کے ہسبینڈ کو جوس دیا اور اس میں بہت ساری نیند کی گولیاں ڈال دی تھیں۔ اس کے ہسبینڈ کو نیند کی گولیوں کا اثر ہونے لگا تھا اور شادی کا فنکشن بھی ختم ہونے لگا تھا۔ عائشہ کو پہلے ہی روم میں بھیج دیا گیا تھا، جہاں وہ آنکھوں پہ کپڑے باندھ کر لیٹی ہوئی تھی۔
میری ذمہ داری تھی، کہ اس کے ہسبینڈ کو روم تک لے جاؤں۔ کیونکہ شادی ہوٹل میں تھی اور ٹاپ فلور پہ ان کا روم تھا۔
لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ میں اس کو اپنے روم میں لے گیا اور تب تک اس کو وہیں بٹھایا، جب تک کہ وہ سو نہیں گیا۔
پھر میں اس کو ٹاپ فلور پہ لے گیا اور روم کھول کر اندر لے گیا۔ جیسا میں نے چاہا تھا، ویسا ہی ہوا۔ عائشہ شادی کی ڈریس میں بیٹھی تھی اور اس کی آنکھوں پر کپڑا بندھا ہوا تھا۔ وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔ اس کو تو یہی لگا تھا، کہ اس کا ہسبینڈ روم میں آیا تھا۔
میں نے اس کے ہسبینڈ کو چیئر پہ بٹھا دیا اور روم لاک کر دیا۔ پھر میں عائشہ کے پاس بیڈ پہ گیا اور اس کے ہونٹوں پہ کس کیا. تبھی عائشہ بول پڑی-
عائشہ: آنکھوں سے پٹی اتاروں؟
لیکن میں نے اس کے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کے “شش” بولا۔ میں بول نہیں سکتا تھا، ورنہ پکڑا جاتا۔ پھر میں نے اس کا دوپٹہ نکالا اور اس کے ہاتھ بیڈ سے باندھ دیے۔ اب باری تھی اس کے مزے لینے کی۔
میں نے پہلے تو اپنے کپڑے اتارے۔ پھر میں نے عائشہ کے کپڑے اتار دیے۔ اب عائشہ میرے سامنے بالکل ننگی لیٹی ہوئی تھی۔ وہ یہی سمجھ رہی تھی، کہ اس کا ہسبینڈ یہ سب کر رہا تھا۔ اس کو اس میں مزہ بھی آ رہا تھا، کیونکہ اس کی چوت گیلی ہو رہی تھی۔
اس کا جسم کمال کا تھا اور میرا تو لنڈ اس کا جسم دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے عائشہ کی ٹانگیں کھولی اور اپنے ہونٹ اس کی چوت پہ رکھے. اس کے جسم میں تو جیسے کرنٹ دوڑنے لگا۔ میں نے جب چوت چاٹنا شروع کیا، تو وہ پاگل ہو رہی تھی۔
وہ “مم” “آہ” کی آوازیں نکال رہی تھی۔ میں نے اس کے جسم کو کس کرکے پورے مزے لیے۔ اب وہ اصل چدائی کے لیے ریڈی تھی۔ میں نے اس کی چوت پہ اپنا لنڈ سیٹ کیا اور ایک ہاتھ اس کے منہ پہ رکھ دیا۔ میں پیار سے تو چودنے والا تھا نہیں۔ پھر میں نے ایک زوردار جھٹکا مارا اور میرا آدھا لنڈ اس کی ورجن چوت کو پھاڑتے ہوئے اندر گھس گیا۔
اس کو درد ہو رہا تھا اور جسم کانپ رہا تھا۔ لیکن وہ چلا نہیں پا رہی تھی۔ میں نے پھر دوسرا جھٹکا مارا اور پورا لنڈ اندر گھسا دیا۔ جب میں نے لنڈ نکالا تو میرا لنڈ پورا خون سے لال ہو گیا تھا۔
مجھے اس سب میں مزہ آ رہا تھا اور عائشہ تو درد سے بے حال ہو گئی تھی۔ میں نے واپس ایک ہی جھٹکے میں لنڈ پورا گھسا دیا اور پھر سے نکالا اور پھر ایک جھٹکے میں ڈال دیا۔ 5-6 بار ایسا کرنے کے بعد، میں نے اس کی سپیڈ سے چدائی شروع کر دی۔
میں دوسرے ہاتھ سے اس کے بوبس اور گانڈ کو تھپڑ مار رہا تھا۔ میں نے مار مار کر اس کے جسم کو لال کر دیا تھا۔ عائشہ قریب 20 منٹ کی چدائی میں درد سے پاگل ہو رہی تھی۔ لیکن اب اس کا درد کم ہونے لگا تھا، کیونکہ مجھے فیل ہوا، کہ اس کی چوت واپس سے گیلی ہو رہی تھی۔
اب اس کو بھی مزہ آ رہا تھا۔ میں بھی اس کو بڑی بے دردی سے چود رہا تھا۔ میں اس کو ایک ہول سے زیادہ کچھ سمجھ ہی نہیں رہا تھا۔ اس کو چودتے چودتے 40 منٹ ہو گئے تھے اور تب مجھے محسوس ہوا، کہ اب وہ موآن کر رہی تھی۔
میں نے اپنا ہاتھ ہٹایا، تو پہلے اس نے مجھے گالیاں دی، کہ پہلی باری میں اتنا رف کون چودتا ہے۔ لیکن میں نے کچھ نہیں بولا اور چدائی کنٹینیو رکھی۔ وہ اب موآن کر رہی تھی اور جب میں نے سپیڈ سے چودنا شروع کیا، تو وہ کہنے لگی-
عائشہ: آئی ایم کمنگ آہ۔۔
یہ سن کر میں نے سپیڈ اور تیز کی اور کچھ سیکنڈ میں ہی وہ فارغ ہو گئی۔
عائشہ تیز تیز سانسیں لے رہی تھی اور اس کو بہت ہی مزہ آیا۔ لیکن میں ابھی فارغ ہونے سے بہت دور تھا۔ وہ کہہ بھی رہی تھی، کہ میں اس کے ہاتھ کھول دوں اور اس کو درد ہو رہا تھا۔
لیکن میں نے اس کی ایک نہ سنی۔ میرا اب دل چاہ رہا تھا، کہ اس کی گانڈ بھی ماروں۔ میں نے اس کی گانڈ کے نیچے پلو رکھا اور ٹانگیں کھول کر اس کی گانڈ پر لنڈ سیٹ کیا۔ پھر میں نے زور دے کے اپنا ٹوپا اندر گھسایا، تو وہ چلا پڑی-
عائشہ: ارے یہ کہاں گھسا دیا حرام زادے۔
میں نے اس کو کس کیا اور لنڈ کو گھساتا چلا گیا۔ وہ درد سے بہت اچھل رہی تھی، لیکن میری پکڑ مضبوط تھی۔ میں بھی اس کے درد کا احساس کیے بغیر پورا لنڈ گھساتا گیا۔ بہت ٹائٹ گانڈ تھی اس کی اور میں نے بہت زور لگا کر پورا لنڈ گھسا دیا۔
میں نے اپنے ہونٹ ہٹائے، تو وہ رو رہی تھی درد سے۔ میں نے اس کو تھپڑ مارا اور منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ اب واپس سے میں نے اس کو چودنا شروع کر دیا۔ اس کی گانڈ بہت ٹائٹ تھی اور وہ ڈھیلی بھی نہیں کر رہی تھی۔ لیکن مجھے کیا پرواہ تھی اس کے درد کی۔
میں تو اس کو رنڈی بنانا چاہتا تھا ویسے بھی۔ میں نے اس کو 30 منٹ گانڈ میں چودا اور پھر میرا ٹائم بھی پورا ہو رہا تھا۔ میں آخر کار اس کی گانڈ میں ہی فارغ ہو گیا۔
لیکن یہ اینڈ نہیں تھا۔ میرا اس کو صبح تک چودنے کا پلان تھا۔ پہلی چدائی کے بعد، میں نے 15 منٹ کا ریسٹ لیا۔ عائشہ کو مزہ تو آیا تھا، لیکن اب وہ اتنا تھک چکی تھی، کہ زندہ لاش کی طرح پڑی تھی۔ 15 منٹ بعد میں نے اس کو پھر سے چودنا شروع کیا اور دونوں چھید کے مزے لیے۔
عائشہ کا درد بھی ختم ہو گیا تھا اور اب وہ مزے سے چدوا رہی تھی۔ اس کو تو شاید ابھی تک پتہ نہیں ہوگا، کہ اس کو اس کا ہسبینڈ نہیں چود رہا تھا۔ دوسری چدائی کے دوران میں نے عائشہ کو 3 بار فارغ کیا۔
جب وہ 4th ٹائم فارغ ہونے والی تھی، تو میں نے سوچا، کہ اب ٹائم صحیح ہے اس کو دکھانے کے لیے، کہ اس کو اتنا مزہ کون دے رہا تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں سے کپڑا ہٹایا اور جیسے اس نے دیکھا، کہ اس کو اس کا ہسبینڈ نہیں، بلکہ اس کا بھانجہ چود رہا تھا، تو اس کے ہوش ہی اڑ گئے۔
اس نے سائیڈ پہ دیکھا، تو اس کا ہسبینڈ صوفہ پہ بے ہوش پڑا تھا۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتی، تو میں اس کو کس کرنے لگا اور چدائی کی سپیڈ تیز کر دی۔ اس کے جسم نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور چدائی کے مزے میں وہ فارغ ہو گئی۔ میں فارغ ہونے والا تھا، تو میں نے لنڈ اس کی چوت سے نکال کر گانڈ میں ڈال دیا اور وہیں اپنا مال نکالا دیا۔
میں نے جب کس ختم کی، تو وہ کافی کچھ بولنے لگی، کہ یہ میں کیا کر رہا تھا وغیرہ۔۔۔ وغیرہ۔ وہ مجھے دھمکانے بھی لگی۔ میں نے ہنس کر اس کو فون پہ اس کی چدائی دکھائی۔ ایکچوئلی میں نے پوری چدائی ریکارڈ کر لی تھی۔ پھر میں نے اس کو تھپڑ مارا اور بولا-
میں: دیکھ اتنے مزے سے چود رہی ہے۔ کون یقین کرے گا، کہ میں نے تیرے ساتھ دھوکے سے چدائی کی ہے۔
وہ ڈر گئی اور مجھ سے منتیں کرنے لگی، کہ میں ویڈیو ڈیلیٹ کر دوں۔ میں نے اس کے ہاتھ کھول دیے اور اس کو آرڈر دیا-
میں: چل اب، آ کے میرا لنڈ چوس۔ پھر میں ویڈیو ڈیلیٹ کر دوں گا۔
پہلے 5 منٹ تک وہ سوچنے لگی۔ لیکن پھر میرے پاس آئی اور میرا لنڈ چوسنے لگی۔ آگے تو آپ کو پتہ ہے، کہ میں نے اس کی پھر سے چدائی کی۔ اس کا جسم بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا اور وہ چدائی کے مزے کو اگنور نہیں کر پا رہی تھی۔ پھر اس کو میں اس کے ہسبینڈ کے پاس لے گیا اور اس کو بولا-
میں: چل چوس اب اپنے میاں کا لنڈ۔
اس نے اپنے ہسبینڈ کا لنڈ نکالا، تو وہ بہت چھوٹا تھا۔ اس کی شکل پہ لکھا تھا، کہ وہ لنڈ دیکھ کر مایوس ہوئی تھی۔ پھر میں نے اس کی چدائی اس کے ہسبینڈ کے سامنے کی اور اس سے اس کے ہسبینڈ کا لنڈ بھی چسوایا۔
اس کی چوت پہلے سے زیادہ گیلی ہو رہی تھی اس سب میں اور میں یہ سمجھ گیا تھا، کہ اس سب میں وہ بھی انجوائے کر رہی تھی۔ میں نے اس کو 4 بار چودا اور وہ بھی گھنٹوں تک۔ آخری چدائی کے بعد تو جیسے اس نے مجھے اپنا ہسبینڈ قبول کر لیا ہو، کیونکہ وہ اب مجھے اور چودنے کا بول رہی تھی۔
میں نے اس کو بالوں سے پکڑا اور اس کو سمجھایا، کہ آج سے وہ میری رنڈی تھی اور اس نے بھی یہ ایکسیپٹ کر لیا تھا۔ اس دن کے بعد عائشہ کو میں نے بہت چودا اور چود چود کر سیکس کا بھوکا بنا دیا۔
اب جب وہ پوری رنڈی بن چکی تھی، تو پھر میں نے اس کو دوسروں سے چدوانا شروع کیا۔ اس کی آئیڈنٹٹی چھپانے کے لیے، میں اس کو ماسک پہنا دیتا تھا۔ پھر میں اپنے دوستوں کو بلا کر اس کا گینگ بینگ کرواتا تھا۔
اس کے جسم کی ڈیمانڈ اتنی ہو گئی تھی، کہ کافی لوگ تو پیسے دینے شروع ہو گئے۔ اور پھر میں نے پیسے لے کے اس کو چدوانا شروع کر دیا۔ اس کو بھی اپنے ہسبینڈ کے چھوٹے لنڈ سے مزہ نہیں آتا تھا۔ اس لیے وہ میرے پاس آتی تھی اور میں اس سے خوش کرتا تھا۔