دوستو، میرا نام امجد ہے اور میں اس وقت 20 سال کا ہوں۔ میں لو اسٹوری فورم پر کہانیاں پڑھتا ہوں، پورن بھی دیکھتا ہوں اور اپنی بڑی بھابی کی چدائی بھی کرتا ہوں۔
اب مردوں کے لن تو یہ پڑھ کر ہی کھڑے ہو گئے ہوں گے، سوچنے لگے ہوں گے کہ میری بھابی دیکھنے میں کیسی ہے، کیسے میں نے اسے پٹایا اور کیسے چودا۔
اور بھابیوں کی چوت میں بھی سرسراہٹ ہوئی ہو گی کہ ہائے… اپنے چھوٹے دیور سے چدواتی ہے، کیسا مزا آتا ہو گا۔
فکر نہ کریں، میں ابھی آپ سب کو اپنی ساری کہانی کھول کر سنا دیتا ہوں۔
بات یوں ہے کہ ہمارے گھر میں ہم صرف چار لوگ تھے، ماں، باپ اور ہم دو بھائی۔ مگر ہم دونوں بھائیوں میں عمر کا 12 سال کا فرق تھا۔ بڑے بھائی سے میں بہت ڈرتا تھا۔
میں بہت چھوٹا تھا جب میرے ماں اور باپ انتقال کر گئے۔ اس کے بعد میرے بڑے بھائی نے ہی مجھے پال پوس کر بڑا کیا، مجھے پڑھایا لکھایا بھی۔
بھائی تب 22 سال کے تھے جب انہوں نے شادی کی۔ ہمارے گھر میں انعم، ان کی بیوی، میری بڑی بھابی بن کر آئی۔
شروع سے ہی بھابی نے مجھے اپنے بچوں کی طرح پیار دیا۔ شادی کے پانچ چھ سال تک سب کچھ ٹھیک چلا، مگر نہ جانے کیوں بھابی کے کبھی اولاد نہ ہوئی۔ مطلب وہ حاملہ تو ہوتی تھی، مگر ہر بار ان کا اسقاط حمل ہو جاتا۔
وہ بہت روتی اور بلکتی تھیں۔ مگر خدا کو نہ جانے کیا منظور تھا۔
میں اپنے بڑے بھائی کو بابوجی اور بھابی کو بھابی ماں کہتا تھا۔ دونوں مجھے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتے تھے اور میں بھی دونوں کو اپنے ماں باپ کی طرح عزت دیتا ہوں، آج بھی۔
مگر کبھی کبھی قسمت آپ کے لیے بہت سخت امتحان لے کر آتی ہے۔
شادی کے چھ سال بعد ہی بھائی کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا۔ میں اور بھابی تو بری طرح ٹوٹ گئے۔
خیر، بھائی ایک سرکاری محکمے میں کام کرتے تھے، تو بھائی کی جگہ بھابی کو نوکری کی پیشکش ہوئی، تو بھابی نے لے لی۔
اب ہمارے گھر صرف ہم دونوں رہ گئے تھے۔ پہلے میں بھابی ماں کہتا تھا، مگر جب سے بھائی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، اس کے بعد میں نے بھابی ماں کو صرف ماں کہنا شروع کر دیا کیونکہ وہ مجھے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتی تھیں۔ کبھی کبھی غلطی کرنے پر ڈانٹ بھی دیتی تھیں، مارتی بھی تھیں۔
مگر میں اپنی بھابی ماں کی اتنی عزت کرتا ہوں، ان سے اتنا پیار کرتا ہوں کہ میں نے کبھی ان کی مار یا ڈانٹ کا برا نہیں مانا۔
ہم دونوں ماں بیٹے کی زندگی بڑے اچھے سے چل رہی تھی۔
البتہ کبھی کبھی میرے سکول کے دوست مجھے مذاق میں چھیڑ دیتے تھے کہ تیری بھابی تو بڑی سیکسی ہے، یا بھابی کے ساتھ کیا کیا کرتا ہے۔ مگر میں نے ان کی باتوں کو ہمیشہ سختی سے کاٹ دیا، تو کچھ وقت بعد میرے دوست بھی سمجھ گئے کہ وہ میری بھابی نہیں، ماں ہیں۔
مگر ان دوستوں کے ساتھ مجھے بلیو فلم دیکھنے اور ہاتھ سے مٹھ مارنے کی عادت پڑ گئی۔
بیشک میں نے بہت سی عورتوں اور لڑکیوں کے بارے میں سوچ کر مٹھی ماری تھی، مگر میری سوچ میں میری بھابی ماں کبھی نہیں آئیں۔ میں ان کی اتنی عزت کرتا تھا کہ کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ بھابی ماں بھی ہیں تو ایک عورت ہی۔
پھر ایک دن میری زندگی میں بہت بڑی اٹھا پٹک ہو گئی۔
ہوا یوں کہ میرے ایک دوست نے مجھے ایک سیکسی کتاب دی، جس میں انگریز اور سیاہ فام لڑکے لڑکیاں گروپ میں ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کر رہے تھے۔ اس میں بہت سی تصاویر تھیں، کسی میں کوئی لڑکی لن چوس رہی ہے، کوئی چد رہی ہے۔ کوئی لڑکا کسی لڑکی کے ممے چوس رہا ہے، کوئی چوت مار رہا ہے، کوئی گانڈ مار رہا ہے۔
میں اس کتاب کو اپنے گھر کے اوپر بنے کمرے میں لے گیا، اور اکیلا وہاں بیٹھ کر اس کتاب کو دیکھنے لگا۔ دیکھتے دیکھتے میرا تو لن تن گیا اور میں نے اپنا برمودا اور چڈی نیچے کھسکائی اور لن نکال کر ہاتھ سے مٹھی مارنے لگا۔
بھابی نیچے دوپہر کا کھانا بنا رہی تھیں۔
ایک کے بعد ایک شاندار اور سیکسی تصاویر آ رہی تھیں۔ میرا دل بہت بے تاب تھا، میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ایسی ہی کوئی لڑکی یا عورت میرے پاس آ جائے جسے میں چود کر اپنی کام واسنا کی تکمیل کر لوں۔
مگر عورت مجھے کہاں ملتی! اس لیے اپنے ہاتھ سے مٹھی مارنا ہی میرا واحد سہارا تھا۔ 18 سال کا لونڈا، ساڑھے 6 انچ کا کڑک لن۔ مٹھی مار کر اپنے لن کی چمڑی کے ٹانکے تو میں نے پہلے ہی توڑ دیے تھے۔
کبھی اس کتاب میں ننگی تصاویر کو دیکھتا، تو کبھی آنکھیں بند کر کے ان لڑکیوں سے سیکس کرنے کے خواب دیکھتا۔
دین دنیا سے بے خبر میں اپنے آپ میں ہی مست ہوا مٹھی مارنے کے مزے لے رہا تھا کہ اچانک سامنے سے آواز آئی: امجد، یہ کیا کر رہا ہے؟
میں ایک دم سے ڈر کے کانپ گیا۔
دیکھا تو سامنے بھابی ماں کھڑی تھیں۔
میرے تو ہوش اڑ گئے، کیا کروں کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔
اتنے میں بھابی ماں چل کر میرے پاس آئیں اور میرے ہاتھ سے وہ کتاب چھین لی: یہ کہاں سے لایا؟
انہوں نے پوچھا۔
میں چپ۔
انہوں نے کتاب کے ایک دو صفحے پلٹ کر دیکھے۔
میں نے آہستہ سے اپنا تنا ہوا لن چھپانے کے لیے اپنا برمودا اور چڈی اوپر کو کھینچی تو بھابی نے کتاب پھینک کر جھٹ سے میرا برمودا میری کمر سے پکڑ لیا۔
پھر بھابی بولیں: اب کیا چھپا رہا ہے، اب شرم آ رہی ہے، اور یہ گندی چیزیں دیکھتے ہوئے شرم نہیں آئی؟ اپنے ہاتھوں سے اپنے جسم کا ناش کرتے ہوئے شرم نہیں آئی؟ میرے بچے، یہ سب کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے آدمی کی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔ کل کو تیری شادی ہو گی تو کمزوری کی وجہ سے بیوی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا۔ تجھے ایسی گندی عادت کس نے لگائی؟ کون ہے وہ حرام زادہ، اسے تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔
میں نے اپنا برمودا تھوڑا اوپر کو سرکانا چاہا تو بھابی ماں نے پھر سے بڑی مضبوطی سے مجھے روک دیا۔
"کیا اوپر کو کھینچ رہا ہے، اتنی دیر سے میں سامنے کھڑی دیکھ رہی تھی، تب تو نہیں چھپایا، اب چھپا رہا ہے۔ بہت شرمیلا بن رہا ہے، ہٹ، چھوڑ ہاتھ!" کہتے ہوئے بھابی ماں نے میرا برمودا اور چڈی پھر سے نیچے تک سرکا دیا۔
میرا آدھا کھڑا سا لن ان کے سامنے تھا۔ بھابی ماں نے بڑی حسرت سے میرے لن کو دیکھا اور پھر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا: کتنے سال بعد دیکھنے کو ملا۔
اور یہ کہتے کہتے انہوں نے میرے لن کا ٹوپا اپنے منہ میں لے لیا۔
میں ایک دم سے دور چھٹکا: بھابی ماں، یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟
وہ اٹھ کر کھڑی ہوئیں، اور میرے پاس آ کر بولیں: اچھا، تو گندی کتاب دیکھ کر ہاتھ سے کرے تو ٹھیک اور میں اگر کچھ کرنا چاہوں تو غلط؟
میں نے کہا: بھابی ماں، یہ سب گندی عورتیں ہیں، ان کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا۔ آپ کو میں نے ہمیشہ اپنی ماں مانا ہے، میں اپنی ماں کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا۔
بھابی بولیں: اچھا، تو نہیں کر سکتا، اور اگر تیری بھابی ماں کل کو کسی غیر مرد کے ساتھ ایسا کرتی ہے تو تب تو کیا کہے گا؟
میں نے کہا: آپ ایسا کیوں کریں گی؟
وہ بولیں: کیوں… میں کیا انسان نہیں ہوں، میرا دل نہیں، مجھے اس سب کی خواہش نہیں ہوتی؟ اور تو میرے گھر کا ہے۔ میرے شوہر کے خاندان کا، ان کا ہی خون تیری رگوں میں بھی دوڑتا ہے۔ تو میں تجھ میں ہی تو اپنے شوہر کو دیکھتی ہوں۔ پھر تیرے ساتھ یہ سب غلط کیسے ہے؟
میں نے کہا: نہیں، میں اسے صحیح نہیں مانتا، جو غلط ہے سو غلط ہے۔
بھابی بولیں: تو ٹھیک ہے، میں تجھے یہ سب کرتے دیکھ چکی ہوں، اور میرا بھی دل چاہ رہا ہے، تو کل کو اگر میں کسی اور کے ساتھ یہ سب کرنے لگوں تو برا مت ماننا۔
میں طیش میں آ گیا: آپ ایسا کچھ نہیں کریں گی، آپ ہمارے گھر کی عزت کو اس طرح سے نہیں لٹا سکتیں۔
وہ بولیں: اب جب گھر والے ہی اپنے گھر کی عزت کو نہیں سنبھال سکتے، تو کوئی نہ کوئی تو باہر والا لوٹ ہی لے گا۔
الجھن میں پھنس گیا میں تو! بھابی ماں تو دل بنا چکی تھیں، میں کیا کروں، اپنی ہی ماں سمان بھابی کے ساتھ سیکس کروں، یا پھر اس دن کا انتظار کروں جس دن کوئی حرام زادہ مجھے مذاق میں بتائے کہ تیری بھابی ماں فلاں فلاں سے چدوا رہی ہے۔
میں بہت پریشانی میں تھا۔
بھابی ماں بولیں: دیکھ، تو میرا بیٹا ہے، اگر تو ہی میرا خیال نہیں رکھے گا، تو کون رکھے گا؟
میں اس الجھن کی حالت کو برداشت نہیں کر پایا اور رو پڑا: نہیں ماں، میں نے آپ کو ہمیشہ اپنی ماں ہی مانا ہے، میں ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔
بھابی آگے آئیں اور انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا: نہ میرا بیٹا، رو مت، رو مت، میں تیرے ساتھ ہوں نہ، کیوں روتا ہے۔ ارے پاگل، اس سے پہلے کہ دنیا تیری بھابی ماں کو کسی نہ کسی طرح پھنسا کر خراب کرے، اگر تو اسے سنبھال لے تو اس میں کیا پریشانی ہے۔ رہے گا تو پھر بھی تو میرا بیٹا ہی! اس میں کوئی برائی نہیں بیٹا، بہت سے دیور بھابی میں ایسا ہونا عام بات ہے۔ اگر سچ کہوں، تو میں نے پہلے بھی کئی بار ایسا سوچا تھا، مگر تو نے کبھی میری طرف دیکھا ہی نہیں، تو میری بھی ہمت نہیں ہوئی۔ آج تجھے اس حالت میں دیکھا تو مجھے سچ میں بہت برا لگا کہ میرا بیٹا اپنے ہاتھ سے اپنی جوانی کو کیوں خراب کر رہا ہے۔ تجھے ایک صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔ میں تجھے سمجھاؤں گی کہ کیسے اپنی جوانی کو بچا کر رکھا جا سکتا ہے۔ بس جو میں کہتی ہوں، تو وہ کرتا جا۔
اپنی زندگی کے سب سے بڑے چکر ویو میں پھنسا کھڑا رہا۔
اور بھابی ماں نے ایک چھوٹا سا سٹول کھینچا اور میرے سامنے اس پر بیٹھ گئیں۔ میرا برمودا اور چڈی دونوں کھینچ کر بالکل ہی اتار دیے بھابی نے… میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور پھر پہلے تو اس کے ٹوپے پر بوسہ دیا اور اس کے بعد اپنے منہ میں لے لیا۔
اور ایسا چوسا کہ پانچ سیکنڈ میں ہی میرے لن کو لوہا بنا دیا۔ پورا اکڑ کر میرا لن جب کھڑا ہوا تو بھابی بولیں: واہ کیا شاندار لن ہے، ایسا لن تو میں کب سے چاہتی تھی! کب سے… آہ!
بھابی پھر سے میرا لن چوسنے لگیں۔ ان کے منہ سے تو جیسے لعاب کی دھار بہہ رہی ہو، میرا لن، میرے آنڈ، سب چاٹ گئیں، چوس گئیں۔
پھر وہ سٹول سے اتر کر نیچے فرش پر ہی بیٹھ گئیں اور میری کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔
اور اب میرا لن اپنے منہ میں لیا تو میری کمر کو اپنے ہاتھوں سے آگے پیچھے ہلانے لگیں۔
تو ان کا اشارہ سمجھ کر میں نے بھی اپنی کمر چلانی شروع کر دی۔ اور پھر تو مجھے مزا ہی آ گیا، بھابی کا منہ بھی کسی چوت سے کم نہیں تھا۔
کیا مزا آیا بھابی کا منہ چود کر۔
میں نے بھی بھابی کا سر پکڑ لیا اور خود سے ہی ان کے منہ کو چودنے لگا۔ بھابی نے بھی بڑے مزے مزے لے کر اپنے گلے تک میرا لن لے کر اپنا منہ چدوایا۔
پھر وہ اٹھ کر کھڑی ہوئیں اور انہوں نے اپنی ٹی شرٹ اور لوئر اتار دیا۔ پہلی بار میں نے اپنی بھابی ماں کو اپنے سامنے بالکل ننگی دیکھا۔
دودھ جیسے گورے، موٹے بڑے بڑے ممے، تھوڑے ڈھلکے ہوئے، مگر ہلکے بھورے رنگ کے نپل… چھوٹے چھوٹے نپل۔
میں نے آج تک بھابی ماں کو اس طرح دیکھنا تو کیا، کبھی ان کے بارے میں ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ مگر آج وہ میرے سامنے بالکل ننگی کھڑی تھیں اور میں ان کے سامنے۔
بھابی ماں نے جب مجھے ان کے مموں کو گھورتے ہوئے دیکھا تو میرے بالکل پاس آئیں اور ان کے نپل میرے سینے کو چھو گئے۔
وہ بولیں: کیا دیکھ رہا ہے میرا ببو؟ ممے کا دودھ پیے گا؟ ہاں… بھوک لگی میرے ببو کو؟ لو پیو!
اور بھابی نے اپنا ایک ممہ اپنے ہاتھ میں اٹھا کر میری طرف بڑھایا اور دوسرے ہاتھ سے میرا سر نیچے کو جھکایا۔
پھر میں نے بھی ساری شرم لاج اتار پھینکی۔ میں نے بھی آگے بڑھ کر بھابی کا ایک ممہ اپنے منہ سے چوسنا شروع کر دیا اور دوسرے ممے کو اپنے ہاتھ سے دبایا۔
مخمل جیسے نرم ممے۔
جتنا دباؤ، دل نہ بھرے! اور ہلکے نمکین ذائقے والے ان کے نپل، جتنا بھی چوسو دل نہ بھرے۔
میں تو جیسے اپنے ہوش و حواس ہی کھو بیٹھا۔
بھابی نے میرے لن کو سہلایا اور بولیں: اگر میرا ببو میرا دودھ پیے گا تو ببو کو اس کا دودھ اپنی ممی کو پلانا پڑے گا۔
اور بھابی نے میرے لن کو کھینچ کر اشارہ کیا۔
میں نے کہا: بھابی ماں، میں تو آج سے آپ کا غلام! آپ جو کہو گی میں وہ کروں گا۔
بھابی بولیں: تو ٹھیک ہے، یہاں جگہ ٹھیک نہیں ہے، نیچے چلتے ہیں، بیڈ روم میں بستر پر آرام سے سب کریں گے۔
اور بھابی نے اپنا لوئر اور ٹی شرٹ پھر سے پہن لی۔ میں نے صرف اپنا برمودا پہنا اور ہم دونوں نیچے بیڈ روم میں آ گئے۔
اندر آتے ہی بھابی نے اپنا لوئر اور ٹی شرٹ ایک دم سے اتار پھینکے اور میں بھی ننگا ہو گیا۔
بھابی بستر پر لیٹ گئیں اور اپنے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا: آؤ میرے بالم، اپنی پیاری کے تن کی پیاس بجھاؤ۔
میں جا کر بھابی کے اوپر لیٹ گیا۔
بھابی نے مجھے کس کر اپنے بدن سے چپکا لیا اور وہ میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگیں۔
میں نے بھی بھابی کے ہونٹ، گال، ٹھڈی سب چوسے۔ بھابی کو ان کی گردن کے آس پاس چومنے چاٹنے سے بڑی گدگدی ہوتی تھی۔ جب بھی میں نے ایسا کیا، وہ بہت کھلکھلا کر ہنسیں۔
تو میں نے کہا: بھابی ماں، آگے کریں؟
بھابی بولیں: اگر میں کروں تو؟
میں نے کہا: آپ کی مرضی… آپ کر لو۔
بھابی نے مجھے نیچے لٹایا اور خود میرے اوپر چڑھ کر بیٹھ گئیں۔ پہلے اپنے بال باندھے، میں نے ان کے دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر دبایا۔
اور پھر بھابی نے اپنے منہ سے کافی سارا تھوک لے کر میرے لن کے ٹوپے پر لگایا۔ پھر میرا لن پکڑ کر اپنی چوت پر سیٹ کیا۔ اور جیسے ہی بھابی تھوڑا سا نیچے کو بیٹھیں، میرے لن کا ٹوپا ان کی گلابی چوت میں گھس گیا۔
میرے منہ سے ‘امم… آہہ… ہائے… یاہ…’ نکل گیا۔
دو چار بار اندر باہر کرنے سے ہی میرا سارا لن بھابی ماں کی چوت میں سما گیا۔ بھابی ماں میرا پورا لن اپنی چوت میں لے کر میری کمر پر ہی بیٹھ گئیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
وہ کیا سوچ رہی تھیں، مجھے نہیں پتا۔ مگر میں یہ سوچ رہا تھا کہ انسانی رشتے کیسے ہوتے ہیں، کب ان رشتوں کا کیا روپ بدل جائے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
ابھی صبح تک جو میری بھابی ماں تھیں، جنہیں میں اپنی پالنے والی ماں مانتا تھا، اب وہ میری محبوبہ تھیں اور میرا لن اپنی چوت میں لیے بیٹھی ہیں۔
میں بھابی ماں کے مموں سے کھیلتا رہا۔
بھابی تھوڑا سا آگے کو جھکیں اور پھر وہ اپنی کمر آگے پیچھے کو ہلانے لگیں۔
سچ میں اس چدائی میں مجھے بہت مزا آ رہا تھا۔ ہاتھ سے مٹھ مارنا تو اس کا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔
ایک گوری چٹی بھرپور عورت میرے اوپر ننگی بیٹھی مجھے ایک اعلیٰ لذت دے رہی تھی۔
کافی دیر بھابی خود اوپر چڑھ کر چدواتی رہیں اور میں نیچے لیٹا کبھی ان کے مموں سے کھیلتا، کبھی انہیں چوستا۔ بیچ بیچ میں بھابی نیچے کو جھک کر میرے ہونٹ چوستیں، اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دیتیں۔
ساڑھے کوئی فرق ہی نہیں رہ گیا تھا، ان کا تھوک میرے منہ میں، میرا تھوک ان کے منہ میں۔
بھابی کی چوت جتنا پانی چھوڑ رہی تھی، ان کے منہ سے بھی اتنی ہی لعاب ٹپک رہی تھی۔ کئی بار ان کے منہ سے لعاب میرے منہ پر، میرے سینے پر گرا مگر مجھے کوئی گلا نہ ہوا۔
بلکہ میں تو ان کی ٹپکتی ہوئی لعاب کو چاٹ رہا تھا۔ ان کے ہونٹوں کو چوس رہا تھا، ان کے مموں پر اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا۔
بھابی تڑپتیں، لرزتیں، مگر انہوں نے مجھے روکا نہیں۔
پھر وہ اٹھیں اور بولیں: چل اوپر آ!
وہ نیچے لیٹ گئیں۔ انہوں نے اپنی ٹانگیں پوری طرح کھول دیں۔
ہلکی جھانٹ کے بیچ ان کی گوری چوت، اور چوت کے دونوں ہونٹوں کے بیچ سے جھانکتا گلابی رنگ کا دانہ۔
میں نے بھابی کی چوت کے دانے کو اپنی انگلی سے چھوا۔
بھابی نے ‘سی…’ کر کے سسکی بھری۔ میں نے اپنا لن ان کی چوت پر رکھا، تو بھابی نے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر سیٹ کیا، اور اگلے ہلکے سے دھکے سے میرا لن بھابی ماں کی چوت میں سما گیا۔
پھر میں نے اپنے حساب سے چدائی شروع کی، جیسے کہ میں نے بلیو فلموں میں لوگوں کو کرتے دیکھا تھا۔ کتنی دیر میں بھابی کو بغیر رُکے بغیر جھڑے چودتا رہا۔
اس دوران بھابی ایک بار بہت تڑپی تھیں۔
میں نے پوچھا: آپ کا ہو گیا؟
وہ مسکرا کر بولیں: ہاں، میرے یار نے میری تسلی کروا دی۔
اس کے کچھ دیر بعد میں نے کہا: بھابی ماں، میرا ہونے والا ہے۔
بھابی بولیں: رُک، اندر مت کرنا، میرے منہ میں کر، مجھے تیرا ٹیسٹی گاڑھا مال پینا ہے۔
میں نے اپنا لن بھابی کی چوت سے باہر نکالا تو بھابی اپنے ہاتھ سے میرے لن کو پھینٹنے لگیں اور دو منٹ میں ہی جب میرے لن سے مال گرنے کو ہوا، میں نے اپنا لن بھابی کے منہ میں گھسا دیا اور میرا سارا مال بھابی ماں کے منہ میں جھڑا۔
جیسے جیسے ایک کے بعد ایک منی کی پچکاری بھابی ماں کے منہ میں چھوٹی، ویسے ویسے وہ اسے پیتی گئیں۔
میں دیکھ رہا تھا کہ کیسے میرا مال بھابی ماں کے گلے سے نیچے اتر رہا تھا۔
وہ ہاتھ سے میرے لن کو ہلاتی بھی رہیں اور زبان سے میرے لن کو چاٹتی بھی گئیں، پورا مال پی گئیں، اور اس کے کتنی دیر بعد تک میرے لن کو اپنے منہ میں لیے رہیں۔
آخری بوند تک وہ پی گئیں۔
جب میرا لن ڈھیلا پڑ گیا تب انہوں نے اپنے منہ سے اپنے دیور کا لن نکالا۔ چوس چوس کے بھابی نے میرے لن کو لال کر دیا تھا۔
اس دن کے بعد سے میرا اور بھابھی ماں کا تعلق ہی بدل کر رہ گیا، بھابھی کے بدن کی آگ نے مجھے بھی جھلسا کر رکھ دیا ، دن رات ہم چدائی میں لگے رہتے ، بھابھی اور میرے کے اس شہوت انگیز تعلق کا کیا انجام ہوگا ؟ اس نہ مجھے فکر ہے اور نہ بھابھی کو ۔(ختم شد)