Incest Writer
Top Writer
- Joined
- Oct 9, 2024
- Messages
- 79
- Reaction score
- 561
- Points
- 83
- Gender
- Male
- Thread Author
- #1
رات کے دس بجے کا عمل ھو گا جب میں اپنے گاؤں سے تقریباْ دو کلو میٹر دور بس سٹاپ پر اترا تھا۔نزدیک ترین شہر سے ھمارے گاؤں کے لئے صرف دن میں ھی بسیں چلتی تھیں، اور شام کے پانچ بجے کے بعد اگر کسی نے شہرسے گاؤں آنا ھوتا، تو اس کو اسی سٹاپ تک کی بس میسّر آتی تھی، جس سٹاپ کو " بابے والی ٹاہلی" کا نام دیا گیا تھا، اور جہاں ابھی ابھی میں بھی اترا تھا۔ ( یہاں ایک درخت موجود تھا، جس کو ماضی کے کسی بزرگ کی نسبت سے بابے والی ٹاہلی کا نام دیا گیا تھا۔ اس درخت اور اس سے منسوب بزرگ کے حوالے سے ھمارے علاقے میں ایک پرانا قصّہ بھی بہت مشھور ھے، مگر میں اس قصّے کا ذکر کئے بغیر کہانی کی طرف آتا ھوں۔) سردی میں دس بجے، اور وہ بھی ھمارے گاؤں کے علاقے میں، ، ، میرے تو دانت پہلے ھی بج رھے تھے، لیکن جب میں بس سے باھر آیا، تو سردی ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔ میں نے سردی سے بچنے کے لئے کافی کچھ پہن رکھّا تھا، مگر اس کے باوجود میں کانپنے پر مجبور ھو چکا تھا۔ چند دن پہلے ھونے والی بارشوں نے ٹمپریچر پر شدید ترین اثر ڈال رکھّا تھا۔
" کاش ، میں اسلام آباد سے جلدی نکل پڑتا، تو سردی سے بچ سکتا تھا۔ "
میں نے اپنے آپ کو کوستے ھوئے دل میں سوچا۔ مگر اب تو کچھ نہیں ھو سکتا تھا۔ سو میں ٹھٹھرتا ٹھٹھرتا، اپنے گاؤں والی سڑک پر چل دیا۔
ھمارے گاؤں کی طرف جانے والی سڑک کے اطراف میں ھرے بھرے کھیت موجود تھے۔ ان کھیتوں میں کثرت سے اس وقت گندم کی فصل کاشت کی گئی تھی، مگر ابھی وہ زمین سے اتنی زیادہ نہیں نکلی ھوئی تھی۔ میں آھستہ آھستہ اپنے گاؤں کی جانب رواں دواں تھا۔میرا دھیان رستے پر ھونے کے ساتھ ساتھ اپنے اطراف پر بھی لگا ھوا تھا۔ یہ انسانی نفسیات کی بات ھے، کہ رات کی تاریکی میں اگر آپ اپنے گھر میں بھی موجود ھوں، اور تنہا ھوں، تو یقیناْ آپ کو کچھ نہ کچھ عجیب ضرور لگے گا، چاھے وہ ایک لمحے کے لئے ھی کیوں نہ ھو۔ میں تو پھر بھی ایک سنسان سڑک پر اکیلا پیدل سفر کر رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ یہ میرے اپنے گاؤں کا علاقہ تھا۔ کچھ دور میرے دادا کی زمین بھی موجود تھی۔ سارا رستہ میرا دیکھا بھالا تھا، یہیں میرا بچپن ھنستے کھیلتے گزرا تھا، اس کے باوجود، رات کے سنّاٹے میں، اس ویران سڑک پر چلتے ھوئے میں قدرے خوف محسوس کر رھا تھا۔ پوری فضا پر ایک بوجھل خاموشی طاری تھی۔ میرے اندر طرح طرح کے اندیشے سر اٹھانے کی کوشش کر رھے تھے، جنہیں میں دباتے ھوئے اپنے گاؤں کی جانب رواں دواں تھا۔
رات کے اس پہر کے باوجود سارا رستہ خیریّت سے کٹ گیا۔ میں نے اندر ھی اندر قدرے سکون محسوس کیا۔میرے خوف کی ایک وجہ اچھّو گجّر بھی تھا، جو آج کل جیل سے مفرور تھا۔ اچھّو میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں کا ایک جوان سال بد معاش تھا، جس پر اپنے سگے چچا زاد بھائیوں کے قتل کا سنگین الزام تھا۔ سنا تھا، کہ وہ آج کل ساتھ والے جنگل میں چھپا ھوا ھے، اور رات کی تاریکی میں سنسان رستوں پر گھات لگا کر بیٹھ جاتا ھے۔ جو بیچارے شہر سے گاؤں واپس آتے ھوئے کسی مجبوری کے تحت لیٹ ھو جاتے ھیں، ان کو وہ گن پوائنٹ پر لوٹ لیتا ھے۔ میں اچھّو گجّر کے بارے میں سارا رستہ سوچ سوچ کر خوفزدہ ھوتا رھا، مگر میری قسمت میں اس کا شکار بننا نہیں لکھّا تھا، سو میں خطرناک علاقے سے بحفاظت اپنے گاؤں تک پھنچ آیا تھا۔
گاؤں کو سامنے دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ اب میں کافی پر سکون ھو چکا تھا۔ خوف نام کی کوئی چیز اب میں محسوس نہیں کر رھا تھا۔ گاؤں کے کسی کونے سے کبھی کبھی کسی کتّے کے بھونکنے کی آوازیں آ رھی تھیں۔ اس کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دے رھی تھی۔ پورا گاؤں خاموشی میں ڈوبا ھوا تھا۔ گاؤں کی زیادہ تر گلیاں چند سال پہلے تک رات کے وقت اندھیرے میں ھی ڈوبی رھتی تھیں، مگر پچھلے سال منتخب ھونے والے کونسلر صاحب کی کوششوں سے ھر گلی میں روشنی کا معقول انتظام کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ اب ایک گلی میں کھڑے ھو کر تقریباْ گلی کے دوسرے کونے تک دیکھا جا سکتا تھا۔
ھماری گلی بھی مکمّل طور پر روشنی میں نہائی ھوئی تھی۔ جب میں اپنی گلی میں داخل ھو رھا تھا، تبھی بالکل اچانک، کسی نے میرے دائیں بازو کو پیچھے سے پکڑ لیا۔ یہ میرے لئے بالکل غیر متوقّع تھا۔ میری سانس خشک ھو گئی، اور میں غیر ارادی طور پر چلّا اٹھّا۔ اضطراری طور پر میں اپنا ھاتھ بھی کھینچ چکا تھا۔ مجھے سخت سردی میں بھی اپنے ماتھے پرپسینہ محسوس ھونے لگا۔ میں نے سنبھلنے کی کوشش کرتے ھوئے حملہ آور کو دیکھا۔ یہ ایک لڑکا تھا مگر اس کے چہرے اور حلئے کو دیکھ کر میرے خوف میں اضافہ ھو گیا۔ افّ، کس قدر خوفناک چہرہ تھا اس کا۔ ۔ ۔ ! اور اوپر سے اس کے بڑھے ھوئے بال، میں نے ڈرتے ڈرتے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ھوئے ایک طرف کو جست لگائی۔ وہ عجیب انداز سے مجھے دیکھ رھا تھا۔اس کے کپڑے بھی جگہ جگہ سے پھٹے ھوئے تھے، اور اس نے اپنے آپ کو سردی سے بچانے کے لئے اپنے اوپر کوئی سویٹر یا جرسی نہیں پہنی تھی،نہ ھی چادر نام کی کوئی چیز اوڑھی ھوئی تھی۔ میں نے محسوس کیا، کہ میرے چلّانے سے وہ بھی خوفزدہ ھو گیا تھا۔ کیونکہ وہ بھی اب مجھ سے دور ھو کے کھڑا ھو گیا تھا۔ اس کا انداز بتا رھا تھا، کہ اس کو میرا چلّانا ذرا پسند نہیں آیا۔ اس کو خوفزدہ دیکھ کر ایک بات تو یقینی ھو چکی تھی، کہ اب وہ میرے نزدیک نہیں آنا چاھتا تھا۔ سو میں نے اسے غور سے دیکھنا شروع کیا۔ اسی اثناٴ میں ھمارے پڑوسیوں کی بیٹھک کا دروازہ کھلا، اور اس میں سے اشرف، اور اصغر باھر آ گئے۔ یہ دونوں چاچے کرم دین کے بیٹے تھے، اور سگے بھائی تھے۔ ان کی عمریں اندازاْ اٹھارہ سال، اور بیس سال تک رھی ھوں گی۔ وہ سیدھے ھماری طرف ھی آ رھے تھے۔ انہوں نے دور سے ھی آواز لگائی۔ " ڈرنے کی ضرورت نہیں ھے فیروز بھائی۔ یہ ھمارے مہمان ھیں۔ ھم انہی کو ڈھونڈ رھے تھے۔ " پڑوسی ھونے کے ناطے وہ مجھے جانتے تھے، اور روشنی کی وجہ سے انہوں نے مجھے دور سے ھی پہچان بھی لیا تھا۔ مگر مجھے یہ جان کر تعجّب ھوا، کہ وہ پاگل آدمی ان کا مہمان ھے، اور یہ، کہ اس سے ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
میں نے ان سے سلام دعا کے بعد، اس آدمی کی حرکت شکوہ کناں انداز میں ان کو بتائی۔ میں اس آدمی پر ناراض بھی تھا، اور اس پاگل کو دیکھ کر پریشان بھی تھا۔ مجھے الجھن سی محسوس ھونے لگی تھی۔ اس کی اداس آنکھیں ، ، ، ایسے محسوس ھوتا تھا، کہ ، شائد میں نے اس آدمی کو پہلے بھی کہیں دیکھا ھے ، ، ، ، مگر کہاں دیکھا ھے، یہ بالکل بھی یاد نہیں آ رھا تھا۔ اشرف اور اصغر نے معذرت کی، کہ ان کی لاعلمی میں وہ آدمی گھر سے نکل آیا۔ آئندہ وہ اس آدمی کا پورا پورا خیال رکھّیں گے۔ میں نے جب اس آدمی کے بارے میں دریافت کیا، کہ وہ کون ھے، اور ان کے گھر میں کیا کر رھا تھا، تو جواب میں اشرف نے معذرت کے بعد، مجھے رخصت کرتے ھوئے کہا، "ابھی آپ سفر سے آئے ھیں فیروز بھائی، سردی بھی آپ کو لگ رھی ھو گی۔ گھر جائیے، اور آرام کیجئے۔ صبح آپ کو اس آدمی بارے میں تمام تفصیل بتا دوں گا۔"
میں سمجھ گیا، کہ اشرف اس آدمی کے سامنے اس کے متعلّق کوئی بات نہیں کرنا چاھتا تھا۔ میں نے بھی کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ مجھے اچھّی طرح سے معلوم تھا،کہ اگر اشرف نے کہا ھے، تو صبح وہ مجھے ساری حقیقت ضرور بتائے گا۔ ، ، ، لیکن ایک بات کا تو مجھے سو فیصد یقین ھو چکا تھا، کہ وہ آدمی، یقیناْ پاگل ھی ھے، جس کے لئے وہ یہ الفاظ استعمال کر رھے تھے، کہ وہ ان کی لاعلمی میں گھر سے نکل آیا تھا۔ اور یہ کہ، وہ آئندہ اس کا زیادہ خیال رکھّیں گے۔
وہ پاگل ٹائپ آدمی،جو کہ شائد میرا ھم عمر ھی رھا ھو گا، ان کو قریب دیکھ کر کافی حد تک نارمل ھو چکا تھا۔ ابھی تک خاموش کھڑا ھوا تھا، اچانک زور زور سے ھنسنے لگا۔ ھم تینوں چونک گئے۔ اس کے ھنسنے سے اس کا چہرہ اور بھی بھیانک محسوس ھو رھا تھا۔ اس کے منہ سے رالیں بہ رھی تھیں، جو اس کی ٹھوڑی سے ھوتی ھوئی اس کی پھٹی ھوئی قمیض اور سینے پر منتقل ھو رھی تھیں۔ اس لمحے مجھے اپنے دل میں پہلی بار اس آدمی کے لئے ھمدردی محسوس ھوئی۔ نہ جانے کس دکھیاری ماں کا بیٹا تھا،جو جوانی میں ھی پاگل ھو چکا تھا۔ بیچارے کو اپنا ذرّہ برابر ھوش نہیں تھا۔ ر وہ آدمی زور سزور سے ھنستے ھوئے اچانک خاموش ھوا، مجھے مخاطب کرنے کے لئے میرے نزدیک ھوا، اور بولا۔ " تم نے میری کوثر کو دیکھا ھے ؟ ابھی یہیں تھی۔ نہ جانے کہاں چلی گئی۔ ؟ ، ، ، اور میں اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر اس کا منہ تکنے لگا۔
یقیناْ، یہ کوئی مریض۔ محبّت تھا،
جو اپنی کسی کوثر نامی محبوبہ کا نام لے کر مجھ سے اس کا پتہ جاننے کی کوشش کر رھا تھا۔ اس وقت اشرف اور اصغر کے چہروں پر میں نے صاف ناگواری محسوس کر لی تھی۔
اچانک، بالکل اچانک، وہ پاگل رونے لگ گیا۔ اشرف اور اصغر نے ایک دم سے اسکی جانب دیکھا۔ وہ سسکیاں لے کر رو رھا تھا۔ میں بھی اس کی اس اچانک کیفیّت پر حیران تھا۔ اصغر نے اس کا چہرہ اپنے کاندھے سے لگا لیا، اور اس کو چپ کروانے لگا۔ وہ اس کو ایسے چپ کروا رھا تھا، گویا، وہ ایک یا دو سال کا کوئی بچّہ ھو۔ وہ پاگل بھی اس کے کاندھے پر سر رکھّ کر رو رھا تھا۔ آخر کچھ دیر رونے کے بعد، وہ اچانک چپ ھو گیا۔ اس کے منہ سے بہنے والی رالیں اب پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے بہ رھی تھیں۔
اصغر اس بیچارے کا منہ اپنی چادر سے صاف کرنے میں لگ گیا۔ وہ اس کو بہت ھی پیار سے ٹریٹ کر رھا تھا۔ اس سے ظاھر ھوتا تھا، کہ ان کے چہروں پر یک دم در آنے والی ناراضگی، اس پاگل کے رویّے سے نہیں، بلکہ اس لڑکی کے نام لینے سے آئی تھی، جس کو اس پاگل نے " کوثر " کہ کر پکارا تھا۔ اصغر اس پاگل کا منہ انتہائی توجّہ سے صاف کر رھا تھا۔ اشرف اس دوران خاموش کھڑا رھا۔ وہ آدمی مسلسل مجھے ھی گھور رھا تھا۔ میں نے پھر سے اپنے دماغ پر زور ڈالا، مگر میں اس آدمی کو نہ پہچان سکا۔
ضرور یہ محبّت میں ناکامی کا ھی کیس لگتا ھے،،،!
میں دل ھی دل میں سوچ رھا تھا۔
اب تو میرے اندر اس آدمی کے بارے میں جاننے کا تجسّس مزید بڑھ گیا تھا۔ چنانچہ میں نے دل میں مصمّم ارادہ کر لیا، کہ کل صبح ھوتے ھی اس آدمی کے بارے میں اشرف وغیرہ سے ضرور معلوم کروں گا، کہ یہ کون ھے، اور اس کی کہانی کیا ھے۔ اس کے بعد، میں نے ان کو خدا حافط کہا، اور ھم اپنے اپنے گھروں کو چل دئے۔
اگلے دن میں دس بجے کے قریب میں، اشرف وغیرہ کی بیٹھک میں اشرف کے ساتھ ، موجود تھا۔ پڑوسی ھونے کے ناطے، ھمارا ایک دوسرے کے گھر میں کافی آنا جانا تھا۔ اس کے گھر سے بن کر آنے والے گرما گرم پراٹھے ابھی ابھی ھم نے صاف کئے تھے، اور اب بھاپ اڑاتی چائے سے بھرے ھوئے کپ اٹھائے، ھم دونوں باتوں میں مصروف تھے۔ ھماری گفتگو کا محور ، ظاھر ھے، کہ وھی آدمی تھا۔ میں نے اشرف سے ابتدا میں ھی کہ دیا تھا، کہ اگر وہ بتانا چاھتا ھے، تو صرف سچّ بتائے۔ اس لئے، کہ اس آدمی کے بارے میں افسانوی قسم کی اور من گھڑت داستان سننے سے بہتر ھے، کہ میں اپنا وقت ضائع نہ کروں۔
میں نے اپنے طور پر یہ کہ کر اشرف پر نفسیاتی وار کیا تھا، تا کہ وہ اس آدمی کی کہانی سناتے وقت صرف حقیقت بیان کرے، اور جھوٹ سے مکمّل پرہیز پر مجبور ھو جائے۔ لیکن اس نے مجھے یقین دلایا، کہ" فیروز بھائی، میں آپ کی طبیعت سے اچھّی طرح سے واقف ھوں۔ اس لئے یقین کریں، میرا پہلے بھی آپ سے اس متعلّق جھوٹ بولنے کا قطعی ارادہ نہیں تھا۔ "
اس کی اس بات سے میں مطمئن ھو گیا۔
اب اشرف نے اس آدمی کی داستان سنانا شروع کی۔ اس نے سب سے پہلے مجھے ھی مخاطب کیا۔ " فیروز بھائی، میں حیران ھوں، کہ آپ نے بھی اس بیچارے کو پہچانا نہیں ھے ۔ "
" کیا مطلب ؟ " میں ایک دم مسے سیدھا ھو کر بیٹھ گیا۔ " کیا میں اس آدمی کو جانتا ھوں ؟ "
" جی ھاں فیروز بھائی۔ " اشرف نے ایک اور دھماکہ کیا۔ میں اسے حیرانی سے دیکھ رھا تھا۔
" مگر یہ کون ھے، اور میں اسے کیسے جانتا ھوں؟ " میں نے پھر سے سوال کیا۔ ساتھ ھی ساتھ میں نے اپنے ذھن پر زور دے کر پھر سے یاد کرنے کی کوشش کی۔ میرے پردہٴ تصوّر اس آدمی کا چہرہ لہرایا۔ لیکن لاکھ کوشش کے باوجود بھی میں اپنی شناسائی کے خانے میں سے اس کا چہرہ نہ ڈھونڈ سکا۔
اشرف دھیرے سے مسکرایا، اور بولا۔
" اس کا نام واجد ھے۔ ، ، ، واجد عرف واجی۔ "
میں نے جونھی اس کے منہ سے یہ نام سنا، مجھ پر حیرتوں کے پھاڑ ٹوٹ پڑے۔
واجد عرف واجی۔ ۔ ۔ یہ تو اشرف کا پھپھو زاد کزن تھا، جو کہ تین کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ایک اور گاؤں میں رھتا تھا۔ اور اسی واجد عرف واجی کے ساتھ میرے بچپن کے دن کھیلتے ھوئے گزرے تھے۔ وہ جب بھی اشرف وغیرہ کے گھر میں آیا کرتا تھا، ھم دونوں ضرور ملتے۔ اس وقت کے ھم عمر دوستوں میں، واجی میرا سب سے اچھّا دوست تھا۔ ھم نے بچپن کے پانچ سال ایک ساتھ کھیل کود کر گزارے تھے۔ پھر میں شہر میں چلا گیا تھا۔ اس کے بعد، اگلے دو سالوں میں واجد سے چند ایک بار ھی ملاقات ھو سکی تھی، وہ بھی اشرف کے گھر پر۔ غالباْ وہ بھی کسی شہر میں چلا گیا تھا، اور ھمارے گاؤں میں کم کم ھی آتا تھا۔ پھر مجھے اس کی کوئی خیر خبر نہ مل سکی تھی۔ ھم اس کے بعد، ھمارے گاؤں میں بھی کبھی اکٹھّے نہ ھو سکے تھے۔
اور آج، اتنے سالوں بعد، واجد، عرف واجی، میرے سامنے اس حال میں آیا تھا، کہ اس کو اپنی ھوش تک نہیں تھی۔ اور میں، فیروز، جس کے ساتھ اس نے بچپن گزارا تھا، وہ بھی اس کو پہچان نہیں سکا تھا۔
میرے اندر کی کیفیّت ایک دم سے عجیب ھو گئی تھی۔ مجھے یقین ھی نہیں آ رھا تھا، کہ اشرف جو کہ رھا ھے، وہ واقعی سچّ ھے۔
" کیا یہ واقعی وھی واجی ھی ھے۔ میرے بچپن کا دوست، واجد، عرف واجی، ، ، ، کیا یہ واقعی وھی ھے ، ، ، ، ، ، ، ، ؟ "
میں اپنے اندر سوچ رھا تھا۔ اشرف نے ایک بار پھر سے دھرایا۔ " جی ھاں فیروز بھائی۔ اب آپ کو یاد آیا ھے یہ بد نصیب۔ یہ واجد ھی ھے۔ آپ کے بچپن کا دوست۔ بچپن میں آپ کے ساتھ ھنس ھنس کر کھیلنے والا میری پھوپھی کا اکلوتا بیٹا واجد۔ واجد عرف واجی۔ "
اشرف نے ابھی اتنا ھی کہا تھا، کہ وہ رونے لگ گیا۔ اس کو روتا دیکھ کر مجھے بھی ایسے محسوس ھوا، کہ میں بھی شائد رو دوں گا۔ لیکن ، ، ، ، میں ایسا نہ کر سکا۔ میری عجیب قسم کی طبیعت نے مجھے ایسا نہ کرنے دیا۔ البتّہ اشرف کو تسلّی دینا میرا فرض تھا، سہ میں نے اپنا کپ ایک طرف رکھّا، اور اشرف کو بازو سے پکڑ کر، تسلّی دیتے ھوئے اس کو خاموش کروانے کی کوشش کرنے لگا۔ اشرف کچھ دیر میں پر سکون ھو گیا۔ واقعی، سگا رشتہ تو دور، کوئی عام انسان بھی ھو، اس کو اس حال میں دیکھ کر،اس کے لئے، کم از کم درد مند دل رکھنے والا انسان، تو ضرور روتا ھو گا۔ چاھے وہ رونا ایک بار کے لئے ھی کیوں نہ ھو۔ اور اشرف تو اس کا سگا بھی تھا، اور اوپر سےاچھّا خاصا نرم مزاج انسان بھی تھا۔
اشرف کو تو میں نے جیسے تیسے چپ کروا دیا تھا۔ مگر اب میں اندر سے بے حد دکھّی ھو گیا تھا۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رھا تھا، کہ جو کچھ مجھے ابھی ابھی اشرف نے بتایا ھے، وہ سچّ ھے۔
لیکن وہ سب کچھ واقعی میں سچّ ھی تھا۔ اور میرے یقین کرنے یا نہ کرنے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔
جب ھم دونوں کچھ نارمل ھو چکے، اور دوبارہ سے اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے، تو میں نے اس سے دوبارہ سے بات شروع کرنے کو کہا۔
اس نے واجد کی کہانی یوں بیان کی۔
" واجد کا بچپن تو آپ کے سامنے ، بلکہ آپ کے ساتھ ھی گزرا ھے۔ اس لئے میں وہاں سے شروع کرتا ھوں، جب آپ اور وہ جدا ھو چکے تھے۔
واجد جب بچپن سے جوانی کی حدوں کو پہنچا، تو اس کےمعصوم بچپن نے ایک حسین نوجوان کا روپ دھار لیا تھا۔ وہ اپنی والدہ کا اکلوتا بیٹا ھونے کی وجہ سے سب کا لاڈلا تو تھا ھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ بلاٴ کا ذھین بھی تھا۔ اس نے لاھور کے ایک پرائیویٹ کالج میں داخلہ لیا، تو شروع شروع میں سب شہری لڑکے اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ لڑکیاں اور لڑکے اس کو پینڈو کہ کر چھیڑتے، مگر جلد ھی اس نے سب پر اپنی ذھانت کی دھاک بٹھا دی۔ سب کو اندازہ ھو گیا تھا، کہ ایک سادہ اور پینڈو نظر آنے والا یہ لڑکا، کس قدر خدا داد صلاحیّتوں کا مالک ھے۔ سبھی لڑکے اور لڑکیاں اب اس کی قدر کرنے لگ گئی تھیں۔
کالج کے تمام پروفیسرز بھی اب واجی سے بے حد متاٴثّر ھو چکے تھے۔
کئی لڑکیاں، تو اب واجی کو کسی اور ھی نظر سے دیکھنا شروع ھو گئی تھیں۔ اتنا ھی نہیں، کئی ایک نے تو اس سے کھلم کھلا اظہار محبّت بھی کر دیا تھا۔ یہ وہ لڑکیاں تھیں، جو محبّت کے نام پر جسم کی آگ بجھانا چاھتی تھیں۔
واجی ایک گاؤں میں پلا بڑھا تھا۔ پھر اس کی ماں نے اس کی تربیت ایسے انداز سے کی تھی، کہ وہ اپنے مظبوط کردار کی حفاظت کرنے میں کامیاب رھا۔ کسی بھی مرحلے پر وہ نہیں ڈگمگایا۔
اتنا تو آپ بھی جانتے ھیں، کہ گاؤں اور شہر کے ماحول میں کس قدر فرق ھوتا ھے۔ اسی لئے، واجی نے ان بے باک لڑکیوں کی کسی بھی اوچھی حرکت کا حوصلہ افزا جواب نہ دیا۔ اسی وجہ سے وہ کالج میں "ذھین " کے ساتھ ساتھ " شریف " کے نام سے بھی مشھور ھونا شروع ھو گیا تھا۔ کئی لڑکیوں نے تو اس کو " نامرد" تک کا خطاب دے ڈالا تھا، مگر واجی نے کسی بھی بات کا برا نہیں منایا تھا۔ اس کی نظریں صرف اور صرف اپنے مقصد پر ٹکی تھیں۔
اور اس کا مقصد تھا، " کمپیوٹرز سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری۔ "
واجی کالج میں اٹھنے والے ھر طوفان کو کامیابی سے عبور کر کے اپنی منزل کی جانب محو۔ سفر تھا، جب ، ، ، ، اس لڑکی نے کالج میں داخلہ لیا۔ "
اتنا کہ چکنے کے بعد، اشرف چند لمحوں کے لئے خاموش ھوا۔ میں مکمّل توجّہ سے اس کی بات سن رھا تھا۔ یہاں پہنچ کر اس کا یہ وقفہ مجھے ناگوار گزرا، مگر میں نے اپنی ناگواری چھپاتے ھوئے، اس سے سوال کیا، " کون سی لڑکی ؟ "
اور اس نے جواب میں کہا۔ " وہی، جس کا نام واجی نے رات کو بھی لیا تھا۔ "
میں نے کہا۔
" تمھارا مطلب ھے، کوثر نے ؟ "
اور اشرف نے کہا۔
" جی ھاں، کوثر نے ۔ اور یہی وہ دن تھا، جب واجی کی بربادی کا آغاز ھوا تھا۔ "
میری تمام حسیّات سمٹ کر میرے کانوں میں آ چکی تھیں۔ اتنا تو مجھے ابھی بھی یاد تھا، کہ رات کو واجی نے واقعی، کسی کوثر نامی لڑکی کا نام ھی لیا تھا۔
تو گویا، وہ کوثر نامی لڑکی اس کو لاھور میں ملی تھی، جو اس کے پاگل پن کی ذمّہ دار تھی۔ ۔ ۔ ۔ ! "
میں اپنے دل میں سوچ رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشرف کے منہ سے اب یقیناْ کوثر اور واجی کا تعلّق واضح ھونے والا تھا۔
میں اشرف کے مزید بولنے کا منتظر تھا، مگر اچانک واجی بیٹھک میں داخل ھوا۔ اشرف اس کو دیکھ کر خاموش ھو گیا۔
مجھے بھی انداہ ھو گیا تھا، کہ واجی کے سامنے کوثر کا ذکر واجی کی ذھنی حالت کے پیش نظر مناسب نہیں تھا۔ سو میں بھی چپ رھا۔ واجی کمرے میں آ کر میری طرف ھی دیکھ رھا تھا۔ شائد وہ بھی مجھے کسی حد تک پہچاننے کی کوشش کر رھا تھا۔
اس کا اس طرح سے دیکھنا مجھے بے چین کر رھا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے اب بچپن کے مناظر پھر سے واضح ھونا شروع ھو گئے تھے۔ ، ، ، وہ بچپن، جس میں میرے ساتھ واجی کھیلا کرتا تھا۔ واجی کا معصوم چہرہ اس لمحے میری آنکھوں میں اتر آیا تھا۔ ، ،، کتنا معصوم ھوا کرتا تھا واجی،
، ،، ،
اور آج کا واجی، ،، کتنی اذیّت بھری زندگی گزار رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔!
میرا دل بھر آیا، مگر میں جانتا تھا، کہ مجھے اپنے آپ پر قابو رکھنا ھو گا۔ چنانچہ میں نے جلد ھی اپنے آپ کو سنبھال لیا۔
واجی بالکل خاموش کھڑا تھا۔ اشرف نے اس کو انتہائی پیار سے اپنے پاس بلاکر اپنے پاس بٹھا لیا۔ اس نے واجی سے پیار بھری دو تین باتیں کیں۔ اس دوران واجی بالکل پر سکون نظر آ رھا تھا۔ البّتہ کبھی کبھی سہمی سہمی ھوئی نظروں سے وہ مجھے بھی دیکھ رھا تھا۔ اس کی کیفیّت سمجھ سے بالاتر تھی۔ کبھی وہ مجھے سہمی ھوئی نظروں سے دیکھتا، تو کبھی وہ میری طرف دیکھتے ھوئے مجھے پہچاننے کی کوشش کرتا۔
چند لمحوں بعد، واجی اشرف کے کہنے پر، برتن اٹھا کر بیٹھک سے واپس گھر چلا گیا۔ "اس کو جاتے ھوئے دیکھ کر کوئی عام آدمی یہ جان نہیں سکتا، کہ جانے والا یہ آدمی اپنے ھوش کھو چکا ھے۔ ، ، ، اور کسی کی محبّت میں پاگل ھو چکا ھے۔ ، ،، ، ، !"
اس کی پشت پر نظریں گاڑے میں سوچ رھا تھا۔ میں نے محسوس کیا، کہ اس بات کو سوچتے ھوئے درد کی ایک ٹیس میں نے اپنے دل میں محسوس کی تھی۔
اشرف نے واجی کے جانے کے بعد، میری طرف دیکھا۔ میں نے اپنے چہرے پر آنے والے درد کو اندر جذب کرتے ھوئے اس سے کہانی دوبارہ سے شروع کرنے کے لئے کہا۔
اس نے بات وھیں سے شروع کی، جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا۔
" یہ بھی واجی کی بد قسمتی تھی، کہ کوثر سے اس کا سامنا اسی دن ھو گیا، جس دن وہ داخلہ لینے کے آئی تھی۔
کوثر ایک بے حد حسین لڑکی تھی، اور اس میں صنف مخالف کے لئے ایک عجیب طرح کی کشش موجود تھی۔ لڑکے خواہ مخواہ ھی اس کی طرف متوجّہ ھونا شروع ھو گئے تھے۔ کوثر بھی اپنی اس خوبی سے واقف تھی، سو وہ بھی اس طرح کی کیفیّات کو خوب انجوائے کیا کرتی تھی۔ آج کالج میں بھی بظاھر انتہائی خاموشی سے اپنے بھائی کے ساتھ چلنے والی کوثر اندر ھی اندر بے حد لطف اندوز ھو رھی تھی۔
واجی بھی سامنے سے آ رھا تھا۔ اپنے کسی دوست کے کہنے پر اس نے سامنے سے آنے والی لڑکی کو دیکھ تو لیا تھا، مگر پھر وہ پلکیں جھپکانا ھی شائد بھول گیا تھا۔ ، ، ، کالج کی کسی بھی حسین سے حسین تر لڑکی کو اک نظر نہ دیکھنے والا واجی آج ایک نئی آنے والی حسینہ کے حسن کی تاب نہ لا سکا تھا۔
واجی وہیں کھڑا کوثر کو دیکھتا رہ گیا۔ اور کوثر اس کے پاس سے مسکراتی ھوئی گزر گئی۔
واجی اب سب کچھ بھول چکا تھا۔ اسے اگر یاد تھا، تو صرف یہ، کہ کالج میں ایک نئی لڑکی داخل ھوئی ھے، اور اس کو دیکھنا واجی کے لئے عبادت سے کم ھر گز نہیں ھے۔ کوثر کے دیدار کی خاطر اس نے اپنے کئی کئی لیکچر مس کر ڈالے تھے۔ کبھی کوثر اسے نظر آتی، تو اس کے دیدار سے اس کے من میں لگی آگ کو جز وقتی تسلّی مل جاتی۔ لیکن جس دن وہ کوثر کو نہ دیکھ پاتا، اس کا سارا دن ھی انتہائی بے کلی میں گزر جاتا۔ نہ وہ کھانا کھاتا، نہ ھی کسی سے سیدھے منہ بات کرتا۔ ، ،، اسے بس یہی فکر دامن گیر رھتی، کہ کاش، ،کسی طرح سے دیدار یار میسّر آ جائے۔
اس کے تمام دوست، اس کی اس اچانک بدلتی کیفیّت پر، جہاں شروع شروع میں حیران ھوا کرتے تھے اور اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے، اب اچھّے خاصے پریشان ھو چکے تھے۔ یقیناْ ان کو احساس ھو چکا تھا، کہ واجی کی یہ کیفیّت کوئی عام کیفیّت نہیں ھے۔ ، ،
، ، ،، واجی کوحقیقت میں کوثر سے عشق ھو چکا تھا۔ اور یہ بہت سنگین صورت حال تھی۔
واجی کا کالج میں کئی بار کوثر سے آمنا سامنا ھوا تھا، مگر وہ ابھی تک اس سے اپنے دل کی بات کہ نہیں پایا تھا۔ اس لئے نہیں، کہ وہ ڈرپوک تھا، بلکہ اس لئے، کہ اس کے نزدیک یہ بات کوئی ضروری نہیں تھی۔ کوثر کو چاھنا اس کے نزدیک ایک عبادت تھی، اور یہ عبادت کوثر کو بتائے بغیر بھی کی جا سکتی تھی۔
، ، ، ھاں، اگر کوثر کو بھی اس سے محبّت ھو جائے، تب اور بات تھی۔
، ، ، اس کے دوست اس کے خیالات سن کر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے، کہ واجی اچھّا خاصا شیکسپئر بنتے بنتے اچانک مجنوں کیسے بن گیا۔
کالج میں اس کے دوستوں کی تعداد بھی بے حد مختصر تھی۔ اس نے کالج میں صرف دو بہترین دوست بنا رکھّے تھے، جو واجی کی اندرونی کش مکش سے مکمّل طور پر آگاھی رکھتے تھے۔ باقی سلام دعا والے ھی تھے۔
ان دونوں دوستوں نے واجی کو طریقے سے سمجھانا شروع کیا، کہ کوثر سے محبّت میں وہ اپنے اصل مقصد سے ھٹ رھا ھے، اور یہ ، کہ اس کو اپنے آپ کو سنبھال کر چلنا ھو گا۔ کوثر کی نگاہ التفات اس کے لئے ھر گز
نظرنہیں آتی تھی، اس لئے اس کو بھی اس خیال سے اپنی جان چھڑانی ھو گی۔
سلمان اور ضیاٴ ( واجی کے دونوں دوست ) نے ھر طرح سے کوشش کر کے دیکھ لیا تھا، مگر واجی پر ان کی کسی بھی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ھوا۔
وہ جو محبّت کو ایک فضول اور بکواس لفظ قرار دیا کرتا تھا، آج خود اسی عنوان کی ایک داستان بننے جا رھا تھا۔
واجی کی یہ دیوانگی کوثر سے ڈھکی چھپی نہ رہ سکی۔ کسی نہ کسی طرح سے اس کو خبر مل ھی گئی، کہ کالج میں اس کے کئی آوارہ عاشقوں کے درمیان ایک ایسا خاموش عاشق بھی موجود ھے، جس نے آج تک دوسرے لڑکوں کی طرح سے اس کا راستہ نہیں روکا تھا، جس نے کبھی اس پر کوئی فقرہ تک نہیں کسا تھا۔ یہاں تک کہ جس راستے سے کوثر آرھی ھوتی تھی، واجی اکثر وہ راستہ ھی بدل دیا کرتا تھا،
لیکن ان سب باتوں کے باوجود، واجی اس کی محبّت میں گرفتار بھی تھا۔ اور اب تک کے کوثر کے تمام عاشقوں میں سب سے منفرد تھا۔
کوثر بھی واجی سے کسی حد تک واقف ھو چکی تھی، لیکن ابھی تک اسے واجی کا صرف یہی تعارف حاصل تھا، کہ واجی ایک انتہائی شریف، محنتی اور ذہین سٹوڈنٹ ھے۔
آج جب اس کی سہیلی نے اسے واجی کی محبّت سے آگاہ کیا تھا، تو وہ حیران رہ گئی تھی۔
واجی کے بر عکس، کوثر ایک چنچل، مگر دوسروں کو ستا کر خوش ھونے والی لڑکی تھی۔ اسے دوسروں کو بے وقوف بنا کر بہت مزہ آتا تھا۔
اس نے اپنی سہیلیوں کو اکٹھّا کیا، اور واجی کو بے وقوف بنانے کا ایک پروگرام بنا لیا۔
اگلے دن واجی کو ایک لڑکی ملی، جس نے اسے کوثر کا ایک پیغام دیا، کہ کوثر آج اور ابھی، اس سے ملنا چاھتی ھے، مگر کالج سے باھر، (ماڈل ٹاؤن پارک میں۔)
واجی پر تو شادیٴ مرگ کی سی کیفیّت طاری ھو گئی۔ اس نے اپنی کتابیں اپنے دوست ضیاٴ کو تھمائیں، اور آناْ فاناْ پارک کے لئے روانہ ھو گیا۔ ضیاٴ ھکّا بکّا رہ گیا۔ اس نے واجی سے پوچھا بھی، کہ وہ اتنا خوش خوش کہاں جا رھا ھے۔ مگر واجی نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا۔
پارک میں ھونے والی ملاقات میں کوثر نے اس سے اظھار محبّت کر دیا۔ واجی خوشی سے پاگل ھو گیا۔ اس نے بھی اپنی دلی کیفیّت بیان کر دی۔ اس کے بعد، واجی اور کوثر نے وہاں کھڑے ھو کر ایک دوسرے کو اپنی محبّت کا یقین دلایا۔ اور کچھ وقت ساتھ گزارنے کے بعد، علیحدہ ھو گئے۔ لیکن واجی نہیں جانتا تھا۔ کہ آج کا یہ اظہار محبّت اسے کتنی بڑی آزمائش سے دوچار کرے گا۔
اب تو واجی اس سے اکثر ھی ملنے لگا تھا۔ کوثر اس سے خوب خرچہ بھی کرواتی تھی، اور اپنے ناز بھی اٹھواتی تھی۔ واجی اپنی خوشی سے اس کے لئے سب کچھ کر رھا تھا ۔ نہ اسے اپنی پڑھائی کے حرج کا احساس تھا، نہ ھی اپنی والدہ کے خواب ڈوبتے ھوئے نظر آ رھے تھے۔ اس کے سامنے تو بس کوثر ھی کوثر تھی۔ باقی سب کچھ تو اس کے ذھن سے نکل ھی چکا تھا۔
واجی نے اپنے دوستوں سے کوثر سے ملنے ملانے والی بات چھپائی تھی، مگر کہتے ھیں ناں، کہ عشق جیسی چیزیں چھپائے نہیں چھپتیں،
چنانچہ اس کے دوستوں کو بھی اس بات کی خبر ھو ھی گئی تھی۔
ضیاٴ اور سلمان حیران رہ گئے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ واجی ان سے بھی کچھ چھپا سکتا ھے۔
لیکن شام کو انہوں نے واجی سے پوچھا، تو اس نے پہلے تو پس و پیش سے کام لینے کی کوشش کی، مگر آخر کار اقرار کر ھی لیا۔
سلمان نے اسے سمجھانے کی ابتدا کرتے ھوئے کہا، کہ کوثر کے ساتھ اس کا ملنا ملانا مناسب نہیں ھے۔ واجی نے سنی ان سنی کر دی۔ ضیاٴ نے بھی واجی کو سھت سمجھایا، کہ واجی کوثر سے ملنا بند کر دے، کیونکہ واجی کے لئے کوثر سے ملنا نقصان دہ ثابت ھو سکتا ھے۔ اس کی تعلیم بھی متاٴثّر ھو رھی تھی۔ اور، ، ، ، ویسے بھی ان کی معلومات کے مطابق، کوثر کسی طور بھی شریف لڑکی نہیں تھی۔ اس کا کردار کسی طور بھی ایک شریف لڑکی سے میل نہیں کھاتا تھا۔
، ، ، ، ، ،
اس بات پر واجی ایک دم سے ھتھّے سے اکھڑ گیا۔ اس نے الٹے ھاتھ سے ضیاٴ کے منہ پر ایک زنّاٹے دار تھپّڑ رسید کر ڈالا۔ سلمان اور ضیاٴ ھکّا بکّا رہ گئے۔ پھر اس سے پہلے، کہ صورت حال مزید بگڑتی، سلمان نے ان کو دور دور کر دیا۔ مگر واجی نے ضیاٴ کی اس بات پر اس سے قطع تعلّق کر ڈالا۔ سلمان نے بھی اسے سمجھایا، کہ وہ حالات کو اپنی نظر سے نہ دیکھے، بلکہ ان پر ٹھنڈے دل سے غور کرے۔ مگر واجی کی آنکھوں پر تو کوثر کے عشق کی پٹّی بندھی ھوئی تھی۔ اس نے ان کی ایک نہ سنی، اور ان کے پاس سے چلا گیا۔
واجی کے جانے کے بعد، ضیاٴ نے سلمان سے مل کر ایک منصوبہ تشکیل دیا۔ در اصل ان دونوں کو کوثر کے بارے میں معلوم ھو چکا تھا، کہ وہ کس وقت کس کس سے ملتی ھے۔
کوثر نے کالج میں دو لڑکوں سے جسمانی تعلّقات استوار کر رکھّے تھے۔
ان میں سے ایک نے ضیاٴ کو اپنے راز سے آگاہ کر رکھّا تھا۔ اسی بناٴ پر ضیاٴ واجی کو سمجھانا چاھتا تھا، کہ وہ کوثر کے فریب میں نہ آئے۔ مگر واجی نے الٹا دوستی ھی ختم کر دی تھی۔ اور ضیاٴ پر ھاتھ بھی اٹھا دیا تھا۔، ، ، اب ضیاٴ اس تھپّڑ کا بدلہ کوثر سے وصول کرنے کے بارے میں سوچ رھا تھا۔
اگلے دن کوثر کالج نہیں آئی۔ در اصل وہ اپنے بوائے فرینڈ غنی( جو کہ ان کا ھی کلاس فیلو تھا اور شہر کے ایک معروف تاجر کا بیٹا تھا) کے ساتھ رنگ رلیاں منا رھی تھی۔
دسری طرف ضیاٴ بھی اسی جگہ موجود تھا، جہاں کوثر اور غنی ایک دوسرے کے جسم سے اپنی اپنی پیاس بجھا رھے تھے۔ یہ ایک کوٹھی تھی، جو کہ غنی نے کرائے پر لے رکھّی تھی۔ اس کام میں اس کے کچھ دوست بھی شامل تھے۔ ھر لڑکا، اپنی اپنی گرل فرینڈ کو یہاں لاتا ، اور کچھ وقت اس کے ساتھ گزار کر چلا جاتا۔ آج غنی کا نمبر تھا۔ اور آج کی یہ ملاقات غنی نے ضیاٴ کے کہنے پر ھی سیٹ کی تھی۔
ضیاٴ نے سلمان کو بھی اس بات سے آگاہ کر رکھّا تھا۔ سلمان کے ذمّے یہ کام تھا، کہ وہ کسی طرح سے واجی کو وہاں لے کر آتا۔
غنی جس کمرے میں موجود تھا، اس سے ملحقہ کمرے میں ضیاٴ موجود تھا۔ کوٹھی میں غنی نے کچھ ایسی سیٹنگ کروا رکّھی تھی، کہ جس کمرے میں غنی کوثر کی پھدّی مار رھا تھا، اس کے ساتھ والے کمرے میں موجود ضیاٴ سب کچھ دیکھ رھا تھا۔ اصل میں ان دو کمروں کے درمیان میں ایک ایسا شیشہ فٹ تھا، جس کی ایک سائیڈ سے دیکھا نہیں جا سکتا تھا، اور اسی طرف غنی کوثر کی جوانی سے اپنے آپ کو سیراب کر رھا تھا۔ شیشے کی دوسری طرف سے آر پار دیکھا جا سکتا تھا۔ اور اسی سہولت کی وجہ سے ضیاٴ اس وقت کوثر کو بے لباس دیکھ رھا تھا۔ اسے اب شدّت سے سلمان کا انتظار تھا۔
جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رھا تھا، ضیاٴ کی پریشانی میں بھی اضافہ ھوتا چلا جا رھا تھا۔، ، ،
لیکن آخر سلمان واجی کو لے کر وہاں پہنچ ھی گیا۔ ضیاٴ ان کو دیکھ کر کمرے سے باھر نکل آیا، اور کمرے کو کنڈی لگا دی۔ در اصل وہ واجی کو ایک دم سے سب کچھ نہیں دکھانا چاھتا تھا۔
وہ متوقّع صورت حال کے لئے پہلے اس کو ذھنی طور پر تیّار کرنا چاھتا تھا۔
یہ کوٹھی کا عقبی حصّہ تھا، جس میں وہ لوگ پیدل آمدورفت کر رھے تھے۔
واجی نے جب ضیاٴ کو دیکھا، تو اس کا موڈ پھر سے آف ھو گیا۔ مگر سلمان نے بات سنبھال لی، اور چند منٹ کی باتوں میں ان کی صلح بھی کروا ڈالی۔ ضیاٴ بہت خوش نظر آ رھا تھا، البتّہ واجی کے انداز میں پرانی گرمجوشی مفقود تھی۔
واجی ان سے پھر سے سوال کر رھا تھا، کہ وہ لوگ اسے یہاں کس مقصد کے تحت لے کر آئے ھیں۔ جواب میں ضیاٴ اور سلمان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، اور دونوں کے منہ سے ٹھنڈی سانسیں خارج ھو گئیں۔
یقیناْ اب واجی کو حقیقت دکھانے کا وقت آ چکا تھا۔
سلمان کے اشارے کے بعد،ضیاٴ نے کمرے کی کنڈی کھول دی، اور اس کو پیش بندی کے طور پر صرف اتنا کہا، "
اندر کمرے میں دیوار نما شیشہ فٹ ھے واجی۔ اس میں تمھیں تمھارے ھر سوال کا جواب مل جائے گا، مگر پلیز، شیشے کے پار سے جو کچھ بھی دیکھو، اسے ذرا حوصلے سے دیکھنا ۔ اس لئے، کہ شائد تم اس سب کو آسانی سے برداشت نہ کر سکو۔ "
واجی اس کی باتوں کو سن کر حیران ھوا، مگر سلمان نے اس کو پکڑ کر اندر کی جانب ھلکا سا دھکیلا، واجی کے لئے یہ ایک عجیب صورت حال تھی۔ جب اسے کچھ سمجھ نہ آئی، تو اس نے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے پیچھے پیچھے سلمان اور ضیاٴ بھی آ چکے تھے۔
واجی شیشے کے آر پار دیکھ چکا تھا۔ ، ، ، ، ، !
سلمان اور ضیاٴ اس کو بغور دیکھ رھے تھے۔ وہ سوچ رھے تھے، کہ واجی اس منظر کو دیکھ کر انتہائی شدید ردّ عمل بھی دے سکتا ھے، اسی لئے وہ چوکنّے ھو کر کھڑے تھے۔ ، ،، ،
مگر واجی نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔ وہ تو اس منظر کو اسیے دیکھ رھا تھا، گویا، اس کی آنکھیں پتھرا گئی ھیں، اور اس کے جسم سے روح نکال لی گئی ھے۔ ، ، ،
وہ بالکل بے جان بت کی طرح نظر آ رھا تھا۔
دوسری طرف کوثر اور غنی کا شرمناک کھیل جاری تھا۔ کوثر اس بات سے بالکل بےخبر تھی، کہ اس کو اس حالت میں اس کے تین کالج فیلو دیکھ رھے ھیں، جن میں سے ایک اس کا شدید ترین چاھنے والا بھی ھے۔
واجی کی کیفیّت ایک دم سے بگڑی تھی۔ پہلے تو اس کے منہ سے ایک چیخ بلند ھوئی تھی، اور اس کے بعد اس کی ٹانگوں نے اس کا وزن اٹھانے سے انکار کر دیا۔
وہ دھڑام سے زمین پر آ رھا۔ سلمان اور ضیاٴ گھبرا گئے۔ انہوں نے اس کو اٹھایا، اور کسی طرح سے ھاسپٹل لے گئے۔ دوسرے کمرے میں موجود غنی اور کوثر ان کی کسی بھی آواز کو نہ سن سکتے تھے، اس لئے کہ وہ کمرہ ساؤنڈ پروف تھا۔
واجی کو ھاسپٹل میں دو دن رکھّا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق واجی پر انتہائی قسم کا کوئی دماغی حملہ ھوا تھا۔
ھاسپٹل میں واجی کے ساتھ سلمان اور ضیاٴ باری باری ایک ایک رات ٹھہرے۔
دوسرے دن شام میں واجی کو ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔ داکٹر نے اس کو دوائی دے کر اس کے دوستوں کو واجی کا خیال رکھنے کا کہا تھا۔ واجی بیڈ پر لیٹا تھا۔ اس کی نگاھیں دور خلاٴ میں کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھیں۔ ابھی تک اس نے اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ سلمان نے ایک دو بار اسے بلانے کی کوشش کی تھی، مگر اس نے جواب میں سلمان کی جانب چند ساعتیں دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا تھا۔ ڈاکٹر بھی واجی کی اس کیفیّت کو دیکھ رھا تھا، مگر اس کے مطابق مریض کو اب علاج سے زیادہ گھریلو ماحول کی ضرورت تھی۔ آخر کار وہ لوگ واجی کو گھر لے آئے۔
واجی کمرے پر آ کر بھی گم سم ھی رھنے لگا تھا۔ اسے اپنی ھوش بھی نہیں رھی تھی۔
وہ کالج سے ایک ھفتے تک غیر حاضر رھا۔ حقیقت میں وہ اپنے کمرے تک ھی محدود ھو گیا تھا۔ سلمان اور ضیاٴ اس کا بھر پور خیال رکھ رھے تھے۔
اپنے دونوں دوستوں کی موجودگی میں ھمیشہ ھنس کر بات کرنے والا واجی اب ایسے ھو گیا تھا، جیسے اس مے منہ پر تالے لگا دئے گئے ھوں۔ کبھی کبھی کوئی بات کر لیا کرتا تھا، مگر زیادہ تر وہ خاموش رھتا تھا۔ بس دور کہیں دیکھتا رھتا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بھی دن میں کئی کئی بار رواں ھو جایا کرتے تھے۔ البتّہ اس کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلتا تھا، اس نے کوثر کی اس دن کی حالت پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ ایک دو بار سلمان اور ضیاٴ نے انتہائی محتاط انداز میں اس سے اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اس واقعے کے ذکر کے ساتھ ھی واجی کی حالت غیر ھو جاتی تھی، اس لئے انہوں نے اب اس قصّے کا ذکر کرنا بند کر دیا تھا۔
اس دوران کوثر نےاس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اس کا موبائل آف تھا۔ آخر ایک دن کوثر واجی کے کمرے پر آ گئی۔ اس کے ساتھ اس کی دو سہیلیاں بھی تھیں۔ واجی اس وقت کمرے میں اکیلا تھا۔ سلمان مارکیٹ گیا ھوا تھا۔ ضیاٴ بھی کسی کام سے باھر تھا۔ کوثر نے دستک دی، تو اندر سے واجی نے پوچھا، " کون ؟
یہاں پر ایک وضاحت بیان کرنا ضروری سمجھتا ھوں، کہ واجی کی کہانی کی ابتدا، میں نے اشرف سے ھی سنی تھی، مگر اس سے ملنے والی کہانی ادھوری تھی۔یعنی اس کہانی کی کئی جزئیات تشنہ تھیں، کیونکہ کئی باتوں کا اشرف کو بھی صحیح علم نہیں تھا۔ چنانچہ مجھے ساری کہانی مکمّل کرنے میں مزید محنت بھی کرنا پڑی تھی۔ یہاں تک ، کہ مجھے ایک بار لاھور بھی جانا پڑا، جہاں میں واجی کے دوستوں سلمان اور ضیاٴ سے بھی ملا، تب کہیں جا کر مکمّل کہانی میرے علم میں آ سکی تھی۔ یہ تو میں نے آپ سب دوستوں کی سہولت کی خاطر کہانی ایک ھی تسلسل میں بیان کر دی ھے۔ امّید ھے، آپ اس تسلسل پر تنقید کرنے کی بجائے اسے پسند کریں گے۔ )
اسیر۔ محبّت (آخری حصّہ)
جواب میں کوثر نے اپنا نام بتایا، تو کافی دیر تک کوثر کو کوئی آواز سنائی نہ دی۔ وہ حیران ھوئی، اور انتظار کرنے لگی، مگر واجی کی طرف سے کوئی ردّعمل سامنے نہ آیا۔ جب اسے وھاں کھڑے ھوئے دو منٹ مزید گزر گئے، تو کوثر کی ایک سہیلی نے دوبارہ دستک دی۔ اب کے واجی نے اندر سے ھی آواز لگا کر ان کو وہاں سے چلے جانے کا کہ دیا۔ کوثر اور اس کی سہیلیاں ھکّا بکّا تھیں۔ مگر واجی اندر سے باھر نہیں آ رھا تھا، اور نہ ھی کنڈی کھول رھا تھا۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ وہاں سے چلی جائیں، اور ان کو ایسا ھی کرنا پڑا۔ ان کو یہ تو معلوم نہیں تھا، کہ واجی نے ایسا کیوں کیا، مگر کوثر اس بات پر بہت پیچ و تاب کھا رھی تھی، اور اس نے دل ھی دل میں واجی سے اس بے عزّتی کا بدلہ لینے کا سوچ لیا تھا۔
کوثر اب کالج میں واجی کے آنے کا انتظار کرنے لگی تھی، مگر واجی سے اس کا سامنا کئی دن تک نہ ھو سکا۔ دوسری طرف اس کی ایک سہیلی نے کئی لڑکیوں کو یہ بتا دیا تھا، کہ واجی نے اس کے ساتھ اور کوثر کے ساتھ کیا سلوک کیا ھے۔ کوثر اس بات کی تشھیر پر اور بھی سیخ پا تھی۔ کوثر اب بظاھر واجی کا ذکر کسی سے بھی نہیں کر رھی تھی، مگر اس واقعے کے بعد اس نے دل ھی دل میں واجی کو سزا دینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
آخر کچھ دن کے بعد، کوثر کو واجی کالج میں نظر آ ھی گیا۔ اس دن کوثر نے واجی کا راستہ روک لیا اور اس دن کے حوالے سے اس سے گلہ کرنے لگی جب واجی نے کوثر کی آواز سن کر بھی دروازہ نہیں کھولا تھا۔ کوثر شائد اس سے توقّع کر رھی تھی، کہ وہ اس سے معذرت کرے گا، مگر واجی تو اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رھا تھا۔ آخر وہ کوثر کو اسی طرح حیران پریشان چھوڑ کر چلا گیا۔ کوثر اپنی آج کی تذلیل ، اور وہ بھی پورے کالج کے سامنے، برداشت نہ کر پائی۔ اس نے آگے بڑھ کر واجی کا راستہ روک لیا۔ واجی نے اس سے بچ کر جانا چاھا، مگر کوثر اپنے فطری غرور اور غصّے کے اثر میں آ چکی تھی۔ واجی نے جب دیکھا، کہ کوثر اس کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑ رھی، تو اس نے اس سے صاف صاف کہ دیا، کہ وہ کوثر سے کوئی دوستی یا محبّت نام کا تعلّق رکھنا نہیں چاھتا۔ اس بات پر کوثر مزید بھڑک گئی۔ کالج کے کئی لڑکے لڑکیاں ان کی طرف متوجّہ ھو رھے تھے۔ کوثر ان سب کے سامنے اپنے آپ کو تماشہ بنتے ھوئے محسوس کر رھی تھی اور اسی وجہ سے اسے واجی پر غصّہ آ رھا تھا جو لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جا رھا تھا۔ آخر ان کے درمیان بحث شروع ھوگئی، جو بڑھتے بڑھتے تلخ کلامی کی شکل اختیار کر گئی۔ کوثر اس بات پر واجی پر چیخ رھی تھی، کہ وہ ھوتا کون ھے، سارے کالج کے سامنے کوثر کی انسلٹ کرنے والا۔ ،، ، ، ۔ واجی اس کے انداز گفتگو پر حیران ھو رھا تھا، جب کوثر نے ایک اور دھماکا کر ڈالا۔
کوثر نے یہ کہ دیا تھا، کہ ، ، ، واجی سے اس کو کبھی بھی، ذرا بھی محبّت نہیں تھی، وہ تو اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر اس کو بے وقوف بنا رھی تھی۔ بھلا واجی جیسے ایک اجڈ، عام سی شکل والے پینڈو سے کوثر جیسی انتہائی خوبصورت لڑکی کیسے محبّت کر سکتی ھے۔
واجی نے اب تک کی کوثر کی تمام باتیں تو انتہائی تحمّل سے برداشت کر لی تھیں، مگر جب کوثر نے واجی سے محبّت کو بھی ایک ڈرامہ قرار دیا، تو واجی اپنا ضبط کھو بیٹھا۔ اس کے سامنے وہ تمام لمحات ایک سیکنڈ میں لہرا گئے، جب کوثر نے مختلف اوقات میں اس کے ھاتھوں میں ھاتھ ڈال کر اس سے اظہار محبّت کیا تھا۔ دوسری طرف اس کی آنکھوں میں وہ منظر بھی آیا تھا، جب اس نے کوثر کو بالکل ننگی حالت میں غنی کے نیچے دیکھا تھا، جب غنی اپنی کوٹھی میں کوثر کی پھدّی مار رھا تھا۔ اس کا نتیجہ انتہائی بھیانک ثابت ھوا،اور اس کا دماغ، اور ھاتھ ایک ساتھ گھوم گئے۔ تڑاخ کی آواز کے ساتھ واجی نے ایک زنّاٹے دار تھپّڑ کوثر کے گال پر رسید کر ڈالا تھا۔
کوثر کے وھم و گمان میں بھی نہیں رھا ھو گا، کہ واجی اچانک اس طرح کی جرّاٴت کا مظاھرہ بھی کر سکتا ھے۔ نتیجتاْ واجی کا تھپّڑ کھا کر کوثر پیچھے کو گرگئی تھی۔
پورا کالج دیکھ رھا تھا، اور واجی نے کوثر کو تھپّڑ دے مارا تھا۔ سب اپنی اپنی جگہ پر ساکت رہ گئے تھے۔
واجی نے کوثر کی گالیوں کا جواب ھاتھ سے دے ڈالا تھا۔ کئی دن کا جمع ھونے والا غبار شائد آج ایک تھپّڑ کے راستے نکل گیا تھا، مگر نہیں۔ ایک تھپّڑ اتنے دنوں کی تکلیف کا مداوا نہیں ھو سکتا تھا۔ واجی شائد کوثر کو اور بھی مارنا چاھتا تھا، مگر کالج کے کچھ لڑکوں نے واجی کو پکڑ لیا۔ واجی کے دوست وہاں موجود تھے، جو واجی کو موقع سے کھسکا کر لے گئے۔
واجی کی حالت بہت خراب ھو رھی تھی۔ وہ ابھی شائد کوثر پر مزید ھاتھ صاف کرنا چاھتا تھا۔ وہ کوثر کی یہ بات سہ نہیں پایا تھا، کہ کوثر نے اس سے محبّت کے نام پر مذاق کیا تھا۔ واجی نے تو کوثر کی محبّت کو ایک عبادت سمجھ کر انجام دیا تھا۔ اس نے تو کوثر کی محبّت کے نام پر اپنی تعلیم کے انتہائی قیمتی سال برباد کر ڈالے تھے۔ اس نے تو کوثر کو ھی اپنی زندگی کا حاصل سمجھ لیا تھا، اس نے تو نہ جانے کتنے سپنے سجا لئے تھے، اور اس کے سپنے تو کوثر کے کرداد کی کمزوری سے ختم ھوئے ھی تھے، مگر آج کوثر کی اس بات نے اسے بے حد اذّیت پہنچائی تھی، کہ کوثر نے اس سے محبّت کے نام پر بھی ایک مذاق ھی کیا تھا۔ محبّت کرنے والے ایسے ھی ھوتے ھیں۔ واجی بھی ایسا ھی تھا۔ اس نے کوثر کے کردار کی کمزوری کو تو برداشت کر لیا تھا، کہ کوثر اپنی مرضی کی خود مالک تھی، مگر کوثر نے محبّت کے نام پر واجی سے دھوکا اور مذاق کیا، یہ واجی کے لئے ناقابل برداشت ثابت ھوا تھا۔
کوثر کی محبّت کو ایک عبادت سمجھنے والا، آج اپنی ھی محبّت کی دیوی کے ظلم کا شکار ھو کر رہ گیا تھا۔
سلمان اور ضیاٴ واجی کو وہاں سے نکال کر کمرے پر لے گئے۔
دوسری طرف کوثر وہاں سے اٹھی، اور روتی ھوئی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔
اس کے بعد واجی کالج تو کیا، لاھور میں ھی نہ رہ سکا۔ وہ اپنے گاؤں چلا آیا تھا۔ اس کے دونوں دوستوں نے اس کے ساتھ گاؤں تک جانے کی کوشش کی تھی، مگر واجی نے سب کو منع کر دیا تھا۔ واجی اپنے کالج کے واقعے کو یہیں دفن کر کے جانا چاھتا تھا۔ وہ نہیں چاھتا تھا، کہ کالج کے دوستوں میں سے کوئی اس کے گاؤں میں جائے، اور ان کی زبانی اس کے گھر والوں کو یا گاؤں کے کسی بھی فرد کو کوثر والے واقعے کا پتہ چل جائے۔ وہ لاھور کی تلخ یادوں کو اپنے ساتھ گاؤں نہیں لے جا سکتا تھا۔ وہ اپنی محبّت کی تلخ یادوں سے دامن چھڑانے کے لئے ھی تو لاھور چھوڑ رھا تھا۔ لیکن اس کو معلوم نہیں تھا، کہ یہ محبّت اتنی آسانی سے کسی کا پیچھا نہیں چھوڑا کرتی۔ محبّت کرنے والے چاھے آپس میں ٹھیک رہیں، نہ رھیں۔ اور چاھے وہ ھمیشہ کے لئے جدا بھی ھو جائیں، مگر محبّت کا آسیب ان کے دلوں میں پنجے جمائے رکھتا ھے۔ یہ ایک ایسا عفریت ھے، جو محبّت کے میدان میں اترنے والوں کو ایک دن آخر نگل کے ھی دم لیتا ھے۔
گاؤں میں سب اس کی اچانک واپسی پر حیران تھے۔ اس کی والدہ کا دل اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر ڈول گیا۔ ابھی چند دن بعد ھی تو واجی کے سالانہ پیپرز تھے۔ ان دنوں میں واجی کا یوں اچانک گاؤں چلے آنا، اور وہ بھی ھمیشہ ھمیشہ کے لئے، ، ، ، وہ سمجھ گئیں ، کہ ضرور کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ھے۔ انہوں نے بڑی کوشش کی، کہ وہ واجی سے پوچھ سکیں، کہ آخر اس کو کیا ھو گیا ھے۔ لیکن واجی نے ان کو ٹال دیا۔
گاؤں واپسی کے بعد سے، واجی گھر میں ھی قید ھو کر رہ گیا تھا۔ اس کی والدہ اسے باھر دوستوں میں جانے کو کہتیں، تو وہ کبھی کبھی دوستوں کی محفل میں چلا جاتا، لیکن باھر جا کر بھی وہ چپ چپ رھتا۔ اس کے گاؤں کے کئی دوستوں نے بھی اس سے کئی بار بات پوچھنے کی کوشش کی، مگر واجی کسی کی بات کا کوئی جواب نہ دیتا۔ وہ تو جیسے سب سے ھی بیگانہ ھو گیا تھا۔ ھاں، کبھی کبھی جب اس کی والدہ اس کے پاس بیٹھ کر انتہائی پیار سے اس سے پوچھتیں، کہ آخر وہ اپنی ماں کو تو بتائے، کہ اس کو کیا غم ھے، آخر کس چیز کو اس نے دل کا روگ بنا لیا ھے۔ اور اس کے ساتھ ھی اس کی والدہ تسلّی دینے کے سے انداز میں کہتیں،
" اگر کسی لڑکی کا معاملہ ھے، تو بھی وہ کھل کر بتائے، کیونکہ پھر وہ خود اس لڑکی کے گھر جا ئیں گی، اور اس لڑکی کے والدین سے واجی کے لئے اس کا ھاتھ مانگ کر اسے واجی کی دلھن بنا کر گھر لے آئیں گی، ، ، ،"
تو واجی کا ضبط جواب دے جاتا، اور وہ اپنی والدہ کے گلے لگ کر رو دیتا۔ اس کی والدہ اپنے جوان اور اکلوتے بیٹے کو خاموشی سے دلاسہ دینے میں لگ جاتیں۔ واجی کی کیفیّت سے اتنا تو وہ بھی سمجھ چکی تھیں، کہ ان کا سادہ، معصوم اور نوجوان بیٹا شہر کی کسی پری پیکر سنگدل حسینہ کے تیر نظر سے گھائل ھو کر اس حالت کو پہنچا ھے۔لیکن ان کو ساری حقیقت معلوم نہیں تھی، اور یہی بات ان کی تشویش کا باعث تھی۔
واجی کے سامنے بہادر نظر آنے والی اس کی والدہ اکیلی بیٹھ کر خوب روتیں۔ وہ جانتی تھیں، کہ ان کا بیٹا ھر کسی لڑکی کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے نہیں ھے۔ اگر اس کی یہ حالت ھوئی ھے، تو ضرور واجی کی پسند لاکھوں میں ایک ھو گی۔ لیکن وہ بیچاری کیا کر سکتی تھیں۔ کیونکہ واجی کی حالت گواھی دے رھی تھی، کہ یا تو واجی کی پسند نے واجی کو ٹھکرا دیا تھا، اور یا پھر اس لڑکی نے واجی کو کوئی بہت بڑا دھوکا دیا تھا۔
واجی کی والدہ نے اپنے بیٹے پر بہت توجّہ دی۔ واجی اب ان سے پہلے کی نسبت بہتر انداز میں، کھل کر بات کرنے لگا تھا۔ لیکن ابھی تک اس نے ان کو بھی یہ نہیں بتایا تھا، کہ وہ اچانک کالج چھوڑ کر کیوں چلا آیا۔ اس کی والدہ بھی اپنے بیٹے کی طبیعت سے واقف تھیں۔ ان کو معلوم تھا، کہ ایک دن واجی اپنے منہ سے ھی ان کو سب کچھ بتا دے گا۔ وہ خاموشی سے اس دن کا انتظار کر رھی تھیں۔
واجی کی دن بدن سنبھلتی صحّت نے اس کی والدہ کے اندر بھی ایک حوصلہ پیدا کر دیا تھا، جب ایک دن اچانک واجی پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔
واجی کے دوستوں میں سے چند ایک ایسے بھی تھے، جن کی کئی کئی لڑکیوں سے بیک وقت دوستی تھی۔ ایک نے واجی کو کسی طرح سے بہلا پھسلا کر گاؤں سے باھر جانے پر راضی کر لیا۔ اس کے مطابق جنگل تک جانا تھا، اور کچھ لکڑیاں اٹھا کر واپس آ جانا تھا۔
گاؤں سے کچھ ھی فاصلے پر ایک جنگل موجود تھا، جس سے گاؤں والے لکڑی لاتے تھے جو جلانے کے کام آتی تھی۔ واجی جنگل میں اس کے ساتھ آ تو گیا تھا، مگر اسے معلوم نہیں تھا، کہ اس کے دوست کا اصل مقصد لکڑیاں نہیں تھیں، بلکہ ایک لڑکی تھی، جو کہ پہلے سے ھی جنگل میں موجود تھی۔ واجی کے دوست نے واجی کو کسی بہانے سے جنگل میں ایک جگہ پر بٹھا دیا، اور خود چند منٹ بعد آنے کا کہ کر جنگل کے اس حصّے میں گھس گیا، جہاں بہت زیادہ جھاڑیاں تھیں، اور ان کے بالکل درمیان میں خالی میدان تھا۔ اس میدان کے بارے میں صرف مقامی لوگوں کو ھی علم تھا، باھر سے دیکھنے والا کوئی اجنبی آدمی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا، کہ جنگل کے اتنے گھنے حصّے کے اندر کوئی خالی میدان بھی ھو سکتا ھے۔
واجی کافی دیر تک اپنے دوست کا انتظار کرتا رھا۔ جب اس کے دوست کو گئے دس منٹ سے بھی زیادہ گزر گئے، تو واجی بھی اسی سمت چل پڑا جس طرف اس کا دوست گیا تھا۔ واجی اس کو ڈھونڈتا ڈھانڈتا، جنگل کے اسئی حصّے میں پہنچ گیا، جہاں خالی میدان تھا۔ وہاں اس نے دیکھا، کہ اس کا دوست ایک ننگی لڑکی کے ساتھ اس کی چدائی میں مصروف تھا۔اس کے دوست نے لڑکی کی ٹانگیں اٹھائی ھوئی تھیں، اور زور زور سے اس لڑکی کو چود رھاتھا۔ واجی یہ منظر دیکھ کر ماضی میں پہنچ گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر آ گیا، جب اس نے کوثر کو غنی کے ساتھ اسی حالت میں دیکھا تھا۔ غنی کوثر کو بالکل اسی انداز میں چود رھا تھا، جیسے اس کا دوست اس وقت جنگل میں ایک لڑکی کو چود رھا تھا۔ واجی کی حالت خراب ھونا شروع ھو گئی۔ آخر واجی چلّا اٹھّا۔ اس کا دوست ایک دم سے ڈر کر لڑکی کے اوپر سے اٹھ گیا۔ لڑکی گھبرا گئی تھی، اس نے واجی کی منّت کرتے ھوئے راز داری کی درخواست کرتے ھوئے بدلے میں واجی کو اپنی پھدّی آفر کر دی تھی۔ اس کا دوست بھی واجی کے سامنے شرمندہ کھڑا تھا۔ مگر واجی تو کسی اور ھی جگہ پر پہنچا ھوا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ھو چکے تھے اور وہ اونچی اونچی آواز میں رو رھا تھا۔ روتے روتے ھی وہ نیچے گر پڑا۔ اس کی حالت اب بہت خراب ھو گئی تھی۔ واجی کا دوست گھبرا گیا۔ ان کو واجی کی اس کیفیّت کی سمجھ تو نہ آئی، لیکن اس کے دوست نے اور لڑکی نے جلدی جلدی اپنے کپڑے پہنے، اور پھر بڑی مشکل سے واجی کو سنبھالا ۔ اس کے دوست نے ایک ریڑھی پر واجی کو لاد کر گھر تک پہنچایا۔۔ واجی کا دوست سمجھ نہیں پایا تھا، کہ وہ تو اپنی معشوقہ کو ھی چود رھا تھا، مگر اس منظر کو دیکھنے سے واجی کی حالت کیوں اتنی خراب ھو گئی۔ وہ بیچارہ نہیں جانتا تھا، کہ اسی طرح کا منظر واجی نے لاھور میں بھی دیکھا تھا، اور اس سے ملتا جلتا ایک اور منظر آج دوبارہ دیکھنے سے واجی کے پرانے زخم پھر سے ھرے ھو گئے ھیں۔
واجی کا علاج ایک انتہائی قابل ڈاکٹر سے کروایا گیا۔ ڈاکٹر کے مطابق واجی پر شدید قسم کا دماغی حملہ ھوا ھے۔ اس نے کچھ ٹیسٹ بھی لکھ کر دئے، مگر واجی نے کسی بھی طرح کے ٹیسٹ یا علاج کروانے سے انکار کر دیا۔ اس کی والدہ رو رو کر نیم پاگل ھو گئی تھیں، مگر واجی کو تو اپنی بھی ھوش نہیں تھی۔ وہ اپنی والدہ کو کیا تسلّی دیتا۔ بس جب بھی کوئی اس کو علاج کے لئے شہر لے کر جانے کی بات کرتا، وہ ایک دم ھتھّے سے اکھڑ جاتا۔ شائد اس کے دماغ میں لاھور آ جاتا ھو گا۔
کچھ دن کے بعد واجی نارمل ھو گیا۔ اس کی والدہ کچھ حوصلہ پکڑ گئیں، مگر ان کے اندر ھر وقت ایک خوف دامن گیر رھنے لگا تھا، کہ کہیں ان کے بیٹے کو کچھ ھو نہ جائے۔ ڈاکٹر کے مطابق ان کے بیٹے کی دماغی حالت خطرے میں تھی۔اس پر کسی بھی وقت پھر سے دماغی حملہ ھو سکتا تھا۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی تھی ان کے سیدھے سادے واجی کو۔
ایک دن، جبکہ واجی گھر میں خاموشی سے چارپائی پر بیٹھا ھوا تھا، انہوں نے واجی کو ایک بار پھر سے سمجھانا شروع کیا۔ وہ اس کو سمجھاتے سمجھاتے رو پڑیں۔ واجی تڑپ اٹھّا، اور ماں کے قدموں میں گر پڑا۔ اب کے واجی مان گیا تھا۔ دو دن کے بعد، واجی اپنے چچا زاد کے ساتھ اسلام آباد جانے پر مان گیا تھا۔ اس کی والدہ بے حد خوش ھوئیں۔
واجی جب سے گھر آیا تھا، اس نے ٹی وی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے اس طرح کی چیزوں سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں رھی تھی۔ اسلام آباد جانے سے ایک رات قبل واجی کا چچا زاد کزن جس نے واجی کے ساتھ ھی اسلام آباد جانا تھا، وہ واجی کے ساتھ ھی اس کے گھر میں لیٹ گیا۔ وہ فلموں کا بے حد شوقین تھا۔ ان دنوں پی ٹی وی پر ھر جمعرات کی رات دس بجے کے قریب ایک اردو فلم لگا کرتی تھی۔ واجی کے چچا زاد کے بے حد اصرار پر انہوں نے فلم کے وقت پر ٹی وی لگا لیا۔ واجی کے کزن نے فلم پر زور اس لئے بھی دیا تھا، کہ اس نے واجی کی حالت دیکھ لی تھی۔ اس نے دلیل دیتے ھوئے یہ کہا تھا، کہ اس سے واجی کا دل بھی بہل جائے گا۔ اس کی والدہ بھی اس بات پر مان گئی تھیں۔ ان کو کیا معلوم تھا، کہ آج کا ٹی وی لگانا ان کے لئے کتنا نقصان دہ ثابت ھو گا۔ کاش وہ اس رات ٹی وی نہ لگاتیں۔ لیکن کہتے ھیں ناں، تقدیر کا لکھّا کوئی نہیں بدل سکتا۔ اور شائد واجی کی تقدیر میں یہی لکھّا تھا۔
اس رات ٹی وی پر ماضی کی مشہور فلم سٹار رانی کی اردو فلم لگنا تھی۔ جونہی فلم شروع ھوئی، اور ٹی وی سکرین پر رانی کا پہلا سین چلا، واجی کی حالت ایک دم سے بگڑ گئی۔ جوں جوں رانی ٹی وی سکرین پر نظر آ رھی تھی، واجی کی حالت خراب ھوتی چلی گئی۔ رانی کے بولنے سے واجی پر اور بھی زیادہ اثر پڑتا۔ واجی کی والدہ ایک الگ کمرے میں سو رھی تھیں، جبکہ واجی اور اس کا کزن دوسرے کمرے میں لیٹے فلم دیکھ رھے تھے۔ واجی کی بدلتی حالت کا اندازہ اس کے کزن کو بہت دیر سے ھو سکا۔ واجی اس وقت تک قابو سے باہر ھو چکا تھا۔ واجی کا کزن گھبرا گیا۔ اس نے پہلے تو واجی کو قابو کرنے کی کوشش کی، لیکن جب اس نے دیکھا، کہ یہ اس کے بس کی بات نہیں ھے، تو وہ واجی کی والدہ کو بھی اٹھا لایا۔واجی اس وقت تک ٹی وی توڑ چکا تھا۔ واجی کے کزن اور واجی کی والدہ میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ واجی کو اچانک کیا ھو گیا ھے۔ حقیقت میں واجی کو رانی میں کوثر نظر آ رھی تھی۔ کوثر کا چہرہ ھو بہو رانی کی طرح تھا۔ اس کی والدہ جب کمرے میں پہنچی، تو واجی زور زور سے چلّا رھا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کی والدہ کے ھاتھ پاؤں پھول گئے۔ انہوں نے واجی کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی، مگر اب بہت دیر ھو چکی تھی۔ واجی پر پھر سے دماغی حملہ ھو چکا تھا۔ وہ کبھی ھنستا تھا، تو کبھی بہت زور زور سے رونے لگ جاتا۔ کبھی وہ چیخنا شروع کر دیتا۔
ڈاکٹر نے کہا تھا، کہ اگر اب کی بار اس پر ایسا ایک حملہ اور ھو گیا، تو واجی کی زندگی کو بھی خطرہ ھو سکتا ھے، مگر جس خطرے کا زیادہ امکان تھا، وہ تھا، واجی کے پاگل پن کا۔ اور اب واجی پر حملہ ھو چکا تھا۔ تھوڑی ھی دیر میں، واجی واجی چلاّتے چلّاتے ایک دم بے ھوش ھو گیا۔ ، ، ، ،
کافی دیر بعد، جب واجی کو ھوش آئی، تو اس نے کسی کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیا۔
واجی پاگل ھو چکا تھا
واجی کے ارد گرد رشتے داروں اور محلّے والوں کا ایک جمّ غفیر جمع ھو چکا تھا۔ اس کی والدہ بھی ایک سائیڈ پر بیٹھی رو رھی تھیں ۔ واجی ھوش میں آنے کے بعد، اول فول بکنے لگا تھا۔ پھر اس نے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی، تو کچھ لوگوں نے اسے قابو کر لیا، ورنہ وہ اٹھ کر بھاگ چلا تھا۔ پھر بھی وہ ان سے اتنی آسانی سے قابو نہیں آ رھا تھا۔
واجی کی والدہ بھی اٹھ کر وہاں آ گئیں۔ محلّے والے ان کو پیچھے کھینچتے ھی رہ گئے۔ شائد وہ نہیں چاھتے تھے، کہ وہ اپنے بیٹے کو اس حال میں دیکھیں۔ لیکن وہ سب کو ایک طرف ھٹاتی ھوئی واجی تک پہنچ گئیں۔ اس دوران میں واجی مکمّل طور پر ھوش و حواس سے بیگانہ ھو چکا تھا۔ اس کے منہ سے رالیں بھی بہ رھی تھیں، اور وہ کوثر کا نام لے کر کبھی تو زور زور سے ھنس رھا تھا، تو کبھی اونچی آواز میں رو رھا تھا۔ سارا محلّہ ھی واجی کی اس کیفیّت پر افسوس کر رھا تھا، لیکن، ، ، ،
واجی کی والدہ اپنے جوان بیٹے کو اس حال میں دیکھ کرسکتے میں آ گئیں۔ پہلے تو وہ کافی دیر تک ایسے واجی کو دیکھتی رھیں، اور پھر اچانک وہ بھی زمین پر گر گئیں۔
کچھ لوگوں نے واجی کی والدہ کو ھاسپٹل پہنچانے کی کوشش کی، مگر اب وہ شائد اتنا حوصلہ نہیں رکھتی تھیں، کہ اپنے جوان بیٹے کو پاگل کے روپ میں دیکھ سکیں، چنانچہ ھاسپٹل جاتے ھوئے راستے میں ھی انہوں نے دم توڑ دیا۔
محلّے میں ایک کہرام مچ گیا ۔
ایک طرف واجی کی والدہ کا جنازہ اٹھ رھا تھا، تو دوسری طرف کچھ لوگ واجی کو سنبھال رھے تھے، جو اپنے آپ میں ھی نہیں تھا۔ محلّے کی عورتیں رو رھی تھیں۔ پورا گاؤں ھی واجی کی والدہ کی اچانک موت پر نوحہ کناں تھا، مگر جس کا سب سے بڑا نقصان ھوا تھا، اسے اس بات کی ھوش تک نہیں تھی۔ اسی بات پر پورا گاؤں سوگوار تھا، کہ واجی تو چلو پاگل ھوا، مگر اس کی ماں بھی چل بسی، اور ستم در ستم یہ بات تھی، کہ واجی اس بات کا احساس تک نہیں کر سکتا تھا، کہ اس نے کیا کھو دیا ھے۔
گاؤں والوں نے اور واجی کے رشتے داروں نے مل جل کر واجی کی والدہ کو منوں مٹّی تلے دفنا دیا۔
اب واجی کا کوئی نہیں تھا، جو کہ اس کو سنبھال سکے، چنانچہ ھم لوگ (اشرف وغیرہ کی فیملی) واجی کو اپنے گھر لے آئے۔ اس دن سے یہ ھمارے پاس ھی رہ رھا ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
***************************************
واجی کی داستان سننے کے دوران میں اس قدر کھویا ھوا تھا، کہ مجھے وقت کا احساس تک نہیں رھا تھا۔ جب اشرف کہانی ختم کر چکا، تو میں اس کے بعد بھی، کافی دیر تک گم سم بیٹھا رھا۔ آخر اشرف نے مجھے مخاطب کیا،
" فیروز بھائی، آپ رو رھے ھیں ؟ "
میں اس کی بات سن کر چونکا تھا، اور جب میں نے اپنی حالت پر غور کیا، تو مجھے پتہ چلا، کہ واقعی میں رو رھا تھا۔ کہانی سننے کے دوران میری آنکھوں سے کب آنسو رواں ھوئے تھے، مجھے پتہ ھی نہ چل سکا تھا۔ لیکن، واقعی واجی کی کہانی اتنی درد ناک تھی، کہ پتھّر سے پتھّر دل آدمی بھی رو دے۔ اسی لئے میں بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ سکا تھا۔
جب میں ان کی بیٹھک سے نکل رھا تھا، تو شام ھونے والی تھی۔ میں نے ان کی بیٹھک کے کونے میں واجی کو دیکھا۔ وہ دو تین بچّوں کے ساتھ بیٹھا کھیل رھا تھا۔ اس وقت مجھے واجی پر اتنا ترس آیا، کہ میری پلکوں کے گوشے ایک بار پھر سے نم آلود ھو گئے۔ میں ایک بار پھر سے ماضی میں کھو گیا۔ جب ھم دونوں ایک ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ وہ زندگی کتنی پر سکون تھی، جب ھمیں کوئی غم نہیں ھوا کرتا تھا۔ کون جانتا تھا، کہ بچپن کو یاد گار بنا کر انجوائے کرنے والا واجی، کل کس آزمائش سے دوچار ھونے والا ھے۔ وہ تو یہی سمجھتا تھا، کہ وہ ھمیشہ اسی طرح سے خوش و خرّم زندگی گزارے گا، ، ،
لیکن آج واجی کس قدر اذیّت ناک زندگی گزار رھا تھا۔
میں یہ سوچتا ھوا واجی کے پاس پہنچ چکا تھا۔ واجی نے جب مجھے دیکھا، تو ایک دم سے گھبرا گیا، مگر میری آنکھوں میں ھمدردی اور محبّت دیکھ کر وہ ریلیکس ھو گیا۔ میں نے اس کے پاس بیٹھ کر اس سے ھاتھ ملانا چاھا، تو اس نے کسی قدر تردّد کے بعد مجھ سے مصافحہ کر ھی لیا۔ اس وقت واجی کافی حد تک نارمل نظر آ رھا تھا۔ میں اسے دیکھ رھا تھا، اور میرا دل اندر سے ڈوبا جا رھا تھا۔ جب میں نے محسوس کیا، کہ اب واجی کے سامنے بیٹھنا میرے لئے مشکل ھو رھا ھے، تو میں نے اپنا ھاتھ واجی کے ھاتھ سے چھڑایا، اور بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے اٹھ آیا۔ واقعی دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک داستان غم موجود ھے۔
دور کسی کے گھر میں اونچی آواز میں ایم عزیز (انڈیا ) کا ایک گانا لگا ھوا تھا۔
" دنیا میں کتنا غم ھے، میرا غم کتنا کم ھے،
لوگوں کا غم دیکھا تو، میں اپنا غم بھول گیا۔ "
(ختم شد)
" کاش ، میں اسلام آباد سے جلدی نکل پڑتا، تو سردی سے بچ سکتا تھا۔ "
میں نے اپنے آپ کو کوستے ھوئے دل میں سوچا۔ مگر اب تو کچھ نہیں ھو سکتا تھا۔ سو میں ٹھٹھرتا ٹھٹھرتا، اپنے گاؤں والی سڑک پر چل دیا۔
ھمارے گاؤں کی طرف جانے والی سڑک کے اطراف میں ھرے بھرے کھیت موجود تھے۔ ان کھیتوں میں کثرت سے اس وقت گندم کی فصل کاشت کی گئی تھی، مگر ابھی وہ زمین سے اتنی زیادہ نہیں نکلی ھوئی تھی۔ میں آھستہ آھستہ اپنے گاؤں کی جانب رواں دواں تھا۔میرا دھیان رستے پر ھونے کے ساتھ ساتھ اپنے اطراف پر بھی لگا ھوا تھا۔ یہ انسانی نفسیات کی بات ھے، کہ رات کی تاریکی میں اگر آپ اپنے گھر میں بھی موجود ھوں، اور تنہا ھوں، تو یقیناْ آپ کو کچھ نہ کچھ عجیب ضرور لگے گا، چاھے وہ ایک لمحے کے لئے ھی کیوں نہ ھو۔ میں تو پھر بھی ایک سنسان سڑک پر اکیلا پیدل سفر کر رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ یہ میرے اپنے گاؤں کا علاقہ تھا۔ کچھ دور میرے دادا کی زمین بھی موجود تھی۔ سارا رستہ میرا دیکھا بھالا تھا، یہیں میرا بچپن ھنستے کھیلتے گزرا تھا، اس کے باوجود، رات کے سنّاٹے میں، اس ویران سڑک پر چلتے ھوئے میں قدرے خوف محسوس کر رھا تھا۔ پوری فضا پر ایک بوجھل خاموشی طاری تھی۔ میرے اندر طرح طرح کے اندیشے سر اٹھانے کی کوشش کر رھے تھے، جنہیں میں دباتے ھوئے اپنے گاؤں کی جانب رواں دواں تھا۔
رات کے اس پہر کے باوجود سارا رستہ خیریّت سے کٹ گیا۔ میں نے اندر ھی اندر قدرے سکون محسوس کیا۔میرے خوف کی ایک وجہ اچھّو گجّر بھی تھا، جو آج کل جیل سے مفرور تھا۔ اچھّو میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں کا ایک جوان سال بد معاش تھا، جس پر اپنے سگے چچا زاد بھائیوں کے قتل کا سنگین الزام تھا۔ سنا تھا، کہ وہ آج کل ساتھ والے جنگل میں چھپا ھوا ھے، اور رات کی تاریکی میں سنسان رستوں پر گھات لگا کر بیٹھ جاتا ھے۔ جو بیچارے شہر سے گاؤں واپس آتے ھوئے کسی مجبوری کے تحت لیٹ ھو جاتے ھیں، ان کو وہ گن پوائنٹ پر لوٹ لیتا ھے۔ میں اچھّو گجّر کے بارے میں سارا رستہ سوچ سوچ کر خوفزدہ ھوتا رھا، مگر میری قسمت میں اس کا شکار بننا نہیں لکھّا تھا، سو میں خطرناک علاقے سے بحفاظت اپنے گاؤں تک پھنچ آیا تھا۔
گاؤں کو سامنے دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ اب میں کافی پر سکون ھو چکا تھا۔ خوف نام کی کوئی چیز اب میں محسوس نہیں کر رھا تھا۔ گاؤں کے کسی کونے سے کبھی کبھی کسی کتّے کے بھونکنے کی آوازیں آ رھی تھیں۔ اس کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دے رھی تھی۔ پورا گاؤں خاموشی میں ڈوبا ھوا تھا۔ گاؤں کی زیادہ تر گلیاں چند سال پہلے تک رات کے وقت اندھیرے میں ھی ڈوبی رھتی تھیں، مگر پچھلے سال منتخب ھونے والے کونسلر صاحب کی کوششوں سے ھر گلی میں روشنی کا معقول انتظام کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ اب ایک گلی میں کھڑے ھو کر تقریباْ گلی کے دوسرے کونے تک دیکھا جا سکتا تھا۔
ھماری گلی بھی مکمّل طور پر روشنی میں نہائی ھوئی تھی۔ جب میں اپنی گلی میں داخل ھو رھا تھا، تبھی بالکل اچانک، کسی نے میرے دائیں بازو کو پیچھے سے پکڑ لیا۔ یہ میرے لئے بالکل غیر متوقّع تھا۔ میری سانس خشک ھو گئی، اور میں غیر ارادی طور پر چلّا اٹھّا۔ اضطراری طور پر میں اپنا ھاتھ بھی کھینچ چکا تھا۔ مجھے سخت سردی میں بھی اپنے ماتھے پرپسینہ محسوس ھونے لگا۔ میں نے سنبھلنے کی کوشش کرتے ھوئے حملہ آور کو دیکھا۔ یہ ایک لڑکا تھا مگر اس کے چہرے اور حلئے کو دیکھ کر میرے خوف میں اضافہ ھو گیا۔ افّ، کس قدر خوفناک چہرہ تھا اس کا۔ ۔ ۔ ! اور اوپر سے اس کے بڑھے ھوئے بال، میں نے ڈرتے ڈرتے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ھوئے ایک طرف کو جست لگائی۔ وہ عجیب انداز سے مجھے دیکھ رھا تھا۔اس کے کپڑے بھی جگہ جگہ سے پھٹے ھوئے تھے، اور اس نے اپنے آپ کو سردی سے بچانے کے لئے اپنے اوپر کوئی سویٹر یا جرسی نہیں پہنی تھی،نہ ھی چادر نام کی کوئی چیز اوڑھی ھوئی تھی۔ میں نے محسوس کیا، کہ میرے چلّانے سے وہ بھی خوفزدہ ھو گیا تھا۔ کیونکہ وہ بھی اب مجھ سے دور ھو کے کھڑا ھو گیا تھا۔ اس کا انداز بتا رھا تھا، کہ اس کو میرا چلّانا ذرا پسند نہیں آیا۔ اس کو خوفزدہ دیکھ کر ایک بات تو یقینی ھو چکی تھی، کہ اب وہ میرے نزدیک نہیں آنا چاھتا تھا۔ سو میں نے اسے غور سے دیکھنا شروع کیا۔ اسی اثناٴ میں ھمارے پڑوسیوں کی بیٹھک کا دروازہ کھلا، اور اس میں سے اشرف، اور اصغر باھر آ گئے۔ یہ دونوں چاچے کرم دین کے بیٹے تھے، اور سگے بھائی تھے۔ ان کی عمریں اندازاْ اٹھارہ سال، اور بیس سال تک رھی ھوں گی۔ وہ سیدھے ھماری طرف ھی آ رھے تھے۔ انہوں نے دور سے ھی آواز لگائی۔ " ڈرنے کی ضرورت نہیں ھے فیروز بھائی۔ یہ ھمارے مہمان ھیں۔ ھم انہی کو ڈھونڈ رھے تھے۔ " پڑوسی ھونے کے ناطے وہ مجھے جانتے تھے، اور روشنی کی وجہ سے انہوں نے مجھے دور سے ھی پہچان بھی لیا تھا۔ مگر مجھے یہ جان کر تعجّب ھوا، کہ وہ پاگل آدمی ان کا مہمان ھے، اور یہ، کہ اس سے ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
میں نے ان سے سلام دعا کے بعد، اس آدمی کی حرکت شکوہ کناں انداز میں ان کو بتائی۔ میں اس آدمی پر ناراض بھی تھا، اور اس پاگل کو دیکھ کر پریشان بھی تھا۔ مجھے الجھن سی محسوس ھونے لگی تھی۔ اس کی اداس آنکھیں ، ، ، ایسے محسوس ھوتا تھا، کہ ، شائد میں نے اس آدمی کو پہلے بھی کہیں دیکھا ھے ، ، ، ، مگر کہاں دیکھا ھے، یہ بالکل بھی یاد نہیں آ رھا تھا۔ اشرف اور اصغر نے معذرت کی، کہ ان کی لاعلمی میں وہ آدمی گھر سے نکل آیا۔ آئندہ وہ اس آدمی کا پورا پورا خیال رکھّیں گے۔ میں نے جب اس آدمی کے بارے میں دریافت کیا، کہ وہ کون ھے، اور ان کے گھر میں کیا کر رھا تھا، تو جواب میں اشرف نے معذرت کے بعد، مجھے رخصت کرتے ھوئے کہا، "ابھی آپ سفر سے آئے ھیں فیروز بھائی، سردی بھی آپ کو لگ رھی ھو گی۔ گھر جائیے، اور آرام کیجئے۔ صبح آپ کو اس آدمی بارے میں تمام تفصیل بتا دوں گا۔"
میں سمجھ گیا، کہ اشرف اس آدمی کے سامنے اس کے متعلّق کوئی بات نہیں کرنا چاھتا تھا۔ میں نے بھی کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ مجھے اچھّی طرح سے معلوم تھا،کہ اگر اشرف نے کہا ھے، تو صبح وہ مجھے ساری حقیقت ضرور بتائے گا۔ ، ، ، لیکن ایک بات کا تو مجھے سو فیصد یقین ھو چکا تھا، کہ وہ آدمی، یقیناْ پاگل ھی ھے، جس کے لئے وہ یہ الفاظ استعمال کر رھے تھے، کہ وہ ان کی لاعلمی میں گھر سے نکل آیا تھا۔ اور یہ کہ، وہ آئندہ اس کا زیادہ خیال رکھّیں گے۔
وہ پاگل ٹائپ آدمی،جو کہ شائد میرا ھم عمر ھی رھا ھو گا، ان کو قریب دیکھ کر کافی حد تک نارمل ھو چکا تھا۔ ابھی تک خاموش کھڑا ھوا تھا، اچانک زور زور سے ھنسنے لگا۔ ھم تینوں چونک گئے۔ اس کے ھنسنے سے اس کا چہرہ اور بھی بھیانک محسوس ھو رھا تھا۔ اس کے منہ سے رالیں بہ رھی تھیں، جو اس کی ٹھوڑی سے ھوتی ھوئی اس کی پھٹی ھوئی قمیض اور سینے پر منتقل ھو رھی تھیں۔ اس لمحے مجھے اپنے دل میں پہلی بار اس آدمی کے لئے ھمدردی محسوس ھوئی۔ نہ جانے کس دکھیاری ماں کا بیٹا تھا،جو جوانی میں ھی پاگل ھو چکا تھا۔ بیچارے کو اپنا ذرّہ برابر ھوش نہیں تھا۔ ر وہ آدمی زور سزور سے ھنستے ھوئے اچانک خاموش ھوا، مجھے مخاطب کرنے کے لئے میرے نزدیک ھوا، اور بولا۔ " تم نے میری کوثر کو دیکھا ھے ؟ ابھی یہیں تھی۔ نہ جانے کہاں چلی گئی۔ ؟ ، ، ، اور میں اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر اس کا منہ تکنے لگا۔
یقیناْ، یہ کوئی مریض۔ محبّت تھا،
جو اپنی کسی کوثر نامی محبوبہ کا نام لے کر مجھ سے اس کا پتہ جاننے کی کوشش کر رھا تھا۔ اس وقت اشرف اور اصغر کے چہروں پر میں نے صاف ناگواری محسوس کر لی تھی۔
اچانک، بالکل اچانک، وہ پاگل رونے لگ گیا۔ اشرف اور اصغر نے ایک دم سے اسکی جانب دیکھا۔ وہ سسکیاں لے کر رو رھا تھا۔ میں بھی اس کی اس اچانک کیفیّت پر حیران تھا۔ اصغر نے اس کا چہرہ اپنے کاندھے سے لگا لیا، اور اس کو چپ کروانے لگا۔ وہ اس کو ایسے چپ کروا رھا تھا، گویا، وہ ایک یا دو سال کا کوئی بچّہ ھو۔ وہ پاگل بھی اس کے کاندھے پر سر رکھّ کر رو رھا تھا۔ آخر کچھ دیر رونے کے بعد، وہ اچانک چپ ھو گیا۔ اس کے منہ سے بہنے والی رالیں اب پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے بہ رھی تھیں۔
اصغر اس بیچارے کا منہ اپنی چادر سے صاف کرنے میں لگ گیا۔ وہ اس کو بہت ھی پیار سے ٹریٹ کر رھا تھا۔ اس سے ظاھر ھوتا تھا، کہ ان کے چہروں پر یک دم در آنے والی ناراضگی، اس پاگل کے رویّے سے نہیں، بلکہ اس لڑکی کے نام لینے سے آئی تھی، جس کو اس پاگل نے " کوثر " کہ کر پکارا تھا۔ اصغر اس پاگل کا منہ انتہائی توجّہ سے صاف کر رھا تھا۔ اشرف اس دوران خاموش کھڑا رھا۔ وہ آدمی مسلسل مجھے ھی گھور رھا تھا۔ میں نے پھر سے اپنے دماغ پر زور ڈالا، مگر میں اس آدمی کو نہ پہچان سکا۔
ضرور یہ محبّت میں ناکامی کا ھی کیس لگتا ھے،،،!
میں دل ھی دل میں سوچ رھا تھا۔
اب تو میرے اندر اس آدمی کے بارے میں جاننے کا تجسّس مزید بڑھ گیا تھا۔ چنانچہ میں نے دل میں مصمّم ارادہ کر لیا، کہ کل صبح ھوتے ھی اس آدمی کے بارے میں اشرف وغیرہ سے ضرور معلوم کروں گا، کہ یہ کون ھے، اور اس کی کہانی کیا ھے۔ اس کے بعد، میں نے ان کو خدا حافط کہا، اور ھم اپنے اپنے گھروں کو چل دئے۔
اگلے دن میں دس بجے کے قریب میں، اشرف وغیرہ کی بیٹھک میں اشرف کے ساتھ ، موجود تھا۔ پڑوسی ھونے کے ناطے، ھمارا ایک دوسرے کے گھر میں کافی آنا جانا تھا۔ اس کے گھر سے بن کر آنے والے گرما گرم پراٹھے ابھی ابھی ھم نے صاف کئے تھے، اور اب بھاپ اڑاتی چائے سے بھرے ھوئے کپ اٹھائے، ھم دونوں باتوں میں مصروف تھے۔ ھماری گفتگو کا محور ، ظاھر ھے، کہ وھی آدمی تھا۔ میں نے اشرف سے ابتدا میں ھی کہ دیا تھا، کہ اگر وہ بتانا چاھتا ھے، تو صرف سچّ بتائے۔ اس لئے، کہ اس آدمی کے بارے میں افسانوی قسم کی اور من گھڑت داستان سننے سے بہتر ھے، کہ میں اپنا وقت ضائع نہ کروں۔
میں نے اپنے طور پر یہ کہ کر اشرف پر نفسیاتی وار کیا تھا، تا کہ وہ اس آدمی کی کہانی سناتے وقت صرف حقیقت بیان کرے، اور جھوٹ سے مکمّل پرہیز پر مجبور ھو جائے۔ لیکن اس نے مجھے یقین دلایا، کہ" فیروز بھائی، میں آپ کی طبیعت سے اچھّی طرح سے واقف ھوں۔ اس لئے یقین کریں، میرا پہلے بھی آپ سے اس متعلّق جھوٹ بولنے کا قطعی ارادہ نہیں تھا۔ "
اس کی اس بات سے میں مطمئن ھو گیا۔
اب اشرف نے اس آدمی کی داستان سنانا شروع کی۔ اس نے سب سے پہلے مجھے ھی مخاطب کیا۔ " فیروز بھائی، میں حیران ھوں، کہ آپ نے بھی اس بیچارے کو پہچانا نہیں ھے ۔ "
" کیا مطلب ؟ " میں ایک دم مسے سیدھا ھو کر بیٹھ گیا۔ " کیا میں اس آدمی کو جانتا ھوں ؟ "
" جی ھاں فیروز بھائی۔ " اشرف نے ایک اور دھماکہ کیا۔ میں اسے حیرانی سے دیکھ رھا تھا۔
" مگر یہ کون ھے، اور میں اسے کیسے جانتا ھوں؟ " میں نے پھر سے سوال کیا۔ ساتھ ھی ساتھ میں نے اپنے ذھن پر زور دے کر پھر سے یاد کرنے کی کوشش کی۔ میرے پردہٴ تصوّر اس آدمی کا چہرہ لہرایا۔ لیکن لاکھ کوشش کے باوجود بھی میں اپنی شناسائی کے خانے میں سے اس کا چہرہ نہ ڈھونڈ سکا۔
اشرف دھیرے سے مسکرایا، اور بولا۔
" اس کا نام واجد ھے۔ ، ، ، واجد عرف واجی۔ "
میں نے جونھی اس کے منہ سے یہ نام سنا، مجھ پر حیرتوں کے پھاڑ ٹوٹ پڑے۔
واجد عرف واجی۔ ۔ ۔ یہ تو اشرف کا پھپھو زاد کزن تھا، جو کہ تین کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ایک اور گاؤں میں رھتا تھا۔ اور اسی واجد عرف واجی کے ساتھ میرے بچپن کے دن کھیلتے ھوئے گزرے تھے۔ وہ جب بھی اشرف وغیرہ کے گھر میں آیا کرتا تھا، ھم دونوں ضرور ملتے۔ اس وقت کے ھم عمر دوستوں میں، واجی میرا سب سے اچھّا دوست تھا۔ ھم نے بچپن کے پانچ سال ایک ساتھ کھیل کود کر گزارے تھے۔ پھر میں شہر میں چلا گیا تھا۔ اس کے بعد، اگلے دو سالوں میں واجد سے چند ایک بار ھی ملاقات ھو سکی تھی، وہ بھی اشرف کے گھر پر۔ غالباْ وہ بھی کسی شہر میں چلا گیا تھا، اور ھمارے گاؤں میں کم کم ھی آتا تھا۔ پھر مجھے اس کی کوئی خیر خبر نہ مل سکی تھی۔ ھم اس کے بعد، ھمارے گاؤں میں بھی کبھی اکٹھّے نہ ھو سکے تھے۔
اور آج، اتنے سالوں بعد، واجد، عرف واجی، میرے سامنے اس حال میں آیا تھا، کہ اس کو اپنی ھوش تک نہیں تھی۔ اور میں، فیروز، جس کے ساتھ اس نے بچپن گزارا تھا، وہ بھی اس کو پہچان نہیں سکا تھا۔
میرے اندر کی کیفیّت ایک دم سے عجیب ھو گئی تھی۔ مجھے یقین ھی نہیں آ رھا تھا، کہ اشرف جو کہ رھا ھے، وہ واقعی سچّ ھے۔
" کیا یہ واقعی وھی واجی ھی ھے۔ میرے بچپن کا دوست، واجد، عرف واجی، ، ، ، کیا یہ واقعی وھی ھے ، ، ، ، ، ، ، ، ؟ "
میں اپنے اندر سوچ رھا تھا۔ اشرف نے ایک بار پھر سے دھرایا۔ " جی ھاں فیروز بھائی۔ اب آپ کو یاد آیا ھے یہ بد نصیب۔ یہ واجد ھی ھے۔ آپ کے بچپن کا دوست۔ بچپن میں آپ کے ساتھ ھنس ھنس کر کھیلنے والا میری پھوپھی کا اکلوتا بیٹا واجد۔ واجد عرف واجی۔ "
اشرف نے ابھی اتنا ھی کہا تھا، کہ وہ رونے لگ گیا۔ اس کو روتا دیکھ کر مجھے بھی ایسے محسوس ھوا، کہ میں بھی شائد رو دوں گا۔ لیکن ، ، ، ، میں ایسا نہ کر سکا۔ میری عجیب قسم کی طبیعت نے مجھے ایسا نہ کرنے دیا۔ البتّہ اشرف کو تسلّی دینا میرا فرض تھا، سہ میں نے اپنا کپ ایک طرف رکھّا، اور اشرف کو بازو سے پکڑ کر، تسلّی دیتے ھوئے اس کو خاموش کروانے کی کوشش کرنے لگا۔ اشرف کچھ دیر میں پر سکون ھو گیا۔ واقعی، سگا رشتہ تو دور، کوئی عام انسان بھی ھو، اس کو اس حال میں دیکھ کر،اس کے لئے، کم از کم درد مند دل رکھنے والا انسان، تو ضرور روتا ھو گا۔ چاھے وہ رونا ایک بار کے لئے ھی کیوں نہ ھو۔ اور اشرف تو اس کا سگا بھی تھا، اور اوپر سےاچھّا خاصا نرم مزاج انسان بھی تھا۔
اشرف کو تو میں نے جیسے تیسے چپ کروا دیا تھا۔ مگر اب میں اندر سے بے حد دکھّی ھو گیا تھا۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رھا تھا، کہ جو کچھ مجھے ابھی ابھی اشرف نے بتایا ھے، وہ سچّ ھے۔
لیکن وہ سب کچھ واقعی میں سچّ ھی تھا۔ اور میرے یقین کرنے یا نہ کرنے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔
جب ھم دونوں کچھ نارمل ھو چکے، اور دوبارہ سے اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے، تو میں نے اس سے دوبارہ سے بات شروع کرنے کو کہا۔
اس نے واجد کی کہانی یوں بیان کی۔
" واجد کا بچپن تو آپ کے سامنے ، بلکہ آپ کے ساتھ ھی گزرا ھے۔ اس لئے میں وہاں سے شروع کرتا ھوں، جب آپ اور وہ جدا ھو چکے تھے۔
واجد جب بچپن سے جوانی کی حدوں کو پہنچا، تو اس کےمعصوم بچپن نے ایک حسین نوجوان کا روپ دھار لیا تھا۔ وہ اپنی والدہ کا اکلوتا بیٹا ھونے کی وجہ سے سب کا لاڈلا تو تھا ھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ بلاٴ کا ذھین بھی تھا۔ اس نے لاھور کے ایک پرائیویٹ کالج میں داخلہ لیا، تو شروع شروع میں سب شہری لڑکے اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ لڑکیاں اور لڑکے اس کو پینڈو کہ کر چھیڑتے، مگر جلد ھی اس نے سب پر اپنی ذھانت کی دھاک بٹھا دی۔ سب کو اندازہ ھو گیا تھا، کہ ایک سادہ اور پینڈو نظر آنے والا یہ لڑکا، کس قدر خدا داد صلاحیّتوں کا مالک ھے۔ سبھی لڑکے اور لڑکیاں اب اس کی قدر کرنے لگ گئی تھیں۔
کالج کے تمام پروفیسرز بھی اب واجی سے بے حد متاٴثّر ھو چکے تھے۔
کئی لڑکیاں، تو اب واجی کو کسی اور ھی نظر سے دیکھنا شروع ھو گئی تھیں۔ اتنا ھی نہیں، کئی ایک نے تو اس سے کھلم کھلا اظہار محبّت بھی کر دیا تھا۔ یہ وہ لڑکیاں تھیں، جو محبّت کے نام پر جسم کی آگ بجھانا چاھتی تھیں۔
واجی ایک گاؤں میں پلا بڑھا تھا۔ پھر اس کی ماں نے اس کی تربیت ایسے انداز سے کی تھی، کہ وہ اپنے مظبوط کردار کی حفاظت کرنے میں کامیاب رھا۔ کسی بھی مرحلے پر وہ نہیں ڈگمگایا۔
اتنا تو آپ بھی جانتے ھیں، کہ گاؤں اور شہر کے ماحول میں کس قدر فرق ھوتا ھے۔ اسی لئے، واجی نے ان بے باک لڑکیوں کی کسی بھی اوچھی حرکت کا حوصلہ افزا جواب نہ دیا۔ اسی وجہ سے وہ کالج میں "ذھین " کے ساتھ ساتھ " شریف " کے نام سے بھی مشھور ھونا شروع ھو گیا تھا۔ کئی لڑکیوں نے تو اس کو " نامرد" تک کا خطاب دے ڈالا تھا، مگر واجی نے کسی بھی بات کا برا نہیں منایا تھا۔ اس کی نظریں صرف اور صرف اپنے مقصد پر ٹکی تھیں۔
اور اس کا مقصد تھا، " کمپیوٹرز سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری۔ "
واجی کالج میں اٹھنے والے ھر طوفان کو کامیابی سے عبور کر کے اپنی منزل کی جانب محو۔ سفر تھا، جب ، ، ، ، اس لڑکی نے کالج میں داخلہ لیا۔ "
اتنا کہ چکنے کے بعد، اشرف چند لمحوں کے لئے خاموش ھوا۔ میں مکمّل توجّہ سے اس کی بات سن رھا تھا۔ یہاں پہنچ کر اس کا یہ وقفہ مجھے ناگوار گزرا، مگر میں نے اپنی ناگواری چھپاتے ھوئے، اس سے سوال کیا، " کون سی لڑکی ؟ "
اور اس نے جواب میں کہا۔ " وہی، جس کا نام واجی نے رات کو بھی لیا تھا۔ "
میں نے کہا۔
" تمھارا مطلب ھے، کوثر نے ؟ "
اور اشرف نے کہا۔
" جی ھاں، کوثر نے ۔ اور یہی وہ دن تھا، جب واجی کی بربادی کا آغاز ھوا تھا۔ "
میری تمام حسیّات سمٹ کر میرے کانوں میں آ چکی تھیں۔ اتنا تو مجھے ابھی بھی یاد تھا، کہ رات کو واجی نے واقعی، کسی کوثر نامی لڑکی کا نام ھی لیا تھا۔
تو گویا، وہ کوثر نامی لڑکی اس کو لاھور میں ملی تھی، جو اس کے پاگل پن کی ذمّہ دار تھی۔ ۔ ۔ ۔ ! "
میں اپنے دل میں سوچ رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشرف کے منہ سے اب یقیناْ کوثر اور واجی کا تعلّق واضح ھونے والا تھا۔
میں اشرف کے مزید بولنے کا منتظر تھا، مگر اچانک واجی بیٹھک میں داخل ھوا۔ اشرف اس کو دیکھ کر خاموش ھو گیا۔
مجھے بھی انداہ ھو گیا تھا، کہ واجی کے سامنے کوثر کا ذکر واجی کی ذھنی حالت کے پیش نظر مناسب نہیں تھا۔ سو میں بھی چپ رھا۔ واجی کمرے میں آ کر میری طرف ھی دیکھ رھا تھا۔ شائد وہ بھی مجھے کسی حد تک پہچاننے کی کوشش کر رھا تھا۔
اس کا اس طرح سے دیکھنا مجھے بے چین کر رھا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے اب بچپن کے مناظر پھر سے واضح ھونا شروع ھو گئے تھے۔ ، ، ، وہ بچپن، جس میں میرے ساتھ واجی کھیلا کرتا تھا۔ واجی کا معصوم چہرہ اس لمحے میری آنکھوں میں اتر آیا تھا۔ ، ،، کتنا معصوم ھوا کرتا تھا واجی،
، ،، ،
اور آج کا واجی، ،، کتنی اذیّت بھری زندگی گزار رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔!
میرا دل بھر آیا، مگر میں جانتا تھا، کہ مجھے اپنے آپ پر قابو رکھنا ھو گا۔ چنانچہ میں نے جلد ھی اپنے آپ کو سنبھال لیا۔
واجی بالکل خاموش کھڑا تھا۔ اشرف نے اس کو انتہائی پیار سے اپنے پاس بلاکر اپنے پاس بٹھا لیا۔ اس نے واجی سے پیار بھری دو تین باتیں کیں۔ اس دوران واجی بالکل پر سکون نظر آ رھا تھا۔ البّتہ کبھی کبھی سہمی سہمی ھوئی نظروں سے وہ مجھے بھی دیکھ رھا تھا۔ اس کی کیفیّت سمجھ سے بالاتر تھی۔ کبھی وہ مجھے سہمی ھوئی نظروں سے دیکھتا، تو کبھی وہ میری طرف دیکھتے ھوئے مجھے پہچاننے کی کوشش کرتا۔
چند لمحوں بعد، واجی اشرف کے کہنے پر، برتن اٹھا کر بیٹھک سے واپس گھر چلا گیا۔ "اس کو جاتے ھوئے دیکھ کر کوئی عام آدمی یہ جان نہیں سکتا، کہ جانے والا یہ آدمی اپنے ھوش کھو چکا ھے۔ ، ، ، اور کسی کی محبّت میں پاگل ھو چکا ھے۔ ، ،، ، ، !"
اس کی پشت پر نظریں گاڑے میں سوچ رھا تھا۔ میں نے محسوس کیا، کہ اس بات کو سوچتے ھوئے درد کی ایک ٹیس میں نے اپنے دل میں محسوس کی تھی۔
اشرف نے واجی کے جانے کے بعد، میری طرف دیکھا۔ میں نے اپنے چہرے پر آنے والے درد کو اندر جذب کرتے ھوئے اس سے کہانی دوبارہ سے شروع کرنے کے لئے کہا۔
اس نے بات وھیں سے شروع کی، جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا۔
" یہ بھی واجی کی بد قسمتی تھی، کہ کوثر سے اس کا سامنا اسی دن ھو گیا، جس دن وہ داخلہ لینے کے آئی تھی۔
کوثر ایک بے حد حسین لڑکی تھی، اور اس میں صنف مخالف کے لئے ایک عجیب طرح کی کشش موجود تھی۔ لڑکے خواہ مخواہ ھی اس کی طرف متوجّہ ھونا شروع ھو گئے تھے۔ کوثر بھی اپنی اس خوبی سے واقف تھی، سو وہ بھی اس طرح کی کیفیّات کو خوب انجوائے کیا کرتی تھی۔ آج کالج میں بھی بظاھر انتہائی خاموشی سے اپنے بھائی کے ساتھ چلنے والی کوثر اندر ھی اندر بے حد لطف اندوز ھو رھی تھی۔
واجی بھی سامنے سے آ رھا تھا۔ اپنے کسی دوست کے کہنے پر اس نے سامنے سے آنے والی لڑکی کو دیکھ تو لیا تھا، مگر پھر وہ پلکیں جھپکانا ھی شائد بھول گیا تھا۔ ، ، ، کالج کی کسی بھی حسین سے حسین تر لڑکی کو اک نظر نہ دیکھنے والا واجی آج ایک نئی آنے والی حسینہ کے حسن کی تاب نہ لا سکا تھا۔
واجی وہیں کھڑا کوثر کو دیکھتا رہ گیا۔ اور کوثر اس کے پاس سے مسکراتی ھوئی گزر گئی۔
واجی اب سب کچھ بھول چکا تھا۔ اسے اگر یاد تھا، تو صرف یہ، کہ کالج میں ایک نئی لڑکی داخل ھوئی ھے، اور اس کو دیکھنا واجی کے لئے عبادت سے کم ھر گز نہیں ھے۔ کوثر کے دیدار کی خاطر اس نے اپنے کئی کئی لیکچر مس کر ڈالے تھے۔ کبھی کوثر اسے نظر آتی، تو اس کے دیدار سے اس کے من میں لگی آگ کو جز وقتی تسلّی مل جاتی۔ لیکن جس دن وہ کوثر کو نہ دیکھ پاتا، اس کا سارا دن ھی انتہائی بے کلی میں گزر جاتا۔ نہ وہ کھانا کھاتا، نہ ھی کسی سے سیدھے منہ بات کرتا۔ ، ،، اسے بس یہی فکر دامن گیر رھتی، کہ کاش، ،کسی طرح سے دیدار یار میسّر آ جائے۔
اس کے تمام دوست، اس کی اس اچانک بدلتی کیفیّت پر، جہاں شروع شروع میں حیران ھوا کرتے تھے اور اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے، اب اچھّے خاصے پریشان ھو چکے تھے۔ یقیناْ ان کو احساس ھو چکا تھا، کہ واجی کی یہ کیفیّت کوئی عام کیفیّت نہیں ھے۔ ، ،
، ، ،، واجی کوحقیقت میں کوثر سے عشق ھو چکا تھا۔ اور یہ بہت سنگین صورت حال تھی۔
واجی کا کالج میں کئی بار کوثر سے آمنا سامنا ھوا تھا، مگر وہ ابھی تک اس سے اپنے دل کی بات کہ نہیں پایا تھا۔ اس لئے نہیں، کہ وہ ڈرپوک تھا، بلکہ اس لئے، کہ اس کے نزدیک یہ بات کوئی ضروری نہیں تھی۔ کوثر کو چاھنا اس کے نزدیک ایک عبادت تھی، اور یہ عبادت کوثر کو بتائے بغیر بھی کی جا سکتی تھی۔
، ، ، ھاں، اگر کوثر کو بھی اس سے محبّت ھو جائے، تب اور بات تھی۔
، ، ، اس کے دوست اس کے خیالات سن کر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے، کہ واجی اچھّا خاصا شیکسپئر بنتے بنتے اچانک مجنوں کیسے بن گیا۔
کالج میں اس کے دوستوں کی تعداد بھی بے حد مختصر تھی۔ اس نے کالج میں صرف دو بہترین دوست بنا رکھّے تھے، جو واجی کی اندرونی کش مکش سے مکمّل طور پر آگاھی رکھتے تھے۔ باقی سلام دعا والے ھی تھے۔
ان دونوں دوستوں نے واجی کو طریقے سے سمجھانا شروع کیا، کہ کوثر سے محبّت میں وہ اپنے اصل مقصد سے ھٹ رھا ھے، اور یہ ، کہ اس کو اپنے آپ کو سنبھال کر چلنا ھو گا۔ کوثر کی نگاہ التفات اس کے لئے ھر گز
نظرنہیں آتی تھی، اس لئے اس کو بھی اس خیال سے اپنی جان چھڑانی ھو گی۔
سلمان اور ضیاٴ ( واجی کے دونوں دوست ) نے ھر طرح سے کوشش کر کے دیکھ لیا تھا، مگر واجی پر ان کی کسی بھی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ھوا۔
وہ جو محبّت کو ایک فضول اور بکواس لفظ قرار دیا کرتا تھا، آج خود اسی عنوان کی ایک داستان بننے جا رھا تھا۔
واجی کی یہ دیوانگی کوثر سے ڈھکی چھپی نہ رہ سکی۔ کسی نہ کسی طرح سے اس کو خبر مل ھی گئی، کہ کالج میں اس کے کئی آوارہ عاشقوں کے درمیان ایک ایسا خاموش عاشق بھی موجود ھے، جس نے آج تک دوسرے لڑکوں کی طرح سے اس کا راستہ نہیں روکا تھا، جس نے کبھی اس پر کوئی فقرہ تک نہیں کسا تھا۔ یہاں تک کہ جس راستے سے کوثر آرھی ھوتی تھی، واجی اکثر وہ راستہ ھی بدل دیا کرتا تھا،
لیکن ان سب باتوں کے باوجود، واجی اس کی محبّت میں گرفتار بھی تھا۔ اور اب تک کے کوثر کے تمام عاشقوں میں سب سے منفرد تھا۔
کوثر بھی واجی سے کسی حد تک واقف ھو چکی تھی، لیکن ابھی تک اسے واجی کا صرف یہی تعارف حاصل تھا، کہ واجی ایک انتہائی شریف، محنتی اور ذہین سٹوڈنٹ ھے۔
آج جب اس کی سہیلی نے اسے واجی کی محبّت سے آگاہ کیا تھا، تو وہ حیران رہ گئی تھی۔
واجی کے بر عکس، کوثر ایک چنچل، مگر دوسروں کو ستا کر خوش ھونے والی لڑکی تھی۔ اسے دوسروں کو بے وقوف بنا کر بہت مزہ آتا تھا۔
اس نے اپنی سہیلیوں کو اکٹھّا کیا، اور واجی کو بے وقوف بنانے کا ایک پروگرام بنا لیا۔
اگلے دن واجی کو ایک لڑکی ملی، جس نے اسے کوثر کا ایک پیغام دیا، کہ کوثر آج اور ابھی، اس سے ملنا چاھتی ھے، مگر کالج سے باھر، (ماڈل ٹاؤن پارک میں۔)
واجی پر تو شادیٴ مرگ کی سی کیفیّت طاری ھو گئی۔ اس نے اپنی کتابیں اپنے دوست ضیاٴ کو تھمائیں، اور آناْ فاناْ پارک کے لئے روانہ ھو گیا۔ ضیاٴ ھکّا بکّا رہ گیا۔ اس نے واجی سے پوچھا بھی، کہ وہ اتنا خوش خوش کہاں جا رھا ھے۔ مگر واجی نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا۔
پارک میں ھونے والی ملاقات میں کوثر نے اس سے اظھار محبّت کر دیا۔ واجی خوشی سے پاگل ھو گیا۔ اس نے بھی اپنی دلی کیفیّت بیان کر دی۔ اس کے بعد، واجی اور کوثر نے وہاں کھڑے ھو کر ایک دوسرے کو اپنی محبّت کا یقین دلایا۔ اور کچھ وقت ساتھ گزارنے کے بعد، علیحدہ ھو گئے۔ لیکن واجی نہیں جانتا تھا۔ کہ آج کا یہ اظہار محبّت اسے کتنی بڑی آزمائش سے دوچار کرے گا۔
اب تو واجی اس سے اکثر ھی ملنے لگا تھا۔ کوثر اس سے خوب خرچہ بھی کرواتی تھی، اور اپنے ناز بھی اٹھواتی تھی۔ واجی اپنی خوشی سے اس کے لئے سب کچھ کر رھا تھا ۔ نہ اسے اپنی پڑھائی کے حرج کا احساس تھا، نہ ھی اپنی والدہ کے خواب ڈوبتے ھوئے نظر آ رھے تھے۔ اس کے سامنے تو بس کوثر ھی کوثر تھی۔ باقی سب کچھ تو اس کے ذھن سے نکل ھی چکا تھا۔
واجی نے اپنے دوستوں سے کوثر سے ملنے ملانے والی بات چھپائی تھی، مگر کہتے ھیں ناں، کہ عشق جیسی چیزیں چھپائے نہیں چھپتیں،
چنانچہ اس کے دوستوں کو بھی اس بات کی خبر ھو ھی گئی تھی۔
ضیاٴ اور سلمان حیران رہ گئے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ واجی ان سے بھی کچھ چھپا سکتا ھے۔
لیکن شام کو انہوں نے واجی سے پوچھا، تو اس نے پہلے تو پس و پیش سے کام لینے کی کوشش کی، مگر آخر کار اقرار کر ھی لیا۔
سلمان نے اسے سمجھانے کی ابتدا کرتے ھوئے کہا، کہ کوثر کے ساتھ اس کا ملنا ملانا مناسب نہیں ھے۔ واجی نے سنی ان سنی کر دی۔ ضیاٴ نے بھی واجی کو سھت سمجھایا، کہ واجی کوثر سے ملنا بند کر دے، کیونکہ واجی کے لئے کوثر سے ملنا نقصان دہ ثابت ھو سکتا ھے۔ اس کی تعلیم بھی متاٴثّر ھو رھی تھی۔ اور، ، ، ، ویسے بھی ان کی معلومات کے مطابق، کوثر کسی طور بھی شریف لڑکی نہیں تھی۔ اس کا کردار کسی طور بھی ایک شریف لڑکی سے میل نہیں کھاتا تھا۔
، ، ، ، ، ،
اس بات پر واجی ایک دم سے ھتھّے سے اکھڑ گیا۔ اس نے الٹے ھاتھ سے ضیاٴ کے منہ پر ایک زنّاٹے دار تھپّڑ رسید کر ڈالا۔ سلمان اور ضیاٴ ھکّا بکّا رہ گئے۔ پھر اس سے پہلے، کہ صورت حال مزید بگڑتی، سلمان نے ان کو دور دور کر دیا۔ مگر واجی نے ضیاٴ کی اس بات پر اس سے قطع تعلّق کر ڈالا۔ سلمان نے بھی اسے سمجھایا، کہ وہ حالات کو اپنی نظر سے نہ دیکھے، بلکہ ان پر ٹھنڈے دل سے غور کرے۔ مگر واجی کی آنکھوں پر تو کوثر کے عشق کی پٹّی بندھی ھوئی تھی۔ اس نے ان کی ایک نہ سنی، اور ان کے پاس سے چلا گیا۔
واجی کے جانے کے بعد، ضیاٴ نے سلمان سے مل کر ایک منصوبہ تشکیل دیا۔ در اصل ان دونوں کو کوثر کے بارے میں معلوم ھو چکا تھا، کہ وہ کس وقت کس کس سے ملتی ھے۔
کوثر نے کالج میں دو لڑکوں سے جسمانی تعلّقات استوار کر رکھّے تھے۔
ان میں سے ایک نے ضیاٴ کو اپنے راز سے آگاہ کر رکھّا تھا۔ اسی بناٴ پر ضیاٴ واجی کو سمجھانا چاھتا تھا، کہ وہ کوثر کے فریب میں نہ آئے۔ مگر واجی نے الٹا دوستی ھی ختم کر دی تھی۔ اور ضیاٴ پر ھاتھ بھی اٹھا دیا تھا۔، ، ، اب ضیاٴ اس تھپّڑ کا بدلہ کوثر سے وصول کرنے کے بارے میں سوچ رھا تھا۔
اگلے دن کوثر کالج نہیں آئی۔ در اصل وہ اپنے بوائے فرینڈ غنی( جو کہ ان کا ھی کلاس فیلو تھا اور شہر کے ایک معروف تاجر کا بیٹا تھا) کے ساتھ رنگ رلیاں منا رھی تھی۔
دسری طرف ضیاٴ بھی اسی جگہ موجود تھا، جہاں کوثر اور غنی ایک دوسرے کے جسم سے اپنی اپنی پیاس بجھا رھے تھے۔ یہ ایک کوٹھی تھی، جو کہ غنی نے کرائے پر لے رکھّی تھی۔ اس کام میں اس کے کچھ دوست بھی شامل تھے۔ ھر لڑکا، اپنی اپنی گرل فرینڈ کو یہاں لاتا ، اور کچھ وقت اس کے ساتھ گزار کر چلا جاتا۔ آج غنی کا نمبر تھا۔ اور آج کی یہ ملاقات غنی نے ضیاٴ کے کہنے پر ھی سیٹ کی تھی۔
ضیاٴ نے سلمان کو بھی اس بات سے آگاہ کر رکھّا تھا۔ سلمان کے ذمّے یہ کام تھا، کہ وہ کسی طرح سے واجی کو وہاں لے کر آتا۔
غنی جس کمرے میں موجود تھا، اس سے ملحقہ کمرے میں ضیاٴ موجود تھا۔ کوٹھی میں غنی نے کچھ ایسی سیٹنگ کروا رکّھی تھی، کہ جس کمرے میں غنی کوثر کی پھدّی مار رھا تھا، اس کے ساتھ والے کمرے میں موجود ضیاٴ سب کچھ دیکھ رھا تھا۔ اصل میں ان دو کمروں کے درمیان میں ایک ایسا شیشہ فٹ تھا، جس کی ایک سائیڈ سے دیکھا نہیں جا سکتا تھا، اور اسی طرف غنی کوثر کی جوانی سے اپنے آپ کو سیراب کر رھا تھا۔ شیشے کی دوسری طرف سے آر پار دیکھا جا سکتا تھا۔ اور اسی سہولت کی وجہ سے ضیاٴ اس وقت کوثر کو بے لباس دیکھ رھا تھا۔ اسے اب شدّت سے سلمان کا انتظار تھا۔
جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رھا تھا، ضیاٴ کی پریشانی میں بھی اضافہ ھوتا چلا جا رھا تھا۔، ، ،
لیکن آخر سلمان واجی کو لے کر وہاں پہنچ ھی گیا۔ ضیاٴ ان کو دیکھ کر کمرے سے باھر نکل آیا، اور کمرے کو کنڈی لگا دی۔ در اصل وہ واجی کو ایک دم سے سب کچھ نہیں دکھانا چاھتا تھا۔
وہ متوقّع صورت حال کے لئے پہلے اس کو ذھنی طور پر تیّار کرنا چاھتا تھا۔
یہ کوٹھی کا عقبی حصّہ تھا، جس میں وہ لوگ پیدل آمدورفت کر رھے تھے۔
واجی نے جب ضیاٴ کو دیکھا، تو اس کا موڈ پھر سے آف ھو گیا۔ مگر سلمان نے بات سنبھال لی، اور چند منٹ کی باتوں میں ان کی صلح بھی کروا ڈالی۔ ضیاٴ بہت خوش نظر آ رھا تھا، البتّہ واجی کے انداز میں پرانی گرمجوشی مفقود تھی۔
واجی ان سے پھر سے سوال کر رھا تھا، کہ وہ لوگ اسے یہاں کس مقصد کے تحت لے کر آئے ھیں۔ جواب میں ضیاٴ اور سلمان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، اور دونوں کے منہ سے ٹھنڈی سانسیں خارج ھو گئیں۔
یقیناْ اب واجی کو حقیقت دکھانے کا وقت آ چکا تھا۔
سلمان کے اشارے کے بعد،ضیاٴ نے کمرے کی کنڈی کھول دی، اور اس کو پیش بندی کے طور پر صرف اتنا کہا، "
اندر کمرے میں دیوار نما شیشہ فٹ ھے واجی۔ اس میں تمھیں تمھارے ھر سوال کا جواب مل جائے گا، مگر پلیز، شیشے کے پار سے جو کچھ بھی دیکھو، اسے ذرا حوصلے سے دیکھنا ۔ اس لئے، کہ شائد تم اس سب کو آسانی سے برداشت نہ کر سکو۔ "
واجی اس کی باتوں کو سن کر حیران ھوا، مگر سلمان نے اس کو پکڑ کر اندر کی جانب ھلکا سا دھکیلا، واجی کے لئے یہ ایک عجیب صورت حال تھی۔ جب اسے کچھ سمجھ نہ آئی، تو اس نے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے پیچھے پیچھے سلمان اور ضیاٴ بھی آ چکے تھے۔
واجی شیشے کے آر پار دیکھ چکا تھا۔ ، ، ، ، ، !
سلمان اور ضیاٴ اس کو بغور دیکھ رھے تھے۔ وہ سوچ رھے تھے، کہ واجی اس منظر کو دیکھ کر انتہائی شدید ردّ عمل بھی دے سکتا ھے، اسی لئے وہ چوکنّے ھو کر کھڑے تھے۔ ، ،، ،
مگر واجی نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔ وہ تو اس منظر کو اسیے دیکھ رھا تھا، گویا، اس کی آنکھیں پتھرا گئی ھیں، اور اس کے جسم سے روح نکال لی گئی ھے۔ ، ، ،
وہ بالکل بے جان بت کی طرح نظر آ رھا تھا۔
دوسری طرف کوثر اور غنی کا شرمناک کھیل جاری تھا۔ کوثر اس بات سے بالکل بےخبر تھی، کہ اس کو اس حالت میں اس کے تین کالج فیلو دیکھ رھے ھیں، جن میں سے ایک اس کا شدید ترین چاھنے والا بھی ھے۔
واجی کی کیفیّت ایک دم سے بگڑی تھی۔ پہلے تو اس کے منہ سے ایک چیخ بلند ھوئی تھی، اور اس کے بعد اس کی ٹانگوں نے اس کا وزن اٹھانے سے انکار کر دیا۔
وہ دھڑام سے زمین پر آ رھا۔ سلمان اور ضیاٴ گھبرا گئے۔ انہوں نے اس کو اٹھایا، اور کسی طرح سے ھاسپٹل لے گئے۔ دوسرے کمرے میں موجود غنی اور کوثر ان کی کسی بھی آواز کو نہ سن سکتے تھے، اس لئے کہ وہ کمرہ ساؤنڈ پروف تھا۔
واجی کو ھاسپٹل میں دو دن رکھّا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق واجی پر انتہائی قسم کا کوئی دماغی حملہ ھوا تھا۔
ھاسپٹل میں واجی کے ساتھ سلمان اور ضیاٴ باری باری ایک ایک رات ٹھہرے۔
دوسرے دن شام میں واجی کو ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔ داکٹر نے اس کو دوائی دے کر اس کے دوستوں کو واجی کا خیال رکھنے کا کہا تھا۔ واجی بیڈ پر لیٹا تھا۔ اس کی نگاھیں دور خلاٴ میں کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھیں۔ ابھی تک اس نے اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ سلمان نے ایک دو بار اسے بلانے کی کوشش کی تھی، مگر اس نے جواب میں سلمان کی جانب چند ساعتیں دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا تھا۔ ڈاکٹر بھی واجی کی اس کیفیّت کو دیکھ رھا تھا، مگر اس کے مطابق مریض کو اب علاج سے زیادہ گھریلو ماحول کی ضرورت تھی۔ آخر کار وہ لوگ واجی کو گھر لے آئے۔
واجی کمرے پر آ کر بھی گم سم ھی رھنے لگا تھا۔ اسے اپنی ھوش بھی نہیں رھی تھی۔
وہ کالج سے ایک ھفتے تک غیر حاضر رھا۔ حقیقت میں وہ اپنے کمرے تک ھی محدود ھو گیا تھا۔ سلمان اور ضیاٴ اس کا بھر پور خیال رکھ رھے تھے۔
اپنے دونوں دوستوں کی موجودگی میں ھمیشہ ھنس کر بات کرنے والا واجی اب ایسے ھو گیا تھا، جیسے اس مے منہ پر تالے لگا دئے گئے ھوں۔ کبھی کبھی کوئی بات کر لیا کرتا تھا، مگر زیادہ تر وہ خاموش رھتا تھا۔ بس دور کہیں دیکھتا رھتا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بھی دن میں کئی کئی بار رواں ھو جایا کرتے تھے۔ البتّہ اس کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلتا تھا، اس نے کوثر کی اس دن کی حالت پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ ایک دو بار سلمان اور ضیاٴ نے انتہائی محتاط انداز میں اس سے اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اس واقعے کے ذکر کے ساتھ ھی واجی کی حالت غیر ھو جاتی تھی، اس لئے انہوں نے اب اس قصّے کا ذکر کرنا بند کر دیا تھا۔
اس دوران کوثر نےاس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اس کا موبائل آف تھا۔ آخر ایک دن کوثر واجی کے کمرے پر آ گئی۔ اس کے ساتھ اس کی دو سہیلیاں بھی تھیں۔ واجی اس وقت کمرے میں اکیلا تھا۔ سلمان مارکیٹ گیا ھوا تھا۔ ضیاٴ بھی کسی کام سے باھر تھا۔ کوثر نے دستک دی، تو اندر سے واجی نے پوچھا، " کون ؟
یہاں پر ایک وضاحت بیان کرنا ضروری سمجھتا ھوں، کہ واجی کی کہانی کی ابتدا، میں نے اشرف سے ھی سنی تھی، مگر اس سے ملنے والی کہانی ادھوری تھی۔یعنی اس کہانی کی کئی جزئیات تشنہ تھیں، کیونکہ کئی باتوں کا اشرف کو بھی صحیح علم نہیں تھا۔ چنانچہ مجھے ساری کہانی مکمّل کرنے میں مزید محنت بھی کرنا پڑی تھی۔ یہاں تک ، کہ مجھے ایک بار لاھور بھی جانا پڑا، جہاں میں واجی کے دوستوں سلمان اور ضیاٴ سے بھی ملا، تب کہیں جا کر مکمّل کہانی میرے علم میں آ سکی تھی۔ یہ تو میں نے آپ سب دوستوں کی سہولت کی خاطر کہانی ایک ھی تسلسل میں بیان کر دی ھے۔ امّید ھے، آپ اس تسلسل پر تنقید کرنے کی بجائے اسے پسند کریں گے۔ )
اسیر۔ محبّت (آخری حصّہ)
جواب میں کوثر نے اپنا نام بتایا، تو کافی دیر تک کوثر کو کوئی آواز سنائی نہ دی۔ وہ حیران ھوئی، اور انتظار کرنے لگی، مگر واجی کی طرف سے کوئی ردّعمل سامنے نہ آیا۔ جب اسے وھاں کھڑے ھوئے دو منٹ مزید گزر گئے، تو کوثر کی ایک سہیلی نے دوبارہ دستک دی۔ اب کے واجی نے اندر سے ھی آواز لگا کر ان کو وہاں سے چلے جانے کا کہ دیا۔ کوثر اور اس کی سہیلیاں ھکّا بکّا تھیں۔ مگر واجی اندر سے باھر نہیں آ رھا تھا، اور نہ ھی کنڈی کھول رھا تھا۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ وہاں سے چلی جائیں، اور ان کو ایسا ھی کرنا پڑا۔ ان کو یہ تو معلوم نہیں تھا، کہ واجی نے ایسا کیوں کیا، مگر کوثر اس بات پر بہت پیچ و تاب کھا رھی تھی، اور اس نے دل ھی دل میں واجی سے اس بے عزّتی کا بدلہ لینے کا سوچ لیا تھا۔
کوثر اب کالج میں واجی کے آنے کا انتظار کرنے لگی تھی، مگر واجی سے اس کا سامنا کئی دن تک نہ ھو سکا۔ دوسری طرف اس کی ایک سہیلی نے کئی لڑکیوں کو یہ بتا دیا تھا، کہ واجی نے اس کے ساتھ اور کوثر کے ساتھ کیا سلوک کیا ھے۔ کوثر اس بات کی تشھیر پر اور بھی سیخ پا تھی۔ کوثر اب بظاھر واجی کا ذکر کسی سے بھی نہیں کر رھی تھی، مگر اس واقعے کے بعد اس نے دل ھی دل میں واجی کو سزا دینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
آخر کچھ دن کے بعد، کوثر کو واجی کالج میں نظر آ ھی گیا۔ اس دن کوثر نے واجی کا راستہ روک لیا اور اس دن کے حوالے سے اس سے گلہ کرنے لگی جب واجی نے کوثر کی آواز سن کر بھی دروازہ نہیں کھولا تھا۔ کوثر شائد اس سے توقّع کر رھی تھی، کہ وہ اس سے معذرت کرے گا، مگر واجی تو اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رھا تھا۔ آخر وہ کوثر کو اسی طرح حیران پریشان چھوڑ کر چلا گیا۔ کوثر اپنی آج کی تذلیل ، اور وہ بھی پورے کالج کے سامنے، برداشت نہ کر پائی۔ اس نے آگے بڑھ کر واجی کا راستہ روک لیا۔ واجی نے اس سے بچ کر جانا چاھا، مگر کوثر اپنے فطری غرور اور غصّے کے اثر میں آ چکی تھی۔ واجی نے جب دیکھا، کہ کوثر اس کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑ رھی، تو اس نے اس سے صاف صاف کہ دیا، کہ وہ کوثر سے کوئی دوستی یا محبّت نام کا تعلّق رکھنا نہیں چاھتا۔ اس بات پر کوثر مزید بھڑک گئی۔ کالج کے کئی لڑکے لڑکیاں ان کی طرف متوجّہ ھو رھے تھے۔ کوثر ان سب کے سامنے اپنے آپ کو تماشہ بنتے ھوئے محسوس کر رھی تھی اور اسی وجہ سے اسے واجی پر غصّہ آ رھا تھا جو لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جا رھا تھا۔ آخر ان کے درمیان بحث شروع ھوگئی، جو بڑھتے بڑھتے تلخ کلامی کی شکل اختیار کر گئی۔ کوثر اس بات پر واجی پر چیخ رھی تھی، کہ وہ ھوتا کون ھے، سارے کالج کے سامنے کوثر کی انسلٹ کرنے والا۔ ،، ، ، ۔ واجی اس کے انداز گفتگو پر حیران ھو رھا تھا، جب کوثر نے ایک اور دھماکا کر ڈالا۔
کوثر نے یہ کہ دیا تھا، کہ ، ، ، واجی سے اس کو کبھی بھی، ذرا بھی محبّت نہیں تھی، وہ تو اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر اس کو بے وقوف بنا رھی تھی۔ بھلا واجی جیسے ایک اجڈ، عام سی شکل والے پینڈو سے کوثر جیسی انتہائی خوبصورت لڑکی کیسے محبّت کر سکتی ھے۔
واجی نے اب تک کی کوثر کی تمام باتیں تو انتہائی تحمّل سے برداشت کر لی تھیں، مگر جب کوثر نے واجی سے محبّت کو بھی ایک ڈرامہ قرار دیا، تو واجی اپنا ضبط کھو بیٹھا۔ اس کے سامنے وہ تمام لمحات ایک سیکنڈ میں لہرا گئے، جب کوثر نے مختلف اوقات میں اس کے ھاتھوں میں ھاتھ ڈال کر اس سے اظہار محبّت کیا تھا۔ دوسری طرف اس کی آنکھوں میں وہ منظر بھی آیا تھا، جب اس نے کوثر کو بالکل ننگی حالت میں غنی کے نیچے دیکھا تھا، جب غنی اپنی کوٹھی میں کوثر کی پھدّی مار رھا تھا۔ اس کا نتیجہ انتہائی بھیانک ثابت ھوا،اور اس کا دماغ، اور ھاتھ ایک ساتھ گھوم گئے۔ تڑاخ کی آواز کے ساتھ واجی نے ایک زنّاٹے دار تھپّڑ کوثر کے گال پر رسید کر ڈالا تھا۔
کوثر کے وھم و گمان میں بھی نہیں رھا ھو گا، کہ واجی اچانک اس طرح کی جرّاٴت کا مظاھرہ بھی کر سکتا ھے۔ نتیجتاْ واجی کا تھپّڑ کھا کر کوثر پیچھے کو گرگئی تھی۔
پورا کالج دیکھ رھا تھا، اور واجی نے کوثر کو تھپّڑ دے مارا تھا۔ سب اپنی اپنی جگہ پر ساکت رہ گئے تھے۔
واجی نے کوثر کی گالیوں کا جواب ھاتھ سے دے ڈالا تھا۔ کئی دن کا جمع ھونے والا غبار شائد آج ایک تھپّڑ کے راستے نکل گیا تھا، مگر نہیں۔ ایک تھپّڑ اتنے دنوں کی تکلیف کا مداوا نہیں ھو سکتا تھا۔ واجی شائد کوثر کو اور بھی مارنا چاھتا تھا، مگر کالج کے کچھ لڑکوں نے واجی کو پکڑ لیا۔ واجی کے دوست وہاں موجود تھے، جو واجی کو موقع سے کھسکا کر لے گئے۔
واجی کی حالت بہت خراب ھو رھی تھی۔ وہ ابھی شائد کوثر پر مزید ھاتھ صاف کرنا چاھتا تھا۔ وہ کوثر کی یہ بات سہ نہیں پایا تھا، کہ کوثر نے اس سے محبّت کے نام پر مذاق کیا تھا۔ واجی نے تو کوثر کی محبّت کو ایک عبادت سمجھ کر انجام دیا تھا۔ اس نے تو کوثر کی محبّت کے نام پر اپنی تعلیم کے انتہائی قیمتی سال برباد کر ڈالے تھے۔ اس نے تو کوثر کو ھی اپنی زندگی کا حاصل سمجھ لیا تھا، اس نے تو نہ جانے کتنے سپنے سجا لئے تھے، اور اس کے سپنے تو کوثر کے کرداد کی کمزوری سے ختم ھوئے ھی تھے، مگر آج کوثر کی اس بات نے اسے بے حد اذّیت پہنچائی تھی، کہ کوثر نے اس سے محبّت کے نام پر بھی ایک مذاق ھی کیا تھا۔ محبّت کرنے والے ایسے ھی ھوتے ھیں۔ واجی بھی ایسا ھی تھا۔ اس نے کوثر کے کردار کی کمزوری کو تو برداشت کر لیا تھا، کہ کوثر اپنی مرضی کی خود مالک تھی، مگر کوثر نے محبّت کے نام پر واجی سے دھوکا اور مذاق کیا، یہ واجی کے لئے ناقابل برداشت ثابت ھوا تھا۔
کوثر کی محبّت کو ایک عبادت سمجھنے والا، آج اپنی ھی محبّت کی دیوی کے ظلم کا شکار ھو کر رہ گیا تھا۔
سلمان اور ضیاٴ واجی کو وہاں سے نکال کر کمرے پر لے گئے۔
دوسری طرف کوثر وہاں سے اٹھی، اور روتی ھوئی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔
اس کے بعد واجی کالج تو کیا، لاھور میں ھی نہ رہ سکا۔ وہ اپنے گاؤں چلا آیا تھا۔ اس کے دونوں دوستوں نے اس کے ساتھ گاؤں تک جانے کی کوشش کی تھی، مگر واجی نے سب کو منع کر دیا تھا۔ واجی اپنے کالج کے واقعے کو یہیں دفن کر کے جانا چاھتا تھا۔ وہ نہیں چاھتا تھا، کہ کالج کے دوستوں میں سے کوئی اس کے گاؤں میں جائے، اور ان کی زبانی اس کے گھر والوں کو یا گاؤں کے کسی بھی فرد کو کوثر والے واقعے کا پتہ چل جائے۔ وہ لاھور کی تلخ یادوں کو اپنے ساتھ گاؤں نہیں لے جا سکتا تھا۔ وہ اپنی محبّت کی تلخ یادوں سے دامن چھڑانے کے لئے ھی تو لاھور چھوڑ رھا تھا۔ لیکن اس کو معلوم نہیں تھا، کہ یہ محبّت اتنی آسانی سے کسی کا پیچھا نہیں چھوڑا کرتی۔ محبّت کرنے والے چاھے آپس میں ٹھیک رہیں، نہ رھیں۔ اور چاھے وہ ھمیشہ کے لئے جدا بھی ھو جائیں، مگر محبّت کا آسیب ان کے دلوں میں پنجے جمائے رکھتا ھے۔ یہ ایک ایسا عفریت ھے، جو محبّت کے میدان میں اترنے والوں کو ایک دن آخر نگل کے ھی دم لیتا ھے۔
گاؤں میں سب اس کی اچانک واپسی پر حیران تھے۔ اس کی والدہ کا دل اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر ڈول گیا۔ ابھی چند دن بعد ھی تو واجی کے سالانہ پیپرز تھے۔ ان دنوں میں واجی کا یوں اچانک گاؤں چلے آنا، اور وہ بھی ھمیشہ ھمیشہ کے لئے، ، ، ، وہ سمجھ گئیں ، کہ ضرور کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ھے۔ انہوں نے بڑی کوشش کی، کہ وہ واجی سے پوچھ سکیں، کہ آخر اس کو کیا ھو گیا ھے۔ لیکن واجی نے ان کو ٹال دیا۔
گاؤں واپسی کے بعد سے، واجی گھر میں ھی قید ھو کر رہ گیا تھا۔ اس کی والدہ اسے باھر دوستوں میں جانے کو کہتیں، تو وہ کبھی کبھی دوستوں کی محفل میں چلا جاتا، لیکن باھر جا کر بھی وہ چپ چپ رھتا۔ اس کے گاؤں کے کئی دوستوں نے بھی اس سے کئی بار بات پوچھنے کی کوشش کی، مگر واجی کسی کی بات کا کوئی جواب نہ دیتا۔ وہ تو جیسے سب سے ھی بیگانہ ھو گیا تھا۔ ھاں، کبھی کبھی جب اس کی والدہ اس کے پاس بیٹھ کر انتہائی پیار سے اس سے پوچھتیں، کہ آخر وہ اپنی ماں کو تو بتائے، کہ اس کو کیا غم ھے، آخر کس چیز کو اس نے دل کا روگ بنا لیا ھے۔ اور اس کے ساتھ ھی اس کی والدہ تسلّی دینے کے سے انداز میں کہتیں،
" اگر کسی لڑکی کا معاملہ ھے، تو بھی وہ کھل کر بتائے، کیونکہ پھر وہ خود اس لڑکی کے گھر جا ئیں گی، اور اس لڑکی کے والدین سے واجی کے لئے اس کا ھاتھ مانگ کر اسے واجی کی دلھن بنا کر گھر لے آئیں گی، ، ، ،"
تو واجی کا ضبط جواب دے جاتا، اور وہ اپنی والدہ کے گلے لگ کر رو دیتا۔ اس کی والدہ اپنے جوان اور اکلوتے بیٹے کو خاموشی سے دلاسہ دینے میں لگ جاتیں۔ واجی کی کیفیّت سے اتنا تو وہ بھی سمجھ چکی تھیں، کہ ان کا سادہ، معصوم اور نوجوان بیٹا شہر کی کسی پری پیکر سنگدل حسینہ کے تیر نظر سے گھائل ھو کر اس حالت کو پہنچا ھے۔لیکن ان کو ساری حقیقت معلوم نہیں تھی، اور یہی بات ان کی تشویش کا باعث تھی۔
واجی کے سامنے بہادر نظر آنے والی اس کی والدہ اکیلی بیٹھ کر خوب روتیں۔ وہ جانتی تھیں، کہ ان کا بیٹا ھر کسی لڑکی کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے نہیں ھے۔ اگر اس کی یہ حالت ھوئی ھے، تو ضرور واجی کی پسند لاکھوں میں ایک ھو گی۔ لیکن وہ بیچاری کیا کر سکتی تھیں۔ کیونکہ واجی کی حالت گواھی دے رھی تھی، کہ یا تو واجی کی پسند نے واجی کو ٹھکرا دیا تھا، اور یا پھر اس لڑکی نے واجی کو کوئی بہت بڑا دھوکا دیا تھا۔
واجی کی والدہ نے اپنے بیٹے پر بہت توجّہ دی۔ واجی اب ان سے پہلے کی نسبت بہتر انداز میں، کھل کر بات کرنے لگا تھا۔ لیکن ابھی تک اس نے ان کو بھی یہ نہیں بتایا تھا، کہ وہ اچانک کالج چھوڑ کر کیوں چلا آیا۔ اس کی والدہ بھی اپنے بیٹے کی طبیعت سے واقف تھیں۔ ان کو معلوم تھا، کہ ایک دن واجی اپنے منہ سے ھی ان کو سب کچھ بتا دے گا۔ وہ خاموشی سے اس دن کا انتظار کر رھی تھیں۔
واجی کی دن بدن سنبھلتی صحّت نے اس کی والدہ کے اندر بھی ایک حوصلہ پیدا کر دیا تھا، جب ایک دن اچانک واجی پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔
واجی کے دوستوں میں سے چند ایک ایسے بھی تھے، جن کی کئی کئی لڑکیوں سے بیک وقت دوستی تھی۔ ایک نے واجی کو کسی طرح سے بہلا پھسلا کر گاؤں سے باھر جانے پر راضی کر لیا۔ اس کے مطابق جنگل تک جانا تھا، اور کچھ لکڑیاں اٹھا کر واپس آ جانا تھا۔
گاؤں سے کچھ ھی فاصلے پر ایک جنگل موجود تھا، جس سے گاؤں والے لکڑی لاتے تھے جو جلانے کے کام آتی تھی۔ واجی جنگل میں اس کے ساتھ آ تو گیا تھا، مگر اسے معلوم نہیں تھا، کہ اس کے دوست کا اصل مقصد لکڑیاں نہیں تھیں، بلکہ ایک لڑکی تھی، جو کہ پہلے سے ھی جنگل میں موجود تھی۔ واجی کے دوست نے واجی کو کسی بہانے سے جنگل میں ایک جگہ پر بٹھا دیا، اور خود چند منٹ بعد آنے کا کہ کر جنگل کے اس حصّے میں گھس گیا، جہاں بہت زیادہ جھاڑیاں تھیں، اور ان کے بالکل درمیان میں خالی میدان تھا۔ اس میدان کے بارے میں صرف مقامی لوگوں کو ھی علم تھا، باھر سے دیکھنے والا کوئی اجنبی آدمی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا، کہ جنگل کے اتنے گھنے حصّے کے اندر کوئی خالی میدان بھی ھو سکتا ھے۔
واجی کافی دیر تک اپنے دوست کا انتظار کرتا رھا۔ جب اس کے دوست کو گئے دس منٹ سے بھی زیادہ گزر گئے، تو واجی بھی اسی سمت چل پڑا جس طرف اس کا دوست گیا تھا۔ واجی اس کو ڈھونڈتا ڈھانڈتا، جنگل کے اسئی حصّے میں پہنچ گیا، جہاں خالی میدان تھا۔ وہاں اس نے دیکھا، کہ اس کا دوست ایک ننگی لڑکی کے ساتھ اس کی چدائی میں مصروف تھا۔اس کے دوست نے لڑکی کی ٹانگیں اٹھائی ھوئی تھیں، اور زور زور سے اس لڑکی کو چود رھاتھا۔ واجی یہ منظر دیکھ کر ماضی میں پہنچ گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر آ گیا، جب اس نے کوثر کو غنی کے ساتھ اسی حالت میں دیکھا تھا۔ غنی کوثر کو بالکل اسی انداز میں چود رھا تھا، جیسے اس کا دوست اس وقت جنگل میں ایک لڑکی کو چود رھا تھا۔ واجی کی حالت خراب ھونا شروع ھو گئی۔ آخر واجی چلّا اٹھّا۔ اس کا دوست ایک دم سے ڈر کر لڑکی کے اوپر سے اٹھ گیا۔ لڑکی گھبرا گئی تھی، اس نے واجی کی منّت کرتے ھوئے راز داری کی درخواست کرتے ھوئے بدلے میں واجی کو اپنی پھدّی آفر کر دی تھی۔ اس کا دوست بھی واجی کے سامنے شرمندہ کھڑا تھا۔ مگر واجی تو کسی اور ھی جگہ پر پہنچا ھوا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ھو چکے تھے اور وہ اونچی اونچی آواز میں رو رھا تھا۔ روتے روتے ھی وہ نیچے گر پڑا۔ اس کی حالت اب بہت خراب ھو گئی تھی۔ واجی کا دوست گھبرا گیا۔ ان کو واجی کی اس کیفیّت کی سمجھ تو نہ آئی، لیکن اس کے دوست نے اور لڑکی نے جلدی جلدی اپنے کپڑے پہنے، اور پھر بڑی مشکل سے واجی کو سنبھالا ۔ اس کے دوست نے ایک ریڑھی پر واجی کو لاد کر گھر تک پہنچایا۔۔ واجی کا دوست سمجھ نہیں پایا تھا، کہ وہ تو اپنی معشوقہ کو ھی چود رھا تھا، مگر اس منظر کو دیکھنے سے واجی کی حالت کیوں اتنی خراب ھو گئی۔ وہ بیچارہ نہیں جانتا تھا، کہ اسی طرح کا منظر واجی نے لاھور میں بھی دیکھا تھا، اور اس سے ملتا جلتا ایک اور منظر آج دوبارہ دیکھنے سے واجی کے پرانے زخم پھر سے ھرے ھو گئے ھیں۔
واجی کا علاج ایک انتہائی قابل ڈاکٹر سے کروایا گیا۔ ڈاکٹر کے مطابق واجی پر شدید قسم کا دماغی حملہ ھوا ھے۔ اس نے کچھ ٹیسٹ بھی لکھ کر دئے، مگر واجی نے کسی بھی طرح کے ٹیسٹ یا علاج کروانے سے انکار کر دیا۔ اس کی والدہ رو رو کر نیم پاگل ھو گئی تھیں، مگر واجی کو تو اپنی بھی ھوش نہیں تھی۔ وہ اپنی والدہ کو کیا تسلّی دیتا۔ بس جب بھی کوئی اس کو علاج کے لئے شہر لے کر جانے کی بات کرتا، وہ ایک دم ھتھّے سے اکھڑ جاتا۔ شائد اس کے دماغ میں لاھور آ جاتا ھو گا۔
کچھ دن کے بعد واجی نارمل ھو گیا۔ اس کی والدہ کچھ حوصلہ پکڑ گئیں، مگر ان کے اندر ھر وقت ایک خوف دامن گیر رھنے لگا تھا، کہ کہیں ان کے بیٹے کو کچھ ھو نہ جائے۔ ڈاکٹر کے مطابق ان کے بیٹے کی دماغی حالت خطرے میں تھی۔اس پر کسی بھی وقت پھر سے دماغی حملہ ھو سکتا تھا۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی تھی ان کے سیدھے سادے واجی کو۔
ایک دن، جبکہ واجی گھر میں خاموشی سے چارپائی پر بیٹھا ھوا تھا، انہوں نے واجی کو ایک بار پھر سے سمجھانا شروع کیا۔ وہ اس کو سمجھاتے سمجھاتے رو پڑیں۔ واجی تڑپ اٹھّا، اور ماں کے قدموں میں گر پڑا۔ اب کے واجی مان گیا تھا۔ دو دن کے بعد، واجی اپنے چچا زاد کے ساتھ اسلام آباد جانے پر مان گیا تھا۔ اس کی والدہ بے حد خوش ھوئیں۔
واجی جب سے گھر آیا تھا، اس نے ٹی وی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے اس طرح کی چیزوں سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں رھی تھی۔ اسلام آباد جانے سے ایک رات قبل واجی کا چچا زاد کزن جس نے واجی کے ساتھ ھی اسلام آباد جانا تھا، وہ واجی کے ساتھ ھی اس کے گھر میں لیٹ گیا۔ وہ فلموں کا بے حد شوقین تھا۔ ان دنوں پی ٹی وی پر ھر جمعرات کی رات دس بجے کے قریب ایک اردو فلم لگا کرتی تھی۔ واجی کے چچا زاد کے بے حد اصرار پر انہوں نے فلم کے وقت پر ٹی وی لگا لیا۔ واجی کے کزن نے فلم پر زور اس لئے بھی دیا تھا، کہ اس نے واجی کی حالت دیکھ لی تھی۔ اس نے دلیل دیتے ھوئے یہ کہا تھا، کہ اس سے واجی کا دل بھی بہل جائے گا۔ اس کی والدہ بھی اس بات پر مان گئی تھیں۔ ان کو کیا معلوم تھا، کہ آج کا ٹی وی لگانا ان کے لئے کتنا نقصان دہ ثابت ھو گا۔ کاش وہ اس رات ٹی وی نہ لگاتیں۔ لیکن کہتے ھیں ناں، تقدیر کا لکھّا کوئی نہیں بدل سکتا۔ اور شائد واجی کی تقدیر میں یہی لکھّا تھا۔
اس رات ٹی وی پر ماضی کی مشہور فلم سٹار رانی کی اردو فلم لگنا تھی۔ جونہی فلم شروع ھوئی، اور ٹی وی سکرین پر رانی کا پہلا سین چلا، واجی کی حالت ایک دم سے بگڑ گئی۔ جوں جوں رانی ٹی وی سکرین پر نظر آ رھی تھی، واجی کی حالت خراب ھوتی چلی گئی۔ رانی کے بولنے سے واجی پر اور بھی زیادہ اثر پڑتا۔ واجی کی والدہ ایک الگ کمرے میں سو رھی تھیں، جبکہ واجی اور اس کا کزن دوسرے کمرے میں لیٹے فلم دیکھ رھے تھے۔ واجی کی بدلتی حالت کا اندازہ اس کے کزن کو بہت دیر سے ھو سکا۔ واجی اس وقت تک قابو سے باہر ھو چکا تھا۔ واجی کا کزن گھبرا گیا۔ اس نے پہلے تو واجی کو قابو کرنے کی کوشش کی، لیکن جب اس نے دیکھا، کہ یہ اس کے بس کی بات نہیں ھے، تو وہ واجی کی والدہ کو بھی اٹھا لایا۔واجی اس وقت تک ٹی وی توڑ چکا تھا۔ واجی کے کزن اور واجی کی والدہ میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ واجی کو اچانک کیا ھو گیا ھے۔ حقیقت میں واجی کو رانی میں کوثر نظر آ رھی تھی۔ کوثر کا چہرہ ھو بہو رانی کی طرح تھا۔ اس کی والدہ جب کمرے میں پہنچی، تو واجی زور زور سے چلّا رھا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کی والدہ کے ھاتھ پاؤں پھول گئے۔ انہوں نے واجی کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی، مگر اب بہت دیر ھو چکی تھی۔ واجی پر پھر سے دماغی حملہ ھو چکا تھا۔ وہ کبھی ھنستا تھا، تو کبھی بہت زور زور سے رونے لگ جاتا۔ کبھی وہ چیخنا شروع کر دیتا۔
ڈاکٹر نے کہا تھا، کہ اگر اب کی بار اس پر ایسا ایک حملہ اور ھو گیا، تو واجی کی زندگی کو بھی خطرہ ھو سکتا ھے، مگر جس خطرے کا زیادہ امکان تھا، وہ تھا، واجی کے پاگل پن کا۔ اور اب واجی پر حملہ ھو چکا تھا۔ تھوڑی ھی دیر میں، واجی واجی چلاّتے چلّاتے ایک دم بے ھوش ھو گیا۔ ، ، ، ،
کافی دیر بعد، جب واجی کو ھوش آئی، تو اس نے کسی کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیا۔
واجی پاگل ھو چکا تھا
واجی کے ارد گرد رشتے داروں اور محلّے والوں کا ایک جمّ غفیر جمع ھو چکا تھا۔ اس کی والدہ بھی ایک سائیڈ پر بیٹھی رو رھی تھیں ۔ واجی ھوش میں آنے کے بعد، اول فول بکنے لگا تھا۔ پھر اس نے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی، تو کچھ لوگوں نے اسے قابو کر لیا، ورنہ وہ اٹھ کر بھاگ چلا تھا۔ پھر بھی وہ ان سے اتنی آسانی سے قابو نہیں آ رھا تھا۔
واجی کی والدہ بھی اٹھ کر وہاں آ گئیں۔ محلّے والے ان کو پیچھے کھینچتے ھی رہ گئے۔ شائد وہ نہیں چاھتے تھے، کہ وہ اپنے بیٹے کو اس حال میں دیکھیں۔ لیکن وہ سب کو ایک طرف ھٹاتی ھوئی واجی تک پہنچ گئیں۔ اس دوران میں واجی مکمّل طور پر ھوش و حواس سے بیگانہ ھو چکا تھا۔ اس کے منہ سے رالیں بھی بہ رھی تھیں، اور وہ کوثر کا نام لے کر کبھی تو زور زور سے ھنس رھا تھا، تو کبھی اونچی آواز میں رو رھا تھا۔ سارا محلّہ ھی واجی کی اس کیفیّت پر افسوس کر رھا تھا، لیکن، ، ، ،
واجی کی والدہ اپنے جوان بیٹے کو اس حال میں دیکھ کرسکتے میں آ گئیں۔ پہلے تو وہ کافی دیر تک ایسے واجی کو دیکھتی رھیں، اور پھر اچانک وہ بھی زمین پر گر گئیں۔
کچھ لوگوں نے واجی کی والدہ کو ھاسپٹل پہنچانے کی کوشش کی، مگر اب وہ شائد اتنا حوصلہ نہیں رکھتی تھیں، کہ اپنے جوان بیٹے کو پاگل کے روپ میں دیکھ سکیں، چنانچہ ھاسپٹل جاتے ھوئے راستے میں ھی انہوں نے دم توڑ دیا۔
محلّے میں ایک کہرام مچ گیا ۔
ایک طرف واجی کی والدہ کا جنازہ اٹھ رھا تھا، تو دوسری طرف کچھ لوگ واجی کو سنبھال رھے تھے، جو اپنے آپ میں ھی نہیں تھا۔ محلّے کی عورتیں رو رھی تھیں۔ پورا گاؤں ھی واجی کی والدہ کی اچانک موت پر نوحہ کناں تھا، مگر جس کا سب سے بڑا نقصان ھوا تھا، اسے اس بات کی ھوش تک نہیں تھی۔ اسی بات پر پورا گاؤں سوگوار تھا، کہ واجی تو چلو پاگل ھوا، مگر اس کی ماں بھی چل بسی، اور ستم در ستم یہ بات تھی، کہ واجی اس بات کا احساس تک نہیں کر سکتا تھا، کہ اس نے کیا کھو دیا ھے۔
گاؤں والوں نے اور واجی کے رشتے داروں نے مل جل کر واجی کی والدہ کو منوں مٹّی تلے دفنا دیا۔
اب واجی کا کوئی نہیں تھا، جو کہ اس کو سنبھال سکے، چنانچہ ھم لوگ (اشرف وغیرہ کی فیملی) واجی کو اپنے گھر لے آئے۔ اس دن سے یہ ھمارے پاس ھی رہ رھا ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
***************************************
واجی کی داستان سننے کے دوران میں اس قدر کھویا ھوا تھا، کہ مجھے وقت کا احساس تک نہیں رھا تھا۔ جب اشرف کہانی ختم کر چکا، تو میں اس کے بعد بھی، کافی دیر تک گم سم بیٹھا رھا۔ آخر اشرف نے مجھے مخاطب کیا،
" فیروز بھائی، آپ رو رھے ھیں ؟ "
میں اس کی بات سن کر چونکا تھا، اور جب میں نے اپنی حالت پر غور کیا، تو مجھے پتہ چلا، کہ واقعی میں رو رھا تھا۔ کہانی سننے کے دوران میری آنکھوں سے کب آنسو رواں ھوئے تھے، مجھے پتہ ھی نہ چل سکا تھا۔ لیکن، واقعی واجی کی کہانی اتنی درد ناک تھی، کہ پتھّر سے پتھّر دل آدمی بھی رو دے۔ اسی لئے میں بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ سکا تھا۔
جب میں ان کی بیٹھک سے نکل رھا تھا، تو شام ھونے والی تھی۔ میں نے ان کی بیٹھک کے کونے میں واجی کو دیکھا۔ وہ دو تین بچّوں کے ساتھ بیٹھا کھیل رھا تھا۔ اس وقت مجھے واجی پر اتنا ترس آیا، کہ میری پلکوں کے گوشے ایک بار پھر سے نم آلود ھو گئے۔ میں ایک بار پھر سے ماضی میں کھو گیا۔ جب ھم دونوں ایک ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ وہ زندگی کتنی پر سکون تھی، جب ھمیں کوئی غم نہیں ھوا کرتا تھا۔ کون جانتا تھا، کہ بچپن کو یاد گار بنا کر انجوائے کرنے والا واجی، کل کس آزمائش سے دوچار ھونے والا ھے۔ وہ تو یہی سمجھتا تھا، کہ وہ ھمیشہ اسی طرح سے خوش و خرّم زندگی گزارے گا، ، ،
لیکن آج واجی کس قدر اذیّت ناک زندگی گزار رھا تھا۔
میں یہ سوچتا ھوا واجی کے پاس پہنچ چکا تھا۔ واجی نے جب مجھے دیکھا، تو ایک دم سے گھبرا گیا، مگر میری آنکھوں میں ھمدردی اور محبّت دیکھ کر وہ ریلیکس ھو گیا۔ میں نے اس کے پاس بیٹھ کر اس سے ھاتھ ملانا چاھا، تو اس نے کسی قدر تردّد کے بعد مجھ سے مصافحہ کر ھی لیا۔ اس وقت واجی کافی حد تک نارمل نظر آ رھا تھا۔ میں اسے دیکھ رھا تھا، اور میرا دل اندر سے ڈوبا جا رھا تھا۔ جب میں نے محسوس کیا، کہ اب واجی کے سامنے بیٹھنا میرے لئے مشکل ھو رھا ھے، تو میں نے اپنا ھاتھ واجی کے ھاتھ سے چھڑایا، اور بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے اٹھ آیا۔ واقعی دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک داستان غم موجود ھے۔
دور کسی کے گھر میں اونچی آواز میں ایم عزیز (انڈیا ) کا ایک گانا لگا ھوا تھا۔
" دنیا میں کتنا غم ھے، میرا غم کتنا کم ھے،
لوگوں کا غم دیکھا تو، میں اپنا غم بھول گیا۔ "
(ختم شد)