• سلور پیکج

    سلور اسٹوری سیکشن ۔۔۔۔

    1000 ماہانہ

    گولڈ پیکج

    سلور اسٹوری سیکشن + گولڈ اسٹوری سیکشن ۔۔۔۔

    2500 تین ماہ

    ڈائمنڈ پیکج

    سلور اسٹوری سیکشن + گولڈ اسٹوری سیکشن + ڈائمنڈ اسٹوری سیکشن ۔۔۔۔

    3500 چار ماہ

    WhatsApp contact: +1 304 310 9247

    Email: [email protected]

سسپنس سیکس کہانی اس رات کی کہانی

لو اسٹوری فورم پہ خوش آمدید

شہوت و لذت سے بھرپور اوریجنل اردو سیکس کہانیاں اور جنسی ادب کے بہترین رائٹرز ، یہ سب آپکو صرف لو اسٹوری فورم پر ہی ملے گا، تو دیر مت کریں ابھی دنیائے اردو کے بہترین فورم کو جوائن کریں

Story Lover

Well-known member
Joined
Oct 13, 2024
Messages
75
Reaction score
317
Points
53
Gender
Male
آپ اس گھر میں اکیلے رہتے ہیں۔ رابعہ نے ایک ادا سے بال جھٹکتے ہوئے پوچھا۔جی یہ آشیانہ کب سے ویران ہے۔ اسد نے سر کو خم کرتے ہوئے خمارآلود لہجے میں کہا۔ رابعہ مسکرا کر رہ گئی۔ سر آپ بنیادی طور پر کہاں کے رہائشی ہیں؟ اس بار ارشد بولا۔میں بورے والا کا رہائشی ہوں۔ اسد بولا۔ یہاں لاہور میں کب سے ہیں۔تقریبا دو سال ہو چکے ہیں۔اسد نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔چلیں جی اب آپ لوگ آرام کریں۔باتیں بہت ہو گئیں۔اسد نے آخری بار گہری نظر سے رابعہ کو دیکھتے ہوئے۔مزید کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو یاد کر لینا۔وہ اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔کمرے میں آکر وہ رابعہ کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔رابعہ اور اسکے کولیگ ملتان سے ٹرینگ لینے لاہور آئے تھے۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں تینوں کی نئی نئی جوائننگ ہوئی تھی۔ کمپنی کی گاڑی میں وہ واپس لاہور سے ملتان جا رہے تھے کہ طوفان نے انھیں گھیرے میں لے لیا۔گردو غبار سے انھیں راستے سے بھٹکا دیا اور وہ اسد کے مکان میں پہنچ گئے۔جہاں وقتی پناہ مل گئی ۔ان کا ارادا تھا کہ جیسے بارش اور طوفان کی شدت کم ہوئی وہ روانہ ہو جائیں گےمگر بادلوں کی گھن گرج میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔شدید موسلا دھار بارش میں انھیں اپنا پلان موخر کرنا پڑا اور اسد نے ازاہمدردی ایک رات رکنے کی اجازت دے دی۔اسد کی کاسمیٹکس کی دکان تھی لاہور سے پندرہ کلومیٹر دور ایک کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔اسدایک تنہائی پسند آدمی تھا۔اس لئے وہ پر رونق شہرسے دور گوشہ نشیں تھا۔ اسد کبھی بھی انھیں رکنے کی اجازت نہ دیتا۔مگر رابعہ کو دیکھ کر اس کا انکار اقرار مئں بدل گیا۔ رابعہ درمیانے قد اور بھربھرے جسم کی مالک ایک حؔسین دوشیزہ تھی۔ستواں ناک ،کھلتا شادابی رنگ، اور سب سے بڑھ کر اسکی دل دھڑکا دینے والی قاتل مسکان۔اسداسکو دیکھتے ہی نڈھال ہو گیا تھا۔اسد اپنے کمرے میں آ کر بستر پہ ڈھے گیا۔ اس کا دھیان ہنوز رابعہ کے سراپا میں ہی اٹکا ہوا تھا۔ اچانک اسکا موبائل فون کی گھنٹی بجی اور وہ خیالوں کی حسین دنیا سے باہر آیا۔
یہ اس کے جگری دوست یاور کا فون تھا۔ اسد نے مسکراتے ہوئے اٹینڈ کیا۔
ہیلو۔
کیا حال ہے لعنتی۔
یاور حسب معمول بولا۔
میں ٹھیک ہوں تو سنا۔
بس تیرے جیسے تو نہئں ہیں مگر گزارا ہو رہا ہے۔
بڑا گھسا پٹا اور پرانا ڈایئلاگ ہے۔اسد مسکراتے ہویے بولا۔
آج بڑا چہک رہا ہے تو۔کیا بات ہے؟ یاور ٹھنک کر بولا۔کل جب فون کیا تو جناب کا منہ ہی بگڑا ہو ا تھا۔
نہیں یار ایسی کوئی بات نییں۔اسد گڑبڑا کر بولا۔
چلو بات چاہے جو بھی ہو مگر اس سے بڑی خوشی کی بات میرے لئے کوئی نیئں ۔تیرے چہرے پہ ہنسی تو آئی۔
ہمممم۔۔۔اسد نے ہنکارا بھرا۔
ابھی نیوز میں سنا ہے کہ لاہور میں بارش بہت ہو رہی ہے۔ یاور بولا۔
ہاں۔موسم بہت خراب ہے۔اسد نے کہا۔
واپس کب آ رہا ہے۔
جلد ہی آ رہا ہوں۔
میاں صاحب جلدی ہی آ جاؤ۔خالہ نے تمہارے لئے لڑکی پسند کر لی ہے۔ اب وہ اسی تاک میں ہیں کہ کب انکا بیٹا آئے اور وہ اپنے ہاتھوں سے تمہیں سجا کے ڈولی میں بٹھا کے ہماری بھابی کے ساتھ وداع کریں۔یاور شریر لیجے میں بولا۔
ہا ہاہا۔ لعنت تیری شکل پہ۔اسد مسکراتے ہوئے بولا۔
ہائے دل میں لڈو تو پھوٹا نہ۔یاور قہقہ لگاتے ہوئے بولا۔
سنا الیکشن کی۔لاہور میں تو خوب رونق ہو گی۔یاور موضوع تبدیل کرتے ہوئے بولا۔
ہاں رونق تو خوب ہے مگر مجھے کوئی سروکار نہیں۔اسد اکتائے ہوئے بولا۔
سیاست ایک رنڈی کا رونا ہے۔ جس میں ہر کوئی اقتدار کے لئے نت نئے موضوعات اور دل لبھانے والے التفات لئے اس میدان میں اترتا ہے۔جس دن لوگوں کو انکی سمجھ آ گئی ان سیاست دانوں کو لگ پتا جائے گا۔
اچھا تو ایک کام کرو گے پھر۔ یاور سنجیدگی سے بولا۔
کیا؟ اسد بولا۔
لوگوں کو بتا ہی دو پھر۔
کیا بتاؤں ؟ اسد اُلجھے ہوئے لیجے میں بولا۔
یہی کہ سیاست ایک رنڈی کا رونا ہے۔
یاور کھلکھلاتے ہوئے بولا۔
ہا ہا ہا۔۔اسد نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑا۔
پھر تھوڑی دیر تک مزید دونوں دوست ادھر اُدھر کی ہانکتے رہے۔
اچھا اب سوتا ہوں یار۔ نیند بہت آ رہی ہے۔اسد نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔
چل ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا۔
یاور نے کہا اور فون کٹ کر دیا۔
اسد کی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہ تھا۔اس نے سونے کی بہت کوشش کی مگر آنکھیں تھیں کہ ایک چہرہ ہی بار بار اپنے اندر سما رہئ تھیں۔
اُس نے سگریٹ سلگایا اور چھت پہ ٹہلنے چلا گیا۔
آسمان کو چاروں طرف کالے بادلوں نے گھیرا ہوا تھا۔گو کہ بارش ابھی تھمی ہوئی تھی مگر یہ منظر کافی دل دہلا دینے والا تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی چڑیل بال کھولے ہوئے ہے۔
اچانک اسد کو اپنے پیچھے آہٹ سنائی دی۔اس نے فورن پلٹ کر دیکھا تو اس کا دل دھڑک کر رہ گیا۔
وہ دشمن جان سامنے تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بجلی زور زور سے کڑک رہی تھی۔ایسے میں دو دل یک جان کی عملی تصویر بنے ہوئے تھے۔ارشد،جمال اور انکا ڈرائیور سو چکے تھے۔ان کو اندازا نہئں تھا کہ پیار کےمسافر اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو چکےہیں۔
رابعہ اپنے ہونٹ اسد کے ہونٹوں میں سموئے ہوئے پریم امرت پئے جا رہی تھی۔دونوں کی سانسوں کی رفتار لمحہ بہ لمحہ بڑہ رہی تھی۔ دونوں بلاشبہ جوشیلے تھے اور بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پہ بوسوں کی بوچھاڑ کر رہے تھے۔ دفعتن اسد نے ہولے سے رابعہ کی گردن پہ باۓئٹ کی۔ آہہہہہ۔۔۔ ایک سیکسی آواز رابعہ کے لبوں سے خارج ہوئی۔اس نے اپنے مرمریں وجود اسد کے سپرد کر دیا۔
اسد بھوکے شیر کی طرح اس پہ ٹوٹ پڑا۔
کمرے میں مکمل اندھیرا تھا مگر رابعہ کا دمکتا وجود وہ دیکھ سکتا تھا۔
رابعہ کے جسم کے کا کوئی ایسا کونہ بچا جس کو اسد کے ہونٹوں نے نہ رگیدا ہو۔
رابعہ کے درمیانے سائز کے مموں پہ ہر بار ایک قیامت سی ٹوٹ پڑتی تھی۔ اسد ایک منہ اس کی ویلوٹ پھدی پہ مارتا اور یکبارگی اس کے پیٹ پہ زبان پھیرتا ہوا اس کی چھاتیوں کو بھنبھوڑ دیتا۔
رابعہ کی جان بار بار نکل رہئ تھی۔ ظالم کیسا شکار کر رہا تھا۔ اب کی بار اسد نے اپنا منہ اسکی پھدی سے نہیں ہٹایا اور اپنی زبان اسکی پھدی کے چاروں جانب گھماتا رہا۔رابعہ گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔ یک دم اس کی پھدی نے جوش پکڑا ور پانی ابل ابل کر اسد نے منہ پہ گرنا شروع ہو گیا۔
اسد ایک لحظے کے لئے رک گیا۔
رابعہ کچھ دیر ہانپتی رہی اور پھر اچانک اس نے اسد کو نیچے گرایا اور اسکے لن کو اپنے نرم و نازک ہاتھوں مئں تھام کر ہولے ہولے سہلانے لگی۔ اسد رابعہ کے چھاتیوں اور پھدی چاٹ کر ہی بہت گرم ہو چکا تھا۔ رابعہ کے ہاتھوں کی گرمی نے اسکے لن اوسان خطا کر دئے۔ایک منٹ میں ہی لن سے پچکاریاں نکلنے لگی ۔اسد زور زور سے آہہہہ کر رہا تھا۔یہاں تک کے آخری قطرہ تک نکل گیا۔اُس نے نرمی سے رابعہ کے ہاتھوں کو اپنے لن سے ہٹایا اور ہانپنے لگا۔
اچانک اس کو اپنے دائیں کولہے میں ایک سوئی کی نوک تیزی سے اترتے ہوئے محسوس ہوئی۔
اس سے پہلے وہ سنبھلتا مگر دیر ہو چکی تھی۔
اس کا وجود سن ہو چکا تھا۔
اس نے اپنے وجودکو جنبش دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔
اچانک اسے ٹک ٹک کی آواز سنائی دی۔
پھر رابعہ کی آواز آئی۔
کام ہو گیا ہے۔
رابعہ نے کہا اور اس کے ساتھ ہی ٹرانسمیٹر گھڑی کو بند کر دیا۔
رابعہ نے جلدی جلدی کپڑ ے پہنے ۔اس اثنا میں دو دفعہ دستک ہو چکی تھی۔اس نے لپک کر دروازا کھول دیا۔
سامنے ارشد،جمال اور انکا ڈرائیور کھڑے تھے۔
گڈ جاب مرینہ۔ ارشد نے رابعہ کو توصیفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
تھینکس سر۔وہ مسکرا کر بولی۔
ارشد نے ایک ٹرانسمیٹر نکالا۔
اور آن کر کے بولا۔
ہیلو ۔ہیلو۔
کچھ ہی دیر میں رابطہ ہو گیا۔
ہیلو 922 از ہیئر۔
923 از ہیئر۔ارشد بولا۔
کچھ ہی دیر بعد ایک بھاری بھرکم آواز سنائی دی۔
کیا پوزیشن ہے۔
وی ڈن اٹ باس۔
ارشد بولا۔
اوکے۔
مریضوں کا اوپریشن تھیٹر منتقل کیا جا رہا ہے۔ اس بار دھیان سے۔ اگر کوئی بھی غلطی ہوئی تو تم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔
باس نے سخت لہجےمیں کہا۔
اوکے سس سر۔ ارشد نے کانپتے ہوئے لہجے میں کہا۔
اس کے ساتھ ہی رابطہ ختم ہو گیا۔
یہ وہ آخری باتیں تھیں جو اسد نے سنیں۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔اس نے بہتیرا زور لگایا مگر وہ کوئی فرق نہ پڑا۔وہ اپنے جسم کا کوئی حصہ تک نہ ہلا سکا۔یہ کسی کمپنی کے ملازم نہیں ہیں۔اسد کا دماغ سنسناتے ہوئے سوچ رہا تھا۔رابعہ اصل میں مرینہ ہے۔تو پھر یہ ہیں کون لوگ۔انکا باس کون ہے۔اور مریض کون سے ہیں۔وہ بدستور الجھے ہوئے لہجے میں بولا۔مگر دیر ہو چکی تھی۔ اس دنیا میں وہ اپنے ساتھ کھیلے گئے کھیل کو کبھی نہ سمجھ سکتا تھا۔اسے یوں لگ تھا جیسے موت لمحہ بہ لمحہ اس کے قریب آ رہی ہے۔اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔اس کی ماں کا دھندلا چہرہ اس کی آنکھوں میں سمٹ آیا۔ اس اثنا میں
ارشد نے اپنے بیگ سے ایک لمبی تار نکالی اور آگے بڑھ کر اسد کی گردن پہ لپیٹ کر زور سے جھٹکا دیا۔
ایک قیامت اسد کے وجود پہ ٹوٹ گئی۔اس کا وجود چند جھٹکے کھانے کے بعد ساکت ہو گیا۔
چند ہی لمحوں میں اس کا جسم آنکھوں،دل ،گردے اور دوسرے اعضاء سے خالی ہو گیا جس کی مالیت کروڑوں میں تھی۔
بڑی خاموشی سے وین سٹارٹ ہوئی اور لاپتہ ہو گئی۔

ختم شد۔
 
Back
Top Bottom