• سلور پیکج

    سلور اسٹوری سیکشن ۔۔۔۔

    1000 ماہانہ

    گولڈ پیکج

    سلور اسٹوری سیکشن + گولڈ اسٹوری سیکشن ۔۔۔۔

    2500 تین ماہ

    ڈائمنڈ پیکج

    سلور اسٹوری سیکشن + گولڈ اسٹوری سیکشن + ڈائمنڈ اسٹوری سیکشن ۔۔۔۔

    3500 چار ماہ

    WhatsApp contact: +1 304 310 9247

    Email: [email protected]

رومانوی کہانی بےقابو ہوس

لو اسٹوری فورم پہ خوش آمدید

شہوت و لذت سے بھرپور اوریجنل اردو سیکس کہانیاں اور جنسی ادب کے بہترین رائٹرز ، یہ سب آپکو صرف لو اسٹوری فورم پر ہی ملے گا، تو دیر مت کریں ابھی دنیائے اردو کے بہترین فورم کو جوائن کریں

Story Lover

Well-known member
Joined
Oct 13, 2024
Messages
75
Reaction score
317
Points
53
Gender
Male
میں آج آٹھویں جماعت میں پہنچ گئی ہوں۔ کچھ سال پہلے تک میں باِلکل ‘فلیٹ’ تھی۔۔ آگے سے بھی۔۔ اور پِچھے سے بھی۔ لیکن اسکول بس میں آتے جاتے ہوئے لڑکوں کے کندھوں کی رگڑ کھا کھا کر مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ کب میرے کولہوں اور چھاتیوں پر گوشت چڑھ گیا۔۔ اتنی کم عمر میں ہی میرے چوتڑ بیچ سے کٹے ہوئے اسپرنگ لگے ہوئے ایک گول تربوز کی طرح ابھر گئے۔ میری چھاتیاں بھی اب 'امرودوں’ سے بڑی ہوکر موٹے موٹے 'سنگتروں’ جیسے ہو گئے تھے۔ میں کئیِ بار باتھ روم میں ننگی ہوکر حیرت سے انہیں دیکھا کرتی تھی۔۔ چھو کر۔۔ دبا کر۔۔ مسل کر۔ مجھے ایسا کرتے ہوئے عجیب سا مزہ آتا ۔۔ 'وہاں بھی۔۔ اور نیچے چوت میں بھی۔
میرے گورے چِٹ جسم پر اس چھوٹی سی چوت کو چھوڑکر کہیں بھی بالوں کا نام ونِشان تک نہیں تھا۔۔ ہلکے ہلکے سے بال میری بغلوں میں بھی تھے۔ اسکے علاوہ گردن سے لیکر پیروں تک میں بالکل مکھن کی طرح چِکنی تھی۔ کلاس کے لڑکوں کو للچائی نظروں سے اپنی چھاتی لیکن جھولتے ہوئے 'سنگتروں’ کو گھورتے دیکھ کر میری رانوں کے بیچ چھِپیِ ہوئی ہلکے ہلکے بالوں والی، مگر چِکناہٹ سے بھری ہوئی تِتلی کے پر پھڑپھڑنے لگتے اور مموں پر گلابی رنگت کے 'انار دانے’ تن کر کھڑے ہو جاتے۔ لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہاں، کبھی کبھار کچھ کچھ شرم آ جاتی تھی۔ یہ بھی نہیں آتی اگر ممی نے نہ بولا ہوتا،"اب تو بڑی ہو گئی ہے انجو ۔۔ برا پہننی شروع کر دے اور شمیز بھی پہن لِیا کر!“
سچ بتاؤں تو مجھے اپنے خوبصورت کسے ہوئے مموں کو برا میں قید کر کے رکھنا کبھی اچھا نہیں لگا اور نہ ہی انکو شمیز کے پردے میں رکھنا۔ اسکول میں موقع مِلتے ہی میںشمیز اور برا کو جان بوجھ کر اسکول کے باتھ روم میں اتار آتی اور کلاس میں منچلے لڑکوں کو اپنے مموں کے جلوے دیکھنے کے چکر میں اِرد گِرد منڈلاتے ہوئے دیکھ کرخوب مزے لیتی۔۔ میں اکثر جان بوجھ کر اپنے ہاتھ اوپر اٹھا کر انگڑائیاں لیتی جس سے میرے ممے تن کر جھولنے لگتے۔ اس وقت میرے سامنے کھڑے لڑکوں کی حالت خراب ہو جاتی۔۔ کچھ تو اپنے ہونٹوں لیکن ایسے زبان پھیرنے لگتے جیسے موقع مِلتے ہی مجھے نوچ ڈالیںگے۔ کلاس کی ساری لڑکِیاں مجھ سے جلنے لگی تھیں۔۔ حالانکہ 'وہی’ سب انکے پاس بھی تھا۔۔ لیکن میرے جیسا نہیں۔۔
میں پڑھائی میں بِالکل بھی اچھیِ نہیں تھی لیکن سارے مرد ٹیچروں کا 'پورا پیار’ مجھے مِلتا تھا۔ یہ انکا پیار ہی تو تھا کہ ہوم-ورک نہ کرنے کے باوجود بھی وہ مسکراکر بغیر کچھ کہے چپ چاپ کاپی بند کرکے مجھے پکڑا دیتے۔۔ باقی سب کی پِٹائی ہوتی۔ لیکن ہاں، وہ میرے پڑھائی میں دھیان نا دینے کا ہرجانا وسول کرنا کبھی نہیں بھولتے تھے۔ جِس کِسی کا بھی خالی پیرِیڈ نِکل آتا۔کِسی نا کِسی بہانے سے مجھے اکیلے میں سٹاف روم میں بلا لیتے۔ میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیکر مسلتے ہوئے مجھے سمجھاتے رہتے۔ کمر سے چِپکا ہوا انکا دوسرا ہاتھ آہستہ آہستہ پھِسلتا ہوا میرے چوتڑوں پر آ ٹِکتا۔ مجھے پڑھائی کی 'طرف زیادہ’ دھیان دینے کو کہتے ہوئے وہ میرے چوتڑوں پر ہلکی ہلکی چپت لگاتے ہوئے میرے چوتڑوں کے تھِرکنے کا مزہ لوٹتے رہتے۔۔ مجھے پڑھائی کے فائدے گِنواتے ہوئے اکثر وہ 'کھو’ جاتے تھے، اور چپت لگانا بھول کر میرے چوتڑوں پر ہی اپنے ہاتھ جما لیتے۔ کبھی کبھار تو انکی انگلیاں سکرٹ کے اوپر سے ہی میری گانڈ کی دراڑ کی گہرائیوں کو ناپنے کی کوشِش کرنے لگتیں۔۔
انکا دھیان ہر وقت انکی تھپکیوں کی وجہ سے لگاتار تھرکتے ہوئے میرے مموں پر ہی ہوتا تھا۔۔ لیکن کِسی نے کبھی میرے مموں پر جھپٹا نہیں مارا۔ شاید وہ سب یہ سوچتے ہوںگے کہ کہیں میں بِدک نہ جاوں۔۔ لیکن میں انکو کبھی چاہ کر بھی یہ نہ بتا پائی کہ مجھے ایسا کرواتے ہوئیمجھے اپنی چوت میں میٹھی-میٹھی سی کھجلی ہوتی ہے اور بہت مزہ آتا ہے۔۔
ہاں! ایک بات میں کبھی نہیں بھول پاؤنگِی۔۔ میرے ہِسٹری کے سر کا ہاتھ ایسے ہی سمجھاتے ہوئے ایک دِن کمر سے نہیں بلکہ میرے گھٹنوں سے چلنا شروع ہوا ۔۔ اور آہستہ آہستہ میری سکرٹ کے اندر گھس گیا۔ اپنی کیلے کے تنے جیسی لمبی گوری اور چِکنی رانوں پر انکے 'کانپتے’ ہوئے ہاتھ کو محسوس کرکے میں مچل اٹھی تھی۔۔ خوشی کے مارے میں نے آنکھیں بند کرکے اپنی رانیں کھول دیں اور انکے ہاتھ کواپنی رانوں کے بیچ میں اوپر چڑھتا ہوا محسوس کرنے لگی۔۔ اچانک مجھے ایسا لگا کہ میری نازک سی چوت سے پانی سا ٹپکنے لگا۔۔
اچانک انہوں ںنے میری رانوں میں بری طرح پھنسی ہوئی 'نِکر’ کے اندر انگلی گھسا دی۔۔ لیکن جلدبازی میں غلطی سے انکی انگلی سیدھی میری چِکنی ہوکر ٹپکتی ہوئی چوت کے موٹے موٹے لبوں کے بیچ میںگھسا دی۔۔ میں درد سے تِلمِلا اٹھی۔۔ میں اس اچانک حملے کو برداشت نہ کر پائی۔ چھٹپٹاتے ہوئے میں نے اپنے آپکو ان سے چھڑایا اور دیوار کی طرف منہ پھیر کر کھڑی ہو گی۔۔ میری آنکھیں دبدبا گیی تھی۔۔
میں اِس ساری پرکرِیا کے 'پیار سے’ پھِر شروع ہونے کا اِنتظار کر ہی رہی تھی کہِ 'وہ’ ماسٹرصاحب میرے آگے ہاتھ جوڑکر کھڑے ہو گئے،"پلیز انجلِ۔۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔۔ میں بہک گیا تھا۔۔ کِسی سے کچھ مت کہنا۔۔ میری نوکری کا سوال ہے۔۔!” اِس'سے پہلے میں کچھ بولنے کی ہِمت کر پاتی; وہ بک بک کرتا ہوا سٹاف روم سے بھاگ گیا۔۔ مجھے تڑپتا ہواِ چھوڑکر۔۔
اس کی انگلی نے میری چوتکی آگ کو اِس قدر بھڑکایا کی میں ہر وقت اپنے جلووں سے لڑکوں کے دِلوں میں آگ لگانے اوراپنی چوت کی پیاس بجھانے کی جگاڑ میں رہنے لگی۔ اِس کے لِئے میں نے اپنے جسم کی نمائش کی مہم کو اور تیز کر دِیا۔ انجان سی بنکر، کھجلی کرنے کے بہانے میں بینچ پر بیٹھی ہوئی سکرٹ میں ہاتھ ڈال کر اسکو رانوں تک اوپر کھِسکا لیتی اور کلاس میں لڑکوں کی سیٹِیاں بجنے لگتیں۔ اب سارا سارا دِن اپنا دھیان صرف لڑکوں کی باتوں کی طرف رکھنے لگی۔ آج احساس ہوتا ہے کہ دوبارہ کسی مردسے اپنی چوت میں انگلی کروانے کے چکر میں میں کِتنی بدنام ہو گئی تھی۔
خیر میرا 'کام’ جلد ہی بن جاتا اگر وہ جو کوئی بھی تھا میرے بیگ میں نِہایت ہی غلیظ زبان میں لکھا ہوا خط ڈالنے سے پہلے مجھے بتا دیتا۔ کاش وہ خط میرے بھیا سے پہلے مجھے مِل جاتا! ’ میرے گدھے بھائی نے وہ خط سیدھا میرے شرابی پاپا کو پکڑا دِیا
رات کو نشے میں دھت پاپا نے مجھے اپنے سامنے کھڑی کرکے وہ خط اونچی آواز میں پڑھنے لگے:
“ ہائے جان من!
کیا کھاتی ہو یار؟ اِتنی مست ہوتی جا رہی ہو کہِ سارے لڑکوں کو اپنا دیوانا بنا کے رکھ دِیا۔ تمہارے پپیتے جیسے مموں نے ہمیں پہلے ہی پاگل بنا رکھا تھا، اب اپنی گوری چِکنی رانیں دِکھا دِکھا کر کیا ہماری جان لینے کا اِرادہ ہے؟ ایسے ہی چلتا رہا تو تم اپنے ساتھ 'اِس’ سال کے امتحانوں میں سب لڑکوں کو لے ڈوبوگی۔۔
لیکن مجھے تم سے کوئی گِلا یا شکوہ نہیں ہے۔ پہلے میں تمہارے زبردست مموں کو دیکھ دیکھ کر مست ہو جاتا تھا; اب ننگی چِکنی رانیں دیکھ کر تو جیسے مر ہی گیا ہوں۔ پھِر پاس یا فیل ہونے کی پرواہ کِسے ہے اگر روز تمہارے جسم کا دیدار ہوتا رہے۔ ایک رِیکویسٹ ہے، پلیز مان لینا! سکرٹ کو تھوڑا سا اور اوپر کر دِیا کرو تاکِ میں تمہاری گیلی چڈی کا رنگ دیکھ سکوں۔ سکول کے باتھروم میں جاکر تمیں یاد کرتے ہوئے اپنے لنڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تمہارے نام کی مٹھ لگاتا ہوں تو بار بار یہی سوال دل میں ابھرتا رہتا ہے کہِ تمہاری چڈی کا رنگ کیا ہوگا۔۔ اِس وجہ سے میرے لنڈ کا رس نِکلنے میں دیر ہو جاتی ہے اور کلاس میں ٹیچرس کی جھڑکیاں سنناِ پڑتی ہیں۔۔ پلیز،میری یہ بات یاد رکھنا
تمہاری قسم جان من، اب تو میرے سپنوں میں بھی پرِیانکا چوپڑا کی جگہ ننگی ہوکر تم ہی آنے لگی ہو۔ 'وہ’ تو اب مجھے تمہارے سامنے کچھ بھی نہیں لگتی۔ سونے سے پہلے 2 بار خیالوں میں تمہیں پورا ننگا کرکے چودتے ہوئے اپنے لنڈ کا رس نِکلتا ہوں، پھِر بھی صبح میرا 'کچھ’ گیلا مِلتا ہے۔ پھِر صبح بِستیر سے اٹھنے سے پہلے تمہیں ایک بار ضرور یاد کر کے مٹھ لگاتا ہوں۔
میںنے سنا ہے کہِ لڑکِیوں میں چدائی کی بھوک لڑکوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ تمہارے اندر بھی ہوگی، ہے نا؟ ویسے تو تمہاری چدائی کرنے کے لِئے سبھی کلاس کے لڑکے اپنے لوڑوں کو تیل لگائے پھِرتے ہیں لیکن تمہاری قسم جان من، میں تمہیں سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں، اصلی والا۔ کِسی اور کے بہکاوے میں مت آنا، زیادہ تر لڑکے چودتے ہوئے پاگل ہو جاتے ہیں۔ وہ تمہاری کنواری چوت کو پھاڑ ڈالیںگے۔ لیکن میں سب کچھ پیار سے کروںگا۔۔ تمہاری قسم۔ پہلے انگلی سے تمہاری چوت کو تھوڑا سا کھولوںگا اور چاٹ چاٹ کر اندر باہر سے پوری طرح گیلی کر دوںگا۔۔ پھِر آہستہ آہستہ اپنا لنڈ اندر کرنے کی کوشِش کروںگا، تم نے خوشی خوشی لے لِیا تو ٹھیک، ورنہ چھچوڑ دوںگا۔۔ تمہاری قسم جان من۔
اگر تم نے اپنی چدائی کروانے کا موڈ بنا لِیا ہو تو کل اپنا لال رومال لیکر آنا اور اسکو رِسیس میں اپنے بینچ لپر چھوڑ دینا۔ پھِر میں بتاؤنگا کہِ کب کہاں اور کیسے مِلنا ہے!
پلیز جان، ایک بار اپنی چوت کی خدمت کا موقع ضرور دینا۔ تم ہمیشہ یاد رکھوگی اور روز روز مجھ سے ہی چدائی کروانے کا سوچوگی، میرا دعویٰ ہے۔
تمہارا عاشِق!
لیٹر میں کھلی کھلی چدائی کی باتیں پڑھتے پڑھتے پاپا کا نشہ کب کافور ہو گیا، شاید انہیں بھی احساس نہیں ہوا ۔ صِرف اِسی لِئے شاید میں اس رات کنواری رہ گئی۔ ورنہ وہ میرے ساتھ بھی ویسا ہی کرتے جیسا انہوں نے بڑی دیدی 'نِمو’ کے ساتھ کچھ سال پہلے کِیا تھا۔
میں تو خیر اس وقت چھہوٹی سی تھی۔ دیدی نے ہی بتایا تھا۔ سنی سنائی بتا رہی ہوں۔ بھروسہ ہو تو ٹھیک ورنہ میرا کیا چاٹ لوگے؟
پاپا نِمو کو بالوں سے پکڑکر گھسیٹتے ہوئے اوپر لائے تھے۔ شراب پینے کے بعد پاپا سے الجھنے کی ہِمت گھر میں کوئی نہیں کرتا۔ ممی کھڑی کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔ بال پکڑ کر 5-7 کرارے تھپڑ نِمو کو مارے اور اس کی گردن کو دبوچ لِیا۔ پھِر جانے ان کے دل میں کیا خیال آیا کہ وہ بولے،” سزا بھی ویسی ہی ہونی چاہِئے جیسی غلطی ہو!“ دیدی کے قمیض کو دونوں ہاتھوں سے گلے سے پکڑا ار ایک ہی جھٹکے میں تار تار کر ڈالا; قمیض کو بھی اور دیدی کی عزت کو بھی۔ دیدی کے ممے بھی میری طرح بڑے بڑے ممے جو تھوڑے بہت اسکی شمیز نے چھپا رکھے تھے; اگلے جھٹکے کے بعد وہ بھی چھپے نہیں رہے۔ دیدی بتاتی ہیں کہ پاپا کے سامنے 'انکو’ پھڑکتے دیکھ انہیں بہت شرم آئی تھی۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے 'انہیں’ چھِپانے کی کوشِش کی تو پاپا نے 'ٹیچرس’ کی طرح اسکو ہاتھ اوپر کرنے کا آرڈر دے دِیا۔۔ 'ٹیچرس’ کی بات لیکن ایک اور بات یاد آ گئی، لیکن وہ بعد میں سناؤنگیِ۔
ہاں تو میں بتا رہی تھی۔۔ ہاں۔۔ تو دیدی کے دونوں سنگترے ہاتھ اوپر کرتے ہی اور بھی تن کر کھڑے ہو گئے۔ جیسے انکو شرم نہیں غرور ہو ۔ ان کے نپلوں کی نوکیں بھی پاپا کی طرف ہی گھور رہی تھی۔ اب بھلا میرے پاپا یہ سب کیسے برداشت کرتے؟ پاپا کے سامنے تو آج تک کوئی بھی نہیں اکڑا تھا۔ پھِر وہ کیسے اکڑ گئے؟ پاپا نے دونوں مموں کے نپلوں کو کس کر پکڑا اور مسل دِیا۔ دیدی بتاتی ہیں کہِ اس وقت انکی چوت بھی پانی چھوڑ کر جھڑ گئی تھی۔ لیکن کمبخت ان کے مموں پر اِسکا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ وہ تو اور زیادہ اکڑ گئے۔
پھِر تو دیدی کی خیر ہی نہیں تھی۔ غصے کے مارے پاپا نے دیدی کی شلوار کا ناڑا پکڑا اور کھینچ لِیا۔ دیدی نے ہاتھ نیچے کرکے شلوار سنبھالنے کی کوشِش کی تو ایک ساتھ کئیِ تھپڑ پڑے۔ بیچاری دیدی کرتی توکیا کرتی؟ انکے ہاتھ اوپر ہو گئے اور شلوار نیچے۔ غصے میں ہی پاپا نے انکی چڈی بھی نیچے کھینچ دی اور گراتے ہوئے بولے،” کتِیا! مرغی بن جا ادھر منہ کرکے"۔۔ اور دیدی بن گئی مرغی۔
ہائے! دیدی کو کِتنی شرم آئی ہوگی، سوچ کر دیکھو! پاپا دیدی کے پِچھے چارپائی پر بیٹھ گئے تھے۔ دیدی رانوں اور گھٹنوں تک نِکلی ہوئی شلوار کے بیچ میں سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ پاپا اسکے گول مٹول چوتڑوں کے بیچ انکے دونوں سوراخوں کو گھور رہے تھے۔ دیدی کی چوت کے ہونٹ ڈر کے مارے کبھی کھل رہے تھے، کبھی بند ہو رہے تھے۔ پاپا نے غصے میں اسکے چوتڑوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور انہیں بیچ سے چیرنے کی کوشِش کرنے لگے۔ شکر ہے دیدی کے چوتڑ سڈول تھے، پاپا کامیاب نہیں ہو پائے!
“کِسی سے چدوایا ہے کیا کتِیا؟” پاپا نے تھک ہار کر انہیں چھوڑتے ہوئے کہا تھا۔
دیدی نے بتایا کِ منع کرنے کے باوجود ان کو یقین نہیں آیا تھا ۔ ممی سے موم بتی لانے کو کہاا۔ ممی جو دروازے پر ہی ڈری سہمیہوئی کھڑی سب کچھ دیکھ رہی تھیں چپ چاپ باورچی خانے میں گئیں اور انکو موم بتی لاکر دے دی۔
جیسا 'اس’ لڑکے نے خط میں لِکھا تھا، پاپا بڑے بے رحم نِکلے۔ دیدی نے بتایا کی انکی چوت کے سوراخ میں انہوں نے وہ موٹی موم بتی ایک ہی جھٹکے میں اندر گھسا دی۔ دیدی کا سِر سیدھا زمین سے جا ٹکرایا تھا اور پاپا کے ہاتھ سے چھوٹ تو گئی لیکنوہ موم بتی ان کی چوت میں ہی پھنسی رہ گئی۔ پاپا نے موم بتی نِکالی تو وہ خون سے لت پت تھی۔ تب جاکر پاپا کو یقین ہوا کہِ انکی بیٹی کنواری تھی۔ ایسا ہے پاپا کا غصہ!
دیدی نے بتایا کہِ وہ اس دِن اور اس 'موم بتی’ کو وہ کبھی نہ بھول پائی۔ موم بتی کو تو اس نے 'نِشانی’ کے طور پر اپنے پاس ہی رکھ لِیا۔۔ وہ بتاتی ہیں کہِ اس کے بعد شادی تک 'وہ’ موم بتی ہی بھری جوانی میں انکا سہارا بنی۔ جیسے اندھے کو لکڑی کا سہارا ہوتا ہے، ویسے ہی دیدی کو بھی موم بتی کا سہارا تھا شاید خیر، *** کا شکر ہے مجھے انہوں نے یہ کہ کر ہی بخش دِیا،" کتِیا! مجھے یقین تھا کہ تو بھی میری اولاد نہیں ہے۔ تو بھی اپنی ماں کی طرح رنڈی ہے۔ آج کے بعد تو سکول نہیں جائے گی" یہ کہہ کر وہ اوپر اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔ شکر! میں بچ گئی۔ دیدی کی طرح میرا کنوارپن دیکھنے کے چکر میں انہوں نے میری سیل نہیں توڑی۔
لگے ہاتھوں 'دیدی’ کی وہ چھہوٹی سی غلطی بھی سن لو جِسکی وجہ سے پاپا نے انہیں اِتنی 'سخت’ سزا دی۔۔
دراصل گلی کے 'کلو’ سے بڑے دینو سے دیدی کی گٹرگوں چل رہی تھی۔۔ بس آنکھوں اور اِشاروں میں ہی۔ آہستہ آہستہ دونوں ایک دوسرے کو لو لیٹرز لِکھ لِکھ کر انکا 'جہاز’ بنا بنا کر ایک دوسرے کی چھتوں پر پھینکنے لگے۔ دیدی بتاتی ہیں کہ کئیِ بار 'کلو’ نے چوت اور لنڈ سے بھرے خط ہماری چھت پراڑائے اور اپنے پاس بلانے کی درخواست کی۔ لیکن دیدی بے بس تھیں۔ وجہ یہ تھہ کہ رات8:00 بجتے ہی ہمارے 'سرِیوں’ والے دروازے پر تالا لگ جاتا تھا اور چابی پاپا کے پاس ہی رہتی تھی۔ پھِر نا کوئی اندر آ سکتا تھا اور نہ کوئی باہر۔ آپ خود ہی سوچِئے، دیدی اگر اپنے یار کو بلاتی بھی تو کیسے؟
لیکن ایک دِن کلو طیش میں آکر سنی دیول بن گیا۔ 'جہاز’ میں لِکھ بھیجا کہِ آج رات اگر 12:00 بجے دروازہ نہیں کھلا تو وہ سرِیا اکھاڑ دیگا۔ دیدی بتاتی ہیں کہ ایک دِن پہلے ہی انہوں نے چھت سے اسکو اپنی چوت، چوچِیاں اور چوتڑ کے جلوے دِکھائے تھے، اِسی لِئے وہ پاگل ہو گیا تھا، پاگل!
دیدی 'پیار’ کے جوش اور جذبے کو جانتی تھی۔ انکو یقین تھا کہ 'کلو’ نے کہہ دِیا تو کہہ دِیا۔ وہ ضرور آئیگا۔۔ اور آیا بھی۔ دیدی 12 بجنے سے پہلے ہی کلو کو مناکر درواجے کے 'سرِیے’ بچانے کے لئے نیچے پہنچ چکی تھی۔۔ ممی اور پاپا کی چارپائی کے پاس والی اپنی چارپائی سے اٹھکر!
دیدی کے لاکھ سمجھانے کے بعد وہ ایک ہی شرط لیکن مانا کہ اس کو لنڈ چوس چوس کر اس کی منی نِکلوانی پڑیگی۔
دیدی خوش ہوکر مان گیئں اور جھٹ سے گھٹنے ٹیک کر زمین پر بیٹھ گئیں۔ دیدی بتاتی ہیں کہ کلو نے اپنا 'لنڈ’ کھڑا کِیا اوور سرِیوں کے بیچ سے دیدی کو پکڑا دِیا۔۔ دیدی بتاتی ہیں کہ اسکو 'وہ’ گرم گرم اور چوسنے میں بڑا کھٹا میٹھا لگ رہا تھا۔ چوسنے چوسنے کے مزے میں دونوں کی آنکھیں بند ہو گئیں اور تبھی کھلیں جب پاپا نے پِچھے سے آکر دیدی کو پِچھے کھینچ کر لنڈ مشکِل سے ان کے منہ سے باہر نِکلوایا۔
پاپا کو دیکھتے ہی گھر کے سرِیا تک اکھاڑ دینے کا دعویٰ کرنے والا 'کلو دیول’ کاتو پتا ہی نہیں چلا کہاں غائب ہوگیا ۔ بیچاری دیدی کو اِتنی بڑی سزا اکیلے ہی بھگتنی پڑی۔ سالا کلو بھی پکڑا جاتا اور اسکی گانڈ کے سوراخمیں بھی پاپا موم بتی گھساتے تو اسکو پتا تو چلتا موم بتی اندر ڈلوانے میں کِتنی تکلیف ہوتی ہے۔
خیر، ہر روز کی طرح سکول کے لِئے تیار ہونے کا ٹائیم ہوتے ہی میرے کسے ہوئے ممے پھڑکنے لگے; 'شِکار’ کی تلاش کا ٹائم ہوتے ہی ان میں عجیب سی گدگدی ہونے لگ جاتی تھی۔ میں نے یہی سوچا تھا کہ روز کی طرح رات کی وہ بات تو نشے کے ساتھ ہی پاپا کے سِر سے اتر گئی ہوگی۔ لیکن ہائے ری میری قِسمت; اِس بار ایسا نہیں ہوا ،" کِس لِئے اِتنا پھدک رہی ہے رنڈی کی اولاد؟ چل میرے ساتھ کھیت میں!“
"پر پاپا! میرے امتحان سر پر ہیں!” بے شرم ہو کر میں نے رات والی بات بھول کر ان سے بحث کی۔
پاپا نے مجھے اوپر سے نیچے تک گھورتے ہوئے کہا،" یہ لے پکڑ! اٹھا ٹوکری! ہو گیا تیرا سکول! بس! تیری حاضِری لگ جائیگی اسکول میں! رؤف کے لڑکے سے بات کر لی ہے۔ آج سے کالج سے آنے کے بعد تجھے گھر پر ہی پڑھا جایا کریگا! تیاری ہو جائے تو پیپر دے دینا۔ اگلے سال تجھے گرلزا سکول میں داخل کراؤںگا۔ وہاں دِکھانا تم اپنی چڈی کا رنگ" آخِری بات کہتے ہوئے پاپا نے میری طرف دیکھتے ہوئے زمین پر تھوک دِیا۔ میری چڈی کی بات کرنے سے شائد ان کے منہ میں پانی آ گیا ہوگا۔
کام کرنے کی میری عادت تو تھی ہی نہیں۔ پرانا سا لہنگا پہن کر کھیت سے لوٹی تو بدن کی پور پور دکھ رہی تھی۔ دِل کر رہا تھا کہ کوئی مجھے اپنے پاس لِٹاکر آٹے کی طرح گوندھ ڈالے۔ میری اوپر کمرے میںجانے تک کی ہِمت نہ ہوئی اور نیچے کے کمرے میں چارپائی کو سیدھا کرکے اس پرپسری اور سو گئی۔
رؤف کے لڑکے نے گھر میں گھس کر آواز دی۔ مجھے پتا تھا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔ پھِر بھی میں کچھ نا بولی۔ در-اصل پڑھنے کا میرا دل تھا ہی نہی، اِسی لِئے میں سونے کی ایٹنگ کرتے ہوئے وہیںپڑی رہی۔ میرے پاس آتے ہی وہ پھِر بولا،"انجلِ!“
اسنے 2-3 بار مجھکو آواز دی۔ لیکن مجھے نہیں اٹھنا تھا سو نہیں اٹھی۔ ہائے یہ کیا! وہ تو اگلے ہی لمحے لڑکوں والے حرامی پن پر اتر آیا۔ سیدھا میرے چوتڑوں پر ہاتھ لگاکر ہِلایا،"انجلِ۔۔ اٹھو نا! پڑھنا نہیں ہے کیا؟”
اِس حرکت نے تو دوسری ہی پڑھائی کرنے کی خواہش مجھ میں جگا دی۔ اسکے ہاتھ کا لمس پاتے ہی میرے چوتڑ خود بخود بھنچے اور سِکڑ سے گئے۔ میرا پورا بدن اسکے چھونے سے تھِرک اٹھا تھا۔ اسکو میرے جاگ جانے کی غلط فہمی نا ہو جائے اِسیلِئے نیںد میں ہی بڑبڑانے کا ناٹک کرتی ہوئی میں الٹی ہو گئی; اپنے گداز چوتڑوں کی کساوٹ سے اسکو للچانے کے لِئے۔
سارا گاںؤں اس چشملی کو شریف کہتا تھا، لیکن وہ تو بڑا ہی حرامی نِکلا۔ ایک بار باہر نظر مار کر آیا اور میرے چوتڑوں سے تھوڑا نیچے مجھ سے چپک کر چارپائی پر ہی بیٹھ گیا۔ میرا منہ دوسری طرف تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ چوری چوری میرے بدن کی دلکش بناوٹ کا ہی لطف اٹھا رہا ہوگا!
“انجلِ!” اِس بار تھوڑی تیز بولتے ہوئے اس نے میرے گھٹنوں تک کے لہنگے سے نیچے میری ننگی گداز پِنڈلِیوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر مجھے ہِلایا اور سرکتے ہوئے اپنا ہاتھ میرے گھٹنوں تک لے گیا۔ اب اسکا ہاتھ نیچے اور لہنگا اوپر تھا۔
مجھ سے اب برداشت کرنا مشکِل ہو رہا تھا۔ لیکن شِکار ہاتھ سے نِکلنے کا ڈر تھا۔ میں چپ سادھے رہی اور اس حرامی کو جلد سے جلد اپنے چکنے پِنجرے میں قید کرنے کے لِئے دوسری ٹانگ گھٹنوں سے موڑی اور اپنے پیٹ سے چِپکا لی۔ اِسکے ساتھ ہی میرا لہنگا اور اوپر سرک گیا اور میری ایک ران کافی اوپر تک ننگی ہو گئی۔ میں نے دیکھا نہیں، لیکن میری چڈی تک آ نے والی ٹھنڈی ہوا سے مجھے لگ رہا تھا کہ اس حرامی کو میری چڈی کا رنگ دِکھنے لگا ہے۔
“آ۔آننجلِ” اِس بار اسکی آواز میں کپکپاہٹ سی تھی۔۔ سِسک اٹھا تھا وہ شاید! ایک بار کھڑا ہوا اور پھِر بیٹھ گیا۔۔ شاید میرا لہنگا اسکی گانڈ کے نیچے پھنسا ہوا ہوگا۔ واپس بیٹھتے ہی اس نے لہنگے کو پلٹ کر میری کمر پر ڈال دِیا۔۔
اسکا کیا حال ہوا ہوگا یہ تو مجھے پتا نہیں۔ لیکن میری چوت میں بلبلے اٹھنے شروع ہو چکے تھے۔ جب برداشت کرنے کی حد پار ہو گئی تو میں نیند میں ہونے کی ویکٹنگ کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اپنی مڑی ہوئی ٹانگ کے نیچے سے لے جاکر اپنی کچھی میں انگلیاں گھسا کر'وہاں’ کھجلی کرنے کے بہانے سے اس کو کریدنے لگی۔ میرا یہ حال تھا تو اسکا کیا ہو رہا ہوگا؟ سلگ گیا ہوگا، ہے نا؟
میںنے ہاتھ واپس کھینچا تو احساس ہوا جیسے میری چوت کی ایک پھانک چڈی سے باہر ہی رہ گئی ہے۔ اگلے ہی پل اسکی ایک حرکت سے میں بوکھلا اٹھی۔ اس نے جھٹ سے لہنگا نیچے سرکا دِیا۔ کمبخت نے میری ساری محنت کو مِٹی میں مِلا دِیا۔
لیکن میری سوچ غلط ثابِت ہوئی ۔ وہ حرامی تو میری امید سے بھی زیادہ شاطِر نِکلا۔ ایک آخِری بار میرا نام پکارتے ہوئے اس نے میری نیند کی گہرائی کو ناپنے کی کوشِش کی اور اپنا ہاتھ لہنگے کے نیچے سرکاتے ہوئے دوبارہ میری چوتڑوں پر لے گیا۔۔۔
چڈی کے اوپر تھرکتی ہوئی اسکی انگلِیوں نے تو میری جان ہی نِکال دی۔ کسے ہوئے میرے چِکنے چوتڑوں پر آہستہ آہستہ منڈلاتا ہوا اسکا ہاتھ بار بار میری گانڈ کی گولائیوں کودبا دبا کر دیکھتا رہا۔ میرے ممے چارپائی میں دھنس کر میری شہوت کو اور زیادہ بھڑکانے لگے۔ میں نے بڑی مشکِل سے اپنے آپ پر قابو رکھا ہوا تھا۔۔
اچانک اس نے میرے لہنگے کو دوبارہ اوپر اٹھایا اور دھیرے سے اپنی ایک انگلی میری چڈی کے اندر گھسا دی۔۔ آہستہ آہستہ وہ انگلی سرکتیِ ہوئی پہلے چوتڑوں کی دراڑ میں گھومی اور پھِر نیچے آنے لگی۔۔ میں دم سادھ کے ساکت پڑی ہوئی تھی۔۔ لیکن جیسے ہی انگلی میری چوت کے لبوں کے درمیان آئی میں اچھل پڑی۔۔ اور اسی پل اسکا ہاتھ وہاں سے ہٹا اور چارپائی کا بوجھ کم ہو گیا۔۔
میری چوت ِ تڑپ اٹھی۔ مجھے لگا کہ چوت میں انگلی کروانے کا یہ موقع بھی ہاتھ سے گیا۔۔ لیکن اِتنی آسانی سے میں بھی ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔۔ اپنی سِسکِیوں کو نیند کی بڑبڑاہٹ میں بدل کر میں سیدھی ہو گئی اور آنکھیں بند کِئے ہوئے ہی میں نے اپنی رانیں گھٹنوں سے پوری طرح موڑ کر ایک دوسری سے الگ کر کے پھیلا دیں۔ اب لہنگا میرے گھٹنوں سے اوپر تھا اور مجھے یقین تھا کہ میری بھیگی ہوئی چڈی میں چھپی ہوئی میری چوت اسکی آنکھوں کے سامنے ہوگی۔
تھوڑی دیر اور یوںہی بڑبڑاتے ہوئے میں چپ ہو کر گہری نیند میں ہونے کا ڈرامہ کرنے لگی۔ اچانک مجھے کمرے کے دروازے کی چٹخنیِ بند ہونے کی آواز آئی۔ اگلے ہی پل وہ واپس چارپائی پر ہی آکر بیٹھ گیا۔۔ آہستہ آہستہ پھِر سے رینگتا ہوا اسکا ہاتھ میری چوت تک پہنچ گیا۔ میری چوت کے اوپر سے اس نے چڈی کو کھسکاکر ایک طرف کر دِیا۔ میں نے ہلکی سی آنکھیں کھولکر دیکھا۔ اس نے چشمہ نہیں پہنا ہوا تھے۔ شاید اتار کر ایک طرف رکھ دِیا ہو گا۔ وہ آنکھیں پھاڑے میری پھڑکٹی ہوئی چوت کو ہی دیکھ رہا تھا۔ اسکے چہرے پر چھلکنے والی ہوس دور سے ہی دکھائی دے رہی تھی۔۔
اچانک اس نے اپنا چہرہ اٹھایا تو میں نے اپنی آنکھیں پوری طرح بند کر لیں۔ اسکے بعد تو اس نے مجھے جنت کی سیر کرادی۔ چوت کے دونوں لبوں پر مجھے اسکے دونوں ہاتھ محسوس ہوئے ۔ بہت ہی آرام سے اس نے اپنے انگوٹھے اور انگلِیوں سے پکڑ کر میری چوت کے موٹے موٹے لبوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دِیا۔ پتہ نہیں کیا ڈھونڈھ رہا تھا وہمیری چوت کے اندر۔ لیکن جو کچھ بھی کر رہا تھا، مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور میں نے مزے سے کانپتے ہوئے رانیں بھینچ کر جھڑ گئی اور میری چوت نے پہلی بار کسی مرد کی انگلیوں کے لمس سے مجبور ہو کر اپنا پانی چھوڑ دِیا۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اِس بار اس نے میری چوت سے اپنے ہاتھ نہیں ہٹائے۔۔
کِسی کپڑے سے شاید میرے لہنگے سے ہی اس نے میری چوت کو صاف کِیا اور پھِر سے میری چوت کے لبوںکو چوڑا کر دیا۔ لیکن اب جھڑ جانے کی وجہ سے مجھے نارمل رہنے میں کوئی خاص مشکل نہیں ہو رہی تھی۔ ہاں، مزہ اب بھی آ رہا تھا اور میں پورا مزہ لینا چاہتی تھی۔
اگلے ہی پل مجھے گرم سانسیں چوت میں گھستی ہوئی محسوس ہوئیں اور میں پاگل سی ہوکر میں نے وہاں سے اپنے آپ کو اٹھا لِیا۔۔ میں نے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اسکا چہرہ میری چوت پر جھکا ہوا تھا۔۔ میں اندازہ لگا ہی رہی تھی کہ وہ کیا کرے گا کہِ مجھے پتا چل گیا کہِ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ اچانک اس نے میری چوت کو اپنی زبان سے چاٹنا شروع کر دیا۔۔ میرے سارے بدن میں جھرجھری سی آ گی۔اِس مزے کو برداشت نہ کر پائی اور میری سِسکی نِکل گیی اور میں اپنے چوتڑوں کو اٹھا اٹھا کر اس کے منہ پر اپنی چوت پٹخنے لگی۔۔لیکن اب اس کو کوئی ڈر نہیں تھا۔۔ میری رانوں کو اس نے کس کر ایک جگہ دبوچ لِیا تھا اور میری چوت کے اندر اپنی پوری زبان گھسا دی تھی۔۔
“ایایا!” بہت مزہ آ رہا تھا اتنا کہ میری برداشت سے باہر تھا کہ میں اپنی سسکاریاں روک سکوں ۔۔ مجھے اور میری چوت کواِتنا مزہ آ رہا تھا کہ میں کیا بتاؤں۔۔ جب بالکل میری برداشت سے باہر ہو گیا تو میں اپنا ہاتھ اس کے سر پر لے گئی اور اس کو اپنی چوت پر سے ہٹانے کی کوشِش کی تو اسنے میرا ہاتھ پکڑ لِیا،" کچھ نہیں ہوتا انجلِ۔۔ بس دو مِنِٹ اور!“ یہ کہہ کر اس نے میری رانوں کو میرے چہرے کی طرف دھکیل کر وہیں دبوچ لِیا اور پھِر سے زبان کے ساتھ میری چوت کی گہرائیوں میں اتار دی۔۔
ہائے اِسکا مطلب تھا کہ اس کو پتہ تھا کہ میں جاگ رہی ہوں۔۔ پہلے یہ بات بول دیتا تو میں کیوں گھٹ گھٹ کر مزے لیتی، میں نے جھٹ سے اپنی کوہنی چارپائی پر ٹکا ئی اور اپنی گانڈ اوپر اٹھا کر سِسکتے ہوئے بولی،” انہہہہ۔۔جلدی کرو ناں۔۔ مجھے دوبارہ جھڑواؤ ورنہ ۔۔انہہہہ کوئی آ جائیگا افففف!“
پھِر کیا تھا۔۔ اس نے چہرہ اوپر کرکے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔۔ اسکی ناک پر اپنی چوت کا گاڑھا پانی لگا دیکھا تو میری ہنسی چھوٹ گئی۔۔ اِس ہنسی نے اسکی جھِجھک بالکل ہی ختم کر دی۔۔ جھٹ سے مجھے پکڑ کر نیچے اتارا اور گھٹنے زمین پر ٹکا کر مجھے کمر سے اوپر چارپائی پر لِٹا دِیا۔،” یہ کیا کر رہے ہو؟"
“ٹائم نہیں ہے ابھی بتانے کا۔۔ بعد میں سب بتا دوںگا۔۔ کِتنی رسیلی ہے تو ہائے۔۔ اپنی گانڈ کو تھوڑا اوپر کر لے۔۔”
“لیکن کیسے کروں؟۔۔ میرے تو گھٹنے زمین پر ٹیکے ہوئے ہیں۔؟”
“تو بھی نا۔۔ !” اسکو غصہ سا آیا اور میری ایک ٹانگ چارپائی کے اوپر چڑھا دی۔۔ نیچے تکِیا رکھا اور مجھے اپنا پیٹ وہاں ٹکا نے کو بولا۔۔ میں نے ویسا ہی کِیا۔۔
“اب اٹھاؤ اپنے چوتڑ اوپر۔۔ جلدی کرو۔۔” بولتے ہوئے اسنے اپنا موٹا جیسا لِنڈ پینٹ میں سے باہر نِکال لِیا۔۔
میں اپنے چوتڑوں کو اوپر اٹھاتے ہوئے اپنی چوت کو اسکے سامنے پروسا ہی تھا کہ باہر پاپا کی آواز سنکر میرا دم نِکل گیا،" پپاپا!“ میں چِلائی۔۔۔

"دو کام کیا کر لِئے; تیری تو جان ہی نِکل گئی۔۔ چل کھڑی ہو جا اب! نہا دھو لے۔ 'وہ’ آنے ہی والا ہوگا۔۔ پاپا نے کمرے میں گھس کر کہا اور باہر نِکل گئے،"جا چھوٹو! ایک 'ادھا’ لیکر آ!”
ہائیمیری تو سانسیں ہی تھم گیئں تھیں۔ غنیمت تھا کہ خواب دیکھتے ہوئے میں نے سچ مچ اپنا لہنگا اوپر نہیں اٹھایا تھا۔ اپنے مموں کو دباکر میں نے 2-4 لمبی لمبی سانسیں لیں اور لہنگے میں ہاتھ ڈال اپنی چڈی کو چیک کِیا۔ چوت کے پانی سے وہ بالکل بھیگ چکی تھی۔ بچ گئی!
رگڑ رگڑ کر نہاتے ہوئے میں نے کھیت کی مِٹی اپنے جسم سے اتاری اور نئی چڈی پہن لی جو ممی 2-4 دِن پہلے ہی بازار سے لائی تھیں،" پتہ نہیں انجو ! تیری عمر میں تو میں چڈی پہنتی بھی نہیں تھی۔ تیری اِتنی جلدی کیسے خراب ہو جاتی ہے" ممی نے لاکر دیتے ہوئے کہا تھا۔
مجھے پوری امید تھی کِ ریںپھل کا لڑکا میرا سپنا ساکار ضرور کریگا۔ اِسیلِئے میں نے سکول والی سکرٹ ڈالی ار بِنا برا کے شرٹ پہنکر باتھروم سے باہر آ گی۔
“جا وہ نیچے بیٹھے تیرا اِنتظار کر رہے ہیں۔۔ کِتنی بار کہا ہے برا ڈال لِیا کر; نِکمی! یہ تیرے ممے ہِلتے ہیں تو تجھے شرم نہیں آتی؟” ممی کی اِس بات کو میں نے نظرانداز کِیا اور اپنا بیگ اٹھا کر سیڑھِیوں سے نیچے اترتی چلی گئی۔
نیچے جاکر میں نے اس چشملی کے ساتھ بیٹھی پڑوس کی رِنکی کو دیکھا تو میری سمجھ میں آیا کِ ممی نے بیٹھا ہے کی بجائے بیٹھے ہیں کیوں کہا تھا: “تم کِس لِئے آئی ہو؟” میںنے رِنکی سے کہا اور چشمو کو ابھِوادن کے روپ میں داںت دِکھا دِئے۔ الو کی دم ہںسبھی نہیں مجھے دیکھکر،" کرسی نہیں ہے کیا؟"
“میں بھی یہیں پڑھ لِیا کروںگی۔۔ بھیا نے کہا ہے کہِ اب روز یہیں آنا ہے۔ پہلے میں بھیا کے گھر جاتی تھی پڑھنے۔۔ ” رِنکی کی سریلی آواز نے بھی مجھے ڈنک سا مارا۔۔
“کون بھیا؟” میںنے منہ چڑھا کر پوچھا!
“یے۔۔ ترن بھیا! اور کن؟ اور کیا اِنکو سر کہیںگے؟ 4-5 سال ہی تو بڑے ہیں۔۔” رِنکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
ہائے رام! جو تھوڑی دیر پہلے سپنے میں 'سیاں’ بنکر میری چوت میں زبان گھما رہا تھا; اسکو کیا اب بھیا کہنا پڑیگا؟ نا! میںنے نہ کہا بھیا!
“ میں تو سر ہی کہوںگی! ٹھیک ہے نا، ترن سر؟”
بیشرمی سے میں چارپائی لیکن اسکے سامنے پسر گئی اور ایک ٹانگ سیدھی کِئے ہوئے دوسری گھٹنے سے موڑ اپنی چھاتی سے لگا لی۔ سیدھی ٹانگ والی چِکنی ران تو مجھے اوپر سے ہی دِکھائی دے رہی تھی۔۔ اسکو کیا کیا دِکھ رہا ہوگا، آپ خود ہی سوچ لو۔
“ٹھیک سے بیٹھ جاؤ! اب پڑھنا شروع کریںگے۔۔ ” حرامی نے میری جنت کی طرف تو دیکھا تک نہیں اور خود ایک طرف ہو کر رنکی کو بیچ میں بیٹھنے کی جگہ دے دی۔۔ میں تو سلگتی رہ گئی۔۔ میں نے آلتی پالتی مار کر اپنا گھٹنا جلن کی وجہ سے رنکی کی گود میں پھنسا دِیا اور آگے جھک کر معصوم شکل بناکر اپنی کاپی کی طرف دیکھنے لگی۔۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے میں جانے کِتنے ہی سوال نِکال دِئے اس نے، میری سمجھ میں تو خاک بھی نہیں آیا۔۔ کبھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ کو کبھی اسکی پینٹ کے مردانا ابھار کو ڈھونڈتی رہی، لیکن کچھ نہیں مِلا۔۔
پڑھتے ہوئے اسکا دھیان ایک دو بار میرے مموں کی طرف ہوا تو مجھے لگا کہ وہ مموںکا دیوانا ہے۔ میں نے جھٹ سے اسکی باتیں سنتے سنتے اپنی شرٹ کا بیچ والا ایک بٹن کھول دِیا۔ میرے گداز ممے، جو شرٹ میں گھٹن محسوس کر رہی تھے; راستہ مِلتے ہی اس طرف سرک کر سانس لینے کے لِئے باہر جھانکنے لگیاور میرے مموں کے درمیان والی گہری گھاٹی اب اس کے باِلکل سامنے تھی۔
ترن نے جیسے ہی اِس بار مجھ سے پوچھنے کے لِئے میری طرف دیکھا تو اسکا چہرہ ایکدم لال ہو گیا۔۔ ہڑبڑتے ہوئے اسنے کہا،" بس! آج اِتنا ہی۔۔ مجھے کہیں جانا ہے۔۔ کہتے ہوئے اس نے نظریں چراکر ایک بار اور میرے گورے مموں کو دیکھا اور کھڑا ہو گیا۔۔۔
حد تو تب ہو گئی، جب وہ میرے سوال کا جواب دِئے بغیر ہی باہر نِکل گیا۔
میںنے تو سِرف اِتنا ہی پوچھا تھا،" مزہ نہیں آیا کیا، سر؟"

سپنے میں ہی سہی، لیکن بدن میں جو آگ لگی تھی، اسکی دہک سے اگلے دِن بھی میرا انگ - انگ سلگ رہا تھا۔ جوانی کی تڑپ کی داستان سناتی تو سناتی کِسکو! صبح اٹھی تو گھر پر کوئی نہیں تھا۔۔ پاپا شاید آج ممی کو کھیت میں لے گئے ہوںگے۔۔ ہفتے میں 2 دِن تو کم سے کم ایسا ہوتا ہی تھا جب پاپا ممی کے ساتھ ہی کھیت میں جاتے تھے۔۔
ان دو دنوں میں ممی اِس طرح سج دھج کر کھانا ساتھ لیکر جاتی تھیں جیسے کھیت میں نہیں بلکہ کہیں بڈھے بڈھِیوں کے مقابلہء حسن میں جا رہی ہوں۔۔ مزاق کر رہی ہوں۔۔ میری ممی تو اب تک بوڑہیِ نہیں ہوئی ہیں۔۔ 40 کی عمر میں بھی وہ بڑی دیدی کی طرح رسیلی ہیں۔۔ میرا تو خیر ان کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
خیر; میں بھی کِن باتوں میں پڑ جاتی ہوں۔۔ ہاں تو میں بتا رہی تھی کہِ اگلے دِن صبح اٹھی تو کوئی بھی گھر پر نہیں تھا۔۔ خالی گھر میں خود کو اکیلی پاکر میری رانوں کے بیچ سرسراہٹ سی مچنے لگی۔۔ میں نے دروازہ اندر سے بند کِیا اور چارپائی پر آکر اپنی رانوں کو پھیلاکر سکرٹ پوری طرح اوپر اٹھا دِیا۔۔
میں دیکھ کر حیرت میں پڑ گی۔۔ میری چوت کِسیڈبل روٹی کی طرح پھول کر میری چڈی سے باہر نِکلنے کو بیتاب ہو رہی تھی۔۔ موٹی موٹی چوت کے ہونٹ پوری طرح ابھر کر چڈی کے باہر سے ہی دِکھائی دے رہے تھے۔۔ میری چوت کی دراڑ میں میری چڈی اِس طرح اندر گھسی ہوئی تھی جیسے چوت کا دِل چڈی پر ہی آ گیا ہو۔۔
ڈر تو کِسی بات کا تھا ہی نہی۔۔ میں لیٹی اور چوتڑوں کو اکساتے ہوئے شڈی کو اتار پھینکا اور دوبارہ بیٹھ کر رانوں کو پھِر الگ الگ کر دِیا۔۔ ہائے! اپنی ہی چوت کے رسیلے پانی اور رانوں تک بہہ کر گرنے والی چِکناہٹ کو دیکھتے ہی میں مدہوش سی ہو گی۔۔
میںنے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جاکر اپنی انگلِیوں سے چوت کے لبوں کو سہلا کر دیکھا۔۔ لبوں پر اگے ہوئے ہلکے ہلکے بھورے رنگ کے چھوٹے چھوٹے بال تک شہوت کے مارے کھڑے ہو گئے تھے۔۔ اپنی چوت کے لبوں پر ہاتھ پھیرنے سے مجھے اپنی چوت کے اندر تک گدگدی اور مزے کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ چوت پر اوپر نیچے انگلِیوں سے امڈتی ہوئی شہوتکی شدت سے میں بدحواس سی ہوتی جا رہی تھی۔۔ اپنی چوت کے لبوں کو پھیلاکر میں نے اندر جھانکنے کی کوشِش کی; چِکنے چِکنے لال گوشت کے علاوہ مجھے اور کچھ دِکھائی نہ دِیا۔۔ لیکن مجھے دیکھنا تھا۔۔۔۔
میں اٹھی اور بیڈ پر جاکر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی۔۔ ہاں۔۔ اب مجھے ٹھیک ٹھیک اپنی چوت کا دروازہ دِکھائی دے رہا تھا۔۔ گہرے لال اور گلابی رنگ میں رنگا 'وو’ کوئی آدھے اِنچ گہرا ایک گڑھا سا تھا۔۔
مجھے پتا تھا کہ جب بھی میری چدائی ہوگی۔۔ یہیں سے ہوگی۔۔! جہاں سے چوت کے لب الگ ہونے شروع ہوتے ہیں۔۔ وہاں لیکن ایک چھوٹا سا دانا ابھرا ہوا تھا۔۔ بالکل میرے مموں کے نپلوں کی طرحاکڑا ہوا۔۔ شہوت کی شدت سے میں پاگل سی ہوگئی تو میں نے اس کو انگلی سے چھیڑنے لگی۔۔
ہمیشہ کی طرح وہاں ہاتھ لگاتے ہی میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔ رانوں میں ہلکی ہلکی کپکپی سی شروع ہو گئی۔۔ ویسے یہ سب میں پہلے بھی محسوس کر چکی تھی۔۔ لیکن سامنے شیشے میں دیکھتے ہوئے ایسا کرنے کا مزہ ہی الگ ہے۔۔ سچ میں! بہت مزہ آرہا تھا۔۔
دھیرے دھیرے میری انگلِیوں کی رفتارِ بڑھتی گئی۔۔ اور میں جھڑنے لگی اور جھڑتے جھڑتے نِڈھال ہوکر بِستر پر گِرگئی۔۔ انگلیاں اب چوت کے دانے کو سہلا نہیں رہی تھیں۔۔ بلکہ بری طرح سے پوری چوت کو ہی لبوں سمیت مسل رہی تھیں۔۔ اچانک میرے منہ سے نکلتی ہوئی عجیب سی سِسکِاریاں میرے کانوں میں میٹھی سی دھن میں بدل گئیں اور نہ جانے کب ایسا کرتے ہوئے میں سب کچھ بھلا کر دوسری دنیا میں جا پہنچی۔۔۔
گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے میںنے اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑدیا اور اپنی بانہوں کو بِستر پر پھیلائے ہوش میں آنے ہی لگی تھی کہِ دروازے پر دستک سن کر میرے ہوش ہی اڑ گئے۔۔۔
میںنے فٹافٹ اٹھتے ہوئے سکرٹ کو اچھِی طرح نیچے کِیا اور جاکر دروازہ کھول دِیا۔
“کِتنی دیر سے نیچے سے آواز لگا رہا ہوں؟ میں تو واپس جانے ہی والا تھا۔۔اچھا ہوا جو اوپر آکر دیکھ لِیا۔۔ ” سامنے زمیندار کا لڑکا کھڑا تھا; سندر!
“ کیا بات ہے؟ آج سکول نہیں گئیں؟” سندر نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہی میرے گالوں سے لیکر گھٹنوں تک گھرتا ہوا بولا۔۔
“گھر پر کوئی نہیں ہے!” میںنے سِرف اِتنا ہی کہا اور باہر آکر کھڑی ہو گئی۔۔
کمینہ! اندر ہی جاکر بیٹھ گیا،"تم تو ہو نا!“
"نہیں۔۔ مجھے بھی ابھی جانا ہے۔۔ کھیت میں۔۔!” میںنے باہر کھڑے کھڑے ہی کہاا۔۔
“اِتنے دنوں کے بعد آیا ہوں۔۔ چائے وائے تو پوچھ لِیا کرو۔۔ اِتنا بھی کنجوس نہیں ہونا چاہِئے۔۔”
میںنے مڑکر دیکھا تو وہ میرے موٹے موٹے چوتڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پرزبان پھیر رہا تھا۔۔۔
“دودھ نہیں ہے گھر میں۔۔!” میں چوتڑوں کا ابھار چھپانے کے لِئے جیسے ہی اسکی طرف پلٹی۔۔ اسکی نظریں میرے مموں پر جم گئیں۔
“کمال ہے۔۔ اِتنی موٹی تازی ہو اور دودھ بِالکل نہیں ہے۔۔” وہ دانت نِکال کر ہنسنے لگا۔۔
آپ شاید سمجھ گئے ہوںگے کی وہ کِونسے 'دودھ’ کی بات کر رہا تھا۔۔ لیکن میں بِالکل نہیں سمجھی تھی اس وقت۔۔ تمہاری قسم
“کیا کہہ رہے ہو؟ میرے موٹے تازے ہونے سے دودھ ہونے یا نا ہونے کا کیا تعلق ہے؟”
وہ یوںہی میری سانسوں کے ساتھ اوپر نیچے ہونے والے مموں کو گھورتا رہا،" اِتنی بچی بھی نہیں ہو تم۔۔ سمجھ جایا کرو۔۔ جِتنی موٹی تازی بھینس ہوگی۔۔ اتنا ہی تو زیادہ دودھ دے گی" اسکی نظریں میرے بدن میں گڑی جا رہی تھیں۔۔
ہائے میری اب سمجھ میں آیا وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔ میں نے پورا زور لگاکر چہرے پر غصہ لانے کی کوشِش کی۔۔ لیکن میں اپنے گالوں پر آنے والی سرخی کو نہ چھپا سکی،" کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔؟ مجھے کہیں جانا ہے۔۔ اب جاؤ بھی یہاں سے۔۔!“
"ارے۔۔ اِس میں برا ماننے والی کونسی بات ہے۔؟ زیادہ دودھ پیتی ہوگی تب ھی تو اِتنی موٹی تازی ہو۔۔ ورنہ اپنی دیدی کی طرح دبلی پتلی نا ہوتیں؟۔۔اور دودھ ہوگا تبھی تو پیتی ہوگی۔۔میںنے تو صِرف اتنا ہی کہا تھا۔۔ میں تمہیں کوئی بھینس تھوڑی بول رہا تھا۔۔ تم تو بے حد پیاری ہو۔۔ گوری چِٹیِ۔۔ تمہارے جیسی تو اور کوئی نہیں دیکھی میںنے۔۔ آج تک! قسم جھنڈے والے بابا کی۔۔”
آخری لائین کہتے کہتے اسکا لہجہ پر ہوس ہو گیا تھا۔۔ جب جب اس نے دودھ کا ذکر کِیا۔۔ میرے کانوں کو یہی لگا کہِ وہ میرے گداز مموں کی تعریف کر رہا ہے۔۔۔
“ہاں! پیتی ہوں دودھ۔۔ تمہیں کیا ہے؟ پیتی ہوں تب ہی تو ختم ہو گیا۔۔” میںنے چِڑ کر کہا۔۔۔
“ایک آدھ بار ہمیں بھی پیلا دو نا!۔۔۔ ۔۔ کبھی چکھ کر دیکھنے دو۔۔ اپنا دودھ۔۔!”
اسکی باتوں کے ساتھ اسکا لہجہ بھی بِلکل غلیظ ہو گیا تھا۔۔ کھڑے کھڑے ہی میری ٹانگیں کانپنے لگی تھیں۔۔۔
“مجھے نہیں پتہ۔۔میںنے کہا نا۔۔ مجھے جانا ہے۔۔!” میں اور کچھ نا بول سکی اور نظریں جھکائے کھڑی رہی۔۔
“نہی پتہ تبھی تو بتا رہا ہوں انجو ! سیکھ لو ایک بار۔۔ پہلے پہل سبھی کو سیکھنا پڑتا ہے۔۔ ایک بار سیکھ لِیا تو زندگی بھر نہیں بھولوگی۔۔” اسکی آنکھوں میں اب شہوت کے لال ڈورے تیر رہے تھے۔۔
میرا بھی برا ہال ہو چکا تھا تب تک۔۔ لیکن کچھ بھی ہو جاتا۔۔ اس کے نیچے تو میں نے نا جانے کی قسم کھا رکھی تھی۔۔ میں نے غصے سے کہا،"کیا ہے؟ کیا سیکھ لوں۔۔ بکواس مت کرو!“
"ارے۔۔ اِتنا اکھڑ کیوں رہی ہو بار بار۔۔ میں تو آئے گئے لوگوں کی میہمان-نوازی سِکھانے کی بات کر رہا ہوں۔۔ آخِر چائے پانی تو پوچھنا ہی چاہِئے نا۔۔ ایک بار سیکھ گئی تو ہمیشہ یاد رکھوگی۔۔ لوگ کِتنے خوش ہوکر واپس جاتے ہیں۔۔ ہے ہے ہے!” وہ جھینپتا ہوا بولا۔۔ اور چارپائی کے سامنے پڑی میری کچھی کو اٹھا لِیا۔۔
مجھے جھٹکا سا لگا۔۔ اس طرف تو میرا دھیان اب تک گیا ہی نہیں تھا۔۔ مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اسکے پاس اندر جانا پڑا،"یہ مجھے دو۔۔!“
بڑی بے شرمی سے اس نے میری گیلی کچھی کو اپنی ناک سے لگا لِیا،"اب ایک مِنِٹ میں کیا ہو جائیگا۔۔ اب بھی تو بیچاری فرش پر ہی پڑی تھی۔۔” میںنے ہاتھ بڑھایا تو وہ اپنا ہاتھ پِچھے لے گیا۔۔ شاید اِس غلطپ فہمی میں تھا کہ اس'سے چھین'نے کے لِئے میں اسکی گود میں چڑھ جاؤنگیِ۔۔۔
میں پاگل سی ہو گئی تھی۔۔ اس پل مجھے یہ خیال بھی نہیں آیا کی میں بول کیا رہی ہوں۔،" دو نا مجھے۔۔ مجھے پہننیِ ہے۔۔" اور اگلے ہی پل یہ احساس ہوتے ہی کہِ میں نے یہ کیا بک دِیا۔۔ میں نے شرم کے مارے اپنی آنکھیں بند کرکے اپنے چہرے کو ڈھک لِیا۔۔۔
“اوہ ہو ہو ہو۔۔ اِسکا مطلب تم ننگی ہو۔۔! ذرا سوچو۔۔ کوئی تمہیں زبردستی لِٹا کر تمہاری 'دیکھ’ لے تو!”
اسکے بعد تو مجھ سے وہاں کھڑا ہی نہیں رہا گیا۔۔ پلٹ کر میں نیچے بھاگ آئی اور گھر کے دروازے پر کھڑی ہو گئی۔۔ میرا دِل میرے اکڑ ے ہوئے مموں کے ساتھ تیزی سے دھک دھک کر رہا تھا۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ نیچے آیا اور میری برابر میں کھڑا ہوکر میری طرف دیکھے بغیربولا،" اسکول میں تمہارے کرتوتوں کے کافی چرچے سنے ہیں میںنے۔۔ وہاں تو بڑی پھدکتیِ ہے تو۔۔ یاد رکھنا لڑکیِ۔۔ تیری ماں کو بھی چودا ہے میںنے۔۔ پتا ہے نا۔۔؟ آج نہیں تو کل۔۔ تجھے بھی اپنے لنڈ پر بِٹھا کر ہی رہوںگا۔۔" ار وہ نِکل گیا۔۔
ڈر اور ہوس کی تمتماہٹ میرے چہرے پر صاف جھلک رہی تھی۔۔ میں نے دروازہ جھٹ سے بند کِیا اور بدحواس سی بھاگتے بھاگتے اوپر آ گئی۔۔ مجھے میری چڈی کہیں بھی نہیں مِلی۔۔ لیکن اس وقت مجھے چڈی سے زیادہ مجھے چڈی والی کی فِکر تھی۔۔ اوپر والا دروازہ بند کِیا اور شیشے کے سامنے بیٹھ گئی اور دوبارہ اپنی رانیں پھیلاکر اپنی چوت کو اپنی انگلیوں سے مسلنے لگی۔
اسکے نام پر مت جانا۔۔ وہ کہتے ہیں نا! آنکھ کا اندھا اور نام نین سکھ۔۔ سندر بِلکل ایسا ہی تھا۔۔ ایک دم کالا کلوٹا۔۔ اور 6 فٹ سے بھی لمبا تڑنگا سانڈ! مجھے اس'سے گھِن تو تھی ہی۔۔ ڈر بھی بہت لگتا تھا۔۔ مجھے تو دیکھتے ہی وہ ایسے گھورتا تھا جیسے اسکی آنکھوں میں ایکس رے لگا ہو اور مجھ کو وہ ننگا کرکے دیکھ رہا ہو۔۔ اسکی جگہ اور کوئی بھی اس وقت اوپر آیا ہوتا تو میں اس کو پیار سے اندر بِٹھا کر چائے پِلاتی اور اپنے جسم کی نمائش کرنا شروع کر دیتی۔۔ لیکن اس'سے تو مجھے اِس دنِیا میں سب سے زیادہ نفرت تھی۔۔
اسکی بھی ایک وجہ تھی۔۔
تقریباً 10 سال پہلے کی بات ہے۔۔ میں 7-8 سال کی ہی تھی۔ ممی کوئی 30 کی ہونگی اور وہ حرمزادہ سندر 20 کے آس پاس۔ لمبا تو وہ اس وقت بھی اِتنا ہی تھا، لیکن اِتنا تگڑا نہیں تھا۔۔۔
سردِیوں کی بات ہے یہ۔۔ میں اس وقت اپنی دادی کے پاس نیچے ہی سوتی تھی۔۔ نیچے تب تک کوئی الگ کمرا نہیں تھا۔۔ 18 بائی 30 کی چھت کے نیچے صِرف اوپر جانے کے لِئے جینا بنا ہوا تھا۔۔رات کو ان سے روز راجا-رانی کی کہانِیاں سنتی اور پھِر ان کے ساتھ ہی دبک جاتی۔۔ جب بھی پاپا مار پیٹ کرتے تھے تو ممی نیچے ہی آکر سو جاتی تھی۔۔ اس رات بھی ممی نے اپنی چارپائی نیچے ہی ڈال لی تھی۔۔
ہمارا دروازہ کھلتے وقت کافی آواز کرتا تھا۔۔ دروازہ کھلنے کی آواز سے ہی شائد میری نیند کھل گئی ۔۔۔
“مان بھی جا اب۔۔ 15 مِنِٹ سے زیادہ نہیں لگاؤںگا۔۔” یہی آواز آئی تھی مجھے۔۔ میری نیند اب پوری طرح کھل گئی تھی۔۔ مردانہ آواز کی وجہ سے پہلے مجھے لگا کہِ پاپا ہیں۔۔ لیکن جیسے ہی میں نے اپنی رزائی میں سے جھانکا; میرا بھرم ٹوٹ گیا۔۔ نیچے اندھیرا تھا۔۔ لیکن باہر سٹریٹ لائیٹ ہونے کی وجہ سے دھندھلا دھندھلا دِکھائی دے رہا تھا۔۔
“پاپا تو اِتنے لمبے ہیں ہی نہیں۔۔!” میںنے دل ہی دل میںسوچا۔۔
وہ ممی کو دیوار سے چِپکائے ان'سے چپکا ہوا کھڑا تھا۔۔ ممی اپنی پوری طاقت سے اپنے ہاتھوں سے اسکو پِچھے دھکیلنے کی کوشِش کر رہی تھیں۔۔
“دیکھ چاچی۔۔ اس دِن بھی تونے مجھے ایسے ہی ٹرخا دِیا تھا۔۔ میں آج بڑی امید کے ساتھ آیا ہوں۔۔ آج تو تجھے دینی ہی پڑیگی۔۔!” وہ بولا۔۔۔
“تم پاگل ہو گئے ہو کیا سندر؟ یہ بھی کوئی ٹائم ہے۔۔تیرا چاچا مجھے جان سے مار دیگا۔۔۔ تم جلدی سے 'وہ’ کام بولو جِس کے لِئے تمہیں اِس وقت آنا ضروری تھا۔۔ اور جاؤ یہاں سے۔۔!” ممی پھسپھسائی۔۔
“کام بولنے کا نہیں۔۔ کرنے کا ہے چاچی۔۔ اِففففہ۔۔” سِسکی سی لے کر وہ دوبارہ ممی سے چِپک گیا۔۔
اس وقت میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ممی اور سندر میں یہ چھینا جھپٹی کیوں ہو رہی ہے۔۔میرا دِل دھڑکنے لگا۔۔ لیکن میں ڈر کے مارے سانس روکے سب دیکھتی اور سنتی رہی۔۔
“نہیں۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔ اپنے ساتھ مجھے بھی مرواؤگے۔۔” ممی کی پھسپھساہٹ بھی انکی سریلی آواز کی وجہ سے صاف سمجھ میں آ رہی تھی۔۔۔
“وہ لوڑو میرا کیا بِگاڑ لے گا۔۔ تم تو ویسے بھی مروگی اگر آج میرا کام نہیں کروایا تو۔۔ میں کل اسکو بتا دوںگا کی میں نے تمہے باجرے والے کھیت میں انِل کے ساتھ پکڑا تھا۔۔۔” سندر اپنی گھٹِیا سی ہنسی ہنسنے لگا۔۔۔
“میں۔۔ میں منع تو نہیں کر رہی سندر۔۔ کر لوںگی تیرے ساتھ بھی۔۔ لیکن یہاں کیسے کروں۔۔ اس کی ماں میری ساس لیٹی ہوئی ہے۔۔ اٹھ گئی تو؟” ممی نے گھِگھِیاتے ہوئے کہا۔ اب ممی نے بہانے بنانا چھوڑ دیا تھا۔
“کیا بات کر رہی ہو چاچی؟ اِس بڑھِیا کو تو دِن میں بھی دِکھائی سنائی نہیں دیتا کچھ۔۔ اب اندھیرے میں اِسکو کیا پتا لگے گا۔۔” سندر سچ کر رہا تھا۔۔۔
“پر چھوٹی بھی تو یہیں ہے۔۔ میں تیرے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔” ممی گِڑگِڈائی۔۔
“وہ تو بچی ہے۔۔ اٹھ بھی گئی تو اِسکی سمجھ میں کیا آائیگا؟ ویسے بھی وہ تمہاری لاڈلی ہے۔۔ بول دینا کِسی کو نہیں بتائیگی۔۔ اب دیر مت کرو۔۔ جِتنی دیر کروگی۔۔ تمہارا ہی نقصان ہوگا۔۔ میرے لنڈ کا پانی تو کھڑے کھڑے ہی نِکلنے والا ہے۔۔ اگر ایک بار نِکل گیا تو آدھے پونے گھنٹے سے پہلے نہیں چھوٹے گا پھر۔۔ پہلے سے بتا رہا ہوں۔۔”
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ 'نِکلنا’ چھوٹنا’ کیا ہوتا ہے۔۔ پھِر بھی میں دِلچسپی سے انکی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔
“تم پرسوں کھیت میں آ جانا ناں۔۔ تیرے چاچا کو شہر جانا ہے۔۔ میں اس دن اکیلی ہی ہونگی۔۔ سمجھنے کی کوشِش کر سندر۔۔ میں کہیں بھاگی تو نہیں جا رہی۔۔۔” ممی نے پھِر اس کو سمجھانے کی کوشِش کی۔۔۔
“ تمہے میں ہی مِلا ہوں چوتِیا بنانے کے لِئے؟۔۔ انِل بتا رہا تھا کہ اس نے تمہاری چوت اس کے بعد بھی دو بار ماری ہے۔۔ اور مجھے ہر بار ٹرخا دیتی ہو۔۔ پرسوں کی پرسوں دیکھیںگے۔۔۔ اب تو میرے لِئے تو ایک ایک پل کاٹنا مشکِل ہو رہا ہے۔۔ تمہیں نہیں پتا چاچی۔۔ تمہاری گول گول گانڈ دیکھ کر ہی جوان ہوا ہوں۔۔ ہمیشہ سے خیالوں میں سوچتا تھا کہ کِسی دِن تمہاری چِکنی رانوں کو سہلاتے ہوئے تمہاری رسیلی چوت چاٹنے کا موقع مِلے۔۔ اور تمہارے موٹے موٹے چوتڑوں کی کساوٹ کو مسلتا ہوا تمہاری گانڈ میں انگلی ڈال کر دیکھوں۔۔ سچ کہتا ہوں، آج اگر تم نے مجھے اپنی چوت مارنے سے روکا تو یا تو میں نہیں رہوںگا۔۔ یا تم نہیں رہوگی۔۔ لو پکڑو اِسکو۔۔ پکڑ ناں میرے لنڈ کو!”
اب جاکر مجھے سمجھ میں آیا کہِ وہ میری خوبصورت ممی کو 'گندی’ بات کرنے کے لِئے کہہ رہا ہے۔۔ انکی حرکتیں اِتنی صاف دِکھائی نہیں دے رہی تھیں مجھے۔۔ لیکن اتنا ضرور دکھائی دے رہا تھا کہ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہیں۔۔ میں آنکھیں پھاڑے زیادہ سے زیادہ دیکھنے کی کوشِش کرتی رہی۔۔۔
“تیرا لنڈ ہے یا گدھے کا لوڑا۔۔ تیرا لنڈ تو بہت بڑا ہے۔۔ میں نے تو آج تک کِسی آدمی کا اتنا بڑا لنڈ نہیں دیکھا۔۔۔” ممی نے کہا۔۔۔
“بڑا ہے چاچی تب ہی تو تمہیں زیادہ مزہ آئیگا۔۔ فکر نہ کرو۔۔ میں اِس طرح کروںگا کہِ تمہیں ساری عمر یاد رہے گی اپنی چدائی۔۔ ویسے چاچا کا لنڈ کِتنا بڑا ہے؟” سندر نے خوش ہوکر کہا۔۔اب وہ پلٹ کر خود دیوار سے لگ گیا تھا اور ممی کی کمر میری طرف کر دی تھی۔۔ممی نے شاید اسکا کہنا مان لِیا تھا۔۔۔
“آہستہ بول نہ حرامی۔۔۔۔” ممی اسکے آگے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔ اور کچھ دیر بعد بولی،" ان کا تو پورا کھڑا ہونے پر بھی اِس'سے آدھا ہی رہتا ہے۔۔ سچ بتاؤں؟ ان کا لنڈ آج تک میری چوت کے اندر نہیں جھڑا۔۔" ممی بھی اسکی طرح گندی گندی باتیں کرنے لگی تھیں۔۔ میں حیران تھی۔۔ لیکن مجھے مزہ بھی آ رہا تھا۔۔ میں مزے لیتی رہی۔۔۔
“واہ چاچی۔۔ پھِر یہ گوری چِکنی دو لونڈِیاں اور وہ لٹو کہاں سے پیدا کر دِئے۔۔” سندر نے پوچھا۔۔ لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔۔۔
“سب ہی تم جیسوں کی اولاودیں ہیں۔۔ میری مجبوری تھی۔۔میں کیا یوںہی بیوفا ہو گئی۔۔؟” کہنے کے بعد ممی نے کچھ ایسا کِیا کہ سندر اچھل پڑا۔۔۔
“آہہہ آہہہہ۔۔ یہ کیا کر رہی ہو چاچیییی۔۔ مارنے کا اِرادہ ہے کیا؟” سندر تھوڑی تیز آواز میں بولا۔۔۔
“میں کیا کروں؟ میرے منہ میں تو گھس ہی نہیں رہا تیرا لنڈ۔۔ باہر سے ہی کھا لوں تھوڑا سا!” اسکے ساتھ ہی ممی بھدے سے طریقے سے ہنسی۔۔۔
“ارے تو اِتنا زور سے کیوں چوس رہی ہے رنڈی۔۔ زبان نِکال کر میرے لنڈ کو نیچے سے اوپر تک چاٹ لے نا۔۔!” سندر نے کہا۔۔۔
“ٹھیک ہے۔۔ لیکن ابھی جھڑنا نہیں اپنی منی نِکلنے مت دینا۔۔ مجھے اتنا گرم کرکے بھاگ مت جانا۔۔” ممی نے سِر اوپر اٹھاکر کہا اور پھِر اسکی رانوں کی طرف منہ گھما لِیا۔۔۔
مجھے آدھی ادھوری باتیں سمجھ آ رہی تھی۔۔ لیکن ان میں بھی مزہ اِتنا آ رہا تھا کہ میں نے اپنا ہاتھ اپنی رانوں کے بیچ دبا لِیا تھا۔۔۔ اور اپنی رانوں کو ایک دوسری سے رگڑنے لگی۔۔ اس وقت مجھے نہیں پتا تھا کہ مجھے یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔
اچانک ہمارے گھر کے سامنے سے ایک ٹریکٹر گذرا۔۔ اسکی روشنی کچھ پل کے لِئے گھر میں پھیل گی۔۔ ممی ڈر کر ایک دم الگ ہٹ گی۔۔ لیکن میں نے جو کچھ دیکھا، میرا رواں رواں کھڑا ہو گیا۔۔
سندر کا لِنڈ گدھے کے 'لنڈ’ کی طرح بھاری بھرکم، بھیانک اور اسکے چہرے کے رنگ سے بھی زیادہ کالا کلوٹا تھا۔۔وہ سانپ کی طرح سامنے کی طرف اپنا پھن سا پھیلائے سیدھا تناکھڑا تھا۔۔ اس کے لنڈ کا اگلا حصہ ٹماٹر کی طرح الگ ہی دِکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لئے تو میں ڈر ہی گئی تھی۔۔ میں نے اس'سے پہلے کئی بار چھوٹو بھیا کی 'للی’ دیکھی تھی۔۔ لیکن وہ تو مشکِل سے 2 اِنچ کی تھی۔۔ دوبارہ اندھیرا چھا جانے کے باوجود اس حرامی کا اکڑا ہوا لنڈ میری آنکھوں کے سامنے ناچتا رہا۔۔
“کیا ہوا ؟ ہٹ کیوں گئی چاچی۔۔ کِتنا مزہ آ رہا ہے۔۔ تم تو کمال کا چاٹتی ہو۔۔!” یہ کہہ کر سندر نے ممی کے بالوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لِیا۔۔۔
“کچھ نہیں ناں۔۔رکو ایک مِنِٹ۔۔۔ لائیٹ آن کر لوں؟ تمہارا لنڈ دیکھے بغیرمجھے اتنا مزہ نہیں آ رہا۔۔ ” ممی نے کھڑا ہوکر کہا۔۔
“مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ تم اپنی دیکھ لو چاچی۔۔!” سنڈر نے کہا۔۔۔
“ایک مِنِٹ۔۔!” کہکر ممی میری طرف آئی۔۔ میں نے گھبراکر اپنی آنکھیں بند کر لی۔۔ ممی نے میرے پاس آکر جھک کر دیکھا ار مجھے تھپکی سی دیکر رزائی میرے منہ پر ڈال دی۔۔
کچھ ہی دیر بعد رزائی میں سے چھن چھن کر روشنی مجھ تک پہنچنے لگی۔۔ میں بیچین سی ہو گئی۔۔ میرے کانوں میں 'سپڑ سپڑ لپڑ لپڑ’ اور خوبصورت کی ہلکی ہلکی آہیں سنائی دے رہی تھیں۔۔ منہ ڈھک کر سونے کی تو مجھے ویسے بھی عادت نہیں تھی۔۔ پھِر مجھے سارا 'تماشا’ دیکھنے کی طلب بھی ہو رہی تھی۔۔
کچھ ہی دیر بعد میں نے بِستیر اور رزائی کے بیچ تھوڑی سی جھری بنائی اور ان دونوں کو دیکھنے لگی۔۔ میرے حیرت کا کوئی ٹھِکانا نہ رہا۔۔ “یہ ممی کیا کر رہی ہیں؟” میری سمجھ میں بالکل بھی نہیں آیا۔۔۔
گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی ممی نے اپنے دونوںہاتھوں سے پکڑ کر سندر کا بھیانک لنڈ اوپر اٹھا رکھا تھا اور سندر کے لوڑے کے نیچے لٹکنے والے موٹے موٹے گولوں کو باری باری سے اپنے منہ میں لیکر چوسنا شروع کردیا۔۔
میری گھِگھی بندھتی جا رہی تھی۔۔ سب کچھ میرے لِئے ایک بھیانک خواب جیسا تھا۔۔ میں تو اپنی پلکیں تک جھپکنا بھول چکی تھی۔۔۔
سندر کھڑا کھڑا ممی کا سِر پکڑے سِسک رہا تھا۔۔ اور ممی بار بار اوپر دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔ اس حرامی لڑکے کی آنکھیں پوری طرح بند تھی۔۔ اِسی لِئے میں نے رزائی کو تھوڑا سا اور اوپر اٹھا لِیا۔۔۔
کچھ دیر بعد ممی نے اس کے ٹٹوں کو چھوڑ کر اپنی پوری زبان باہر نِکالی اور سندرکے لِنڈ کو نیچے سے اوپر تک چاٹنا شروع کردیا۔۔ جیسے وہ کوئی آئیسکریم ہو۔
“اوہہہہ اوہ! اوہ!۔۔ رک جا چاچی افہہ۔۔ میری رنڈی چاچی میرا پانی نِکل جائیگا۔۔!” سندر کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔۔ لیکن ممی بار بار اوپر نیچے نیچے اوپر چاٹتی رہی۔۔ خوبصورت کا پورا لِںگ ممی کے تھوک سے گیلا ہوکر چمکنے لگا تھا۔۔
“تیرے پاس کِتنا ٹائم ہے؟” ممی نے بہت پیار سے اس کے لوڑے کو ہاتھ سے سہلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
“میرے پاس تو پوری رات ہے چاچی۔۔ تمہاراکیا اِرادہ ہے؟” سندر نے سانس بھر کر کہا۔۔
“تو نِکل جانے دے بھڑوے نکال اپنا پانی میرے منہ میں۔۔ جھڑ جا۔۔” ممی نے کہا اور لِنڈ کے سپارے کو منہ سے لگا کر اپنے ہاتھ کو اس کے پورے لنڈ پر۔۔تیزی سے آگے پِچھے کرنے لگی۔۔
اچانک سندر نے اپنے گھٹنوں کو تھوڑا سا موڑا اور دیوار سے چپک کر ممی کے بالوں کو کھینچتے ہوئے اپنے لوڑے کو ان کے منہ میں ٹھونسنے کی کوشِش کرنے لگا۔۔ 'ٹماٹر’ والا حصہ تو ممی کے منہ میں گھس بھی گیا تھا۔۔ لیکن شاید ممی کا دم گھٹنے لگا اور انہوں نے کِسی طرح اسکو اپنے منہ سے باہر نِکال دِیا۔۔
سندر کے لنڈ نے اچانک ہی ممی کے چہرے پر گاڑھی گاڑھی منی کی پِچکارِیاں چھوڑنا شروع کر دیں تھیں۔۔ ۔۔ ممی نے دوبارہ اس کے لوڑے کے سپارے کو اپنا منہ کھول کرسندر کی منی کو مزے لے لے کر گھونٹ بھرنے شروع کردئے۔۔ جب کھیل ختم ہو گیا تو ممی نے ہنستے ہوئے کہا،" سارا چہرہ گندہ کر دِیا۔۔"
“میں تو تیرے منہ کے اندر ہی جھڑنا چاہتا تھا چاچی۔۔ تم نے ہی منہ ہٹا لِیا۔۔” سندر کے چہرے سے سکون کیِ جھلک آ رہی تھی۔۔۔
“کمال کا لوڑا ہے تیرا۔۔ اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا تو میں کبھی تمہیں نہ تڑپاتیِ۔۔” ممی نے صِرف اِتنا ہی کہا اور سندر کی شرٹ سے اپنے چہرے کو صاف کرنے لگی۔۔۔
مجھے تو تب تک اِتنا ہی پتا تھا کہ 'للی’ موتنے کے کام آتی ہے۔۔ آج پہلی بار پتا چلا کِ 'یے’ اور کچھ بھی چھوڑتا ہے۔۔ جو بہت میٹھا ہوتا ہوگا۔۔ تبھی تو ممی نے چٹخارے لے لے کر اس کو پہلے تو پیا اور پھر بعد میں بھی چاٹتی رہی۔۔
“اب میری باری ہے۔۔ کپڑے اتار چاچی جی۔۔” سندر نے ممی کو کھڑا کرکے انکے چوتڑ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لِئے۔۔۔
“تم پاگل ہو کیا؟ پرسوں میں تیرے سارے شکوے ختم کردوںگی۔۔ آج ِرف میری شلوار نیچے کرکے 'چود’ لو۔۔” ممی نے اپنا ناڑا ڈھیلا کرتے ہوئے کہا۔۔
انکی باتوں کی وجہ سے میرا گندے الفاظ کا ذخیرہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔۔
“دل تو کر رہا ہے چاچی کہِ تمہیں ابھی ننگی کرکے کھا جاؤں! لیکن خیر اپنا وعدہ یاد رکھنا۔۔ پرسوں کھیت والا۔۔” سندر نے کہا اور ممی کو اپنے سامنے کتیا بنا کرجھکانے لگا۔۔ لیکن ممی تو جانتی تھی۔۔ ہلکا سا اِشارا مِلتے ہی ممی نے الٹی ہوکر جھکتے ہوئے اپنی کوہنِیاں فرش پر ٹکا لیں اور گھٹنوں کے بل ہوکر رانوں کو کھولتے ہوئے اپنے چوتڑوں کو اوپر اٹھا لِیا۔
سندر ممی کا دیوانا یوں ہی نہیں تھا۔۔ نہ ہی اس نے ممی کی جھوٹی تعریف کی تھی۔۔ آج بھی ممی جب چلتی ہیں تو دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔۔ چلتے ہوئے ممی کے چوتڑ ایسے تھِرکتے ہیں جیسے چوتڑ نہ ہوں کوئی طبلہ ہو جو ہلکی سی تھاپ سے ہی پورا کانپنے لگتا ہے۔۔ کٹورے کی سی گولائی رکھنے والے دونوں چوتڑوں کی غضب کی اٹھان اور انکے بیچ کی دراڑ; سب پر ہی غضب ڈھاتے تھے۔۔
ممی کے کسے ہوئے جسم کی دودھِیا رنگت اور اس پر انکی قاتِل ادائیں; کیوں نہ مر مِٹیں لوگ!
خیر، ممی کے کوہنِیوں اور گھٹنوں کے بل جھکتے ہی سندر انکی گانڈ کے پِچھے بیٹھ گیا۔۔ اگلے ہی پل اس نے ممی کے چوتڑوں پر تھپکی مار کر شلوار اور پینٹی کو نیچے کھینچ دِیا۔ اِسکے ساتھ ہی سندر کے منہ سے لار ٹپک گی،" کیا غضب کے گورے کسے ہوئے چوتڑ ہیں چاچی تیرے۔۔!“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ ممی کے چوتڑوں سے چِپکا کر انہیں سہلانا شروع کر دِیا۔۔
ممی مجھ سے 90 ڈِگری کے اینگل پر جھکی ہوئی تھیں، اِسی لِئے مجھے ان کے اونچے اٹھے ہوئے چوتڑوں کے علاوہ کچھ دِکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔ لیکن میں ٹکٹکی لگائے تماشا دیکھتی رہی۔۔۔
"ہائے چاچی! تیری چوت کِتنی رسیلی ہے ابھی تک۔۔ اِسکو تو بڑے پیار سے ٹھوکنا پڑے گا۔۔ پہلے تھوڑی چوس لوں۔۔” اس نے اتنا کہا اور ممی کے چوتڑوں کے درمیان اپنا چہرہ گھسا دِیا۔۔۔ ممی سِسکتے ہوئے اپنے چوتڑوں کو گال گول دائرے میں گھمانے کی کوشِش کرنے لگی۔۔
“آاییشہہ۔۔اب اور مت تڑپا سندر۔آنہہہہ۔۔۔ میری چوت بالکل تیار ہے چدنے کے لئے ماں کے خصم۔۔ گھسیڑ دے اپنا لنڈ میری چوت کے اندر!”
“ایسے کیسے ٹھوک دوں اندر چاچی۔۔؟ ابھی تو پوری رات پڑی ہے۔۔۔” سندر نے چہرہ اٹھاکر کہا اور پھِر سے زبان نِکال کر چہرہ ممی کی رانوں میں گھسا دِیا۔۔
“سمجھا کرو سندر۔۔ آآہ۔۔فرش مجھے چبھ رہا ہے۔۔ تھوڑی جلدی کر مادرچود۔۔!” ممی نے اپنا چہرہ بِلکل پھرش سے سٹا لِیا۔۔ انکے 'دودھ’ فرش پر ٹِک گئے۔۔،" اچھا رک۔۔ ایک مِنِٹ رک ناں۔۔ مجھے کھڑی تو ہونے دے۔۔!“
ممی کے کہتے ہی سندر نے کسی اچھے بچے کی طرح انہیں چھوڑ دِیا۔۔ اور ممی نے کھڑا ہوکر میری طرف منہ کر لِیا۔۔
جیسے ہی سندر نے انکی قمیض اوپر اٹھائی۔۔ ممی کی پوری رانیں اور ان کے درمیان چھپی چھوٹے چھوٹے گہرے کالے بالوں والی موٹی موٹی چوت کی پھانکیں میرے سامنے آ گئیں۔۔ ایک بار تو خود میں ہی شرما گئی۔۔ گرمِیوں میں جب میں کئیِ بار چھوٹو کے سامنے ننگی ہی باتھروم سے نِکل آتی تو ممی مجھے 'شیم شیم’ کہہ کر چِڑھاتی تھیں۔۔ پھِر آج کیوں اپنی شیم شیم کو اس حرامی لڑکے کے سامنے ننگا کر دِیا; اس وقت یہ سب کچھ میری سمجھ سے باہر تھا۔۔۔
سندر گھٹنے ٹیک کر ممی کے سامنے میری طرف پیٹھ کرکے بیٹھ گیا اور ممی کی چوت میری نظروں سے چھِپ گی۔۔ اگلے ہی پل ممی آنکھیں بند کرکے سِسکنے لگی۔۔ انکے منہ سے عجیب سی آوازیں آ رہی تھی۔۔
میں حیرت سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
"بس-بس۔۔ مجھ سے کھڑا نہیں رہا جا رہا سندر۔۔ دیوار کا سہارا لینے دے۔۔"، ممی نے کہا ار سائیڈ میں ہوکر دیوار سے پیٹھ چپکا کر کھڑی ہو گئیں۔۔ انہوں نے اپنے ایک پیر سے شلوار باِلکل اتار دیتھی اور سندر جیسے ہی انکے سامنے بیٹھا ویسے ہی اپنی ننگی ٹانگ اٹھاکر سندر کے کندھے پر رکھ دی۔۔
اب سندر کا چہرہ اور ممی کی چوت مجھے بالکل صاف دِکھائی دے رہے تھے۔۔ ہائے! سندر نے اپنی زبان باہر نِکالی اور ممی کی چوت میں گھسیڑ دی۔۔ ممی دوبارہ سے سِسکنے لگی۔۔ ممی نے خوبصورت کا سِر کس کر پکڑ رکھا تھا اور سندر اپنی زبان کو کبھی اندر باہر اور کبھی اوپر نیچے کر رہا تھا۔۔
خود بخود میرے ہاتھ اپنی شلوار میں چلے گئے۔۔ میں نے دیکھا کہ میری چوت بھی چِپچِپی سی ہو رھی ہے۔۔ میں نے اس کو صاف کرنے کی کوشِش کی تو مجھے بہت مزہ آیا۔۔۔
اچانک ممی پر قیامت ہی گزر گئی۔۔ جلدی میں خوبصورت کے کندھے سے پیر ہٹانے کے چکر میں ممی لڑکھڑا کر گِر پڑیں۔۔ اوپر سے پاپا زور زور سے بڑبڑاتے ہوئے آ رہے تھے۔۔،"سالی، کمِنیِ، کتِیا! کہاں مر گئی مادر چود۔۔؟”
سندر بھاگ کر میری ہی چارپائی کے نیچے گھس گیا۔۔ لیکن ممی جب تک سنبھل کر کھڑی ہوتیں، پاپا نیچے آ چکے تھے۔۔ ممی اب تک اپنی شلوار بھی نہیں پہن پائی تھیں۔۔
پاپا نیند میں تھے اور شاید نشے میں بھی۔۔ کچھ لمحے ممی کو ٹکٹکی لگائے گھورتے رہے پھِر بولے،" بہن چود کتِیا۔۔ یہاں ننگی ہوکر کیا کر رہی ہے۔؟ کِسی یار کو بلایا تھا چدوانے کے لئے؟" اور ممی کے قریب آکر ایک زور کا تھپڑ ممی کو جڑ دِیا۔۔۔
میں سہم گئی تھی۔۔
ممی تھرتھراتے ہوئے لہجے میں بولیں۔۔،"ننانہیں۔۔ وہ ۔۔وہ۔میری شلوار میں کچھ گھس گیا تھا۔۔ پتا نہیں کیا تھا۔۔"
“ہمیشہ 'کچھ’ تیری شلوار میں ہی کیوں گھستا ہے کتِیا۔۔ تیری چوت کوئی شہد کا چھتا ہے؟۔۔” پاپا نے غراتے ہوئے ممی کا گلا پکڑ لِیا۔۔
ممی گِڑگڑاتے ہوئے پاپا کے قدموں میں آ گِری،"پلیز۔۔ ایسا مت کہِئے۔۔ میرا تو سب کچھ آپ کا ہی ہے۔۔۔!“
"ہمم۔۔ یہ بھی تو تیرا ہی ہے۔۔ لے سنبھال اِسکو۔۔ کھڑا کر۔۔” میں حیرت سے پاپا کے چھوٹے سے ڈھیلے ڈھالے لِنڈ کو دیکھتی رہ گی۔۔ انہوں نے اپنی پینٹ کی زپ کھولکر اپنا لِنڈ باہر نِکال لِیا اور ممی کے منہ میں ٹھونسنے لگے۔۔ میں سندر کا لِنڈ دیکھنے کے بعد انکا لِنڈ دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔۔ پاپا کا لنڈ تو اس کے مقابلے میں بہت چھوٹا تھا ۔۔ اور بالکل مرے ہوئے چوہے کی طرح لٹک رہا تھا۔۔۔
“اوپر چلِئے آپ۔۔ آئیں ناں ۔۔ میں کھڑا کر دوںگی آپ کا لنڈ۔۔چلیں اوپر کمرے میں چلتے ہیں۔۔ یہاں چھوٹی سو رہی ہے۔۔ اٹھ جائے گی۔۔ جیسے کہیںگے ویسے ہی کروںگی۔۔۔” یہ کہتے ہوئے ممی اٹھی اور پاپا کے لِنڈ کو سہلاتے ہوئے ان کو ایک ہاتھ سے کھینچتے ہوئے انہیں اوپر لے گئیں۔۔
ان دونوںکے اوپر جاتے ہی سندر ہڑبڑاتا ہوا میری چارپائی کے نیچے سے نِکلا اور دروازہ کھول کر بھاگ گیا۔۔
————————————————————————————————————–
تیسرے دِن میں جان بوجھ کر اسکول نہیں گئی۔۔ دیدی اور چھوٹو اسکول جا چکے تھے۔۔ اور پاپا شہر کی طرف نکل گئے تھے۔۔۔
“اب پڑی رہنا یہاں اکیلی۔۔ میں تو جا رہی ہوں کھیت کی طرف۔۔” ممی سج دھج کر تیار ہو گئی تھی۔۔ کھیت جانے کے لِئے۔۔!
“نہیں ممی۔۔ میں بھی چلوںگی ناں آپکے ساتھ۔۔۔!” میں نے ضد کرتے ہوئے کہا۔۔۔
“پاگل ہے کیا؟ تجھے پتہ نہیں ۔۔ پتہ بھی ہے۔۔وہاں اِتنے موٹے موٹے سانپ آ جاتے ہیں۔۔ کھا جائیںگے تجھے۔۔” ممی نے مجھے ڈراتے ہوئے کہا۔۔۔
میرے ذہن میں تو سندر کا 'سانپ’ ہی چکر کاٹ رہا تھا۔۔ وہی تو میں دوبارہ دیکھنے کے لئے جانا چاہتی تھی ممی کے ساتھ کھیت میں۔۔،" لیکن اگر وہ آپ کو کھا گئے تو ممی۔۔؟" میں نے کہا۔۔
“میں تو بڑی ہوں ناں بیٹی۔۔ میں آرام سے کسی بھی سانپ کو اپنے قابو میں کر لوںگی۔۔ مار بھی دوںگی۔۔ تو یہیں رہ اور سو جا!” ممی نے جواب دِیا۔۔۔
“تو آپ مار لینا سانپ کو۔۔ میں دور سے ہی دیکھتی رہوںگی ناں۔۔۔ خاموش رہوںگی ناں۔۔۔” میں نے ضد کرتے ہوئے کہا۔۔
“چپ کر۔۔ زیادہ بکواس مت کر۔۔ گھر پے پڑی رہ۔۔ میں جا رہی ہوں۔۔!” ممی چل دی۔۔
میں روتی ہوئی نیچے تک آ گئی۔۔ میری آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو ٹپک رہے تھے۔۔سندر کے 'سانپ’ کو دیکھنے کے لِئے میں اس قدر بیچین تھی اف۔۔ آخِرکار میری ضد کے آگے ممی کو جھکنا پڑا۔۔ لیکن ممی مجھے کھیت نہیں لے گئیں۔۔ خود بھی گھرپر ہی رہ گئیں!
ممی کو کپڑے بدل کر منہ چڑھائے گھر میں بیٹھے 2 گھنٹے ہو گئے تھے۔۔ میں اٹھی اور انکی گود میں جاکر بیٹھ گئی،"ممی آپ ناراض ہیں مجھ سے ؟"
“ہاں۔۔ اور نہیں تو کیا؟ کھیت میں اِتنا کام ہے مجھے۔۔پتہ ہے۔۔ تیرے پاپا آتے ہی میری خوب پِٹائی کریںگے اب۔۔!” ممی نے کہا۔۔۔
“پاپا آپ کو کیوں مارتے ہیں ممی۔۔ ؟ مجھے پاپا بہت گندے لگتے ہیں.آپ بھی تو بڑی ہو۔۔ آپ انہیں کیوں نہیں مارتی؟” میں نے بھولپن سے پوچھا۔۔
ممی کچھ دیر چپ بیٹھی رہیں اور پھِر ایک لمبی سانس لی،" چھوڑ اِن بیکار باتوں کو۔۔ تو آج پھِر میری پِٹائی کروانا چاہتی ہے کیا؟"
“نہیں ممی۔۔!” میں نے مایوس ہوکر کہا۔۔
“تو پھِر تومجھے کھیت کی طرف جانے کیوں نہیں دیتی؟” ممی نے ناراض لہجے میں اپنا منہ پھلاتے ہوئے کہا۔۔۔
پتہ نہیں۔ میں کیا جواب دیتی اس وقت۔۔ لیکن اِس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی۔۔ نیچے سے سندر کی آواز آئی،"چاچا۔۔۔ او۔۔ چاچا!“
ممی اچانک کھڑی ہو گئی اور نیچے جھانکا۔۔ سندر جلدی جلدی سیڑہیاں پھلانگتا ہوا اوپر ہی آ رہا تھا۔۔
"اوپر آتے ہی اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا،” چاچا کہاں ہیں انجو ؟"
“ پاپاشہر گئے ہوئے ہیں۔۔!” میں نے جواب دیتے ہوئے اس کی پینٹ میں 'سانپ’ ڈھونڈھنے کی کوشِش کی۔۔ لیکن ہلکے ابھار کے علاوہ مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔۔
“اچھا۔۔ تو توآج اسکول کیوں نہیں گئی ہوں؟” باہر چارپائی پر وہ میرے ساتھ بیٹھ گیا اور ممی کو گھورنے لگا۔۔ ممی منہ پھلائے ہوئے اب ہمارے سامنے کھڑی تھیں۔۔۔
“بس ایسے ہی۔۔ میرے پیٹ میں درد تھا۔۔” میں نے چالاکی سے وہی جھوٹ بولا جو صبح ممی کو بولا تھا۔۔
سندر نے میری طرف جھک کر ایک ہاتھ سے میرا چہرہ تھاما اور میرے ہونٹوں کے پاس گالوں کو چوم لِیا۔۔ مجھے اپنے سارے بدن میں گدگدی سی محسوس ہوئی۔۔اور اپنی چوت میں بھی۔۔
“یہ لے۔۔ پیسے پکڑ۔۔اور باہر کھیل ۔ جا۔۔۔!” سندر نے میرے ہاتھ میں 5 روپے کا سِکہ رکھ دِیا۔۔
اس وقت 5 روپے میرے لِئے بہت تھے۔۔ لیکن میں بیوقوف نہیں تھی۔۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ مجھے گھر سے بھگانے کے لِئے ایسا کہہ رہا ہے،" نہیں۔۔ میرا دل نہیں چاہ رہا ہے۔۔ میں نے پیسے اپنی مٹھی میں دبائے اور ممی کا ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہو گئی۔۔
“جا ناں اب چھوٹی۔۔ کبھی تو میرا پِیچھا چھوڑ دِیا کر!” اب ممی نے ہلکے سے غصے سے کہا۔۔۔
میں نے اپنا سِر اوپر اٹھا کر ان کی آنکھوں میں دیکھا اور ان کا ہاتھ اور بھی کس کر پکڑ لِیا،" نہیں ممی۔۔ مجھے باہر نہیں کھیلنا۔۔مجھے آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے ناں۔!“
"تم آج کھیت میں نہیں آئیں چاچی۔۔ کیا بات ہے؟” سندر کی آواز میں شکائت تھی۔۔ لیکن اس کے چہرے سے دھمکی صاف جھلک رہی تھی۔۔
“یہ جانے دے تب جاؤں گی ناں۔۔ اب اِس کوساتھ لے کر میںکھیت کیسے آتی؟۔۔!” ممی نے برا سا منہ بناکر کہا۔۔۔
“آج خالی نہیں جاؤنگا چاچی۔۔ چاہے کچھ ہو جائے۔۔ بعد میں مجھے یہ مت کہنا کہِ بتایا نہیں۔۔” سندر نے غراتے ہوئے کہا اور اندر کمرے میں جاکر بیٹھ گیا۔۔۔
“اب میں کیا کر سکتی ہوں۔۔ تم خود ہی دیکھ لو!” ممی نے پریشان ہوکر اندر جاکر کہا۔۔میں نے اب ممی کی انگلی کو اور بھی مضبوتی سے پکڑلیا تھا اور میں ان کے ساتھ چپک کر دروازے کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔۔ ممی دروازے کے سامنے اندر کی طرف چہرہ کِئے کھڑی تھیں۔۔۔
اچانک پیچھے سے کوئی آیا اور ممی کو اپنی بانہوں میں بھرکر جھٹکے سے اٹھایا اور بیڈ پر لے جاکر پٹخ دِیا۔۔ میری تو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا۔۔
ممی نے چِلانے کی کوشِش کی تو وہ آدمی میری ممی کے اوپر سوار ہو گیا اور انکا منہ اپنے ہاتھوں سے دبا دیا، اور بولا" تم تو بڑی کمےِنیِ نِکلیں بھابھی۔۔ پتہ بھی ہے کِتنی دیر اِنتظار کرکے آیا ہوں میں کھیت میں۔۔" پھِر سندر کی طرف دیکھ کر بولا،"کیا بات ہے یار؟ ابھی تک ننگا نہیں کِیا اِس رنڈی کو۔۔چودنا کیوں نہیں شروع کیا اس حرامن کو"
اسکا چہرہ سندر کی طرف ہونے کی وجہ سے میں نے اس آدمی کو پہچان نہ سکی۔۔پھر اچانک اس آدمی کی شکل نظر آئی۔ اوہ۔ وہ تو انِل چاچا تھے۔۔ ہمارے گھر کے پاس ہی ان کا بھی گھر تھا۔۔گاؤں کے ڈاکٹر تھے وہ۔۔ممی کی ہی عمر کے ہوںگے۔۔ ممی کو مشکِل میں دیکھ کر میں بھاگ کر بِستر پر چڑھِ گئی اور چاچا کو دھکا دے کر ان کو ممی کے اوپر سے ہٹانے کی کوشِش کرنے لگی،"چھوڑ دو میری ممی کو!“ میں رونے لگی۔۔
اچانک مجھے دیکھ کر وہ ہڑبڑا گیا اور ممی کے اوپر سے اتر گیا،” تم۔۔ تم یہیں ہو چھوٹی؟"
ممی شرمِندہ سی ہوکر بیٹھ گئی،" یہ سب کیا ہے؟ جاؤ یہاں سے۔۔ یہ کہا اور سندر کی طرف منہ کرکے اسے گھورنے لگی۔۔ سندر کھِسِیانی سی ہنسی ہنسنے لگا۔۔
“ابے پہلے دیکھ تو لیتا۔۔!” سندر نے انِل چاچا سے کہا۔۔۔
“بیٹی۔۔ تیری ممی کا عِلاج کرنا ہے۔۔ جاؤ باہر جاکر کھیلو۔۔!” چاچا نے مجھے پچکارتے ہوئے کہا۔۔ لیکن میں وہاں سے ہِلی تک نہیں۔۔
“جاؤ یہاں سے۔۔ ورنہ میں شور مچانا شروع کردوںگی!” ممی اب نخروں پر اتر آئیں۔۔ شاید میری وجہ سے۔۔
“چھوڑو نا بھابھی ۔۔ تم بھی تو بس ۔۔ یہ تو بچی ہے۔۔ یہ کیا سمجھے گی۔۔ اور پھِر یہ تمہاری پرابلم ہے ہماری نہیں۔۔
” اِس کو بھیجنا ہے تو بھیج دے۔۔ ورنہ ہم اِس کے سامنے ہی شروع ہو جائیںگے۔۔" سندر نے کہا اور سرک کر ممی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔۔۔ ممی اب دونوںحرامی مردوں کے درمیان پھنس کے بیٹھی ہوئی تھیں۔۔
“تو جا نہ بیٹی۔۔ مجھے ڈاکٹر چاچا سے عِلاج کروانا ہے۔۔ میرے پیٹ میں درد رہتا ہے ناں۔۔” ممی نے حالات کی نزاکے کا احساس کرتے ہوئے مجھ سے کہا۔۔
میں نے پھر نہ میں سِر ہِلا دِیا اور وہیں جم کر کھڑی رہی۔۔۔
وہ دونوں حرامی اب اِنتتظار کرنے کے موڈ میں نہیں لگ رہے تھے۔۔ اچانک ڈاکٹر چاچا ممی کے پیچھے جا کر بیٹھ گئے اور انکے دونوںمموں کو اپنی مٹھیوں میں دبوچ لِیا اور پھر انہوں نے ممی کے مموں کو کپڑوں کے اوپر سے ہی دبانا اور سہلانا شروع کردیا۔۔ ممی سِسک اٹھی۔۔ وہ اب بھی جھوٹی موٹی ان کے ہاتھوں سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھیں عجیب سے نخرے کر رہی تھیں لیکن ان حرامیوں پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔۔
“نیچے سے دروازہ تو بند ہے ناں؟” سندر نے چاچا سے پوچھا اور ممی کی ٹانگوں کے بیچ میں آکر بیٹھ گیا۔۔
“سب کچھ بند ہے یار۔۔ آجا۔۔ اب اِسکی چوت کھولتے ہیں۔۔” چاچا نے ممی کی قمیض کھینچ کر انکی برا سے اوپر کر دِی۔۔۔
“ایک مِنِٹ چھوڑو ۔۔ چھوڑو مجھے۔۔ ” ممی نے جھلاکر کہا تو وہ ٹھِٹھک گیے، پھر ممی نے میری طرف منہ کر کے کہا: “اچھا چھوٹی۔۔ رہ مر ادہر ہی۔۔ لیکن یاد رکھ۔۔کِسی کو بولے گی تو نہیں ناں۔۔ دیکھ ۔۔اگر کسی سے کچھ کہا تو میں مرجاؤنگیِ!”
“نہیں ممی۔۔ میں کِسی کو کچھ نہیں بولوںگی۔۔ آپ مرنا مت۔۔ رات والی بات بھی نہیں بتاؤنگیِ کِسی کو۔۔” میں نے بھولیپن سے کہا تو تینوں حیرت سے مجھے دیکھتے رہ گئے۔۔
“ٹھیک ہے۔۔ آرام سے کونے میں بیٹھ جا!” سندر نے کہا اور ممی کی شلوار کا ناڑا کھینچنے لگا۔۔
کچھ ہی دیر بعد انہوں نے ممی کو میرے سامنے ہی پوری طرح ننگی کر دِیا۔۔
میں چپ چاپ سارا تماشا دیکھتی جا رہی تھی۔۔ ممی ننگی ہوکر مجھے اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ انکی چِکنی چِکنی لمبی موٹی سی رانیں۔۔ انکی چھوٹے چھوٹے کالے بالوں سے ڈھکی ہوئی چوتِ۔۔ ان کا کسا ہوا پیٹ اور سینے پر جھولتے ہوئے موٹے موٹے ممے ان کا سارا جسم بڑا پیارا تھا۔۔
سندر ممی کی رانوں کے درمیان جھک گیا اور انکی رانوں کو اوپر ہوا میں اٹھا دِیا۔۔ پھِر ایک بار میری طرف مڑکر مسکرایا اور پِچھلی رات کی طرح ممی کی چوت کو لپڑ لپڑ کی آواز نکالتے ہوئے چاٹنے لگا۔۔۔
ممی بری طرح سسکاریاں لے رہی تھیں۔ ان کو شائد بہت زیادہ مزہ آرہا تھاپھر اچانک ہی انہوں نے اپنے چوتڑوں کو اٹھا اٹھا کر سندر کے منہ پر پٹخنا شروع کردیا۔۔ ڈاکٹر چاچا ممی کے دونوں مموں کو سہلا بھی رہا تھا مسل بھی رہا تھا اور ممی کے نِچلے ہونٹ کو منہ میں لیکر چوس بھی رہا تھا۔۔
تقریباً 4-5 مِنِٹ تک ایسے ہی چلتا رہا۔۔ میں سمجھنے کی کوشِش کر ہی رہی تھی کہِ آخِر یہ کیسا عِلاج ہے۔۔ تبھی اچانک چاچا نے ممی کے ہونٹوں کو چھوڑکر بولا،" پہلے تواس کی چوت لے گا یا میں مار لوں۔؟"
سندر نے جیسے ہی چہرہ اوپر اٹھایا، مجھے ممی کی پانی بہاتی ہوئی چوت دِکھائی دی۔۔ سندر کے تھوک سے وہ اندر تک سنی پڑی تھی۔۔ اور چوت کے دونوں ہونٹ شہوت کے مارے الگ الگ ہو گئے تھے ۔۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔۔ لیکن میری رانوں کے بیچ بھی کھلبلی سی مچی ہوئی تھی۔۔
“میں ہی کر لیتا ہوں یار! لیکن تھوڑی دیر اور رک جا۔۔ چاچی کی چوت بہت میٹھی ہے۔۔ بہت شہد چھوڑتی ہے۔۔” سندر نے کہا اور یہ کہتے ہوئے اپنی پینٹ اتار دی۔۔ اِسی لمحے کا تو میں اِنتظار کر رہی تھی۔۔ سندر کا انڈر وئیرکسی ٹینٹ کی طرح اوپر اٹھا ہوا تھا اور مجھے پتہ تھا کہ وہ کیوں اوپر اٹھا ہوا ہے۔ میرے دل میں عجیب سی چاہت تھی اس کے لوڑے کو دوبارہ دیکھنے کی۔
سندر دوبارہ ممی کی چکنی چوت پر جھک گیا اور ان کی چوت کو دوبارہ چاہت سے سے چاٹنے لگا۔۔ اسکا بھاری بھرکم لِوڑا اپنے آپ ہی اس کی چڈی سے باہر نِکل آیا اور اب وہ میری آنکھوں کے سامنے رہ رہ کر جھٹکے مار رہا تھا۔۔
چاچا نے میری طرف دیکھا تو میں نے شرماکر اپنی نظریں جھکا لیں۔۔۔
چاچا بھی کھڑا ہوا اور اپنی پینٹ اتار دی۔۔ لیکن ان کا لنڈ اتنا بڑا نہیں تھا جِتنا سندر کا تھا۔۔چاچا تھوڑا آگے ہوکر ممی پر جھکے اور ان کی پپیتوں جیسے مموں کے گہرے بھورے رنگ کے نِپلوں کو منہ میں دبا کرایسا چوسنے لگے جیسے ان میں واقعی دودھ اترا ہوا ہو۔۔مجھے تب پہلی بار پتہ لگا تھا کہ بڑے لوگوں کو بھی 'دودھ’ کی ضرورت ہوتی ہے۔۔
ممی گرم ہو کر اپنے دوسرے ممے کو خود ہی اپنے ایک ہاتھ سے مسل رہی تھیں۔۔ اچانک میرا دھیان ان کے دوسرے ہاتھ کی طرف گیا۔۔تو میں نے دیکھا کہ ممی نے اپنا ہاتھ پیچھے لیجاکر چاچا کی چڈی کے اندر ہاتھ ڈال کر انکا لِنڈ نِکال رکھا تھا اور اس کوبڑے پیار سے سہلا رہی تھیں۔۔ ڈاکٹر چاچا کا لنڈ سندر جیسا تو نہیں تھا، لیکن پھِر بھی پاپا کے لنڈ سے کافی بڑا تھا اور سیدھا بھی کھڑا تھا۔۔ ممی نے اچانک انکا لنڈ پیچھے سے پکڑا اور اسکو اپنی طرف کھینچنے لگیں۔۔۔۔
“تیری یہی ادا تو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔۔ یہ لے چوس۔۔ دل بھر کے چاٹ میرے لنڈ کو!” چاچا بولے اور گھٹنوں کے بل آگے سرک کر اپنا لنڈ ممی کے ہونٹوں لیکن ٹکا دِیا۔۔ ممی نے فوراً اپنے ہونٹ کھولے اور چاچا کے لوڑے کو اپنے ہونٹوں میں دبا کر سڑک سڑک کر چوسنا شروع کر دیا۔۔
چاچا نے اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر ممی کی ٹانگوں کو اپنی طرف کھینچ لِیا۔۔ اِس'سے ممی کے چوتڑ اور اوپر اٹھ گئے اور مجھے سندر کی ٹانگوں کے درمیان سے ممی کیگانڈ کا سوراخ بھی دِکھنے لگی۔۔ڈاکٹر چاچا نے اپنے ہاتھ ممی کے گھٹنوں کے ساتھ ساتھ نیچے لے جاکر بِستر پر جما دِیئے۔۔ ممی اب اپنے سِر کو اوپر نیچے کرتے ہوئے چاچا کے لنڈ کومزے سے اپنے منہ میں زیادہ سے زیادہ اندر باہر کرتے ہوئے چوسنے میں لگی تھیں۔۔۔
اچانک ممی اچھل پڑیں اور چاچا کے لنڈ کو منہ سے نِکالتے ہوئے بولیں،"نہیں سندر۔۔ پیچھے کچھ مت کرو۔۔!“
میری سمجھ میں تب آیا جب سندر نے کچھ بولنے کے لِئے انکی چوت سے اپنا منہ ہٹایا۔۔ میں نے دھیان سے دیکھا۔۔ سندر کے ایک پنجے کی آدھی انگلی ممی کی گانڈ کے سوراخ میں پھنسی ہوئی تھی۔۔ اور ممی اپنے چوتڑوں کو سِکوڑنے کی کوشِش کر رہی تھی۔۔۔
"اِسکے بغیرکیا مزہ آئے گا چاچی۔۔ انگلی ہی تو ڈالی ہے۔۔ اپنا لنڈ پھنساؤںگا تو پتہ نہیںکیا کہوگی؟ ہا ہا ہا” سندر نے کہا اور انگلی نِکال کر الگ ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔۔
ممی کی چوت پھول سی گئی تھی۔۔ انکی چوت کا سوراخ رہ رہ کر کھل رہا تھا اور بند ہو رہا تھا۔۔ اچانک سندر نے اپنا لنڈ ہاتھ میں پکڑ کر میری طرف دیکھا۔۔ وہ اِس طرح مسکرایا جیسی مجھے ڈرا رہا ہو۔۔ میں نے ایک دم اپنی نظریں جھکا لیں۔۔۔
سندر دوبارہ ممی کی رانوں کے درمیان بیٹھ گیا۔۔ اب مجھے اس کا لنڈ ممی کی چوت سے جڑا ہوا دِکھ رہا تھا۔۔ ممی کی چوت اس کے بھاری بھرکم لنڈ سے پوری طرح چھِپ گئی تھی۔۔
“لے سنبھال۔۔مادر چود ۔۔رنڈی!” سندر نے جیسے ہی کہا۔۔ ممی چھٹپٹا اٹھیں۔۔ لیکن انکے منہ سے کوئی آواز نہیں نِکل سکی۔۔ کیونکہ ڈاکٹر چاچا نے اپنا لنڈ ممی کے منہ میں پورا ان کے حلق تک ٹھونسا ہوا تھا۔۔ پھر سندر نے اپنا پورا لنڈ ایک دو ہی جھٹکوں میں ممی کی چوت میں گھسیڑ دیا تھا۔۔
سندر نے اپنا لوڑا ممی کی چوت سے تقریباً پورے کا پورا باہر نِکال کر بس صرف اپنے لنڈ کی ٹوپی ہی ممی کی چوت میں رہنے دی اور پھر دوبارہ واپس گھسیڑ دِیا۔۔ ممی ایک بار پھِر کسمسائی۔۔ مجھے ایسا اس لئے لگا کہ میں نے انہیں چاچا کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشِش کرتے دیکھا۔۔
پھِر تو گھپاگھپ دھکے لگنے لگے۔۔دونوں طرف سے۔۔ منہ میں چاچا اپنا لنڈ ٹھونس رہے تھے اور ان کی چوت میں سندر اپنا لحیم شحیم لوڑا گھسیڑ رہا تھا پھر کچھ دیر بعد ممی کا تڑپنا بند ہوا اور مجھے ایسا لگا کہ انکے چوتڑوں میں جان سی آ گئی۔۔اب ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ممی بہت خوش ہیں۔۔ سندر جیسے ہی چوت میں دھکا مارتا ممی اپنے چوتڑوں کو اوپر اٹھا لیتیں جیسے اس کا لنڈ اور بھی اندر لینا چاہتی ہوں۔۔ پھر کچھ دیر بعد ایسسا لگنے لگا کہ جیسے سندر کم دھکے لگا رہا ہے اور ممی زیادہ۔۔
ایسے ہی دھکے لگتے لگتے تقریباً 15 مِنِٹ ہو گئے تھے۔۔ مجھے اب پریشانی سی ہونے لگیتھی کہِ آخِر سب خاموش کیوں ہیںکوئی کچھ بول کیوں نہیں رہا ہے۔۔ اچانک سندر اٹھا اور تیزی سے آگے کی طرف گیا،" ہٹ یہاں سے۔۔اس کا منہ مجھے چودنے دے چاچا ۔۔ تو پیچھے چلا جا اور اس رنڈی کی چوت سنبھال۔۔"
میں نے ممی کی چوت کی طرف دیکھا تو مجھے لگا کہ ان کی چوت کا منہ تقریباً 3 گنا کھل گیا تھا۔۔ اور اس میں سے کوئی شیرے جیسی چیز انکی چوت سے بہ رہی تھی۔۔
سندر کے آگے جاتے ہی ڈاکٹر چاچا ممی کے پیچھے کی طرف آ گئے،" چل مادر چود۔۔گھوڑی بن جا!“
ممی جلدی سے اٹھیں اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنے چوتڑوں کو اوپر اٹھا لِیا۔۔ سندر نے ممی کے منہ میں انگلی ڈال رکھی تھی اور میرے سامنے ہی اپنے لنڈ کو ہِلا رہا تھا۔۔۔ سندر کی جگہ اب چاچا نے لے لی تھی۔۔ گھٹنوں کے بل پیچھے سیدھے کھڑے ہوکر انہوں نے ممی کی چوت میں اپنی لنڈ ایک ہی ھٹکے میں گھسیڑ دِیا۔۔ اور ممی کی کمر کو پکڑ کر آگے پیچھے ہونے لگے۔۔۔
اچانک سندر نے ممی کے بالوں کو کھینچ کر انکا چہرہ اوپر اٹھوا دِیا۔۔ ،"منہ کھو ل چاچی۔۔ تھوڑا جوس پی لے۔۔میرے لنڈ کا پانی آہ آہ”
ممی نے اپنا منہ پورا کھول دِیا اور سندر نے اپنا لنڈ انکے ہونٹوں پر رکھ کر اپنا لوڑا تھوڑا سا ان کے منہ کے اندر کر دِیا۔۔ اِسکے ساتھ ہی سندر کی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ سِسکاریاں لیتا ہوا ممی کو شائد وہی رس پِلانے لگا جو اس نے پِچھلی رات پِلایا تھا۔۔۔
ممی بھی آنکھیں بند کِئے اسکے لنڈ کا رس شوق سے پیتی جا رہی تھیں۔۔ پیچھے سے ممی کی چوت میںچاچا کے لنڈ کے دھکے لگ رہے تھے۔۔
“لے میری رانڈ۔۔ اب منہ میں لے کر اِس کو صافکر دے۔۔” سندر نے کہا اور ممی نے اسکا لنڈ تھوڑا سا اور منہ میں لے لِیا۔۔۔رس نِکل جانے کے بعد سندر کا لنڈ شائد تھوڑا ڈہیلا اور پتلا ہو گیا ہوگا۔۔
اچانک چاچا ہٹے اور سیدھے کھڑے ہو گئے۔۔ وہ بھی شاید ممی کے منہ کی طرف جانا چاہتے تھے۔۔ لیکن جانے کیا ہوا ۔۔ اچانک رک کر انہوں نے اپنا لنڈ زور سے کھینچ لِیا اور ممی کے چوتڑوں پر ہی اپنے لنڈ سے رس کی پچکاریاں چھوڑنے لگے۔۔
مجھے نہیں پتا تھا کہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔۔ لیکن میرا چہرہ پوری طرح سے لال ہو چکا تھا۔۔ میری چڈی بھی دو تین بار گیلی ہوئی تھی۔۔مجھے سب کچھ دیکھنے سے بہت زیادہ مزہ آیا تھا۔۔۔
سندر بِستر سے اتر کر اپنی پینٹ پہننے لگا اور میری طرف دیکھ کر مسکرایا،" دیکھ چاچی دیکھ اپنی بیٹی کو۔۔ یہ بھی اپنی ماں کی طرح بہت گرم ہے لگتا ہے ۔۔ انجو بہت گرم لڑکی ہوگی چاچی دیکھنا۔۔ سالی اِتنے چسکے لے کر سب کچھ دیکھ رہی تھی۔۔اس نے اپنی پلکیں بھی نہیں جھپکیں تھوڑی اور بڑی ہوجا جلدی سے انجو۔۔ پھِر تیری ممی کی طرح تجھے بھی مزے دوںگا اپنے لنڈ سے۔۔"
میں نے اپنا منہ دوسری طرف کر لِیا۔۔۔
چاچا کے بِستر سے نیچے اترتے ہی ممی نِڈھال سی ہوکر بِستر پر گِر پڑیں۔۔ بھر آہستہ سے انہوں نے بِستر کی چادر کھینچ کر اپنے بدن اور چہرے کو ڈھک لِیا۔۔
وو دونوں حرامی اپنے کپڑے پہن کر وہاں سے نِکل گئے۔۔۔
وہ دِن تھا اور آج کا دِن۔۔ ایک ایک پل جوں کا توں یاد کرتے ہی آنکھوں کے سامنے دڑ جاتا ہے۔۔ وہ بھی جو میں نے انکے جانے کے بعد ممی کے پاس بیٹھ کر پوچھا تھا۔۔،" یہ کیسا علاج تھا ممی؟"
“جب بڑی ہوگی تو پتا چل جائیگا۔۔ بڑی ہونے پر کئیِ بار پیٹ میں بھی عجیب سی گدگدی ہوتی ہے۔۔ علاج نا کروائیں تو لڑکی مر بھی سکتی ہے۔۔ لیکن شادی کے بعد کی بات ہے یہ۔۔ تو بھول جا سب کچھ۔۔ میری اچھی سی بیٹی ہے ناں؟”
“ہاں ممی!” میں خوش ہوکر ان کے سینے سے چِمٹ گی۔۔
“تو بتائے گی تو نہیں ناں کِسی کو بھی۔۔؟” ممی نے پیار سے مجھے اپنی بانہوں میں بھر لِیا۔۔
“نہیں ممی۔۔ آپ کی قسم! لیکن عِلاج توڈاکٹر چاچا کرتے ہیں ناں۔۔ سندر کیا کر رہا تھا۔۔؟” میں نے حیرت سے پوچھا تھا۔۔۔
“وہ اپنا علاج کر رہا تھا بیٹی۔۔ یہ پرابلم تو سب کو ہوتی ہے۔۔” ممی نے مجھے بہلاتے ہوئے کہا۔۔۔
“لیکن آپ تو کہہ رہی تھیں کہِ شادی کے بعد ہوتا ہے یہ عِلاج۔۔لیکن اس کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔؟” میں نے پوچھا تھا۔۔
“اب بس۔۔ چپ بھی کر۔۔ بہت سیانی ہو گئی ہے تو۔۔ مجھے نہیں پتہ بھئی۔۔” ممی نے بِدک کر کہا اور اٹھ کر کپڑے پہننے لگی۔۔
“ لیکن انہوں نے آپ کے ساتھ اپنا علاج کیوں کِیا؟ اپنے گھر لیکن کیوں نہیں۔۔ انکی ممی بھی ہیں، بہنیں بھی ہیں۔۔ کِتنی ساری لڑکِیاں تو ہیں ان کے گھر میں۔۔ !” مجھے غصہ آ رہا تھا اب۔۔ سالا وہ حرامی لڑکا صرف 5روپے میں اپنا علاج کر گیا تھا! کمینہ انسان!
“تجھے نہیں پتہ بیٹی۔۔ ہمیں ان کا بہت سا قرضہ بھی تو چکانا ہے۔۔ اگر میں اس کو عِلاج نہ کرنے دیتی تو وہ مجھے اٹھا لے جاتا ہمیشہ کے لِئے۔۔ پیسوں کے بدلے میں۔۔ پھِر کون بنتی تیری ممی۔؟” ممی نے اب اپنے پورے کپڑے پہن لِئے تھے۔۔۔
میں نادان لڑکی ایک بار پھِر پیار میں بے قابو ہوکر ان سے لِپٹ گی۔۔ میں نے مٹھی کھول کر اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے 5 روپے کے سِکے کو نفرت سے دیکھا اور اس کو باہر پھینک دِیا،" مجھے نہیں چاہِئے اسکے روپے۔۔ مجھے تو بس ممی چاہِئیں۔۔"
اسکے بعد جب بھی میں اسکو دیکھتی۔۔ مجھے یہی یاد آتا کِ ہمیں ان کا قرضہ اتارنا ہے۔۔ نہیں تو وہ ایک دِن ممی کو اٹھا کر لے جائیگا۔۔ اور میری آنکھیں اسکے لِئے نفرت سے بھر جاتیں۔۔ اور پھر میری یہ نفرت بڑھتی ہی چلی گئی تھی۔۔
سالوں بعد، جب مجھے یہ احساس ہو گیا کہ ممی جھوٹھ بول رہی تھیں۔۔ تب بھی; میرے دل میں اس کے لِئے نفرت برقرار رہی جو آج تک جوں کی توں ہے۔۔۔ یہی وجہ تھی کہِ اس دِن اپنے بدن میں سلگنے والی چوت کی آگ کے باوجود اپنی شہوت اور ہوس کو اپنے اوپر حاوی نہیںہونے دِیا تھا۔۔۔
خیر۔۔ میں اس دِن شام کو پھِر چوتئیے چشمو کے آنے کا اِنتتظار کرنے لگی۔۔۔
۔۔۔
ٹھیک پِچھلے دِن والے ٹائم پر ہی ترن نے نیچے آکر آواز لگائی۔۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ شام کو ہی آائیگا۔۔ لیکن کیا کرتی، نِگوڑمارا دِل اس کے اِںتتظار میں جانے کب سے دھڑک رہا تھا۔۔ میں اپنی کِتابیں اٹھائے بغیر ہی نیچے بھاگی۔۔ لیکن نیچے اس کو اکیلا دیکھ کر میں حیران رہ گی۔۔
“رِنکی نہیں آئی آج؟” میں نے بڑی ادا سے ایک قاتل مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی۔۔۔
“نہیں۔۔ اسکا فون آ یا تھا۔۔ وہ بیمار ہے۔۔ آج اسکول بھی نہیں گئی وہ بیچاری!” ترن نے کہا۔۔۔
“اچھ!ا۔۔ کیا ہوا اس کو؟ کل تک تو ٹھیک ہی تھی۔۔” میں نے اب اس کے سامنے کھڑی ہوکر اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھاکر ایک شہوت انگیز انگڑائی لی۔۔ میرا سارا بدن چٹخ گیا۔۔ لیکن اس نے دیکھا تک نہیں غور سے۔۔ پتہ نہیں کِس مِٹی کا بنا ہوا تھا بہن چود۔۔۔
“پتہ نہیں۔۔ آ!” یہ کہہ کر وہ نیچے والے کمرے میں جانے لگا۔۔۔
“اوپر ہی چلو ناں! نیچے چارپائی پر تنگ ہو جاتے ہیں۔۔” میں باہر ہی کھڑی تھی۔۔
“کہا تو تھا کل بھی، کہِ کرسی رکھ لو۔۔ بس یہیں ٹھیک ہے۔۔ کل یہاں کرسی ڈال لینا۔۔” اس نے کہا اور چارپائی پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔۔
“آ جا ناں۔۔ اوپر کوئی بھی نہیں ہے۔۔” میں دونوں ہاتھوں کو دروازے پر لگاکر کھڑی ہو گئی۔۔ آج بھی میں نے اسکول ڈریس ہی پہنی ہوئی تھی۔۔ میری سکرٹ کے نیچے سے میری چکنی چکنی رانیں گھٹنوں تک صاف دکھ رہی تھیں جو کِسی کو بھی میری سکرٹ کے اندر جھانکنے کے لئے اکسا سکتی تھیں۔۔ لیکن ترن تھا کہ میری طرف دیکھ ہی نہیں رہا تھا،" اوپر ٹیبل بھی ہے اور کرسیاں بھی۔۔ چلو ناں اوپر!“ میں نے نخرے سے کہا۔۔
اس بار وہ کھڑا ہو گیا۔۔ اپنے چشمے کو ٹھیک کِیا اور دو قدم چل کر رک گیا،” چلو!“
میں خوشی خوشی اس کے آگے آگے اپنی موٹی سی گانڈ کو مٹکاتی ہوئی چل کر سیڑھِیاں چڑھنے لگی۔۔ یوں تو میری کوشِش کے بغیر بھی چلتے ہوئے میری کمر سیکسی انداز میں بل کھاتی اور میرے بھاری کولہے ہل ہل کر کسی کا بھی لنڈ کھڑا کر سکتے تھے۔۔مجھے یقین تھا کہ میرے جان بوجھ کر اوربھی زیادہ بل کھانے سے تو میرے پِچھواڑے نے کیا غضب ڈہایا ہوگا ۔۔ مجھے پورا یقین تھا۔۔۔
اوپر آانے کے بعد وہ باہر ہی کھڑا ہو گیا۔۔ میں نے اندر جانے کے بعد مڑکر دیکھا،” آاو ناں۔۔ اندر!“ میں نے مسکرکر اس کو دیکھا۔۔ میری مسکراہٹ میں ہرلحظہ ایک قاتِل انداز پنہاں ہوتا تھا۔۔ لیکن پتہ نہیںکیوں وہ سمجھ نہیں رہا تھا میری چدنے کی خواہش کو۔۔ یا پھِر ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے جان بوجھ کر تڑپا رہا ہو۔۔۔ شائد!
ترن اندر آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ ٹیبل کے سامنے۔۔
"کوئی کتاب لے کر آ پہلے!” میرے چہرے پر اب بھی شہوت کی ہی مسکان تھی۔۔
“سائینس لے آ پہلے وہی پڑھ لیتے ہیں۔۔” ترن نے میرے چہرے کو پڑھنے کی پہلی بار کوشِش کی۔۔ مجھے بڑا مزہ آیا۔۔ اپنی طرف اس کو یوں گھورتا دیکھ کر۔۔۔
“ٹھیک ہے۔۔” میں نے کہا اور بیگ میں سائنس کی کِتاب ڈھونڈھنے لگی۔۔ کِتاب مجھے مِل گئی لیکن میں نے اس کے دیکھنے کے ڈھنگ سے متاثر ہوکر نہیں نِکالی،" پتہ نہیں کہاں رکھ دی میں نے۔۔ رات کو ہی تو پڑھ رہی تھی۔۔ ہمم؟ “ میں نے تھوڑا سوچنے کا ڈرامہ کِیا اور اس کی طرف پیٹھ کرکے اپنے گھٹنے زمین پر رکھے اور اپنے موٹے موٹے چوتڑوں کو اوپر اٹھا آگے سے بِالکل جھک کر بیڈ کے نیچے جھانکنے لگی۔۔ ٹھیک اسی طرح جِس طرح انِل چاچا نے ممی کو جھکا رکھا تھا اس دِن; بیڈ پر۔۔۔
اِس طرح جھک کر اپنے چوتڑ اوپر اٹھانے سے یقینا میری سکرٹ رانوںسے بھی اوپر تک کھِسک آئی ہوگی۔۔ اور اس کو میری چِکنی گداز گوری رانیں مفتے میں دیکھنے کو مِل رہی ہوںگی۔۔ میں تقریبا 30-40 سیکنڈ تک اسی پوزِ میں رہ کر بیڈ کے نیچے نظریں دوڑاتی رہی۔۔
جب میں کھڑی ہوکر پلٹی تو اسکا چہرہ دیکھنے والا تھا۔۔ اس نے نظریں زمین میں گاڑرکھیں تھیں۔۔ اسکے گورے گال بالکل سرخ ہو چکے تھے۔۔ یہ اِس بات کا ثبوت تھا کہ اس نے 'کچھ’ نا 'کچھ’ ضرور دیکھا ہے۔۔
"یہاں تو نہیں مِلی۔۔ کیا کروں؟” میں اسکی طرف دیکھ کر ایک بار پھِر مسکرائی۔۔ لیکن اس نے کوئی ریسپانس نہ دِیا۔
“مجھے الماری کے اوپر چڑھا دوگے؟ شائد ممی نے اوپر پھینک دی ہو۔۔” میرے دل میں سب کچھ واضح تھا کہ اب کیا کرنا ہے۔۔
“رہنے دو۔۔ میں دیکھ لیتا ہوں۔۔” وہ یہ کہ کر اٹھا اور الماری کو اوپر سے پکڑ کر کوہنِیاں موڑ اوپر سرک گیا،"نہیں۔۔ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔ چھوڑو۔۔ تم میتھ ہی لے آ۔۔ کل تک ڈھونڈھ لینا۔۔"
میں نے مایوس ہوکر میتھ کی کِتاب بیگ سے نِکال کر ٹیبل پرزور سے پٹخ دی۔۔ اب لکڑی کی ہانڑی بار بار آگ پرچڑھانا بھی تو ٹھیک نہیں، ہے ناں؟۔۔۔
اس نے پڑھانا شروع ہی کیا تھا کہ میں نے اسے ٹوک دِیا،" یہاں ٹھیک سے دِکھائی نہیں دے رہا۔۔ سامنے بیڈ پر بیٹھ جائیں؟"
“لگتا ہے تمہارا پڑھنے کا موڈ ہے ہی نہیں۔۔ اگر نہیں ہے تو کہہ دو۔۔ بیکار کی میحنت کرنے کا کیا فائدہ۔۔” ترن نے ہلکی سی ناراضگی کے ساتھ کہا۔۔۔
میں نے اپنے رسیلے ہونٹ باہر نِکالے اور معصوم سی شکل بنا کیایکٹنگکرتے ہوئے ہاں میں سِر ہِلا دِیا،" کل کر لیںگے پڑھائی۔۔ آج رِنکی بھی نہیں ہے ناں۔۔ اس کی سمجھ میں کیسے آئیگا؟"
“ٹھیک ہے۔۔ میں چلتا ہوں۔۔ اب جب رِنکی ٹھیک ہو جایگی۔۔ تب ہی آنگا۔۔” وہ یہ کہہ کر جانے کے لئے کھڑا ہو گیا۔۔۔
“ارے بیٹھو ناں۔۔ بیٹھو بھی۔۔ ایک مِنِٹ۔۔” میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنا پورا زور لگاکر اس کو دوبارہ کرسی پر بیٹھنے پر مجبور کر ہی دِیا۔۔ وہ پاگل ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔۔ لیکن میںتو اس کو چھھو کر ہی مدہوش ہو گئی تھی۔۔۔
“کیا ہے اب!” اس نے جھلا کر کہا۔۔۔
“بس ایک مِنِٹ ناں۔۔” میں نے کہا اور کِچن میں چلی گئی۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد میں اپنے ہاتھوں میں چائے اور بِسکِٹس لے کر اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔ میں نے وہ سب ٹیبل پر اس کے سامنے پیش کر دِیا۔۔ پیش تو میں نے خود کو بھیکر ہی دِیا ہی تھا اس کے سامنے، لیکن وہ سمجھے تب ناں!
بھئی شکریہ۔۔ لیکن اِس کی کیا ضرورت تھی؟۔۔۔" اس نے پہلی بار مسکرا کر میری طرف دیکھا۔۔ میں خوش ہوکر اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھ گی۔۔
“انجلِ! تم اسکول کیوں نہیں جاتیں۔۔؟ رِنکی بتا رہی تھی کہ۔۔” چاے کی پہلی چسکی لیتے ہوئے اس نے اپنا سوال ادہورا چھوڑ دیا۔۔۔
“تمہیں نہیں پتہ؟” میں نے برا سا منہ بنا لِیا۔۔۔
“کیوں کیا ہوا ؟” اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔۔ میں نے کہا ہی اِس انداز سے تھا کہ جیسے کوئی بہت بڑا راز میں چھپانے کی کوشِش کر رہی ہوں۔۔ لیکن اس کے پوچھنے پر بتا دوںگی۔۔۔
“وہ۔۔۔” میں نے بولنے سے پہلے ہلکا سا وقفہ لِیا،" پاپا نے منع کر دِیا ہے ناں۔۔"
“لیکن کیوں؟” وہ لگاتار میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
“وہ کہتے ہیں کہِ۔۔۔” میں چپ ہو گئی اور جان بوجھ کر اپنی ٹانگوں کو موڑ کر کھول دِیا۔۔ اسکی نظریں فورا فرش کی طرف جھک گئیں۔۔ میں ٹکٹکی باندھ کر اس کی جانب ہی دیکھے جا رہی تھی۔۔ نظریں جھکانے سے پہلے اس کی آنکھیں کچھ دیر میری سکرٹ کے اندر جاکر ٹھہری تھیں۔۔ میری پینٹی کے دیدار اس کو ضرور ہوئے ہوںگے۔۔۔
کچھ دیر یوںہی نظریں جھکائے ہوئے رہنے کے بعد دوبارہ اوپر اٹھنے لگیں۔۔ لیکن اِس بار دھیرے دھیرے۔۔ میں نے پھِر محسوس کِیا۔۔ میری رانوں کے درمیان جھانکتی ہوئی میری پینٹی۔۔ وہ کسمسا اٹھا تھا۔۔۔ اس نے پھِر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال لیں۔۔۔
“کیا کہتے ہیں تمہارے پاپا۔۔” اس کی نظریںاب بار بار نیچے دیکھے جا رہی تھی۔۔
میں نے رانیں تھوڑی سی اور کھول دیں۔۔،" وہ کہتے ہیں کہ اب میں جوان ہو گئی ہوں۔۔ آپ ہی بتاو۔۔ جوان ہونے نہ ہونے کیا کِسی کے بس میں ہوتا ہے۔۔ یہ کوئی بری بات تو نہیں ہے۔۔۔ میں کیا سچ میں اِتنی جوان ہو گئی ہوں کہِ اسکول بھی نہ جا سکوں؟"
ایک بار پھِر اس نے نظریں جھکا کر سکرٹ کے اندر کی میری جوانی کا بھرپور جائزہ لِیا۔۔ اس کے چہرے کی بدلی رنگت اس بات کی غمازی کر رہی تھی کہ اب اس کا دل بھی میری طرف مائل ہو رہا ہے رہا ہے اور اسے بھی یہ لگنا شروع ہو گیا ہے کہِ میں جوان ہو چکی ہوں اور پکے ہوئے رسیلے آم کی طرح مجھے چوسا نہیں گیا تو میں خود ہی ٹوٹ کر کسی کی گود میںگِرنے کے بیتاب ہوں۔۔۔
“یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی۔۔ ضرور کوئی اور ہی وجہ رہی ہوگی۔۔ تم نے کوئی شرارت کی ہوگی۔۔ تم چھِپا رہی ہو۔۔” اب اسکی جھِجھک بھی کھل سی گیی تھی۔۔ اب وہ اوپرکی طرف کم اور میری رانوں کے درمیان کچھ زیادہ ہی دیکھ رہا تھا۔۔ اسکی رانوں کے درمیان پینٹ کا اگلا حصہ اب الگ ہی ابھرا ہوا دِکھائی دے رہا تھا۔۔
“نہیں۔۔ میں نے کوئی شرارت نہیں کی۔۔ وہ تو کِسی کمینے لڑکے نے میرے بیگ میں گندی گندی باتیں لِکھ کر ڈال دی تھیں۔۔ وہ پاپا کو مِل گیا تھا۔۔” اب میں نے پوری بے شرمی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اس کے سامنے ہی اپنی سکرٹ کے اندر ہاتھ ڈال کر اپنی چڈیِ کو ٹھیک کِیا تو وہ پاگل سا ہوگیا۔۔۔
“آ۔ایسا کیا کِیا تھا اس نے۔۔؟ مطلب ایسا کیا لِکھا تھا۔۔” اب تو اسکی نظریں میری چڈیِ سے ہی چِپک کر رہ گیی تھیں۔۔۔
“مجھے شرم آ رہی ہے۔۔ !” میں نے کہا اور اپنی رانوں کو سِکوڑ کر واپس آلتی پالتی لگا کر ڈھنگ سے بیٹھ گئی۔۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اب تک وہ اِتنا بے صبرا ہو چکا ہوگا کہِ کچھ نا کچھ ضرور کہے گا یا کرے گا۔۔۔
میرا شک غلط نہیں تھا۔۔ میری چڈی کا دیدار ختم ہوتے ہی اس کا کوئی فیوز ہی اڑ گیا۔۔ کچھ دیر تک تو اس کو کچھ سوجھا ہی نہیں۔۔ پھِر اچانک اٹھتے ہوئے بولا،" اچھا! میں چلتا ہوں۔۔ ایک بات کہوں؟"
“ہاں۔۔!” میں نے شرماکر اپنی نظریں جھکا لیں۔۔ لیکن اس نے ایسا کچھ کہا کِ میرے کانوں سے دھواں اٹھنے لگا۔۔
“تم سچ میں ہی جوان ہو چکی ہو۔۔ جب کبھی سکرٹ پہنو تو اپنی ٹانگیں یوں نہ کھولا کرو۔۔ ورنہ تمہارے پاپا تمہارا ٹیوشن بھی بند کروا دیںگے۔۔” اس نے کہا اور باہر جانے لگا۔۔۔
میں نے بھاگ کر اسک بازو تھام لیا،" ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔؟"
وو دروازے کے ساتھ کھڑا تھا اور میں اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکے ہاتھوں کو پکڑے ہوئے اس کے سامنے کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
“میں نے صِرف مشورہ دیا ہے۔۔ باقی تمہاری مرضی۔۔!” اس نے صِرف اِتنا ہی کہا اور اپنی نظریں مجھ سے ہٹا لیں۔۔۔
“تمہیں میں بہت بری لگتی ہوں؟” میں نے بھرائے ہوئے سے لہجے میں کہا۔۔ اس کے اِس قدر نظر انداز کرکے اٹھنے سے میں دکھ ہوا تھا۔۔ آج تک تو کِسی نے بھی نہیں کِیا تھا ایسا۔۔ دنِیا مجھے ایک نظر دیکھنے کو ترستی تھی اور میں نے اس کو اپنی دنِیا ہی دِکھا دی تھی۔۔ پھِر بھی!
“اب یہ کیا پاگل پن ہے۔۔ چھوڑو مجھے۔۔!” اس نے ہلکا سا غصہ دِکھاتے ہوئے کہا۔۔۔
لڑکی سب کچھ برداشت کر سکتی ہے۔۔ لیکن کوئی اس کے جسم سے بے اعتنائی پرتے ایسا وہ کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتی۔۔اس کے مجھے مسلسل نظر انداز کرنے سے میرے اندر کا لڑکی کی غیرت جاگ اٹھی تھی۔۔ میں اس'سے لِپٹ گئی۔۔ بالکل چِپک سی گئی اس سے،" پلیز۔۔ بتاو ناں۔۔ میں خوبصورت نہیں ہوں کیا؟ کیا کمی ہے مجھ میں۔۔ مجھے تڑپاکر کیوں جا رہے ہو؟۔۔۔"
میرممے اور ان کے نوکیلے نپل اس کے چوڑے سینے میں گڑے ہوئے تھے۔۔ میں اوپر سے نیچے تک اس'سے چِپکی ہوئی تھی۔۔ لیکن اس پر کوئی اث ہی نہیں ہوا ،" ہٹو! اپنے ساتھ کیوں مجھے بھی ذلیل کرنے لپر تلی ہوئی ہو۔۔ چھوڑو مجھے۔۔ میں آج کے بعد یہاں نہیں آں گا۔۔" یہ کہہ کر اس نے زبردستی مجھے بِستر کی طرف دھکیلا اور باہر نِکل گیا۔۔۔
میری آنکھیں رو رو کر لال ہو گئیں۔۔ وہ کمینا انسان مجھے اتنا ذلیل کرکے گیا تھا کہ میں گھر والوں کے آنے سے پہلے بِستر سے اٹھ ہی نہ سکی۔
جب دو دِن تک مسلسل وہ نہیں آیا تو پاپا نے اس کو گھر بلایا۔۔،" تم آتے کیوں نہیں ہو بیٹا؟" میں پاس ہی کھڑی تھرتھر کانپ رہی تھی۔۔ کہ کہیں وہ پاپا کو کچھ بتا نہ دے۔۔۔
“وہ چاچا جی۔۔ آج کل مجھے اپنے امتحانوں کی بھی تیاری کرنی پڑ رہی ہے۔۔ اور رات کو دھرمپال کے گھر جانا ہوتا ہے۔۔ انکی بیٹِیوں کو پڑھانے کے لِئے۔۔ اِسی لِئے ٹائم کم ہی مِل پاتا ہے۔۔” بولتے ہوئے اس نے میری طرف دیکھا۔۔۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکا شکریہ ادا کِیا۔۔۔
“ہمم۔۔ کونسی کلاس میں ہیں اس کی بیٹِیاں؟” پاپا نے پوچھا۔۔۔
“ایک تو اِنجل کی کلاس میں ہی ہے۔۔ دوسری کالج جانے میں ہے۔۔ اسکو اِنگلش پڑھاتا ہوں۔۔۔” اس نے جواب دِیا۔۔۔
“تو تو ایسا کیوں نہیں کرتا۔۔ ان کو بھی یہیں بلا لے۔۔ نیچے کمرہ تو خالی ہے ہی اپنا۔۔ جب تک چاہے پڑھا۔۔۔!” پاپا نے کہا۔۔۔
“نہیں۔۔ وہ یہاں نہیں آئیںگی چاچا۔۔ مجھے ڈبل پے کرتے ہیں وہ۔۔ اپنے گھر رات کو پڑھانے کے لِئے۔۔ انہوں نے میرے گھر آنے سے بھی منع کر دِیا تھا۔۔۔” ترن نے بتایا۔۔۔
“اوہ۔۔ تو ٹھیک ہے۔۔ میں دھرمپال سے بات کر لوںگا۔۔ انجلِ بھی وہیں پڑھ لے گی۔۔ وہ بھی تو اپنا ہی گھر ہے۔۔” پاپا نے پتہ نہیں کیسے یہ بات کہہ دی۔۔ مجھے بڑا عجیب سا لگا تھا۔۔،" لیکن پھر آپ کو ہی انجو کو گھر لانا اور وہاںچھوڑ کر جانا پڑیگا ۔۔ رات کی بات ہے اور پھر لڑکی ذات ہے۔۔۔"
ترن نے ہاں میں سِر ہِلا دِیا۔۔ اور میرا رات کا ٹیوشن سیٹ ہو گیا۔۔ دھرمپال چاچا کے گھر۔
دھرمپال چاچا کی دونوں لڑکِیاں بڑی خوبصورت تھیں۔۔ بڑی کو میرے مقابلے کی کہہ سکتے ہیں۔۔ میناکشی۔۔ پِچھلے سال ہی ہمارے اسکول سے بارہویں جماعت پاس کی تھی۔۔ اسکی جوانی بھی میری طرح پورے شباب پر تھی۔۔ لیکن دِل سے کہوں تو وہ میری طرح چنچل نہیں تھی۔۔ بہت ہی شرمیلی اور شریف سی تھی وہ۔۔۔ گھر سے باہر سب اس کو مینو کہتے تھے۔۔۔ پیار سے۔۔
چھوٹی میری ہم عمر ہی تھی۔۔ لیکن جسم کے لحاظ سے مجھ سے تھوڑی ہلکی تھی۔۔ ویسے وہ بھی بہت خوبصورت تھی اور چنچل تو مجھ سے بھی زیادہ تھی وہ۔۔ لیکن اسکی چونچلوں میں میری طرح ہوس کی تڑپ نہیں تھی۔۔ الڑھ پن تھا اس میں۔۔ بالکل بچوں کی طرح۔۔ گھر والوں کے ساتھ ہی آس پڑوس میں سب کی لاڈلی تھی وہ۔۔ پرِیانکا! ہم سب اس کو پِنکی کہتے تھے۔۔
اگلے دِن میں ٹھیک 7 بجے نہا دھوکر ٹیوشن جانے کے لِئے تیار ہو گئی۔۔ یہی ٹائیم بتایا تھا ترن نے۔ میںدل ہی دل میں 3 دِن پہلے والی بات یاد کرکے جھِجھک سی رہی تھی۔۔ اسکا سامنا کرنا پڑیگا، یہی سوچ کر میں پریشان سی تھی۔۔ لیکن جانا تو تھا ہی، تو میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور نِکل گئی۔۔۔
دھرمپال چاچا کے گھر جاکر میں نے آواز لگائی،"پِنکی!“
تبھی نیچے بیٹھک کا دروازہ کھلا اور پِنکی باہر نِکلی،” آ گئی انجو ! آ جا۔۔ ہم بھیا کا اِنتظار کر رہے ہیں۔۔" اس نے پیار سے میری بانہہ پکڑی اور اندر لے گی۔۔
میں مینو کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔۔ وہ رزائی میں دبکی بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھی۔۔
“تم بھی آج سے یہیں پڑھوگی نا انجو ؟ پاپا بتا رہے تھے۔۔!” مینو نے ایک نظر مجھے دیکھا اور مسکرا دی۔۔۔
“ہاں۔۔ دیدی!” میں نے کہا اور پِنکی کے ساتھ چارپائی لیکن بیٹھ گی۔،" یہیں پڑھاتے ہیں کیا وہ!“
جواب پِنکی نے دِیا،” ہاں۔۔ اوپر ٹی۔وی۔ چلتا رہتا ہے نا۔۔ وہاں شور ہوتا ہے۔۔اِسی لِئے یہیں پڑھاتے ہیں ہم کو !تم اسکول کیوں نہیں آتیں اب؟۔۔ سب ٹیچرس پوچھتے رہتے ہیں۔۔ بہت یاد کرتے ہیں تمہیں سب!“
ہائے! کیا یاد دِلا دِیا پِنکی نے! میں بھی تو ان دنوں کو یاد کر کر کے تڑپتی ہیِ رہتی تھی۔۔ ٹیچرس تو یاد کرتے ہی ہوںگے! خیر۔۔ میںنے اِتنا ہی کہا،” پاپا کہتے ہیں کہ ایگزیمس کا ٹائم آ رہا ہے۔۔ اِسی لِئے گھر پر ہی پڑھائی کر لوں۔
“صحیح کہہ رہی ہو۔۔ میں بھی پاپا سے بات کروںگی۔۔ اسکول میںتو اب پڑھائی تو ہوتی نہیں۔۔” پِنکی نے کہا۔۔۔
“کب تک پڑھاتے ہیں وہ۔۔” میں نے پوچھا۔۔۔
“کون؟ بھیا؟ وہ تو دیر رات تک پڑھاتے رہتے ہیں۔۔ پہلے مجھے پڑھاتے ہیں۔۔ اور جب مجھے نیند آنی شروع ہو جاتی ہے تو دیدی کو۔۔ کئیِ بار تو وہ یہیں سو جاتے ہیں۔۔!” پِنکی نے مجھے اطلاع دی۔۔۔
مینو نے ہمیں ٹوک دِیا،" یار۔۔ پلیز! اگر باتیں کرنی ہیں تو باہر جاکر کر لو۔۔ میں ڈِسٹرب ہو رہی ہوں۔۔"
پِنکی جھٹ سے کھڑی ہو گئی اور مینو کی طرف زبان دِکھا کر بولی،" چل انجو ۔۔ جب تک بھیا نہیں آ جاتے۔۔ ہم باہر بیٹھتے ہیں۔۔!“
ہم باہر نِکلے بھی نہیں تھے کِ ترن آ پہنچا۔۔ پِنکی ترن کو دیکھتے ہی خوش ہو گئی،” نمستے بھیا۔۔!“
صِرف پِنکی نے ہی نمستے کِئے تھے۔۔ مینو نے نہیں۔۔ وہ تو چارپائی سے اٹھی تک نہیں۔۔ میں بھی کچھ نہ بولی۔۔ اپنا سِر جھکائے کھڑی رہی۔۔۔
ترن نے مجھے نیچے سے اوپر تک غور سے دیکھا۔۔ مجھے نہیں پتا اس کے دل میں کیا آیا ہوگا۔۔ لیکن اس دِن میں اوپر سے نیچے تک کپڑوں سے لد کر گئی تھی۔۔ صِرف اسکو خوش کرنے کے لِئے۔۔ اس نے سکرٹ پہننے سے منع جو کِیا تھا مجھے۔۔
"آ بیٹھو!” اس نے سامنے والی چارپائی پر بیٹھ کر وہاں رکھا کنبل اوڑھ لِیا۔۔ اور ہمیں سامنے بیٹھنے کا اِشارا کِیا۔۔
پِنکی اور میں اس کے سامنے ہی بیٹھ گئے۔۔ اور وہ ہمیں پڑھانے لگا۔۔ پڑھاتے ہوئے وہ جب بھی کاپی میں لِکھنے لگتا تو میں اسکا چہرہ دیکھنے لگتی۔۔ جیسے ہی وہ اوپر دیکھتا تو میں کاپی میں نظریں گڑا لیتی۔۔ سچ میں بہت کیوٹ تھا وہ۔۔ بہت سمارٹ تھا!
اس کو ہمیں پڑھاتے ہوئے تقریبا تین گھنٹے ہو گئے تھے۔۔ جیسا کہِ پِنکی نے بتایا تھا۔۔ اسکو 10 بجتے ہی نیند آنے لگی تھی،" بس بھیا۔۔ میں کل سارا یاد کر لوںگی۔۔ اب نیند آنے لگی ہے۔۔۔"
“تیرا تو روز کا یہی ڈرامہ ہے۔۔ ابھی تو 10:30 بھی نہیں ہوئے ۔۔” ترن نے بڑے پیار سے کہا اور اسکے گال پکڑ کر کھینچ لِئے۔۔ میں اندر تک جل بھن گئی۔۔ میرے ساتھ کیوں نہیں کرتا یہ ایسا۔۔ جبکہِ میں تو اپنا سب کچھ 'کھِنچوانے’ کو تیار بیٹھی تھی۔۔ خیر۔۔ میں صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئی۔۔۔
“میں کیا کروں بھیا؟ مجھے نیند آ ہی جاتی ہے۔۔ آپ تھوڑا پہلے آ جایا کرو ناں!” پِنکی نے ہنستے ہوئے کہا۔۔ تعجب کی بات تھی اس کو مرد کے ہاتھ اپنے گالوں پر لگنے سے ذرا سا بھی فرق نہیں پڑا۔۔ اسکی جگہ میں ہوتی تو۔۔ کاش! میں اسکی جگہ ہوتی۔۔۔
“ٹھیک ہے۔۔ کل اچھی طرح تیار ہوکر آنا۔۔ میں ٹیسٹ لوںگا۔۔” کہتے ہوئے اس نے میری طرف دیکھا،" تم کیوں منہ پھلائے بیٹھی ہو۔۔ تمہے بھی نیند آ رہی ہے کیا؟"
میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی اور کچھ دیر سوچنے کے بعدکچھ کہنے کا ارادہ بدل دیا اور اِشارے سے اپنا سِر 'نہ’ میں ہِلاکر۔۔ مجھے نیند بھلا کیسے آتی۔۔ جب اِتنا سمارٹ لڑکا میرے سامنے بیٹھا ہو۔۔۔
“تمہیں پہلے چھوڑ کر آںیا بعد میں ساتھ چلوگیِ۔۔” وہ اِس طرح بات کر رہا تھا جیسے پِچھلی باتوں کو بھول ہی گیا ہو۔۔ کِس طرح وہ مجھے تڑپتاِ ہوا چھوڑ کر چلا آیا تھا گھر سے۔۔ لیکن پھِر بھی مجھے اس کا مجھ سے اس واقعے کے بعد 'ڈائیریکٹ’ بات کرنا بہت اچھا لگا۔۔۔
“آ۔۔ آپکی مرضی۔!” میں نے ایک بار پھِر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔۔۔
“ٹھیک ہے۔۔ چلو تمہیں چھوڑ آتا ہوں۔۔ پہلے۔۔” وہ کہہ کر اٹھنے لگا تھا کہ تبھی چاچی نیچے آ گئیں،" ارے۔۔ رکو! میں تو چائے بناکر لائی تھی کہ نیند کھل جائیگی۔۔ پِنکی تو خراٹے لے رہی ہے۔۔"
چاچی نے ہم تینوںکو چائے پکڑا دی اور وہ وہیں بیٹھ گئیں۔،" انجو! اگر یہیں سونا ہو تو یہاں سو جاصبح اٹھ کر چلی جانا۔۔ اب رات میں کہاں جاگی۔۔ اِتنی دور۔۔"
“میں چھوڑ آنگا چاچی۔۔ کوئی بات نہیں۔۔” ترن چاے کی چسکی لیتا ہوا بولا۔۔۔
“چلو ٹھیک ہے۔۔ تم اگر گھر نا جاو تو یاد سے اندر سے کنڈی لگا لینا۔۔ میں تو جا رہی ہوں سونے۔۔ اس دِن کتے گھس گئے تھے اندر۔۔” چاچی نے یہ بات ترن کو کہی تھی۔۔ میری حیرت کا ٹھِکانا نہ رہا۔۔ کِتنا گھل مِل گیا تھا ترن ان سب سے۔۔ اپنی جوان بیٹی کو اس کے پاس چھوڑ کر سونے جا رہی ہیں چاچی جی۔۔ اور اوپر سے یہ بھی چھوٹ کہ اگر سونا چاہے تو یہیں سو سکتا ہے۔۔ میں سچی میں حیران تھی۔۔ مجھے دال میں کچھ نہ کچھ ہونے کا شک پکا ہو رہا تھا۔۔ لیکن میں کچھ بولی نہیں۔۔۔
“آ پِنکی۔۔ چل اوپر۔۔!” چاچی نے پِنکی کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اسکو بیٹھا دِیا۔۔ پِنکی اِشارا مِلتے ہی ا ن کے پیچھے پِچھے ہو لی۔۔ جیسے اس کی عادت ہو چکی ہو۔۔۔
“چلو!” ترن نے چاے کا کپ ٹرے میں رکھا اور کھڑا ہو گیا۔۔ میں اس کے پیچھے پِچھے چل دی۔۔۔
راستے بھر ہم کچھ نہیں بولے۔۔ لیکن میرے دل میں ایک ہی بات چکرا رہی تھی۔،" اب مینو اور ترن اکیلے ہوںگے۔۔ اور جو کچھ چاہیںگے۔۔ وہی کریںگے۔۔
اگلے دِن میں نے باتوں ہی باتوں میں پِنکی سے پوچھا تھا،" مینو کہاں سوتی ہے؟"
“پتا نہیں۔۔ لیکن شاید وہ بھی اوپر ہی آ جاتی ہیں بعد میں۔۔ وہ تو ہمیشہ مجھ سے پہلے اٹھ جاتی ہیں۔۔ کیوں؟” پِنکی نے بغیر کِسی لاگ لپیٹ کے جواب دے دِیا۔۔
“نہیں، بس ایسے ہی۔۔ اور تم؟” میں نے اس کی بات کو ٹال کر پھِر پوچھا۔۔۔
“میں۔۔ میں تو کہیں بھی سو جاتی ہوں۔۔ اوپر بھی۔۔ نیچے بھی۔۔ تم چاہو تو تم بھی یہیں سو جایا کرو۔۔ پھِر تو میں بھی روز نیچے ہی سو جانگیِ۔۔ دیکھو نا کِتنا بڑا کمرا ہے۔۔” پِنکی نے دِل سے فرمائش کی۔۔۔
“پر۔۔ ترن بھی تو یہاں سو جاتا ہے نہ؟۔۔ ایک آدھ بار!” میری چھان بین جاری تھی۔۔
“ہاں۔۔ تو کیا ہوا ؟ یہاں کِتنی چارپائی ہیں۔۔ 6!” پِنکی نے گِن کر بتایا۔۔
“نہیں۔۔ میرا مطلب۔۔ لڑکے کے ساتھ سونے میں شرم نہیں آائیگی کیا؟” میں نے اس کا دل ٹٹولنے کی کوشِش کی۔۔۔
“دھت! کیسی باتیں کر رہی ہو۔۔ 'وہ’ بھیا ہیں۔۔ اور ممی پاپا دونوں کہتے ہیں کہ وہ بہت اچھے ہیں۔۔ اور ہیں بھی۔میں بھی کہتی ہوں!” پِنکی نے سینہ تان کر فخر سے کہا۔۔۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔۔ میں کھڑی کھڑی اپنا سِر کھجانے لگی۔ تب ھی مینو نیچے آ گئی اور میں نے اس کو چپ رہنے کا اِشارہ کر دِیا۔۔
پِنکی کے گھر جاکر پڑھتے ہوئے مجھے ہفتہ بھر ہو گیا تھا۔۔ ترن بھی تب تک میری اس حرکت کو پوری طرح بھول کر میرے ساتھ ہنسی مزاق کرنے لگا تھا۔۔ لیکن میں اِتنا کھل کر اس'سے دوبارہ کبھی بول نہیں پائی۔۔ وجہ یہ تھی کہِ میرے دل میں چور تھا۔۔ میں تو اس کا چہرہ دیکھتے ہی گرم ہو جاتی تھی اور گھر واپس آکر جب تک نیند کے آغوش میں نہیں سما جاتی گرم ہی رہتی تھی۔۔
دل ہی دل میں مینو اور اس کے درمیان 'کچھ’ ہونے کے شک کا کیڑا بھی مجھے پریشان رکھتا تھا۔مینو اس'سے اِتنی بات نہیں کرتی تھی۔۔ لیکن دونوں کی نظریں مِلتے ہی انکے چہروں پر ابھر آنے والی پیار کی مسکان میرے شک کو اور ہوا دے جاتی تھی۔۔ شکل صورت اور ’ مموں اور گانڈ’ کے معاملے میں میں مینو سے 20 ہی تھی۔۔ پھِر بھی جانے کیوں میری طرف دیکھتے ہوئے اس کی مسکان میں کبھی وہ رسیلاپن نظر نہیں آیا جو ان دونوں کی نظریں مِلنے پر اپنے آپ ہی مجھے الگ سے دِکھ جاتا تھا۔۔
سچ کہوں تو پڑھنے کے علاوہ وہ مجھ میں کوئی انٹریسٹ لیتا ہی نہیں تھا۔۔۔ میں نے یوںہی ایک دِن کہہ دِیا تھا،" رہنے دو۔۔ اب مجھے ڈر نہیں لگتا۔۔ روز جاتی ہوں ناں۔۔" اس کے بعد تو اس نے مجھے واپس گھر تک چھوڑنا ہی چھوڑ دِیا۔۔
ایسے ہی تین چار دِن اور نکل گئے۔۔
میرا گھر پِنکی کے گھر سے تقریبا آدھا کِلومیٹر دور تھا۔۔ تقریبا ہر نکڑ پر اسٹریٹ لائٹ لگی تھی۔۔ اِسی لِئے سارے راستے روشنی رہتی تھی۔۔ صِرف ایک ٹکڑے کو چھوڑ کر۔۔ وہاں گاں کی پرانی چوپال تھی اور چوپال کے آنگن میں ایک بڑا سا نیم کا پیڑ تھا (اب بھی ہے)۔ سٹریٹ لائٹ وہاں بھی لگی تھی۔۔ لیکن چوپال سے ذرا الگ۔۔ اس پیڑ کی وجہ سے گلی کے اس حصے میں گھپ اندھیرا رہتا تھا۔۔
وہاں سے گزرتے ہوئے میرے قدموں کی چاپِ اور دِل کی دھڑکن اپنے آپ ہی تھوڑی بڑھ جاتی تھی۔۔ رات کا وقت اور اکیلی ہونے کی وجہ سے انہو نی کا ڈر کِس کے دل میں نہیں پیدا ہوگا۔۔ لیکن 3-4 دِن تک لگاتار اکیلی آنے کی وجہ سے میرا وہ ڈر بھی جاتا رہا۔۔
اچانک ایک دِن ایسا ہو گیا جِس کا مجھے کبھی ڈر تھا ہی نہیں۔۔ لیکن جب تک 'اسکی’ منشا نہیں پتا چلی تھی; میں ڈری رہی۔۔ ار پسینہ پسینہ ہو گئی۔۔۔
ہوا یوں کہ اس دِن جیسے ہی میں نے اپنے قدم 'اس’ اندھیرے ٹکڑے میں رکھے۔۔ مجھے اپنے پیچھے کِسی کے تیزی سے آ نے کا احساس ہوا ۔۔ میں چونک کر پلٹنے ہی والی تھی کہ ایک ہاتھ مضبوتی سے میرے جبڑے پر آکر جم گیا۔۔ میں ڈر کے مارے چیخی۔۔ لیکن چیخ میرے گلے میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔۔ اگلے ہی لمحے اس نے اپنے ہاتھ کا گھیرا میری کمر کے اِرد گِرد بنایا اور مجھے اوپر اٹھا لِیا۔
میںحیرت اور خوف کے مارے کانپنے لگی تھی۔۔ لیکن چِلانے یا اپنے آپ کو چھڑانے کی میری ہر کوشِش ناکام رہی اور 'وہ’ مجھے زبردستی چوپال کے ایک بغیر دروازے والے کمرے میں لے گیا۔۔
وہاں بھی ایک دم گھپ اندھیرا تھا۔۔ میری آنکھیں ڈر کے مارے باہر نِکلنے کو تھیں۔۔ لیکن پھِر بھی کچھ بھی دیکھنا وہاں ناممکِن تھا۔۔ جی بھر کر اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرنے کے بعد میرا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔۔ میں تھر-تھر کانپ رہی تھی۔۔۔
عجیب وغریب حادثے سے میرا دِماغ جیسے ہی تھوڑا پرسکون ہوا ۔۔ مجھے تب جاکر پتا چلا کہ معاملہ تو کچھ اور ہی ہے۔۔ 'وہ’ میرے پیچھے کھڑا مجھے ایک ہاتھ سے سختی سے تھامے اور دوسرے ہاتھ سے میرے منہ کو دبائے میری گردن کو چاٹنے میں مگن تھا۔۔
اس کے مجھے یہاں گھسیٹ کر لانے کا مقصد سمجھ میں آتے ہی میرے دِماغ کا سارا بوجھ غائب ہو گیا۔۔ میرے بدن میں اچانک گدگدی سی ہونے لگی اور میں مزہ سے سسک اٹھی۔۔

اسکے مجھے یہاں گھسیٹ کر لانے کا مقصد سمجھ میں آتے ہی میرے دِماغ پرسکون ہو گیا۔۔ میرے بدن میں اچانک گدگدی سی ہونے لگی اور میں شہوت اور ہوس کے مزے سے سسک اٹھی۔۔
میں اپنے اس زبردستی کے 'یار’ کو بتانا چاہتی تھی کہ میں نہ جانے کب سے اِسی لمحے کے لِئے تڑپ رہی ہوں۔۔ میں پلٹ کر ’ اس'سے لِپٹ جانا چاہتی تھی۔۔ اپنے کپڑے اتار کر پھینک دینا چاہتی تھی۔۔ لیکن وہ چھوڑ تا تب ناں۔۔۔!
میری طرف سے مزاحمت ختم ہوتی محسوس کر نے کے بعد اس نے میری کمر پر اپنی گرفت تھوڑی ڈھیلی کر دی۔۔۔ لیکن منہ پر اس کا ہاتھ اتنی ہی مضبوطی سے جما ہوا تھا۔۔ اچانک اس کا دوسرا ہاتھ آہستہ آہستہ نیچے سرکتا ہوا میری شلوار کے اندر گھس گیا اور میری چڈی کے اوپر سے میری چوت کے لبوں کو چھیڑنے لگا۔۔ اف مجھے اِتنا مزا آ رہا تھا کہِ میں پاگل سی ہو گی۔۔ ہونٹوں پر مضبوط بندش ہونے کی وجہ سے میں کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی لیکن اس کی انگلیاں جب میری چوت کے لبوں کو چھیڑنے لگیں تو اچانک ہی ایسا لگا جیسے میں کِسی دوسری دنیا میں پہنچ گئی۔۔ میری آنکھیں مستی اور ہوس کے بے انتہا نشے سے بند سی ہونے لگیں۔۔ کسمساکر میں نے اپنی ٹانگیں چوڑی کر کے رانوں کے درمیان اپنے نادیدہ یار کے لئے 'اور’ جگہ بنا دی۔۔ تاکہِ اس کے ہاتھوں کو میری چوت کی خدمت کرنے میں کِسی طرح کی کوئی دقت نہ ہو۔۔ اور پھر اس'نے میری چڈی کے اندر ہاتھ ڈال دی پہلے تو اپنی انگلیوں سے میری چوت کا ابھار سہلایا اور جیسے جیسے میری چوت کے سوراخ کی تلاش میں صحیح جگہ کی طرف جاتا گیا میں تو پاگل ہو گئی۔میری سانسیں کسی تیز رفتار ریل کے انجن کی مانند سیٹیاں سی بجاتی میرے متھنوں سے نکل رہی تھیں۔ لیکن میری مزے میں ڈوبی ہوئی سِسکاریاں میرے حلق سے باہر نہ آ سکیں۔۔ لیکن اس کو اپنے 'نیک’ ارادوں سے آگاہ کرنے کے لِئے میں نے اپنا ہاتھ بھی اسکے ہاتھ کے ساتھ ساتھ اپنی شلوار میں گھسا دِیا۔ میرے ہاتھ کے نیچے دبے اسکے ہاتھ کی ایک انگلی کچھ دیر تک میری چوت کی دراڑ میں اپر نیچے ہوتی رہی۔۔ اپنے ہاتھ اور پرائے ہاتھ سے آنے والے مزے میں زمین آسمان کا فرق ہونے کا مجھے آج پہلی بار پتہ چلا۔۔ مزہ تو خیر اپنے ہاتھ سے بھی کافی آتا تھا۔۔لیکن 'اس’ کے ہاتھ کی تو بات ہی الگ تھی۔۔
میری چِکنی رال ٹپکاتی چوت کی پھانکوں کے درمیان تھِرکتیِ ہوئی اسکی انگلیاں جیسے ہی چوت کے دانے کو چھوتیں۔۔ میرا بدن جھنجھنا جاتا۔۔ اور جیسے ہی چِکناہٹ سے لبالب بھری ہوئی چوت کے سوراخ پر آکر اسکی انگلی ٹھہرتی۔۔ میرے دِل کی دھڑکن تیز ہو جاتیں۔۔ میرا دِماغ سن ہو جاتا۔
مجھے یقین ہو چلا تھا کہِ آج میری کنواری چوت کا افتتاح ہو کر رہے گا۔۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہِ وہ مجھے چودنے میںآخِر اِتنی دیر لگا کیوں رہا ہے۔۔ میری بے صبری بڑھتی جا رہی تھی۔۔ اپنی رانوں کو میں پہلے سے دگنا کھول چکی تھی جس کی وجہ سے میرے لِئے کھڑا رہنا اب مشکِل ہو رہا تھا۔۔
اچانک اس نے اپنا ہاتھ باہر نِکال لِیا۔۔ میرا دِل بیٹھ سا گیا۔۔ ہائے ! ابھی تو میں اس کے آگے بڑھنے کی امید کر رہی تھی۔ میری مایوسی بس چند سیکنڈ ہی رہی اور اگلے ہی چند لمحوں کے بعد اس نے میری شلوار کا ناڑا کھولا اور میری شلوار کھینچ کر میرے ٹخنوں تک گرا دی۔۔ میری ننگی رانوں پر لگنے والی ٹھنڈ کا مقابلہ میرے اندر سے اٹھنے والی شہوت کی آگ کی لپٹیں کر رہی تھیں۔
اچانک اس نے میری چڈی بھی میری گانڈ سے نیچے سرکا دی۔۔ اور اب میری چِکنی گانڈ بھی ننگی ہو گئی۔۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ چوتڑوں کے ایک 'پاٹ’ پر رکھا اور اسکو آہستہ آہستہ سہلاتا ہوا دبانے لگا۔۔ مجھے یقین تھا کہِ اگر وہاں روشنی ہوتی تو وہ ضرور میرے چوتڑوں کی گولائی، کساوٹ اور گداز پن دیکھ کر وہ پاگل ہو جاتا۔۔ شاید اندھیرا ہونے کی وجہ سے وہ اب تک اندازوں سے کام لے رہا تھا۔۔
مجھے اپنی گانڈ پر ہاتھ پھروانے میں بھی مزا آ رہا تھا لیکن مجھ سے اپنی چوت کی تڑپ اب برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔ میں 'کام’ جاری رکھنے کے اِرادے سے اپنا ہاتھ نیچے لے گیی اور اپنی چوت کے لبوں کو آہستہ آہستہ مسلنے لگی۔۔
میرے ایسا کرنے سے شاید اسکو میرے جذبات کے بے قابو ہونے کا احساس ہو گیا۔۔ میرے چوتڑوں سے کچھ دیر اور کھیلنے کے بعد وہ رک گیا اور ایک دو بار میرے منہ سے ہاتھ ڈھیلا کرکے دیکھا۔۔ میرے منہ سے لمبی لمبی سانسیں ار سِسکِاریاں نِکلتے دیکھ وہ پوری طرح مطمئین ہو گیا اور اس نے اپنا ہاتھ میرے منہ سے ہٹا لِیا۔۔۔
چدنے کی بھرپور خواہش کے باوجود مجھ میں اسکو جاننے کی چاہت بھی میرے دل میں تھی۔۔ میں نے اپنی چوت کو سہلانا چھوڑ کر دھیرے سے اس سے کہا،"مجھے بہت مزا آ رہا ہے۔۔ لیکن کون ہو تم؟"
جواب دینا تو دور کی بات ہے، اس نے تو میرے منہ کو دوبارہ سختی سے دبوچ لِیا۔۔ میں نے ہلک پرتِرودھ بھرو گون-گون کی تو اس نے ہاتھ ہٹاکر میری بات پھِر سن لی،" اچھا۔ ٹھیک ہے۔۔ میں تم سے کچھ نہیں پوچھتیِ۔۔ لیکن جلدی کرو ناں۔۔ مجھے بہت مزہ آ رہا ہے۔۔" مجھے تو چدنے سے مطلب تھا۔۔ وہ کوئی بھی تھا۔۔ میری زندگی میں پہلی بار مجھے عورت ہونے کا بھرپور احساس کرا ہی رہا تھا۔۔ بہت اچھے طریقے سے۔۔۔
میرے ایسا کہنے پر وہ شاید بالکل ہی بے فِکر ہو گیا اور میری قمیض کے نیچے سے کولہوں کو پکڑ کر نیچے بیٹھ گیا۔۔ اسکی گرم گرم سانسیں اب میری رانوں کے درمیان ٹھیک میری چوت کے لبوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ اس کو میری حالت کا اچھی طرح سے اندازہ تھا اور وہ چاہتا تھا کہ میں لنڈ گھسائے بغیر ہی پہلے جھڑ جاؤں تاکہ اس کے لنڈ کو گھسانے میں زیادہ پریشانی نہ ہو۔
کچھ دیر بعد اس نے اپنا ایک ہاتھ میرے کولہوں سے ہٹا کر میری پیٹھ کو آگے کی طرف دبایا۔۔ میں اسکا اِشارا سمجھ گیی اور کھڑی کھڑی آگے جھک کر اپنی کوہنِیاں سامنے چھوٹی سی دیوار پر ٹکا لیں۔۔ ایسا کرنے کے بعد میرے چوتڑ پِچھے کی طرف نمایاں ہو گئے۔۔
اس نے اپنا منہ میرے چوتڑوں کے درمیان گھسا دِیا اور اچانک میری چوت کو اپنے ہونٹوں سے چوما۔۔ میںمزے سے کسمسا اٹھی۔۔ اِتنا مزا آیا کہِ میں بیان نہیں کر سکتی۔۔ میں نے اپنی رانوں کو اور کھول دیا تاکہ میرے اس انجان عاشق کی راہیں آسان ہوں۔۔
کچھ دیر اور چومنے کے بعد اس نے میری پوری چوت کو اپنے منہ میں دبوچ لِیا۔۔ میں مزے کے مارے میں چھٹپٹا اٹھی۔۔لیکن وہ میرا انجان عاشق شاید ابھی مجھے اور تڑپانے کے موڈ میں تھا۔۔۔
وہ زبان نِکال کر چوت کے لبوں اور انکے درمیان کی پتلی سی دراڑ کو چاٹ چاٹ کر مجھے پاگل کرتا جا رہا تھا۔۔ میری سِسکِاریاں چوپال کے کمرے کے اندر صرف مجھے اور میرے اس حرامی عاشق کو ہی سنائی دے رہی تھیں۔۔ اب اسکی تیز ہوتی سانسوں کی آواز بھی مجھے سنائی دے رہی تھی۔۔ لیکن بہت آہستہ آہستہ ۔۔۔
آخِر جب مجھ سے اپنی چوت کی تڑپ برداشت سے باہر ہوگئی تو میں نے ایک بار پھر اس'سے سِسکتے ہوئے بھیک مانگی۔۔۔،" چودو! اب تو چود دو ناں! ڈال دو ناں پلیز!“
مجھے نہیں پتہ کہ اس نے میری بات پر غور کِیا یا نہیں۔۔ لیکن اسکی زبان کی جگہ پھِر سے اسکی انگلیوں نے لے لِی۔۔ دانتوں سے رہ رہ کر وہ میرے چوتڑوں کو ہلکے ہلکے کاٹ رہا تھا۔۔۔
وہ جو کوئی بھی تھا مجھے ایسا مزا دے رہا تھا جِسکے بارے میں میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔۔ میں اپنے اس نادیدہ عاشق کی دیوانی ہوتی جا رہی تھی، ار اسکا نام جاننے کے لئے بیقرار۔۔۔
اچانک میں اچھل پڑی۔ اس نے میری چوت کے سوراخ میں جھٹکے کے ساتھ اپنی آدھی انگلی گھسا دی تھی۔۔ لیکن مجھے اِس درد کے مقابلے میں مزہ زیادہ آیا تھا۔۔ کچھ دیر تک اس کی انگلی میری چوت کے اندر ہلچل مچانے کے بعد جب باہر آئی تو میری چوت سے رس ٹپک ٹپک کر میری رانوں پر پھیلنے لگا۔۔۔ لیکن میری چدائی کی بھوک ختم نہ ہوئی ۔۔۔
اچانک اس نے مجھے چھوڑ دِیا۔۔ میں بھی اسکی طرف منہ کر کے کھڑی ہوگئی ۔۔ لیکن اب بھی صرف سامنے کِسی کے کھڑے ہونے کے احساس ہونے کے علاوہ کچھ سجھائی نہیں پڑ رہا تھا۔۔۔
اپنی کمر کے پاس اسکے ہاتھوں کی ہلچل سے مجھے لگا وہ اپنی پینٹ اتار رہا ہے۔۔ لیکن میں اِتنی بیقرار ہو چکی تھی کہ اس کےِ پینٹ اتارنے کا اِنتظار نہیں کر سکتی تھی۔۔ میں نے زِندگی میں اب تک صرف تین چار ہی لنڈ دیکھے تھے۔۔ میں جلد سے جلد اسکے لنڈ کو چھو کر دیکھنا چاہتی تھی اور جاننا چاہتی تھی کہِ اسکے لنڈ کا کیا سائز ہے اور میری چھوٹی سی کنواری چوت کے لِئے فٹ ہے یا نہیں۔۔۔ میں اپنا ہاتھ اندازے سے اس کی رانوں کے درمیان لے گئی۔۔
اندازا میرا صحیح تھا۔۔ میرا ہاتھ ٹھیک اسکی رانوں کے درمیان تھا۔۔ لیکن یہ کیا؟ اسکا تو لنڈ ہی مجھے نہ مِلا ۔۔۔
میری آنکھیں حیرت سے پھیل سی گئیں۔ اچانک میرے ذہن میں ایک دوسرا سوال کوندا۔،” کہیں۔۔؟"
اور میں نے سیدھا اس کے سینے پر ہاتھ مارا۔۔ اوہ۔۔ وہاں تو بڑے بڑے ممے تھے ۔۔ اس کے مموں کا احساس ہوتے ہی میرا سارا جوش ایک دم ٹھنڈا پڑ گیا،" چھیِ۔۔ تم تو لڑکی ہو!“
وہ شاید جھڑ چکی تھی اور جھڑنے کے بعد اپنی شلوار کو باندھ رہی تھی۔۔ اور کام پورا ہوتے ہی وہ میرے سوال کا جواب دِئے بغیر ہی وہاں سے غائب ہو گئی۔۔۔
میرا دل میں اپنی قسمت سے ایک شکائت سی پیدا ہوگئی۔۔ مجھے اس وقت تک پتہ نہ تھا کہِ لڑکیاں آپس میں بھی یہ کھیل کھیلتی ہیں۔۔۔ میرا سارا مزا کِرکِرا ہو گیا تھا اور اپنی چوت کے افتتاح ہونے کی امید پر بھی اوس پڑ گئی تھی۔۔ اور میری لِسلسی رانیں گھر کی طرف جاتے ہوئے بھاری بھاری سی لگ رہی تھیں۔۔۔
گھر آکر لیٹتے ہوئے میں یہ سوچ سوچ کر پریشان تھی کہ میں اس کو پہلے کیوں نہیں پہچان پائی۔۔ آخِر جب اس نے مجھے پکڑ کر اپنی گود میں اٹھایا اور مجھے چوپال میں لے گئی۔۔ تب تو اسکی ممے میری کمر سے چِپکے ہی ہوںگے۔۔ لیکن شاید ڈر کی وجہ سے اس وقت دِماغ نے کام کرنا بند کر دِیا ہوگا۔۔۔
ّّّّّّّّّّّ——————————————
اگلے دِن میں نے صبح باتھ روم میں اپنی چوت کی ادھوری پیاس اپنی انگلی سے بجھانے کی کوشِش کی۔۔ لیکن میں یہ محسوس کرکے حیران تھی کہ اب میرے ہاتھوں سے مجھے اتنا مزا نہیں آ رہا تھا جِتنا پہلے کبھی آ جاتا تھا۔۔ میرا دِماغ خراب ہو گیا۔ اب میری چوت کو اس کے 'یار’ کی جلد سے جلد ضرورت تھی۔۔ لیکن اب سب سے بڑا سوال جِس نے مجھے پورے دِن پریشان رکھاکہ وہ آخِر تھی کون؟
شام کو ٹیوشن کے لِئے جاتے ہوئے جیسے ہی میں چوپال کے پاس سے گزری، میرے پورے بدن میں پِچھلی رات کی باتیں یاد کرکے جھرجری سی آ گئی۔ بیشک وہ لڑکی تھی، لیکن میں نے پتا چلنے سے پہلے مزے کے جس سمندر میں ڈبکِیاں سی لگائی تھیں انہیں یاد کر کرکے میرا جِسم ایکدم اکڑ ساگیا۔۔۔
اس دِن میں ٹیوشن پر ترن سے بھی زیادہ اس لڑکی کے بارے میں سوچتی رہی۔۔ روز کی طرح ہی چاچی 10 بجے چاے لیکر آ گی۔۔ انکے آتے ہی پِنکی ترن کے سامنے سے اٹھکر بھاگ گی،” بس! ممی آ گئی! اِسکا مطلب سونے کا ٹائم ہو گیا۔۔ ہے ناں ممی؟"
چاچی اسکی بات سنکر ہنسنے لگیں،"نِکمی! تو پوری کام چور ہوتی جا رہی ہے۔۔ دیکھ لینا اگر نمبر کم آئے تو۔۔!“
"ہاں ہاں۔۔ ٹھیک ہے۔۔ دیکھ لینا! اب میں تھوڑی دیر رزائی میں گرم ہو لوں۔۔ جاتے ہوئے مجھے لے چلنا ممی!” پِنکی نے شرارت بھرے لہجے سے کہا ار رزائی میں دبک گئی۔۔
“یہ دونوں پڑھائی تو ٹھیک کر رہی ہیں نا; ترن؟” چاچی نے پوچھا۔۔۔
“ہاں; ٹھیک ٹھاک ہی کرتی ہیں چاچی۔۔” ترن نے کہہ کر تِرچھیِ نظروں سے مینو کو دیکھا اور ہنسنے لگا۔۔۔
“ہمیں مینو کی فکر نہیں ہے بیٹا! یہ تو ہماری ہونہار بیٹی ہے۔۔” چاچی نے پیار سے مینو کے گال کو پکڑ کر کھینچا تو وہ بھی ترن کی طرف ہی دیکھ کر مسکرائی۔۔،" ہمیں تو چھوٹی کی فکر رہتی ہے۔۔ جب تم پڑھاتے ہو۔۔ تبھی کِتابیں کھولتی ہے وہ۔۔ ورنہ تو یہ ایک صفحہ تک نہیں دیکھتی۔۔!“
"اچھا! میں چلتی ہوں چاچی!” میں نے کہا اور کپ کو ٹرے میں رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
“ٹھیک ہے انجو بیٹی! ذرا سنبھال کر جانا!” چاچی نے کہا۔۔
مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا کِ اسلی وجہ کیا تھی۔۔ لیکن میں دروازے سے ہی واپس مڑ گئی تھی اس دِن،" وہ ۔۔ ایک بار چھوڑ آتے۔۔!“ میں نے ترن کی طرف دیکھتے ہوئے ہلکے سے کہا۔۔
"کیوں؟۔۔۔۔ کیا ہو گیا؟ روز تو اکیلی چلی جاتی تھی۔۔” ترن نے پوچھا۔۔۔
“پتا نہیں کیوں؟ آج ڈر سا لگ رہا ہے۔۔” میں نے جواب دِیا۔۔۔
“ارے یہیں سو جاو ناں بیٹی۔۔ ویسے بھی ٹھنڈ میں اب کہاں باہر نِکلے گی۔۔ میں فون کر دیتی ہوں تمہاری ممی کو۔۔” چاچی نے پیار سے کہا۔۔۔
“نہیں چاچی۔۔ کوئی بات نہیں; میں چھوڑ آتا ہوں۔۔” کہہ کر ترن فوراً کھڑا ہو گیا۔۔۔
جانے کیوں؟ لیکن میں ترن کی بات کو انسنا سا کرتے ہوئے واپس چارپائی پر آکر بیٹھ گی،" ٹھیک ہے چاچی۔۔ لیکن آپ یاد سے فون کر دیجئے گا۔۔ نہیں تو پاپا یہیں آ دھمکیںگے۔۔ آپکو تو پتہ ہی ہے۔۔"
“ارے بیٹی۔۔ اپنے گھر کوئی الگ الگ تھوڑے ہی ہیں۔۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو وہ تمہیں یہاں ٹیوشن پر بھی نہ بھیجتے۔۔ میں ابھی اوپر جاتے ہی فون کر دیتی ہوں۔۔۔ تم آرام سے سو جاو۔۔ پِنکی اور مینو بھی یہیں سو جائیںگی پھِر تو تم بیٹا ترن۔۔۔” چاچی رک کر ترن کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔
“ارے نہیں نہیں چاچی۔۔ میں تو روز چلا ہی جاتا ہوں۔۔ اس دِن تو۔۔ مجھے بخار سا لگ رہا تھا۔۔ اِس لِئے۔۔” ترن نے مری ہوئی سی آواز میں کہا۔۔۔
“میں وہ تھوڑے ہی کہہ رہی ہوں بیٹا۔۔ تم تو ہمارے بیٹے جیسے ہی ہو۔۔ میں تو بس اِس لِئے پوچھ رہی ہوں کہِ اگر تمہیں نہ جانا ہو تو ایک رزائی اور لاکر دے دیتی ہوں۔۔” چاچی نے صفائی سی دی۔۔۔
“نہیں۔۔ مجھے تو جانا ہی ہے چاچی۔۔ بس۔۔ مینو کو ایک 'سانیٹ’ کا ٹرینسلیشن کروانا ہے۔۔۔
"ٹھیک ہے بیٹا۔۔ میں تو چلتی ہوں۔۔ ” چاچی نے کہا اور پھِر مینو کی طرف رخ کِیا،" دروازہ ٹھیک سے بند کر لینا بیٹی، اپنے بھیا کے جاتے ہی۔۔!“
مینو نے ہاں میں سِر ہِلایا۔۔ لیکن میں نے غور کِیا تو مجھے لگا کہ میرے یہاں رکنے کی بات کہنے کے بعد دونوں کے چیہروں کا رنگ کچھ پھیکا پڑ گیا تھا۔۔۔
خیر۔ میں بستر پر اوپر ہوکر لیٹ گئی۔
بالی امر کی پیاس پارٹ–6
مجھے رزائی اوڑھ کر لیٹے ہوئے آدھا گھنٹا ہو چکا تھا۔۔میرے دِماغ پر ’ وہ ’ انجان لڑکی ہی چھائی ہوئی تھی۔۔ مجھے پورا دن گزرنے کے بعد بھی اس کا سِر اور زبان اپنی رانوں کے درمیان اپنی چوت پر محسوس ہو رہی تھی۔۔اس کے بارے میں سوچ سوچ کر ایسا لگتا کہ میری چوت پر بِچھو چل رہے ہوں۔۔ جیسے وہ اب بھی میری چوت کو لپڑ لپڑ کر کے اپنی زبان سے چاٹ رہی ہو۔۔ یہ سب سوچ کر ایسے میں نیند کیسے آتی۔۔
اوپر سے ترن پتہ نہیں انگریزی میں کیا کیا بکے جا رہا تھا۔۔ میں یہی سوچ رہی تھی کہ کب ترن یہاں سے جائے اور مینو کے سونے کے بعد میں اپنی انگلی سے ہی اپنی چوت کو سکون دوں۔
اچانک مجھے کِتاب بند ہونے کی آواز آئی۔۔ میں خوش ہو گئی۔۔میں دروازہ کھلنے اور بند ہونے کا اِنتظار کر ہی رہی تھی۔ ایک-2 مِنِٹ کے بعد ترن کی آواز آئی۔۔ آواز تھوڑی دھیمی تھی۔۔ لیکن اِتنی بھی نہیں کہ مجھے سنائی نہ دیتی
"تمہاری رزائی میں آ جاؤں مینو؟”
پہلے ترن کا سوال اور پھِر مینو کا جواب سن کر تو میں حیرت کے مارے سن ہو کر رہ گئی۔۔۔
“اششش۔۔۔ دھت۔۔ کیا کہہ رہے ہو۔۔ آج نہیں۔۔یہاں یہ دونوں سو رہی ہیں آج۔۔ کوئی اٹھ گئی تو۔۔۔”
میں تو اپنا کلیجہ پکڑکر رہ گئی۔۔ میں اِنکے بارے میں جو کچھ سوچتی تھی وہ سب سچ نِکل تھا۔۔۔
“کچھ نہیں ہوتا یار۔۔ میں لائٹ بند کر دیتا ہوں۔۔ کوئی اٹھ گئی تو میں تمہاری رزائی میں ہی سو جاؤنگا۔۔ تم کہہ دینا کہ میں چلا گیا۔۔ بس، ایک بار۔۔ پلیز!” ترن نے دھیرے سے بھیک سی مانگتے ہوئے کہا۔۔۔۔
“نہیں۔۔ ترن۔۔ تم تو پھنسنے والا کام کر رہے ہو۔۔ صِرف آج کی ہی تو بات ہے۔۔ جب انجو یہاں نہیں ہوگی تو پِنکی بھی اوپر سو جاتی ہے۔۔ سمجھا کرو ناں جانو!” مینو نے نِہایت ہی میٹھی اور دھیمی آواز میں اس حرامی سے کہا۔۔۔
“جانو؟” سنتے ہی میرے کان چوکنے ہو گئے۔۔ ابھی تک میں صِرف سن رہی تھی۔۔ جیسے ہی مینو نے 'ترن’ کے لِئے جان کا لفظ اِستعمال کِیا۔۔ میں اچھلتے اچھلتے رہ گی۔۔ آخِرکار میرا شک ٹھیک ہی نِکلا۔۔ میرا دِل اور زیادہ دھڑکنے لگا۔۔ مجھے امید تھی کہ اور بھی راز باہر نِکل سکتے ہیں۔۔
“پلیز۔۔ ایک بار۔۔” ترن نے پھِر سے رِکویسٹ کی۔۔،" تمہارے ساتھ لٹیکر ایک کِس لینے میں مجھے ٹائیم ہی کِتنا لگے گا۔۔۔
“نہیں یار! آج نہیں ناں! مجھے پتہ ہے تم ایک مِنِٹ کہہ کر کِتنی دیر چِپکے رہتے ہو۔۔۔ آج بِالکل نہیں۔۔” اِس بار مینو نے صاف منع کر دِیا۔۔۔
“میں سمجھ گیا۔۔ تم مجھے کیوں چمیِ دوگیِ۔؟ میں بس یہی تو دیکھنا چاہ رہا تھا۔۔ تم تو آجکل اس کمینے سونو کے چکر میں ہو نا!” ترن اچانک ابال سا کھا گیا۔۔ اسکا لہجا ایکدم بدل گیا۔۔۔
“کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔ مجھے سونو سے کیا مطلب ؟” مینو چونک پڑی۔۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہِ کِس سونو کی بات ہو رہی ہے۔۔۔
“آج تمہاری سونو سے کیا بات ہوئی تھی؟” ترن نے بدلے ہوئے لہجے میں ہی پوچھا۔۔۔
“میں کبھی بات نہیں کرتی اس کمینے لڑکے سے۔۔! تمہاری قسم جان!” مینو اداس سی ہوکر بولی۔۔ لیکن بہت دھیرے سے۔۔۔
“میں چوتِیا ہوں کیا؟ میں تم سے پیار کرتا ہوں اِسکا مطلب یہ تھوڑا ہے کہِ تم میری قسم کھا کھا کر مجھے ہی الو بناتی رہو۔۔۔ یہ۔۔ انجو بھی پہلے دِن سے ہی مجھ سے چِپکنے کی کوشِش کر رہی تھی۔۔ کبھی پوچھ کر دیکھنا، میں نے اِسکو کیا کہا تھا۔۔ میں نے تمہیں اگلے دِن ہی بتا دِیا تھا اور پھِر اِن کے گھر جانا بھی بند کر دیا تھا۔۔ میں تمہیں پاگلوں کی طرح پیار کرتا رہوں اور تم مجھے یوں دھوکا دے رہی ہو۔۔ یے میں سہہ نہیں سکتا۔۔” ترن رہ رہ کر ابال کھاتا رہا۔۔ میں اب تک بڑے شوق سے چپ چاپ لیٹی ان کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔ لیکن ترن کی اِس بات پر مجھے بڑا غصہ آیا۔۔ سالا کتا میری بات مینو کو بتا دی۔۔ لیکن میں خوش تھی۔۔ اب بناؤنگیِ اِسکو حرامی کو 'جان!’
خیر میں سانس روکے ان کی باتیں سنتی رہی۔۔ میں پوری کوشِش کر رہی تھی کہ انکی رسیلی لڑائی کا ایک بھی حصہ میرے کانوں سے نہ بچ پائے۔۔۔
“میں بھی تو تم سے اِتنا ہی پیار کرتی ہوں جان۔۔ تم سے پوچھے بِنا تو میں کالج کے کپڑے پہننے سے بھی ڈرتی ہوں۔۔ کہیں میں ایسے ویسے پہن لوں اور پھِر تم سارا دِن جلتے رہو۔۔” مینو بیکار میں اس مادر چود کو کیوں صفائی دے رہی تھی۔۔ لات مار دیتی سالے حرامی کتے کو۔۔ اپنے آپ دم ہِلاتا میرے پاس آتا۔۔
“تم نے سونو کو آج ایک لیٹر اور گلاب کا پھول دِیا تھا ناں؟” ترن دانت سے پیستے ہوئے بولا۔۔۔
“کیا؟ یہ کیا کہہ رہے ہو۔۔ آج تو وہ میرے سامنے بھی نہیں آیا۔۔ اور میں کیوں دینے لگی اس کو گلاب؟” مینو تڑپ کر بولی۔۔۔
“تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔ تم میرے ساتھ گھِناونا مزاق کر رہی ہو۔۔ رؤف نے دیکھا ہے تمہیں اسکو گلاب دیتے ہوئے۔۔۔” ترن اپنی بات پر اڑا رہا۔۔۔
مینو نے پھِر صفائی دینی شروی کِی۔۔ جوں جوں معاملہ گرم ہوتا جا رہا تھا دونوں کی آوازیں کچھ تیز ہو تی جا رہی تھیں۔۔،"مجھے پتا ہے تم مجھ سے بہت پیار کرتے ہو۔۔ اِسی لِئے کوئی میرا نام لے کر کوئی بھی جھوٹ بھی بول دے تو تم جذباتی ہو جاتے ہو۔۔۔ اِسی لِئے اِتنی چھوٹی سی باتوں پر بھی ناراض ہو جاتے ہو۔۔۔ لیکن میں بھی تو تم سے اتنا ہی پیار کرتی ہوں۔۔ میرا بھروسہ کرو جان! میں نے آج اس کو دیکھا تک نہیں۔۔۔ میری سونو سے کِتنے دنوں سے کوئی بات تک نہیں ہوئی ۔۔ لیٹر یا پھول کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ تمہارے کہنے کے بعد تو میں نے سارے لڑکوں سے بات ہی کرنی چھوڑ دی ہے"
“اچھا۔۔ تو کیا وہ ایسے ہی گاتا پھِر رہا ہے کالج میں۔۔ وہ کہہ رہا تھا کہِ تم نے آج اس کو لو لیٹر کے ساتھ ایک گلاب بھی دِیا ہے۔۔۔” ترن کی دھیمی آواز سے غصہ بھی جھلک رہا تھا۔۔۔
“بکواس کر رہا ہے وہ ۔۔ تمہاری قسم! تم اس کو وہ لیٹر دِکھانے کا کہو۔۔ پتہ نہیں تم کہاں کہاں سے میرے بارے میں الٹی سیدھی باتیں سن لیتے ہو۔۔۔” مینو نے بھی تھوڑی سی ناراضگی دِکھائی۔۔
“ میں نے کہا تھا سالے ماں کے۔۔۔ لیکن وہ کہنے لگا کہِ اس نے تم سے اس لیٹر کے مجھے نا دِکھانے کا وعدہ لِیا ہے۔۔ رؤف بھی بول رہا تھا کہِ اس نے بھی تمہیں اس کو چپکے سے گلاب کا پھول دیتے ہوئے دیکھا تھا۔۔ اب ساری دنِیا کو جھوٹا مان کر صرف تم پر ہی کیسے بھروسہ کرتا رہوں۔۔؟” ترن نے ناراضگی اور غصے کے ملے جلے لہجے میں کہا۔۔۔
“رمیش تو اس کا دوست ہے۔۔ وہ تو اس کے کہنے پر کچھ بھی بول سکتا ہے۔۔ تم پلیز یہ بار بار گالی مت دو۔۔ مجھے اچھے نہیں لگتے جب تم گالی دیتے ہو۔۔ اور پھِر اِن میں سے کوئی اٹھ گئی تو۔۔اور تم صِرف مجھ پر ہی بھروسہ نہیں کرتے۔۔ باقی سب پر اِتنی جلدی کیسے بھروسہ کر لیتے ہو۔۔۔؟” مینو اب رونے سی لگی تھی۔۔ لیکن ترن کی ٹون پر اِسکا کوئی اثر نہیں پڑا۔۔۔۔
“تم ہمیشہ رونے کا ڈرامہ کرکے مجھے جذباتی کر دیتی ہو۔۔ لیکن آج مجھ پر اِس کا کوئی اثر نہیں ہونے والا۔۔ کیونکہ آج اس نے جو بات مجھے بتائی ہے۔۔ اگر وہ سچ ہوئی تو میں تو مر ہی جاؤنگا!” ترن نے کہا۔۔۔
“اب اور کونسی بات ہے۔۔؟” مینو بلکتے ہوئے بولی۔۔۔
میں دل میں اِس طرح سے خوش ہو رہی تھی کہ جیسے مجھے کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔۔ میں سانس روکے مینو کو بلکتے ہوئے سنتی رہی۔۔۔
“اب رونے سے میں تمہارے کرتوت ختم تو نہیں ہو جائینگے۔۔ میں تیری۔۔ دیکھ لینا اگر وہ بات سچ ہوئی تو۔۔” ترن نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔
مینو روتے روتے ہی بولنے لگی،" اب میں۔۔ میں تمہیں اپنا اعتبار کیسے دِلواوں ہر بار۔۔ تم تو اِتنے شکی ہو کہِ منڈیر پر یوںہی کھڑی ہو جاوں تو بھی جل جاتے ہو۔۔ میں نے تمہیں خوش کرنے کے لِئے سب لڑکوں سے بات کرنی چھوڑ دی۔۔۔ اپنی پسند کے کپڑے پہننے چھوڑ دِئے۔۔ تم نے مجھے اپنے علاوہ کِسی کے ساتھ ہنستے بھی نہیں دیکھا ہوگا۔۔ جب سے تم نے مجھے منع کِیا ہے۔۔۔ اور تم۔۔ پتہ نہیں روزانہ کیسی کیسی باتیں اٹھاکر لے آتے ہو۔۔ تمہاری قسم اگر میں نے کِسی کو آج تک تمہارے علاوہ کوئی لیٹر دِیا ہو تو۔۔ وہ اِسی لِئے جل رہا ہوگا، کیوں کہِ اس کے اِتنے دِنوں تک پِچھے پڑے رہنے کے باوجود بھی میں نے اسکولفٹ نہیں دِی۔ اور کیونکہ اسکو پتہ ہے کہِ میں تم سے پیار کرتی ہوں۔۔ وہ تو پتہ نہیں کیا کیا بکے گا۔۔ تم میری باتوں کا اعتبار کیوں نہیں کرتے؟۔۔۔" مینو جِتنی دیر بولتی رہی۔۔ بلکتی بھی رہی!
“ وہ کہہ رہا تھا کِ۔۔ کہِ اس نے تمہارے ساتھ پیار کِیا ہے۔۔ اور وہ بھی اِتنے گندے طریقے سے کہہ رہا تھا کہِ۔۔۔” ترن بیچ میں ہی رک گیا۔۔۔
“تو؟ میں کیا کر سکتی ہوں جان۔۔ اگر وہ یا کوئی اور ایسا کہیگا تو۔۔ میں دوسروں کا منہ تو نہیں پکڑ سکتی ناں۔۔ لیکن مجھے اِس'سے کوئی غرض نہیں۔۔ میں نے صرف تم سے پیار کِیا ہے۔۔ !” مینو کچھ رک کر بولی۔۔
شاید وہ سمجھی نہیں تھی کہ ترن کا مطلب کیا ہے۔۔ لیکن میں سمجھ گئی تھی۔۔۔۔ سچ کہوں تو میرا بھی دِل نہیں مان رہا تھا کِ مینو نے کِسی کے ساتھ ایسا کِیا ہوگا۔۔ لیکن کسی لڑکی کا کیا پتہ۔۔ کر بھی لِیا ہو۔۔سوچنے کو تو میں اِن دونوں کو اِکٹھے دیکھنے سے پہلے مینو کو کِسی کے ساتھ بھی نہیں اِس طرح نہیں سوچ سکتی تھی۔۔ اور آج دیکھو۔۔
“ وہ پیار نہیں!” ترن جھلا کر بولا۔۔۔
“تو؟ اور کونسا پیار؟” مینو کو شاید اگلے ہی لمحے خود ہی سمجھ آ گیا اور وہ چونکتے ہوئے بولی۔۔،" کیا بکواس کر رہے ہو۔۔ میرے بارے میں ایسا سوچا بھی کیسے تم نے۔۔ میں آج تک تمہارے ساتھ بھی اس حد تک نہیں گئی۔۔ تمہارے اِتنی ضِد کرنے کے باوجود۔۔۔ اور تم اس گھٹِیا سونو کے کہنے پر مان گئے۔۔"
“لیکن اس نے کہا ہے کہِ وہ ثبوت دے سکتا ہے۔۔ اور پھِر۔۔ اس نے دِیا بھی ہے۔۔۔”
“کیا ثبوت دِیا ہے۔۔ بولو؟” مینو کی آواز میں اب حیرانگی اور ناراضگی بھری تھی۔۔وہ چِڑ سی گئی تھی۔۔ تنگ آ گئی تھی شائد ایسی باتوں سے۔۔۔
“اس نے کہا تھا کہِ اگر مجھے یقین نہیں ہے تو۔۔۔ نہیں۔۔ میں نے نہیں بتا سکتا۔۔” یہ کہہ کر ترن چپ ہو گیا۔۔
“یہ کیا بات ہوئی ؟ میں اب بھی کہتی ہوں کہِ اس گھٹِیا لڑکے کی باتوں میں آکر اپنا دِماغ خراب مت کرو۔۔ لیکن اگر تمہیں میری باتوں پر اعتبار نہیں ہے تو بتاؤ اس نے کیا ثبوت دِیا ہے! تم یوں بات کئے بغیر ہی اگر ہر کِسی کی بات کا اعتبار کرتے رہے تو۔۔۔ بتأو نا۔۔ کیا ثبوت دِیا ہے اس نے؟” مینو اب اپنے کو پاک صاف ثابِت کرنے کے لِئے خود ہی ثبوت مانگ رہی تھی۔۔۔
مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ ثبوت بول کر بتانے کی بجائے 'دِکھا’ نہ دے۔۔ اور میں ثبوت دیکھنے سے نہ رہ جاؤں۔۔ اِسی لِئے میں نے انکی طرف کروٹ لے کر ہلکی سی رزائی اوپر اٹھا لی۔۔ لیکن دونوں اچانک چپ ہو گیے۔۔
“شش۔۔” مینو کی آواز تھی شاید۔۔ مجھے لگا کھیل بِگڑ گیا۔۔ کہیں یہ اب بات کرنا بند نہ کر دیں۔۔ مجھے رزائی کے اپر اٹھنے سے بنے چھوٹے سے سوراخ میں سے صِرف مینو کے ہاتھ ہی دِکھائی دے رہے تھے۔۔۔
شکر ہے تھوڑی دیر بعد۔۔ ترن واپس اپنی بات پر آ گیا۔۔۔
“دیکھ لو۔۔ تم مجھ سے ناراض مت ہونا۔۔ میں وہ ہی کہہ دوںگا جو اس نے کہا ہے۔۔” ترن نے کہا۔۔۔
“ہاں۔۔ ہاں۔۔ کہہ دو۔۔ لیکن جلدی بتاؤ۔۔ میرے سِر میں درد ہونے لگا ہے۔۔ یہ سب سوچ سوچ کر۔۔ اب جلدی سے اِس قصے کو ختم کرو۔۔ اور ایک پیاری سی چمی لیکر خوش ہو جاؤ۔۔ آئی لو یو جان! میں تم سے زیادہ پیار دنِیا میں کِسی سے نہیں کرتی۔۔ لیکن جب تمہارا ایسا منہ دیکھتی ہوں تو میرا دِماغ خراب ہو جاتا ہے۔۔۔” مینو نارمل سی ہو گیی تھی۔۔۔
“سونو کہہ رہا تھا کہِ ۔۔۔۔اسنے اپنے کھیت والی کوٹھری میں۔۔۔۔ تمہاری لی تھی ایک دِن۔۔!” ترن نے جھِجھکتے ہوئے اپنی بات کہہ دی۔۔۔
“کھیت کوالی کوٹھری میں؟ کیا لی تھی؟” مینو یا تو سچ میں ہی نادان تھی۔۔ یا پھِر وہ بہت شاطر تھی۔۔ اس نے سب کچھ اِس طرح سے کہا جیسے اسکی سمجھ میں بِلکل نہیں آیا ہو کہِ ایک جوان لڑکا، ایک جوان لڑکی کسی بھی سنسان جگہ پر کیا لیتا ہے بھلا۔۔۔
“میں نام لے دوں؟” مجھے پتا تھا کہِ ترن نے کِس چیز کا نام لینے کی اِجازت مانگی ہے۔۔۔
“ہاں۔۔ بتاو نا!” مینو نے سیدھے سیدھے کہا۔۔۔
“ وہ کہ رہا تھا کِ اس نے کھیت میں۔۔۔۔۔ تیری چوت ماری تھی۔۔” یہ ترن نے کیا کہ دِیا۔۔ اس نے تو گوگلی پھیںکتے پھیںکتے اچانک بآانسر ہی جما دِیا۔۔ مجھے ایسا لگا جیسے اسکا باؤنسر سیدھا میری چوت سے ٹکرایا ہو۔۔ میری چوت ترن کے منہ سے 'چوت’ کا لفظ سن کر اچانک گیلی سی ہو گئی۔۔
“دھت۔۔ یہ کیا بول رہے ہو تم۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی۔۔” مینو کی آواز سے لگا جیسے وہ شرم کے مارے پانی پانی ہو گئی ہو۔۔ اگلے ہی پل وہ لیٹ گئی اور اپنے آپکو رزائی میں ڈھک لِیا۔۔۔
“اب ایسا کیوں کر رہی ہو۔۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہِ برا مت ماننا۔۔ لیکن تمہارے شرمانے سے میرے سوال کا جواب تو نہیں مِل جاتا نا۔۔ ثبوت تو سن لو۔۔” ترن نے کہتے ہوئے اسکی رزائی کھینچ لی۔۔
مجھے مینو کا چیہرا دِکھائی دِیا۔۔ وہ شرم کے مارے لال ہو چکی تھی۔۔ اس نے اپنے چہرے کو
مجھے مینو کا چیہرا دِکھائی دِیا۔۔ وہ شرم کے مارے لال ہو چکی تھی۔۔ اس نے اپنے چہرے کو ہاتھوں سے ار کوہنِیوں سے اپنی میرے جِتنی ہی بڑی گول مٹول چوچِیوں کو چھِپا رکھا تھا۔۔۔
“مجھے نہیں سننیںِ ایسی گھٹِیا باتیں۔۔ تمہیں جو سوچنا ہے سوچو۔۔ میری رزائی واپس دو۔۔” مینو گِڑگِدتے ہوئے بولی۔۔۔
لیکن اب ترن پوری طرح کھل گیا تھا۔۔ اس نے مینو کی بانہیں پکڑیں اور اس کو زبردستی بٹھا دِیا۔۔ بیٹھنے کے بعد مجھے مینو کا چہرا دِکھنا بند ہو گیا۔۔ ہاں۔۔ کریم کلر کے لور میں چھِپیِ اسکی گداز رانیں میری آنکھوں کے سامنے تھی۔۔
“تمہیں میری بات سننیِ ہی پڑے گی۔۔ اس نے ثبوت یہ دِیا ہے کہِ تمہاری۔۔ چوت کی دائیں طرف ایک تِل ہے۔۔ مجھے بتاو کہِ یہ سچ ہے یا نہیں۔۔” ترن نے اب بے شرمی دِکھاتے ہوئے غصے سے کہا۔۔۔
“مجھے نہیں سننا کچھ۔۔ تمہیں جو لگے وہی مان لو۔۔ لیکن میرے ساتھ ایسی بکواس مت کرو۔۔” مجھے ایسا لگا جیسے مینو اپنے ہاتھوں کو چھڑانے کی کوشش کر رہی ہے۔۔ پر جب وہ ایسا نہیں کر پائی تو اندر ہی اندر بلکنے لگی۔۔۔
“چپ کر، سالی کتِیا۔۔ دوسروں کے سامنے ننگی ہوتی ہے چدواتی ہے اور مجھ سے پیار کا ڈھونگ کرتی ہے۔۔ اگر تم اِتنی ہی پاک صاف ہو تو بتاتی کیوں نہیں 'کہ وہاں’ تِل ہے کہ نہیں ۔۔ ڈرامہ تو ایسے کر رہی ہے جیسے 8-10 سال کی بچی ہو۔۔ جی بھر کر گانڈ مرا اپنی سونو اور اس کے یاروں سے۔۔ میں تو آج کے بعد تجھ پر تھوکوںگا بھی نہیں۔۔ تیرے جیسی میرے آگے پِچھے ہزاروں گھومتی ہیں۔۔ اگر دِل کِیا تو انجو کی چوت مار لوںگا۔۔ یہ تو تجھ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔۔” ترن یہ کہہ کر شاید جانے کے لئے کھڑا ہو گیا۔۔
جانے ترن کیا کیا بک’ کر چلا گیا۔۔ پر اس نے جو کچھ بھی کہا۔۔ مجھے ایک بات تو سچ میں بہت پیاری لگی ’ انجو کی چوت مار لوںگا۔۔ یہ تو تجھ سے بھی خوبصورت ہے’
اس کے جانے کے بعد مینو کافی دیر تک رزائی میں گھس کر سِسک کر روتی رہی۔۔ 5-10 مِنِٹ تک میں کچھ نہ بولی۔۔ لیکن اب میرا مزے لینے کا ٹائم آ گیا تھا۔۔۔
میں انگڑائی لیکر اپنی آنکھیں مسلتیِ ہوئی رزائی ہٹا کر بیٹھ گی۔۔ میرے اٹھنے کا احساس ہوتے ہی مینو نے اپنی سِسکِیوں پر قابو پانے کی کوشِش کی۔۔ لیکن وہ ایسا نہ کر پائی اور اور بھی تیزی سے نِکلنے لگیں۔۔۔
“کیا ہوا باجی۔؟” میں نے انجان بننے کا ناٹک کرتے ہوئے اس کے چہرے سے رزائی ہٹا دی۔۔
میرا چہرا دیکھتے ہی وہ انگارے کی طرح دھک اٹھی۔،" کچھ نہیں۔۔ کل سے تم ہمارے گھر مت آنا! بس۔۔" اسنے غصے سے کہا اور واپس رزائی میں منہ دبکا کر سِسکنے لگی۔۔۔
اسکے بعد میری اس'سے بولنے کی ہِمت ہی نہیں ہوئی ۔۔ لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔ میں نے آرام سے رزائی اوڑھی اور ترن کے سپنوں میں کھو گئی۔۔ اب مجھے وہیں کچھ چدنے کی امید دکھائی دے رہی تھی۔۔۔
میں بھی ضدی لڑکی ہوں صرف مینو کے منع کردینے سے کیوں نہ جاتی ان کے گھر ۔۔ پڑہنے کو؟ اگلے دِن بھی میں گئی۔۔ ۔۔ بلکہ پچہلے دِنوں سے زیادہ سج دھج کر۔۔ مینو نے مجھ سے بات تک کرنا پسند نہ کی۔۔ اسکا موڈ بہت زیادہ اکھڑا ہوا تھا۔۔ ہاں۔۔ ترن اس دِن مجھے کچھ زیادہ ہی پیار سے پڑھا رہا تھا۔۔ ہو سکتا ہے مینوکو جلانے کے لِئے۔۔ یا مجھے پٹانے کے لِئے۔۔۔ اس کو پڑہاتے ہوئے ایک ہی گھنٹہ ہوا تھا کہ چاچی کے جاتے ہی اچانک ترن کھڑا ہو گیا اور بولا: “چلو انجو ! تمہیں گھر چھوڑ دوں۔۔ مجھے بھی گھر جانا ہے۔۔!” ۔۔۔
“ باجی کو نہیں پڑہاؤ گے آج؟!” میں نے چٹخارا لیتے ہوئے کہا۔۔۔
“ نہیں !” ترن نے اِتنا ہی کہا۔۔۔
“لیکن۔۔ لیکن مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔ تم سے!” مینو کی آواز میں تڑپ تھی۔۔۔
میں نے جلدی سے اٹھی اور مٹکتے ہوئے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دِیا۔۔ کہیں مینو کا سچا پیار اس کو رکنے پر مجبور نہ کر دے ۔۔ (ہی ہی ہی)،" چلیں؟!“
ترن نے مینوکو کڑوی نظروں سے دیکھا اور دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔،” چلو، انجو !“
مینو نے تقریباً گڑگڑاتے ہوئے مجھ سے کہا،” تم کہاں جا رہی ہو انجو ۔۔ تم آج یہیں سو جاو ناں!“ مجھے پتا تھا کہِ اس کے لہجے کی شکست خوردگی کی وجہ صرف اور صرف میرا اور ترن کا ایک ساتھ نِکلنا ہے۔۔
” نہیں باجی ، آج نہیں ۔۔ مجھے صبح جلدی اٹھنا ہے کچھ ضروری کام ہے۔۔ کل سوچوںگی۔۔آپکے گھر رکنے کے بارے میں" میں نے مینو کو مسکرا کر دیکھا اور ترن کے ساتھ باہر نِکل گئی۔۔۔
چوپال کے پاس اندھیری جگہ آتے ہی میں رک گئی۔۔ ترن میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی رک گیا اور میرے گالوں کو تھپتھپاتے ہوئے پیار سے بولا،" کیا ہوا انجو ؟"
میں نے ترن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لِیا،" پتا نہیں ۔۔ مجھے کیا ہو رہا ہے؟"
ترن نے آج اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوئی کوشِش نہیں کی۔۔ میرا دِل خوش ہو گیا۔۔
“ارے بولو تو سہی۔۔ یہاں کیوں کھڑی ہو گئی ہو؟” ترن نے اپنا ایک ہاتھ میرے ہاتھ میں ہی رہنے دیا اور اپنے دوسرے ہاتھ کو میری گردن پر رکھ دیا۔۔ اسکا انگوٹھا میرے ہونٹوں کے پاس میرے گال پر ٹکا ہوا تھا۔۔ مجھے جھرجری سی آنے لگی۔۔
“ نہیں ۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ اگر میں کچھ کہوںگی تو اس دِن کی طرح تم مجھے ڈانٹ دوگے!” مجھے امید تھی کہ آج ایسا نہیں ہوگا۔۔ لیکن پھِر بھی میں معصوم ہونے کا ڈہونگ کر رہی تھی۔۔ میں چاہ رہی تھی کہ ترن ہی پہل کر ے۔۔
“ نہیں کہوںگا۔۔ پاگل! اس دِن میرا دِماغ خراب تھا۔۔ بول کیا بولنا ہے۔۔” ترن نے کہا اور اپنے انگوٹھے کو میرے گالوں سے سر کاکر میرے نِچلے ہونٹ پر ٹکا دِیا۔۔
اچانک میرا دھیان چوپال کی طرف ہونے والی ہلکی سی ہلچل پر گیا۔۔ شاید کوئی تھا وہاں، یا وہی تھی۔۔۔ میں نے چونک کر سیڑھِیوں کی طرف دیکھا۔۔
“کیا ہوا ؟” ترن میرے اچانک مڑ کر دیکھنے سے حیران ہوکر پوچھا۔۔۔
“ نہیں ۔۔ کچھ نہیں ۔۔” میں نے دوبارہ اپنا چہرہ اسکی طرف کر لِیا۔۔ بولنے کے لِئے جیسے ہی میرے ہونٹ ہلے۔۔ اسکا انگوٹھا تھوڑا اور ہِل کر میرے دونوں ہونٹوں پر آ جما۔۔ لیکن اسکو ہٹانے کی نہ میں نے کوشِش کی اور نہ ہی اس نے ہٹایا۔۔ بلکہ اب وہ ہلکے ہلکے سے میرے رسیلے ہونٹوں کو مسلنے لگا۔۔ مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔۔۔
“کیا کہہ رہی تھی تم؟ بولو ناں۔۔ پھِر مجھے بھی تم سے کچھ کہنا ہے۔۔” ترن مجھے اکساتے ہوئے بولا۔۔۔
“کیا؟ پہلے تم بتاو نا!” میں نے بڑی معصومِیت سے کہا۔۔
“یہاں کوئی آ جائیگا۔۔ آؤ ناں۔۔ چوپال میں چل کر بات کرتے ہیں۔۔ وہاں ٹھیک سے آرام باتیں ہو جائیںگی۔۔” ترن نے آہستہ سے میری طرف جھک کر کہا۔۔
“ نہیں ۔۔ یہیں ٹھیک ہے۔۔ اِس وقت کون آئیگا!” دراصل میں اس لڑکی کی وجہ سے ہی چوپال میں جانے سے کترا رہی تھی۔۔۔
“ارے۔۔ آؤ نا۔۔ یہاں کیا ٹھیک ہے؟” ترن نے میرا ہاتھ کھینچ لِیا۔۔
“ںمجھے ڈر لگے گا یہاں!” میں نے اصلی وجہ چھپاتے ہوئے کہا۔۔۔
“اِس میں ڈرنے کی کیا بات ہے پاگل! میں ہوں ناں تیرے ساتھ!” ترن نے کہا اور چوپال میں مجھے اسی کمرے میں لے آیا۔۔ جہاں اس دِن وہ لڑکی مجھے اٹھا کر لائی تھی۔،" اب بولو۔۔ بے جھجک ہوکر، جو کچھ بھی بولنا ہے۔۔ تمہاری قسم میں کچھ بھی نہیں کہوںگا۔۔ اس دِن کے لِئے سوری!“
میں بھی اب تھوڑا نخرے دکھانے پر اتر آئی۔۔ میں نے سوچا کہ اگر کنواں خود پیاسے کے پاس ہی چل کر آنا چاہتا ہے تو آگے کیوں بڑھا جائے،” پہلے آپ بولو نا!“
” نہیں ۔۔ پہلے تم بتاو۔۔ اور جلدی کرو۔۔ مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے۔۔" ترن نے میرے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں دبوچتے ہوئے کہا۔۔
“ٹھنڈ تو مجھے بھی لگ رہی ہے۔۔” میں نے اب پوری طرح سے بھولپن کا چولا اوڑھ لیا تھا۔۔۔
“اِسی لِئے تو کہہ رہا ہوں۔۔ جلدی بتاو کیا بات ہے۔؟” ترن نے مجھے کہا اور مجھے اپنی طرف ہلکا سا کھینچتے ہوئے بولا،" اگر زیادہ ٹھنڈ لگ رہی ہے تو آؤ میرے سینے سے لگ جاو۔۔ ٹھنڈ ختم ہو جائیگی۔۔ ہے ہے ہے" اسکی ہِمت نہیں ہو رہی تھی شائد مجھے اپنے ساتھ چِپکانے کی۔۔۔
“سچ!” میں نے پوچھا۔۔ اندھیرے میں کچھ سجھائی تو دے نہیں رہا تھا۔۔ بس آواز سے ہی ایک دوسرے کی منشا پتا چل رہی تھی۔۔۔
“اور نہیں تو کیا؟ دیکھو!” ترن نے کہا اور مجھے کھینچ کر اپنے سینے سے چِپکا لِیا۔۔ اپنے ممے دبنے سے مجھے مزا آنے لگا۔۔ سچ کہوں تو اگر میں اچانک ہی اپنی بات کہہ دیتی اور وہ تیار ہو بھی جاتا تو اِتنا مزا نہیں آتا جِتنا اب آہستہ آہستہ آگے بڑھنے میں آ رہا تھا۔۔۔
میں نے اپنے گال اسکی چھاتی سے چپکا دےِئے۔۔ اور اس کی کمر کے گرد اپنی بانہیں ڈال لِیں۔۔ وہ پیار سے میرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔۔۔ میرے ممے ٹھنڈ اور اس کے سینے کی گرمی کے مارے پاگل سی ہوئی جا رہے تھے۔۔۔
“ٹھنڈ کچھ کم ہوئی، ہے ناں انجو ؟” میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ اچانک اپنے ہاتھ کو میری کمر پر لے گیا اور مجھے اور سختی سے بھینچ لِیا۔۔۔
میں نے 'ہاں’ میں اپنا سِر ہِلایا اور اس کے ساتھ چِپکنے میں اپنی رضامندی ظاہر کرنے کے لِئے تھوڑی سی اور اس کے اندر سِمٹ گئی۔۔ اب مجھے اپنے پیٹ پر کچھ چبھتا ہوا سا محسوس ہونے لگا۔۔ میں نے جان گئی۔۔ یہ اس کا لنڈ تھا!
“تم کچھ بتا رہی تھی ناں انجو ؟ ترن میری نازک کمر اوپر سے نیچے تک سہلاتے ہوئے بولا۔۔۔
"نہیں ناں۔۔ پہلے تم بتاو!” میں اپنی ضد پر اڑی رہی۔۔ ورنہ مجھے وِشواس تو تھا ہی۔۔ جِس انداز سے اسکا لنڈ ہچکولے لیتا اپنی اٹھان پر آ رہا تھا اس سے پتہ چلتا تھا تھوڑی ہی دیر میں وہ 'اپنے’ آپ ہی چالو ہو جایگا۔۔۔
“تم بہت ضِدی ہو۔۔” وہ اپنے ہاتھ کو باِلکل میرے چوتڑوں کی دراڑ کے نزدیک لے گیا اور پھِر واپس کھینچ لِیا۔۔،" میں کہہ رہا تھا کہِ۔۔؟"
“ہوںمم” میں نے جواب دِیا۔۔ اسکے لنڈ کی چبھن میرے پیٹ کے پاس لگاتار بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔ میں بیقرار تھی۔۔ لیکن پھِر بھی۔۔ میں انتظار کر رہی تھی۔۔
“میں کہہ رہا تھا کہِ۔۔ پورے شہر وار پورے گاؤں میں تم جیسی پیاری لڑکی میں نے نہیں دیکھی۔۔” ترن بولا۔۔
میں نے جھٹ سے شرارت بھرے لہجے میں کہا،" مینو باجی بھی تو بہت اچھی ہیں نا؟"
ایک پل کو مجھے لگا۔۔ میں نے اس کا ذِکرکر کے غلط کِیا۔۔ مینو کا نام لیتے ہی اسکے لنڈ کی چبھن ایسے غائب ہوئی جیسے کِسی غبارے کی ہوا نِکل گئی ہو۔۔
“ چھوڑ و نا! کِس کا نام لے رہی ہو۔۔! ہوگی اچھی۔۔لیکن تمہارے جِتنی نہیں بالکل بھی ۔۔ اب تم بتاو۔۔ تم کیا کہہ رہی تھی۔۔؟” ترن نے کچھ دیر رک کر جواب دِیا۔۔۔
میں کچھ دیر سوچتی رہی کِ کیسے بات شروع کروں۔۔ پھِر اچانک ہی میں نے کہا،" کچھ دنوں سے جانے کیوں مجھے عجیب سا لگتا ہے۔۔ آپکو دیکھتے ہی اس دِن پتا نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے؟"
“کیا ہو گیا تھا؟” ترن نے پیار سے میرے گالوں کو سہلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
“پتا نہیں ۔۔ وہی تو جاننا چاہتی ہوں۔۔” میں نے جواب دِیا۔۔
“ اچھا ۔۔ میں کیسا لگتا ہوں تمہیں ۔۔ بتاو!” ترن نے میرے ماتھے کو چوم کر پوچھا۔۔ میرے بدن میں گدگدی سی ہوئی ۔۔ مجھے بہت اچھا لگا۔۔۔
“بہت اچھا!” میں نے سِسک کر کہا اور اس کے ار اندر گھس گی۔۔ سِمٹ کر!
“اچھا ؟ کیا دِل کرتا ہے مجھے دیکھ کر؟” ترن نے پیار سے پوچھا اور پھِر میری کمر پر آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ نیچے لے جانے لگا۔۔
“دِل کرتا ہے کہِ یوںہی کھڑی رہوں۔۔ آپ سے چِپک کر۔۔” میں نے شرمانے کاڈرامہ کرتے ہوئے کہاا۔۔
“بس! یہی دِل کرتا ہے یا ۔۔ ” اس نے کہا اور ہنسنے لگا۔۔
“پتا نہیں ۔۔ لیکن تم سے دور جاتے ہوئے دکھ ہوتا ہے۔۔” میں نے جواب دِیا۔۔۔
“اوہو۔۔ اِسکا مطلب تمہیں مجھ سے پیار ہو گیا ہے۔۔” ترن نے مجھے تھوڑا سا ڈھیلا چھوڑ کر کہا۔۔۔
“ وہ کیسے۔۔؟” میں نے بھولیپن سے کہا۔۔۔
“یہی تو ہوتا ہے پیار۔۔ ہمیں پتا نہیں چلتا کہِ کب پیار ہو گیا ہے۔۔ کوئی اور بھی لگتا ہے کیا۔۔ میری طرح اچھا ۔۔!” ترن نے پوچھا۔۔۔
سوال پوچھتے ہوئے پتا نہیں کلاس کے کِتنے لڑکوں کی تسویر میرے جہاں میں کوند گئی۔۔ لیکن میں نے صرف اِتنا ہی کہا،" نہیں !“
"ہوںمم۔۔ ایک اور کام کرکے دیکھیں۔۔ پھِر پکی طرح پتہ چل جائے گا کہِ تمہیں مجھ سے پیار ہے کہ نہیں ۔۔” ترن نے میری تھوڑی کے نیچے ہاتھ لے جاکر اس کو اوپر اٹھا لِیا۔۔۔
سالا پکا لڑکی باز لگتا تھا۔۔ اِس طرح سے دِکھ رہا تھا جیسے صرف میری پرابلم حل کرنے کی کوشِش کر رہا ہو۔۔ پر میں ڈہونگ کرتی رہی شرافت اور نزاکت کا،" ہوںمم!“
"اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر رکھ دو۔۔!” اس نے کہا۔۔
“کیا؟” میں نے چونک کر ہڑبڑانے کا ناٹک کِیا۔۔
“ہائے۔۔ تم تو برا مان رہی ہو۔۔ اسکیبغیر کیسے پتہ چلیگا۔۔!” ترن نے کہا۔۔
“ اچھا لاو!” میں نے کہا اور اپنا چہرہ اوپر اٹھا دیا۔۔۔
ترن نے جھک کر میرے نرم ہونٹوں پر اپنے گرم گرم ہونٹ رکھ دِئے۔۔ میراجسم اچانک اکڑنا شروع ہو گیا۔۔ اس کے ہونٹ بہت پیارے لگ رہے تھے مجھے۔۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنے ہونٹوں کا دباو بڑھایا تو میرے ہونٹ اپنے آپ کھل گیے۔۔ اس نے میرے اوپر والے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں کے بیچ دبا لِیا اور چوسنے لگا۔۔ میں بھی ویسا ہی کرنے لگی، اسکے نیچے والے ہونٹ کے ساتھ۔۔۔
میری بند آنکھوں کے سامنے تارے سے ٹوٹتے نظر آ رہے تھے۔۔ کچھ ہی دیر میں ہوس اور شہوت کے مارے میں پاگل سی ہو گئی اور میری سانسیں بھی تیز اور بے ترتیب ہوگئیں۔۔ اسکا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔۔ اسکا لنڈ ایک بار پھِر اکڑ کر میرے پیٹ میں گھسنے کی کوشِش کرنے لگا تھا۔۔ تھوڑی دیر بعد ہی مجھے اپنی چڈی گیلی ہونے کا ا حساس ہوا ۔۔۔ میری ممے مچلنے لگے تھے۔۔ انکا مچلنا بند کرنے کے لِئے میں نے اپنے مموں کو ترن کے سینے میں گڑا دیا۔۔
مجھ سے اب برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔ میں نے بے اختیار ہو کر اسکا لنڈ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لِیا ار اپنے ہونٹ چھڑاکر بولی،" یہ کیا ہے؟"
اس نے لنڈ کے اوپر رکھا میرا ہاتھ وہیں پکڑ لِیا،"یہ! تمہیں سچ میں نہیں پتا کیا؟"
مجھے پتا تو سب کچھ تھا ہی۔۔ اسکے پوچھنے کے انداز سے مجھے لگا کہِ میرا ڈرامہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا۔۔ میں نے شرما کر اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشِش کی۔۔ وار چھڑا بھی لِیا،" ش۔۔ مجھے لگا یہ اور کچھ ہوگا۔۔لیکن یہ تو بہت بڑا ہے۔۔ اور یہ۔اِس طرح اکڑ کر کھڑا کیوں ہے؟" میں نے مچلتے ہوئے کہا۔۔
“کیونکہ تم جو میرے پاس ہو۔۔ اِس لِئے کھڑا ہے۔۔” وہ ہنسنے لگا۔،" سچ بتؤانا! تم نے کِسی کا دیکھا نہیں ہے کیا؟ تمہیں میری قسم !“
میری آنکھوں کے سامنے سندر کا لنڈددڑ گیا۔۔ وہ اس کے لنڈ سے تو کافی بڑا تھا۔۔ لیکن میں نے ترن کی قسم کی پرواہ نہیں کی،” ہاں۔۔ دیکھا ہے۔۔ لیکن اِتنا بڑا نہیں دیکھا۔۔ چھوٹے بچوں کا دیکھا ہے۔۔" میں نے کہا اور شرما کر اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس سے چِپک گی۔۔۔
“دِکھاؤں؟” اس نے گرم گرم سانسیں میرے چہرے پر چھوڑ تے ہوئے دھیرے سے کہا۔۔
“لیکن۔۔ یہاں کیسے دیکھوں۔؟ یہاں تو باِلکل اندھیرہ ہے۔۔” میں نے بھولے پن سے کہا۔۔
“ابھی ہاتھ میں پکڑ کردیکھ لو۔۔ میں باہر نِکال دیتا ہوں۔۔ پھِر کبھی آنکھوں سے بھی دیکھ لینا!” ترن نے میرا ہاتھ اپنی کمر سے کھینچ کر واپس اپنے لنڈ پر رکھ دِیا۔۔۔
میں لنڈ کو ہاتھ میں پکڑے کھڑی رہی،" نہیں ۔۔ مجھے شرم آ رہی ہے۔۔ یہ کوئی پکڑنے کی چیز تھوڑی ہے۔۔۔!“
"ارے، تم تو بہت بھولی نِکلیں۔۔ میں تو نہ جانے کیا کیا سوچ رہا تھا۔۔ یہی تو اصلی چیز ہوتی ہے لڑکی کے لِئے۔۔ اِسکے بغیرتو لڑکی کا گزارا ہی نہیں ہو سکتا!” ترن میری باتوں میں آکر مجھے نِرِ نادان سمجھنے لگا تھا۔۔۔
“ وہ کیوں؟” لڑکی کا بھلا اِسکے بِنا گزرا کیوں نہیں ہو سکتا۔۔ لڑکِیوں کے پاس یہ کہاں سے آائیگا۔۔ یے تو صِرف لڑکوں کے پاس ہی ہوتا ہے نا!“ میں نے ناٹک جاری رکھا۔۔ اِس ناٹک میں مجھے بہت مزا آ رہا تھا۔۔ہائے میں اِتنی پرہوس اور شہوت کی ماری ہوئی اتنی گرم چیزکیوں ہوں۔۔ ۔
"ہاں۔۔ لڑکوں کے پاس ہی ہوتا ہے یہ بس! اور لڑکے ہی لڑکِیوں کو دیتے ہیں یہ۔۔ تبھی تو پیار ہوتا ہے۔۔” ترن نے جھک کر دوبارہ میرے ہونٹوں کو چوس لِیا اور پھر سے کھڑا ہو گیا۔۔ مجھ جیسی کمسن اور بھولی بھالی لڑکی کو اپنے جال میں پھنسا ہوا دیکھ کر اسکا لنڈ رہ رہ کر جھٹکے سے کھا رہا تھا۔۔ میرے ہاتھ میں۔۔۔،" اور بدلے میں لڑکِیاں لڑکوں کو کیا دیتی ہیں۔۔۔" اس نے بات پوری کی۔۔۔
“اچھا! کیا؟ ۔۔۔ لڑکِیاں کیا دیتی ہیں بدلے میں۔۔” میری چوت سے اب ٹپ ٹپ پانی ٹپکنے لگا تھا۔
“بتا دوں؟” ترن نے مجھے اپنے سے چِپکائے ہوئے ہی اپنا ہاتھ نیچے کرکے میرے مست سڈول چوتڑوں پر پھیرنے لگا۔۔۔
مجھے اپنی چوت میں اور زیادہ کسمساہٹ محسوس ہونے لگی۔۔ شہوت کی شدت میں میں نے اس کا لنڈ اور کس کر اپنی مٹھی میں بھینچ لِیا۔۔۔،" ہاں۔۔ بتا ؤ ناں!“ میں نے ہلکے سے کہا۔۔۔
"اپنی چوت!” وہ میرے کان میں پھسپھسایا۔۔ لیکن اس کے الفاظ اب سیدہے جاکر میری چوت میں لگ رہے تھے۔،"آہہہ۔۔" میں مچل اٹھی۔۔۔
“نئیئیئی۔۔” میں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔۔۔
“ہاں۔۔ سچی انجو۔۔! لڑکِیاں اپنی چوت دیتی ہیں لڑکوں کو اور لڑکے اپنا۔۔” اچانک وہ رک گیا ار مجھ سے پوچھنے لگا،" اِسکو پتا ہے کیا کہتے ہیں؟"
“ میں نے شرمکار کہا،” ہاں۔۔ للی" اور ہنسنے لگی۔۔
“پگلی۔۔ للی اِس کو تھوڑے ہی کہتے ہیں۔۔ للی تو چھوٹے بچوں کی ہوتی ہے۔۔ بڑا ہونے کے بعد اِسکو 'لنڈ’ کہتے ہیں۔۔ اور لوڑا بھی۔۔!” اس نے میری معلومات میں اضافہ کرنا چاہا۔۔ لیکن اس للو سے زیادہ تو اِسکے نام مجھے آتے تھے۔۔
“لیکن۔۔ یہ لینے دینے والی کیا بات ہے۔۔ میری سمجھ میں نہیں آئی۔۔!” میں نے انجان بنتے ہوئے اس کو کام کی بات کی طرف لانے کی کوشِش کی۔۔۔
“تم تو بہت نادان ہو انجو۔۔ مجھے کِتنے دنوں سے تم جیسی پیاری سی، بھولی سی لڑکی کی تلاش تھا۔۔ میں سچ میں تم سے بہت پیار کرنے لگا ہوں۔۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہِ تم اِتنی نادان ہو۔۔ کہیں کِسی کو بتا نہ دو یہ باتیں۔۔ پہلے قسم کھاؤ کہ کِسی سے ان باتوں کا ذکر نہیں کروگی۔۔” ترن نے کہا۔۔
“ نہیں کروںگی ناںکِسی کوبھی نہیں بتاؤں گی۔۔ تمہاری قسم!” میں نے جھٹ سے قسم کھا لی۔۔
“آئی لو یو جان!” اس نے کہا،" اب سنو۔۔ دیکھو۔۔ جِس طرح تمہارے پاس آتے ہی میرے لوڑے کو پتا لگ گیا اور یہ کھڑا ہو گیا; اسی طرح۔۔ میرے پاس آنے سے تمہاری چوت بھی پھول گئی ہوگی۔۔ اور گیلی ہو گئی ہوگی۔۔ ہے ناں۔۔ سچ بتانا۔۔"
وہ باتیں اِتنے پرہوس انداز سے کر رہا تھا کہِ میرا بھی اپنی چوت کا 'دیسی’ نام لینے کا دِل کر گیا۔۔ لیکن اس کے باوجود میں نے بولتے ہوئے اپنا بھولاپن نہیں بھولا،" پھولنے کا تو پتا نہیں ۔۔ لیکن بہت گیلی ہو گئی ہے میری چو۔۔۔"
“ارے۔۔ شرما کیوں رہی ہو میری جان۔۔ شرمانے سے تھوڑے ہی کام چلے گا۔۔ اِس کا نام لو۔۔” اب اس نے میری چھاتیوں کو دباتے ہوئے کہا۔۔ میری سِسکی نِکل گی۔۔
“آنہہ۔۔ چوت۔۔” میں نے نام لے دِیا۔۔ تھوڑا شرماتے ہوئے ۔۔۔
“ویری۔ گڈ۔۔ اب اِسکا نام لو۔۔ شاباش!” ترن میرے مموں کو میری قمیض کے اوپر سے مسلنے لگا۔۔ میں مدہوش ہوتی جا رہی تھی۔۔
میں نے اسکا لنڈ پکڑ کر نیچے دبا دِیا،" لوڑا ۔۔آہہہ!“
"یہی تڑپ تو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے جان۔۔ ہاں۔۔ اب سنو۔۔ میرا لوڑا ار تمہاری چوت۔۔ ایک دوسرے کے لِئے ہی بنے ہیں۔۔ اِسیلِئے ایک دوسرے کو پاس پاس پاکر مچل گئے۔۔ دراسل۔۔ میرا لوڑا تمہاری چوت میں گھسے گا تو ہی اِن کا مِلن ہوگا۔۔ یے دونوں ایک دوسرے کے پیاسے ہیں۔۔ اِسی کو 'پیار’ کہتے ہیں میری جان۔۔۔ اب بولو۔۔ مجھ سے پیار کرنا ہے۔۔؟” اس نے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ پےِچھے لے جاکر شلوار کے اوپر سے ہی میرے مست چوتڑوں کی دراڑ میں گھسا دِیا۔۔ میں پاگل سی ہوکر اسمیں گھسنے کی کوشِش کرنے لگی۔۔۔
“بولو ناں۔۔ اگر مجھ سے پیار کرتی ہو تو بولو۔۔ پیار کرنا ہے کہ نہیں ۔۔” ترن بھی بیقرار ہوتا جا رہا تھا۔۔۔
“لیکن۔۔ تمہارا اِتنا لمبا اورموٹا لوڑا میری چھوٹی سی چوت میں کیسے گھسے گا۔۔ یہ تو گھس ہی نہیں سکتا۔۔” میں نے مچلتے ہوئے شرارت سے اسکو تھوڑا اور تڑپایا۔۔
“ارے۔۔ پاگل ہو۔۔ سب کا لنڈتو گھستا ہے چوت میں۔۔ تم کیا ایسے ہی پیدا ہو گئی۔۔ تمہارے پاپا نے بھی تواپنا لنڈ تمہاری ممی کی چوت میں گھسایا ہوگا۔۔ پہلے انکی بھی چوت چھوٹی ہی ہوگی۔۔۔” ترن نے مجھے سمجھانے کی کوشِش کی۔۔۔
سچ کہوں تو ترن کیِ صِرف یہی بات تھی جو میری سمجھ میں نہیں ں آئی تھی۔۔،" کیا مطلب؟"
“ مطلب یہ میری جان۔۔ کہِ شادی کے بعد جب شوہر اپنی بیوی کی چوت میں لوڑا گھساتا ہے تبھی بچہ پیدا ہوتا ہے۔۔ لنڈ چوت میں گھسائے بغیر نہیں ہوسکتا۔۔ اور اِس کام میں مزا بھی اِتنا آتا ہے کہِ کیا بتاؤں۔۔۔” ترن اب اپنی انگلیوں کو شلوار کے اوپر سے ہی میری چوت کے اوپر لے آیا تھا اور آہستہ آہستہ سہلاکر مجھے تڑپتے ہوئے تیار کر رہا تھا۔۔۔۔
تیار تو میں کب سے تھی۔۔لیکن اسکی بات سن کر میں ڈر گی۔۔ مجھے لگا اگر میں نے اپنی چوت میں اسکا لنڈ گھسوا لِیا تو لینے کے دینے پڑ جائیںگے۔۔ مجھے بچہ ہو جائیگا۔۔،" نہیں ، مجھے نہیں گھسوانا!“ میں اچانک اس'سے الگ ہٹ گی۔۔۔
” اب اچانک کیا ہوا ؟؟" ترن نے تڑپ کر کہا۔۔۔۔
“ نہیں ۔۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔ چلو اب یہاں سے!” میں ہڑبڑاتے ہوئے بولی۔۔۔
“اف۔۔ یہ لڑکِیاں!” ترن بڑبڑایا ار بولا،" کل کروگی نا؟"
“ہاں۔۔ اب جلدی چلو۔۔ مجھے گھر پر چھوڑ دو۔۔” میں ڈری ہوئی تھی کہیں وہ زبردستی نا گھسا دے اور میں ماں نہ بن جاؤں!
“دو۔۔ مِنِٹ تو رک سکتی ہو نا۔۔ میرے لوڑے کو تو سکون دے دو۔۔” ترن نے رِکویسٹ سی کری۔۔۔
میں کچھ نہ بولی۔۔ چپ چاپ کھڑی رہی۔۔
ترن میرے پاس آکر کھڑا ہو گیا اور میرے ہاتھوں میں اپنے ٹٹے پکڑا دِئے،" اِنہیں آہستہ اہستہ سہلاتی رہو۔۔" یہ کہہ کر وہ تیزی سے اپنے ہاتھ کو لنڈ پر آگے پِچھے کر کے اپنی مٹھ مارنے لگا۔۔۔
ایسا کرتے ہوئے اس نے میری قمیض میں ہاتھ ڈالا اور شمیز کے اوپر سے ہی میرے مموں کو دبانے لگا۔۔ میں اپنے ممے دابے جانے سہلائے جانے کی وجہ سے سسک رہی تھی، تڑپ رہی تھی۔۔میرا دل واقعی میں چاہ رہا تھا کہ میں اس کے لنڈ کو اپنی چوت میں گھسوالوں۔۔ لیکن مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا۔۔ کہیں بچہ ہو گیا تو۔۔۔
اچانک اس نے میرے مموں کو چھوڑا اور مجھے میرے بالوں سے پکڑا اور مجھے اپنی طرف کھینچ کر میرے ہونٹوں میں اپنی زبان گھسا دی۔۔ اور اگلے ہی لمحے اس کا لنڈ جھٹکے کھانے لگا اور پھر وہ اچانک مجھ سے دور ہٹ گیا۔۔
“چلو اب جلدی۔۔ لیکن کل کا اپنا وعدہ یاد رکھنا۔۔ کل ہم ٹیوشن سے جلدی نِکل لیںگے۔۔۔” ترن نے کہا اور ہم دائیں بائیں دیکھ کر راستے پر چل پڑے۔۔۔
“کل بھی باجی کو نہیں پڑھاؤگے کیا؟” میں نے گھر نزدیک آنے پر پوچھا۔۔۔
“ نہیں۔۔!” اس نے سپاٹ سا جواب دِیا۔۔۔
“کیوں؟ میں نے اپنے ساتھ رکھی ایک چابی کو دروازے کے اندر ہاتھ ڈال کر تالا کھولتے ہوئے پوچھا۔۔۔
"تم سے پیار جو کرنا ہے۔۔” وہ مسکرایا ار واپس چلا گیا۔۔۔
میں تو تڑپ رہی تھی۔۔ اندر جاتے ہی نیچے کمرے میں گھسی ار اپنی شلوار نیچے کرکے اپنی چوت کو رگڑنے لگی۔۔۔

*******

اگلے پورے دِن میں عجیب کشمکش میں رہی; جب میں اپنی پیاسی چوت کی آگ بجھانے کے لِئے ہر جگہ ہاتھ پیر مار رہی تھی تو کوئی نصیب ہی نہیں ہوا ۔۔ اور جب اچھا خاصا 'للو’ میرے ہاتھوں میں آیا تو میں اسکو اپنی چوت میں گھسوانے سے ڈرنے لگی۔۔ اب کِسی سے پوچھتیِ بھی تو کیا پوچھتیِ؟ باجی اپنے سسرال میں تھی۔۔ کِسی اور سے پوچھنے کی ہِمت ہو نہیں رہی تھی۔۔
پورا دِن میرا دِماغ خراب رہا ۔۔ اور ٹیوشن کے ٹائم بجھے دل سے ہی پنکی کے گھر چلی گی۔۔
اس دِن مینو بہت اداس تھی، ۔۔وجہ مجھے اچھیِ طرح پتہ تھی۔۔ ترن کی ناراضگی نے اس کو پریشان کر رکھا تھا۔۔ 2 دِن سے اس نے مینو کے ساتھ بات تک نہیں کی تھی۔۔
“وہ۔۔ ترن تمہیں کہاں تک چھوڑ کر آیا تھا کل؟” مینو نے مجھسے پوچھا۔۔ پنکی ساتھ ہی بیٹھی تھی۔۔ ترن ابھی آیا نہیں تھا۔۔
“ گھر تک۔۔ اور کہاں چھوڑ کر آتا؟” میںنے اسکی طرف دیکھ کر کہا اور اس کا بجھا ہوا چہرہ دیکھ کر ہی میرے ہونٹوں پر مسکان تیر گئی۔۔
“اِتنا خوش کیوں ہو رہی ہے؟ اِس میں ہنسنے والی بات کیا ہے؟” مینو نے چِڈ کر کہا۔۔۔
“ارے باجی ۔۔ میں آپکی بات پر تھوڑے ہی ہنسی ہوں۔۔ میں تو بس یوںہی۔۔” میں کہا وار پھِر مسکرا دی۔۔
“ پنکی ۔۔ پانی لانا اوپر سے۔۔۔” مینو نے کہا۔۔
“جی، باجی ۔۔ ابھی لائی۔۔ ” کہکر پنکی اوپر چل دی۔۔
“تھوڑا گرم کرکے لانا۔۔ میرا گلا خراب ہے۔۔” مینو نے کہا اور پنکی کے اوپر جاتے ہی مجھے گھور کر بولنے لگی،" زیادہ دانت نِکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ مجھے تمہارے بارے میں سب پتہ ہے۔۔"
“ اچھا !” میںنے کھڑی ہوکر انگڑائی سی لی اور اپنے بھری بھری جوانی کا جلوا اسکو دِکھا کر پھِر مسکرانے لگی۔۔ میں کچھ کہہ کر اسکو 'ٹھنڈی’ کرنے ہی والی تھی کہِ اچانک ترن آ گیا۔۔ میںدل کی بات دل میں ہی رکھے مسکراکر ترن کی طرف دیکھنے لگی۔۔
مینو نے اپنا سِر جھکا لِیا ار منہ پر کپڑا لپیٹ کر کِتاب دیکھنے لگی۔۔ ترن میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور آنکھ مار دی۔۔ میں ہنس پڑی۔۔
ترن چارپائی پر جا بیٹھتا۔ اس نے رزائی اپنے پیروں پر ڈالی اور مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسی چارپائی پر بیٹھنے کا اِشارا کر دِیا۔۔
وہاں ہر روز پنکی بیٹھتی تھی اور میں اس کے سامنے دوسری چارپائی پر۔۔ شاید ترن مینو کو جلانے کے لِئے ایسا کر رہا تھا۔۔ میں بھی کہاںپیچھے رہنے والی تھی۔۔ میں نے ایک نظر مینو کی طرف دیکھا اور 'دھمم’ سے ترن کے ساتھ چارپائی پر جا بیٹھی اور اس کی رزائی کو ہی دوسری طرف سے اپنی ٹانگوں پر کھینچ لِیا۔۔۔
میںنے مینو کی طرف تِرچھیِ نظروں سے دیکھا۔۔ وہ ہم دونوں کو ہی گھور رہی تھی۔۔ لیکن ترن نے اسکی طرف دھیان نہیں دِیا۔۔۔
تبھی پنکی نیچے آ گئی،" نمستے بھیا!“ کہکر اس نے مینو کو پانی کا گِلاس پکڑایا۔۔ مینو نے پانی جوں کا توں چارپائی کے نیچے رکھ دِیا۔۔۔
پنکی ہمارے پاس آئی ار ہنس کر مجھ سے بولی،” یہ تو میری سیٹ ہے۔۔!“
"کوئی بات نہیں پنکی ۔۔ تم یہاں بیٹھ جاو” ترن نے اس جگہ کی طرف اِشارا کِیا جہاں پہلے دِن سے ہی میں بیٹھتی تھی۔۔۔
“میں تو ایسے ہی بتا رہی تھی بھیا۔۔ یہاں سے تو اور بھی اچھیِ طرح دِکھائی دیگا۔۔۔” پنکی نے ہںسکر کہا ار بیٹھ گی۔۔۔
اس دِن ترن نے ہمیں آدھا گھنٹا ہی پڑھایا اور ہمیں کچھ یاد کرنے کو دے دِیا۔،" میرا کل ایگزیم ہے۔۔ مجھے اپنی تیاری کرنی ہے۔۔ میں تھوڑی دیر اور یہاں ہوں۔۔ پھِر مجھے جانا ہے۔۔ تب تک کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لینا۔۔" ترن نے کہا اور اپنی کِتاب کھول کر بیٹھ گیا۔۔
2 مِنِٹ بھی نہیں ہوئے ہوںگے۔۔ اچانک مجھے اپنے تلووں کے پاس ترن کا انگوٹھا محسوس ہوا ۔۔ میں نے نظریں اٹھاکر ترن کو دیکھا۔۔ وہ مسکرانے لگا۔۔ اسی پل میرا دھیان مینو پر گیا۔۔ وہ ترن کو ہی دیکھے جا رہی تھی۔۔لیکن جب میں نے اسکی طرف دیکھا تو اس نے اپنا چہرہ جھکا لِیا۔۔
میںنے بھی نظریں کِتاب پرٹکا لیں۔۔لیکن میرا دھیان ترن کے انگوٹھے پر ہی تھا۔۔ اب وہ لگاتار میرے تخنوں کے پاس اپنا انگوٹھا آگے پِچھے کرکے مجھے چھیڑ رہا تھا۔۔
اچانک رزائی کے اندر ہی دھیرے دھیرے اس نے اپنی ٹانگ لمبی کر دی۔۔ میں نے پنکی کو دیکھا اور اپنی کِتاب تھوڑی اوپر اٹھا لی۔۔ترن کا پیر میری رانوں پر آکر ٹِک گیا۔۔
میری چوت پھڑکنے لگی۔۔ مجھ پر سرور سا چھانے لگا اور میں نے بھی رزائی کے اندر اپنی ٹانگیں سیدھی کرکے اس کا پیراپنی دونوں رانوں کے بیچ لے لِیا۔۔ چوری چوری مِل رہے اِس مزے میں پاگل سی ہوکر میں نے اسکے پیر کو اپنی رانوں میں کس کر بھینچ لِیا۔۔
ترن بھی تیار تھا۔۔ شاید اسکی منشا بھی یہی تھی۔۔ وہ مجھے ساتھ لیکر نِکلنے سے پہلے ہی مجھے پوری طرح گرم کردینا چاہتا ہوگا۔۔ اس نے اپنے پیر کا پنجا سیدھا کِیا اور شلوار کے اوپر سے ہی میری چڈی کے کِناروں کو اپنے انگوٹھے سے کریدنے لگا۔۔ چوت کے اِتنے قریب انگوٹھے کو محسوس کرکے میری سانسیں تیز ہو گئیں۔۔ بس 2 اِنچ کا فاصلہ ا ہی تو بچا ہوگا مشکِل سے۔۔ میری چوت اور اس کے انگوٹھے میں۔۔
مینو اور پنکی کے پاس ہونے کی وجہ سے ہی شاید ہلکی چھیڑ چھاڑ سے ہی مِلنے والے مزے میں آج دوگنی کسک تھی۔۔ میں اپنی کِتاب کو ایک طرف رکھ کر اس میں دیکھنے لگی اور اپنے گھٹنے موڑ کر رزائی کو اونچا کر لِیا۔۔ اب رزائی کے اندر شیطانی کر تے ترن کے پیروں کی ہلچل باہر سے دِکھنی بند ہو گئی۔۔
اچانک ترن نے انگوٹھا سیدھا میری چوت کے اوپر رکھ دِیا۔۔ میں ہڑبڑا سی گی۔۔ چوت کے لبوں کے ٹھیک بیچوں بیچ اس کا انگوٹھا تھا اور دھیرے دھیرے وہ اسکو سہلا رہا تھا۔۔۔
میں تڑپ اٹھی۔۔ اِتنا مزا تو مجھے زندگی میں اس دِن سے پہلے کبھی آیا ہی نہیں تھا۔۔ شاید اِسی لِئے کہتے ہیں۔۔ 'چوری چوری پیار میں ہے جو مزا’ ۔۔ 2 چار بار انگوٹھے کے اوپر نیچے ہونے سے ہی میری چوت چھلک پڑی۔۔میری چوت کے بہتے ہوئے رس سے میری چڈی اور شلوار بری طرح سے گیلی ہو گی۔۔۔ مجھے اپنی سانسوں پرقابو پانا مشکِل ہو رہا تھا۔۔ مجھے لگ رہا تھا کِ میرے چہرے کے اتار چڑہاؤ سے کم از کم مینو تو میری حالت سمجھ ہی گئی ہوگی۔۔
'پر جو ہوگا دیکھا جائیگا’ کے مصداق میں نے اپنا ہاتھ دھیرے سے اندر کِیا اور شلوار کے اوپر سے ہی اپنی چڈی کا کِنارا پکڑ کر اسکو اپنی چوت کے اوپر سے ہٹا لِیا۔۔۔
میرا اِرادہ صِرف ترن کے انگوٹھے کو 'وہاں’ اور اچھیِ طرح محسوس کرنا تھا۔۔لیکن شاید ترن نے اس کا غلط مطلب سمجھا۔۔ چوت کے اوپر اب چڈی کی دیوار نہ پاکر میری چوت کا گیلاپن اس کو انگوٹھے پر محسوس ہونے لگا۔۔ کچھ دیر وہ اپنے انگوٹھے سے میری چوت کے لبوںکو الگ الگ کرنے کی کوشِش کرتا رہا۔۔ میری حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔۔اتنی کہ اب میں بالکل لاپرواہی کے ساتھ کبھی اپنی رانوں کو کھول دیتی اور کبھی بھینچ لیتی۔۔ اچانک اس نے میری چوت پر انگوٹھے کا دباو ایک دم بڑھا دِیا جس سے میں ہڑبڑا کر اچھل سی پڑی۔۔ اور میری کِتاب چھِتک کر نیچے جا گِری۔۔ میری شلوار کا کچھ ہِسا میری چوت میں ہی پھںسا رہ گیا۔۔
“کیا ہوا انجو!” پنکی نے اچانک سِر اٹھا کر پوچھا۔۔۔
“ہاں۔۔ نہیں۔۔ کچھ نہیں۔۔ جھپکی سی آ گئی تھی” مینے بات سنبھالنے کی کوشِش کی۔۔
گھبراکر ترن نے اپنا پیر واپس کھینچ لِیا۔۔ لیکن اِس سارے تماشے سے ہماری رزائی میں جو ہلچل ہوئی ۔۔ اس'سے شاید مینو کو شک ہو گیا کہِ اندر ہی اندر کچھ 'گھپلا’ ہو رہا ہے۔۔
اچانک مینو نے دو چار بار سِسکی سی لی اور پنکی کے اٹھ کر اسکے پاس جاتے ہی اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دِیا۔۔
“کیا ہوا باجی ؟” پنکی نے مینو کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پوچھا۔۔۔
“کچھ نہںی۔۔ ۔۔تو پڑھ لے۔۔” مینو نے اسکو کہا اور روتی رہی۔۔
“بتاو نا کیا ہو گیا؟” پنکی وہیں کھڑی رہی تو مجھے لگا کہِ مجھے بھی اٹھ جانا چاہِئے۔۔ میں نے اپنی شلوار ٹھیک کی اور رزائی ہٹاکر اسکے پاس چلی گی،" یہ۔۔ اچانک کیا ہوا آپ کو باجی ۔۔؟"
“کچھ نہیں۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔” میرے پوچھتے ہی مینو نے ہلکے سے غصے میں کہا اور اپنے آنسو پونچھ کر چپ ہو گی۔۔۔
میری دوبارہ ترن کی رزائی میں بیٹھنے کی ہِمت نہیں ہوئی ۔۔ میں پنکی کے پاس ہی جا بیٹھی۔۔
“کیا ہوا انجو؟ وہیں بیٹھو نا۔۔” پنکی نے بھولپن سے میری طرف دیکھا۔۔
“نہیں۔۔ اب کونسا پڑھا رہے ہیں۔۔؟” میںنے اپنے چہرے کو نارمل بنانے کی کوشِش کرتے ہوئے جواب دِیا۔۔۔
میرے الگ بیٹھنے سے شاید مینو کے زخموں پر کچھ مرہم لگا۔۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ اچانک دھیرے سے بول پڑی،" میرے وہاں تِل نہیں ہے!“
ترن نے گھوم کر اسکو دیکھا۔۔ سمجھ تو میں بھی گئی تھی کہِ 'تِل’ کہاں نہیں ہے۔۔ لیکن بھولی پنکی نہ سمجھنے کے باوجوداس معاملے میں کود پڑی۔،” کیا؟ کہاں 'تِل’ نہیں ہے باجی ۔۔؟"
مینو نے بھی پوری تیاری کے بعد ہی بولا تھا۔،" ارے 'تِل’ نہی۔۔ 'دِل'۔۔ میں تو اِس کاغذ کے ٹکڑے میں سے پڑھکر بول رہی تھی۔۔ جانے کہاں سے میری کِتاب میں آ گیا۔۔ پتا نہی۔۔ ایسا ہی کچھ لِکھا ہوا ہے۔۔ 'دیکھنا’ “ اس نے کہا اور کاغذ کا وہ ٹکڑا ترن کی طرف بڑھا دِیا۔۔
ترن نے کچھ دیر اس کو دیکھا اور پھِر اپنی مٹھی میں دبا لِیا۔۔
"دِکھانا بھیا!” پنکی نے ہاتھ بڑھایا۔۔
“یوںہی لِکھی ہوئی کِسی لائین کا آدھا بھاگ لگ رہا ہے۔۔تو اپنی پڑھائی کر لے۔۔” ترن نے کہکر پنکی کو ٹرخا دِیا۔۔۔
ترن نے تھوڑی دیر بعد اسی کاغذ پر دوسری طرف چپکے سے کچھ لِکھا اور رزائی کی سائیڈ سے چپ چاپ میری طرف بڑھا دِیا۔۔ میں نے اسی طرف چھپاکر اس کو پڑھا۔۔ 'پیار کرنا ہے کیا؟’ اس پر لِکھا ہوا تھا۔۔ میں نے کاغذ کو پلٹ کر دیکھا۔۔ دوسری طرف لِکھا ہوا تھا۔۔۔ 'میرے وہاں 'تِل’ نہیں ہے۔۔’
دِل تو بہت تھا چوت کی کھجلی مِٹا ڈالنے کا۔۔ پر 'ماںبننے کو کیسے تیار ہوتی۔۔ میں نے ترن کی طرف دیکھا اور 'نہ’ میں اپنا سِر ہِلا دِیا۔۔۔۔
وہ اپنا سا منہ لیکر مجھے گھورنے لگا۔۔ اسکے بعد میں نے اس'سے نظریں ہی نہیں مِلائںی۔۔۔
ہمیں چائی پِلاکر چاچی جانے ہی والی تھی کہِ ترن کے دِماغ میں جانے کیا آیا،" آاو مینو۔۔ تھوڑی دیر تمہے پڑھا دوں۔۔! پھِر میں جانگا۔۔۔"
مینو کا چہرہ اچانک کھِل اٹھا۔۔ اس نے جھٹ سے اپنی کِتاب اٹھائی ار ترن کے پاس جا بیٹھی۔۔
میں اور پنکی دوسری چارپائیوں پر لیٹ گیے۔۔ تھوڑی ہی دیر بعد پنکی کے خراٹے سنائی دینے لگے۔۔ لیکن میں بھلا کیسے سوتی؟
آج میں نے پہلے ہی ایک دِماغ کا کام کر لِیا۔۔ میں نے دوسری اور تکِیا لگا لِیا اور انکی طرف کروٹ لیکر لیٹ گئی اپنی رزائی کو میں نے شروع سے ہی اِس طرح تھوڑا اوپر اٹھائے رکھا کہِ مجھے ان کی پوری چارپائی دِکھائی دیتی رہے۔۔۔
آج مینو کچھ زیادا ہی بے صبر دِکھائی دے رہی تھی۔۔ کچھ 15 مِنِٹ ہی ہوئے ہوںگے کہ جیسے ہی ترن نے صفحہ پلٹنے کے لِئے اپنا ہاتھ رزائی سے باہر نِکالا; مینو نے پکڑ لِیا۔۔ میں سمجھ گئی۔۔ اب ہوگا کھیل شروع !
ترن بِنا کچھ بولے مینو کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔۔ کچھ دیر مینو بھی اسکو ایسے ہی دیکھتی رہی۔۔ اچانک اسکی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔۔ سچ بتا رہی ہوں۔۔ مینو کا معصوم اوربے بس سا چہرہ دیکھ میری بھی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔۔۔
ترن نے ایک بار ہماری چارپائیوں کی طرف دیکھا اور اپنا ہاتھ چھڑا کر مینو کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لِیا۔۔ مینو اپنے چہرے کو اسکے ہاتھوں میں چھپا کر سسک کر رونے لگی۔۔
“ایسے کیوں کر رہی ہے پاگل؟ اِن میں سے کوئی اٹھ جائیگی۔۔” ترن نے اسکے آنسووں کو پونچھتے ہوئے دھیرے سے پھسپھسایا۔۔
مینو کے منہ سے نِکلنے والی آواز بھاری اوربھرائی ہوئی سی تھی۔،" تمہاری ناراضگی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ترن۔۔ میں مر جاونگیِ۔۔ تم مجھے یوں کیوں تڑپا رہے ہو۔۔ تمہیں پتا ہے ناں کہ میں تم سے کِتنا پیار کرتی ہوں۔۔"
مینو کی آںکھوں سے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔۔ میں نے بھی اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے۔۔ مجھے دِکھائی دینا جو بند ہو گیا تھا۔۔ ۔۔!
“میں کہاں تڑپاتا ہوں تمہیں؟ تمہارے بارے میں کچھ بھی سن لیتا ہوں تو مجھ سے سہا ہی نہیں جاتا۔۔ میں پاگل ہوں تھوڑا سا۔۔ لیکن یہ پاگل پن بھی تو تمہاری ہی وجہ سے ہے جان۔۔” ترن نے تھوڑا آگے سرک کر مینو کو اپنی طرف کھینچ لِیا۔۔ مینو نے آگے جھک کر ترن کی چھاتی پر اپنے گال ٹیکا دِئے۔۔
اسکا چہرہ میری ہی طرف تھا۔۔ اب اس کے چہرے پر سکون جھلک رہا تھا۔۔ ایسے ہی جھکے ہوئے اس نے ترن سے کہا،" تمہیں انجلِ مجھ سے بھی اچھیِ لگتی ہے نا؟"
“یہ کی کہہ رہی ہے پاگل؟ مجھے اِس'سے کیا متلب؟ مجھے تو تم سے زیادا پیارا اِس پوری دنِیا میں کوئی نہیں لگتا۔۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی کہِ میں تم سے کِتنا پیار کرتا ہوں۔۔” سالا گرگٹ کی اولاد۔۔ بولتے ہوئے رونے کی ایکٹِنگ کرنے لگا۔۔۔
مینو نے فوراً اپنا چہرہ اوپر کِیا اور آنکھیں بند کرکے ترن کے گالوں پر اپنے ہونٹ رکھ دِئے۔،" لیکن تم کہہ رہے تھے نا۔۔ کہِ انجو مجھ سے توپیاری ہے۔۔" ترن کو کِس کرکے سیدھی ہوتے مینو بولی۔۔
“وہ تو میں تمہیں جلانے کے لِئے بول رہا تھا۔۔ تم سے اِسکا کیا مقابلہ؟” دِل تو کر رہا تھا کِ رزائی پھیںک کر اسکے سامنے کھڑی ہوکر پوچھو۔۔ کِ 'اب بول’ ۔۔ پر مجھے تِل والی فلم بھی دیکھنی تھی۔۔۔ اِسیلِئے دانت پیس کر رہ گئی۔۔
“اب تک تو مجھے بھی یہی لگ رہا تھا کہِ تم مجھے جلا رہے ہو۔۔ لیکن تب مجھے لگا کہِ تم اور انجو ایک دوسرے کو رزائی کے اندر چھیڑ رہے ہو۔۔ تب مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور میں رونے لگی۔۔” مینو نے اپنے چہرے کو پھِر سے اسکی چھاتی پر ٹیکا دِیا۔۔
ترن اسکی کمر میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا،"چھوڑو ناں۔۔ لیکن تم نے مجھے پرسوں کیوں نہیں بتایا کِ تمہارے وہاں 'تِل’ نہیں ہے۔۔ پرسوں ہی معاملہ ختم ہو جاتا۔۔"
“مجھے کیا پتا تھا کِ تِل ہے کہِ نہیں۔۔ کل میں نے خود۔۔” مینو نے کہا ار اچانک شرما گی۔۔
“کل کیا؟ بولو نا مینو۔۔” ترن نے آگے پوچھا۔۔
مینو سیدھی ہوئی اور شرارت سے اسکی آںکھوں میں گھورتی ہوئی بولی،" بیشرم! بس بتا دِیا نا کِ تِل نہیں ہے۔۔ میری بات پر یقین نہیں ہے کیا؟"
“بغیر دیکھے کیسے کرلوں۔۔اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہی یقین ہو سکتا ہے کہِ 'تِل’ ہے کہِ نہیں۔۔” ترن نے کہا اور شرارت سے مسکرانے لگا۔۔
مینو کا چہرہ اچانک لال ہو گیا۔ اس نے ترن سے نظریں چرائیں، مِلائیں اور پھِر چرا کر بولی،" دیکھو۔۔ دیکھو۔۔ تم پھِر لڑائی والا کام کر رہے ہو۔۔ میں نے ویسے بھی کل شام سے کھانا نہیں کھایا ہے۔۔ !“
"لڑائی والا کام تو تم کر رہی ہو مینو۔۔ جب تک دیکھوںگا نہیں۔۔ مجھے کیسے یقین ہوگا؟ بولو! ایسے ہی یقین کرنا ہوتا تو لڑائی ہوتی ہی کیوں؟ میں پرسوں ہی نا مان جاتا تمہاری بات۔۔۔” ترن نے اپنی ضِد پر اڑتے ہوئے کہا۔۔
“تم مجھے پھِر سے رلا کر جاوگے۔۔ ہے نا؟” مینو کے چہرے کا رنگ اڑ سا گیا۔۔
ترن نے دونوں کے پیروں پر رکھی رزائی اٹھاکرخود اوڑھ لی اور اس کو کھول کر مینو کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولا،" آاو۔۔ یہاں آ جاو میری جان!“
"نہیں!” مینو نے نظریں جھکا لیں اور اپنے ہونٹ باہر نِکال لِئے۔۔
“آاو نا۔۔ کیا اِتنا بھی نہیں کر سکتی اب؟” ترن نے بیقراری سے کہا۔۔
“رکو۔۔ پہلے میں اوپر والا دروازہ بند کرکے آتی ہوں۔۔” کہہ کر مینو اٹھی اور اوپر والے دروازے کے ساتھ باہر والا بھی بند کر دِیا۔۔ پھِر ترن کے پاس آکر کہا،" جلدی چھوڑ دوگے نا؟"
“آاو تو نا جان!” ترن نے مینو کو پکڑ کر کھینچ لِیا۔۔ مینو ہلکی ہلکی شرمائی ہوئی اسکی گود میں جا گِری۔۔۔
رزائی سے باہر اب سِرف دونوں کے چہرے دِکھائی دے رہے تھے۔۔ ترن نے اِس طرح مینو کو اپنی گود میں بِٹھا لِیا تھا کِ مینو کی کمر ترن کی چھاتی سے پوری طرح چِپکی ہوئی ہوگی۔۔ اور اس کے سڈو ل چوتڑ ٹھیک ترن کی رانوں کے بیچ رکھے ہوںگے۔۔ میں سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ مینو کو خود پر اتن ا قابو کیسے ہے۔۔حالنکہ آنکھیں اس کی بھی بند ہو گئی تھیں۔۔ پر میں اسکی جگہ ہوتی تو نظارا ہی دوسرا ہوتا۔۔
ترن نے اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دِئے۔۔ مینو سِسک اٹھی۔۔
“کب تک مجھے یوں تڑپاوگی جان؟” ترن نے ہلے سے اسکے کانوں میں سانس چھوڑی۔۔
“آہہ۔۔ جب تک۔۔ میری پڑھائی پوری نہیں ہو جاتی۔۔ اور گھر والے ہماری شادی کے لِئے تیار نہیں ہو جاتے۔۔ یا پھِر۔۔ ہم گھر چھوڑ کر بھاگ نہیں جاتے۔۔” مینو نے سِسکتے ہوئے کہا۔۔
مینو کی اِس بات نے میرے دِل میں پیار کرتے ہی ما ںبن جانے کے ڈر کو اور بھی پختہ کر دِیا۔۔۔
“ لیکن تب تک تو میں مر ہی جاونگا۔۔!” ترن نے اسکو اور کس کر کھینچ لِیا۔۔
مینو کا چہرہ چمک اٹھا۔،" نہیں مروگے جان۔۔ میں تمہیں مرنے نہیں دوںگی۔۔" مینو نے کہا اور اپنی گردن گھما کر اسکے ہونٹوں کو چوم لِیا۔۔
ترن نے اپنا ہاتھ باہر نِکالا اور اس کے گالوں کو اپنے ہاتھ سے پکڑ لِیا۔۔ مینو کی آنکھیں بند تھیں۔۔ ترن نے اپنے ہونٹ کھولے اور مینو کے ہونٹو ںکو دبا کر چوسنے لگا۔۔ ایسا کرتے ہوئے انکی رزائی میری طرف سے نیچے کھِسک گئی۔۔
ترن کافی دیر تک اسکے ہونٹوں کو چوستا رہا۔۔ اسکا دوسرا ہاتھ مینو کے پیٹ پر تھا ار وہ رہ رہ کر مینو کو پِچھے کھینچ کر اپنی رانوں کے اوپر چڑھانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ پتا نہیں انجانے میں یا جان بوجھ کر۔۔ مینو رہ رہ کر اپنے چوتڑون کو آگے کھِسکا رہی تھی۔۔۔
ترن نے جب مینو کے ہونٹوں کوچھوڑا تو اسکی سانسیں بری طرح اکھڑی ہوئی تھی۔۔ ہانپتی ہوئی مینو اپنے آپ کو چھڑا کر اسکے سامنے جا بیٹھی،" تم بہت گندے ہو۔۔ ایک بار کا کہہ کر۔۔۔ مشکِل سے ہی چھوڑتے ہو۔۔ آج کے بعد کبھی تمہاری باتوں میں نہیں آونگیِ۔۔"
مینو کی نظریں یہ سب بولتے ہوئے لجائی ہوئی تھیں۔۔ اسکے چہرے کی مسکان اور لجا کی وجہ سے اسکے گالوں پر چڑھا ہوا گلابی رنگ یہ بتا رہا تھا کہِ اچھا تو اسکو بھی بہت لگ رہا تھا۔۔ لیکن شاید وہ بھی میری طرح ماں بننے سے ڈر رہی ہوگی۔۔۔
“ دیکھو۔۔ میں مذاق نہیں کر رہا۔۔لیکن 'تِل’ تو تمہیں دِکھانا ہی پڑیگا۔۔!” ترن نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔
“تم تو پاگل ہو۔۔ میں کیسے دِکھاونگیِ تمہیں 'وہاں’ ۔۔ مجھے بہت شرم آ رہی ہے۔۔ کل خود دیکھتے ہوئے بھی میں شرمِا گئی تھی۔۔” مینو نے پیار سے دہتکار کر ترن کو کہا۔۔۔
“ لیکن تم خود کیسے دیکھ سکتی ہو؟۔۔!” ترن نے ترک دِیا۔۔
“وہ۔۔ وہ میں نے ۔۔ آئینے میں دیکھا تھا۔۔” مینو نے کہتے ہی اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھِپا لِیا۔۔
“ کیا تم۔۔ میرے دِل کی خاطر اِتنا بھی نہیں کر سکتیں۔۔” ترن نے اسکے ہاتھ پکڑ کر چہرے سے ہٹا دِئے۔۔
لزائی ہوئی مینو نے اپنے سِر کو بِلکل نیچے جھکا لِیا،" نہیں۔۔ بتا تو دِیا۔۔ مجھے شرم آ رہی ہے۔۔!“
"یہ تو تم بہانا بنانے والی بات کر رہی ہو۔۔ مجھ سے بھی شرماو گی اب؟ میں نے تمہاری مرزی کے بگیر کچھ کِیا ہے کیا آج تک۔۔ میں آخِری بار پوچھ رہا ہوں مینو۔۔ دِکھا رہی ہو کہ نہیں۔؟” ترن تھوڑا طیش میں آ گیا۔۔۔
مینو کے چہرے سے مجبوری اور اداسی جھلکنے لگی،" لیکن۔۔ تم سمجھتے کیوں نہیں۔۔ مجھے شرم آ رہی ہے جان!“
"آنے دو۔۔ شرم کا کیا ہے؟ یے تو آتی جاتی رہتی ہے۔۔ پر اِس بار اگر میں چلا گیا تو واپس نہیں آونگا۔۔ سوچ لو!” ترن نے اسکو پھِر سے چھوڑ دینے کی دھمکی دی۔۔۔
مایوس مینو کو آخِرکار ہار ماننی ہی پڑی،" لیکن۔۔ وعدہ کرو کہ تم اور کچھ نہیں کروگے۔۔ بولو!“
"ہاں۔۔ وعدہ۔۔ دیکھنے کے بعد جو تمہاری مرضی ہوگی وہی کروںگا۔۔” ترن کی آنکھیں چمک اٹھیں۔۔ پر شرم کے مارے مینو اپنی نظریں نہیں اٹھا پا رہی تھی۔۔۔
“ٹھیک ہے۔۔” مینو نے شرما کر اور منہ بنا کر کہا اور لیٹ کر اپنے چہرے پر تکِیا رکھ لِیا۔۔
اسکی نزاکت دیکھ کر مجھے بھی اس پر ترس آ رہا تھا۔۔ لیکن ترن کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں تھی شائد۔۔ مینو کی مزاحمت کو دم توڑتے دیکھ کر ایسا لگا کہ ترن کے جیسے منہ میں پانی اتر آیا،" اب ایسے کیوں لیٹ گئی ہو۔۔ شرمانا چھوڑ دو۔۔!“
"مجھے نہیں پتا۔۔ جو کچھ دیکھنا ہے دیکھ لو۔۔” مینو نے اپنا چہرہ ڈھکے ہوئے ہی کہا۔۔،" اوپر سے کوئی آ جائے تو دروازہ کھول کر بھاگنے سے پہلے مجھے ڈھک دینا۔۔ میں سو رہی ہوں۔۔" مینو نے شاید اپنی جھِجھک چچِپانے کے لِئے ہی ایسا بولا ہوگا۔۔ ورنہ ایسی حالت میں کوئی سو سکتا ہے بھلا۔۔
ترن نے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دِیا۔۔ اسکو تو جیسے الہ دین کا چِراغ مِل گیا تھا۔۔ تھوڑا آگے ہوکر اس نے مینو کی ٹانگوں کو سیدھا کرکے انکے بیچ بیٹھ گیا۔۔ مجھے مینو کا کپکپاتا ہوا بدن صاف دِکھ رہا تھا۔۔
اگلے ہی لمحے ترن مینو کی قمیض اوپر کرکے اسکی شمیز کواوپر کھینچنے لگا۔۔ شاید شرم کے مارے مینو دوہری سی ہوکر اپنی ٹانگوں کو موڑنے کی کوشِش کرنے لگی۔۔لیکن ترن نے اسکی ٹانگوں کو اپنی کوہنِیوں کے نیچے دبا لِیا۔۔۔
“اِسکو کیوں اتار رہے ہو؟ جلدی کرو نا۔۔” مینو نے سِسکاریاں لیتے ہوئے پوچھا۔۔
“رکو بھی۔۔ اب تم چپ ہو جاو۔۔ مجھے اپنے حساب سے دیکھنے دو۔۔” ترن نے کہا اور اس کی شمیز بھی اسکی قمیض کے ساتھ ہی اسکی چھاتِیوں تک اوپر چڑھا دِی۔ میں سب کچھ تو نہیں دیکھ پائی لیکن مینو کا پیٹ بھی میری طرح ہی چِکنا گورا اور بہت ہی کمسِن تھا۔۔ چربی تو جیسے وہاں تھی ہی نہیں۔۔ رہ رہ کر وہ اچک رہی تھی۔۔
اچانک ترن اس پر جھک گیا ار شاید اسکی نافِ پر اپنے ہونٹ رکھ دِئے۔۔ مجھے محسوس ہوا جیسے اسکے ہونٹ میرے ہی بدن پر آکر ٹِک گیے ہوں۔۔ میں نے اپنا ہاتھ اپنی شلوار میں گھسا لِیا۔۔
مینو سِسک اٹھی،" تم دیکھنے کے بہانے اپنا مطلب نِکال رہے ہو۔۔ جلدی کرو نا پلیز!“
"تھوڑا مطلب بھی نِکل جانے دو جان۔۔ ایسا موقع تم مجھے دوبارا تو دینے سے رہی۔۔ کیا کروں۔۔ تمہارا ہر انگ اِتنا پیارا ہے کہِ دِل کرتا ہے کہِ آگے بڑھوں ہی نا۔۔ تمہارا جو کچھ بھی دیکھتا ہوں۔۔ اسی پر دِل آ جاتا ہے۔۔۔” ترن نے اپنا سِر اٹھاکر مسکراتے ہوئے کہا اور پھِر سے جھکتے ہوئے اپنی زبان نِکال کر مینو کے پیٹ کو یہاں وہاں چاٹنے لگا۔۔
“اوہ ! اوہ!۔۔ امم!۔۔آہہہہہہ۔۔” مینو رہ رہ کر ہونے والی گدگدی سے اچھلتی رہی اور آہیں بھارتی رہی۔۔ لیکن کچھ بولی نہیں۔۔
اچانک ترن نے مینو کا ناڑا پکڑ کر کھینچ لِیا اور اِسکے ساتھ ہی ایک بار پھِر مینو نے اپنی ٹانگوں کو موڑنے کی کوشِش کی۔۔لیکن ترن کی گرفت کی وجہ سے وہ کچھ زیادہ نہ کر پائی۔ ترن کی دونوں کہنِیاں اسکی رانوں پر تھیں۔۔ وہ مچل کر رہ گئی،" پلیز۔۔ جلدی دیکھ لو۔۔ مجھے بہت شرم آ رہی ہے۔۔" کہہ کر اس نے اپنی ٹانگیں ڈھیلی چھوڑ دی۔۔
ترن نے ایک بار پھِر اسکی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دِیا۔اور اسکی شلوار نیچے سرکا دی۔۔ شلوار کے نیچے ہوتے ہی مجھے مینو کی سفید چڈیِ اور اس کے نیچے اسکی گوری گداز رانیں تھوڑی سی ننگی دِکھائی دینے لگیں۔۔
ترن اسکی رانوں کے بیچ اِس طرح للچایا ہوا دیکھ رہا تھا جیسے اس نے پہلی بار کِسی لڑکی کو اِس حالت میں دیکھا ہو۔۔ اسکی آنکھیں ہوس کے مارے پھیل سی گئیں تھیں۔۔ تبھی ایک بار پھِر مینو کی تڑپتیِ ہوئی آواز میرے کانوں تک آئی،" اب اتار دو اِسکو بھی۔۔ جلدی سے دیکھ لو ناں۔۔"
ترن نے میری پلک جھپکنے سے پہلے ہی اسکی چڈیِ کو اوپر سے نیچے سرکا چکا تھا۔،" تھوڑی اوپر اٹھو!“ کہکر اس نے مینو کے نِتںبوں کے نیچے ہاتھ دِئیے اور شلوار سمیت اسکی چڈیِ کو نیچے کھینچ لِیا۔۔۔
ترن کی حالت دیکھنے والی تھی۔۔ اچانک اسکے منہ سے پانی ٹپک کر مینو کی رانوں کے بیچ جا گِرا۔۔ میرے خیال سے اسکی چوت پر ہی گِرا ہوگا جاکر۔۔
"مینو۔۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ تمہاری ِ چوت اِتنی پیاری ہے ۔۔ دیکھو نا۔۔ کیسے پھدک رہی ہے۔۔ چھوٹی سی مچھلیِ کی طرح۔۔ سچ کہوں۔۔ تم میرے ساتھ بہت برا کر رہی ہو۔۔ اپنے سب خوبصورت حصے سے مجھکو اِتنی دور رکھ کر۔۔ جی کرتا ہے کہِ۔۔۔”
“دیکھ لِیا۔۔ اب چھوڑو۔۔” مینو اپنی شلوار کو اوپر کرنے کے لِئے اپنے ہاتھ نیچے لائی تو ترن نے انکو وہیں دبوچ لِیا،" ایسے تھوڑے ہی دِکھائی دیگا۔۔ یہاں سے تو بس اوپر کی ہی دِکھ رہی ہے۔۔"
ترن اسکی ٹاںگوں کے بیچ سے نِکلا ار بولا،" اوپر ٹانگیں کرو۔۔ چوت کے لب اچھی طرح تبھی دِکھائی دیںگے۔۔"
“کیا ہے یہ؟” مینو نے کہا تو مجھے اسکی باتوں میں نخرہ نہیں لگا۔۔ بس شرم ہی لگ رہی تھی ترن نے اسکی رانیں اوپر اٹھائی تو اس نے کوئی اعتراض نہ کِیا۔۔
مینو کی رانیں اوپر ہوتے ہی اسکی چوت کی خوبصورتی کو دیکھ کر میرے منہ سے بھی پانی ٹپکنے لگا۔۔ اور میری چوت سے بھی۔۔! ترن جھوٹ نہیں بول رہا تھا۔۔ اسکی چوت کے لب میری چوت کے لبوں سے بھی پتلے تھے۔۔ بہت ہی پیارے پیارے سے۔۔ ایک دم گوری۔۔ ہلکے ہلکے کالے بالوں میں بھی اسکا رسیلاپن ار نزاکت مجھے دور سے ہی دِکھائی دے رہی تھی۔۔ پتلے پتلے لبوں کے بیچ لمبی سی دراڑ ایسے لگ رہی تھی جیسے پہلے کبھی کھلی ہی نہ ہو۔۔۔ دونوں ہی لب آپس میں چِپکے ہوئے سے تھے۔۔
اچانک ترن نے اسکی شلوار اور چڈی کو گھٹنوں سے نیچے کرکے رانوں کو اور پِچھے دھکیل کر کھول دِیا۔۔ اِسکے ساتھ ہی مینو کی چوت اور اوپر اٹھ گئی اور اس کی درار نے بھی ہلکا سا منہ کھول دِیا۔۔ اِسکے ساتھ ہی اسکے گول مٹول چوتڑوں کی کساوٹ بھی دیکھتے ہی بن رہی تھی۔۔ ترن چوت کے لبوں پر اپنی انگلی پھیرنے لگا۔۔
“میں مر جاونگیِ ترن۔اوہ۔ پلیز۔۔ ایسا ۔آہ۔۔مت کرنا۔۔ پلیز۔اممم۔” مینو ہانپھتے ہوئے رک رک کر اپنی بات کہہ رہی تھی۔۔۔
“کچھ نہیں کر رہا جان۔۔ میں تو بس چھو کر دیکھ رہا ہوں۔۔ تم نے تو مجھے پاگل کر دِیا ہے۔۔ سچ۔۔ ایک بات مان لوگیِ۔۔؟” ترن نے رِکویسٹ کی۔۔
“تِل نہیں ہے نا جان!” مینو تڑپ کر بولی۔۔۔
“ہاں۔۔ نہیں ہے۔۔ آئی لو یو جان۔۔ آج کے بعد میں تم سے کبھی بھی لڑائی نہیں کروںگا۔۔ نا ہی تم پر شک کروںگا۔۔ تمہاری قسم!” ترن نے کہا۔۔
“سچ!!!” مینو ایک پل کو سب کچھ بھول کر تکِیے سے منہ ہٹا کر بولی۔۔ پھِر ترن کو اپنی آنکھوں میں دیکھتا پاکر شرما گئی۔۔
“ہاں۔۔ جان۔۔ پلیز ایک بات مان لو۔۔” ترن نے پیار سے کہا۔۔
“کیا؟ مینو سِسکتے ہوئے بولی۔۔ اس نے ایک بار پھِر اپنا منہ چھِپا لِیا تھا۔۔
"ایک بار اِسکو چاٹ لوں کیا؟” ترن نے اپنی مںشا جاہِر کی۔۔۔
اب تک شاید مینو بھی شائد بیقابو ہو چکی تھی،" مجھے ہمیشہ اِسی طرح پیار کرتے رہوگے نا جان!“ مینو نے پہلی بار ننگی ہونے کے بعد ترن سے نظریں مِلائیں۔۔۔
ترن اسکی رانوں کو چھوڑ کر اوپر گیا اور مینو کے ہونٹوں کو چوم لِیا،” تمہاری قسم جان۔۔ تم سے دور ہونے کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا۔۔" ترن نے کہا اور نیچے آ گیا۔۔
میں یہ دیکھ کرحیران رہ گئی کہ ِ مینو نے اِس بار اپنی رانیں خود سے ہی اوپر اٹھا دی۔۔۔
ترن تھوڑا اور پِچھے ہوکر اسکی چوت پر جھک گیا۔۔ چوت کے ہونٹوں پر ترن کے ہونٹوں کو محسوس کرتے ہی مینو اچھل پڑی،"آہہہہہ۔۔"
“کیسا لگ رہا ہے جان؟” ترن نے پوچھا۔۔
“کر لو ۔۔ کرو ناں۔۔!” مینو نے سِسکتے ہوئے اِتنا ہی کہا۔۔
“بتاو نا۔۔ کیسا لگ رہا ہے۔۔” ترن نے پھِر پوچھا۔۔
“آہہہ۔۔ کہہ تو رہی ہوں۔۔ کر لو۔۔ اب اور کیسے بتاوں۔۔ بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔ بس!” مینو نے کہا ار شرما کر اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھک لِیا۔۔
خوش ہوکر ترن اسکی چوت پر ٹوٹ پڑا۔۔ اپنی زبان باہر نِکال کر اس نے چوت کے نِچلے حصے پر رکھی اور اس کو لہراتا ہوا اوپر تک سمیٹ لایا۔۔ مینو بدحواس ہو گئی۔۔ شہوت بھری سسکاریاں اور آہیں بھرتے ہوئے اس نے خود ہی اپنی رانوں کو پکڑ لِیا اور ترن کا کام آسان کر دِیا۔۔
میرا برا حال ہو چکا تھا۔۔ انہوںنے دھیان نہیں دِیا ہوگا۔۔ لیکن میری رزائی میرے چوت کے مسلنے کی وجہ سے مسلسل ہِل رہی تھی۔۔
ترن نے اپنی ایک انگلی مینو کی چوت کے لبوں کے بیچ رکھ دی اور اس کی دونوں لبوں کو اپنے ہونٹوں میں دباکر چوسنے لگا۔۔
مینو پاگل ہوئی جا رہی تھی۔۔ اب وہ ترن کے ہونٹوں کو بار بار چوت کے من چاہے حصے پرمحسوس کرنے کے لِئے اپنے چوتڑوں کو اوپر نیچے ہِلانے لگی تھی۔۔ ایسا کرتے ہوئے وا اچانک چونک پڑی،" کیا کر رہے ہو؟"
“کچھ نہیں۔۔ بس انگلی گھسائی ہے۔۔” ترن مسکراتا ہوا بولا۔۔
“نہیں۔۔ بہت درد ہوگا۔۔ پلیز اندر مت کرنا۔۔” مینو کسمسا کر بولی۔۔۔
ترن مسکراتا ہوا بولا،" اب تک تو نہیں ہوا نا؟"
“نہیں۔۔ لیکن تم اندر مت ڈالنا پلیز۔۔” مینو نے پرارتھنا سی کی۔۔
“میری پوری انگلی تمہاری چوت کے اندر ہے۔۔” ترن ہنسنے لگا۔۔
“کیا؟ سچ۔؟ ” مینو ہیران ہوکر رانوں کو چھوڑ کوہنِیوں کے بل اٹھ بیٹھی۔۔ اور چونک کر اپنی چوت میں پھنسی ہوئی ترن کی انگلی کو دیکھتی ہوئی بولی،" لیکن میں نے تو سنا تھا کہِ پہلی بار بہت درد ہوتا ہے۔۔" وہ حیرت سے آنکھیں چوڑی کِئے اپنی چوت کی دراڑ میں اندر غائب ہو چکنے والی انگلی کو دیکھتی رہی۔۔۔
ترن نے اسکی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے انگلی کو باہر کھیچنااور پھِر سے اندر دھکیل دِیا۔۔ اب مینو انگلی کو اپنی چوت کے اندر جاتے دیکھ بھی رہی تھی اور محسوس بھی کر رہی تھی۔۔ اِسیلِئے اچھل سی پڑی،"آہہہہہ۔۔"
“ درد ہو رہا ہے؟۔۔۔” ترن نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔
“آئی۔۔ لو یو جان۔۔ آنہہہ۔۔ بہت مزا آ رہا ہیِی۔۔” کہہ کر مینو نے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔
“لیکِن تم سے یہ کِس نے کہا کہِ بہت درد ہوتا ہے۔۔؟” ترن نے انگلی کو لگاتار اندر باہر کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔
“چھوڑو نا۔۔ تم کرو نا جان۔۔ بہت۔۔ مزا آ۔۔ رہا ہے۔۔ آییییِییِیی آہ آہ آہہہہہ” مینو کی آواز اسکے چوتڑوںکے ساتھ ہی تھِرک رہی تھی۔۔۔ اس نے بیٹھ کر ترن کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبوچ لِیا۔۔ ترن کے تو وارے کے نیارے ہو گئے ہوںگے۔۔ سالے کتے کے۔۔ یہ انگلی والا مزا تو مجھے بھی چاہِئے۔۔ میں تڑپ اٹھی۔۔
ترن اسکے ہوںٹو کو چھوڑتا ہوا بولا،" اندر ڈالوں؟"
“کیا؟” مینو سمجھ نہیں پائی۔۔ اور نہ ہی میں۔۔
“پ۔ اپنا لنڈ تیری چوت کے اندر ڈال دوں۔۔!” ترن نے کہا۔۔۔
مچلتی ہوئی مینو اسکی انگلی کی سپیڈ کم ہو جانے سے بے چین سی ہو گئی۔،" ہاں۔۔ڈال دو۔۔ زیادہ درد نہیں ہوگا ناں؟" مینو پیار سے اسکو دیکھتی ہوئی بولی۔۔
“میں پاگل ہوں کیا؟ جو زیادا درد کروںگا۔۔ اصلی مزا تو اسی میں آتا ہے۔۔ جب یہاں سے بچہ نِکل سکتا ہے تو اسکے اندر جانے میں کیا ہوگا۔۔ اور پھِر اس مزے کے لِئے اگر تھوڑا بہت درد ہو بھی جائے تو کیا ہے۔؟ سوچ لو!”
مینو کچھ دیر سوچنے کے بعد اپنا سِر ہِلاتی ہوئی بولی،" ہاں۔۔ڈال دو۔۔ چود دو جان۔۔ اِس سے بھی زیادہ مزا آائیگا کیا؟"
“تم بس دیکھتی جاو جان۔۔ بس اپنی آنکھیں بند کرکے سیدھی لیٹ جاو۔۔ پھِر دیکھو میں تمہیں کہاں کا کہاں لے جاتا ہوں۔۔۔” ترن بولا۔۔۔
مینو اب اپنی آنکھیں بند کرکے لیٹ گی۔۔ ترن نے اپنی جیب سے موبائیلفون نِکالا اور دنادن اسکے فوٹو کھینچ نے لگا۔۔ میری سمجھ میں نہیں آیا وہ ایسا کر کیوں رہا ہے۔۔ اس نے مینو کی چوت کا کلوز اپ لِیا۔۔ پھِر اسکی رانوں ار چوت کا لِیا۔۔ ار پھِر تھوڑا نیچے کرکے شاید اسکی ننگی رانوں سے لیکر اسکے چہرے تک کا فوٹو لے لِیا۔۔۔
“اب جلدی کرو نا جان۔۔!” مینو نے کہا ار اپنے چوتڑوںکو کسمسا کر اوپر اٹھا لِیا۔۔
“بس ایک مِنِٹ۔۔۔” ترن نے کہا ار اپنی پیںٹ اتار کر موبائیل واپس اسکی جیب میں رکھ دِیا۔۔۔ اسکا لنڈ اسکی چڈی کو پھاڑ کر باہر آنے والا تھا۔۔ پر اس نے خود ہی نِکال لِیا۔۔ اس نے جھٹ سے مینو کی رانوں کو اوپر اٹھایا اپنا لنڈ چوت کے ٹھیک اوپر رکھ دِیا۔۔ لنڈ کو چوت پر رکھے جاتے ہی مینو تڑپ اٹھی۔۔ اسکا ڈر ابھی تک نِکلا نہیں تھا۔۔ اس نے بانہیں پھیلاکر چارپائی کو کسکر پکڑ لِیا اور کافی تیز آواز میں کہا،" پلیز۔۔ آرام سے جان!“
پتہ نہیں ترن نے اسکی بات سنی یا نہیں سنی۔۔ لیکن پنکی نے مینو کی چیخ ضرور سن لی۔۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور اگلے ہی پل وہ انکی چارپائی کے پاس تھی۔۔ حیرت سے اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے وہ عجیب سی نظروں سے انکو دیکھنے لگی۔۔۔
اچانک پنکی کے جاگ جانے سے ساکت رہ جانے والی مینو کو جیسے ہی اپنی حالت کا خیال آیا۔۔ اس نے دھکا دیکر ترن کو پِچھے دھکیلا۔۔ مینو کی چوت کے رس میں سنا ہوا ترن کا لنڈ باہر آکر ہوا میں جھولنے لگا۔۔
میں دم سادھے چپ چاپ پڑی رہی۔۔۔
مینو نے فوراً اپنی شلوار اوپر کر لی اور ترن نے اپنا لنڈ پینٹ کے اندر ۔۔ سارا معاملہ سمجھ میں آنے پر پنکی زیادہ دیر وہاں کھڑی نا رہ سکی۔۔ مینو اور ترن کو گھور کر وہ پلٹی ار اپنے پیر پٹکتی ہوئی واپس اپنی رزائی میں گھس گئی۔۔
ترن یوں رنگے ہاتھ پکڑے جانے پر بھی کچھ خاص شرمِندہ نہیں تھا لیکن مینو کی تو حالت ہی خراب ہو گئی تھی۔۔ اس نے دیوار کا سہارا لیکر اپنے گھٹنے موڑے اور ان میں سِر دیکر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دِیا۔۔
"اب ایسے مت کرو پلیز۔۔ ورنہ انجو بھی جاگ گئی تو بات گھر سے باہر نِکل جائے گی۔۔ چپ ہو جاو۔۔ پنکی کو سمجھا دو کہِ کِسی سے اِس بات کا ذِکر نہ کرے۔۔ ورنہ ہم دونوں پر مصیبت آ جائیگی” ترن نے مینو سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔۔۔
“میں کیا بولوں ؟ کیا سمجھاؤں اسکو؟ سمجھنے کو رہ ہی کیا گیا ہے۔۔ ؟ میں تو اِسکو منہ دِکھانے کے قابل بھی نہیں رہی۔۔ میں نے منع کِیا تھا نا؟۔۔ منع کِیا تھا نا میں نے ؟ کیوں نہیں کنٹرول ہوا تم سے۔؟ دیکھ لِیا تِل'؟ ” مینو رو رو کر پاگل ہوئی جا رہی تھی۔۔ ،" اب میں کیا کروں؟"
“پلیز مینو۔۔ سنبھالو اپنے آپ کو! وہ کوئی بچی تو نہیں ہے۔۔ سب سمجھتی ہے۔۔ اس کو بھی پتہ ہوگا کہِ لڑکے لڑکی آپس میں کیا کرتے ہیں! ا پلیز چپ ہو جاؤ۔۔ میں اس سے بات کرتا ہوں” ترن نے کہتے ہوئے مینو کے سِر پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو اسکی سِسکِیوں میں کچھ کمی آئی۔۔۔
ترن مینو کے پاس سے اٹھا اور پنکی کی چارپائی کے پاس آ گیا۔،" پنکی !“ ترن نے رزائی اس کے سِر سے ہٹاتے ہوئے پیار سے اسکا نام پکارا۔۔ لیکن پنکی نے بغیر کوئی جواب دئے ہوئے رزائی دوبارہ اپنے اوپر کھینچ لی۔۔
” پنکی ۔۔ بات تو سن لو ایک بار۔۔!“ اِس بار ترن نے رزائی ہٹاکر جیسے ہی اسکا ہاتھ پکڑا۔۔ وہ اٹھ بیٹھی۔۔ اس نے ترن سے نظریں مِلانے کی بجائے اپنا چہرہ ایک طرف کر لیا اور گرجنے لگی،” مجھے۔۔ مجھے ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ سمجھے!“
” پنکی ۔۔ میں اور مینو ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔۔ اِسی لِئے وہ سب کر رہے تھے۔۔ تمہیں شاید نہیں پتا اِس پیار میں کِتنا مزا آتا ہے۔۔ تم چاہو تو میں تمہارے ساتھ بھی۔۔ سچ پنکی ۔۔ اِس'سے زیادا مزا دنِیا میں کِسی چیز میں نہیں آتا۔۔" ترن باز نہیں آ رہا تھا۔۔
“چپ ہو جا کمینے!” پنکی غصے سے دانت پیستی ہوئی بولی۔۔۔
“سمجھنے کی کوشِش کرو یار۔۔ پیار تو سبھی کرتے ہیں۔۔!” ترن نے اِس بار اور بھی دھیما بولتے ہوئے اسکے گالوں کو چھونے کی کوشِش کی تو پنکی کا 'وہ’ روپ دیکھ کر میں بھی سہم گئی۔۔
“اوئے کتے۔۔ مجھے یار مت بول ۔۔ جا اور اپنی بہن کواپنی یار بنا ۔۔ جا۔۔ اور سارا پیار بھی اسی سے کرنا۔۔ سمجھے۔۔ مجھے ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ مجھے باجی کی طرح بھولی مت سمجھنا! کمینے کتے۔۔ میں تمہیں کِتنا اچھا سمجھتی تھی۔۔ 'بھیا’ کہتی تھی تمہیں۔۔ ممی تم سے کِتنا پیار کرتی تھی۔۔ اور تم کیا نِکلے گھٹیا انسان؟ تھو !” پنکی معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے دھیرے دھیرے بول رہی تھی۔۔ لیکن اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ آنکھیں نہی جلتے ہوئے انگارے ہوں۔۔ اسکی انگلی سیدھی ترن کی طرف تنی ہوئی تھی اور آخِری جملہ کہہ کر اس نے ترن کے چہرے کی طرف تھوک دِیا۔۔
ترن کی شکل دیکھنے لائق ہو گئی تھی۔۔ لیکن وہ تو سچی میں ایک نمبر کا کمینہ نِکلا۔۔ الٹا چور کوتوال کو ثابِت کرنے کی کوشِش کرنے لگا،" مجھے کیوں باتیں سنا رہی ہے؟ اپنی بہن سے پوچھ ناں وہ مجھے کیا سمجھتی ہے۔۔ کل کی لونڈِیا ہے، اپنی اوقات میں رہ۔۔ لگتا ہے کِسی سے چدی نہیں ابھی تک۔۔ نہیں تو تجھے بھی پتا ہوتا کہ اِس 'پیار’ کی کھجلی کیا ہوتی ہے۔۔
غصے میں تمتمائی ہوئی پنکی نے چارپائی سے اٹھنے کی کوشِش کی لیکن ترن نے اس کو اٹھنے نہیں دِیا۔۔ پنکی کو چارپائی پر ہی دبوچ کر وہ اسکے پاس بیٹھ گیا اور زبردستی اس کے نوخیز مموں کو مسلنے لگا۔۔ پنکی تکلیف سے سسک اٹھی۔۔ وہ اپنے ہاتھوں اور لاتوں کو بے بس ہوکر اِدھر ادھر مارنے لگی۔۔ لیکن وہ اس حرامی کے شِکنجے سے چھوٹنے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔۔
ترن کچھ دیر اسکے مموں کو یوںہی مسلتا رہا۔۔ بے بس ہوکر پنکی رونے لگی۔۔ اچانک پِیچھے سے مینو آئی اور ترن کا گِریبان پکڑ کر اسکو پِچھے کھینچ لِیا،" چھوڑ میری بہن کو حرامی۔۔!“
جیسے ہی پنکی ترن کے شِکنجے سے آزاد ہوئی وہ کسی زخمی شیرنی کی طرح وہ اس پر ٹوٹ پڑی۔۔ میں دیکھ کر حیران تھی۔۔ اب پنکی ترن کی چھاتی پر سوار تھی اور ترن نیچے پڑا پڑا اپنے چہرے کو اسکے تھپڑوں اور مکوں سے بچانے کی ناکام کوشِش کرتا رہا۔۔۔
جی بھر کر اسکی ٹھکائی کرنے کے بعد جب پنکی ہانپتی ہوئی الگ ہوئی تب ہی ترن کو کھڑا ہونے کا موقع مِل پایا۔۔ پنکی کے تھپڑوں کی قجہ سے اس کا چہرہ لالہو گیا تھا۔۔ اور گالوں پر جگہ جگہ پنکی کے ناخنوں نے کھرونچیں بھی مار دی تھیں۔۔۔
"کتے، کمینے۔۔ نِکل جا ہمارے گھر سے۔۔ دفع ہو جا حرامزادے۔ کنجر کی اولاد!” پتا نہیں پنکی اب تک کیسے اپنے آپ پر قابو کِئے ہوئے تھی۔۔ شاید مینو کی مرضی سے ہو نے والے 'غلط کام’ کو تو اس نے برداشت کر بھی لِیا تھا۔۔۔ لیکن اسکے بدن پر ترن کے ناپاک ہاتھ لگتے ہی تو وہ شیرنی کا روپ دھار چکی تھی۔۔
جی بھر کر مار کھانے کے بعد ترن کی پنکی کی طرف دیکھنے تک کی ہِمت نہیں ہو رہی تھی۔۔ کھِسِیایا ہوا سا وہ دروازے کے پاس جاکر مینو کو گھور کر بولا،"کل کالج میں مِل مجھ سے ۔۔ تیرے ننگے فوٹو کھینچ لِئے ہیں میں نے ۔۔۔ اور پہلے سے بتا رہا ہوں۔۔ اِسکو اور تجھ کو چار چار لڑکوں سے نہ چدوایا تو میرا نام بھی ترن نہیں۔۔۔"
اِس'سے پہلے کہِ پنکی پھِر سے اس پر حملہ کرتی۔۔ وہ دروازہ کھول کر جلدی سے باہر نِکل گیا۔۔
مینو پھِر سے اپنی چارپائی پر جاکر اندر ہی اندر سسکیاں لے کر رونے لگی۔۔ اپنے سانسیں ٹھیک کر کے پنکی اسکے پاس گئی اور اس 'سے لِپٹ کر بولی،" باجی ۔۔ آپ رو مت۔۔ بھول جاو سب کچھ۔۔ آپکی قسم میں کِسی کو کچھ نہیں بتاونگیِ۔۔ اور نہ ہی آپکو کچھ کہوںگی اِس بارے میں۔۔ چپ ہو جاو نا باجی ۔۔"
سنکر مینو کا رونا اور بھی تیز ہو گیا۔۔ اور اس نے اپنی چھوٹی ، لیکن سمجھداری میں اس'سے کہیں بڑی بہن کو سینے سے لگا لِیا۔۔ پنکی نے پیار سے اسکے گالوں کو سہلایا اور اسی کے ساتھ لیٹ گی۔۔۔

THE END
 
Back
Top Bottom