Story Lover
Well-known member
- Joined
- Oct 13, 2024
- Messages
- 128
- Reaction score
- 834
- Points
- 93
- Gender
- Male
- Thread Author
- #1
میرا نام سعد ھے۔میں ایک خوبصورت اور اسمارٹ لڑکا ھوں۔میرا کلر تیکھا گندمی ھے اور میری ھاٰئٹ 5 فٹ اٌٹھ انچ ھے۔۔میری اٌنکھیں گہری براؤن ھے اور مجھ میں سب سے زیادہ لبھانے والی بات میرا بھولا بھالا اور معصوم سا چہرہ ھے۔مجھے دیکھتے ھی ھر شخص متاثر ھوجاتا ھے۔ایک بات جو میں نے بہت پہلے نوٹ کرلی تھی کہ مجھے خوبصورت لڑکے اٹریکٹ کرتے ھیں اور انھیں دیکھتے ھی میرے دل میں عجیب سا احساس جاگ جاتا ھے۔پہلے تو میں اس بات کو نھیں سمجھ پایا لیکن اٌہستہ اٌہستہ مجھے اندازہ ھو گیا کہ میں لڑکوں میں سیکس اٹریکشن محسوس ھوتی ھے اور حقیقت میں میں لڑکوں کو پیار کرنا چاہتا ھوں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میں حد سے زیادہ شرمیلا تھااور کسی کے ساتھ سیکس کرنا تو دور کی بات اگر کسی کی طرف سے ایسا اشارہ بھی ملتا تو چاہنے کے باوجود میں اپنے سخت روءیے سے ان کی حوصلہ شکنی کردیتا۔کسی کو ہمت ھی نھیں ھوئ کے مجھ سے اس حوالے سے کوئ بات کرپاتا
ایک طرف میں چاہتا تھا کہ کسی بھی لڑکے کو لپٹا کر اسے پیار کروں دوسری طرف مجھے اتنی شرم اٌتی تھی کہ کوئ شرارت سے مجھے اٌنکھ بھی مارتا تھا تو میں گبھرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا تھا۔میرے بہت سارے دوست ایسے تھے کہ جن کے ساتھ میرا دل سیکس کرنے کو تڑپٹا تھا مگر شرم کی وجہ سے میں صرف تصور میں ھی ان سے دل بہلاسکتا تھا۔
جب میں کالج میں اٌیا تو سب سے پہلے جو لڑکا مجھ سے ٹکرایا وہ راحیل تھا۔میرے اب تک کے دوستوں میں سب سے خوبصورت اور اسمارٹ لڑکا ۔اسے دیکھتے ھی جیسے میرا دل ُاچھل گیا۔اس کا قد میرے برابر تھا لیکن چہرہ پنکش وائٹ تھا۔وہ جب ہنستا تھاتو اس کے گالوں میں گڑھے پڑتے تھے۔ھونٹ ترشے ھوئے سیب کی قاشوں جیسے اور دانت موتی کی طرح چمکتے ھوئے۔پہلی ھی نظر میں میں اس پر اپنا دل ھار گیا۔
میں اس کے ساتھ ھی بیٹھتا تھا اور زیادہ تر وقت میں اسے کن انکھیوں سے اسے تکتا رہتا تھا۔اکثر میری نظریں اس کی پینٹ کی زپ والی جگھ کو ٹٹولتی رہتی تھی۔کئی بار مجھے اس کے ابھار کی انڈرلائن مخسوس ھوئی جس کا اخساس کرکے میرا بھی لمحوں میں کھڑا ھوجاتا تھا۔اب میرے خوابوں میں صرف راحیل ھی تھا۔ کچھ دن بعد کالج میں چھٹیاں پڑگئیں۔تب تک میں اور راحیل بہت گہرے دوست بن چکے تھے۔کبھی کبھی تو مجھے لگتا تھا کہ وہ بھی مجھ میں دلچسپی لیتا ھےاور بعض اوقات میری لاعلمی میں تکتکی باندھ کر مجھے دیکھتا ھے۔میں سوچتا کہ اگر وہ مجھ سے کوئی ایسی بات کرے گا یا اشارہ بھی دیگا تہ میں ہمیشہ کی طرح بےوقوفی نھیں کرونگا اور اپنے دل کی بات کھل کر اس سے کہہ دونگا لیکن ایسا ھوناسکا۔
کالج بند ھوگیا اور ھم روز ملنے سے رہ گئے۔مجھے اس کی یاد ستاتی اور میں کالج کھلنے کی دعا کرنے لگا۔یونہی 15 دن گزرگئے۔وہ اتوار کا دن تھا جب امی نے اْکر مجھ سے کہا کہ تمہارے کسی دوست کا فون ھے۔فون پر راحیل تھا
ْھیپی برتھ ڈے ٹو یو ٌ راحیل کی اواز اٌئی اور میں حیران رہ گیا۔اْج میری سالگرہ تھی اور یہ اسے یاد تھا۔میں نے اسے تھینکس کہا اور اسے بتایا کہ مجھے اس کی بہت یاد اْرھی ھے۔
ْتو ملنے کیوں نھی اٰجاتے ?ٌاس نے کہا ْاج سب گھر والے انکل کے یہاں جا رہے ھیں، اگر تم اتے ھو تو میں رک جاتا ھوں؛
میری تو جیسے دلی مراد پوری ھوگئ۔میں نے فوراٌ حامی بھر لی کہ میں 5 بجے تک اس کے گھر پہنچ جاؤنگا۔اس خیال سے کہ وہ شام کے وقت اپنے گھر اکیلا ھوگا میرے دل میں گدگدی ھونے لگی۔نہ جانے کیوں مجھے شدت سے یہ فیل ھونے لگا کہوہ بھی اکیلے میں مجھ سے ملنا چاہتا ھے۔فون بھی اس نے اسی وجہ سے کیا ھوگا۔میں نے پکی ٹھان لی کہ اگر اس نے زرا سا بھی اشارہ دیا تو میں شرمائے بغیر اسے فوراً اسے اپنی باھوں میں بھر لونگا۔ اس کے گلابی نرم و نازک ھونٹوں کو اپنے ھونٹوں سے چوم لونگا۔اس کے گلابی گالوں کو جی بھر کے چومونگا۔
ا ایسے ھی حالات کے ساتھ میں اس کے نارتھ ناظم اباد بلاک جے کے 240 گز والے شاندار مکان کے سامنے وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ایف بی ایریا سے اس کے گھر تک کوئ بس ڈائریکٹ نھیں جاتی تھی اس لیے مجھے کافی پیدل چلنا پڑا لیکن میں راحیل کے خیالوں میں کھویا ارام سے وہاں پہنچ گیا۔
بیل دبانے پر جس نے دروازہ کھولا اسے دیکھ کر میرا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔وہ کوئ 26،27 سال کا انتہائ خوبصورت لڑکا تھا۔اس کی بڑی بڑی نیلی انکھیں تھی۔کلر ایسا جیسے کسی نے دودھ کی کڑاھی میں بہت ساری روح افزا کی بوتل انڈیل دی ھو۔ھونٹ لال سرخ ھورھے تھے۔اس کا قد 6 فٹ سے نکلتا ھوا تھا اور جسم کسرتی تھا۔چوڑا چکلا سینہ کمر تک اتے اتے وی کی شکل اختیار کر گیا تھا۔اس نے بلیک کلر کی ٹائٹ ٹی شرٹ اور نیکر پہنی ھوئ تھی۔نیکر بہت ٹائٹ اور چھوٹی تھی جس میں سے اس کی بھری بھری رانیں پھوٹی پڑ رہی تھی۔ان گلابی رانوں کو دیکھتے ھی میرا میٹر شورٹ کر گیا تھا۔
اس نے اوپر سے لیکر نیچے تک میرا جائزہ لیا۔اس کے ھونٹوں پر ایک دلاویز مسکراھٹ ابھری
ْجی فرمائیے ،اٌپ کس سے ملنا چاہتے ھیں?ٌ اس نے جلترنگ جیسی اواز میں پوچھا۔
‘وہ جی وہ راحیل۔ ۔ ۔ ٌ میری پھنسی پھنسی اواز نکلی۔اس کی شخصیت کے اگے میرا دم نکل گیا تھا۔
ْاچھا تم سعد ھو ٌوہ مسکرایا ْاجاؤ، راحیل واش روم میں ھےٌوہ اگے چلا میں اس کے ہیچھے۔ پیچھے سے اس کی گاند کی بھری بھری گولائیاں بلکل چپکی ھوئ نیکر کی وجہ سے قیامت ڈھا رھی تھی۔چلتے چلتے وہ اچانک مڑا۔میں بری طرح بوکھلا گیا۔مجھے یوں لگا جیسے اسے پتہ چل چکا ھے کہ میں اس کے کولہوں کو گھور رہا تھا۔
وہ پھر بغور مجھے دیکھنے لگا۔مسکرایا اور دوبارا پلٹ کر چلنے لگا اور ھم ڈرائنگ روم میں اٌگئے۔ٹھیک اسی وقت اندرونی دروازے سے راحیل بھی اْیا اور گرمجوشی سی مجھ سے اْکر لپٹ گیا۔پھر اس نے کہا ْسعد یہ میرے بڑے بھائ ثاقب ھیںٌ واقعی اس کے نقوش راحیل سے بےحد ملتے تھے لیکن حقیقت میں ثاقب راحیل سے بہت زیادہ خوبصورت تھا۔ثاقب شرارت سے مسکرایا۔
ْاصل میں ان کے بھی ایک دوست اْنے والے تھے اس لئے یہ رک گئے ھیںٌ راحیل نے بتایا۔میں اور راحیل بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔کچھ دیر بعد ثاقب اٹھ کر اندر چلاگیا۔میری عجیب سی کیفیت تھی۔بار بار مجھے ثاقب کی ننگی رانوں کا خیال اْرہا تھا۔میرے بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد ثاقب اندر سے بہت سارے لوازمات لیکر اگیا اور راحیل زبردستی مجھے کھانے پر مجبور کرتا رہا۔ثاقب بھی برابر والے صوفے پر اْکر بیٹھ گیا۔میرے بدن میں پھر سرد سی لہریں دوڑنے لگیں میری نظ کھاتے ھوئے پھر ثاقب کی رانیں ٹٹولنے لگیں۔
اسی وقت گھنٹی بجی اور ثاقب اٹھ کر باہر گیا اور جب واپس اْیا تو اس کے ساتھ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔اس میں اورثاقب میں کوئ چیز مشترکہ تھی تو وہ صرف قد کاٹھ تھا۔وہ کافی کالا تھا۔اور ثاقب کے ساتھ تو بلکل حبشی لگتا تھا۔مجھے وہ بلکل اچھا نہیں لگا۔ثاقب نے اس کا مجھ سے تعارف کروایا۔اس کا نام امجد تھا اور وہ بھی ثاقب کے ساتھ انجنئرنگ کالج میں تھا۔وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گیا۔اب ثاقب بلکل میرے برابر اْکر بیٹھ گیا۔اس کی ننگی گلابی ران میری ران سے ٹچ ھورہی تھی۔میں جھکی ھوئ نگاھوں سے اس کی نیکر کا ابھرا ھوا حصہ دیکھ رہا تھا۔نیکر کے اندر سے ہی محسوس ھورہا تھا کہ اس کا ٹول کتنا بڑا ھے۔ایسا لگتا تھا کہ ابھی وہ ابھرا ھوا حصہ نیکر پھاڑ کر نکل اْئے گا۔
اچانک مجھے محسوس ھوا کہ امجد مجھے دیکھ رہا ھے۔میں نے بوکھلا کر اپنی نظریں دوسری طرف گھمالی۔مجھے یوں لگا جیسے امجد مسکرا رہا ھے۔مجھے سخت گھبراہٹ ھونے لگی۔میں نے اپنا دھیان باتوں کی طرف لگایا۔تھوڑی دیر بعد ثاقب اٹھ کر اندر گیا اور نہ چاہتے ھوئے بھی میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔اس کے جسم کا ھر زاوئیہ میرے اندر اْگ لگا رہا تھا۔میں اپنے دل میں راحیل کے لئے کچھ خواب بسا کر اْیا تھا اور میرے دل میں اس کا بھائ اْبسا تھا۔
5منٹ کے بعد امجد بھی اٹھ کر اندر چلا گیا۔راحیل مجھے اپنی کچھ پرانی تصویریں دکھانے لگا۔15 منٹ بعد ثاقب کوک لیکر اٌگیا۔امجد اس کے ساتھ تھا۔کوک پینے کے بعد میں اٹھ کھڑا ھوا کہ اب میں چلونگا۔میں نے انھیں بتایا کہ بس کے لئے مجھے کافی پیدل چلنا پڑے گا تو ثاقب ایک دم بولا کہ امجد حیدری جارہا ھے تمھیں بس تک چھوڑدہگا۔منع کرنے کے باوجود مجھے امجد کے ساتھ اس کی بائیک پر بیٹھنا پڑا۔
بائیک پر امجد کے پیچھے بیٹھ کر مجھے احساس ھوا کہ امجد کا بدن کتنا چوڑا ھے۔اس کی پیٹھ کے پیچھے سے مجھے کچھ بھی نظر نہ ارہا تھا۔امجد مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں کہاں رہتا ھوں۔میں نے بتایا کہ ایف بی ایریا میں تو وہ بولا کہ اسے گھر سے کچھ لیکر گلشن جانا ھے تو میں اس کے ساتھ چلوں وہ مجھے چھوڑ دیگا۔میرے منع کرنے کے باوجود وہ نہ مانا۔چلتی ھوئی بائیک پر اس سے بات کرنے کے لئے مجھے اپنا اٌپ تھوڑا سا اٹھا کر اس کے کان کے قریب جانا پڑرہا تھا جس کی وجہ سے میرا سینہ اس کی پیٹھ سے ٹکرارہا تھا۔اسی دوران مجھے ایک مست کردینے والی خوشبو اس کی شرٹ سے اٹھتی فیل ھوئی اور مجھے احساس ھوا کہ میرا بدن اس کے بدن سے ٹکرا کر ایک سنسنی سی میرے اندر دوڑارہا ھے۔
کچھ ھی دیر میں ھم حیدری کے ایک اپارٹمنٹ میں داخل ھوگئے۔میرے منع کرنے کے باوجود اس نے میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے سیکنڈ فلور کے ایک فلیٹ کا چابی سے دروازہ کھول کر اندر لے گیا۔وہ دو کمروں کا فلیٹ تھا۔اس نے مجھے صوفے پر بٹھایا اور مجھ سے کہا کہ صرف دو منٹ میں ھم چلتے ھیں۔فرج کی طرف جاتے جاتے اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد سے یہاں اکیلا رہتا ھے اور ثاقب جس کمپنی میں چیف انجنئر ھے وھیں ثاقب نے اسے ایک مناسب جاب دلوائی ھوئی ھے۔وہ دو گلاس اور کوک لے ایا اور نہ چاہتے ھوئے بھی میں کوک پینے لگا۔اس دوران اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے انجنئرنگ پوری نہ کر سکا اور یہ ثاقب کا احسان تھا کے بعد میں اس نے اپنی کمپنی میں ایک اچھی جاب دلوادی۔
وہ اپنے بارے میں بتارہا تھا اور میں کوک پیتے ھوئے غور سئ اسے دیکھ رہا تھا۔وہ اتنا کالا نہیں تھا جتنا وہ مجھے ثاقب کے ساتھ کھڑا ھوا لگا تھا۔اس کا رنگ گہرا سانولا تھا اور ھونٹ قدرے بھاری تھے۔گہری اٌنکھیں تھیں۔وہ بلکل میرے قریب بیٹھا ھوا تھا۔مجھے پھر اس کے اندر سے خوشبو فیل ھوئی۔مجھے پھر نیکر میں ملبوس ثاقب یاد اٌنے لگا اور میرے دل میں اس کے خیال سے خماری چھانے لگی۔میں تصور میں ثاقب کی نیکر اتار کر اس کے ٹول کو ھاتھ میں لیکر مسلنے لگا۔اچانک امجد نے میری ران پر ھاتھ مارا۔میں بوکھلا گی
ْکہاں کھوگئےْ اس نے پوچھا اور میں نے گڑبڑا کر بتایا کہ میں اس کی بات سن رہا ھوں۔اچانک اس نے مجھ سے پوچھاْکیا ثاقب تمھیں اچھا لگتا ھےٌ میں ششدر رہ گیا۔سمجھ میں نہیں اٌیا کہ کیا جواب دوں۔ا
جب اس نے میری ران پر ھاتھ مارا تھا تو دوبارہ نہیں ہٹایا تھا۔ ْمیں جانتا ھوں کہ تمہیں ثاقب اچھا لگتا ھے۔ویسے وہ واقعی چیز ھے۔ْامجد کہے جارہا تھا اور مجھے چپکی لگ گئی تھی ۔ْمیرا خیال ھے کہ تم بھی اسے اچھے لگے ھوْ ًٰمیں نظریں جھکائے سن رہا تھا۔مجھ میں کچھ بھی کہنے کی ھمت نہیں تھی۔میرے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی تھی اور میرا پورا وجود کسی اٌگ میں جلنے لگا تھا۔ایسی اٌگ جس میں مزاہ تھا۔
ْکیا تم ثاقب سے اکیلے میں ملنا چاہوگے?ْ اب میں نے حیران ھو کر اپنی نظریں اٹھائی۔عین اسی وقت اس نے اپنے ھاتھ سے میری ران کو دبایا جس سے اس کے سوال کا اصل مقصد اور بھی واضح ھوگیا۔ ‘‘ھاں وہ تمہیں پسند کرتا ھے اور تم بھی اسے پسند کرتے ھو، لیکن اسے دڑ ھے کہ تم اس کے چھوٹے بھائی کے دوست ھو کہیں اسے بتانہ دو ‘‘
میرے پاس اس کے کسی بات کا جواب نہ تھا۔لیکن یہ خیال کہ ثاقب مجھے پسند کرتا ھے میرے وجود کو شرشار کر گیا۔لیکن ابھی بھی میں امجد سے کچھ نہ کہہ سکا۔
‘‘ایک بات بتاؤ کبھی تم نے پہلے کسی کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘امجد نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑدیا اور میں شرم سے پانی پانی ھوگیا۔اسی وقت اس نے میری ران پر اپنا دباؤ اور بڑھادیا۔ ‘‘میں تم کو ثاقب سے اکیلے میں ملواسکتا ھوں۔کیا تم اس سے ملنا چاھوگے?‘‘
میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ میں سختی سے منع کردوں مگر میرا دل مجھے روک رہا تھا۔میرے بدن میں سویئاں سی دوڑ رہی تھی۔
‘‘کیا ۔ ۔ کک کیا یہ ممکن ‘‘ میرے منھ سے بس اتنا ھی نکلا۔
‘‘ھاں ۔تمہاری خواہش پوری ھوسکتی ھے لیکن تمہیں اس گبھراھٹ کو اپنے اندر سے نکالنا ھوگا‘‘
‘‘کک۔ ۔ ۔ کیسے۔ ۔ ‘‘ میرے منھ سے نکلا اور وہ شرارت سے مسکرایا۔اس وقت وہ میرے دل کی بات کررہا تھا اور مجھے دنیا میں اپنے سب سے قریب محسوس ھورہا تھا
‘‘بتادوں کیسے ‘‘اس نے میری اٌنکھوں میں اپنی اٌنکھیں ڈال دیں ۔میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ ایک دم جھکا اور میرے گالوں کو چوم لیا۔اس کا میری ران پر رکھا ھوا ھاتھ کھسکتا ھوا میرے پیٹ پر اٌگیا۔
یہ زندگی میں پہلی بار میرے ساتھ ھوا تھا۔میں ھکا بکا امجد کو دیکھتا رہ گیا۔
‘‘تمہیں برا تو نہیں لگا ‘‘ اس نے تشویش سے پوچھا اور مین حسب عادت چپ رہا۔وہ سمجھ گیا کہ مجھے برا نہیں لگا۔اس کا ھاتھ جہ اب بھی میرے پیٹ پر تھا تھوڑا سا نیچے اٌیا اور میری پینٹ کی زپ والی جگہہ پر اٌکے ٹھہر گیا۔ایک لمحے بعد وہ دوبارا جھکا اور اپنے ھونٹ میرے ھونٹوں پر رکھ دیئے اور میری زپ والی جگہہ پر اس کے ھاتھ کا دباؤ ایک دم بڑھ گیا۔میرا پورا بدن اٌہستہ اٌہستہ کپکپانے لگا۔اس بار اس نے بغیر رکے میرے ھونٹوں کی کسنگ جاری رکھی۔
میری اٌنکھیں خودبخود بند ھوگیئ۔اس نے دانتوں سے میرے ھونٹ کاٹنا شروع کردئے۔میں نے اپنے ھونٹ دبائے ھوئے تھے۔پھر اس نے میرے ھونٹوں پر اپنی زبان پھیرنا شروع کردی۔اس کی زبان کی گیلاہٹ میں نے اپنے ھونٹوں پر فیل کی اور پھر اس کی زبان کا دباؤ میرے دبے ھوئے ھونٹوں پر پڑا اور نہ چاہتے ھوئے بھی میرے دونوں ھونٹ کھل گئے اور اس کی گرم زبان میرے منھ میں دوڑ گئی۔میرا پورا وجود طوفانوں کی لپیٹ میں تھا۔بند اٌنکھوں سے میرے تصور میں ثاقب در اٌیا۔مجھے لگا جیسے ثاقب کے سرخ ھونٹ میری زبان کو چوس رھے ھیں اور اس کی رسیلی زبان میرے منھ میں دوڑ رہی ھے۔لذّت اور انبساط سے میری روح تک شرشار ھوگئی۔وہ دیوانوں کی طرح میرے ھونٹ اور زبان چوس رہا تھا۔ساتھ ھی اس کے گرم ھاتھ میری پیٹھ پر دوڑ رہے تھے۔میں نے اس کےتھوک کو امرت سمجھ کر اپنے حلق سے نیچے اتارا اور پھر اس کا حسین گلابی چہرہ دیکھنے کے لئے اپنی اٌنکھیں کھولدیں اور اپنے سامنے امجد کا چہرہ دیکھ کر میرے اندر مایوسی پھیل گئی اور میں نے غیر اردی طور پر اپنا سر پیچھے ہٹایا۔
‘‘کیا ھوا ‘‘اس نے بڑے پیار سے مسکرا کر پوچھا
‘‘کک۔ ۔ کچھ نہیں ‘‘میں اتنا ہی کہہ پایا۔اس نے میری کمر پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف گھسیٹا۔ثاقب کی جگہہ امجد کو دیکھ کر میرے اندر مایوسی پھیل گئی تھی۔
‘‘کیا ثاقب میرے ساتھ واقعی یہ سب۔ ۔ ۔ کرنا ۔ ۔ مطلب مجھے پسند کرتا ھے ‘‘ میرے اس اچانک سوال سے سے اس کی مجھ پر نہ صرف گرفت کمزور ھوگئی بلکہ اس کے چہرے سے لمحہ بھر کے لئے مسکراہٹ بھی غائب ھوگئی لیکن دوسرے لمحے میں وہ مسکرایا۔یقینّا اسے ثاقب کے لئے میری بے چینی بری لگی تھی۔
‘‘تم بھول رہے ھو میرے ساتھ تمہیں زبردستی بائیک پر اسی نے بٹھایا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ میں تمہیں کسی طرح کریدوں کہ تم اسے چاہتے ھو کہ نہیں۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی ایسی گڑبڑ ھو کہ جس سے راحیل یا گھر کے کسی اور فرد کو پتہ چل جائے۔میں وعدہ کرتا ھوں کہ کچھ دنوں میں حالات سازگار کرکے تمہیں اس سے ملوادونگا ‘یہ کہہ کر وہ دوبارا جھکا اور میرے منھ میں اپنی زبان گھسیڑ دی۔میں امجد کو ناراض کرنا نہیں چاہتا تھا۔وہی تھا جو مجھ جیسے ڈرپوک لڑکے کو ثاقب سے ملواسکتا تھا اور دوسری بات یہ کہ میرا اپنا گرم وجود اس وقت چاہ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنے اندر سمالے۔
اس نے مجھے دونوں ھاتھوں سے پکڑ کر مجھے اپنے سینے سے بھینچ لیا اور دیوانہ وار میرے منھ میں اپنی زبان دوڑانے لگا۔میری سانسیں اتھل پتھل ھورہی تھیں اور زندگی کا وہ لطف جس کا میں صرف خواب دیکھا کرتا تھا کہ کسی کے سینے سے لگ کر اپنے جنم جنم کی پیاس بجھالوں وہ اٌج میں نے پالیا تھا۔کتنی عجیب بات تھی کہ اٌج میں گھر سے راحیل کے ساتھ کچھ کرنے کی خواہش لیکر نکلا تھا اور اس کے گھر پہنچنے کی بعد میرے خوابوں مینں مجھ سے دس سال بڑا اس کا بھائی اٌبسا تھا لیکن میرا وہ خواب ایک تیسرے ھی فرد کے ساتھ پورا ھوا تھا جو پہلی نظر میں مجھے بہت برا لگا تھا۔ امجد مجھے سینے سے بھینچے میرے ھونٹ چوس رہا تھا اور پھر اس نے اپنی زبان سے میرے گال چاٹنا شروع کردیئے۔وہ پاگلوں کی طرح میرے پورے منھ کو چوس رہا تھا۔کبھی گال تو کبھی اٌنکھیں اور کبھی میری گردن۔یونہی چومتے چوستے وہ میرے کان تک اٌیا اور اپنے دانتوں سے کان کا سرا اٌہستہ اہستہ کترنے لگا۔شدت لزت سے میری اٌھ نکل گئی۔
کانوں پر اپنی زبان پھیرتے ھوئے وہ بڑی مدھ بھری اٌواز میں بولا ‘‘سعد یو اٌر گریٹ! تم بہت کیوٹ اور بھولے ھو۔میرا دل کررہا ھے کہ میں تمہیں اپنے اندر کہیں چھپالوں ۔تمہارے اندر ایک نشہ ھے ‘‘یہ کہتے ھوئے اس نے مجھے سینے سے لگائے ھوئے اٹھالیا اور مسلسل کسنگ کرتے ھوئے مجھے بیڈروم میں لے اٌیا اور بڑے پیار سے مجھے بستر پر لٹادیا۔پھر وہ خود میرے اوپر چھاگیا۔اس کے چوڑے چکلے وجود کے اٌگے میری مثال کبوتر جیسی تھی لیکن پورا مجھ پر اجانے کے باوجود اس نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ میں اس کے نیچے اٌکر پس نہ جاؤں ۔جانے مجھے کیا ھوا کی میں نے اپنی شرم طیاق کر اپنے دونوں ھاتھ اس کی گردن کے گرد گھمائے اور اس کے منھ کو اپنی طرف کھینچ کر اس کے ھونٹوں پر کس کی۔امجد ششدر ھوکے مجھے دیکھنے لگا۔شاید اسے میری طرف سے کسی پیشقدمی کی امید نہ تھی۔دوسرے لمحے میں میری اس ادا پر فدا ھوکے اس نے دوبارا مجھے چومنا شروع کردیا۔
میں اٌنکھیں بند کرکے جیسے ھواؤں میں اڑرہا تھا۔میرا پورا وجود لرز رہا تھا ۔میرا لند میری پینٹ میں اتنا کھڑا ھوگیا تھا کہ پھنس رہا تھا۔دیکھتے دیکھتے امجد نے میری شرٹ کے سارے بٹن کھول ڈالے۔میرا نازک سا جسم اب اس کے سامنے کھلا تھا۔اس سے پہلے کے میں سوچتا کہ وہ اب کیا کرے گا اس نے اپنی زبان میرے ایک نپل پر رکھی اور اسے باقاعدہ چوسنے لگا۔اف۔ ۔ میری تو کراہ نکل گئی ۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے چوسنے سے میرے بدن میں اس طرح کرنٹ دوڑ جائے گا۔میرے منھ سے مسلسل اٌھیں نکل رھی تھیں اور وہ ایک کے بعد ایک نپل چوسے جارہا تھا۔او گوڈ اتنا مزاہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔اور اس وقت تو غضب ھی ھوگیا جب چوستے چوستے وہ میرے پیٹ سے ھوتا ھوا میری ناف تک اٌیا۔مجھے ایسا لگا جیسے ایک اٌگ سینے سے رینگتی ھوئی میرے ناف تک اٌگئی ھو۔اور پھر امجد نے اپنی دہکتی زبان میری ناف میں گھسیڑدی۔میں جیسے اچھل پڑا۔ایک اٌہ سی میرے منھ سی نکلی اور میں نے شدت جزبات سے امجد کے سر کے بال پکڑلئے۔امجد ان باتوں سے بے پرواہ میری ناف کے گرد اپنی زبان گھما رہا تھا اور میں مسلسل سسکاریان بھر رہا تھا۔
میں ساتویں اٌسمان پر اڑرہا تھا اور امجد میرے پیٹ کا ایک ایک حصہ چوم رہا تھا اور چوس رہا تھا۔اس کا ایک ھاتھ میری پینٹ کے ابھرے ھوئے حصے پر تھا جس کے دباؤ سے میرا لند اکڑنے لگا تھا۔پھر اس کے دوسرے ھاتھ کی ایک انگلی میری پینٹ کے اوپر سے اندر سرائیت کر گئی۔مانو میری تو جیسے سانس رک گئی۔اس کی انگلی شاید میری انڈروئیر سے ٹکرائی اور اس نے تھوڑی سی اسے باہر کھینچ لی۔میں نے سرخ رنگ کی انڈروئیر پہنی ھوئی تھی جس کا تھوڑا سا سرا باہر اٌگیا تھا۔وہ میری انڈروئیر دیکھ کے مسکرایا۔‘‘لال کلر سیکس کا کلر ھوتا ھے اور میں سمجھ سکتا ھوں کہ تم عرصے سے اپنی خواہش دبائے بیٹھے ھو اپنا من مار کر شرم اور بدنامی کے خوف سے صرف تصورات میں جی بہلارھے تھے۔اور میں یہ بھی جانتا ھوں کہ اٌج تم زندگی میں پہلی بار ایسا کر رھے ھو۔اٌج تم بےخوف ھوکر اپنے دل کی بھراس نکال سکتے ھو۔یقین کرو میں دل سے تمہارے ساتھ ھوں۔اٌج صرف اور صرف تمہارا دن ھے ‘‘ اس کے بعد وہ دوبارا جھکا اور میرے ھونٹ بڑی نرمی سے چوم لئے۔
اس کا انداز میرے ساتھ بہت ھی والہانہ تھا حالانکہ اگر وہ چاہتا تو مجھے نوچ کھسوٹ سکتا تھا میں کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔لیکن وہ مجھے تکلیف پہنچائے بغیر مجھے مزاہ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔کسنگ کرتےکرتےاس کا ھاتھ پھسلتا ھوا میری پینٹ کے بیلٹ تک پہنچا اور اس نے میرا بیلٹ کھول دیا۔اس کی زبان دوبارا میرے منھ میں دوڑ گئیاور اسی کے ساتھ اس نے پینٹ کا بٹن کھول کے میری زپ نیچے کردی۔زپ کی اٌواز کے ساتھ میرا دل اچھل کر حلق میں اٌگیا۔اتنا ٹینس میں زندگی میں کبھی نہیں ھوا تھا ۔عین اسی وقت اس نے دانتوں سے میری زبان پکڑلی اور اسے چوسنے لگا۔ساتھ ساتھ اس کا ھاتھ پینٹ کے اندر کھسک گیا۔انڈروئیر پر ھونے کے باوجود اس کے ھاتھوں کی ھیٹ میں نے اپنے فل ٹینشن میں اٌئے ھوئے لند پر محسوس کی۔میں ایک جھرجھری لیکر رہ گیا۔
میری سانسیں اتھل پتھل ھوچکی تھیں ۔اس نے انڈروئیر کے اوپر سے میرا لند پکڑ لیا۔میری ایک طویل اٌہ نکل گئی۔اس نے بیتاب ھو کر میری زبان چوسنے کی رفتار بڑھادی۔ پھر وہ میرے ھونٹوں پر اپنی زبان پھیرتا ھوا میری گردن تک اٌیا اور پھر وھاں سے پھسلتا ھوا میری نپل تک اٌیا اور چند لمحیں اسے چوسنے کے بعد سینے سے ھوتا ھوا پیٹ پر اٌیا ۔اس کی زبان کی گرمی اور گیلاہٹ سے میرا تن بدن جل رہا تھا۔ناف پر پہنچ کے اس نے ناف کے اندر تک زبان گھسیڑدی۔ساتھ ساتھ وہ خود بھی پھسلتا ھوا نیچے ھوگیا تھا۔اس کے دونوں ھاتھ میری پینٹ پر تھے۔ناف چوستے ھوئے اس نے اپنے ھاتھوں کے زور سے میری رانوں کو اوپر اٹھایا اور زبان ناف سے نیچے لے جاتے ھوئے میری پینٹ نیچے کردی اور اپنا منھ میری سرخ انڈروئیر کے اوپر رکھ کے میرے ابھرے ھوئے حصے کو اپنے دانتوں میں دبالیا۔یہ کام اس نے اتنی تیزی اور مہارت سے کیا کہ سرور اور کیف کی کیفیت میں میری ہلکی سی چیخ نکل گئی۔
میں زلزلوں کی لپیٹ میں تھا اور وہ میرا لند انڈروئیر کے اوپر سے اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا۔میری سسکیاں لزت و انبساط سے اٌھوں میں اور پھر کراھوں میں بدل گئی تھیں۔سرور کا ایک سلسلہ تھا جو رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔امجد بھی رکا نہیں تھا۔گہری گہری سانسوں کے ساتھ اس کا بھی کام جاری تھا۔اب وہ انڈروئیر کے اوپر سے ھی میرا لند چوس رہا تھا۔اس کے والہانہ انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ اسے بھی بیحد مزاہ اٌرہا ھے۔اس کے تھوک سے میراے انڈروئیر کا وہ پورا حصہ گیلا ھوچکا تھا اور میرے لند کی پوری اٌؤٹ لائین لند کے وائٹش کلر کے ساتھ صاف نظر اٌنے لگی۔اس نے چمکتی اٌنکھوں سے لمحہ بھر رک کر میرے ابھرے ھوئے لند کا جائزہ لیا اور پھر بیخود ھوکر دوبارہ انڈروئیر کے اوپر سے میرے لند کو منھ میں لیکر چوسنے لگا۔مستی میں اٌکر میں نے اس کے ڈولتے ھوئے سر پر ھاتھ رکھ کر اس کے بالوں کو پکڑ لیا۔
دیر تک وہ انڈروئیر کے اوپر سے میرا لند چوستا رہا۔میرے انڈرویئیر کا اوپری حصہ پورا گیلا ھوگیا تھا۔ساتھ ساتھ وہ میری انڈروئیر سے نکلتی ھوئی چکنی اور گوری رانوں پر بھی اپنی زبان پھیرتا رہا۔اس کی زبان کی حدت سے میرا پورا وجود پھنک رہا تھا۔اس کی بیخودی کا یہ عالم تھا کہ کبھی چومتا تھا کبھی چوستا تھا کبھی کاٹتا تھا۔میرا لند تن کر پوری طرح میری انڈروئیر میں کھڑا ھوچکا تھا۔اایک وقت اٌیا کہ میرے لئے یہ ناقابل برداشت ھوگیا۔میں ایک جھٹکے سے پلنگ پر بیٹھا اور بالوں ھی سے پکڑ کر اس کا سر اٹھایا اور اس کے سلگتے ھوئے ھونٹوں پر اپنے ھونٹ رکھ دئیے اور باقاعدہ سسکاریاں لیتے ھوئے اس کے ھونٹ بیدردی سے کاٹنے لگا۔اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھے ھوئے میرے لئے اپنے اٌپ کو ڈھیلا چھڑدیا۔اب میری زبان اس کے سیاھی مائل منھ کو چوم رھی تھی۔اس کے ھونٹ چوس رھی تھی۔اس کے منھ میں گھوم رھی تھی۔اس وقت مجھے اپنے جسم کی بھوک یاد تھی صرف۔نہ مجھے راحیل یاد تھا اور نہ ثاقب۔نہ مجھے یہ یاد تھا کہ جس کے ھونٹوں کو میں چاٹ رہا ھوں پہلی نظر میں وہ مجھے سخت برا لگا تھا۔
میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کے گال چاٹنے لگا۔پھر چاٹتے چاٹتے اس کی گردن پر زبان پھیرنے لگا۔میں نے اپنے لرزتے ھاتھوں سے اس کی شرٹ کا بٹن کھولنا شروع کردیا ۔اس نے مسکرا کر نیچے سائیڈ سے اپنے بٹن کھول دیئے۔اب اس کا چوڑا چکلا سینہ میرےسامنے تھا۔
اس کے سینے پر معمولی بال تھے۔نپل بڑے اور ابھرے ھوئے تھے اور پیٹ تو جیسے تھا ھی نہیں۔بلاشبہ اس کا جسم کافی سیکسی تھا۔ میں نے اس کی بڑی سی کمر پر اپنا ھاتھ رکھا اور جھک کر اس کے نپل کو اپنے منھ میں لے لیا۔ اس نے ایک طویل سسکاری بھری۔اس کا بدن جھرجھرایا۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کتنوں کہ ساتھ سیکس کرچکا ھے لیکن مجھے یہ اندازا ضرور ھو گیا تھا کہ میرے ساتھ اسے بہت مزاہ اٌرہا ھے اور میری طرح وہ وجد کی کیفیت میں ھے حالانکہ میرا تو یہ پہلا تجربہ تھا۔اسی کی طرح نپل چوستے چوستے میں زبان پھیرتا ھوا نیچے ھوتا چلاگیا اور اس کی سسکاریوں میں اضافہ ھوتا چلاگیا اور جب میں ناف تک پہنچا تو وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔جب میں نے اس کی ناف پر اپنی ننگی زبان پھیری تو وہ تڑپ اٹھا۔میں اس کے اندر دبے ھوئے پیٹ پر اپنی زبان پھیرتا رہا اور وہ اٌنکھیں بند کئے مزے لیتا رہا۔اس کے بعد جب مجھ میں مزید برداشت نہ رہی تو میں نے اس کی پینٹ کی بیلٹ پر اپنا ھاتھ مارا۔اٌنے والے لمحات کے تصور سے اس کا پورا جسم کانپ کر رہ گیا۔خود میری سانسیں اکھڑ گیئں تھین۔ اور پھر جب میں نے بیلٹ کھول کر اس کی پینٹ نیچے کی تو وائیٹ اندڑویئر میں اس کا وہ حصہ میرے سامنے تھا جس کو دیکھنے کے تصور سے مجھے کپکپی طاری ھوگئی تھی۔
انڈروئیر کے پیچھے چھپے مال کو دیکھ کر میری اٌنکھیں پھیل گئیں ۔اس کے لند کی اٌؤٹ لائین اتنی بڑی تھی کہ مجھے خوف لاحق ھوگیا لیکن سیکس کے بڑھتے ھوئے ٹینشن نے مجھے زیادہ سوچنے کا موقع نہیں دیااور میں نے بے صبری سے اس کی انڈروئیر کے ابھرے ھوئے حصے پر اپنے ھونٹ رکھ دئے۔وہ بری طرح تڑپا۔میں نے اس کی گاند پر دونوں ھاتھ رکھ کے اپنا پورا منھ اس کی جانگھوں میں گھسا دیا۔اس کے ابھرے ھوئے بڑے سے لند کو میں نے انڈروئیر کے اوپر سے اپنے منھ میں لیا اور اٌہستہ سے اس پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔میں وہی کررہا تھا جو اس نے میرے ساتھ کیا تھا کیونکہ میرے خیال میں یہ اس کا حق تھا۔زندگی میں پہلی بار اس نے مجھے اس لزت سے روشناس کروایا تھا جس کی تمنا میں میں عرصے سے مراجا رہا تھا۔میں نے اس کی کالی رانوں پراپنی زبان پھیری۔اس کی رانیں بالوں سے صاف تھیں ۔رانوں سے کافی نیچے جا کر اس کی ٹانگوں پر بال تھے۔اس کی جلتی ھوئی رانوں پر زبان پھیرنے سےمجھے بڑا مزاہ اٌرہا تھا۔ اس کی پھنسی ھوئی انڈروئیر سے نکلتی رانیں میرے لئے وجد اٌور ھوگئی تھیں۔میں نےران کی اسی طرف سے انڈرویئر کو اور اوپر اٹھایا یہاں تک کہ اس کے ٹٹے کا ایک حصہ نظر اٌنے لگا اور وہیں اپنی زبان گھسیڑدی،
‘‘اف ۔ ۔ اٌہ۔ ۔ میں گیا۔‘‘ وہ تڑپ اٹھا۔میں نے مزید انڈرویئر کو اٹھایا اور ساتھ ساتھ میری زبان نے اندر کی طرف پیشقدمی جاری رکھیْْاو سعد ۔۔ ۔ اٌئی لو یو مائی بوائے۔ ۔ اٹس امیزنگ ۔ ۔ او گوڈ۔۔‘‘ وہ مسلسل سسکاریاں بھرتے ھوئے کچھ نہ کچھ کہہ تہا تھا اور میں مسلسل اس کی ران کی طرف سے اپنی زبان اس کی انڈروئیر کے اندر تک لیتا چلاگیا۔
میری زبان ران کے اٌخری حصے پر کونے سے ٹکرارہی تھی اور اس کے ایک ٹٹے کا کچھ حصہ بھی میری زبان کی زد میں اٌرہا تھا۔میں اپنی زبان دبا دبا کر اس کی ران کے اٌخری کونے پر پھیرتا رہا اور وہ سسک سسک کر میری حوصلہ افضائی کرتا رہا۔اس کے ابھار کا سائز بڑھتا رھا اور وہ وقت اٌیا جب اس کے لند کا اینگل پھسل کر کچھ کم ھوا تو مجھے وہ ہپناٹائز کردینے والا منظر نظر اٌیا۔اس کے بڑے سے لند کا ٹوپا انڈروئیر سے باہر چھلک اٌیا تھا۔میں سب کچھ بھول کر مسحور ھوکے انڈروئیر سے باہر نکل اٌنے والے اس کے کالے لیکن چکنے لند کے بڑے سے ٹوپے کو دیکھنے لگا۔میرے لئے یہ ایک جادوئی منظر تھا۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی اور کے لند کو نہیں دیکا تھا۔پھر جیسے میں سلوموشن میں بلکل ہپناٹائز ھوکے انڈروئیر کے اوپر سے اس کے لند کو اپنے منھ سے رگڑتا ھوا اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھا اور اس کے جلتے ھوئے لند کے نظر اٌنے والے حصے پر اپنی زبان پھیری اور دوسرے لمحے میں پورا ٹوپا اہنے منھ میں لی لیا۔اس کا پورا لند لزت کی شدت سے تھرا گیا اور انڈروئیر تھوڑا اور نیچے ھوگیا ۔وہ لند اٌہستا اٌہستہ مجھے تڑپا تڑپا کر سامنے اٌرہا تھا اور میں صبر کئے بغیر اسے اور اپنے منھ میں لیتا جارہا تھا ۔
اس کے منھ سے لایعنی اٌوازوں کا سلسلہ جاری تھا جو مجھے یہ احساس دلا رہا تھا کہ اسے کتنا مزاہ اٌرہا ھے اور میں بھی بغیر رکے اس کے لند کے اوپری حصے کو چوسے جارہا تھا۔اس کے لند کی موٹائی سے میرا منھ تھک سا گیا اور میں نے اپنی زبان اور منھ کے تلے اس کے لند کو پوری قوت سے دبا کر اپنے منھ کو باہر کھینچا۔وہ شدت لزت سے چیخ پڑا۔میرے بھی صبر کا پیمانہ چھلک پڑا اور میں نے دونوں طرف سے پکڑ کر اس کی انڈروئیر نیچے کھینچ لی۔اس کا اکڑا ھوا لند کسی راڈ کی طرح میرے گال سے ٹکرایا اور میں لند کا سائز دیکھ کر بوکھلا گیا۔اس کا لند اٌٹھ انچ سے بھے بڑآ اور دو انچ سے زیادہ موٹا تھا۔میں یک تک لند دیکھے جارہا تھا۔
اس کو دیکھ کر میری اٌنکھوں میں تشویش کی پرچھائی لہرائی جو مجھے ایسا لگا کہ اس نے بھانپ لی ‘‘ثاقب کو میرا لند بہت پسند ھے۔وہ کئی کئی منٹوں تک اسے چوستا رہتا ھے ‘‘ مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس جملے سے اس کا مقصد کیا ھےلیکن اس کا یہ جملہ سن کر میرا دل کٹ کر رہ گیا۔نہ جانے کیوںمجھے یہ سن کر بلکل اچھا نہیں لگا کہ ثاقب اس کا لند چوستا ھے۔چشم تصور سے میں نے دیکھا کہ ثاقب کہ خوبصورت منھ میں امجد کا کالا لند ھے۔اور وہ اسے مزے لی لیکر چوس رہا ھے۔اس کے گلابی امجد کے لند کو چوم رھے ھیں اور اس کی ھموار زبان امجد کے پورے لند کو چاٹ رہی ھے۔کبھی وہ اپنے منھ میں میں امجد کے کالے ٹٹے لیکر چوس رہا ھے۔میرے لیئے یہ تصور روح فرسا تھا کہ جا سے مجھے پہلی نظر میں محبت ھوگیئ تھی وہ کسی اور کا اور وہ بھی اتنا کالا لند اپنے منھ میں لیتا ۔میرے نزدیک یہ ثاقب کے منھ کی توہین تھی۔پھر مجھے خیال اٌیا کہ میں بھی تو ھوس کے ھاتھوں مجبور ھوکر امجد کا کالا لند چوس رہا تھا۔میں نے ایک گہری سانس لی اور امجد کا بڑا سا لند اپنے دونوں ھاتھوں سے پکڑا ۔اس کے بوجود اس کے لند کا ٹوپا پورا ھاتھوں کی گرفت سے باہر تھا اور ایک اور تصور اپنے دماغ میں لایا کہ اس لند پر ثاقب کے خوبصورت ھونٹوں کا لمس ھے۔اسے اس کے سرخ لبوں نے چوسا ھے۔ایک بار پھر اس خیال نے مجھے بی حال کردیا اور مٰیں نے بی تاب ھوکر اس کے لند کا ٹوپا اہنے منھ میں لی لیا اور جہاں تک میرے ھاتھ تھے وہاں تک میں نے امجد کا لند منھ میں لیکر چوسا اور اس کے لند کی نوک پر گیلی زبان پھیری۔اپنے تیئں میں امجد کا لند نہیں چوس رہا تھا بلکہ ثاقب کے لبوں کو چوس اس تھوک کی مہک فیل کررہا تھا جو امجد کے لند کو چوستے ھوئے ثاقب کے منھ سے نکل کر امجد کےلند کو گیلا کر گئی تھی۔میں نے اپنا ایک ھاتھ ہٹادیا اور امجد کے لند کو اپنے منھ میں اور اندر تک لے گیا اور پوری دلجمعی سے اسے چوسنے لگا۔حقیقت تو یہ ھے کہ اس کا اٌدھا لند بھی پوری طرح میرے منھ میں نہیں اٌسکا تھا۔
امجد کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ھوگئا اور اس نے مجھے اٹھایا اور میرے گیلے ھوتے ھوئے منھ میں پھر اپنی زبان گھسیڑدی اور بےتابانہ اسے چوسنے لگا۔اس کے ھاتھ پھسلتا ھوا میرے کمر تک اٌیا اور پھر اس نے بھی میری سرخ انڈروئیر کھینچ لی۔میرا تھراتا ھوا لند اس کے لند سے ٹکرایا اور مانو چنگاریاں پھوٹ پڑی اور میں نے اس کے جسم سے اپنا جسم بھینچ لیا۔میرا نچلا نازک سا حصہ اس کے بھرے ھوئے نچلے حصے سے ٹکرارہا تھا ۔میرا لند اس کے لند سے باتیں کررہا تھا۔دیر تک وہ میرے منھ کی کسنگ کرتا رہا۔
‘‘ او سعد ۔۔ ۔ میں جھوٹ نہیں بولونگا۔تم سے پہلے تم سے بھی خوبصورت لڑکوں کے ساتھ میں نے ایسا کیا ھے لیکن میری جان جو مزاہ مجھے تمہارے ساتھ اٌیا ھے وہ کسی کے ساتھ پہلے نہیں اٌیا۔تمہارے اندر کوئے ایسی کشش ھے کہ میں بھی پاگل ھوگیا ھون۔ اٌئی لو یو مائی ڈارلنگ۔ ۔ ‘‘ان جملوں کے ساتھ اس نے میری کسنگ بھی جاری رکھی اور پھر بڑی نرمی سے اس نے مجھے ہلکا سا پیچھے ہٹا کر میرے لند پر نظر ڈالی ۔میرا لند تقریباْ ساڑھے پانچ انچ لمبا تھا اور اس کے اپنے لند کے مقابلے میں کافی پتلا تھا لیکن بلکل سیدھا اور تنا ھوا تھا۔ میرا لند بلکل سفید دودھ جیسا اور بے داغ تھا۔میرے لند کو دیکھ کر اس کی اٌنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔اس نے بڑی ملائمت سے میرے تنے ھوئے لند کو پکڑا اور اہستہ اٌہستہ اسے سہلانے لگا ۔اس کے ھاتھوں میں میرا لند ھچکولے کھا رہا تھا۔پھر وہ گھٹنے کے بل بیٹھ گیا اور کئی لمحوں تک میرے لند پر نظر جمائے رہا۔اٌنے والے وقت کے تصور سے میرے اندر ہیجانی سی کیفیت طاری ھوگیئ اور پھر وھی ھوا جو میں سوچ رہا تھا۔اس نے اپنے بڑے سے منھ میں میرا پورا لند لے لیا۔
اس کے گرم گرم منھ میں جا کر میرا لند جیسے سلگ اٹھا اور میری ایک ہیجانی سی چیخ نکل گئی۔مین نے پھر اس کے بال جکڑلیے جیسے لزت اگر ناقابل برداشت ھو گیئی تو میں اسے بالوں سے جکڑ کر روک دونگا۔لیکن یہ لزت تو جتنی بڑھتی ھے اتنا ھی مزاہ اٌتا ھے۔وہ باقاعدہ اواز کے ساتھ میرا لند چوس رہا تھا اور اندر باہر کررہا تھا۔میرے لند کا سرا اس کے حلق سے جا کر ٹکرارہا تھا اور اس کا تھوک میرے پورے لند کو نہ صرف گیلا کر گیا تھا بلکہ باقاعدہ باہر رس رہا تھا۔اس کے وحشیانہ تابڑ توڑ چوسے نے میرا لند اکڑا دیا تھا اور اب مزید برداشت کرنا مشکل ھوا جا رہا تھا۔اٌخر میں چلایا بس امجد بس۔ ۔
امجد نے میرا لند چوسنا چھوڑدیا ۔میرا لند بری طرح جھٹکے کھا رہا تھا۔وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے دونوں ھاتھوں سے میری گاند دبانے لگا۔اس کا ھاتھ میری گاند کی لکیر کے گرد گھوم رہا تھا۔میں اپنی اتھل پتھل سانسوں کو کنٹرول کررہا تھا۔اس دوران اس کی انگلی میری گاند کی لکیر کو اٌہستہ اٌہستہ چیررہی تھی۔اور پھر مین نے محسوس کیا کہ اس کی انگلی کا سرا میریے سوراخ کے گرد ٹھرگیا ھے اور پھر مجھے اپنی گاند کے سوراخ پر اس کی انگلی چکراتی محسوس ھویئ۔یہ ایک نیا مزاہ تھا جس کا مجھے زرا اٌئیڈیا نہ تھا۔سنسنی کے مارے میری گاند کا سوراخ پھڑپھڑانے لگا۔
پھر اس کی انگلی کا دباؤ میرے سوراخ پر بڑھ گیا۔میں نے ایک سسکاری لی۔اس نے پیشقدمی جاری رکھی۔اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ سخت خواری کے عالم میں ھے۔اس نے انگلی کو اور اندر کی طرف پش کیا اورشاید اس کی انگلی ناخن تک اندر گھس گئی لیکن میں خود تکلیف سے ہلکے سے چیخا تو اس نے فوراً انگلی کھینچ لی اور میرے لند والی جگہہ میں پھر اپنا منھ رکھ کر میرے لند سے رگڑنے لگا اور پھر اَہستہ اَہستہ اٹھ کھڑا ھوا۔اس کی اٌنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ سخت بےخودی کے عالم میں ھے۔‘‘سعد۔ ۔ او مائی بوائے۔ ۔میں کیا کہوں تم کک۔ ۔ ۔ کیا چیز ھو? میں تمہیں بہت چاہتا ھون۔مم ۔ میں نے اٌج تک کبھی کک۔ ۔ کسی سے گاند نہیں مروائی۔ ۔ کک ۔ ۔ کیا تم ہاں میرے دوست تم مم ۔ ۔ میری گاند مارنا پپ ۔ ۔ پسند کروگے?”
میرا دل ان لفظوں کی ایکسائٹمنٹ سے اچھل پڑا۔میرے لند نے اوپر نیچے دوچار جھٹکے لئے۔مجھے اس سے اس پروپوزل کی امید نہ تھی۔یا تو میرا جادو اس پر پوری طرح چل گیا تھا یا پھر وہ میرا چھوٹا سا لند اپنی گاند میں لیکر بدلے میں اپنا بڑا سا لند میری گاند میں ڈالنا چاہتا تھا۔لیکن ایک اور خیال نے میرا دل بٹھادیا۔اگر امجد نے اٌج تک گاند نہیں مروائی تھی تو پھر ثاقب۔ ۔
۔ ‘‘کیا ثاقب نے بھی نہیں?”سوچ کے ساتھ ساتھ میرے منھ سے نکل گیا۔امجد نے چونک کر مجھے دیکھا ۔اس کے چہرے پر ایک سایہ سا لہراگیا۔
‘‘نہیں۔ ۔ ” وہ گہری سنجیدگی سے بولا۔‘‘ثاقب کو چکنے اور کم عمر لونڈے پسند ھے۔تمہارے جیسے۔اس کا دل ایک سے دوچار ملاقاتوں میں اکتاجاتا ھے”اٌخری جملہ مجھے اضافی لگا۔شایدمجھے ثاقب سے بدزن کرنے لئے۔
لیکن میرا دماغ تو ایک اور مسئلے میں ہھنس گیا تھا۔اگر ثاقب امجد سے گاند نہیں مرواتا تھا تو اس کا لند تو چوستا تھا ۔تعلق تو تھا۔تو کیا۔ ۔
‘‘تو کک۔ ۔ کیا تم اس کی۔ ۔ گاند۔ ۔ ۔ ”میں جملہ پورا نہ کرسکا۔وہی چشم تصور سے پھر میں نے دیکھا کہ ثاقب الٹا ننگا ھوکر لیٹا ھوا ھے اور امجد اپنا موٹا کالا لند ثاقب کی گدرائی ھوئی گاند کے سوراخ پر رکھ کر دھکا لگا رہا ھے اور چند لمحوں میں ایک طویل چیخ کے ساتھ ثاقب نے اس کا پورا لند اپنی گاند میں لے لیا۔
‘‘نہیں ” امجد کا جواب کافی دیر بعد اٌیا۔جانے کیوں میرے دل میں اطمینان کی ایک لہر ڈور گئی۔‘‘ثاقب نے شاید کبھی کسی سے گاند نہیں مروائی۔میرا صرف لند چوسنا اسے اچھا لگتا ھے۔
اسی دوران وہ دراز میں سے کریم کی ایک ٹیوب اٹھالایا اور بہت ساری کریم نکال کر میرے لند پر بکھیر دی۔اس نے میرا لند لینے کا پورا ارادہ کرلیا تھا۔میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ میں اسے روک دوں پر میری ھوس میرے دماغ پر غالب اٌگئی اور میں خاموشی سے اسے کریم میرے لند پر مسلتے دیکھتا رہا۔اس نے دوبارہ کریم نکالی اور میرے دیکھتے دیکھتے اس نے ٹیوب ایک سمت پھینکی اور خود بستر کے کنارے پر بیٹھا۔ٹانگیں نیچے کئے ھوئے وہ پیٹھ کے بل لیٹا۔اپنی دونوں ٹانگیں مخالف سمت میں چیریں اور پھر اپنے ھاتھ کی کریم ساری اپنی گاند کے سوراخ کے گرد بکھیردی اور میرے دیکھتے دیکھتے اپنی موٹی سی درمیانی کریم اٌلود انگلی اپنے سوراخ پر رکھی اور اسے دبایا ۔اس کی پوری انگلی گاند مین گھس گئی۔
اس دوران اس نے اپنا نچلا ھونٹ دانتوں تلے دبا لیا تھا ۔اس کی بھری بھری گاند پوری طرح میرے سامنے تھی اور اس کا کالا گول سوراخ پوری طرح کھل کر سامنے اٌگیا تھا۔اس منظر نے میرے دل میں ایک اٌگ سی لگادی۔میرا سر جلنے لگا۔پھر اس نے لیٹے لیٹے اپنے دونوں ھاتھوں سے اپنی دونوں ٹانگیں اٹھادی۔او مائی گوڈ میں ٹرپ اٹھا ۔اس نے میری طرف دیکھا اور ایک ہسکاری بھری اٌواز میں بولا ‘‘اٌؤ جان۔ ۔ میری گاند تمہارے لند کا انتطار کررہی ھے”
‘‘مم ۔ ۔ میں نہیں کر۔ ۔ پاؤنگا۔ ۔”میرے منھ سے پھنسی پھنسی اٌواز نکلی
‘‘نو پروبلم ۔ ۔ تم کوشش تو کرو”وہ فل موڈ مین تھا۔میں اٌگے بڑھا اور اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں اٌگیا۔میرے ہیجان کا یہ عالم تھا کہ لگتا تھا ابھی میرا لند پھٹ پڑےگا۔ھمت مجتمع کرکے میں نے اپنا تیر کی طرح سیدھا لند اس کے کالے سے سوراخ پر رکھا۔اس نے ایک سسکاری بھری۔میرا لند تھر تھرایا۔مجھے لگا کہ میں ٹچ کرتے ھی چھوٹ جاؤنگا۔میں نے پیشقدمی روک کے اپنی سانس روک لی۔لند بری طرح اچھلا ۔کچھ توقف سے ہیجان کم ھوا تو میں نے سوراخ پر اپنا لند دبایااور پھر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔اس کی گاند پر اور میرے لند پر لگی کریم نے دونوں کو اتنا سلپری کردیا تھا کہ ایک ہلکے سے دباؤ کے ساتھ میرا لند پھسلتا ھوا اس کی گاند میں گھستا چلا گیا۔
اس کی تیز کراہ پر میں وھیں ساکت ھوگیا۔میرا پورا لند اس کی گاند میں تھا اور اس کی کراہ خاصی طویل تھی۔اس نے شدت درد سے اپنے ھونٹ بھینچ رکھے تھے۔مجھے تعجب ھوا۔ جتنی اٌرام سے لند اس کی گاند میں گھسا تھا اس سے تکلیف تو ھونی ھی نہ چاہئے تھی۔وہ شاید ایکٹنگ کررہا تھا تاکہ اس کی باری پر میں بھی برداشت کروں۔ میں تھوڑا سا پریشان ھوگیا تھا۔دل چاہا کہ اپنا لند اس کی گاند سے نکال لوں اور شاید وہ یہ بات بھانپ گیا کہ میں شش و پنج میں مبتلا ھوگیا ھوں اور اس نے تکلیف دہ اٌواز میں کہا کہ میں رکوں نہ۔ میرا دل پھر میرے دماغ پر حاوی اٌگیا۔رکنے کا ایک فائدہ بھی ھوا کہ میں اس پیک پر تھا کہ اگر میں اپنا لند اسی وقت باہر کھینچ لیتا تو میری منی فوراً نکل جاتی ۔
وہ پورا منظر مجھے بے چین کئے ھوئے تھا ۔وہ بستر پر اوندھا لیٹا تھا ، اپنے ھی ھاتھوں سے اس نے اپنی دونوں ٹانگیں چیری ھوئی تھیں اور اس کی دونوں بھری بھری رانوں کے درمیاں میں خود تھا۔میرے سامنے اس کا ھچکولے کھاتا بڑا سا لند تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ میرا اہنا لند اس کی گاند میں تھا جو اس وقت فل ھوٹ ھورہی تھی۔اس گاند کی دیواروں نے میرا لند جکڑ رکھا تھا۔میں ھواؤں میں اڑرہا تھا ۔جوش اور جنون کے اٌخری عالم میں میں نے سب کچھ بھلا کر اپنا لند اس کی گاند میں اندر باہر کرنا شروع کردیا۔وہ کراہ رہا تھا ۔مزے سے یا تکلیف سے مجھے نہیں پتہ لیکن میں باقاعدہ مزے کے عالم میں چلارہا تھا۔میرے جسم کی تمام رگیں تن کر میرے لند کےساتھ شریک ھوگئیں تھیں۔میری ٹانگیں اس کی گاند سے ٹکرا کر اٌوازیں پیدا کررہی تھیں۔
میرے دوبوں ھاتھ اس کی کمر پر تھے جس سے اس کی گرمی کا احساس ھورہا تھا۔اس کی گاند میں تو جیسے ھیٹر چل رھے تھے جس کی تپش سے میرا لند سلگ رہا تھا۔وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔اب جو ھونا تھا وہ بھگتنا تھا پھر مزے کو کیوں پس پشت ڈالا جاتا۔میں نے محسوس کیا کہ جب میرا لند اس کی گاند کی گہرائیوں میں اترتا تھا تو وہ اپنا سوراخ ڈھیلا چھوڑدیتا تھا اور جب میں اپنا لند واپس کھینچتا تھا تو وہ اپنے سوراخ کو بھینچتا تھا جس سے میرا لند اور اکڑجاتا تھا اور میرا مزاہ دوبالا ھوجاتا تھا۔میرا لند مسلسل اس کی گاند کے سوراخ کو رگڑرہا تھا ۔اندر باہر ھورہا تھا ۔مستی کا ناقابل بیان عالم تھا کہ جس کے ھاتھون میرا اپنا وجود میرے بس میں نہ تھا۔
بیان کرنے کو تو یہ ایک لمبا وقفہ ھے لیکن حقیقت میں یہ چند لمحوں کا کھیل تھا ۔خواری میرے سر پر کطھ اس طرح سے چڑھی ھوئی تھی کہ میں زیادہ دیر ھولڈ کرھی نہیں سکتا تھا۔مجھے یوں لگا جیسے میری پوری جان میرے لند کے راستے اس کی گاند میں ٹرانسفر ھوجائے گی۔میں پسینے میں تر بتر ھورہا تھا۔جیسے ھی مجھے لگا کہ اب رکنا ممکن نہیں میں نے اپنی رفتار بڑھادی اور پوری قوت سے اندر باہر کرنے لگا اور پھر مجھے لگا کہ ایک گرم لاوا مییرے ٹٹوں سے چھوٹ پڑا ھو۔میں شدت لزت سے چلایا اور شاید امجد کو بھی احساس ھو گیا کہ میں چھوٹنے والا ھون۔وہ ساکت ھوگیا اور پھر جزبات کا ایک طوفان میرے لند کے راستے منی کی صورت میں اس کی گاند کی گہرائیوں میں اترتا چلاگیا۔
پہلی چیخ پہلا فوارہ،دوسری چیخ دوسرا فوارہ ،تیسری چیخ تیسرا فوارہ۔میری جان فواروں کی شکل میں اس کی گاند میں اترتی جارہی تھی۔میں بری طرح ھانپ رہا تھا اور وہ اٌہستہ اٌہستہ میرے لند کی طرف اپنی گاند ہلا رہا تھا۔میں بری طرح تھک کر رک گیا تھا لیکن اس کی حرکت جاری تھی ۔وہ مسلسل اٌگے پیچھے ھورہا تھا۔اس کی طلب بجھی نہیں تھی۔اس کا اپنا لند بری طرح ھوا میں لہرارہا تھا۔ میں بہت جلد فارغ ھوگیاتھا۔اس احساس نے مجھے تھوڑا سا ڈسٹرب کردیا۔اپنی کمزوری کا اھساس کرکے مجھے شرمندگی فیل ھوئی اور شاید اس نے اس بات کو نوٹ کرلیا۔وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا
اس نے اپنا ھاتھ بڑھا کر میرا ھاتھ پکڑااور ایک جھٹکے سے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔میرا لند جو کہ بلکل سکڑچکا تھا اس کی گاند سے نکل گیا اور میں اس کے سینے پر اٌکے گرا۔اس کا لوھے کی طرح تنا ھوا لند میرے پیٹ کے نیچے دب گیا تھا اور وہ ابھی تک اٌگ کی طرح تپ رہا تھا۔میرا منھ بلکل اس کے منھ کے اوپر تھا۔
‘‘ڈونٹ وری یار۔`وہ خمار اٌلود نظروں سے مجھے دیکھتا ھوا بولا‘‘شروع شروع میں ایسا ھی ھوتا ھے۔اٌدمی اتنا ٹینس اور ایکسایئٹد ھوجاتا ھے کہ چند لمحوں میں فیصلہ ھوجاتا ھے`یہ کہہ کر اس نے مجھے اپنی طرف بھینچ لیا اور اس کے ھاتھ میری پیٹھ پر رینگنے لگے۔میری خواری ختم ھوچکی تھی اور میں بلکل ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔اب وہ پھر مجھے برا لگنے لگا تھا۔اس کا سیدھا ھاتھ رینگتا ھوا میری گاند کی لکیر پر اٌیا اور پھر دھیرے دھیرے لکیر کو چیرتا ھوا اٌگے بڑھا اور پھر میری گانگد کے سوراخ پر اس کی وھی انگلی ٹھہر گئی جس پر کریم لگا کر اس نے اپنی گاند میں ڈالی تھی۔
میری تو جیسے سانس رک گئی۔مجھے سخت تشویش ھونے لگی۔دل چاہا اسے روک دوں لیکن پھر ثاقب کا خوبصورت چہرہ میری اٌنکھوں میں اتر اٌیا۔امجد کے بغیر ثاقب سے ملاقات میرے جیسے شرمیلے اور بوکھلائے ھوئے لڑکے سے ناممکن تھی اور ثاقب تو جیسے میرے لئے زندگی کی شکل اختیار کرگیا تھا۔میں امجد کو ناراض نہیں کرسکتا تھا۔میں نے اپنے ھونٹ بھینچ لئے اور اپنی سانسیں بھی روک لیں ۔امجد نے میری گاند کے سوراخ پر اپنی سلپری انگلی کا دباؤ بڑھایااور اس کی اٌدھی انگلی سلپ ھوکر میری گاند میں گھس گئی۔میری نہ چاھتے ھوئے بھی تکلیف سے کراہ نکل گئی۔اس نے میرے ھونٹوں پر اپنے ھونٹ رکھ دئے اور ساتھ ھی انگلی پر دباؤ بڑھا کر پوری انگلی میری گاند میں گھسیڑدی۔میں اس کے جسم پر ھی ھلکا سا اچھلا۔اس نے دوسرے ھاتھ سے مجھے خود پر سنبھالا۔ساتھ ھی میرے ھونٹ چوسنے لگا۔اس کے اور میرے درمیاں اس کا بڑا سا لوھے کی طرح سخت لند دبا ھوا تھا جس کے ھولناک سائیز نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔
انگلی پوری اندر گھس چکی تھی ہلکے سے درد کے ساتھ مجھے ایک انجانا سا کیف بھی محسوس ھوا۔وہ اٌہستہ اٌہستہ اپنی انگلی اندر باہر کررہا تھا۔ایک ھلکا سا وجد مجھ پر طاری ھوا اور میرے اپنے بیٹھے ھوئے لند میں ھلکی سی جھرجھراہٹ پیدا ھوئی۔کاش اس کا لند بھی اتنا ھی ھوتا جتنی اس کی انگلی تھی تو کتنا مزاہ اٌتا لیکن اس کا لند کئی گنا بڑا تھا۔مجھے یقین تھا کہ وہ لند میری گاند پھاڑدیگا۔
وہ دیر تک اپنی انگلی میری گاند میں گھماتا رہا ۔ساتھ ساتھ وہ مجھے دوسرے ھاتھ سے اپنے سینے پر دبائے ھوئے تھا۔اس کے لند کا گرم دباؤ سے میرا پیٹ دب گیا تھا۔ساتھ ھی وہ میرے ھونٹ چوس رہا تھا۔پھر اس کی زبان میرے منھ میں دوڑنے لگی۔اس کی سانسیں اکھڑ گئیں تھیں اور وہ بہت بے صبرا ھورھا تھا۔جب اس کی برداشت سے باہر ھوگیا تو اس نے مجھے اپنے سینے پر سے اتارا اور کھڑا ھوگیا۔اس نے پاس پڑی کریم کی ٹیوب اٹھائی اور بہت ساری کریم نکال کر کر اپنے لند پر ملدی۔خوف کے مارے میری جان نکل گئی تھی مگر میں خاموشی سے دیکھنے پر مجبور تھا۔مین اپنی باری کا مزاہ لے چکا تھا۔اب اس کو کس منھ سے منع کرتا۔اب کی بار اس نے مجھے دیکھے بغیر میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے الٹا پلنگ پر لٹادیا۔میں الٹا لیٹا خوف سے اٌہستہ اٌہستہ لرز رہا تھا۔
پھر مجھے اس کا ھاتھ دوبارا اپنی گاند پر محسوس ھوا اور پھر کریم میں لتھری ھوئی اس کی انگلی بڑے پیار سے میری گاند میں اتر گئی اور وہ اس کو سرکل کی شکل میں گھمانے لگا۔صاف لگ رہا تھا کہ وہ میرے سوراخ کو اپنا لند لینے کے لئے ھموار کررہا تھا۔پھر مجھے اچانک اس کی دوسری انگلی بھی اپنی گاند کے سوراخ پر فیل ھوئی اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا اس نے دوسری انگلی بھی میری گاند میں گھسیڑدی۔درد اتنا تھا کہ میں کراہنے لگا۔اس نے دونوں انگلیاں ایک ساتھ اندر باہر کرنا شروع کردی۔میں کراہتا رہا اور اس نے اپنا کام جاری رکھا۔ایک عجیب سا احساس تھا جو درد کو مزے میں تبدیل کررہا تھا۔وہ انگلیاں گھما گھما کر میرے سوراخ کو بڑا کررہاتھا تاکہ میں اس کا لند کم سے کم تکلیف کے ساتھ اپنی گاند میں لے سکوں ۔اور پھر وہ لمحہ بھی اٌگیا۔اس نے انگلیاں میری گاند سے نکال لیں اور اپنے دونوں ھاتھ میرے کندھوں پر رکھے اور اسی کے ساتھ میں نے اس کا کھولتا ھوا لند اپنی گاند کی لکیر پر محسوس کیا۔
میں ایک دم ساکت ھوگیا۔اس کا لند پھسلتا ھوا ٹارگٹ کی طرف بڑھا اور پھر میرے سوراخ پر اٌکے ٹھہر گیا۔میرا سارا بدن ایک جھرجھری لیکر رہ گیا۔اس کے گرم لند کے ٹوپے کا دباؤ میرے سوراخ پر بڑھا ۔میں نے اپنے دانت بھیچ لئے۔اس نے زور لگایا۔میں نے اور زور سے اپنے دانت بھینچے۔ایک جھٹکا لگا اور اس کا صرف ٹوپا میری گاند میں گھس گیا اور برداشت کے باوجود میری بھیانک چیخ نکل گئی۔اپنی زندگی میں میں کسی ایسے درد سے نہ گزرا تھا۔اس نے بوکھلا کر اپنا ٹوپا باہر نکال لیا۔
میں پلٹ کر بیٹھ گیا۔شدتِ تکلیف سے میں ابھی تک کراہ رہا تھا۔میری اٌنکھیں اٌنسؤں سے لبریز ھوگی تھیں۔میں نے دیکھا کہ وہ مایوس کن نظروں سے مجھے دیکھ رہا ھے۔اس کا لند ھوا میں بری طرح بل کھا رہا تھا۔یہ یقیناً ناانسافی تھی کہ اسے یوں خوار چھڑدیا جائے۔
‘‘ سوری۔ ۔ ` میں نے سبکیاں لیتے ھوئے کہا اور پھر دل پر جبر کرکے دوبارا الٹا ھوکر اپنی گاند اس کے لند کی طرف کردی اور انتظار کرنے لگا کہ وہ دوبارہ اپنا لند میری گاند میں ڈالنے کے لئے اپنے لند کا ٹوپا میری گاند کی لکیر پر رکھے۔انتظار کچھ لمحہ طویل ھوگیا اور پھر اس کے لند کے بجائے اس کا ھاتھ میرے کندھوں پر اٌیا اور اس نے مجھے کھینچ کر اپنے مقابل کھڑا کردیا۔میں حیران ھو کر اس کی شکل دیکھنے لگا۔وہ بڑے پیار سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
‘‘چلو کوئی بات نہیں ضروری نہیں کہ یہ ابھی کیا جائے۔پھر سہی۔`وہ بڑے پیار سے مجھے دیکھتا ھوا بولا
‘‘لیکن۔ ۔ ۔ `میں نے اس کے کھڑے لند کو دیکھتے ھوئے کچھ کہنا چاہا۔
‘‘سعد اٌئی لو یو۔پیار میں کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی جاتی۔`وہ بڑے خمار اٌلود لہجے میں بولا‘‘ایسے مزے پر لعنت ھے جس سے تمہیں تکلیف ھو۔` اس کی اس بات نے مجھے بڑا متاثر کیا۔میں نے شکرگزار اٌنکھوں سے اسے دیکھا۔یقیناً وہ مجھے شکل سے اچھا نہیں لگا تھا مگر وہ دل کا اچھا تھا۔اس کی محبت کا اظہار البتہ مجھے ڈسٹرب کررہا تھا کیونکہ مجھے تو ثاقب سے محبت تھی لیکن اطمینان طلب بات یہ تھی کہ اس بات کا اندازہ اسے بھی تھا۔
‘‘پھر۔ ۔ `میں نے پھر اس کا لند دیکھا جس کے ساتھ بہرحال انصاف نہیں ھوا تھا۔وہ مسکرایا اور مجھ پر جھک کر مجھے پھر کسنگ کرنے لگا اور پھر اس نے مجھے پلنگ پر سیدھا لٹادیا اور میرے اوپر اٌکر اپنی زبان میرے منھ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا۔وہ پورا میرے اوپر تھا لیکن اس نے اس طرح اپنے اٌپ کو سنبھالا ھوا تھا کہ مجھے اس کا بوجھ فیل نہین ھورہا تھا۔اس کا لند میرے پیٹ سے لیکر میرے سینے تک اٌیا ھواتھا اور وہ اٌہستہ اٌہستہ اپنا لند اٌگے پیچھے ھوکر ھم دونوں کے درمیان رگڑرہا تھا۔ اس کے سلگتے لند کی ھیٹ سے میرا سینہ جل رہا تھا۔وہ جوش اور جنون میں میری زبان اور منھ شوس رہا تھا اور تیزی سے اپنے اٌپ کو میرے اوپر رگڑرہا تھا۔میں تو فارغ ھوچکا تھا اس لئے میرا احساس کچھ زیادہ نہ تھا لیکن وہ بری طرح اٌہیں بھر رہا تھا ۔
‘‘پھر۔ ۔ `میں نے پھر اس کا لند دیکھا جس کے ساتھ بہرحال انصاف نہیں ھوا تھا۔وہ مسکرایا اور مجھ پر جھک کر مجھے پھر کسنگ کرنے لگا اور پھر اس نے مجھے پلنگ پر سیدھا لٹادیا اور میرے اوپر اٌکر اپنی زبان میرے منھ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا۔وہ پورا میرے اوپر تھا لیکن اس نے اس طرح اپنے اٌپ کو سنبھالا ھوا تھا کہ مجھے اس کا بوجھ فیل نہین ھورہا تھا۔اس کا لند میرے پیٹ سے لیکر میرے سینے تک اٌیا ھواتھا اور وہ اٌہستہ اٌہستہ اپنا لند اٌگے پیچھے ھوکر ھم دونوں کے درمیان رگڑرہا تھا۔ اس کے سلگتے لند کی ھیٹ سے میرا سینہ جل رہا تھا۔وہ جوش اور جنون میں میری زبان اور منھ شوس رہا تھا اور تیزی سے اپنے اٌپ کو میرے اوپر رگڑرہا تھا۔میں تو فارغ ھوچکا تھا اس لئے میرا احساس کچھ زیادہ نہ تھا لیکن وہ بری طرح اٌہیں بھر رہا تھا ۔ طوفان تھمنے کے بھی کئی دیر تک وہ مجھے میرے منھ میری زبان چوستا رہا۔اس کا سارا وجود میرے اوپر کانپ رہا تھا۔ اس کا لند تھا کہ ٹھنڈا ھونے کا نام نہ لے رہا تھا۔نہ ھی اس کے سائیز میں کوئی فرق اٌرہا تھا۔اس کی دھیڑ ساری منی سے دونوں کا جسم لتھڑ گیاتھا۔تھوڑی دیر بعد وہ پلٹ کر برابر میں سیدھا لیٹ گیا اور پھر ھاتھ بڑھا کر مجھے خود پر کھینچ لیا۔وہ مسکرایا
‘‘اٌج تو مجھے مزاہ اٌگیا۔تم کو اچھا لگا` میں نے اثبات میں گردن ہلادی۔‘‘تم سے مل کر مجھے لگا ھے جیسے کوئی ادھورا پن ختم ھوگیا ھے۔میں اٌج بہت خوش ھوں`
مجھے پھر ثاقب یاد اٌیا اور پھر مجھے وقت کا احساس ھوا۔میں نے اس سے کہا کہ بہت دیر ھوگئی ھے گھر والے پریشان ھورھے ھونگے تو اس نے مجھ سے کہا کہ مین جلدی سے اپنا بدن دھولوں۔میرے بدن ہر پھیلی ھوئی اس کی منی سے مجھے بھی کراہت سی محسوس ھوئی۔مین نے جلدی سے اپنا بدن دھکر کپڑے پہن لئے۔اس نے بھی یہی کیا۔
اس نے مجھے اپنا نمبر لکھوایا اور نہ چاہتے ھوئے بھی میں نے اس سے پوچھ لیا
‘‘کیا ثاقب مجھ سے واقعی ملے گا`وہ اس سوال پر چونکا۔اسےشاید ابھی مجھ سے اس سوال کی توقع نہ تھی۔
وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر پھیکے انداز میں مسکرایا‘‘کیوں نہیں تم بس تھوڑا سا انتظار کرو۔میں تمہیں چند دنوں میں فون کرونگا۔`پھر اس نے مجھے اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر ڈراپ کیا۔دیر تک کھڑا مجھے دیکھتا رہا پھر ھاتھ ملا کر بائے کرکے چلاگیا اور میں ثاقب سے ملاقات کا تصور کرتے ھوئے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔مجھے امید تھی بھی اور نہیں بھی تھی۔ایک دن میں ثاقب میرے دل و دماغ پر چھاگیا تھا۔
ایک طرف میں چاہتا تھا کہ کسی بھی لڑکے کو لپٹا کر اسے پیار کروں دوسری طرف مجھے اتنی شرم اٌتی تھی کہ کوئ شرارت سے مجھے اٌنکھ بھی مارتا تھا تو میں گبھرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا تھا۔میرے بہت سارے دوست ایسے تھے کہ جن کے ساتھ میرا دل سیکس کرنے کو تڑپٹا تھا مگر شرم کی وجہ سے میں صرف تصور میں ھی ان سے دل بہلاسکتا تھا۔
جب میں کالج میں اٌیا تو سب سے پہلے جو لڑکا مجھ سے ٹکرایا وہ راحیل تھا۔میرے اب تک کے دوستوں میں سب سے خوبصورت اور اسمارٹ لڑکا ۔اسے دیکھتے ھی جیسے میرا دل ُاچھل گیا۔اس کا قد میرے برابر تھا لیکن چہرہ پنکش وائٹ تھا۔وہ جب ہنستا تھاتو اس کے گالوں میں گڑھے پڑتے تھے۔ھونٹ ترشے ھوئے سیب کی قاشوں جیسے اور دانت موتی کی طرح چمکتے ھوئے۔پہلی ھی نظر میں میں اس پر اپنا دل ھار گیا۔
میں اس کے ساتھ ھی بیٹھتا تھا اور زیادہ تر وقت میں اسے کن انکھیوں سے اسے تکتا رہتا تھا۔اکثر میری نظریں اس کی پینٹ کی زپ والی جگھ کو ٹٹولتی رہتی تھی۔کئی بار مجھے اس کے ابھار کی انڈرلائن مخسوس ھوئی جس کا اخساس کرکے میرا بھی لمحوں میں کھڑا ھوجاتا تھا۔اب میرے خوابوں میں صرف راحیل ھی تھا۔ کچھ دن بعد کالج میں چھٹیاں پڑگئیں۔تب تک میں اور راحیل بہت گہرے دوست بن چکے تھے۔کبھی کبھی تو مجھے لگتا تھا کہ وہ بھی مجھ میں دلچسپی لیتا ھےاور بعض اوقات میری لاعلمی میں تکتکی باندھ کر مجھے دیکھتا ھے۔میں سوچتا کہ اگر وہ مجھ سے کوئی ایسی بات کرے گا یا اشارہ بھی دیگا تہ میں ہمیشہ کی طرح بےوقوفی نھیں کرونگا اور اپنے دل کی بات کھل کر اس سے کہہ دونگا لیکن ایسا ھوناسکا۔
کالج بند ھوگیا اور ھم روز ملنے سے رہ گئے۔مجھے اس کی یاد ستاتی اور میں کالج کھلنے کی دعا کرنے لگا۔یونہی 15 دن گزرگئے۔وہ اتوار کا دن تھا جب امی نے اْکر مجھ سے کہا کہ تمہارے کسی دوست کا فون ھے۔فون پر راحیل تھا
ْھیپی برتھ ڈے ٹو یو ٌ راحیل کی اواز اٌئی اور میں حیران رہ گیا۔اْج میری سالگرہ تھی اور یہ اسے یاد تھا۔میں نے اسے تھینکس کہا اور اسے بتایا کہ مجھے اس کی بہت یاد اْرھی ھے۔
ْتو ملنے کیوں نھی اٰجاتے ?ٌاس نے کہا ْاج سب گھر والے انکل کے یہاں جا رہے ھیں، اگر تم اتے ھو تو میں رک جاتا ھوں؛
میری تو جیسے دلی مراد پوری ھوگئ۔میں نے فوراٌ حامی بھر لی کہ میں 5 بجے تک اس کے گھر پہنچ جاؤنگا۔اس خیال سے کہ وہ شام کے وقت اپنے گھر اکیلا ھوگا میرے دل میں گدگدی ھونے لگی۔نہ جانے کیوں مجھے شدت سے یہ فیل ھونے لگا کہوہ بھی اکیلے میں مجھ سے ملنا چاہتا ھے۔فون بھی اس نے اسی وجہ سے کیا ھوگا۔میں نے پکی ٹھان لی کہ اگر اس نے زرا سا بھی اشارہ دیا تو میں شرمائے بغیر اسے فوراً اسے اپنی باھوں میں بھر لونگا۔ اس کے گلابی نرم و نازک ھونٹوں کو اپنے ھونٹوں سے چوم لونگا۔اس کے گلابی گالوں کو جی بھر کے چومونگا۔
ا ایسے ھی حالات کے ساتھ میں اس کے نارتھ ناظم اباد بلاک جے کے 240 گز والے شاندار مکان کے سامنے وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ایف بی ایریا سے اس کے گھر تک کوئ بس ڈائریکٹ نھیں جاتی تھی اس لیے مجھے کافی پیدل چلنا پڑا لیکن میں راحیل کے خیالوں میں کھویا ارام سے وہاں پہنچ گیا۔
بیل دبانے پر جس نے دروازہ کھولا اسے دیکھ کر میرا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔وہ کوئ 26،27 سال کا انتہائ خوبصورت لڑکا تھا۔اس کی بڑی بڑی نیلی انکھیں تھی۔کلر ایسا جیسے کسی نے دودھ کی کڑاھی میں بہت ساری روح افزا کی بوتل انڈیل دی ھو۔ھونٹ لال سرخ ھورھے تھے۔اس کا قد 6 فٹ سے نکلتا ھوا تھا اور جسم کسرتی تھا۔چوڑا چکلا سینہ کمر تک اتے اتے وی کی شکل اختیار کر گیا تھا۔اس نے بلیک کلر کی ٹائٹ ٹی شرٹ اور نیکر پہنی ھوئ تھی۔نیکر بہت ٹائٹ اور چھوٹی تھی جس میں سے اس کی بھری بھری رانیں پھوٹی پڑ رہی تھی۔ان گلابی رانوں کو دیکھتے ھی میرا میٹر شورٹ کر گیا تھا۔
اس نے اوپر سے لیکر نیچے تک میرا جائزہ لیا۔اس کے ھونٹوں پر ایک دلاویز مسکراھٹ ابھری
ْجی فرمائیے ،اٌپ کس سے ملنا چاہتے ھیں?ٌ اس نے جلترنگ جیسی اواز میں پوچھا۔
‘وہ جی وہ راحیل۔ ۔ ۔ ٌ میری پھنسی پھنسی اواز نکلی۔اس کی شخصیت کے اگے میرا دم نکل گیا تھا۔
ْاچھا تم سعد ھو ٌوہ مسکرایا ْاجاؤ، راحیل واش روم میں ھےٌوہ اگے چلا میں اس کے ہیچھے۔ پیچھے سے اس کی گاند کی بھری بھری گولائیاں بلکل چپکی ھوئ نیکر کی وجہ سے قیامت ڈھا رھی تھی۔چلتے چلتے وہ اچانک مڑا۔میں بری طرح بوکھلا گیا۔مجھے یوں لگا جیسے اسے پتہ چل چکا ھے کہ میں اس کے کولہوں کو گھور رہا تھا۔
وہ پھر بغور مجھے دیکھنے لگا۔مسکرایا اور دوبارا پلٹ کر چلنے لگا اور ھم ڈرائنگ روم میں اٌگئے۔ٹھیک اسی وقت اندرونی دروازے سے راحیل بھی اْیا اور گرمجوشی سی مجھ سے اْکر لپٹ گیا۔پھر اس نے کہا ْسعد یہ میرے بڑے بھائ ثاقب ھیںٌ واقعی اس کے نقوش راحیل سے بےحد ملتے تھے لیکن حقیقت میں ثاقب راحیل سے بہت زیادہ خوبصورت تھا۔ثاقب شرارت سے مسکرایا۔
ْاصل میں ان کے بھی ایک دوست اْنے والے تھے اس لئے یہ رک گئے ھیںٌ راحیل نے بتایا۔میں اور راحیل بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔کچھ دیر بعد ثاقب اٹھ کر اندر چلاگیا۔میری عجیب سی کیفیت تھی۔بار بار مجھے ثاقب کی ننگی رانوں کا خیال اْرہا تھا۔میرے بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد ثاقب اندر سے بہت سارے لوازمات لیکر اگیا اور راحیل زبردستی مجھے کھانے پر مجبور کرتا رہا۔ثاقب بھی برابر والے صوفے پر اْکر بیٹھ گیا۔میرے بدن میں پھر سرد سی لہریں دوڑنے لگیں میری نظ کھاتے ھوئے پھر ثاقب کی رانیں ٹٹولنے لگیں۔
اسی وقت گھنٹی بجی اور ثاقب اٹھ کر باہر گیا اور جب واپس اْیا تو اس کے ساتھ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔اس میں اورثاقب میں کوئ چیز مشترکہ تھی تو وہ صرف قد کاٹھ تھا۔وہ کافی کالا تھا۔اور ثاقب کے ساتھ تو بلکل حبشی لگتا تھا۔مجھے وہ بلکل اچھا نہیں لگا۔ثاقب نے اس کا مجھ سے تعارف کروایا۔اس کا نام امجد تھا اور وہ بھی ثاقب کے ساتھ انجنئرنگ کالج میں تھا۔وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گیا۔اب ثاقب بلکل میرے برابر اْکر بیٹھ گیا۔اس کی ننگی گلابی ران میری ران سے ٹچ ھورہی تھی۔میں جھکی ھوئ نگاھوں سے اس کی نیکر کا ابھرا ھوا حصہ دیکھ رہا تھا۔نیکر کے اندر سے ہی محسوس ھورہا تھا کہ اس کا ٹول کتنا بڑا ھے۔ایسا لگتا تھا کہ ابھی وہ ابھرا ھوا حصہ نیکر پھاڑ کر نکل اْئے گا۔
اچانک مجھے محسوس ھوا کہ امجد مجھے دیکھ رہا ھے۔میں نے بوکھلا کر اپنی نظریں دوسری طرف گھمالی۔مجھے یوں لگا جیسے امجد مسکرا رہا ھے۔مجھے سخت گھبراہٹ ھونے لگی۔میں نے اپنا دھیان باتوں کی طرف لگایا۔تھوڑی دیر بعد ثاقب اٹھ کر اندر گیا اور نہ چاہتے ھوئے بھی میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔اس کے جسم کا ھر زاوئیہ میرے اندر اْگ لگا رہا تھا۔میں اپنے دل میں راحیل کے لئے کچھ خواب بسا کر اْیا تھا اور میرے دل میں اس کا بھائ اْبسا تھا۔
5منٹ کے بعد امجد بھی اٹھ کر اندر چلا گیا۔راحیل مجھے اپنی کچھ پرانی تصویریں دکھانے لگا۔15 منٹ بعد ثاقب کوک لیکر اٌگیا۔امجد اس کے ساتھ تھا۔کوک پینے کے بعد میں اٹھ کھڑا ھوا کہ اب میں چلونگا۔میں نے انھیں بتایا کہ بس کے لئے مجھے کافی پیدل چلنا پڑے گا تو ثاقب ایک دم بولا کہ امجد حیدری جارہا ھے تمھیں بس تک چھوڑدہگا۔منع کرنے کے باوجود مجھے امجد کے ساتھ اس کی بائیک پر بیٹھنا پڑا۔
بائیک پر امجد کے پیچھے بیٹھ کر مجھے احساس ھوا کہ امجد کا بدن کتنا چوڑا ھے۔اس کی پیٹھ کے پیچھے سے مجھے کچھ بھی نظر نہ ارہا تھا۔امجد مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں کہاں رہتا ھوں۔میں نے بتایا کہ ایف بی ایریا میں تو وہ بولا کہ اسے گھر سے کچھ لیکر گلشن جانا ھے تو میں اس کے ساتھ چلوں وہ مجھے چھوڑ دیگا۔میرے منع کرنے کے باوجود وہ نہ مانا۔چلتی ھوئی بائیک پر اس سے بات کرنے کے لئے مجھے اپنا اٌپ تھوڑا سا اٹھا کر اس کے کان کے قریب جانا پڑرہا تھا جس کی وجہ سے میرا سینہ اس کی پیٹھ سے ٹکرارہا تھا۔اسی دوران مجھے ایک مست کردینے والی خوشبو اس کی شرٹ سے اٹھتی فیل ھوئی اور مجھے احساس ھوا کہ میرا بدن اس کے بدن سے ٹکرا کر ایک سنسنی سی میرے اندر دوڑارہا ھے۔
کچھ ھی دیر میں ھم حیدری کے ایک اپارٹمنٹ میں داخل ھوگئے۔میرے منع کرنے کے باوجود اس نے میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے سیکنڈ فلور کے ایک فلیٹ کا چابی سے دروازہ کھول کر اندر لے گیا۔وہ دو کمروں کا فلیٹ تھا۔اس نے مجھے صوفے پر بٹھایا اور مجھ سے کہا کہ صرف دو منٹ میں ھم چلتے ھیں۔فرج کی طرف جاتے جاتے اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد سے یہاں اکیلا رہتا ھے اور ثاقب جس کمپنی میں چیف انجنئر ھے وھیں ثاقب نے اسے ایک مناسب جاب دلوائی ھوئی ھے۔وہ دو گلاس اور کوک لے ایا اور نہ چاہتے ھوئے بھی میں کوک پینے لگا۔اس دوران اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے انجنئرنگ پوری نہ کر سکا اور یہ ثاقب کا احسان تھا کے بعد میں اس نے اپنی کمپنی میں ایک اچھی جاب دلوادی۔
وہ اپنے بارے میں بتارہا تھا اور میں کوک پیتے ھوئے غور سئ اسے دیکھ رہا تھا۔وہ اتنا کالا نہیں تھا جتنا وہ مجھے ثاقب کے ساتھ کھڑا ھوا لگا تھا۔اس کا رنگ گہرا سانولا تھا اور ھونٹ قدرے بھاری تھے۔گہری اٌنکھیں تھیں۔وہ بلکل میرے قریب بیٹھا ھوا تھا۔مجھے پھر اس کے اندر سے خوشبو فیل ھوئی۔مجھے پھر نیکر میں ملبوس ثاقب یاد اٌنے لگا اور میرے دل میں اس کے خیال سے خماری چھانے لگی۔میں تصور میں ثاقب کی نیکر اتار کر اس کے ٹول کو ھاتھ میں لیکر مسلنے لگا۔اچانک امجد نے میری ران پر ھاتھ مارا۔میں بوکھلا گی
ْکہاں کھوگئےْ اس نے پوچھا اور میں نے گڑبڑا کر بتایا کہ میں اس کی بات سن رہا ھوں۔اچانک اس نے مجھ سے پوچھاْکیا ثاقب تمھیں اچھا لگتا ھےٌ میں ششدر رہ گیا۔سمجھ میں نہیں اٌیا کہ کیا جواب دوں۔ا
جب اس نے میری ران پر ھاتھ مارا تھا تو دوبارہ نہیں ہٹایا تھا۔ ْمیں جانتا ھوں کہ تمہیں ثاقب اچھا لگتا ھے۔ویسے وہ واقعی چیز ھے۔ْامجد کہے جارہا تھا اور مجھے چپکی لگ گئی تھی ۔ْمیرا خیال ھے کہ تم بھی اسے اچھے لگے ھوْ ًٰمیں نظریں جھکائے سن رہا تھا۔مجھ میں کچھ بھی کہنے کی ھمت نہیں تھی۔میرے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی تھی اور میرا پورا وجود کسی اٌگ میں جلنے لگا تھا۔ایسی اٌگ جس میں مزاہ تھا۔
ْکیا تم ثاقب سے اکیلے میں ملنا چاہوگے?ْ اب میں نے حیران ھو کر اپنی نظریں اٹھائی۔عین اسی وقت اس نے اپنے ھاتھ سے میری ران کو دبایا جس سے اس کے سوال کا اصل مقصد اور بھی واضح ھوگیا۔ ‘‘ھاں وہ تمہیں پسند کرتا ھے اور تم بھی اسے پسند کرتے ھو، لیکن اسے دڑ ھے کہ تم اس کے چھوٹے بھائی کے دوست ھو کہیں اسے بتانہ دو ‘‘
میرے پاس اس کے کسی بات کا جواب نہ تھا۔لیکن یہ خیال کہ ثاقب مجھے پسند کرتا ھے میرے وجود کو شرشار کر گیا۔لیکن ابھی بھی میں امجد سے کچھ نہ کہہ سکا۔
‘‘ایک بات بتاؤ کبھی تم نے پہلے کسی کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘امجد نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑدیا اور میں شرم سے پانی پانی ھوگیا۔اسی وقت اس نے میری ران پر اپنا دباؤ اور بڑھادیا۔ ‘‘میں تم کو ثاقب سے اکیلے میں ملواسکتا ھوں۔کیا تم اس سے ملنا چاھوگے?‘‘
میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ میں سختی سے منع کردوں مگر میرا دل مجھے روک رہا تھا۔میرے بدن میں سویئاں سی دوڑ رہی تھی۔
‘‘کیا ۔ ۔ کک کیا یہ ممکن ‘‘ میرے منھ سے بس اتنا ھی نکلا۔
‘‘ھاں ۔تمہاری خواہش پوری ھوسکتی ھے لیکن تمہیں اس گبھراھٹ کو اپنے اندر سے نکالنا ھوگا‘‘
‘‘کک۔ ۔ ۔ کیسے۔ ۔ ‘‘ میرے منھ سے نکلا اور وہ شرارت سے مسکرایا۔اس وقت وہ میرے دل کی بات کررہا تھا اور مجھے دنیا میں اپنے سب سے قریب محسوس ھورہا تھا
‘‘بتادوں کیسے ‘‘اس نے میری اٌنکھوں میں اپنی اٌنکھیں ڈال دیں ۔میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ ایک دم جھکا اور میرے گالوں کو چوم لیا۔اس کا میری ران پر رکھا ھوا ھاتھ کھسکتا ھوا میرے پیٹ پر اٌگیا۔
یہ زندگی میں پہلی بار میرے ساتھ ھوا تھا۔میں ھکا بکا امجد کو دیکھتا رہ گیا۔
‘‘تمہیں برا تو نہیں لگا ‘‘ اس نے تشویش سے پوچھا اور مین حسب عادت چپ رہا۔وہ سمجھ گیا کہ مجھے برا نہیں لگا۔اس کا ھاتھ جہ اب بھی میرے پیٹ پر تھا تھوڑا سا نیچے اٌیا اور میری پینٹ کی زپ والی جگہہ پر اٌکے ٹھہر گیا۔ایک لمحے بعد وہ دوبارا جھکا اور اپنے ھونٹ میرے ھونٹوں پر رکھ دیئے اور میری زپ والی جگہہ پر اس کے ھاتھ کا دباؤ ایک دم بڑھ گیا۔میرا پورا بدن اٌہستہ اٌہستہ کپکپانے لگا۔اس بار اس نے بغیر رکے میرے ھونٹوں کی کسنگ جاری رکھی۔
میری اٌنکھیں خودبخود بند ھوگیئ۔اس نے دانتوں سے میرے ھونٹ کاٹنا شروع کردئے۔میں نے اپنے ھونٹ دبائے ھوئے تھے۔پھر اس نے میرے ھونٹوں پر اپنی زبان پھیرنا شروع کردی۔اس کی زبان کی گیلاہٹ میں نے اپنے ھونٹوں پر فیل کی اور پھر اس کی زبان کا دباؤ میرے دبے ھوئے ھونٹوں پر پڑا اور نہ چاہتے ھوئے بھی میرے دونوں ھونٹ کھل گئے اور اس کی گرم زبان میرے منھ میں دوڑ گئی۔میرا پورا وجود طوفانوں کی لپیٹ میں تھا۔بند اٌنکھوں سے میرے تصور میں ثاقب در اٌیا۔مجھے لگا جیسے ثاقب کے سرخ ھونٹ میری زبان کو چوس رھے ھیں اور اس کی رسیلی زبان میرے منھ میں دوڑ رہی ھے۔لذّت اور انبساط سے میری روح تک شرشار ھوگئی۔وہ دیوانوں کی طرح میرے ھونٹ اور زبان چوس رہا تھا۔ساتھ ھی اس کے گرم ھاتھ میری پیٹھ پر دوڑ رہے تھے۔میں نے اس کےتھوک کو امرت سمجھ کر اپنے حلق سے نیچے اتارا اور پھر اس کا حسین گلابی چہرہ دیکھنے کے لئے اپنی اٌنکھیں کھولدیں اور اپنے سامنے امجد کا چہرہ دیکھ کر میرے اندر مایوسی پھیل گئی اور میں نے غیر اردی طور پر اپنا سر پیچھے ہٹایا۔
‘‘کیا ھوا ‘‘اس نے بڑے پیار سے مسکرا کر پوچھا
‘‘کک۔ ۔ کچھ نہیں ‘‘میں اتنا ہی کہہ پایا۔اس نے میری کمر پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف گھسیٹا۔ثاقب کی جگہہ امجد کو دیکھ کر میرے اندر مایوسی پھیل گئی تھی۔
‘‘کیا ثاقب میرے ساتھ واقعی یہ سب۔ ۔ ۔ کرنا ۔ ۔ مطلب مجھے پسند کرتا ھے ‘‘ میرے اس اچانک سوال سے سے اس کی مجھ پر نہ صرف گرفت کمزور ھوگئی بلکہ اس کے چہرے سے لمحہ بھر کے لئے مسکراہٹ بھی غائب ھوگئی لیکن دوسرے لمحے میں وہ مسکرایا۔یقینّا اسے ثاقب کے لئے میری بے چینی بری لگی تھی۔
‘‘تم بھول رہے ھو میرے ساتھ تمہیں زبردستی بائیک پر اسی نے بٹھایا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ میں تمہیں کسی طرح کریدوں کہ تم اسے چاہتے ھو کہ نہیں۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی ایسی گڑبڑ ھو کہ جس سے راحیل یا گھر کے کسی اور فرد کو پتہ چل جائے۔میں وعدہ کرتا ھوں کہ کچھ دنوں میں حالات سازگار کرکے تمہیں اس سے ملوادونگا ‘یہ کہہ کر وہ دوبارا جھکا اور میرے منھ میں اپنی زبان گھسیڑ دی۔میں امجد کو ناراض کرنا نہیں چاہتا تھا۔وہی تھا جو مجھ جیسے ڈرپوک لڑکے کو ثاقب سے ملواسکتا تھا اور دوسری بات یہ کہ میرا اپنا گرم وجود اس وقت چاہ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنے اندر سمالے۔
اس نے مجھے دونوں ھاتھوں سے پکڑ کر مجھے اپنے سینے سے بھینچ لیا اور دیوانہ وار میرے منھ میں اپنی زبان دوڑانے لگا۔میری سانسیں اتھل پتھل ھورہی تھیں اور زندگی کا وہ لطف جس کا میں صرف خواب دیکھا کرتا تھا کہ کسی کے سینے سے لگ کر اپنے جنم جنم کی پیاس بجھالوں وہ اٌج میں نے پالیا تھا۔کتنی عجیب بات تھی کہ اٌج میں گھر سے راحیل کے ساتھ کچھ کرنے کی خواہش لیکر نکلا تھا اور اس کے گھر پہنچنے کی بعد میرے خوابوں مینں مجھ سے دس سال بڑا اس کا بھائی اٌبسا تھا لیکن میرا وہ خواب ایک تیسرے ھی فرد کے ساتھ پورا ھوا تھا جو پہلی نظر میں مجھے بہت برا لگا تھا۔ امجد مجھے سینے سے بھینچے میرے ھونٹ چوس رہا تھا اور پھر اس نے اپنی زبان سے میرے گال چاٹنا شروع کردیئے۔وہ پاگلوں کی طرح میرے پورے منھ کو چوس رہا تھا۔کبھی گال تو کبھی اٌنکھیں اور کبھی میری گردن۔یونہی چومتے چوستے وہ میرے کان تک اٌیا اور اپنے دانتوں سے کان کا سرا اٌہستہ اہستہ کترنے لگا۔شدت لزت سے میری اٌھ نکل گئی۔
کانوں پر اپنی زبان پھیرتے ھوئے وہ بڑی مدھ بھری اٌواز میں بولا ‘‘سعد یو اٌر گریٹ! تم بہت کیوٹ اور بھولے ھو۔میرا دل کررہا ھے کہ میں تمہیں اپنے اندر کہیں چھپالوں ۔تمہارے اندر ایک نشہ ھے ‘‘یہ کہتے ھوئے اس نے مجھے سینے سے لگائے ھوئے اٹھالیا اور مسلسل کسنگ کرتے ھوئے مجھے بیڈروم میں لے اٌیا اور بڑے پیار سے مجھے بستر پر لٹادیا۔پھر وہ خود میرے اوپر چھاگیا۔اس کے چوڑے چکلے وجود کے اٌگے میری مثال کبوتر جیسی تھی لیکن پورا مجھ پر اجانے کے باوجود اس نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ میں اس کے نیچے اٌکر پس نہ جاؤں ۔جانے مجھے کیا ھوا کی میں نے اپنی شرم طیاق کر اپنے دونوں ھاتھ اس کی گردن کے گرد گھمائے اور اس کے منھ کو اپنی طرف کھینچ کر اس کے ھونٹوں پر کس کی۔امجد ششدر ھوکے مجھے دیکھنے لگا۔شاید اسے میری طرف سے کسی پیشقدمی کی امید نہ تھی۔دوسرے لمحے میں میری اس ادا پر فدا ھوکے اس نے دوبارا مجھے چومنا شروع کردیا۔
میں اٌنکھیں بند کرکے جیسے ھواؤں میں اڑرہا تھا۔میرا پورا وجود لرز رہا تھا ۔میرا لند میری پینٹ میں اتنا کھڑا ھوگیا تھا کہ پھنس رہا تھا۔دیکھتے دیکھتے امجد نے میری شرٹ کے سارے بٹن کھول ڈالے۔میرا نازک سا جسم اب اس کے سامنے کھلا تھا۔اس سے پہلے کے میں سوچتا کہ وہ اب کیا کرے گا اس نے اپنی زبان میرے ایک نپل پر رکھی اور اسے باقاعدہ چوسنے لگا۔اف۔ ۔ میری تو کراہ نکل گئی ۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے چوسنے سے میرے بدن میں اس طرح کرنٹ دوڑ جائے گا۔میرے منھ سے مسلسل اٌھیں نکل رھی تھیں اور وہ ایک کے بعد ایک نپل چوسے جارہا تھا۔او گوڈ اتنا مزاہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔اور اس وقت تو غضب ھی ھوگیا جب چوستے چوستے وہ میرے پیٹ سے ھوتا ھوا میری ناف تک اٌیا۔مجھے ایسا لگا جیسے ایک اٌگ سینے سے رینگتی ھوئی میرے ناف تک اٌگئی ھو۔اور پھر امجد نے اپنی دہکتی زبان میری ناف میں گھسیڑدی۔میں جیسے اچھل پڑا۔ایک اٌہ سی میرے منھ سی نکلی اور میں نے شدت جزبات سے امجد کے سر کے بال پکڑلئے۔امجد ان باتوں سے بے پرواہ میری ناف کے گرد اپنی زبان گھما رہا تھا اور میں مسلسل سسکاریان بھر رہا تھا۔
میں ساتویں اٌسمان پر اڑرہا تھا اور امجد میرے پیٹ کا ایک ایک حصہ چوم رہا تھا اور چوس رہا تھا۔اس کا ایک ھاتھ میری پینٹ کے ابھرے ھوئے حصے پر تھا جس کے دباؤ سے میرا لند اکڑنے لگا تھا۔پھر اس کے دوسرے ھاتھ کی ایک انگلی میری پینٹ کے اوپر سے اندر سرائیت کر گئی۔مانو میری تو جیسے سانس رک گئی۔اس کی انگلی شاید میری انڈروئیر سے ٹکرائی اور اس نے تھوڑی سی اسے باہر کھینچ لی۔میں نے سرخ رنگ کی انڈروئیر پہنی ھوئی تھی جس کا تھوڑا سا سرا باہر اٌگیا تھا۔وہ میری انڈروئیر دیکھ کے مسکرایا۔‘‘لال کلر سیکس کا کلر ھوتا ھے اور میں سمجھ سکتا ھوں کہ تم عرصے سے اپنی خواہش دبائے بیٹھے ھو اپنا من مار کر شرم اور بدنامی کے خوف سے صرف تصورات میں جی بہلارھے تھے۔اور میں یہ بھی جانتا ھوں کہ اٌج تم زندگی میں پہلی بار ایسا کر رھے ھو۔اٌج تم بےخوف ھوکر اپنے دل کی بھراس نکال سکتے ھو۔یقین کرو میں دل سے تمہارے ساتھ ھوں۔اٌج صرف اور صرف تمہارا دن ھے ‘‘ اس کے بعد وہ دوبارا جھکا اور میرے ھونٹ بڑی نرمی سے چوم لئے۔
اس کا انداز میرے ساتھ بہت ھی والہانہ تھا حالانکہ اگر وہ چاہتا تو مجھے نوچ کھسوٹ سکتا تھا میں کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔لیکن وہ مجھے تکلیف پہنچائے بغیر مجھے مزاہ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔کسنگ کرتےکرتےاس کا ھاتھ پھسلتا ھوا میری پینٹ کے بیلٹ تک پہنچا اور اس نے میرا بیلٹ کھول دیا۔اس کی زبان دوبارا میرے منھ میں دوڑ گئیاور اسی کے ساتھ اس نے پینٹ کا بٹن کھول کے میری زپ نیچے کردی۔زپ کی اٌواز کے ساتھ میرا دل اچھل کر حلق میں اٌگیا۔اتنا ٹینس میں زندگی میں کبھی نہیں ھوا تھا ۔عین اسی وقت اس نے دانتوں سے میری زبان پکڑلی اور اسے چوسنے لگا۔ساتھ ساتھ اس کا ھاتھ پینٹ کے اندر کھسک گیا۔انڈروئیر پر ھونے کے باوجود اس کے ھاتھوں کی ھیٹ میں نے اپنے فل ٹینشن میں اٌئے ھوئے لند پر محسوس کی۔میں ایک جھرجھری لیکر رہ گیا۔
میری سانسیں اتھل پتھل ھوچکی تھیں ۔اس نے انڈروئیر کے اوپر سے میرا لند پکڑ لیا۔میری ایک طویل اٌہ نکل گئی۔اس نے بیتاب ھو کر میری زبان چوسنے کی رفتار بڑھادی۔ پھر وہ میرے ھونٹوں پر اپنی زبان پھیرتا ھوا میری گردن تک اٌیا اور پھر وھاں سے پھسلتا ھوا میری نپل تک اٌیا اور چند لمحیں اسے چوسنے کے بعد سینے سے ھوتا ھوا پیٹ پر اٌیا ۔اس کی زبان کی گرمی اور گیلاہٹ سے میرا تن بدن جل رہا تھا۔ناف پر پہنچ کے اس نے ناف کے اندر تک زبان گھسیڑدی۔ساتھ ساتھ وہ خود بھی پھسلتا ھوا نیچے ھوگیا تھا۔اس کے دونوں ھاتھ میری پینٹ پر تھے۔ناف چوستے ھوئے اس نے اپنے ھاتھوں کے زور سے میری رانوں کو اوپر اٹھایا اور زبان ناف سے نیچے لے جاتے ھوئے میری پینٹ نیچے کردی اور اپنا منھ میری سرخ انڈروئیر کے اوپر رکھ کے میرے ابھرے ھوئے حصے کو اپنے دانتوں میں دبالیا۔یہ کام اس نے اتنی تیزی اور مہارت سے کیا کہ سرور اور کیف کی کیفیت میں میری ہلکی سی چیخ نکل گئی۔
میں زلزلوں کی لپیٹ میں تھا اور وہ میرا لند انڈروئیر کے اوپر سے اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا۔میری سسکیاں لزت و انبساط سے اٌھوں میں اور پھر کراھوں میں بدل گئی تھیں۔سرور کا ایک سلسلہ تھا جو رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔امجد بھی رکا نہیں تھا۔گہری گہری سانسوں کے ساتھ اس کا بھی کام جاری تھا۔اب وہ انڈروئیر کے اوپر سے ھی میرا لند چوس رہا تھا۔اس کے والہانہ انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ اسے بھی بیحد مزاہ اٌرہا ھے۔اس کے تھوک سے میراے انڈروئیر کا وہ پورا حصہ گیلا ھوچکا تھا اور میرے لند کی پوری اٌؤٹ لائین لند کے وائٹش کلر کے ساتھ صاف نظر اٌنے لگی۔اس نے چمکتی اٌنکھوں سے لمحہ بھر رک کر میرے ابھرے ھوئے لند کا جائزہ لیا اور پھر بیخود ھوکر دوبارہ انڈروئیر کے اوپر سے میرے لند کو منھ میں لیکر چوسنے لگا۔مستی میں اٌکر میں نے اس کے ڈولتے ھوئے سر پر ھاتھ رکھ کر اس کے بالوں کو پکڑ لیا۔
دیر تک وہ انڈروئیر کے اوپر سے میرا لند چوستا رہا۔میرے انڈرویئیر کا اوپری حصہ پورا گیلا ھوگیا تھا۔ساتھ ساتھ وہ میری انڈروئیر سے نکلتی ھوئی چکنی اور گوری رانوں پر بھی اپنی زبان پھیرتا رہا۔اس کی زبان کی حدت سے میرا پورا وجود پھنک رہا تھا۔اس کی بیخودی کا یہ عالم تھا کہ کبھی چومتا تھا کبھی چوستا تھا کبھی کاٹتا تھا۔میرا لند تن کر پوری طرح میری انڈروئیر میں کھڑا ھوچکا تھا۔اایک وقت اٌیا کہ میرے لئے یہ ناقابل برداشت ھوگیا۔میں ایک جھٹکے سے پلنگ پر بیٹھا اور بالوں ھی سے پکڑ کر اس کا سر اٹھایا اور اس کے سلگتے ھوئے ھونٹوں پر اپنے ھونٹ رکھ دئیے اور باقاعدہ سسکاریاں لیتے ھوئے اس کے ھونٹ بیدردی سے کاٹنے لگا۔اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھے ھوئے میرے لئے اپنے اٌپ کو ڈھیلا چھڑدیا۔اب میری زبان اس کے سیاھی مائل منھ کو چوم رھی تھی۔اس کے ھونٹ چوس رھی تھی۔اس کے منھ میں گھوم رھی تھی۔اس وقت مجھے اپنے جسم کی بھوک یاد تھی صرف۔نہ مجھے راحیل یاد تھا اور نہ ثاقب۔نہ مجھے یہ یاد تھا کہ جس کے ھونٹوں کو میں چاٹ رہا ھوں پہلی نظر میں وہ مجھے سخت برا لگا تھا۔
میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کے گال چاٹنے لگا۔پھر چاٹتے چاٹتے اس کی گردن پر زبان پھیرنے لگا۔میں نے اپنے لرزتے ھاتھوں سے اس کی شرٹ کا بٹن کھولنا شروع کردیا ۔اس نے مسکرا کر نیچے سائیڈ سے اپنے بٹن کھول دیئے۔اب اس کا چوڑا چکلا سینہ میرےسامنے تھا۔
اس کے سینے پر معمولی بال تھے۔نپل بڑے اور ابھرے ھوئے تھے اور پیٹ تو جیسے تھا ھی نہیں۔بلاشبہ اس کا جسم کافی سیکسی تھا۔ میں نے اس کی بڑی سی کمر پر اپنا ھاتھ رکھا اور جھک کر اس کے نپل کو اپنے منھ میں لے لیا۔ اس نے ایک طویل سسکاری بھری۔اس کا بدن جھرجھرایا۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کتنوں کہ ساتھ سیکس کرچکا ھے لیکن مجھے یہ اندازا ضرور ھو گیا تھا کہ میرے ساتھ اسے بہت مزاہ اٌرہا ھے اور میری طرح وہ وجد کی کیفیت میں ھے حالانکہ میرا تو یہ پہلا تجربہ تھا۔اسی کی طرح نپل چوستے چوستے میں زبان پھیرتا ھوا نیچے ھوتا چلاگیا اور اس کی سسکاریوں میں اضافہ ھوتا چلاگیا اور جب میں ناف تک پہنچا تو وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔جب میں نے اس کی ناف پر اپنی ننگی زبان پھیری تو وہ تڑپ اٹھا۔میں اس کے اندر دبے ھوئے پیٹ پر اپنی زبان پھیرتا رہا اور وہ اٌنکھیں بند کئے مزے لیتا رہا۔اس کے بعد جب مجھ میں مزید برداشت نہ رہی تو میں نے اس کی پینٹ کی بیلٹ پر اپنا ھاتھ مارا۔اٌنے والے لمحات کے تصور سے اس کا پورا جسم کانپ کر رہ گیا۔خود میری سانسیں اکھڑ گیئں تھین۔ اور پھر جب میں نے بیلٹ کھول کر اس کی پینٹ نیچے کی تو وائیٹ اندڑویئر میں اس کا وہ حصہ میرے سامنے تھا جس کو دیکھنے کے تصور سے مجھے کپکپی طاری ھوگئی تھی۔
انڈروئیر کے پیچھے چھپے مال کو دیکھ کر میری اٌنکھیں پھیل گئیں ۔اس کے لند کی اٌؤٹ لائین اتنی بڑی تھی کہ مجھے خوف لاحق ھوگیا لیکن سیکس کے بڑھتے ھوئے ٹینشن نے مجھے زیادہ سوچنے کا موقع نہیں دیااور میں نے بے صبری سے اس کی انڈروئیر کے ابھرے ھوئے حصے پر اپنے ھونٹ رکھ دئے۔وہ بری طرح تڑپا۔میں نے اس کی گاند پر دونوں ھاتھ رکھ کے اپنا پورا منھ اس کی جانگھوں میں گھسا دیا۔اس کے ابھرے ھوئے بڑے سے لند کو میں نے انڈروئیر کے اوپر سے اپنے منھ میں لیا اور اٌہستہ سے اس پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔میں وہی کررہا تھا جو اس نے میرے ساتھ کیا تھا کیونکہ میرے خیال میں یہ اس کا حق تھا۔زندگی میں پہلی بار اس نے مجھے اس لزت سے روشناس کروایا تھا جس کی تمنا میں میں عرصے سے مراجا رہا تھا۔میں نے اس کی کالی رانوں پراپنی زبان پھیری۔اس کی رانیں بالوں سے صاف تھیں ۔رانوں سے کافی نیچے جا کر اس کی ٹانگوں پر بال تھے۔اس کی جلتی ھوئی رانوں پر زبان پھیرنے سےمجھے بڑا مزاہ اٌرہا تھا۔ اس کی پھنسی ھوئی انڈروئیر سے نکلتی رانیں میرے لئے وجد اٌور ھوگئی تھیں۔میں نےران کی اسی طرف سے انڈرویئر کو اور اوپر اٹھایا یہاں تک کہ اس کے ٹٹے کا ایک حصہ نظر اٌنے لگا اور وہیں اپنی زبان گھسیڑدی،
‘‘اف ۔ ۔ اٌہ۔ ۔ میں گیا۔‘‘ وہ تڑپ اٹھا۔میں نے مزید انڈرویئر کو اٹھایا اور ساتھ ساتھ میری زبان نے اندر کی طرف پیشقدمی جاری رکھیْْاو سعد ۔۔ ۔ اٌئی لو یو مائی بوائے۔ ۔ اٹس امیزنگ ۔ ۔ او گوڈ۔۔‘‘ وہ مسلسل سسکاریاں بھرتے ھوئے کچھ نہ کچھ کہہ تہا تھا اور میں مسلسل اس کی ران کی طرف سے اپنی زبان اس کی انڈروئیر کے اندر تک لیتا چلاگیا۔
میری زبان ران کے اٌخری حصے پر کونے سے ٹکرارہی تھی اور اس کے ایک ٹٹے کا کچھ حصہ بھی میری زبان کی زد میں اٌرہا تھا۔میں اپنی زبان دبا دبا کر اس کی ران کے اٌخری کونے پر پھیرتا رہا اور وہ سسک سسک کر میری حوصلہ افضائی کرتا رہا۔اس کے ابھار کا سائز بڑھتا رھا اور وہ وقت اٌیا جب اس کے لند کا اینگل پھسل کر کچھ کم ھوا تو مجھے وہ ہپناٹائز کردینے والا منظر نظر اٌیا۔اس کے بڑے سے لند کا ٹوپا انڈروئیر سے باہر چھلک اٌیا تھا۔میں سب کچھ بھول کر مسحور ھوکے انڈروئیر سے باہر نکل اٌنے والے اس کے کالے لیکن چکنے لند کے بڑے سے ٹوپے کو دیکھنے لگا۔میرے لئے یہ ایک جادوئی منظر تھا۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی اور کے لند کو نہیں دیکا تھا۔پھر جیسے میں سلوموشن میں بلکل ہپناٹائز ھوکے انڈروئیر کے اوپر سے اس کے لند کو اپنے منھ سے رگڑتا ھوا اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھا اور اس کے جلتے ھوئے لند کے نظر اٌنے والے حصے پر اپنی زبان پھیری اور دوسرے لمحے میں پورا ٹوپا اہنے منھ میں لی لیا۔اس کا پورا لند لزت کی شدت سے تھرا گیا اور انڈروئیر تھوڑا اور نیچے ھوگیا ۔وہ لند اٌہستا اٌہستہ مجھے تڑپا تڑپا کر سامنے اٌرہا تھا اور میں صبر کئے بغیر اسے اور اپنے منھ میں لیتا جارہا تھا ۔
اس کے منھ سے لایعنی اٌوازوں کا سلسلہ جاری تھا جو مجھے یہ احساس دلا رہا تھا کہ اسے کتنا مزاہ اٌرہا ھے اور میں بھی بغیر رکے اس کے لند کے اوپری حصے کو چوسے جارہا تھا۔اس کے لند کی موٹائی سے میرا منھ تھک سا گیا اور میں نے اپنی زبان اور منھ کے تلے اس کے لند کو پوری قوت سے دبا کر اپنے منھ کو باہر کھینچا۔وہ شدت لزت سے چیخ پڑا۔میرے بھی صبر کا پیمانہ چھلک پڑا اور میں نے دونوں طرف سے پکڑ کر اس کی انڈروئیر نیچے کھینچ لی۔اس کا اکڑا ھوا لند کسی راڈ کی طرح میرے گال سے ٹکرایا اور میں لند کا سائز دیکھ کر بوکھلا گیا۔اس کا لند اٌٹھ انچ سے بھے بڑآ اور دو انچ سے زیادہ موٹا تھا۔میں یک تک لند دیکھے جارہا تھا۔
اس کو دیکھ کر میری اٌنکھوں میں تشویش کی پرچھائی لہرائی جو مجھے ایسا لگا کہ اس نے بھانپ لی ‘‘ثاقب کو میرا لند بہت پسند ھے۔وہ کئی کئی منٹوں تک اسے چوستا رہتا ھے ‘‘ مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس جملے سے اس کا مقصد کیا ھےلیکن اس کا یہ جملہ سن کر میرا دل کٹ کر رہ گیا۔نہ جانے کیوںمجھے یہ سن کر بلکل اچھا نہیں لگا کہ ثاقب اس کا لند چوستا ھے۔چشم تصور سے میں نے دیکھا کہ ثاقب کہ خوبصورت منھ میں امجد کا کالا لند ھے۔اور وہ اسے مزے لی لیکر چوس رہا ھے۔اس کے گلابی امجد کے لند کو چوم رھے ھیں اور اس کی ھموار زبان امجد کے پورے لند کو چاٹ رہی ھے۔کبھی وہ اپنے منھ میں میں امجد کے کالے ٹٹے لیکر چوس رہا ھے۔میرے لیئے یہ تصور روح فرسا تھا کہ جا سے مجھے پہلی نظر میں محبت ھوگیئ تھی وہ کسی اور کا اور وہ بھی اتنا کالا لند اپنے منھ میں لیتا ۔میرے نزدیک یہ ثاقب کے منھ کی توہین تھی۔پھر مجھے خیال اٌیا کہ میں بھی تو ھوس کے ھاتھوں مجبور ھوکر امجد کا کالا لند چوس رہا تھا۔میں نے ایک گہری سانس لی اور امجد کا بڑا سا لند اپنے دونوں ھاتھوں سے پکڑا ۔اس کے بوجود اس کے لند کا ٹوپا پورا ھاتھوں کی گرفت سے باہر تھا اور ایک اور تصور اپنے دماغ میں لایا کہ اس لند پر ثاقب کے خوبصورت ھونٹوں کا لمس ھے۔اسے اس کے سرخ لبوں نے چوسا ھے۔ایک بار پھر اس خیال نے مجھے بی حال کردیا اور مٰیں نے بی تاب ھوکر اس کے لند کا ٹوپا اہنے منھ میں لی لیا اور جہاں تک میرے ھاتھ تھے وہاں تک میں نے امجد کا لند منھ میں لیکر چوسا اور اس کے لند کی نوک پر گیلی زبان پھیری۔اپنے تیئں میں امجد کا لند نہیں چوس رہا تھا بلکہ ثاقب کے لبوں کو چوس اس تھوک کی مہک فیل کررہا تھا جو امجد کے لند کو چوستے ھوئے ثاقب کے منھ سے نکل کر امجد کےلند کو گیلا کر گئی تھی۔میں نے اپنا ایک ھاتھ ہٹادیا اور امجد کے لند کو اپنے منھ میں اور اندر تک لے گیا اور پوری دلجمعی سے اسے چوسنے لگا۔حقیقت تو یہ ھے کہ اس کا اٌدھا لند بھی پوری طرح میرے منھ میں نہیں اٌسکا تھا۔
امجد کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ھوگئا اور اس نے مجھے اٹھایا اور میرے گیلے ھوتے ھوئے منھ میں پھر اپنی زبان گھسیڑدی اور بےتابانہ اسے چوسنے لگا۔اس کے ھاتھ پھسلتا ھوا میرے کمر تک اٌیا اور پھر اس نے بھی میری سرخ انڈروئیر کھینچ لی۔میرا تھراتا ھوا لند اس کے لند سے ٹکرایا اور مانو چنگاریاں پھوٹ پڑی اور میں نے اس کے جسم سے اپنا جسم بھینچ لیا۔میرا نچلا نازک سا حصہ اس کے بھرے ھوئے نچلے حصے سے ٹکرارہا تھا ۔میرا لند اس کے لند سے باتیں کررہا تھا۔دیر تک وہ میرے منھ کی کسنگ کرتا رہا۔
‘‘ او سعد ۔۔ ۔ میں جھوٹ نہیں بولونگا۔تم سے پہلے تم سے بھی خوبصورت لڑکوں کے ساتھ میں نے ایسا کیا ھے لیکن میری جان جو مزاہ مجھے تمہارے ساتھ اٌیا ھے وہ کسی کے ساتھ پہلے نہیں اٌیا۔تمہارے اندر کوئے ایسی کشش ھے کہ میں بھی پاگل ھوگیا ھون۔ اٌئی لو یو مائی ڈارلنگ۔ ۔ ‘‘ان جملوں کے ساتھ اس نے میری کسنگ بھی جاری رکھی اور پھر بڑی نرمی سے اس نے مجھے ہلکا سا پیچھے ہٹا کر میرے لند پر نظر ڈالی ۔میرا لند تقریباْ ساڑھے پانچ انچ لمبا تھا اور اس کے اپنے لند کے مقابلے میں کافی پتلا تھا لیکن بلکل سیدھا اور تنا ھوا تھا۔ میرا لند بلکل سفید دودھ جیسا اور بے داغ تھا۔میرے لند کو دیکھ کر اس کی اٌنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔اس نے بڑی ملائمت سے میرے تنے ھوئے لند کو پکڑا اور اہستہ اٌہستہ اسے سہلانے لگا ۔اس کے ھاتھوں میں میرا لند ھچکولے کھا رہا تھا۔پھر وہ گھٹنے کے بل بیٹھ گیا اور کئی لمحوں تک میرے لند پر نظر جمائے رہا۔اٌنے والے وقت کے تصور سے میرے اندر ہیجانی سی کیفیت طاری ھوگیئ اور پھر وھی ھوا جو میں سوچ رہا تھا۔اس نے اپنے بڑے سے منھ میں میرا پورا لند لے لیا۔
اس کے گرم گرم منھ میں جا کر میرا لند جیسے سلگ اٹھا اور میری ایک ہیجانی سی چیخ نکل گئی۔مین نے پھر اس کے بال جکڑلیے جیسے لزت اگر ناقابل برداشت ھو گیئی تو میں اسے بالوں سے جکڑ کر روک دونگا۔لیکن یہ لزت تو جتنی بڑھتی ھے اتنا ھی مزاہ اٌتا ھے۔وہ باقاعدہ اواز کے ساتھ میرا لند چوس رہا تھا اور اندر باہر کررہا تھا۔میرے لند کا سرا اس کے حلق سے جا کر ٹکرارہا تھا اور اس کا تھوک میرے پورے لند کو نہ صرف گیلا کر گیا تھا بلکہ باقاعدہ باہر رس رہا تھا۔اس کے وحشیانہ تابڑ توڑ چوسے نے میرا لند اکڑا دیا تھا اور اب مزید برداشت کرنا مشکل ھوا جا رہا تھا۔اٌخر میں چلایا بس امجد بس۔ ۔
امجد نے میرا لند چوسنا چھوڑدیا ۔میرا لند بری طرح جھٹکے کھا رہا تھا۔وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے دونوں ھاتھوں سے میری گاند دبانے لگا۔اس کا ھاتھ میری گاند کی لکیر کے گرد گھوم رہا تھا۔میں اپنی اتھل پتھل سانسوں کو کنٹرول کررہا تھا۔اس دوران اس کی انگلی میری گاند کی لکیر کو اٌہستہ اٌہستہ چیررہی تھی۔اور پھر مین نے محسوس کیا کہ اس کی انگلی کا سرا میریے سوراخ کے گرد ٹھرگیا ھے اور پھر مجھے اپنی گاند کے سوراخ پر اس کی انگلی چکراتی محسوس ھویئ۔یہ ایک نیا مزاہ تھا جس کا مجھے زرا اٌئیڈیا نہ تھا۔سنسنی کے مارے میری گاند کا سوراخ پھڑپھڑانے لگا۔
پھر اس کی انگلی کا دباؤ میرے سوراخ پر بڑھ گیا۔میں نے ایک سسکاری لی۔اس نے پیشقدمی جاری رکھی۔اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ سخت خواری کے عالم میں ھے۔اس نے انگلی کو اور اندر کی طرف پش کیا اورشاید اس کی انگلی ناخن تک اندر گھس گئی لیکن میں خود تکلیف سے ہلکے سے چیخا تو اس نے فوراً انگلی کھینچ لی اور میرے لند والی جگہہ میں پھر اپنا منھ رکھ کر میرے لند سے رگڑنے لگا اور پھر اَہستہ اَہستہ اٹھ کھڑا ھوا۔اس کی اٌنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ سخت بےخودی کے عالم میں ھے۔‘‘سعد۔ ۔ او مائی بوائے۔ ۔میں کیا کہوں تم کک۔ ۔ ۔ کیا چیز ھو? میں تمہیں بہت چاہتا ھون۔مم ۔ میں نے اٌج تک کبھی کک۔ ۔ کسی سے گاند نہیں مروائی۔ ۔ کک ۔ ۔ کیا تم ہاں میرے دوست تم مم ۔ ۔ میری گاند مارنا پپ ۔ ۔ پسند کروگے?”
میرا دل ان لفظوں کی ایکسائٹمنٹ سے اچھل پڑا۔میرے لند نے اوپر نیچے دوچار جھٹکے لئے۔مجھے اس سے اس پروپوزل کی امید نہ تھی۔یا تو میرا جادو اس پر پوری طرح چل گیا تھا یا پھر وہ میرا چھوٹا سا لند اپنی گاند میں لیکر بدلے میں اپنا بڑا سا لند میری گاند میں ڈالنا چاہتا تھا۔لیکن ایک اور خیال نے میرا دل بٹھادیا۔اگر امجد نے اٌج تک گاند نہیں مروائی تھی تو پھر ثاقب۔ ۔
۔ ‘‘کیا ثاقب نے بھی نہیں?”سوچ کے ساتھ ساتھ میرے منھ سے نکل گیا۔امجد نے چونک کر مجھے دیکھا ۔اس کے چہرے پر ایک سایہ سا لہراگیا۔
‘‘نہیں۔ ۔ ” وہ گہری سنجیدگی سے بولا۔‘‘ثاقب کو چکنے اور کم عمر لونڈے پسند ھے۔تمہارے جیسے۔اس کا دل ایک سے دوچار ملاقاتوں میں اکتاجاتا ھے”اٌخری جملہ مجھے اضافی لگا۔شایدمجھے ثاقب سے بدزن کرنے لئے۔
لیکن میرا دماغ تو ایک اور مسئلے میں ہھنس گیا تھا۔اگر ثاقب امجد سے گاند نہیں مرواتا تھا تو اس کا لند تو چوستا تھا ۔تعلق تو تھا۔تو کیا۔ ۔
‘‘تو کک۔ ۔ کیا تم اس کی۔ ۔ گاند۔ ۔ ۔ ”میں جملہ پورا نہ کرسکا۔وہی چشم تصور سے پھر میں نے دیکھا کہ ثاقب الٹا ننگا ھوکر لیٹا ھوا ھے اور امجد اپنا موٹا کالا لند ثاقب کی گدرائی ھوئی گاند کے سوراخ پر رکھ کر دھکا لگا رہا ھے اور چند لمحوں میں ایک طویل چیخ کے ساتھ ثاقب نے اس کا پورا لند اپنی گاند میں لے لیا۔
‘‘نہیں ” امجد کا جواب کافی دیر بعد اٌیا۔جانے کیوں میرے دل میں اطمینان کی ایک لہر ڈور گئی۔‘‘ثاقب نے شاید کبھی کسی سے گاند نہیں مروائی۔میرا صرف لند چوسنا اسے اچھا لگتا ھے۔
اسی دوران وہ دراز میں سے کریم کی ایک ٹیوب اٹھالایا اور بہت ساری کریم نکال کر میرے لند پر بکھیر دی۔اس نے میرا لند لینے کا پورا ارادہ کرلیا تھا۔میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ میں اسے روک دوں پر میری ھوس میرے دماغ پر غالب اٌگئی اور میں خاموشی سے اسے کریم میرے لند پر مسلتے دیکھتا رہا۔اس نے دوبارہ کریم نکالی اور میرے دیکھتے دیکھتے اس نے ٹیوب ایک سمت پھینکی اور خود بستر کے کنارے پر بیٹھا۔ٹانگیں نیچے کئے ھوئے وہ پیٹھ کے بل لیٹا۔اپنی دونوں ٹانگیں مخالف سمت میں چیریں اور پھر اپنے ھاتھ کی کریم ساری اپنی گاند کے سوراخ کے گرد بکھیردی اور میرے دیکھتے دیکھتے اپنی موٹی سی درمیانی کریم اٌلود انگلی اپنے سوراخ پر رکھی اور اسے دبایا ۔اس کی پوری انگلی گاند مین گھس گئی۔
اس دوران اس نے اپنا نچلا ھونٹ دانتوں تلے دبا لیا تھا ۔اس کی بھری بھری گاند پوری طرح میرے سامنے تھی اور اس کا کالا گول سوراخ پوری طرح کھل کر سامنے اٌگیا تھا۔اس منظر نے میرے دل میں ایک اٌگ سی لگادی۔میرا سر جلنے لگا۔پھر اس نے لیٹے لیٹے اپنے دونوں ھاتھوں سے اپنی دونوں ٹانگیں اٹھادی۔او مائی گوڈ میں ٹرپ اٹھا ۔اس نے میری طرف دیکھا اور ایک ہسکاری بھری اٌواز میں بولا ‘‘اٌؤ جان۔ ۔ میری گاند تمہارے لند کا انتطار کررہی ھے”
‘‘مم ۔ ۔ میں نہیں کر۔ ۔ پاؤنگا۔ ۔”میرے منھ سے پھنسی پھنسی اٌواز نکلی
‘‘نو پروبلم ۔ ۔ تم کوشش تو کرو”وہ فل موڈ مین تھا۔میں اٌگے بڑھا اور اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں اٌگیا۔میرے ہیجان کا یہ عالم تھا کہ لگتا تھا ابھی میرا لند پھٹ پڑےگا۔ھمت مجتمع کرکے میں نے اپنا تیر کی طرح سیدھا لند اس کے کالے سے سوراخ پر رکھا۔اس نے ایک سسکاری بھری۔میرا لند تھر تھرایا۔مجھے لگا کہ میں ٹچ کرتے ھی چھوٹ جاؤنگا۔میں نے پیشقدمی روک کے اپنی سانس روک لی۔لند بری طرح اچھلا ۔کچھ توقف سے ہیجان کم ھوا تو میں نے سوراخ پر اپنا لند دبایااور پھر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔اس کی گاند پر اور میرے لند پر لگی کریم نے دونوں کو اتنا سلپری کردیا تھا کہ ایک ہلکے سے دباؤ کے ساتھ میرا لند پھسلتا ھوا اس کی گاند میں گھستا چلا گیا۔
اس کی تیز کراہ پر میں وھیں ساکت ھوگیا۔میرا پورا لند اس کی گاند میں تھا اور اس کی کراہ خاصی طویل تھی۔اس نے شدت درد سے اپنے ھونٹ بھینچ رکھے تھے۔مجھے تعجب ھوا۔ جتنی اٌرام سے لند اس کی گاند میں گھسا تھا اس سے تکلیف تو ھونی ھی نہ چاہئے تھی۔وہ شاید ایکٹنگ کررہا تھا تاکہ اس کی باری پر میں بھی برداشت کروں۔ میں تھوڑا سا پریشان ھوگیا تھا۔دل چاہا کہ اپنا لند اس کی گاند سے نکال لوں اور شاید وہ یہ بات بھانپ گیا کہ میں شش و پنج میں مبتلا ھوگیا ھوں اور اس نے تکلیف دہ اٌواز میں کہا کہ میں رکوں نہ۔ میرا دل پھر میرے دماغ پر حاوی اٌگیا۔رکنے کا ایک فائدہ بھی ھوا کہ میں اس پیک پر تھا کہ اگر میں اپنا لند اسی وقت باہر کھینچ لیتا تو میری منی فوراً نکل جاتی ۔
وہ پورا منظر مجھے بے چین کئے ھوئے تھا ۔وہ بستر پر اوندھا لیٹا تھا ، اپنے ھی ھاتھوں سے اس نے اپنی دونوں ٹانگیں چیری ھوئی تھیں اور اس کی دونوں بھری بھری رانوں کے درمیاں میں خود تھا۔میرے سامنے اس کا ھچکولے کھاتا بڑا سا لند تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ میرا اہنا لند اس کی گاند میں تھا جو اس وقت فل ھوٹ ھورہی تھی۔اس گاند کی دیواروں نے میرا لند جکڑ رکھا تھا۔میں ھواؤں میں اڑرہا تھا ۔جوش اور جنون کے اٌخری عالم میں میں نے سب کچھ بھلا کر اپنا لند اس کی گاند میں اندر باہر کرنا شروع کردیا۔وہ کراہ رہا تھا ۔مزے سے یا تکلیف سے مجھے نہیں پتہ لیکن میں باقاعدہ مزے کے عالم میں چلارہا تھا۔میرے جسم کی تمام رگیں تن کر میرے لند کےساتھ شریک ھوگئیں تھیں۔میری ٹانگیں اس کی گاند سے ٹکرا کر اٌوازیں پیدا کررہی تھیں۔
میرے دوبوں ھاتھ اس کی کمر پر تھے جس سے اس کی گرمی کا احساس ھورہا تھا۔اس کی گاند میں تو جیسے ھیٹر چل رھے تھے جس کی تپش سے میرا لند سلگ رہا تھا۔وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔اب جو ھونا تھا وہ بھگتنا تھا پھر مزے کو کیوں پس پشت ڈالا جاتا۔میں نے محسوس کیا کہ جب میرا لند اس کی گاند کی گہرائیوں میں اترتا تھا تو وہ اپنا سوراخ ڈھیلا چھوڑدیتا تھا اور جب میں اپنا لند واپس کھینچتا تھا تو وہ اپنے سوراخ کو بھینچتا تھا جس سے میرا لند اور اکڑجاتا تھا اور میرا مزاہ دوبالا ھوجاتا تھا۔میرا لند مسلسل اس کی گاند کے سوراخ کو رگڑرہا تھا ۔اندر باہر ھورہا تھا ۔مستی کا ناقابل بیان عالم تھا کہ جس کے ھاتھون میرا اپنا وجود میرے بس میں نہ تھا۔
بیان کرنے کو تو یہ ایک لمبا وقفہ ھے لیکن حقیقت میں یہ چند لمحوں کا کھیل تھا ۔خواری میرے سر پر کطھ اس طرح سے چڑھی ھوئی تھی کہ میں زیادہ دیر ھولڈ کرھی نہیں سکتا تھا۔مجھے یوں لگا جیسے میری پوری جان میرے لند کے راستے اس کی گاند میں ٹرانسفر ھوجائے گی۔میں پسینے میں تر بتر ھورہا تھا۔جیسے ھی مجھے لگا کہ اب رکنا ممکن نہیں میں نے اپنی رفتار بڑھادی اور پوری قوت سے اندر باہر کرنے لگا اور پھر مجھے لگا کہ ایک گرم لاوا مییرے ٹٹوں سے چھوٹ پڑا ھو۔میں شدت لزت سے چلایا اور شاید امجد کو بھی احساس ھو گیا کہ میں چھوٹنے والا ھون۔وہ ساکت ھوگیا اور پھر جزبات کا ایک طوفان میرے لند کے راستے منی کی صورت میں اس کی گاند کی گہرائیوں میں اترتا چلاگیا۔
پہلی چیخ پہلا فوارہ،دوسری چیخ دوسرا فوارہ ،تیسری چیخ تیسرا فوارہ۔میری جان فواروں کی شکل میں اس کی گاند میں اترتی جارہی تھی۔میں بری طرح ھانپ رہا تھا اور وہ اٌہستہ اٌہستہ میرے لند کی طرف اپنی گاند ہلا رہا تھا۔میں بری طرح تھک کر رک گیا تھا لیکن اس کی حرکت جاری تھی ۔وہ مسلسل اٌگے پیچھے ھورہا تھا۔اس کی طلب بجھی نہیں تھی۔اس کا اپنا لند بری طرح ھوا میں لہرارہا تھا۔ میں بہت جلد فارغ ھوگیاتھا۔اس احساس نے مجھے تھوڑا سا ڈسٹرب کردیا۔اپنی کمزوری کا اھساس کرکے مجھے شرمندگی فیل ھوئی اور شاید اس نے اس بات کو نوٹ کرلیا۔وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا
اس نے اپنا ھاتھ بڑھا کر میرا ھاتھ پکڑااور ایک جھٹکے سے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔میرا لند جو کہ بلکل سکڑچکا تھا اس کی گاند سے نکل گیا اور میں اس کے سینے پر اٌکے گرا۔اس کا لوھے کی طرح تنا ھوا لند میرے پیٹ کے نیچے دب گیا تھا اور وہ ابھی تک اٌگ کی طرح تپ رہا تھا۔میرا منھ بلکل اس کے منھ کے اوپر تھا۔
‘‘ڈونٹ وری یار۔`وہ خمار اٌلود نظروں سے مجھے دیکھتا ھوا بولا‘‘شروع شروع میں ایسا ھی ھوتا ھے۔اٌدمی اتنا ٹینس اور ایکسایئٹد ھوجاتا ھے کہ چند لمحوں میں فیصلہ ھوجاتا ھے`یہ کہہ کر اس نے مجھے اپنی طرف بھینچ لیا اور اس کے ھاتھ میری پیٹھ پر رینگنے لگے۔میری خواری ختم ھوچکی تھی اور میں بلکل ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔اب وہ پھر مجھے برا لگنے لگا تھا۔اس کا سیدھا ھاتھ رینگتا ھوا میری گاند کی لکیر پر اٌیا اور پھر دھیرے دھیرے لکیر کو چیرتا ھوا اٌگے بڑھا اور پھر میری گانگد کے سوراخ پر اس کی وھی انگلی ٹھہر گئی جس پر کریم لگا کر اس نے اپنی گاند میں ڈالی تھی۔
میری تو جیسے سانس رک گئی۔مجھے سخت تشویش ھونے لگی۔دل چاہا اسے روک دوں لیکن پھر ثاقب کا خوبصورت چہرہ میری اٌنکھوں میں اتر اٌیا۔امجد کے بغیر ثاقب سے ملاقات میرے جیسے شرمیلے اور بوکھلائے ھوئے لڑکے سے ناممکن تھی اور ثاقب تو جیسے میرے لئے زندگی کی شکل اختیار کرگیا تھا۔میں امجد کو ناراض نہیں کرسکتا تھا۔میں نے اپنے ھونٹ بھینچ لئے اور اپنی سانسیں بھی روک لیں ۔امجد نے میری گاند کے سوراخ پر اپنی سلپری انگلی کا دباؤ بڑھایااور اس کی اٌدھی انگلی سلپ ھوکر میری گاند میں گھس گئی۔میری نہ چاھتے ھوئے بھی تکلیف سے کراہ نکل گئی۔اس نے میرے ھونٹوں پر اپنے ھونٹ رکھ دئے اور ساتھ ھی انگلی پر دباؤ بڑھا کر پوری انگلی میری گاند میں گھسیڑدی۔میں اس کے جسم پر ھی ھلکا سا اچھلا۔اس نے دوسرے ھاتھ سے مجھے خود پر سنبھالا۔ساتھ ھی میرے ھونٹ چوسنے لگا۔اس کے اور میرے درمیاں اس کا بڑا سا لوھے کی طرح سخت لند دبا ھوا تھا جس کے ھولناک سائیز نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔
انگلی پوری اندر گھس چکی تھی ہلکے سے درد کے ساتھ مجھے ایک انجانا سا کیف بھی محسوس ھوا۔وہ اٌہستہ اٌہستہ اپنی انگلی اندر باہر کررہا تھا۔ایک ھلکا سا وجد مجھ پر طاری ھوا اور میرے اپنے بیٹھے ھوئے لند میں ھلکی سی جھرجھراہٹ پیدا ھوئی۔کاش اس کا لند بھی اتنا ھی ھوتا جتنی اس کی انگلی تھی تو کتنا مزاہ اٌتا لیکن اس کا لند کئی گنا بڑا تھا۔مجھے یقین تھا کہ وہ لند میری گاند پھاڑدیگا۔
وہ دیر تک اپنی انگلی میری گاند میں گھماتا رہا ۔ساتھ ساتھ وہ مجھے دوسرے ھاتھ سے اپنے سینے پر دبائے ھوئے تھا۔اس کے لند کا گرم دباؤ سے میرا پیٹ دب گیا تھا۔ساتھ ھی وہ میرے ھونٹ چوس رہا تھا۔پھر اس کی زبان میرے منھ میں دوڑنے لگی۔اس کی سانسیں اکھڑ گئیں تھیں اور وہ بہت بے صبرا ھورھا تھا۔جب اس کی برداشت سے باہر ھوگیا تو اس نے مجھے اپنے سینے پر سے اتارا اور کھڑا ھوگیا۔اس نے پاس پڑی کریم کی ٹیوب اٹھائی اور بہت ساری کریم نکال کر کر اپنے لند پر ملدی۔خوف کے مارے میری جان نکل گئی تھی مگر میں خاموشی سے دیکھنے پر مجبور تھا۔مین اپنی باری کا مزاہ لے چکا تھا۔اب اس کو کس منھ سے منع کرتا۔اب کی بار اس نے مجھے دیکھے بغیر میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے الٹا پلنگ پر لٹادیا۔میں الٹا لیٹا خوف سے اٌہستہ اٌہستہ لرز رہا تھا۔
پھر مجھے اس کا ھاتھ دوبارا اپنی گاند پر محسوس ھوا اور پھر کریم میں لتھری ھوئی اس کی انگلی بڑے پیار سے میری گاند میں اتر گئی اور وہ اس کو سرکل کی شکل میں گھمانے لگا۔صاف لگ رہا تھا کہ وہ میرے سوراخ کو اپنا لند لینے کے لئے ھموار کررہا تھا۔پھر مجھے اچانک اس کی دوسری انگلی بھی اپنی گاند کے سوراخ پر فیل ھوئی اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا اس نے دوسری انگلی بھی میری گاند میں گھسیڑدی۔درد اتنا تھا کہ میں کراہنے لگا۔اس نے دونوں انگلیاں ایک ساتھ اندر باہر کرنا شروع کردی۔میں کراہتا رہا اور اس نے اپنا کام جاری رکھا۔ایک عجیب سا احساس تھا جو درد کو مزے میں تبدیل کررہا تھا۔وہ انگلیاں گھما گھما کر میرے سوراخ کو بڑا کررہاتھا تاکہ میں اس کا لند کم سے کم تکلیف کے ساتھ اپنی گاند میں لے سکوں ۔اور پھر وہ لمحہ بھی اٌگیا۔اس نے انگلیاں میری گاند سے نکال لیں اور اپنے دونوں ھاتھ میرے کندھوں پر رکھے اور اسی کے ساتھ میں نے اس کا کھولتا ھوا لند اپنی گاند کی لکیر پر محسوس کیا۔
میں ایک دم ساکت ھوگیا۔اس کا لند پھسلتا ھوا ٹارگٹ کی طرف بڑھا اور پھر میرے سوراخ پر اٌکے ٹھہر گیا۔میرا سارا بدن ایک جھرجھری لیکر رہ گیا۔اس کے گرم لند کے ٹوپے کا دباؤ میرے سوراخ پر بڑھا ۔میں نے اپنے دانت بھیچ لئے۔اس نے زور لگایا۔میں نے اور زور سے اپنے دانت بھینچے۔ایک جھٹکا لگا اور اس کا صرف ٹوپا میری گاند میں گھس گیا اور برداشت کے باوجود میری بھیانک چیخ نکل گئی۔اپنی زندگی میں میں کسی ایسے درد سے نہ گزرا تھا۔اس نے بوکھلا کر اپنا ٹوپا باہر نکال لیا۔
میں پلٹ کر بیٹھ گیا۔شدتِ تکلیف سے میں ابھی تک کراہ رہا تھا۔میری اٌنکھیں اٌنسؤں سے لبریز ھوگی تھیں۔میں نے دیکھا کہ وہ مایوس کن نظروں سے مجھے دیکھ رہا ھے۔اس کا لند ھوا میں بری طرح بل کھا رہا تھا۔یہ یقیناً ناانسافی تھی کہ اسے یوں خوار چھڑدیا جائے۔
‘‘ سوری۔ ۔ ` میں نے سبکیاں لیتے ھوئے کہا اور پھر دل پر جبر کرکے دوبارا الٹا ھوکر اپنی گاند اس کے لند کی طرف کردی اور انتظار کرنے لگا کہ وہ دوبارہ اپنا لند میری گاند میں ڈالنے کے لئے اپنے لند کا ٹوپا میری گاند کی لکیر پر رکھے۔انتظار کچھ لمحہ طویل ھوگیا اور پھر اس کے لند کے بجائے اس کا ھاتھ میرے کندھوں پر اٌیا اور اس نے مجھے کھینچ کر اپنے مقابل کھڑا کردیا۔میں حیران ھو کر اس کی شکل دیکھنے لگا۔وہ بڑے پیار سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
‘‘چلو کوئی بات نہیں ضروری نہیں کہ یہ ابھی کیا جائے۔پھر سہی۔`وہ بڑے پیار سے مجھے دیکھتا ھوا بولا
‘‘لیکن۔ ۔ ۔ `میں نے اس کے کھڑے لند کو دیکھتے ھوئے کچھ کہنا چاہا۔
‘‘سعد اٌئی لو یو۔پیار میں کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی جاتی۔`وہ بڑے خمار اٌلود لہجے میں بولا‘‘ایسے مزے پر لعنت ھے جس سے تمہیں تکلیف ھو۔` اس کی اس بات نے مجھے بڑا متاثر کیا۔میں نے شکرگزار اٌنکھوں سے اسے دیکھا۔یقیناً وہ مجھے شکل سے اچھا نہیں لگا تھا مگر وہ دل کا اچھا تھا۔اس کی محبت کا اظہار البتہ مجھے ڈسٹرب کررہا تھا کیونکہ مجھے تو ثاقب سے محبت تھی لیکن اطمینان طلب بات یہ تھی کہ اس بات کا اندازہ اسے بھی تھا۔
‘‘پھر۔ ۔ `میں نے پھر اس کا لند دیکھا جس کے ساتھ بہرحال انصاف نہیں ھوا تھا۔وہ مسکرایا اور مجھ پر جھک کر مجھے پھر کسنگ کرنے لگا اور پھر اس نے مجھے پلنگ پر سیدھا لٹادیا اور میرے اوپر اٌکر اپنی زبان میرے منھ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا۔وہ پورا میرے اوپر تھا لیکن اس نے اس طرح اپنے اٌپ کو سنبھالا ھوا تھا کہ مجھے اس کا بوجھ فیل نہین ھورہا تھا۔اس کا لند میرے پیٹ سے لیکر میرے سینے تک اٌیا ھواتھا اور وہ اٌہستہ اٌہستہ اپنا لند اٌگے پیچھے ھوکر ھم دونوں کے درمیان رگڑرہا تھا۔ اس کے سلگتے لند کی ھیٹ سے میرا سینہ جل رہا تھا۔وہ جوش اور جنون میں میری زبان اور منھ شوس رہا تھا اور تیزی سے اپنے اٌپ کو میرے اوپر رگڑرہا تھا۔میں تو فارغ ھوچکا تھا اس لئے میرا احساس کچھ زیادہ نہ تھا لیکن وہ بری طرح اٌہیں بھر رہا تھا ۔
‘‘پھر۔ ۔ `میں نے پھر اس کا لند دیکھا جس کے ساتھ بہرحال انصاف نہیں ھوا تھا۔وہ مسکرایا اور مجھ پر جھک کر مجھے پھر کسنگ کرنے لگا اور پھر اس نے مجھے پلنگ پر سیدھا لٹادیا اور میرے اوپر اٌکر اپنی زبان میرے منھ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا۔وہ پورا میرے اوپر تھا لیکن اس نے اس طرح اپنے اٌپ کو سنبھالا ھوا تھا کہ مجھے اس کا بوجھ فیل نہین ھورہا تھا۔اس کا لند میرے پیٹ سے لیکر میرے سینے تک اٌیا ھواتھا اور وہ اٌہستہ اٌہستہ اپنا لند اٌگے پیچھے ھوکر ھم دونوں کے درمیان رگڑرہا تھا۔ اس کے سلگتے لند کی ھیٹ سے میرا سینہ جل رہا تھا۔وہ جوش اور جنون میں میری زبان اور منھ شوس رہا تھا اور تیزی سے اپنے اٌپ کو میرے اوپر رگڑرہا تھا۔میں تو فارغ ھوچکا تھا اس لئے میرا احساس کچھ زیادہ نہ تھا لیکن وہ بری طرح اٌہیں بھر رہا تھا ۔ طوفان تھمنے کے بھی کئی دیر تک وہ مجھے میرے منھ میری زبان چوستا رہا۔اس کا سارا وجود میرے اوپر کانپ رہا تھا۔ اس کا لند تھا کہ ٹھنڈا ھونے کا نام نہ لے رہا تھا۔نہ ھی اس کے سائیز میں کوئی فرق اٌرہا تھا۔اس کی دھیڑ ساری منی سے دونوں کا جسم لتھڑ گیاتھا۔تھوڑی دیر بعد وہ پلٹ کر برابر میں سیدھا لیٹ گیا اور پھر ھاتھ بڑھا کر مجھے خود پر کھینچ لیا۔وہ مسکرایا
‘‘اٌج تو مجھے مزاہ اٌگیا۔تم کو اچھا لگا` میں نے اثبات میں گردن ہلادی۔‘‘تم سے مل کر مجھے لگا ھے جیسے کوئی ادھورا پن ختم ھوگیا ھے۔میں اٌج بہت خوش ھوں`
مجھے پھر ثاقب یاد اٌیا اور پھر مجھے وقت کا احساس ھوا۔میں نے اس سے کہا کہ بہت دیر ھوگئی ھے گھر والے پریشان ھورھے ھونگے تو اس نے مجھ سے کہا کہ مین جلدی سے اپنا بدن دھولوں۔میرے بدن ہر پھیلی ھوئی اس کی منی سے مجھے بھی کراہت سی محسوس ھوئی۔مین نے جلدی سے اپنا بدن دھکر کپڑے پہن لئے۔اس نے بھی یہی کیا۔
اس نے مجھے اپنا نمبر لکھوایا اور نہ چاہتے ھوئے بھی میں نے اس سے پوچھ لیا
‘‘کیا ثاقب مجھ سے واقعی ملے گا`وہ اس سوال پر چونکا۔اسےشاید ابھی مجھ سے اس سوال کی توقع نہ تھی۔
وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر پھیکے انداز میں مسکرایا‘‘کیوں نہیں تم بس تھوڑا سا انتظار کرو۔میں تمہیں چند دنوں میں فون کرونگا۔`پھر اس نے مجھے اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر ڈراپ کیا۔دیر تک کھڑا مجھے دیکھتا رہا پھر ھاتھ ملا کر بائے کرکے چلاگیا اور میں ثاقب سے ملاقات کا تصور کرتے ھوئے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔مجھے امید تھی بھی اور نہیں بھی تھی۔ایک دن میں ثاقب میرے دل و دماغ پر چھاگیا تھا۔