• سلور پیکج

    سلور اسٹوری سیکشن ۔۔۔۔

    1000 ماہانہ

    گولڈ پیکج

    سلور اسٹوری سیکشن + گولڈ اسٹوری سیکشن ۔۔۔۔

    2500 تین ماہ

    ڈائمنڈ پیکج

    سلور اسٹوری سیکشن + گولڈ اسٹوری سیکشن + ڈائمنڈ اسٹوری سیکشن ۔۔۔۔

    3500 چار ماہ

    WhatsApp contact: +1 304 310 9247

    Email: [email protected]

پیار کہانی محبت کا آسماں

لو اسٹوری فورم پہ خوش آمدید

شہوت و لذت سے بھرپور اوریجنل اردو سیکس کہانیاں اور جنسی ادب کے بہترین رائٹرز ، یہ سب آپکو صرف لو اسٹوری فورم پر ہی ملے گا، تو دیر مت کریں ابھی دنیائے اردو کے بہترین فورم کو جوائن کریں

Story Lover

Well-known member
Joined
Oct 13, 2024
Messages
75
Reaction score
325
Points
53
Gender
Male
میں گلا کھنکھار کے کمرے میں داخل ہوا تو مناہل نے جلدی سے دوپٹہ کو درست کر کے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سمٹ کے بیٹھ گئی۔۔ میں نے دروازے کو چٹکنی لگائی اور آئستہ آئستہ نپے تلے قدم ااُٹھاتا ہوا اس کے قریب بٹھ گیا ۔کمرے میں ٹیوب لائٹ کی تیز روشنی تھی۔سیج کی جھنڈیوں سے ٹکرا کے منعکس ہوتی روشنی کمرے کو خواب ناک بنا رہی تھی۔۔۔ مگر مناہل کے وجود سے اُٹھنے والی طلسماتی کرنیں اس روشنی کو ماند کر رہی تھیں۔ریڈش سوٹ اُسے بلاشبہ سوٹ کر رہا تھا۔مناہل ملکوتی حسن کی ملکہ تھی۔وہ کسی شاعر کی غزل کا جیتا جاگتاطلسماتی عنوان تھی جسکا ایک ایک لفظ محبت، کی چاشنی اور خلوص کے دل لبھاتے مصرعوں سے مزین تھا۔۔۔میں چند لمحے اُسکی من کو موہ لینے والی صورت کو تکتا رہا۔ موہنی صورت پہ بار بار نمودار ہوتا حیا کا سرخی مائل رنگ اسکی شادابیت کو مزید بڑھا دیتا۔ ۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کا حنائی ہاتھ تھام لیا تو وہ پہلو بدل کے رہ گئی۔۔مناہل ۔۔میں نے ہولے سے اُسے کے کومل ہاتھ کو سہلاتے ہوئے مخمور لہجے میں پُکارا ۔اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔مگر اُس ماہ جبیں کی لرزتیں پلکیں ،کپکپاتے ہونٹ ۔اور سانسوں کی بتدریج بڑھتی روانی چیخ چیخ کر ہو شربا جذبات میں موجزن طلاطم خیز موجوں کی بغاوت کا پتہ دے رہے تھے۔میں نے اپنی گرفت اسکے ہاتھ پہ تھوڑی سخت کی تو وہ کسمسا کے رہ گئی۔میں خاصا محظوظ ہوا۔ میں نے غور سے اُسکے مخملی شادابی چہرے کو اپنی نظروں میں سموتے ہوئے پھر پکارا۔۔مناہل۔۔اب کی بار مایوسی نہیں ہوئی۔۔اُسکے لب کپکپائے۔۔ج ج جی۔۔اُس کے لبوں کی کمان نے اپنے ترکش کا پہلا تیر چھوڑا جو سہی نشانے پہ بیٹھا۔۔میرا دل عش عش کر اُٹھا۔۔میں نے اوپر والے کا شکر ادا کیا جس نے خود کو ایک حسین مجسمہ میں مجھے دکھایا۔۔جس پر میں جتنا بھی شکر گزار ہوتا کم تھا۔
۔۔۔۔۔۔ jjj۔۔۔۔۔
دروازے کو دھڑ دھڑ پیٹا جا رہا تھا۔میں ہڑبڑا کے اُٹھ گیا۔دسمبر کا مہینہ تھا اور سردی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ فتنہِ انگیزاں تھی۔میں نے اٹھ کر لائٹ آن کی اور اپنی رسٹ واچ پہ نظر ڈالی۔۔تین بج چکے تھے۔اتنی رات کو کون ہو سکتا ہے؟میں نے کوفت سے سوچا۔لاہور شہر میں آئے مجھے ایک مہینہ بمشکل ہوا تھا۔ایک گورنمنٹ کالج میں لیکچرر کی میری پوسٹنگ ہوئی تھی۔بنیادی طور پہ میرا تعلق مظفرآباد، آزاد کشمیر کے ایک زمیندار گھرانے سے تھا،،۔لاہور دیکھنے کا مجھے بچپن سے ہی شوق تھا جس کی تکمیل اب ہو پائی تھی۔ایک دوست کے توسل سے ایک ٹاؤن میں ایک مکان مل گیا تھا جو کالج کے بالکل قریب تھا۔میں کالج سے فارغ ہوتا اور لاہور شہر کی سڑکیں ماپتا۔لاہوری چٹ پٹے کھانے ٹھونستا اور رات کو پاوں پسار کے سو جاتا۔۔ ۔تو اب تک حالات ٹھیک جا رہے تھے۔لیکن نوشتہ تقدیر کبھی مٹ نہیں سکتا۔ ۔تاریخ گواہ ہے تقدیر اور بنی آدم کی لڑائی میں شکست ہمیشہ انسان کا مقدر بنی۔۔۔تقدیر جس نے بڑے بڑے سورماؤں کو دنیا کے اسِ اکھاڑے میں پچھاڑ دیا ہے۔آج اُسکا رخ میرے گھر کی طرف تھا۔دروازہ اب بھی مسلسل پیٹا جا رہا تھا۔میں بمشکل اُٹھا اور باہر آیا۔کون ہے ؟ میں نے دروازے کے قریب جا کر آئستگی سے پوچھا۔۔خدا کے لئے دروازا کھولیں ورنہ وہ مجھے مار ڈالیں گے۔ایک جوان سسکتی، بلکتی اور خوف بھری نسوانی آواز مجھے سنائی دی تو میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گیئں۔رات کا پچھلا پہر تھا۔اور آج کل تو ایسے واقعات عام سی بات تھے کہ اسی طرح مدد اور مظلومیت کا رونا رو کر حسینہ ڈاکو اپنے ساتھیوں سمیت گھروں کے گھر لوٹ کے اُڑن چھو ہو جاتی تھی۔ یہ خیال آتے ہی خوف کی ایک سرد لہر میرے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ بیٹا غزن علی(میرا نام) آج لگتا ہے تیری خیر نہیں۔کسی وقت کے کئے گئے گناہ کی سزا کاوقت قریب آ گیا۔ یہ لوگ میرے ساتھ کیا کیا کریں گے یہ سوچتے ہی میرے وجود میں جھر جھری سی آ گئی۔۔ ۔۔،،پلیز دروازا کھولیں۔۔خدا کے واسطے مجھے اُن جلادوں سے بچا لیں۔وہ سسکتے ہوئے پھر بولی تو میں چونک کے اُس وحشت ناک تصور سے باہر نکلا جو مجھے خوف سے ہلکاں کئے ہوئے تھا۔۔ کوں ہو تم اور
کون لوگ تمہیں مار ڈالیں گے
۔میں نے تھوک نگلتے ہوئے بمشکل ہمت کر کے پوچھا۔۔آُپ مت کھولیں دروازا۔۔وہ گلوگیر لہجے میں بولی۔۔جب وہ لوگ مجھے مار کے چلیں جائیں تو یہ باتیں میری لاش سے پوچھ لینا۔۔یہ کہہ کر وہ ہچکیاں لے لے کے رونے لگی۔۔میں سوچ میں پڑ گیا۔۔لڑکی کی باتوں اور اُسکے انداز سے لگ رہا تھا کے وہ واقعی مصیبت میں ہے۔۔میں نے ایک لمحے کے لئے مزید سوچا اور دروازہ کھولنے کا فیصلہ کر لیا۔ ۔میں نے کنڈی ہٹا کے جیسے ہی دروازہ کھولا ایک یخ بستہ ٹھٹھرتا وجود میرے سینے سے آن زور سے ٹکرایا۔۔میں اس ناگہانی اُفتاد کے لئے قطعی تیار نہیں تھا تو میں اُٰس کو سنبھالنے کی کوشش میں ایک طرف جھول گیا۔میں نے سنبھل کے اُسے ایک ہاتھ سے قابو کیا اور دوسرے ہاتھ سے کنڈی لگا کر بمشکل لڑکھڑاتے ہوئے اُسے اندر لےآیا۔۔اور ملائمت سے بیڈ پہ لٹا کر اُسکا ایک نظر تنقیدی جائزہ لیا۔اُس حوروش ماہ جبیں کے نین نقوش غضب کے تھے۔گول چہرہ، کشادہ پیشانی اور غضب کا کھلتا گورا رنگ جس میں شباب کی سرخی نُمایاں تھی۔۔معصوم شرمگیں چہرہ دل پہ چھریاں چلا رہا تھا۔۔اُس نے میلی کچیلی چادر میں اپنے وجود کو لپیٹا ہوا تھا۔ ۔۔یخ سردی میں اسکی برداشت کی حد قابلِ ستائش تھی۔اتنی غیر معمولی سردی میں وہ جانے کب سے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی تھی۔میں نے جلدی سے ہیٹر اُسکے قریب لا رکھا اور تھوڑا اُسے گھسیٹ کے بیڈ کے کنارے لایا تاکہ ہیٹر کی تپش اُس کے بدن تک پہنچے۔اسکے ساتھ میں اُسکے ہاتھوں اور پاؤں کی مالش بھی شروع کر دی جو برف بن چکے تھے۔۔مجھے اپنی بے اعتنائی کا بھی افسوس ہورہا تھا۔۔اگر کچھ دیر اور میں دروازہ نا کھولتا تو وہ مر بھی سکتی تھی۔۔آج مجھے احساس ہوا کہ میں کتنا بزدل اور ڈرپوک تھا۔۔خیر آئستہ آئستہ اُس کو ہوش آگیا اور اس نے اپنی آنکھیں کھولیں دیں۔۔۔
………………………………………………………………………………………………….……………………………… ………………………………………………………………....
J j j
ستارہ کا باپ سکندر اول درجے کا شرابی اور جواری تھا۔۔جب تک ستارہ کی ماں نسیم بیگم زندہ رہی محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنی بیٹی کا پیٹ پالتی رہی۔۔گو کے سکندر سیکٹریٹ میں کلرک تھا اور اوُپری کمائی بھی اچھی خاصی تھی مگر کہتے ہیں چوت کی کمائی مُوتہ میں ہی جاتی ہے۔بڑی سوسائٹی کی گفن صحبت نے اُسے شراب اور شباب کا رسیا بنا دیا تھا۔۔ ۔سارا پیسہ شراب، فاحشہ عورتوں اور جوئے میں لٹ جاتا۔نسیم بیگم نے اپنے تئیں بہت کوشش کی مگر وہ سکندر کو راہ راست پہ نا لا سکیں۔۔سکندر اِتنی دور جا چکا تھا کے واپس آنا مشکل تھا۔جب ستارہ پیدا ہوئی تو نسیم بیگم کے دل میں ایک مبہم سی آس جاگی کہ شاید اب سکندر راہ راست پہ آ جائے مگر بے سود۔۔۔ وہ صبر کا کڑوہ گھونٹ بھرے اپنی ننھی سی جان کو اپنے کلیجے سے لگائے پھرتی رہی۔۔وقت گزرتا رہا۔سب کچھ بدل گیا مگر سکندر جوں کا توں رہا۔ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی سکندر نے اپنی عیاشیوں میں اُڑا دی۔۔اب اُسکی شراب کے اخراجات کا نزلہ بھی بیگم نسیم کے بوڑھے کندھوں پہ آ گرا۔۔ستارہ اب 21 سال کی ہو گئی تھی۔بچپن سے ہی ستارہ انتہائی سمجھدار اور سُگھڑ تھی۔۔باپ کی دی ہوئی محرومیوں اور ماں کی استقامت نے ستارہ کو کافی کچھ سکھا دیا تھا۔۔ماں کا ہاتھ بٹانے کے لئے ستارہ نے ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا تھا۔۔جس سے زیادہ نا سہی مگر کچھ حالات بہتر ہوئے تھے۔۔نسیم بیگم کی ستارہ سے کافی توقعات وابستہ تھیں۔اُنھیں یقیں تھا کہ جن محرومیوں سے وہ گزر کےآئیں ہیں اُنکا ازالہ انکی بیٹی جواں مردی سے کرے گی۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُنھیں ستارہ کی شادی کی فکر بھی ستائے رکھتی۔۔۔۔ستارہ خوبصورتی میں اپنے نام کا مترادف تھی۔۔ جوانی کی دیوی اور حسن کا دیوتا اُس پہ خوب مہربان ہوئے تھے۔۔ سلکی سیاہ بالوں میں جھانکتا دودھیا چہرہ ، ستواں ناک اور گلاب کی پنکھڑیوں کو مات دیتے گلابی ہونٹ جن سے معنوں شہد ٹپکتا رہتا ہو نے اُسے قدرت کا انمول شاہکار بنا دیا تھا۔ستارہ کو جازب نظر بنانے میں بلاشبہ اُسکی ساحرانہ سیاہ آنکھوں کا بھی کمال تھا۔۔۔جن میں اکژ گلابی ڈورے تیرتے تھے، یہ ساحرانہ آنکھیں مدمقابل کو مسحور کر دیتی تھیں۔۔جو اُن کو دیکھتا پلکیں جھپکنا بھول جاتا۔ستارہ کا جسم متناسب تھا۔۔جس کی کٹائی نہایت پر کشش تھی۔۔۔کَسی ہوئیں چھاتیاں جن پہ گلابی نپل شباب کے سب سے اونچے مقام پہ براجمان تھے۔۔بھربھرے سے نازک چوتڑ۔جو خاصے اُبھرے ہوئے تھے۔نگاہ کو خیزہ کر دیتے تھے۔۔ستارہ کو اپنی خوب صورتی کا خوب ادراک تھا۔۔وہ ڈھیلا ڈھالا لباس اور ایک بڑی سی چادر زیب تن کرتی تھی۔۔ اپنے وجود کو اُس نے بہت سینچ کے رکھا ہوا تھا مبادہ کوئی بھیڑیا نما آدمی اُس سہمی ہوئی ہرنی کو بھنبھوڑ نہ دے۔۔مگر حسن سات پردے چھپانے سے بھی نہیں چھپتا۔۔ کالج سے اکیڈمی اور اکیڈمی سے گھر آنے تک کئی تپتی نگاہیں ستارہ کو اپنے وجود میں چبھتی ہوئی محسوس ہوتیں۔۔مگر وہ اپنی ماں کی مجبوریوں کا ادراک کرتی ہوئی کمالِ ضبط سے اپنی تمام زمہ داریوں کو پورا کرتی۔دن گزر رہے تھے۔ستارہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک اچھی فرم میں ملازمت کر لی۔۔ماہوار تنخواہ بھی اچھی خاصی تھی جس سے نسیم بیگم کو فراغت کے ایام میسر آ گئے تھے۔۔آج چھٹی کا دن تھا۔۔ستارہ گھر پہ تھی۔بیگم نسیم ستارہ کے گھنے بالوں میں تیل لگا رہی تھیں۔۔
بیگم نسیم: ستارہ پتر تجھ سے ایک بات کہنی تھی۔۔
جی مما جانی کہیئے۔۔ستارہ محبت سے بولی۔۔
بیٹا تیری خالہ شاہین کل آیئں تھیں ۔اپنے بیٹے ارسلان کا رشتہ لے کر۔۔نسیم بیگم سنجیدہ لہجے میں بولیں۔۔
تو؟ آپ نے کیا جواب دیا۔۔ستارہ چونک کر اپنا رخ ماں کی طرف کر کے بولی۔۔
تجھ سے پوچھے یا صلاح لئے بغیر میں نے کوئی کام کیا ہے پگلی۔۔اور یہ تو تیری زندگی کا فیصلہ ہے۔میں اکیلی کیسے کر سکتی ہوں ؟۔نسیم بیگم پیار سے اُس کے سر پہ چپت مارتے ہوئے بولیں۔۔
اوہ۔شکر ہے۔۔ستارہ گہری سانسس لی اور دونوں ہاتھوں سے اپنی ماں کا چیرہ تھام کر گویا ہوئی۔۔۔مما جی مجھے نہیں پڑنا ابھی شادی وادی کے چکر میں۔۔ابھی آپ کی ڈھیر ساری خدمت کروں گی۔۔دنیا کی ہر آسائش ہر خوشی اور آرام و سکوں آپکے قدموں پہ نچھاور کرنا ہے۔۔آپ نے اپنی ساری جوانی مجھے پالنے پوسنے میں لگا دی۔۔لوگوں کے جوٹھے برتن دھویے۔۔گالیاں سنی۔۔محرومیوں اور تنگدستی کے سوا آُپ نے کچھ نہیں دیکھا۔۔اور اب جب سب کچھ ٹھیک ہے ۔ آپکی بیٹی اس قابل ہے کہ آپ کے لئے کچھ کر سکے تو آپ چاہتی ہیں کے میں ڈولی میں جا کے کسی اور گھر چلی جاؤں۔۔؟ نہیں مما۔۔ میری خوشیوں کا محور صرف آپکی زات ہی ہے۔۔ آپکے سوا مجھے کچھ نہیں چاہیے۔۔آپکی خوشی ہی میرا سب کچھ ہے۔۔ میں اُن میں سے نہیں ہوں مما جن کے خواب جوانی میں مہندی سے شروع ہوتے ہیں اور ڈولی پہ ختم ہو جاتے ہیں۔۔جن کے پاس آپ جیسی مما ہوں نا۔۔اُنکی بیٹیاں جراءت و ہمت کے خواب دیکھتی ہیں اور استقامت و مستقل مزاجی کے ہتھیار سے دنیا کو شکست دے کر زمانے میں اُنکا سرفخر سے بلند کرتی ہیں۔نہ کے اپنی خوشیوں کے لئے اپنی ماں کے ارمانوں کا خون کر کے اپنی زندگی کی سیج سجاتی ہیں۔میں آپ کو بیچ منجھدھارِ چحوڑ کر کسی کی سیج نہیں سجا سکتی مما۔۔آپ نے اپنی زندگی مصیبتوں اور پریشانیوں میں گزاری ہے۔۔میں نہیں چاہتی کہ میرے پلے بھی کوئی سکندر پڑ جائے جو میری زندگی اجیرن کر دے،۔ ۔۔میں زندگی جینا چاہتی ہوں۔۔ابھی بہت سارا وقت باقی ہے شادی وغیرہ جیسی خرافات کے لیے۔۔
نسیم بیگم کی آنکھیں فرطِ جزبات سے بھیگ گیئں۔۔اُنھوں نے بھینچ کر اپنی کلی کو اپنے سینے لگا لیا۔۔آج اُنکا سر فخر سے بلند ہو گیا۔۔ ستارہ نے اپنا منہ اُنکے سینے میں چھپا لیا۔۔
وقت کو جیسے پر لگ گئے۔۔قسمت کی دیوی ستارہ پہ خوب میربان ہو گئی۔۔اُس نے اپنی خدا داد زہانت سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔اُسکی پروموشن ہو گئی تھی اور کمپنی کی طرف سے ایک لگژی گھر مل گیا۔۔سکندر اب گھر میں خاموش ہی رہتا تھا۔۔اُن دونوں ماں بیٹی سے کوئی بول چال نا تھا۔۔ستارہ موٹی رقم پہ مشتمل ایک لفافہ ہر مہینے اُس کے تکیے کے نیچے چھوڑ جاتی جس سے اُسکا گزارا ٹھیک ٹھاک ہو رہا تھا۔۔ ۔۔نسیم بیگم کو دل کے عارضے کی شکایت تھی۔۔جس کا علاج ستارہ تندہی سے کروا رہی تھی۔۔لیکن بڑھاپا خود ایک بماری ہے۔۔جس کا علاج کوئی نا تھا ۔نسیم بیگم کا مسلسل علاج ہونے کے باوجود کوئی خاص افاقہ نا ہو رہا تھا۔ پھر وہ ہوا جس نے ستارہ کی دنیا ویراں کر دی ۔۔ اچانک نسیم بیگم کےقلب نے آخری ہچکی لی اور سکوں کی نیند سو گیا۔۔ہمیشہ کے لئے۔۔نسیم بیگم کا بوڑھا وجود ہزاروں حسرتیں دل میں بسائے منوں مٹی تلے دفن ہو گیا۔۔۔۔وہ سایہ جس کے تلے ہمیشہ ستارہ پنہاہ گزیں رہی ۔۔جس نے سارے زمانے کی تپش خود پہ جھیلی مگر اپنی گڑیا کو زمانے کے گرم تھپیڑوں سے بچایا۔۔ آج وہ اپنی گڑیا کو اُسی مقام پہ چھوڑ گئیں جہاں خود اُنھوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔۔
میں نے گولڈ کا بریسلٹ مناہل کی مخملی کلائی کی زینت بنایا اور ہولے سے چوم لیا۔۔مناہل مزید سمٹ گئی۔۔میں نے ایک ہاتھ سے اُسکے چہرے کا رُخ اپنی طرف موڑا۔اُسکی آنکھیں ہنوز بند تھیں۔۔مناہل۔۔میری طرف دیکھیں۔میں نے خمار آلودہ لہجے میں کہا۔۔۔تو اُس نے آئستگی سے پلکوں کی لرزتی جھالروں کو اُٹھایا اور اور اپنی ترچھی قاتلانہ نگاہیں چند لحظوں کے لئے مجھ پہ گاڑھ دیں۔۔وقت نا جانے تھم سا گیا۔۔ساغر و غالب کے دیوان کی صداقت پہ یقیں آ گیا۔۔ان چند لمحوں پہ صدیوں کا گماں گزرا۔۔بخدا ان حسیں آنکھوں کی مقناطیسیت ناقابلِ بیاں تھی۔اپنی عمر سے خاصی بڑی آنکھیں دکھتی تھیں۔۔اُن میں ایک زمانہ بسا ہوا تھا ۔۔ ایک ابرو کا اشارہ پانی میں آگ لگا سکتا تھا۔۔۔۔اُس نے ایک سسکاری لی تو میں ہوش کی دنیا میں لوٹا۔۔اُن آنکھوں میں کھو کر بے اختیار میں نے اُسکی کلائی پہ اپنی گرفت سخت کر دی تھی۔جس سے اُسے تکلیف کا احساس ہوا تھا۔۔۔اُسکی کلائی میری گرفت کی پکڑ سے لال ہو گئی تھی۔۔میں نے اپنے ہونٹ اُسکی تپتی کلائی پہ رکھ دیئے اور اپنی گساخی کا ازالہ کیا۔۔مناہل کی سانسیں اتھل پتھل ہو گیئں۔۔میرے لن نے بھی ہلکا سا جھٹکا کھا کر نیند سے بیدار ہونے کا خفیف اشارہ کیا۔۔اب وقت رکنے کا نہیں تھا۔۔میں جلدی سے واش روم میں گھس گیا اور سلیپنگ سوٹ پہن کہ آ گیا۔اور کمرے کی ٹیوب لائٹ آف کر کے زیرو بلب آں کر دیا ۔اس دوران مناہل نے اپنا زیور اُتار دیا تھا۔اور اب وہ بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کے ریلیکس بیٹھی تھی۔۔میں اُسکے قریب پہلو میں بیٹھ گیا۔۔
مناہل آپ ٹھیک تو ہیں نا۔۔میں نے اُس کی جھجھک رفع کرنے کے لئے ہلکی پھلکی گفتگو کا آغاز کیا۔۔
جی میں ٹھیک ہوں۔وہ آئستہ سے گویا ہوئی۔۔۔یاقوتی لبوں سے پہلی بار بامعنی جملہ ادا ہوا۔۔
دیٹس لائک آ گڈ گرل۔۔میں نے اُسے سراہتے ہوئے کہا اور اپنا بازو اُسکے کندھے پہ جما کر اُسے کھینچ کر اپنے ساتھ لپٹا لیا۔۔اب پوزیشن اس طرح تھی کہ میرا دایاں ہاتھ اُسکے دائیں ممے سے ہلکا سا مس ہو رہا تھا۔
مناہل میں جانتا ہوں آپ نے بہت مشکل وقت دیکھا ہے۔۔مشکل وقت سب پہ آتا ہے کہ زوال بھی عروج پہ ہوتا ہے۔۔کاتبِ تقدیر کی من مانیوں کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔۔جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کے رہتا ہے۔۔دکھ کا بیج بوکر ہی انسان سکھ کا پھل کھاتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بیج انسان خود اُگاتا ہے۔۔لیکن نامساعد حالات اُسے ایسا کرنے پہ مجبور کر دیتے ہیں
۔۔میں نے ایک گہری سانس لی اور چُپ ہو گیا۔۔
۔اس دوران مناہل ہمہ تن گوش رہی۔۔۔
میں پھر گویا ہوا۔۔۔۔میں کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کرنا چاہتا مناہل ۔۔بس آپکو اتنا جتا دینا چاہتا ہوں۔۔اوپر والا گواہ ہے۔۔ زندگی بھر آپکو کبھی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔۔وفا اور خلوص کے بلند و بانگ دعوے سے ہٹ کر میں محبت کی ترجمانی کرنے والے ان الفاظ کا عملی پیکر بنوں گا۔۔ یہ میرا وعدہ ہے آپ سے۔۔ میں نے جزباتی لہجے میں کہا۔مناہل کا چہرہ شدتِ جزبات سے سرخ ہوتا گیا۔۔
یکدم اُس نے سیدھا ہو کر میرے گلے میں اپنی بانہیں حمائل کر کے اپنا مر مریں وجود مجھے سونپ دیا جو سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔
بس کریں۔۔وہ سسکتے ہوئے بولی۔۔۔آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔بخد اآپکے خلوص اور سچائی کی معترف میں پہلے دن سے ہی ہو گئی تھی۔۔آپ نے جو مان رتبہ اور عزت مجھے دی ہے یہ آپکی عظمت کی دلیل ہے۔۔میں اِس احسان کا بدلہ ساری زندگی نہیں چُکا سکتی۔۔وہ اب باقعدہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔۔
یہ جزباتی اُفتاد اب اچانک ہی وارد ہو گئی تھی۔۔شش شش۔۔میں نے اُس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر اُسے چپ کروانے کی سعی کی۔۔
مناہل مناہل پلیز چپ ہو جاؤ۔۔میں نے اُسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔۔
مناہل۔۔مممم۔۔وہ منمنائی۔۔
میں نے اُسکا چہرہ اوپر اُٹھایا جو آنسوؤں سے تر تھا۔میں نے نرم نرم روئی جیسے گالوں سے آنسو صاف کئے اور کہا۔۔
اس رات بھی کوئی روتا ہے یار۔۔کیا پتا نہیں کے یہ رات محبت کی سرگوشیوں اور سسکاریوں کا منبع ہے۔۔اور تم رو دھو کے تمام روایتیں توڑ کر جرم کا ارتکاب کر رہی ہو۔اسکی تمہں سزا دی جائیگی۔۔۔میں نے شوخی سے کہا تو وہ بے اختیار مسکُرا دی۔۔
بندی حاضر ہے حضور۔۔وہ سر خم کر کے بولی۔۔جو چاہے سزا دیں۔۔
اُسکی طرف سے گرین سگنل ملتے ہی میں نے جھٹ سے اُسے نیچے لٹا دیا اور اُسکے لبوں پہ اپنے لبوں کا قفل لگا کر چوسنے لگا۔ مناہل نے بھی اپنے بازو کھول کر مجھے خؤد سے لپٹا کر گرم جوشی سے میرا استقبال کیا اور میرے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ پیوست کر چوسنے لگی۔۔ ۔مخملی لبوں کی نرماہٹ میرے تن بدن میں آگ لگانے لگی۔ ۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نے شہد کے چھتے میں اپنا منہ ڈال دیا ہو۔جس کا رس نچڑ کر میرے جسم میں توانائیاں بکھیر رہا تھا۔۔ مناہل کی خوشبو دار گرم گرم سانسیں میرے چہرے سے ٹکرا کے مجھے دیوانہ بنا رہی تھیں۔میں کبھی اُسکا نچلا ہونٹ چوستا تو کبھی اوپر والا۔۔مناہل بھی اپنے ہونٹوں کا دباؤ برابر بڑھا رہی تھی۔اُسکے تیزی سے میری کمر پہ چلتے ہاتھ میری شوقِ آتش کو بھڑکا کر مجھے جنون کی انتہا پہ پہنچا رہے تھے۔ ۔ جس سے اُسکی خود سُپردہ وارفتگی کا بھی اندازہ ہو رہا تھا۔ ۔میں نے اپنی زبان اُس کے منہ میں ڈال دی اور اُسکی زبان سے ٹکرانے لگا۔۔اس ٹکراؤ سے جیسے چنگاریں سی پھوٹنے لگیں۔۔ نرم زبان کا لطیف لمس میرے وجود کی رگ رگ میں چنگاریاں بھرنے لگی۔ ۔دفعتا اُسکی زباں میرے ہونٹوں کی گرفت میں آ گیئ۔۔میں نے نرمی سے اُسکی زباں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر شد مد سے چوسنا شروع کر دیا۔۔نرم زبان کے لمس نے میرے جسم میں لگی چنگاریوں کو شعلوں میں بھر دیا تھا۔میں مدہوش سا ہونے لگا۔۔میں لگاتار چوستا ہی جا رہا تھا۔۔ایک شہد کا دریا پھوٹ پڑا تھا جس کی مٹھاس میرے رگ و پے میں اُتر کے فرحت بخش رہی تھی۔ ۔پھر یکبارگی اُس نے آیئستگی سے اپنی زبان میرے لبوں کی قید سے آزاد کروا لی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔میں نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔۔اُسنے اپنی آنکھیں میری آنکھوں میں جما دیں۔۔ پھر اچانک بجلی کی تیزی سے میری گردن کو جھکاتے ہوئے اپنی زبان پھر سے میرے منہ میں ڈال دی ۔میں نے پھر سوگت کرتے ہوئے اپنے منہ میں اُسکی زبان بھر لی اور، پہلے سے زیادہ شدت سے چوسنا شروع کر دی۔۔اِسکے ساتھ ساتھ میں اُس کے پورے منہ میں زبان بھی گھماتا گیا۔میرے روم روم میں وہ شیریں لزت لہو بن کے دوڑ رہی تھی۔۔ مناہل بھی مزے کی شدت سے دہری ہو رہی تھی۔وہ بھی برابر میرے منہ میں زبان گھما رہی تھی۔۔اب میں نے اگلا حملہ کرنے کے لئے پر تول لئے۔۔۔ میں اپنا ہاتھ آئیستہ آئیستہ اُسکی چھاتیوں کی طرف لے گیا اور بالاخر دائیں چھاتی میری پکڑ میں آ گئی۔۔خاصی موٹائی والی گول مٹول اور کسی ہوئی چھاتی تھی۔۔جس سے انکی خوب دیکھ بھال کا اندازہ ہوتا تھا۔پہلے میں آئیستہ آئیستہ دباتا رہا۔۔پھر یکبارگی زور سے دبا دیا۔۔مناہل کی بڑی بڑی آنکھیں ایک لحظے کے لئے پھیل گیئں۔۔اور میرے ہونٹوں کی قفل کی وجہ سے اسکی سسکاری میرے منہ میں ہی دم توڑ گئی۔۔اس اثنا میں ، میں نے اپنے منہ کا بند قفل کھول دیا۔۔مناہل نے پھر سے دو گہرے سانس لئے اور پُر سکون ہو کر اپنی آنکھیں موند لیں۔۔اب کھلی چُھٹی مجھے مل گئی۔۔ میں نے دونوں گھٹنے اُسکی ایک ایک سائڈ پہ رکھے اور دونوں ہاتھوں سے اُسکی چھاتیاں پکڑ لیں اور زور زور سے دبانا شروع کر دیا۔۔مممم۔۔آآآآہہہہہ۔۔مناہل نے اپنے موتیوں جیسے دانتوں سے اپنے آتشیں لبوں کو کاٹتے ہوئے لزت سے سسکنا شروع کر دیا
بلاشبہ یہ قیامت خیز نظارہ تھا۔جو قدرت کے کتنے نظاروں پہ بھاری تھا۔۔۔میں اُس کے اوپر اس طرح براجمان تھا کی میرا لن اُسکی پھدی سے زور سے رگڑ کھا کر اُچھل کود مچا رہا تھا۔مناہل کی پُھدی گرم ہو کے پانی چھوڑ چکی تھی جس کے چپچپاہٹ میرا لن پتلے سے سلیپنگ سوٹ سے پھن پھناتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔ ۔۔میں نے اپنے ہاتھوں میں تیزی لاتے ہوئے زور زور سے مناہل کی چھاتیوں کو مسلنا شروع کر دیا۔اور ساتھ ساتھ اپنی گانڈ کو آگے پیچھے کر کے زیادہ سے زیادہ اُسکی پھدی سے اپنا لن رگڑتا۔۔۔مممم آ آآآآآہہہ۔مناہل کی سسکاریاں رفتہ رفتہ تیز ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔پھر مں نے یکدم اپنے ہاتھ روک کر زور سے دونوں چھاتیوں کو دبانا شروع کر دیا۔۔۔جوں جوں میں گرفت سخت کرتا گیا مناہل کے چہرے کے تاثرات بدلتے گئے۔۔آآآآآآآآآآآآآہ ہ ہ ہ ۔۔آخر ایک بڑی سی لزت بھری آواز سسکاری اُسکے منہ سے برآمد ہوئی جسے وہ روکنے کی جدو جہد کر رہی تھی۔اُس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور نظر بھر کے مجھے دیکھا۔۔میں اُن آنکھوں میں چھپی تحریر کا مفہوم خوب سمجھ رہا تھا۔۔پھر اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔گویا صرف مجھے اُن طوفانی جزبوں کی حرارت کا پتا دینا مقصود تھا۔۔اب ضبط کا پیمانہ چھلک چکا تھا۔میرا لن اکڑ کے لوہا بن چکا تھا۔جتنا آگ میں لگا سکتا تھا لگا دی تھی۔۔اب لن سینکنے کی باری تھی۔۔میں اُس سے اُتر کر اُسکے پہلو میں بیٹھ گیا اور ہاتھ بڑھا کر اُسکی قمیص کو اُسکی گردن تک اُلٹ دیا۔۔
اُوہ خدایا۔۔مکھن کی طرح لشکارے مارتا سپید دودھیا بدن میری آنکھوں کے سامنے تھا۔جس کی چکاچوند روشنی میری آنکھوں کو خیزہ کر رہی تھی۔۔مناہل نے گلابی رنگ کا برا پہن رکھا تھا جس میں دو انگارے دہک رہے تھے جن کی تپش مجھے اپنی آنکھوں پہ محسوس ہو رہی تھی۔۔
مناہل۔۔میں نے اُسے پکارا۔۔اُس نے اپنی آنکھیں کھول کے ایک نظر مجھے دیکھا پھر خود ہی
اُٹھ کر اپنی قمیض جلدی سے اتار کے ایک سائڈ پہ رکھ دی۔ یہ کام اُس نے اِتنے معصومانہ انداز میں کیا کہ میں ان لمحات میں بھی مسکُرائے بغیر نا رہ سکا۔۔اب اُسکے جسم کے بالائی حصے پہ صرف ایک برا تھا۔۔میں نے مناہل کو کھینچ کر اپنی ٹانگوں کے درمیان اپنے لن کے قریب لے آیا اور اپی گود میں بٹھا لیا۔۔اب پوزیشن کچھ اِس طرح تھی کے اُسکی پشت میری طرف تھی۔۔اُس کے بال کافی لمبے اور گھنے تھے مگر اُس نے ایک بڑے ہئیر کلپ میں ایک جتھا بنا دیا تھا۔۔جس سے میرے راہ میں حائل ایک رکاوٹ دور ہو گئی تھی۔۔۔ میرا لن اُسکے نرم اور بھرھرے چوتڑوں سے ٹکرا کے پھڑپھڑا رہا تھا۔ ۔میں نے آئیستگی سے اُسکے برا کا ہک کھول کر اُسکی پھڑپھڑاتی چھاتیوں کو آزاد کیر دیا۔ مناہل کا بالائی جسم اب مکمل ننگا تھا جو زیرو بلب کی روشنی میں آگ کی طرح دھکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ میں نے مزید اُس کو کھینچ کر اپنے کھڑے لن پہ بٹھایا۔۔۔۔جو اُسکے نرم چوتڑوں کی گہراؤں میں دب گیا۔۔مجھے چپچپاہٹ سی اپنے لن پہ بھی محسوس ہو رہی تھی ۔جو مناہل کی پھدی کا لیس دار جام چھلکنے کی وجہ سے تھی۔۔اب میرا لن اُس چھلکتے جام میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔۔میں نے اپنے ہاتھ اُس کی ننگی چھاتیوں پہ جمائے اور اُنھیں مسلنے لگا۔۔مناہل کی چھاتیوں کی گرمی میرے انگ انگ میں شرارے بھر رہی تھی۔۔اُسکے نپل تن کے سخت ہو چکے تھے جو میں اپنی اُنگلیوں میں محسوس کر رہا تھا۔مناہل ہولے ہولے سسکار رہی تھی۔ میں اپنا منہ اُسکی گردن کے پاس لے گیا اور اُس پہ زبان پھیری اور ہولے سے بائٹ کر دیا۔۔ ۔۔آآآآآآہہہہہ۔۔ وہ تڑپ کے رہ گئی۔۔اس دوران میں نے مناہل کی سڈول چھاتیوں کو مسلسل تختہ مشق بنائے رکھا۔اُس کی چھاتیوں کے نپل کو میں اپنی اُنگلیوں سے مروڑتا تو سی سی کر کے رہ جاتی۔۔پھر اچانک میں نے اپنا ایک ہاتھ اُسکی دائیں چھاتی سے ہٹایا اور یکدم اُسکی پھدی میں گھُسا دیا۔۔الاسٹک والی شلوار سے پھسلتا میرا ہاتھ سیدھا پھدی کے اُبھرے لبوں سے جا ٹکرایا۔آآآآآآآآآہہہہہہ۔۔مناہل کو جیسے کرنٹ لگا اور اُسنے اچھلنا چاہا مگر میں نے مضبوطی سے اُسے تھام کے نیچے بٹھائے رکھا۔۔اُسے شاید قطعی اُمید نا تھی کے اچانک سے میں اس طرح کی کوئی جسارت کروں گا۔مناہل نے بوکھلا کے اپنی دونوں ٹانگیں بھینچ لیں تھیں مگر اسکے باوجود بھی میں نے اپنا ہاتھ پھدی سے باہر نہیں نکالا تھا۔، اور پھر اُس نے بھی مزاحمت ترک کر دی اور خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا ۔میں نرم اور چکنی پھدی پہ آئیستہ آئیستہ ہاتھ پھیرتا گیا۔مناہل آں آں آں کا دلربا راگ چھیڑ چکی تھی۔۔۔۔پھر
میں نے پھدی کے دانے کو آئیستگی سے مسلنا شروع کر دیا۔۔کالج کے زمانے میں بہت ساری پھدیوں کے دانے میری اُنگلیوں کا لمس سے گزر چکے تھے۔۔مگر آج جو مزے اور سرور کی کیفیت تھی وہ پہلے کبھی، کسی بھی پھدی سے نہیں ملی۔۔میرا لن اُسکے چوتڑوں کے درمیاں اور میرا ہاتھ اُسکی پھدی کا مکمل احاطہ کئے مجھے مدہوش کر رہا تھا۔اب کمرہ مناہل کی سسکیوں کی گونج سے دھمک رہا تھا۔۔۔۔یکبارگی میں نے اپنی ایک اُنگلی مناہل کی پھدی میں گھُسیڑ دی۔۔۔آہ آہ آہ،،۔۔مناہل مزے کی شدت سے بلبلائی۔۔اور یوں دُہری ہوتی گئی جیسے اُس میں جان ختم ہو رہی ہو۔۔۔پھدی کی گرم گرم دیواروں سے جب میری اُنگلی ٹکرائی تو مجھے ایسا لگا جیسے میں نے دہکتے چولہے میں اپنی اُنگی گھُسیڑ دی ہو۔جسکی حرارت میرے سارے وجود میں سرایت کرنے لگی۔۔۔میں نے زور زور سے اُنگلی اندر باہر کرنی شروع کر دی۔مناہل کی مزے سے نکلتی سسکاریوں سے میرے اندر وحشت بھر دی۔۔میں نے ایک اُنگلی کا اضافہ کرتے ہوئے زورزور سے اندر باہر کرنے لگا۔۔آآآآآآآآآآآآآآآآآِہہہہہہہہہہہہہہ۔۔۔مناہل نے آخری سسکاری لی اور اُسکی کی پھدی سے بھل بھل نکلتا پانی میرے ہاتھوں کو بھِگونے لگا۔۔وہ میرے بازو میں جھول کے ایک طرف گرگئی۔۔اُسکی ٹانگیں کپکپا رہی تھیں جیسے میلوں بھاگ کر آئی ہو۔میں نے اپنا ہاتھ اُسکے پاجامے سے باہر نکالا جو اُسکی منی سے لتھڑا ہوا تھا۔۔میں نے اُسکی شلوار سے ہاتھ کو صاف کیا اور اُسے چت لٹا کر اُسکی ٹانگیں کھول کر اُن کے درمیان بیٹھ گیا اور غور سے اُس کی چھاتیاں دیکھ رہا تھا جن پہ گلابی نپل اکڑے مجھے دعوتِ چُسائی دے رہے تھے۔۔۔مناہل کی آنکھیں بند تھیں۔۔اپنیی پھدی سے سنہری آبشار برسانے کے بعد وہ گہرے گہرے سانس لے کر خود کو پُر سکون کرنے کی کوشش کر رہی تھی جسے میں نے ناکام کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔میں نےاکڑے اُبھاروں کی اکڑ نکال پھینکنے کی سعی کرتے ہوئے جھُک کر دائیں چھاتی کے نپل کو اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ مناہل کا بالائی جسم پسینے سے تر تھا۔۔جس کی وجہ سے چھاتی نمکین لگ رہی تھی۔۔ جسے میں پوری مہارت سے چوس چوس کر اپنے معدے میں اُتارے بھرپور انصاف کر رہا تھا۔۔۔پھر میں نے دوسری چھاتی کے نپل پہ منہ صاف کرنے لگا۔مناہل کی لزتی آہیں پھر سے اُبھرنے لگیں تھیں۔میں ساتویں آسمان پہ پہنچا ہوا تھا۔۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نے مکھن کے پیڑے کو اپنے منہ میں سمایا ہوا ہے۔۔میں باری باری دونوں چھاتیوں کو منہ میں بھر کے چوس رہا تھا۔۔چھاتیاں چوستے چوستے میں نےمناہل کی طرف دیکھا ۔وہ میٹھی نظروں سے مجھے گھور رہی تھی ۔جس میں پیار بھی تھا اور شکوہ بھی کہ میں اتنا ظالم بھی ہو سکتا ہوں اس معاملے میں۔۔غصہ اور شہوت دو متضاد کیفیات ہیں مگر اِنسان کی زندگی پہ گہرا اثرو رسوخ رکھتی ہیں۔۔جب انسان کسی بھی ستمگر سے چوٹ کھاتا ہے تو غصے میں انسان سے جانور بن جاتا ہے جو مدِمقابل کو چیر پھاڑ دیتا ہے۔۔ٹھیک اُسی طرح شہوت میں انسان انسان نہیں رہ جاتا۔۔ایک پاؤ اکڑا ہوا لن بن جاتا ہے ۔۔پھر اُس کی ترغیبات اُسی سمت پرواز کرتی ہیں جہاں لن کی تسکین ہوتی ہے۔شہ زور وہی ہوتا ہے جو لن کو اُسکی اوقات میں رکھے۔۔میں نے اتنے لمبے فور پلے میں اپنے لن کو بالکل فراموش کر دیا تھا۔۔مناہل کے نرم رسیلے ہونٹ چوسنے سے لیکر اُس کی گلابی چھاتیوں کی چُسائی تک میں نے اس کی ٹوٹتی انگڑائیوں اور پھنکاروں پہ کان نہیں دھرے۔۔اب اُس کی تسکین کا وقت ہو چلا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔میں نے مناہل کی شلوار اُتاری کے ایک طرف رکھ دی اور اُسکی ٹانگیں پھیلا دیں۔۔مناہل کی پھدی پہ نظر پڑتے ہی میری سانس رُک گئی۔۔پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے۔۔غالب کا مشہور شعر میرے زہن میں گونجنے لگا۔۔ بڑی نزاکت سے غیر ضروری بالوں کی صفائی کی گئی تھی۔۔پھدی کے لب ایک دوسرے سے اُلجھے ہویے باہم پیار کا خوب جلوہ بکھیرے ہوئے تھے۔اس پر گوشت کی خاصی فراوانی تھی اور اُسکی سطح اُبھری ہوئی تھی جو منی نکلنے کی وجہ سے چمچما رہی تھی۔پُھدی چاٹنا مجھے دشوار لگتا تھا۔آج تک میں نے سیکس کے دوران کسی بھی لڑکی کی پُھدی نہیں چاٹی تھی ۔۔لیکن اب میں تصیح کرتا چلوں کے مجھے آج تک ایسی پھدی ملی ہی نہیں جسے میں چاٹ سکوں۔۔میں اپنا منہ اُس چمکتی دمکتی پھدی کے پاس لے گیا اور ہولے سے اُس کے لبوں پہ زبان پھیر دی۔۔آآآآآآ۔۔مناہل نے گہری سسکاری لی اور غیر ارادی اپنی پھدی کو اوپر اُٹھا کے رہ گئی۔۔مجھے اپنی زبان پہ نمکین سا زائقہ محسوس ہوا۔میں تھوڑا منہ نیچے لے گیا اور سوراخ سے لیکر اُس کے ختم ہوتے دانے تک زبان پھیر دی۔۔۔آہ آہ آہ آہ۔۔مناہل بند آنکھوں سے اپنے ہونٹ کچلتی میرے کانوں میں ترنم گھولنے لگی۔ ۔۔۔میں نے اپنا منہ اُسکی پُھدی سے ہٹایا اور سلیپنگ سوٹ اتار دیا تو میرا شِکرا پھڑپھڑاتا اُڑان بھرنے کے لئے نکل آیا۔۔بند گھُٹن سے نجات پاتے ہی اُس کو پَر لگ گئے۔۔
میں نے پاس ٹیبل پہ پڑا ہوا آئل اُٹھایا اور خوب اپنے لن پہ مَلنے کے بعد مناہل کی پھدی بھی تر کر ی۔۔مناہل کی ٹانگیں اس طرح پھیلا دیں کے پھُدی کے لب ہلکے سے کُھل گئے تھے اور وہ تھوڑی سی اُوپر کو اُٹھ گئی تھی۔۔میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اپنا لن اُسکی پُھدی کے قریب لا کر اُس کے دانے پہ پھیرنے لگا۔۔مجھے ایسا لگا جیسے کسی ریشمی اور ملائم کپڑے سے لن ٹکرا رہا ہو۔۔مناہل گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔۔میں سرخ ہوتی اپنے لن کی ٹوپی اُسکی پھدی کے سوراخ میں گھساتا اور یکدم نکال لیتا۔۔مناہل تڑپ کے رہ جاتی۔۔کئی لحضے لن پھدی کی اسی بحث و تکرار میں گز گئے۔۔مناہل کا تڑپ تڑپ کے برا حال ہو گیا تھا۔۔میں نے اب کی بار اُس پہ رحم کھاتے ہوئے اُس پہ جھک کر اپنے ہاتھ دائیں بائیں رکھتے ہوئے ایک زور کا جھٹکا مارا تو پچک کی آواز کے ساتھ ہی اُسکی پھدی کے در و دیوار ہِلاتا جڑ تک اُتر گیا۔۔مناہل کی زوردار چیخ نکل گئی۔۔ اُس نے جھکائی دے کر بچ نکلنا چاہا مگر میں نے اُسکی کوشش ناکام بناتے ہوئے اُسکے بازوؤں کو مضبوطی سے تھام لیا اور لگاتار جھٹکے مارتا گیا۔۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نے لن کسی آگ کی بھٹی میں داخل کر دیا ہو۔۔جس کی تپش سے میرا لن جھلسنے لگا۔۔مناہل کی پھدی کی نرم دیواروں سے پھوٹتی لزت کی نشاط انگیز آگ میرے جسم و جان کو رفتہ رفتہ جلا نے لگی۔۔مناہل بھی اب سنبھل چکی تھی۔۔اور جم کے چدائی کروانے لگی۔۔میں جھٹکوں پہ جھٹکے مارتا اُس آگ کے دریا کو پار کرتا منزل کی طرف گامزن تھا۔۔
مزے کی شدت سے میرے منہ سے اہیں نکل رہی تھیں۔۔پچک پچک کی آوازیں پیدا کرتا لن اس رسیلی پھدی کے بخیے اُدھیڑنے میں مصروف تھا۔۔میری نظریں مناہل کے چہرے پہ تھیں مگر اُسکی نگاہ میرے لن پہ تھی جو گھپ گھپ اُسکی پھدی میں اندر باہر ہو رہا تھا۔۔۔
اچانک مناہل نے کھینچ کر میرا لن پھدی سے باہر نکال دیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگی۔۔۔
میں سمجھ گیا کے وہ جھڑنے لگی ہے۔تو میں ایک سائڈ پہ ہو کر اُس کی چھاتیوں سے کھیلنے لگا۔۔۔وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی اور بے جان ہو کر ڈھے گئی۔۔میں نے اُسکی پھدی پہ نگاہ دوڑائی جس سے منی نچڑ رہی تھی ۔۔میں نے ٹشو کا ڈبہ اٹھایا اور ٹشو نکال کر اُسکی پھدی صاف کرنے لگا۔۔۔میرے لن کی اکڑ کم ہو گئی تھی۔۔جسکو مناہل نے اب ہاتھ سے گرم کرنا شروع کر دیا۔۔میں نے اُسکی چھاتی کے اُبھار کی ایک چسکی لی اور ایک تکیہ اُسکے نیچے رکھ کر اُلٹا لٹا دیا۔۔جب میں نے اُسکی ٹانگیں کھول کر اُسکی گانڈ کے بھورے سوراخ پہ ایک بھرپور نگاہ دوڑائی تو میں مبہوت ہو گیا۔۔بہت بھلا لگ رہا تھا۔۔ پمپ ہو کر مستی کر رہا تھا۔خیر میں نے اُس کو نظر انداز کیا اور پھدی کی طرف متوجہ ہوا کو پیچھے سے کھل کر ضبط کا امتحان لے رہی تھی۔۔۔ میں نے تھوڑا سا تھوک پھدی پہ پھر سے لگایا اور ایک زور کا جھٹکا مار کر لن اندر داخل کر دیا۔۔اب کی بار لن آسانی سے گرم جزیرے کی سیر کو چلا گیا۔۔جسا خوب سواگت کیا گیا۔۔
جھٹکوں کے دوراں میں مناہل کے نرم نرم چوتڑوں سے ٹکرا کے ایک الگ سی لزت مل رہی تھی۔۔ بھربھرے نازک چوتڑ سے میں زور سے ٹکرا کر اُنکی نرماہٹ سے فیض یاب ہوتا۔۔
جھٹکوں کیی رفتا میں، میں نے کوئی کمی نہیں آنے دی اور نہ ہی مجھے تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی۔مناہل جیسی قیامت پیرے پاس تھی۔۔جس کو میں ساری زندگی بھی چودتا رہوں تب بھی میرا من نہ بھرے اور نا تھکاوٹ کا احساس ہو۔۔۔ میرا لن شڑپ شڑپ کے ہو شربا ساز اور مناہل کی شیریں پھدی کی رومانوی تال پہ رقصاں جھوم جھوم کے اند باہر ہو رہا تھا۔۔مناہل تھک چکی تھی مگر میں ابھی تک نہ چھوٹا تھا اور نہ ہی کوئی ارادہ تھا۔۔میں نے پوزیشن تبدیل کی اور مناہل کی ٹانگیں اُٹھا کر پھر سے چدائی شروع کر دی۔۔میں زور زور سے دھکے مارتا رہا۔۔مناہل کی پھُدی نے اس دوران 3 بار پانی چھوڑا تھا۔۔مگر اب وہ ہمت ہا گئی تھی۔۔پے در پے جھٹکوں سے آخر کار میرے لن بھی ہمت ہار دی اور مناہل کی پھدی میں ہی پچکاریاں مارنے لگا۔بے اختیار مزے سے میرے لبوں سے سسکاریاں نکلنے لگیں۔۔۔۔جب آخری پچکاری نکلی تو مناہل پہ ہی ڈھے پڑا۔۔ مناہل نے محبت سے مجھے خود سے چمٹا لیا اور پیار سے میرے سر پہ ہاتھ پھیرنے لگی۔۔میں لمبے سانس لے کر ہانپ رہا تھا۔رفتہ رفتہ میں پُرسکون ہوتا گیا۔۔۔میں نے اُس میڈیسن والے کا شکر ادا کیا جس نے برانڈٓڈ ٹیبلٹ دیا مجھے اپنی سہاگ رات یاد گار بنانے کے لئے۔۔
رات بہت ہو چکی تھی۔۔مناہل تھک کے سو چکی تھی۔۔
پھر نہ جانے کب نیند نے مجھے آ لیا اور میں بھی نیند کی وادیوں میں گم ہو گیا۔۔۔ایک نئی صبح کے لئے۔۔

عارف جمال کے بہیمانہ قتل پہ پورا میڈیا چیخ اُٹھا۔۔عارف جمال کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔۔مشہور اِنڈسٹریلیسٹ تھے۔۔پاکستان میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کے سفیر اور بہت ساری پرائیویٹ این جی اوز کے چیف ٹرسٹی تھے۔۔ خاصے خدا ترس انسان تھے۔۔مگر اچھے لوگ دنیا کی صحبت کا زادِ راہ اِتنا ہی لیکر سفرِ فانی شروع کرتے ہیں جتنی کم مدتی سانسیں کاتبِ تقدیر سے لکھوا لاتے ہیں۔۔ کل رات اُنکا توشہِ سفر اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔۔تقدیر اپنی چال چل گئ اور اُنکا کسی نے بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا۔۔پولیس نے اُنکی بیوہ سلطانہ عارف کی مدعیت میں مقدمہ درج کرنے کی ضروری کاروائی کرتے ہوئے پوری تندہی سے قاتل کی تلاش شروع کر دی تھی۔۔۔ابتدائی رپورٹ کو مدِ نظر رکھ کر پولیس ماہرین کا خیال تھا کے قاتل جو بھی تھا بلا کا پھرتیلا اور چست تھا۔۔عارف جمال کی طرف سے مزاحمت بھی ہوئی مگر وہ جم کر اس کا مقابلہ نہ کر سکے ۔۔قاتل نے کسی تیز دھار آلہ سے اُنکے سینے پہ پے در پے وار کئے۔۔جس سے انکی انتڑیاں تک باہر نکل آئیں۔۔قاتل نے عارف جمال کے اعضاء مخصوصہ کو کاٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دئے تھے۔۔ جس سے قاتل کے زہنی دیوالیہ ہونے کا ثبوت ملتا تھا۔۔عارف جمال کے ملازم کو پولیس نے اپنی تحویل میں لیکر تفشیش شروع کر دی ہے جس سے سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔اس کیس کے انچارج ایس ایچ او خوش بخت گِل تھے۔۔جن کو پولیس کی دنیا میں عقاب کہا جاتا تھا۔سینکڑوں انکاونٹرز کا اندراج اُن کے کھاتے میں تھا۔جس جگہ اُنکی پوسٹنگ ہو جاتی تھی مجرم اپنا بوریا بستر باندھ لیتے تھے۔اُنھوں نے جلد سے جلد قاتل کو گرفتار کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔۔۔سیاسی قیادت نے اسے بین الاقوامی سانحہ قرار دیتے ہوئے ایک روزا سوگ کا اعلان کر دیا۔۔کچھ ناعاقبت اندیش اسے ملک کو بدنام کرنے کی عالمی سازش قرار دے رہے تھے۔۔بین الاقوامی سفیر ہونے کی وجہ سے باہر سے بھی کافی دباؤ تھا۔۔تو پولیس کے لئے یہ کیس دردِسر تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں۔۔؟؟میں نے اُس حسین نووارد سے پوچھا۔۔اُس کے لب کپکپایے مگر کچھ منہ سے برآمد نہ ہوا۔۔آ آں کچھ نہ بولیں۔۔آپ آرام کریں میں آپ کے لئے چائے بنا کے لاتا ہوں۔۔میں نے کمبل سے اُس کے مرمریں وجود کو ڈھانپ دیا اور خود کچن میں چلا گیا۔۔چائے بناتے ہوئے میں مسلسل اُس حسینہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔میرا قیاس تھا کے یہ کوئی ڈاکو حسینہ تھی جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔۔یہ مظلوم حسینہ جسکی خستہ حالت اُسکی مظلومیت کو عیاں کر رہی تھی کسی گہرے صدمے کا شکار تھی۔۔چائے بن چکی تھی۔۔میں نے دو کپ بھرے اور لیکر اپنے کمرے کی طرف ہو لیا جہاں وہ ماہ رُخ تجلی ریز تھی۔۔میں نے کمبل اُس کے چہرے سے ہٹا دیا۔۔اُسکی آنکھیں بند تھیں۔۔جن پہ لامبی پلکوں کی جھالریں بہت دلکش منظر نگاری کر رہی تھیں۔۔میں چند لمحے یونہی اُس کے معصوم چہرے کو دیکھتا رہا پھر اُس کے کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔۔وہ اوں آں کرتی اُٹھ بیٹھی۔۔میں نے چائے اُسے تھمائی تو اُس نے خاموشی سے کپ تھام لیا اور چسکیاں لینے لگی۔۔چائے کی چسکیاں لیتے وقت وہ خلا میں گھور رہی تھی۔۔میں بغور اُسکی حرکاتُ سکنات کا جائزہ لے رہا تھا۔۔اُس نے چائے ختم کی اور ایک گیری سانس لے کر مجھے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُسکا نام مناہل آفتاب تھا۔۔اور وہ لاہور کے ایک دور افتادہ علاقے سے تعلق رکھتی تھی۔مناہل اپنے والدین کی اِکلوتی اولاد تھی جس کو وہ بہت پیار کرتے تھے۔مناہل جب آٹھویں کلاس میں تھی تو اُسکا باپ آفتاب چل بسا۔۔ باپ کے مرنے کے بعد اُسکی ماں شاہین نے دوسری شادی کر لی۔۔شروع شروع جب تک اُسکی ماں زندہ رہی تو اُسکے سوتیلے باپ اظہر کا رویہ نہایت خوش کن تھا۔۔وہ اُسکی تمام ضروتیں پوری کرتا اور اُسکو بے انتہا پیار کرتا۔۔مناہل کو پڑھنے کا شوق تھا جسکے لئے میٹرک کے بعد اُسے ایک اچھے کالج میں اڈمیشن دلایا گیا۔۔مناہل جب تھرڈ ائیر میں تھی تو اُسکی ماں کا سایہ بھی
اُس کے سر سے اُٹھ گیا۔۔ماں کے مرنے کے بعد صرف اظہر سے اُسکی توقعات وابستہ تھیں جس کو وہ اپنے سگے باپ سے بھی زیادہ پیار کرتی تھی۔۔مگر شاہین کے مرنے کے بعد اظہر بھی بدل گیا۔۔ آئے دن اظہر اپنے ساتھ گھر میں آوارہ دوست لے آتا جو ساری رات شراب پیتے اور غل غپاڑہ کرتے۔۔اگر مناہل اظہر سے کوئی شکایت کرتی تو وہ اُلٹا اُسے زلیل کر دیتا۔۔ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔۔ اظہر کے ایک دوست زلفی نے شراب کے نشے میں مناہل کے بازو سے پکڑ لیا اور اُسکے جسم کے نشیب و فراز کو ٹٹولنے کی کوشش کی۔۔مناہل نے بمشکل اُسے دھکا دے کر گرایا اور بھاگ کے کمرے میں داخل ہو کر اپنی جان بچائی۔۔اگلے دن وہ کالج سے واپس آئی تو اظہر آتش فشاں بنا ہوا تھا۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی زلفی صاحب سے بدتمیزی کرنے کی۔۔وہ چھوٹتے ہی گرج کے بولا۔۔
نہیں پپا۔۔میں نے کوئی بدتمیزی نہیں کی۔۔بلکہ۔۔۔۔۔۔اُس نے رو رو کر خود پہ بیتنے والی بپتا سنائی۔۔
مگر اظہر نے طنزیہ انداز میں اُسکی بات کو ہوا میں اُڑا دیا۔چٹاخ،،ایک زور دار تھپڑ اُسکے گال پہ ثبت ہوتا نشان بنا گیا۔۔۔جھوٹ مت بول کمینی۔۔وہ دھاڑا۔۔اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔۔مناہل کا چہرہ آنسوؤں سے بھر گیا۔۔وہ تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بھاگی اور بستر میں اوندھے منہ گر کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔۔ کافی دیر آنسو بہانے کے بعد نہ جانے کب اُسکی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئی۔۔ رات کا ناجانے کون سا پہر تھا کے اُسکی آنکھ ایک کھٹکے سے کھُلی ۔۔وہ ہڑبڑا کے اُٹھ گئی۔۔ دروازے پہ زلفی خباثت بھری مسکُراہٹ کے ساتھ براجمان تھا۔اُسکی آنکھیں نشے کی شدت سے لال تھیں۔اُس کو اس حالت میں دیکھ کر مناہل کی چیخ نکل گئی۔۔ کک کیا بات ہے زلفی انکل۔۔۔ مناہل نے کپکپاتے لبوں سے پوچھا۔۔
اظہر نے تجھ سے کچھ بولا نہیں آج ؟ وہ لڑکھڑاتے ہو بولا۔۔
مناہل کو چپ سی لگ گئی۔۔
بول ۔۔اُس نے کچھ کہا کہ نہیں؟؟ وہ دھاڑ کر بولا تو مناہل نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔اُس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
کیا بولا وہ۔۔اب کی بار زلفی کی آواز سانپ کی پھنکار سے مشابہ تھی۔۔
جج جی آپ سے معافی مانگنے کو کہا۔۔مناہل نے سہمتے ہوئے جواب دیا۔۔
تو کیا خیال ہے پھر ؟؟ زلفی نے استہزایہ لہجے میں کہا۔۔
مناہل نے سر جُھکا لیا اور بولی۔۔ایم سوری۔۔
کیا بکواس ہے یہ۔۔وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔۔ یہ انگریجی کا قاعدہ اپنی اُستانی کو سنانا۔۔ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتی۔۔جو بھی بکنا ہے سیدھی طرح بکو۔۔
مناہل کا رنگ فق ہو گیا۔۔ پھولوں کی آن بان والی مناہل کی آج تک کسی نے اِتنی توہین نہیں کی تھی جتنی زلفی کی وجہ سے ہو رہی تھی۔۔
بے اختیار وہ سسک پڑی۔۔
مجھے معاف کر دیں زلفی انکل۔۔وہ زاروقطار روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر بولی۔۔ میں اپنے گزشتہ روئیے پہ بہت شرمندہ ہوں۔۔آنسو متواتر اُسکی
آنکھوں سے برس رہے تھے۔
زلفی چند لحضے اُسکی صورت تکتا رہا پھر اچانک دروازے کی کُنڈی لگا دی۔۔
چلو معاف کیا تم کو۔۔
زلفی اپنی بڑٰی بڑی آنکھیں اُس کے وجود میں گاڑھ کر بولا۔۔
خوف کی ایک سرد لہر مناہل کے جسم میں سریت کر گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نسیم بیگم کی وفات کے غم نے ستارہ کو نڈھال کر دیا تھا۔۔ رو رو کر ستارہ کا بُرا حال تھا کہ آنکھیں پھول کر کپا ہو گئیں تھیں۔۔ کچھ ہی دنوں میں ستارہ برسوں کی بیمار نظر آنے لگی تھی۔سارا گھر رشتہ داروں سے بھرا پڑا تھا جو اُسکو تسلیاں دے کر صبر کی تلقین کر رہے تھے مگر ستارہ کی تشفی نہ ہو رہی تھی۔۔وہ فردوسی چھاوؤں جس کے میٹھے سائے میں ستارہ کی بچپن کی قلقاریوں سے لیکر جوانی تک کے قہقہے اور شرارتیں گونجتی رہیں وہ سایہ فگاں درخت ہمیشہ کے لئے سوکھ گیا تھا۔۔ستارہ کا رہ رہ کے دل بھر جاتا اور وہ خود کو نہ سنبھالتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کے رو پڑتی۔۔۔جیسے جیسے دن گزرتے گئے سب رشتہ دار ایک ایک کر کے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔۔اب گھر میں صرف سکندر اور ستارہ رہ گئے تھے۔۔ ماں کے بغیر ستارہ کو گھر کے در و دیوار کاٹ کھانے کو دوڑ رہے تھے۔۔رات کو جب سونے لگی تو ماں کے سُونے بستر پہ اُسکی نگاہ پڑی۔۔ شدت غم سے ستارہ کا دل بھر گیا۔۔اور دو موتی اُس کے رخساروں پہ بکھر گئے۔۔ بمشکل خود پہ ضبط کرتی وہ بیڈ پہ لیٹ گئی اور نسیم بیگم کا روشن چہرہ اپنی آنکھوں میں سماتے ہوئے گزرے دنوں کو یاد کرنے لگی۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ وقت کا مرحم دل پہ لگے سارے زخم بھر دیتا ہے۔۔ مگر کچھ گھاؤ ایسے گہرے ہوتے ہیں جنکا علاج وقت کے پاس بھی نہیں ہوتا۔۔ ساری زندگی اُن زخموں سے ٹھیسیں اٹھتی ہیں۔۔ ایسا ہی زخم ستارہ کے دل پہ لگ گیا تھا۔۔
ستارہ نسیم بیگم کی ہادوں میں ساری رات کھوئی رہی۔۔نیند اُسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔ فجر کی آذان ہوئی تو وہ اُٹھ بیٹھی۔۔وضو کیا اور نماز نیت لی۔۔صلام پھیرنے کے بعد دفعتا اُسکی نگاہ اپنے جہازی سائز کمرے کے ایک کونے پہ پڑی۔۔
حیرت کا ایک تیز جھٹکا اُسے لگا۔۔اُسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا اور بصارت پہ شبہ ہونے لگا۔۔مگر یہ سچ تھا۔۔نظر کا دھوکہ نہیں۔۔وہ سکندر ہی تھا۔۔جو سجدے میں پڑا تھا۔۔ستارہ حیرت سے گنگ یہ منظر دیکھ رہی تھی۔۔
سکندر صلام پھیرنے کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگ رہا تھا۔۔دعا ختم ہونے کے بعد اُسکی نگاہ ستارہ پہ پڑی۔۔ وہ اُٹھا اور اُسکے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔بیٹا میں تمہارا اور نسیم کا گنہگار ہوں۔میری کوتاہیاں اتنی بڑی ہیں کے جتنا بھی پچھتایا جائے کم ہے۔۔۔ مجھ سے بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں۔جن کی معافی کی گنجائیش بھی نہیں نکل سکتی۔تم ایک عظیم ماں کی بیٹی ہو۔۔۔۔اپنا دل بڑا کرتے ہوئے مجھے تھوڑی سی اُس میں جگہ دے دو تاکہ میں اپنے تئیں اپنے کبیرہ گناہوں کا مداوا کر سکوں۔۔یہ کہتے ہی سکندر کی آواز بھر آئی۔۔وہ بے اختیار سسک کے رو پڑے۔۔
ستارہ کی آنکھیں غمناک ہو گئیں۔۔وہ اپنے بابا کے جڑے ہاتھوں پہ سر رکھ کے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔۔
جس لمحے کو دیکھنے کیلئے نسیم بیگم کی آنکھیں ترس گئیں تھیں وہ آیا بھی تب جب اُنھوں نے مٹی اوڑھ لی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔
وقت آئیستہ آئیستہ گزرتا گیا۔۔سکندر سہی معنوں میں بدل گیا تھا۔۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سارا وقت ستارہ کی دلجوئی میں گزارتا۔۔ستارہ باپ کی بدلی حالت کو خدا کا احسان اور اپنی ماں کی کسی وقت قبول ہو جانے والی دعا پہ خدا کا شکر ادا کرتی۔۔
آفس اب اُس نے باقعدگی سے جانا شروع کر دیا تھا۔۔
آفس میں سب ہی اُس سے محبت اور احترام سے پیش آتے اور اُسک ہر ممکن دلجوئی کرتے۔۔ستارہ نے بھی خدا کے اِس فیصلے کو قبول کر لیا تھا اور پوری زمہ داری سے اپنا کام نپٹاتی۔۔
لیکن اس کے باوجود ایک لحضے کے لئے بھی نسیم بیگم کا خیال اُسکی زہن سے نہ جاتا تھا۔۔
ایک دن ستارہ کام کی زیادتی کے سبب آفس سے لیٹ ہو گئی۔وہ آفس میں اپنے کیبن کو لاک کر کے جلدی آفس کی عمارت سے باہر نکلی۔۔کار پارکنگ ایریا آفس کے سامنے سڑک کراس کرتے ہوئے دوسری طرف تھا۔۔یہ علاقہ زیادہ تر کاروباری دفاتر اور عمارات کا تھا۔۔شام کی سیاہی نے دم توڑچکی تھی تو گھپ اندھیرے نے اُسکی جگہ سنبھالی ہوئی تھی۔۔
ستارہ جلدی سے روڑ کراس کرتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگی۔۔ابھی وہ آدھی سڑک ہی عبور کر پائی تھی کہ ایک سفید رنگ کی کیب تیز رفتاری سے اچانک نمودار ہوئی اور چرچراتے ہوئے بالکل اُس کے ساتھ بریک لگائی کے وہ اُس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔۔کیب کا گیٹ تیزی سے کُھلا اور اُس میں سے تین نقاب پوش اُترے ۔۔اس سے پہلے ستارہ کچھ سمجھتی ان میں سے ایک نقاب پوش پُھرتی سے آگے بڑھا اور ستارہ کی ناک پہ رومال رکھ دیا۔۔ ستارہ نے چلانا چاہا مگر اُس نقاب پوش کی مضبوط گرفت سے اُسکی آواز منہ میں ہی گُھٹ کر رہ گئی۔۔رومال سے ایک عجیب سی بو نکل کر ستارہ کی ناک میں گھُس رہی تھی جس سے اُسے اپنا دماغ سُن ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔۔ستارہ نے ہاتھ پاؤں ہلانے چاہے تو ایک زرا سی جنبش بھی نہ ہو سکی۔۔اُسکی آنکھیں بند ہوتی گئیں اور وہ اجنبی کے بازو میں جھول گئی۔۔ یہ واردات انتہائی دیدہ دلیری اور خاموشی سے ہو گئی کے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔۔
نقاب پوش نے اطمینان سے ستارہ کو کیب میں ڈالا اور نامعلوم منزل کی جانب گامزن ہو گئے۔۔۔۔
سلطانہ کمرے میں وائن کا گلاس تھامے اُداس بیٹھی تھی۔عارف کے قتل میں کچھ لوگ اُسے ملوث کرنے میں مصروفِ کار تھے۔یہ زیادہ تر عارف بزنس ایمپائر کے حریف تھے۔۔جو میڈیا میں بیٹھے لفافوں کے زریعے اُسکے کردار کو مشکوک بنا رہے تھے تاکہ بزنس کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچے۔۔۔وہ اب عارف بزنس ایمپائر کی تن تنہا وارث تھی۔۔ عارف جمال کے قتل کے بعد ساری زمہ داری اب اُسکے نازُک سے کندھوں پہ آ پڑا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔سلطانہ نے اپنے کیرئیر کا آغاز ماڈلنگ سے کیا اور جلد ہی وہ ماڈلنگ کی دنیا کا ایک چمکتا دمکتا سٹار بن گئی۔۔ماڈلنگ کی دنیا میں اُسکی شہرت اور کام کو دیکھتے ہوئے بہت سے فمسازوں نے اُسے اپنی فلمز میں کاسٹ کرنا شروع کر دیا۔۔پے در پے فلمز ہٹ ہوتی گئیں جس نے سلطانہ کو بڑی ہیرئین کی صف میں لا کھڑا کیا۔۔خوبصورتی میں سلطانہ اپنی مثال آپ تھی۔۔ لانبا قد،بھربھرا کسا ہوا نمکین جسم ۔موزوں لب اور نیلگوں آنکھوں تلے ستواں ناک نے اُسے ایک آتش بنا دیا تھا جو دیکھنے والوں کو جُھلسا دیتی تھی۔۔ عارف جمال سے اُسکی ملاقات ایک بزنس پارٹی میں ہوئی تھی ۔۔عارف نے جب پہلی بار اُسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔ سیاہ رنگ کی چمکدار ساڑھی میں اُسکا نازُک سراپا چاند کی چاندنی کو مات دیتا کرنیں بکھیر رہا تھا۔جتنی حسین وہ سنما کے پردے میں دکھائی دیتی تھی اُس سے بڑھ کر وہ حقیقی زندگی کے پردے میں حسین تھی۔۔۔پارٹی میں ہر نگاہ کا محور اُسکا کا مرمریں سراپا تھا۔سبھی دم بخود کھڑے اُس شعلہ فشاں نازنین کو دیکھ کر اپنی آنکھیں سینک رہے تھے۔۔سلطنانہ کے لبوں پہ قاتل مُسکان بکھری ہوئی تھی۔سفید موتیوں کی لڑیاں اُسکے شہد بھرے لبوں سے جھانکتی روشنیاں بکھیر رہی تھیں۔اُسکو اپنے دل دھڑکا دینے والے آتشیں حُسن کا خوب اندازہ تھا۔جسکا وہ استعمال کرنا بخوبی جانتی تھی۔۔وہ اک ادائے ناز سے سب کو ہیلو ہائے کرتی ہجومِ بیقراں کو چیرتی شراب سرو کرنے والے کاؤنٹر پہ پہنچی اور ریڈ وائن کا کہا۔۔بیرے نے مستعدی سے آرڈر اُسے سرو کیا۔۔ شیشے کے چمکتے گلاس کو اپنے لبوں سے جب سلطانہ نے لگایا تو جام سے جام ٹکرایا۔۔آج مے کو اپنی کم مائگی کا احساس ہوا۔۔ مے جس کو اپنے خمار پہ حد درجہ غرور ہوتا ہے آج اپنی بے توقیری پہ نالاں ہو گئی۔۔
عارف جمال مبہوت کر دینے والے اس دلنشیں نظارے کو دیکھ رہا تھا۔وہ اُس کے بمشکل 2 گز کے فاصلے پہ تھا۔۔ابھی تک سلطانہ کی نگاہ اُس پہ نہیں پڑی تھی۔۔عارف نے بال پین اپنی جیب سے نکالا جو وہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتا تھا اور سلطانہ کی طرف بڑھا۔۔
آٹو گراف پلیز۔۔
عارف اُسکی دل موہ لینے والی صورت کو اپنی نگاہوں میں سماتے ہوئے بولا۔۔
سلطانہ نے چونک کے نگاہ اُٹھائی تو سیاہ پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک شاندار مرد کو دیکھا جو ہاتھ میں بال پین لئے شائیستگی سے متوجہ تھا۔سلطانہ کی آنکھوں میں شناسائی کی رمق آ گئی اور اُس نے مُسکُراتے ہوئے اُس کے ہاتھ پہ آٹو گراف دے دیا۔۔
بہت شکریہ۔۔ عارف مشکور لہجے میں بولا۔۔
سلطانہ: شکریہ کس بات کا عارف صاحب؟؟ آپکا بڑا پن ہے کہ آپ نے یہ اعزاز ہم کو بخشا۔۔
عارف: (حیران ہو کر) آپ مجھے جانتی ہیں؟۔۔
سلطانہ: (اِٹھلا کر) اتنے بدزوق لگتے ہیں ہم آپکو؟
عارف: (گڑبڑا کر) مطلب؟ میں سمجھا نہیں۔
سلطانہ: جو آپ جیسی شخصیت کو نہیں جانتا اُس کے زوق کا اور کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؟؟
عارف: (جھینپ کر) جی آپ کی زرہِ نوازی ہے۔۔وگرنہ تو ہم کوئی خاص شخصیت نہیں۔۔ بس معمولی سے مزدور ہیں۔۔
سلطانہ : اُف کیا کہنے آپکی خاکساری کے۔۔وہ ہاتھ نچا کے بولی۔۔
عارف: (آداب بجا لایا)۔آپکی لاسٹ مووی جادوگرنی بہت اچھی اور دل کو لُبھانے والی تھی۔۔عارف نے مردوں والے روایتی ہتھیار کا استعمال کیا اور اُسکی مووی کی تعریف کی۔۔۔
اچھا آپ نے دیکھی۔۔سلطانہ کو من پسند ٹوپک ملا تو وہ خوش ہو کر بولی۔۔۔
جی ہاں بالکل دیکھی۔۔بہت مزے کی مووی تھی۔۔عارف مسکُراتے ہوئے بولا۔۔
اوہ۔۔اچھا۔بڑی بات ہے۔۔۔آپ کی بات سن کر اب مجھے یقیں ہو چلا ہے کہ میں بھی ایک ہیرؤئین ہوں جسکے بڑے بڑے لوگ فین ہیں۔۔۔وہ اپنی دلنشیں مُسکُراہٹ کو مزید گہرا کرتے ہوئے بولی اور ریڈ وائن کا آخری پیگ اپنے حلق میں اُتار گئی۔۔عارف گہری نظروں سے اُسکی صراحی دار گردن کو دیکھتا رہا۔۔
گلاس خالی کر کے اُس نے کاؤنٹر پہ رکھا ۔۔پھر گویا ہوئی۔۔
سلطانہ: کیا آپ جادو وغیرہ پہ یقین رکھتے ہیں؟
عارف: ہاں رکھتا ہوں۔۔
سلطانہ: سچ میں۔۔ آئی مِین ٹو سیے کے آپ خاصے پریکٹکل انسان ہیں اور جادو ٹونے وغیرہ جیسی توہمات پہ کہاں یقین رکھتے ہوں گے۔اور میری لاسٹ مووی کا ٹوپک ہی جادو ٹؤنا تھا۔۔
عارف: میں جس جادو پہ یقین رکھتا ہوں اُس پہ دنیا کا ہر پریکٹکل انسان بھی یقین رکھتا ہوں۔۔وہ شرارت سے بولا۔۔
سلطانہ: رئیلی؟ وہ تجسس بھرے لہجے میں بولی۔۔ایسا کون سا جادو ہے وہ؟؟
عارف: تھوڑا قریب آؤ۔۔کوئی اور نہ سن لے۔۔عارف کی آنکھیں ہنوز شرارت سے بھری ہوئیں تھیں۔۔
سلطانہ سمٹ کے تھوڑا قریب آئی اور اشتیاق سے بولی۔۔جی بتائیں۔۔
عارف: وہ جادوِ حسن ہے۔۔وہ اُسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سرگوشی میں کچھ اِس انداز سے بولا کے اِتنی بیباک اور بولڈ ہونے کے باوجود بھی سلطانہ حیا سے سرخ ہو گئی۔۔
حیا کی سرخی سے اُسکا چہرہ لال ہو کے مزید تابناک ہو گیا۔۔ وہ ایکس کیوز کرتی اور اُس پہ ایک گہری نظر ڈالتے دوسری طرف چلی گئی۔۔
عارف اُس کی لچکتی گانڈ پہ آنکھیں جمائے گہری سانس بھرتا اُسے جاتا دیکھتا رہا۔۔
پھر ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔۔سلطانہ نے عارف کو ہر معاملے میں پرفیکٹ پایا۔۔عارف نے سُلطانہ کے لئے ایک پروڈکشن ہاؤس کی داغ بیل ڈالی۔۔جو صرف سلطانہ کو ہی لیڈ رول میں لیتا۔۔ اخباروں میں خوب چرچے ہوئے۔۔ اور انکا سکینڈل عرصہ دراز تک اخبارات کی زینت بنا رہا مگر اُن دونوں نے کوئی پرواہ ن کی۔۔
رفتہ رفتہ عارف سلطنہ کے دل میں اُتر گیا جسے اُس نے ہمیشہ کے لئے مقید کر دیا۔۔
دونوں کی شادی دھوم دھام سے ہوئی جس میں ملک کی بڑی شخصیات نے شرکت کی۔۔۔۔
لیکن جس ساتھ کی چاہت سب سے زیادہ ہوتی ہے وہ ساتھ اکثر ساتھ نہیں رہتا۔۔۔۔۔۔۔
ابھی شادی کو ایک سال ہی بمشکل ہوا تھا کے اِس ہنستے بستے جوڑے کو کسی کی نظر لگ ہو گئی اور یہ سانحہ رونما ہو گیا۔۔عارف کا قتل بلاشبہ ایک کاری ضرب تھا اُسکی زندگی بھر کی خوشیوں پر۔۔جس پہ وہ ماتم کناں ہوتی کم تھا۔پھر مزید کچھ لوگ اُسکا نام اس گھِناؤنے واقعے جلتی پہ تیل کا کام کر کے اُس کو اس واقعے میں ملوث کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس نے اُسکی پریشانی کو دُگنا کر دیا تھا۔ ۔۔
بی بی جی۔۔
اپنی ملازمہ کی آواز پہ وہ چونک کر خیالوں کے سمندر سے باہر نکلی جس میں وہ بہے جا رہی تھی۔۔
اُس نے سوالیہ نظروں سے اپنی ملازمہ کو دیکھا۔۔
باہر ایک پُلسیا(پولیس والا) آیا ہے۔۔آپ سے ملنا چاہتا ہے۔۔ملازمہ بولی۔۔
اُس نے اثبات میں سر ہلایا تو ملازمہ چلی گئ۔۔
سلطانہ نے ایک گہری سانس خارج کی اور اُٹھ کر ڈرئینگ روم کی طرف چل دی۔۔
ڈرئینگ روم میں جیسے ہی داخل ہوئی ٹھٹھک کے رُک گئی۔۔
صوفے پہ بِراجمان خوش بخت گلِ لات پہ لات رکھے اُسے کینہ توڑ نظروں سے گھوُر رہا تھا۔۔
سلطانہ نے اُسکے گھورنے کا کوئی اثر نہیں لیا اور کمرے میں داخل ہو کر صوفہ کی سائڈ چئیر پہ بیٹھ گئی۔۔
خوش بخت گِل اُسکی خالہ کا بیٹا تھا۔۔اور یہ بات کسی کو بھی معلوم نہ تھی۔سلطانہ جب 5 سال کی تھی تو اُسکے والدین قصور سے لاہور شفٹ ہو گئے تھے پھر بعد میں پلٹ کر اُنھوں نے نہیں دیکھا۔۔۔۔بچپن میں سلطانہ کی سگائی خوش بخت سے کر دی گئی تھی۔۔مگر بعد میں خاندانی چپقلش بڑھ جانے سے یہ رشتہ قائم نا رہ سکا۔۔ ۔عارف سے شادی کے بعد سلطانہ کے والدین امریکا میں سیٹل ہو گئے تھے۔۔عارف کا وہاں بھی اچھا خاصا بزنس تھا جس کی دیکھ ریکھ سلطانہ کا باپ کرتا۔۔عارف کا جب قتل ہوا تو وہ فورن پاکستان آئے اور کئی دن رہ کر پھر واپس چلے گئے۔۔سلطانہ قانونی طور پہ کہیں بھی نہیں جا سکتی تھی جب تک کہ عارف کا قاتل کیفرِ کردار کو پہنچ جاتا۔۔
َََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلفی کی آنکھوں میں ہوس دیکھ کر مناہل کا رواں رواں کانپ اُٹھا۔۔اُس نے دروازہ بند کر کے اپنے اِبلیسی ارادے کا پتا دے دیا تھا۔۔یہ آپ کک کیا کر رہے ہیں زلفی انکل۔۔ دروازہ کیوں بند کیا۔۔
مناہل نے خوفزدہ ہو کر پوچھا۔۔
دیکھو پیاری۔۔اگر معافی چاہتی ہو تو اپنے پیارے سے زلفی انکل کو خوش کرنا ہو گا۔۔اپنی زلف کے سایے میں زلفی کو پناہ دے دو میری لال پری۔۔
زلفی شیطانی ہنس کیساتھ بولا تو مناہل کو اپنے جسم سے روح نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔
پاپا۔۔پاپا۔۔مناہل زور سے چلانے لگی۔۔اُسے اندازہ ہو گیا کے آج وہ لٹنے والی ہےتو اُس نے ہذیانی کیفیت میں اظہر کو زور زور سے پُکارنا شروع کر دیا۔۔
ہاہاہا۔۔ جتنامرضی اُس بہن چود کنجر کو پُکار لو۔۔وہ آج اِدھر نہیں پھٹکے گا۔وہ تجھے بیچ چکا ہے مجھے۔۔۔یہ کہتے ہی وہ مناہل کو مغلظات بکنے لگا۔۔مناہل کو اپنے کانوں پہ یقین نہ آیا۔۔اظہر اِتنا گر سکتا تھا اُس نے کبھی سوچا نہ تھا۔۔
یکدم زلفی نے بڑی پھُرتے سے مناہل پہ چھلانگ لگا کر اُسے دبوچنا چاہا مگر اپنی عصمت لٹنے کے ہول سے اُس میں بجلی سی بھر گئی وہ تیزی سے ایک سائڈ پہ ہو گئی۔۔زلفی سیدھا بیڈ پہ اُس جگہ آ گرا جیاں مناہل تھی۔۔۔مناہل تیزی سے بیڈ پر سے اُتری اور بھاگ کر دروازے کی طرف پھرتی سے بڑھی۔۔
مگر زلفی بھی بلا کا پھُرتیلا تھا۔۔اُسکا نشہ پل بھر میں ہرن ہو گیا تھا۔۔
وہ بجلی کی سی تیزی سے اُٹھا اور لپک کر دروازہ کھولتی مناہل کو اپنے بازوؤں میں دبوچ کر اپنے کندھوں پہ اُلٹا لاد لیا۔۔
دھان پان سی مناہل نے خود کو چھُڑوانے کی بہت کوشش کی مگر اُس بھینسے کی گرفت سے خود کو آزاد نا کروا سکی۔۔وہ مسلسل چلا رہی تھی۔۔بار بار اظہر کو پُکار رہی تھی مگر کوئی اُسکی پُکار پہ کان نہیں دھر رہا تھا۔۔زلفی نے اُسے بیڈ پہ زور سے پٹخ دیا کہ اُسکا وجود بکھر گیا۔۔
وہ مسلسل چلا رہی تھی۔۔خدا کے واسطے زلفی انکل مجھے چھوڑ دیں۔۔میں آپکی بیٹی جیسی ہوں۔۔۔آ پ تو مجھے بیٹی کہتے ہیں۔۔اور آپ کیسے باپ ہیں جو بیٹی کو لُوٹ رہا ہے۔۔۔ خدا کا واسطہ مجھے بخش دیں۔۔۔آنسو قطار در قطار مناہل کی آنکھوں سے چلے آ رہے تھے۔۔۔مگراُس کی فریاد کا کوئی اثر زلفی پہ نہیں ہو رہا تھا۔۔ہوس کی پٹی اُسکی آنکھوں پہ پڑ چکی تھی۔۔
اُس نے ایک زور دار تھپڑ مناہل کے منہ پہ جڑ دیا۔۔
چپ کر کمینی۔۔زلفی دھاڑتے ہوئے بولا۔۔
تھپڑ اتنا زور دار تھا کے نازک اندام مناہل کی کھوپڑی جھنجھنا اُٹھی تھی۔۔۔
چند لمحوں کے لئے اُسکے اوسان خطا ہو گئے۔۔جب اُسکے حواس بحال ہوئے تو زلفی اپنی قمیص اُتار چکا تھا۔
اُسکا سینا بالوں سے بھرا ہوا تھا۔۔
ز۔۔زل۔۔فی ان کل۔۔
وہ آخری التجا کرتے ہوئے سسک پڑی۔۔
میں آپ کی گڑیا ہوں زلفی انکل۔۔
پلیز ایسا مت کریں۔۔اُس نے سسک کے رو رہی تھی۔۔
آنسوؤں سے اُسکا چہرہ تر ہو گیا تھا۔۔
میرے اچھے زلفی انکل ۔۔ آپ کو خدا کا واسطہ۔۔مت کریں ایسا۔۔پلیز زلفی انکل مت کریں۔۔
آخری جملہ بولتے ہی مناہل کی آواز بیٹھ گئی۔۔
فرشتے سر اُٹھا اُٹھا کر یہ رقت آمیز منظر دیکھ رہے تھے۔۔کائنات کا زرہ زرہ آہ بکا کر رہا تھا۔۔
شیطان منہ کھولے حیرت زدہ ہو کر پھٹی آنکھوں سے حضرتِ انسان پہ حیران ہو رہا تھا۔۔
حوا کی بیٹی کی سسکیاں آہ پکار سب رائیگاں گئیں۔۔
زلفی مناہل کی گردن پہ جھُک گیا۔۔
فرشتے دھاڑیں مار کے رونے لگے۔۔
پوری کائنات گریہ و زاری کرنے لگی۔۔
شیطان خدا کے حضور جھک گئے۔۔پھر یکدم
عرش پہ ہلچل سی پیدا ہوئی۔۔
مناہل کو یوں لگا جیسے اُس میں کسی نے بے پناہ طاقت بھر دی ہو۔۔
اُس نے پوری طاقت مجتمع کی اور اپنی کہنی زلفی کے منہ پہ مار دی۔۔
زلفی کو یوں لگا جیسے اُس کے منہ پہ چار من کا وزنی ہتھوڑا مار دیاہو۔۔
وہ اُلٹ کے ایک سائڈ پہ گرا۔۔مناہل تیزی سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔اُسکی نگاہ ٹیبل پہ پڑے پتھر کے بنے گلدان پہ پڑی تو اُس نے لپک کر وہ اُٹھا لیا۔۔
اس اثنا میں زلفی اُٹھ چکا تھا۔۔اور دوبارہ اُس کو پکڑنے کے لئے پر تول رہا تھا۔۔
مناہل نے ایسا کوئی موقع اُسے نا دیا۔۔اور آگے بڑھ کر پوری قوت سے گلدان اُس کے سر پہ مار دیا۔۔زلفی نے ایک دلخراش چیخ ماری اور ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔۔
مناہل نے جلدی سے جوتے پہنے اور چادر اوڑھ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔۔
زلفی کی زوردار چیخ سے اظہر اور اُسکا دوست اپنے کمرے سے باہر نکل آئے۔۔
مناہل رکو کہاں بھاگ رہی ہو؟
اظہر نے مناہل کو بھاگتے دیکھا تو اُس کے پیچھے دوڑ لگا دی۔۔
مناہل نے اظہر کو اپنے پیچھے آتے دیکھا تو اپنی رفتار مزید تیز کر دی۔۔اظہر مناہل کو آوازیں دے کر رکنے کا کہہ رہا تھا مگر مناہل دیوانہ وار بھاگتی رہی۔۔
سخت دھند میں کچھ سُجھائی نہ دے رہا تھا۔۔مناہل اندھا دھند بھاگتے اظہر کو بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔۔
اُس کا سانس بری طرح پھول گیا تھا۔۔سردی قہر ڈھا رہی تھی۔۔
مناہل جب تک بھاگتی رہی اُس کا جسم گرم رہا مگر اب وہ سردی کی شدت سے کانپ رہی تھی۔۔اسے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کے بھاگتے بھاگتے وہ کس سمت نکل آئی ہے۔۔
سردی سے اُس کا وجود ٹھٹھرتا جا رہا تھا۔۔گھر سے بھاگتے وقت وہ صرف ایک چادر اُٹھا پائی تھی۔۔جو اتنی شدید سردی میں ناکافی تھی۔۔
اُسے اندازہ ہو چلا کے اگر وہ کچھ دیر مزید باہر رہی تو وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سوچتے ہی
اُس نے دھڑا دھڑ پناہ لینے کے لئے دروازے پیٹنا شروع کر دئے۔۔سخت سردی میں کوئی بھی باہر نا نکلا۔۔
اور اگر کوئی نکلا بھی تو اُس نے پناہ دینے سے انکا کر دیا۔۔
آخر کا اُسے ایک چھوٹا سا گھر نظر آیا۔۔جو گلی کے آخر میں ایک سائڈ پہ تھا۔۔پھر یہاں اُسکو میں نے پناہ دی۔۔۔۔
اپنی پوری داستان سنا کر وہ خاموش ہو گئی۔۔
اُسکی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔میری آنکھیں بھی نم تھیں۔۔۔تقدیر نے اتنا بھیانک کھیل اُس کے ساتھ کھیلا تھا جسے سن کر میری روح تک کانپ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مناہل ایک ہفتہ میرے پاس رہی۔۔ اُس کی داستان سننے کے بعد مجھے اُس سے گہری ہمدردی ہو گئی تھی۔۔اُسے ایک سہارے کی ضرورت تھی کہ جب بھی وہ لڑکھڑئے تو وہ اسے سنبھال سکے۔۔
ہمارا نکاح خاموشی سے ہوا تھا۔۔صرف میرا دوست جو میرا کولیگ بھی تھا اس رسم میں شامل ہوا۔۔
گھر والوں کو ابھی میں نے کچھ نہ بتایا۔اور کچھ دنوں کے لئے اُن سے یہ بات راز رکھنے کا فیصلہ کیا۔۔۔مبادہ کوئی ہنگامہ نہ کھڑا ہو جائے۔۔
مگر کاتبِ تقدیر میری قسمت کے آڑے آ گیا۔۔۔۔

ستارہ نے آئیستہ آئیستہ آنکھیں کھولیں جو چند لحظوں کے لئے کمرے میں لگیں ٹیوب لائٹس کی تیز روشنی میں چندھیا گئیں۔۔پھر رفتہ رفتہ دیکھنے کے قابل ہوئیں تو اُس نے خود کو ایک ہال نُما کمرے میں ایک جہازی سائز بیڈ پہ چت لیٹا ہوا پایا۔۔ اُس نے کمرے پہ ایک طائرانہ نظر ڈالی۔۔
کمرے کی تزین و آرائیش صاحبِ مکاں کے اعلیٰ زوق و معیار کا پتا دے رہی تھی۔۔ اُس نے اُٹھنے کی کوشش کی تو یکدم اُسے اپنےسر میں بھاری پن محسوس ہوا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ پھر ڈھے گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی۔۔کچھ دیر تک وہ یونہی چھت کو گھورتی رہی اور پھر ہمت کر کے اُٹھنے کی کوشش کی۔۔۔۔اب کی بار اُسے ناکامی نہیں ہوئی۔۔وہ اُٹھ کے پالتی مار کے بیٹھ گئی۔۔اور اس صورتِ حال پہ غور کرنے لگی۔۔
اُسے اپنا سر اب بھی ہلکا ہلکا بھاری محسوس ہو رہا تھا۔اس وقت وہ خالی الزہن تھی۔ اُس نے اپنے زہن پہ زور دیا تو سب کچھ اچانک یاد آتے ہی اُسکا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔۔سارے مناظر اُسکی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے کہ کس طرح ایک پروجیکٹ مکمل کرنے کے سلسلے میں آفس سے وہ لیٹ ہو گئی تھی۔۔
تو جلدی جلدی وہ آفس سے نکل کر پارکنگ ایریا کی طرف جا رہی تھی کہ ایک سفید رنگ کی کیب اُس کے پاس آ کر رُکی جس میں سے تین نقاب پوش اُترے۔۔اس سے پہلے کے وہ کچھ سمجھتی ایک نقاب پوش نے پھرتی سے اُس کے منہ پہ ایک رومال رکھ دیا جس سے نکلنے والی تیز بو اُس کے دماغ میں گھس گئی اور وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔۔اور نامعلوم کب سے اُس پہ بے ہوشی کی کیفیت چھائی رہی تھی۔۔
ستارہ بیڈ سے اُتری کمرے کے دروازے کی طرف بڑھی۔۔مگر وہ لاکڈ تھا۔۔ستارہ نے ہینڈل کو گھما گھما کر بہتیری زور آزمائی کی مگر دروازہ نہ کھلا۔۔ وہ دوڑ کر کھڑکی کی جانب بڑھی اور اُس کے پٹ کھول کر باہر کی جانب آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی۔۔مگر گھُپ اندھیرا ہونے کی وجہ سے کچھ نظر نہ آ رہا تھا۔۔تھک کر واپس آئی اور بے چینی سے ٹہلنے لگی۔۔اُس کی خوبصورت پیشانی پہ پسینے کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہو چکے تھے۔۔
وہ بڑی مشکل سے خود کو سنبھالے اس خوفناک صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ کر رہی تھی۔۔
ستارہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کے اُس کو اغوا کرنے والے کون ہو سکتے ہیں۔۔اُسکی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔۔ اور سکندر تو کافی عرصے سے توبہ تائب ہو کر شرفاء کی مانند اپنی زندگی کے بچے کُچے آیام بسر کر رہا تھا کہ اُسکی دشمنی میں کوئی اُسے اغوا کرنے کی کوشش کرتا۔۔
جوں جوں وہ اس پہلو پہ سوچتی گئی ویسے ویسے اُس کی پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔۔مرض بڑھتا گیا۔۔جوں جوں دوا کی۔۔
تھک ہار کر ستارہ بیڈ پہ گر گئی۔۔آنے والے واقعات کو سوچ سوچ کر ہی اُسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
اچانک کمرے کا دروازہ آئیستگی سے کُھلا تو ستارہ اُچھل کر کھڑی ہو گئی۔۔اور خوفزدہ ہو کر نووارد کو دیکھنے لگی۔۔
آنے والا جینز اور بلیک کیجول کوٹ میں ملبوس تھا۔۔وہ
چہرے سے لے کر گردن تک ماسک میں تھا۔۔صرف اُسکی آنکھیں اور ہونٹ ماسک میں سے جھانک رہے تھے۔۔
وہ چند لمحے چڑیا کی طرح سہمی ہوئی ستارہ کو تکتا رہا اور پھر پاٹ دار آواز میں بولا۔۔
خوش آمدید ستارہ۔۔تمہارے آنے سے میرے گھر میں چھائے اندھیرے چھٹ گئے ہیں۔۔ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ تم محفوظ جگہ اور محفوظ ہاتھوں میں ہو۔۔
ستارہ کی ٹانگیں خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھیں۔۔اُس نے بمشکل خود کو سنبھالا اور ہمت کر کے پوچھا۔۔
کون ہو تم۔۔
آپکا خیر خواہ۔۔
وہ سرگوشی میں بولا۔۔
ستارہ نے خود میں تھوڑی ہمت جگائی اور کڑکدار لہجے میں بولی۔۔
مجھے اغواہ کر کے بندی بنا لیا ہے اور کہتے ہو خیرخواہ ہوں۔۔یہ کونسی خیر خواہی کی ہے تم نے۔۔
دیکھو مسٹر چھوڑ دو مجھے۔۔ اِسی میں تمہاری بھلائی ہے۔۔ورنہ اس کا انجام بھگتنے کے لئے تیار رہو۔۔ ساری زندگی جیل میں چکی پیسو گے۔۔تم مجھے جانتے نہیں میں کون ہوں۔میرے بابا کو پتا چل گیا تو وہ زندہ نہیں چھوڑیں گے تم کو۔۔۔ اور اگر تو پیسوں کے لئے مجھے اغوا کیا ہے تو بھی بتا دو کتنے پیسے تمہیں چاہیں۔۔۔میں دے دونگی اور اس بات کا کسی سے بھی زکرنہیں ہوگا۔۔
آ ہاں۔۔پدرم سلطان بُود ۔ وہ خاصا محظوظ ہوکے بولا۔۔نا نا ۔ پلیز ایسا ظلم مت کرنا۔۔ بھئی مجھ سے یہ چکی وَکی نہیں چلائی جائیگی۔۔ تم بس ایک چھوٹا سا کام کر دو میرا۔۔ میں آپکو بخیر و عافیت آپکے گھر چھوڑ دونگا۔اور کان پکڑ کر اپنی جسارت کی معافی مانگ لونگا۔۔۔وہ کھکھلا کر ہنستے ہوئے بولا۔۔
کیا کام ہے؟
ستارہ فرطِ جزبات سے بولی۔۔ اُسکا روم روم خوشی سے بھر گیا کہ اتنی جلدی جان چھوٹ جائیگی۔۔کیا کام ہے جلدی سے بتاؤ۔۔وہ بولی۔۔
کام اتنا بڑا نہیں ہے۔۔۔وہ تمہید باندھتے ہوئے بولا۔۔۔بس کسی ایسے باغیچے کا پتا بتا دو جس میں ہو بہو آپ کے جیسا گل اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ کھلا ہوا ہو۔جسکی خوشنُما پتیوں کی کٹائی پہ باغ عش عش کر اُُٹھے۔۔ جسکی خوشبو سے ایک عالم مہک اُٹھے۔شبنم اپنی آبشار کی پہلی پُھوار اور سورج اپنی پہلی کِرن کی سلامی اُسے دے۔۔۔اور میں بھنورا بن کر اُس کے گرد چکر کاٹوں اور اُس کی مہکتی خوشبو سے میرا تن من سرشار ہوتا رہے۔تب میں آپکو چھوڑ دونگا۔۔۔وہ خمار آلود لہجے میں بولتا ہی چلا گیا۔۔
ستارہ بیزاری سے یہ سُن رہی تھی۔۔اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کے وہ کیا بول رہا ہے۔۔وہ اُسے محض بکواس سمجھ کر نظر انداز کر رہی تھی۔۔
جب وہ بول چکا تو ستارہ بولی۔۔
سیدھی طرح بتاؤ کیا چاہتے ہو تم۔۔
اجنبی کا لہجا انتہائی سلجھا ہوا تھا۔۔جس سے ستارہ کی ہمت بندھی ہوئی تھی۔۔ اور وہ تھوڑا جراءت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سخت لہجے میں اُس سے ہمکلام تھی۔۔لیکن اندر ہی اندر اُسکا وجود سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔کچھ بھی تھا وہ ایک مغوی ،مجبور اور بے سہارا ہو کر ایک شخص کے رحم و کرم پہ تھی جو خدا جانے اُسکے ساتھ کیا سلوک کرنے والا تھا۔۔۔ یہ اُس کے نہ جانے کون سے جرم کی سزا ملی تھی جس پہ وہ اپنے رب سے شکوہ کناں تھی۔۔
آہ۔۔اجنبی نے ستارہ کی لہجے کی سختی کو محسوس کرتے ہوئے ایک سرد آہ اپنے لبوں سے خارج کرتے ہوئے بولا۔۔
افسوس حسن ہمیشہ سے ہی مغرور رہا۔۔ زوروں کے دھڑکتے دلِ ہجوم عاشقاں، سنگدلی کے دل فگار افسانے اور خود بخود لٹو ہو جانے والی نزاکت نے اسکا دماغ ساتویں آسمان پہ پہنچا دیا ہے۔۔ہائے صد افسوس اُسکی روش بدلتے وقت سے بھی نہ بدلی۔۔صد افسوس۔۔۔ صد افسوس۔۔
وہ اپنے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ٹوٹے لہجے میں بولا۔۔
ستارہ اُسے ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے اُسکی دماغی حالت پہ شبہ ہو۔۔
درحقیقت اُسکی باتیں اور انداز و اطوار سے ایسا ہی لگ رہا تھ کے جیسے وہ برسوں کا زہنی بیمار رہا ہو اور ابھی پاگل خانے سےرسائی پا کر آیا ہو۔۔
تت تم کیا بول رہے ہو۔۔
ستارہ نے خوف سے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔۔ اُسکی زہنی کیفیت سمجھتے ہی اُسکا سارا وجود خوف سے کپکپا رہا تھا۔۔اب
اجنبی نے اپنے سر کو اپنے ہاتھ سے زور زور سے پیٹنا شروع کر دیا۔۔گویا ماتم کر رہا ہو۔۔
اُسکی یہ حرکت دیکھ کر ستارہ کی جان جیسے نکل رہی ہو۔۔
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کے اسکی حالت میں کیا ردِ عمل وہ دے۔۔وہ مسلسل زور زور سے اپنا ہاتھ اپنے سر پہ مار رہا تھا۔۔ستارہ کا رنگ یہ وحشت و دیوانگی کے دلخراش مناظر دیکھ کر فق ہو گیا تھا۔۔وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُس مافوق الفطرت کے وحشی پن کو دیکھ رہی تھی۔۔خوف سے اُسکا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔۔
بس بہت ہو چکا اب۔۔اجنبی اچانک اپنا ہاتھ اپنے سر سے ہٹاتے ہوئے اتنی زور سے گرجا کے ستارہ کو اپنے کان کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔اسکے جسم کو جیسے چار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ لگا۔۔
یکدم وہ پیچھے ہٹ کر دیوار سے جا لگی۔۔
اجنبی آئیستہ آئیستہ اُسکی طرف بڑھنا شروع ہوا۔۔ ستارہ کا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہو گیا۔۔
وہ اُس سے ایک قدم کے فاصلے پر رُک گیا۔۔
اُسکی وضع قطع اور رویہ حیرت انگیز طور پہ بدل گیا تھا۔۔ شاعروں کی سی دیوانی باتیں کرتے کرتے اچانک وہ وحشی پن پہ اُتر آیا تھا۔۔ستارہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں تھیں۔۔
اُس نے آگے بڑھ کر ایک قدم کی دوری بھی ختم کر دی۔۔
ستارہ کا وجود خوف سے منجمند ہو گیا تھا۔۔اُس نے ہلنے کی کوشش کی مگر اُس کے جسم سے جیسے جان نکل گئی ہو اور وہ ایک انچ بھی نہ ہل سکی۔۔
وہ ستارہ کے اتنا قریب آ گیا کے اُسکی سانسیں ستارہ کو اپنے گرم چہرے پہ محسوس ہونے لگیں۔۔
خوف کی کیفیت سے ستارہ کا زیروبم کچھ اس طرح سے اوپر نیچے ہو رہا تھا کے اُسکی چھاتیاں اُبھر اُبھر کر ایک ہیجان انگیز منظر پیش کر رہی تھیں۔۔دہشت و خوف سے ستارہ کے منہ سے کوئی آواز نہ نکل رہی تھی۔۔اچانک اجنبی نے بجلی کی سی تیزی سے اُسکے دونوں بازوؤں کو اپنے ہاتھوں میں کَس کے پکڑ لیا اور موڑ کر اُسکی لچکیلی کمر کے پیچھے لگا دیا۔۔اس کشمکش میں اجنبی نقاب پوش کا سینہ ستارہ کی چھاتیوں سے زور سے رگڑ کھا رہا تھا۔۔
ستارہ نے زور لگا کر اپنے بازو اُسکی کے بازوؤں سے چھڑوانے چاہے مگر اُسنے اپنی گرفت سخت کر دی۔۔
ستارہ کو اپنے بازوؤں کی ہڈیاں کڑکڑاتی ہوئیں محسوس ہوئیں۔۔اُسکے حلق سے ایک دل خراش چیخ نکلی جس کی بازگشت کمرے میں کئی لمحوں تک گونجتی رہی۔۔نقاب پوش نے ستارہ کی چیخ کی کوئی پرواہ نہ کی اور اپنے ہونٹ ستارہ کی تپتی صراحی دار گردن پہ رکھ دیئے اور چومنے کی کوشش کرنے لگا۔۔
ستارہ نے پورے جی جان سے مزاحمت کرنا شروع کر دی۔۔نقاب پوش بھی حیوانیت کے سارے رکارڈ توڑتا ہوا اُسے چومنے چاٹنے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا۔۔
زوردار مزاحمت کرنے کی وجہ سے ستارہ کے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھیں۔۔دفعتا ستارہ کو موقع مل گیا۔۔جیسے ہی نقاب پوش کا سر اُسکے چہرے کے سامنے آیا اُس نے بڑی سرعت سے ایک زور دار ٹکر اُس کے منہ پہ جڑ دی۔۔نقاب پوش ڈکارتا ہوا چشمِ زدن میں بلبلاتا ہوا اچھل کر پیچھے کو گرا۔۔اُس کے منہ سے درد کی شدت سے کراہیں نکل رہی تھیں۔۔ستارہ کے جیسے ہی بازو اُسکے شکنجے سے آزاد ہوئے وہ دھڑم سے نیچے گری۔۔اُس کے بازؤوں سے درد کی ناقابلِ برداشت ٹھیسیں اُٹھ رہی تھیں۔۔نقاب پوش خود کو سنبھالتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا۔۔اُسکی باچھوں سے خون رستا ہوا نقاب میں جزب ہو رہا تھا۔۔وہ اپنی باچھیں صاف کرتا ہوا غضب ناک انداز نظروں سے ستارہ کو گھور رہا تھا۔۔
ستارہ دیوار کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔۔ اُس کے دونوں بازو مفلوج ہو کے رہ گئے تھے۔۔ناقابلِ برداشت درد کی شدت سے اُس کے حلق سے کراہیں نکل رہی رھیں۔۔ نقاب پوش ٹکی ٹکی باندھے اُسے دیکھتا رہا پھر یکبارگی وہ تیزی سے ستارہ ے سر پہ پہنچا اور اُسکے بالوں کو اپنی گرفت میں لے کر اوپر اُٹھایا۔۔ستارہ کی کراہیں چیخوں میں بدل گئیں۔۔اجنبی نے اُسے اُٹھا کے بیڈ پہ زور سے پٹخ دیا اور اُس کے نازک منہ پہ تھپڑؤں کی بارش کر دی۔۔ستارہ کو ایسا لگ رہا تھا لوہے کی سلاخیں اُسکے منہ پہ ماری جا رہی ہیں۔۔اُسکی چیخ و پکار سے سارا کمرہ دہل رہا تھا مگر اجنبی پہ کوئی خاطر خوا اثر نا ہو رہا تھا وہ جنون و دیوانگی کی ساری حدیں پار کرتا ہوا اُس نازُک اندام پہ ستم کے پہاڑ توڑ رہا تھا۔۔یکلخت ستارہ کی چیخیں دم توڑ گئیںاور وہ ادھموئی ہو گئی۔۔
اجنبی اب بھی نہیں رُکا تھا۔۔وہ مسلسل اُسے پیٹ رہا تھا۔۔پھر یکدم وہ رُکا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔۔
پھر ستارہ کو غور سے دیکھنے لگا۔۔ جس کی آنکھیں بند ہو چکی تھی۔۔
اُس نے اپنی پینٹ اُتار کر ایک طرف پھینک دی۔۔اور ستارہ پہ جھک گیا اور ایک ایک کر کے اُسکے کپڑے اُتارنے لگا۔جوں جوں کپڑوں سے اُسکا وجود آزاد ہوتا گیا اجنبی کے لن کی حرارت بڑھتی گئی۔۔جیسے ہی اُسنے ستارہ کو قمیض اور برا کی قید سے آزاد کروایا اُس کے جسم میں شرارے سے بھرنے لگے۔۔۔
ستارہ کی سڈول چھاتیوں کو دیکھتے ہی اُسکے انگ انگ میں بجلیاں بھرتی گئیں۔۔ ستارہ کا بدن ستارے کی مانند روشنیوں کے جلوے بکھیر رہا تھا۔۔
وہ تیزی سے یاتھ چلاتے ہوئے باقی ماندہ چھیتھرے بھی اُتارنے لگا۔۔جیسے ہو ستارہ کی شلوار اُتری اجنبی کا دل اُسکی پھدی کو دیکھ کر یکبارگی زور سے دھڑکا۔۔ بالوں سے پاک و شفافاور روشنی میں لشکارے مارتی پُھدی کو دیکھتے ہی نقاب پوش اُس پہ بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑا اور اپنا منہ زیادہ سے زیادہ کھول کر چوسنے لگا۔۔
ستارہ کی دبیز پردوں میں لپٹی مخملی پھدی کا سارا رس اجنبی اپنے منہ میں لئے چوس رہا تھا۔۔
اپنی زبان کو زیادہ سے زیادہ وہ ستارہ کی پھدی کی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا۔۔مم ممم آہ۔۔اجنبی کے منہ سے نکلنے والی لزت بھری سسکاریاں ستارہ کی پھدی کی گہرائیوں میں گونج رہی تھیں۔۔
اجنبی دنیا و مافیا سے بے خبر مسلسل ستارہ کی پھدی کی مخملی دیواروں کی نرماہٹ کا مزہ لوٹنے میں مصروف تھا۔۔
حلاوت بھریں شہد آنگیں پھدی کے مخمور لمس سے اجنبی نقاب پوش مدہوش ہوا جا رہا تھا۔۔
ستارہ کے حواس بحال ہوئے ۔۔ اُس نے اپنی آنکھیں کھول کر خود پہ بیتنے والے دلسوز ستم پہ اُس کا دل ہل گیا۔۔
اُس کا دل شدتِ غم سے بھر گیا۔۔اُس نے چلانا چاہا مگر آواز حلق میں ہی دم توڑ گئی۔۔
اُسکا دل بھر گیا اور چہرہ آنسوؤں سے لبریز ہوتا چلا گیا۔۔
کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جئے۔۔ ستارہ نے تاسف سے سوچا اور اپنی آنکھیں بند کر کے خود کو حالات کے دھارے پہ چھوڑ دیا۔۔
ستارہ کی آنکھوں مسلسل برس رہی تھیں۔۔پھدی چاٹنے کے بعد وہ اُس کی چھاتیوں پہ جھکا اور ست رنگی ہیرے کی مانند چمکتے ابھاروں کو منہ میں ڈال کے چوسنے لگا۔۔چچچچچچچ۔۔ کی آوازیں اُس کے منہ سے نکل رہی تھیں۔۔اہہہہہہہہ۔۔۔اجنبی کا دل اپنی من پسند ڈش سے بھرا تو اُس نے ایک چٹخارے دار آواز اپنے لبوں سے نکالی۔۔پھر وہ پھدی کی طرف متوجہ ہوا۔۔اُسکی ٹانگوں کے درمیان آ کر اُس نے ٹانگیں کھول کر پھیلا دیں اور چمکتی پھدی پہ ایک پرشوق نگاہ ڈالی۔۔آہ ہا آہ۔۔وہ اپنے لبوں سے مزے سے آویزیں نکالتے ہوئے بولا۔۔پھر اُسنے اپنے لن کو تھوک سے لتھڑا کے پھنکارتی ٹوپی کو اُسکی پھدی پہ رگڑنے لگا۔آہ آہ۔۔کیا چیز ہو تم جانے من۔۔۔اس نے کہا اور پھر ایک زور دار جھٹکا مارا۔۔
لن جڑ تک پھدی کی نازُک دیوار کو توڑتا ہوا پھدی کی گہرائیوں میں اُترتا چلا گیا۔۔
ستارہ کو یوں لگا جیسے اُسکی پھدی میں کسی نے تپتی سلاخ گھُسیڑ دی ہو۔۔
ایک کان پھاڑ دینے والی چیخ اُسکے لبوں سے خارج ہوئی۔۔اور اپنی ہمت کو مجتمع کرتے ہوئے اُسے دور ہٹانا چاہا مگر اجنبی نے اُسکی اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے پہلے سے ہی اُسے قابو میں رکھا اور جھٹکوں پہ جھٹکے بنا رُکے مارتا رہا۔۔درد ست ستارہ کی سسکاریاں نکل رہی تھیں۔۔
ستارہ کی کَسی ہوئی پھدی کا وہ زیادہ دیر مقابلہ نا کر سکا۔۔اور دو منٹ میں ہی اُس کے لن نے ہمت ہارتے ہوئے پچکاریاں چھوڑنا شروع کر دیں۔۔
اہو آہ۔۔آہ۔۔وہ سرشاری کیفیت سے سسکاریاں نکالتا رہا۔۔
پھر ستارہ کو نہیں یاد رہا کے کتنی بار اُس کی عصمت کو وہ درندہ پامال کرتا رہا۔۔اس دوران وہ مسلسل غشی کی کیفیت میں ہی رہی تھی۔۔
آکری بار اُس کو بس اتنا یاد رہا کے اُس کو گاڑی میں بٹھایا جا رہا ہے۔۔اُسکے بعد اُسے پھر ہوش نہ رہا۔۔
ستارہ کو نقاب پوشان نے اُس کے گھر کے دروازے پہ پھینک دیا۔۔ اور بڑی پھرٹی سے ڈور بیل بجا کر فرار ہو گئے۔۔
سکندر ڈور بیل کی آواز پہ باہر نکلے تو ستارہ کو زمین پہ بکھرا ہوا پایا۔۔ ایک لمحے کو اُن کے اوسان خطا ہو گیے۔اُن کے دل کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔یا خدا خیر وہ کانپتے دل کے ساتھ لپک کر ستارہ کے پاس پہنچے اور ہزیانی کیفیت میں اُسکی نبض ٹٹولی جو آئیستہ آئیستہ چل رہی تھی۔۔
انھوں نے ادھر ادھر دیکھا تو کوئی بھی گلی میں نے تھا۔۔انھوں نے پھرتی سےستارہ کو اپنے بازوؤں میں اُٹھایا اور گھر میں داخل ہوگئے۔۔
جی فرمائیں کیا لیں گے آپَ چائے یا کافی؟
سلطانہ نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔۔
نہیں کچھ تکلف نہ کریں۔۔بس میرے کچھ آسان سے سوالوں کے جوابات دیں۔۔
خوش بخت اپنی پاٹدار آواز میں گویا ہوا۔
جی پوچھیں۔۔سلطانہ نے رسان سے کہا۔۔
اُس نے گلا کھنکھار کےصاف کیا اور بولا۔۔
عارف صاحب بہت بڑے کاروباری آدمی تھے۔۔ کیا آپ کے خیال میں کوئی کاروباری حریف اُن کے بیہمانہ قتل کی مزموم سازش کے پیچھے ہو سکتا ہے۔۔؟
سلطانہ: نہیں میرا نہیں خیال ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔۔عارف کے کاروباری حریفوں کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اُن سے اونچی آواز میں بات بھی کر لیں۔۔قتل کی بات تو کجا خو رہی۔۔لیکن اُنکی تلخ کلامی ایک بار ضرور ہوئی تھی سجاد علی رتھ سے۔۔جو بہت بڑے بزنس مین ہونے کے علاوہ ایم این ایے بھی ہیں۔۔گو کہ اپوزیشن پارٹی سے ہیں لیکن کافی اثر و رسوخ کے مالک ہیں۔۔کچھ میڈیا والے اُنکی طرف اشارہ دے رہے ہیں۔۔
خوشبخت: میں جانتا ہوں۔۔ اِس پر بھی ہماری تحقیقات شروع ہیں۔۔اور اُس ویڈیو فوٹیج کا ہم خوب جائزہ لے رہے ہیں جس میں یہ حضرات ایک دوسرے کو جان سے مارنے کی سنگین دھمکیاں دے رہے ہیں۔۔لیکن اس بات کو جانتے ہوئے بھی آپ نے ایف آئی آر میں اُنکا نام کیوں نہیں لکھوایا،،؟؟
سلطانہ: کچھ حکومتی شخصیات چاہتی تھیں کے میں بزنس پارٹی والی فوٹیج کو ثبوت بناتے ہوئے رتھ صاحب کا نام ایف آئی آر میں لکھواؤں۔۔لیکن اس سے مسئلہ کھٹائی میں پڑ سکتا تھا۔۔ اُسکا نام ایف آئی آر میں لکھوانے سے اپوزیشن جماعت کو موقع مل جاتا۔۔وہ ہنگامے کرتی اور اپنے لیڈر کومظلوم ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی۔اپوزیشن کے دھرنوں سے یہ سیاسی کیس بن جاتا۔۔جو انصاف نہیں بلکہ زاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتا۔۔ پھر پولیس والوں پہ سیاسی دباؤ ڈالا جاتا اور ہر طرح کے حربوں سے اس کیس کو ختم کرنے یا دبانے کی کوشش کی جاتی۔۔۔جبکہ میں انصاف کی طلبگار ہوں۔۔میں اُنکے قاتل کو ہر حال میں بینقاب کرنا چایتی ہوں۔اب پولیس بے فکری سے قاتل کو تلاش کرتی پھرے گی بیغیر کسی سیاسی دباؤ کے۔۔۔ ۔اور ویسے میرا ذاتی خیال یہ بھی ہے کہ سجاد علی رتھ کا ریکارڈ بے داغ ہے۔۔پاکستان کے انتہائی چوٹی کے سیاستدانوں پر بھی درخواستیں اور ایف آئی آر مختلف تھانوں میں درج ہیں مگر اُن کے خلاف ایک ایپلیکیشن بھی نہیں ہے۔۔جبکہ اُن کے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ بھی مجھے ملا تھا جس میں مجھے اور عارف کو خاص طو پہ مدعو کیا گیا تھا۔۔تو نشے میں کسی وقت ہو جانے والی گالی گلوچ پہ اُن کو بدنام کرنا یا اُن کا نام ایف آئی آر میں دینا نظریاتی، سماجی اور قانونی طور پہ غلط تھا۔۔
بالفرض اگر رتھ صاحب ملوث بھی ہوئے تو مجھے آپ پہ پورا یقین ہے کہ آپ اُسے عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں گے۔۔بغیر کسی سیاسی،سماجی دباؤ کے۔۔
سلطانہ اپنے دلنشین لہجے میں بات مکمل کرتے ہوئے بولی۔۔
خوشبخت گِل سلطانہ کی فہم و فراست کا کُھلے دل سے قائل ہو گیا۔۔واقعی میں اگر یہ معاملہ سیاسی رُخ اختیار کر جاتا تو ہو سکتا تھا سیاست دان سیاسی مفاہمت میں اس کیس کو دبانے کی کوشش کرتے یا پھر اُس کو ہٹا کر کسی کرپٹ پولیس آفیسر کو اس کیس کا انچارج بنا دیتے جو ان کی من مرضی کے نتائج اخذ کرکے کیس کو کمزور کر دیتا اور یہ فائل بھی سرد خانے میں مٹی اور جالوں سے اٹی رہتی۔۔
ہممم۔۔ خوشبخت نے ہنکارہ بھرا اور معنی خیز لہجے میں بولا۔۔
لیکن میڈیا تو اور بھی بہت کچھ کہہ رہا ہے۔۔
سلطنانہ کے لبوں پہ ایک طنزیہ مسکراہٹ بکھر گئی۔۔
میں جانتی تھی کہ یہ سوال بھی آپ کریں گے۔۔کچھ لوگ عارف کے قتل میں مجھے ملوث کر کے اُن کے ایمپائر کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔۔
چلیں میرے ساتھ آپکو کچھ دکھانا ہے۔اوراُمید ہے کہ آپکو اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا۔۔۔وہ اُٹھتے ہوئے بولی اور ڈرئنگ روم کے باہر چل دی۔۔خوشبخت نے چند لمحوں کا تامل کیا پھر کچھ سوچتا ہوا اُس کے پیچھے چل پڑا۔۔وہ اُسے ایک عالیشان بیڈ روم میں آئی۔۔جس کی سجاوٹ و بناوٹ دیکھ کر پرانے وقتوں کی مہارانیوں کی خواب گاہوں کاگماں ہوتا تھا جسے خوشبخت ستائیشی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔
کمرے میں پڑے اپنے پرس سے اُس نے ایک چھوٹا سا ریموٹ نکالا اور خوشبخت کی جانب دیکھا جو اُسے سوالیہ نظروں سے گھور رہا تھا۔۔
پھر سلطانہ نے کمرے کی شمالی دیوار کی طرف رُخ کیا اور ریموٹ کا بٹن دبا دیا۔۔
ٹک کی آواز کے ساتھ ہی کمرے کی دیوار شق ہوئی ایک دروازا نمودار ہوا ۔۔
خوشبخت کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔۔وہ بُت بنا یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔ اُس خفیہ کمرے کا دروازہ اس قدر مشاقی سے بنایا گیا تھا کے کوئی غور سے بھی نظریں جما کر دیکھے تو بھی اس خفیہ کمرہ نما تجوری کے دروازہ کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔
سلطانہ اُس خفیہ دروازے سے اندر داخل ہونے لگی تو اُس نے مڑ کر خوشبخت کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔
جیسے ہی خوشبخت اُس کمرہ نُما تجوری میں داخل ہوا تو اُس پہ حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔ کمرے کے تین اطراف میں سٹیل کا مضبوط ریک لگا ہوا تھا جس میں ہیرے اور جواہرات بھرے پڑے آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے۔۔جنکی کی مالیت کروڑوں میں تھی اور مزید ریک کے ہر خانے میں ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی لباس بھی زیورات و جوہرات کے میچنگ رنگوں کیساتھ مزین کیا ہوا تھا۔۔ اور ان ملبوسات کے کے ساتھ ساتھ اُن کے میچنگ شوز اور میک اَپ کا سامان ترتیب سے رکھا ہوا تھا۔۔
سلطانہ ایک ایک چیز کو دکھانے لگی کہ یہ فلاں ملک سے آیا وہ فلاں ملک سے آیا۔۔خوشبخت خاموشی سے سب سُنتا رہا۔۔
یہ آپ مجھے کیوں دکھانا چاہتی ہیں۔۔۔میں رشوت نہیں لیتا۔۔۔جب وہ خاموش ہوئی تو خوش بخت گِل اپنی حیرت کا چھپاتے ہوئے استہزایہ لہجے میں بولا۔۔
بچپن سے جانتی ہوں۔۔ وہ اُداس مسکُراہٹ کے ساتھ بولی۔۔
مجھے یاد ہے کہ جب بھی بچپن میں، میں کوئی شرارت کرتی تو آپ ابا کو ضرور بتاتے تھے۔۔ چاہے میں کتنی چاکلیٹ لا دیتی یا کھلونے۔۔وہ بات ابا کو ضرور پتا چل جاتی تھی۔۔
خوشبخت کچھ لحظوں کے لئے اُن بچپن کی میٹھی یادوں میں کھو گیا۔۔پھر جلدی سنبھل کر سخت لہجے میں بولا۔۔
آپ غالبن کچھ دکھانا چاہتی تھیں۔۔ مجھے آپ کی امارت دیکھنے کا کوئی شوق نہیں ہے اور نہ مجھے ان چیزوں سے مرعوب کیا جا سکتا ہے۔۔اگر کوئی میرے مطلب کی شے ہے تو دکھا دیں ۔۔اس طرح فضول میں میرا وقت ضائع نہ کریں۔۔
ہممم۔۔ سلطانہ نے ہنکارہ بھرا اور پھر ایک ریک میں سے ایک موٹی سی فائل نکالی۔۔اور خوشبخت کی طرف بڑھا دی۔۔
کیا ہے یہ۔۔ خوشبخت ناگوار لہجے میں بولا۔۔
آپ کو پڑھنا نہیں آتا تو میں سنا دوں۔۔وہ بھی جوابن طنزیہ لہجے میں منہ بناتے ہوئے بولی۔۔
خوشبخت نے خشمگیں نظروں سے اُسے گھورا اور فائل اُسکے ہاتھوں سے تھام کر پڑھنا شروع کر دی ۔۔
جوں جوں وہ فائل پڑھتا گیا حیرت سے اُسکی آنکھیں پھیلتی گئیں۔عارف بلاشبہ نہایت رئیس آدمی تھاجسکی امارات کا تخمینہ کروڑوں ڈالر تھا۔۔اُس فائل میں اُسکی بڑی بڑی کمپنیوں کے نام و مقام ہیڈ آفس کا اندراج تھا اور سرمائے کی تفصیلات بھی درج تھیں۔لیکن اسکے علاوہ جو بات چونکا دینے والی تھی وہ یہ کہ سلطانہ، عارف کے تمام اثاثوں کی 50 فیصد کی مالک تھی۔۔ جو کروڑوں ڈالر مالیت کے تھے اور عارف نے اُسکو شادی کے کچھ ہی دنوں بعد اپنا سب کچھ سونپ دیا تھا۔۔
خوشبخت نے پڑھ کر فائل واپس کر دی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ڈرائینگ روم چلا گیا۔۔
کچھ دیر بعد سلطانہ ڈرائینگ روم پہنچ گئی۔۔
اُمید ہے آپکو آپکے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔۔
سلطانہ نے ہولے سے مُسکُراتے ہوئے کہا۔۔مگر اُسکی مُسکراہٹ میں چھپی حزن و ملال کی داستان با آسانی پڑھی جا سکتی تھی۔۔
خوشبخت دل مسوس کر کے رہ گیا۔۔
کیا اب بھی آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اتنی دولت بھی کم تھی تو ہو سکتا ہے میں نے زیادہ کے لالچ میں عارف کو قتل کروا دیا۔۔؟
سلطانہ کی آواز رندھ گئی۔۔
اُسکی نیلگوں آنکھوں سے 2 موتی نکل کے رخساروں پر بہہ گئے۔۔
خوشبخت کا دل چاہا کے اُسے سینے سے لگا لے۔۔اور ان آنسوؤں کو پی جائے مگر بمشکل اُس نے خود کو سنبھالا۔۔
گو وہ اُس سے خاصی نفرت کرتا تھا۔۔ سلطانہ نے بڑی بے رحمی سے اُسے ٹھکرایا کہ بچپن کی معصوم محبت اور دوستی کا ایک پل تک اُسے یاد رہا مگر وہ صبر کر گیا اوراُس نے سلطانہ سے شدید نفرت کا رشتہ استوار کر لیا تھا مگر آج اُسے اِس حالت میں دیکھ کر وہ معصوم محبت جو راکھ کا ڈھیر بن چکی تھی اُس میں ہلکی سے چنگاری سُلگ اُٹھی تھی۔۔
اُس نے لمحے بھر میں خود کو قابو کیا اور بوجھل لہجے میں بولا۔۔
حوصلہ رکھیں مسز عارف۔۔آپکے شوہر کے قاتل کو میں چاہے وہ پاتال کی گہرائیوں میں بھی چھپا ہوا تو وہاں سے بھی نکال کر آپکے قدموں میں لا کر پھینکوں گا۔۔
یہ وعدہ کرتا ہوں آپ سے۔۔
مزید آپ اپنی سیکیورٹی کا خاطرخواہ انتظام کریں۔آپکی جان کو بھی خطرہ ہے۔۔۔ میں نے دو اہلکار سادہ کپڑوں میں آپکی کوٹھی کے اردگرد تیعنات کر دیئے ہیں۔جو چوبیس گھنٹے آپکی اور آپکے گھر کی نگرانی کریں گےاور ہر مشکوک آنے جانے والے پر نظر رکھیں گے۔۔۔عارف کے بعد ہو سکتا ہے آپکے دشمن آپکو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کریں۔۔آپ کو ہر لمحہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔۔مزید کسی بھی قسم کا کوئی معاملہ ہو آپ مجھ سے ڈائیریکٹ میرے فون نمبر پہ رابطہ کر سکتیں ہیں۔۔خوشبخت نے اپنا کارڈ ٹیبل پہ رکھا اور اُسکا کندھا تھپتھپاتا چلا گیا۔۔
جیسے ہی وہ باہر نکلا۔۔آنسوؤں کا غبار جو سلطانہ کے حلق میں پھنس گیا تھا نکلنے لگا۔۔۔وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔۔۔اُس کا محبوب شوہر جس نے اپنا سب کچھ اُس پہ نچھاور کر دیا تھا اتنی جلدی ساتھ چھوڑ جائیگا اُس نے سوچا بھی نہ تھا۔۔
وہ رہ رہ کر خدا سے صبر کی دعا کرتی مگر قرار نہیں مل پا رہا تھا۔۔
اچانک دروازے پہ دستک ہوئی تو سلطانہ نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا اور جلدی سے اپنے دونوں ہاتھوں سے آنسو پونچھ لئے۔۔
دروازے پہ عارف کا پرسنل سیکرٹری مرزا مروت خان کھڑا اجازت طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔
کم اِن۔۔ سلطانہ نے اجازت دے دی اُسے اندر آنے کی۔۔
اُس نے صلام کیا جسکا جواب سلطانہ نے سر کی ہلکی سی جنبش سے دیا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔
کیسے آنا ہوا خان صاحب۔۔۔سلطانہ نے پوچھا۔۔
مرزا نے کھنکھار کے گلا صاف کیا اور بولا۔۔
میڈم آپ جانتی ہیں کہ صاحب سے گزشتہ دس سالوں سے منسلک تھا۔۔
اور اُن کا میرے ساتھ رشتہ باس کا نہیں بلکہ دوستی کا تھا۔۔
میں جانتی ہوں خان صاحب کہ آپ عارف کے بہت قریب تھے۔۔آپ سے مشورہ کئے بغیر وہ کبھی کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے۔۔ اور عارف ایمپائر کی وسعت اور ترقی میں بلاشبہ آپکا بھی اہم کردار ہے۔۔ آپ بے فکر رہیں آپکو جو چایئے آپکو ملے گا اور اور ہر ممکن تعاون آپ سے کیا جائے گا۔۔۔۔۔سلطانہ نے گھمبیر لہجے میں کہا۔۔
بہت شکریہ آپکی حوصلہ افزائی اور خلوص کا۔۔لیکن میڈم میں کچھ لینے نہیں آیا۔۔ میں عارف صاحب کی زندگی سے جڑے کچھ حقائق آپکے گوش و گزار کرنا چاہتا ہوں۔۔جو ایک بہت بڑا بوجھ ہیں مجھ پہ اور اس بوجھ کو آپ پہ آشکار کر کے ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔۔
مرزا خان ٹھہری ہوئی آواز میں بولا۔۔
جی بتائیں۔۔عارف کے ذکر پہ سلطانہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور متجسس نگاہوں سے خان کو دیکھنے لگی۔۔
میڈم زرا دل تھام کر سُنیئے گا۔۔جو کچھ آپ کو میں بتانے لگا ہوں ہو سکتا ہے آپکی طبعیت پہ گراں گُزرے ۔۔یا ہو سکتا ہے آپ میری بات کا یقین ہی نہ کریں۔۔لیکن میں اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر ناچاہتے ہوئے بھی آپکو بتانے پر مجبور ہوں۔۔خان نظریں نیچی کر کے بولتا گیا۔۔
سلطانہ کا دل اُسکی بات سُن زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔
کیا بات ہے خان صاحب جلدی بتائیں پہیلیاں نہ بجھوائیں۔۔وہ پہلو بدل کر بے چین لہجے میں بولی۔۔
مرزا خان نے ایک سرد آہ بھری اور بات شروع کر دی۔۔
جوں جوں وہ بات کرتا گیا سلطانہ کا چہرہ زرد ہوتا گیا۔۔۔
اُسکی آنکھیں حیرت اور بے یقینی سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔اُسے لگا جیسے اُسکے کان بند ہو گئے ہوں اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا ہو جسکی سیاہی مسلسل اُسکی آنکھوں میں پھیل رہی ہو۔۔
یکبارگی اُس کے آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ لہرا کے کٹےہوئے شہتیر کی مانند صوفے پہ ڈھے گئی۔۔
خان بوکھلا کر اپنی نشست سے اُٹھا اور اُس کے گال تھپتھپا کر اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔۔میڈم اُٹھیں ہوش میں آئیں۔۔ خان نے پکارا مگر بے سود۔۔اُس سلطانہ کو سیدھا صوفے پہ لٹایا اور جلدی سے ڈاکٹر کو فون کیا اور ایمرجینسی عارف ہاؤس آنے کا کہا۔۔
وہ جانتا تھا کہ اِس طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہو سکتا تھا۔۔لیکن وہ خود کو اور اپنے ضمیر کو ہر حال میں مطمئن کرنا چاہتا تھا جو دن رات اُسکے وجود پہ کچوکے لگا رہا تھا۔۔اُس سے رہا نہ گیا اور آج اُس نے اپنے سینے میں دبے راز کو افشاں کر دیا۔۔جس کو سُن کر سلطانہ کو شاک لگا اور وہ بے ہوش ہو گئی۔۔ خان اپنی نشست پہ ڈھے گیا اور ڈاکڑ کا انتظار کرنے لگا۔۔۔

آج چوتھا دن تھا۔میں مناہل کی گود میں سر رکھے ہوئے تھا اور وہ بہت پیار سے میرے بالوں میں اپنے ہاتھ کی کنگھی کر رہی تھی۔۔۔میں اور مناہل گزشتہ دو دن سے دو جسم یک جان کی عملی تصویر بنے ہوئے تھے۔۔مناہل بلاشبہ بہت پیار کرنے والی بیوی ثابت ہوئی تھی۔جس نے خلوصِ دل سے میرے ساتھ تمام عُمر ساتھ ساتھ چلنے کے وعدے کئے اور ان وعدوں کو نبھانے کا عزم کیا۔۔اُسے اب مجھ سے کوئی جھجھک نہیں رہی تھی اور ہماری کھلم کھلا ہر موضوع پہ گفتُ شنید ہو رہی تھی ۔۔مناہل بہت باتونی تھی۔۔اپنے سکول و کالج کی سہیلیوں کے قصے کہانیاں اور بیتے لمحے سنا سنا کر مجھے بہت ہنسا رہی تھی۔۔اُسکی معصوم باتیں کانوں کو بہت بھلی لگ رہی تھیں۔۔ جی چاہ رہا تھا کے وہ یونہی میرے کانوں میں رس گھولتی رہے اور میں سنتا رہوں۔۔بات کرتے کرتے وہ چپ ہوئی تو اچانک میں نے اُسکا سر جھکا کر اُس کے سرخ ہونٹوں کو اپنے منہ میں بھر لیا۔۔اور چوسنے لگا۔۔
اُسکی گرم سانسوں کی پھوار میرے چہرے سے ٹکرا کر پورے جسم میں سرایت کر رہی تھی۔۔کچھ دیر یونہی میں نے اُس کے نازک لبوں سے پھوٹتی چاشنی سمیٹتا رہا پھر اُسے اپنے ہونٹوں کی قید سے آزاد کر دیا۔۔
آہہہہہ۔۔آووہہہہ۔۔اُس نے دو گہرے گہرے سانس لئے اور خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔اوہ گاڈ۔۔۔ غزن ۔آپ تو جان نکال لیتے ہیں میری۔۔وہ ٹوٹتی سانسوں سے میرے کندھے پہ دھپ رسید کرتے ہوئے بولی۔۔اُسکا سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا ۔۔اُس کی اُوپر نیچے ہلتی چھاتیاں ایک ہیجان خیز منظر پیش کر رہی تھیں۔۔میرا لن پھر سے انگڑائیاں لیتا اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔جان کیا کر دیا ایسا میں نے؟؟
میں نے معصومیت سے کہا۔۔
بس کریں زیادہ انجان بننے کی ضرورت نہیں ہے۔۔وہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔۔
اچنک اُسکی نظر ٹراوزر میں تیر کی طرح سیدھا کھڑے میرے لن پر پڑی تو بے اختیار وہ چیخ پڑی۔۔
توبہ ہے آپ سے تو غزن۔۔کتنا جلدی ایکسائٹڈ ہو جاتے ہیں ۔ابھی تو چوتھا دن ہے میرا تو یہ حال کر دیا ۔۔ساری زندگی کا ساتھ ابھی باقی ہے تو میرا کیا بنے گا۔۔
وہ روہانسی ہو کر بولی۔۔
کیا ناشکری عورتوں کی طرح رو رہی ہو۔۔تمہیں تو خوش ہونا چاہیئے کہ تمہارا میاں اتنا پیار کرتا ہے تم سے کہ تمہاری ایک ادا پہ ایکسائٹڈ ہو کر پیار کے اس سمندر میں ہر وقت غوطہ ذن ہونے کے لئے تیار رہتا ہے۔۔
میں نے شریر لہجے میں اُسکی گو د سے سر نکال کر سیدھا بیٹھتے ہوئے کہا۔
رہنے دیں۔۔کچھ تو رحم کریں سمندر پہ۔۔کیوں اُس کی وسعت کو چیلنج کر کے دنیا میں اُسکی ساکھ کو خراب کرنے پہ تلے ہیں۔۔
اگر زمانے میں اُسکی گہرائی کا تھوڑا بھرم ہے وہ قائم رہنے دیں پروفیسر صاحب۔۔میں جانتی ہوں سمندر اس سرکش طوفانی لہروں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔۔وہ میری ناک پہ چٹکی کاٹ کر میٹھے لہجے میں بولی۔۔
واہ رے،،میری جان تو بڑی گہری گہری باتیں کرتی ہے۔۔میں نے دل سے اُسکی تعریف کرتے ہوئے کہا۔۔
اب ایک پروفیسر سے پالا پڑا گیا ہے۔۔کچھ تو پلے پڑا ہو گا نہ۔۔وہ اپنے لہجے پہ زور دیتے ہوئے بولی۔۔
جان یہ تو کچھ بھی نہیں۔۔جب لگاتار اس سمندر میں ڈبکیاں کھاؤ گی اور ان سرکش طوفانی لہروں کا سامناکرتی رہو گی تو بہت گہرا بولنے لگو گی۔۔میں نے شریر لہجے میں کہتے ہوئے اُسے خود سے لپٹا لیا اور اُسکی گردن پہ ہونٹ رکھ دئے۔۔اُس نے زور آزمائی کی مگر میری گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گئی۔۔اور گہرے گہرے سانس چھوڑ کر خود کو میرے حوالے کر دیا۔۔
میں چند لمحے اُسکے لبوں کی حرارت اپنے لبوں میں منتقل کرتا رہا پھر اسکی قمیض اتار ری۔۔
اُس نے برا نہیں پہنا ہوا تھا۔۔بلکہ میں نے پہننے کی مہلت ہی نہیں دی تھی ۔۔جیسے ہی قمیص اُتاری اُسکی چھاتیاں چھلکتی ڈگمگاتی میرے حواسوں پہ چھا جانے کے لئے باہر نکل آئیں۔۔
میں نے اُسے چت لٹایا اور اُسکی ایک چھاتی کے اُبھار کو اپنے لبوں میں بھر لیا اور چوسنے لگا۔۔مناہل گہرے گہرے سانس لے رہی تھی ۔۔اُسکا چہرے کا رنگ یکبارگی انار کے دانے طرح سُرخ ہو گیا تھا جیسے ابھی پھٹ کر سارا میٹھا رس چھلکا دے گا۔ ۔۔۔میں نے اُسکے اُبھار کو اپنے دانتوں میں بھر کے ہلکا سا کاٹا ۔۔سسسسسسس۔۔مناہل کی سسکاری نکلی ۔۔پھر میں اپنی زبان اُسکی چھاتیوں پہ پھیرنے لگا۔۔۔میرے زبان کے لیس سے اُسکی چھاتیاں چمکنے لگیں تھیں۔۔
اچانک ڈور بیل بجی۔۔میں چونک گیا۔۔اور سیدھا بیٹھ گیا۔۔اس بے وقت کس نے گھنٹی بجا دی۔۔میں نے کوفت سے سوچا۔۔
میں نے دروازا نہ کھولنے کا فیصلہ کیا ۔۔جو بھی ہوگا بیل بجا بجا کر چلا جائیگا۔۔
لیکن افسوس۔۔دروازے پہ کھڑا موصوف خاصا ڈھیٹ قسم کا بندہ تھا۔اُس نے شاید تیہہ کر لیا تھا کے دروازا کھلوا کر ہی دم لے گا۔۔۔اُس نے بیل پہ ہاتھ رکھ دیا۔۔گھنٹی مسلسل بجنے لگی۔۔یہ تھا کھڑے لن پہ دھوکہ۔۔۔
میرا منہ بن گیا۔۔
آ رہا ہوں۔۔میں نے اونچی آواز میں کہا۔۔
تب گھنٹی بند ہو گئی۔۔
میں نے مناہل کی طرف دیکھا تو اُسکی یکدم ہنسی چھوٹ گئی۔۔وہ کھلکھلا کے ہنس پڑی۔۔شکل دیکھیں اپنی غزن۔۔۔وہ میرے چہرے کی طرف اشارہ کر کے بولی۔۔ہاہاہاہاہاہا۔۔۔
جاؤ شاباش۔۔چلو بھاگو اب یہاں سے۔۔وہ مجھے دھکا دیتے ہوئے بولی۔۔
علی رضا ہی ہوگاایسا مرگی کا دورا اُس کے سوا کسی کو نہیں پڑتا۔۔۔۔میں نے اپنے اکلوتے دوست کا نام لیتے ہوئے دانت کچکاتے ہوئے کہا۔۔ اور خود کا حلیہ ٹھیک کرنے لگا۔۔
اس دوران مناہل نے قمیض پہنی اور ایک بڑی سی چادر اوڑھ لی۔۔
میں نے دروازا کھولا تو حسبِ توقع علی رضا کو براجمان پایا۔۔
جو شعلہ بار نگاہوں سے مجھے گھور رہا تھا۔۔
اس سے پہلے میں کچھ بولتا وہ پھٹ پڑا۔۔
اب بھی کیوں کھولا دروازا۔۔
جاؤ 2 گھنٹے اور لگا لو میں یہی بیٹھا ہوں۔وہ دروازے میں داخل ہوتے ہوئے مجھے شرمندہ کرتے ہوئے بولا۔۔
یار میں سو رہا تھا۔۔
میں نے بھی ڈھٹائی سے دروازا بند کرتے ہوئے کہا۔۔
وہ تو لگ رہا ہے کہ کون سو رہا تھا اور کون جاگ رہا ہے۔۔
وہ میرے ٹراؤزر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا جس میں میرا لن اب بھی تھوڑی اکڑ میں کھڑا تھا۔۔
بڑی گندی نظر ہے تیری۔۔ میں نے اُسے گلے لگانا چاہا مگر وہ بوکھلا کر دور ہٹ گیا۔۔
دور دور۔۔دفع دور۔۔اس نے مجھے جھٹک کر کہا اور بوکھلا کر پیچھے ہٹ گیا۔۔
جب تو جاگ جایئگا اور تیرا یہ سو گا تبھی گلے ملوں گا۔۔وہ آنکھیں دکھاتے ہوئے میری پینٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔
چل اب یہ فضول کی بکواس بند کر کہیں تیری بھابھی نا سُن لے۔۔اہک تو اچھی بھلی نیند سے جگا دیا ور اب اُلٹا کوتوال بن کر مجھے ڈانٹ رہا ہے۔۔
میں نے مصنوعی ناراضگی سے کہا اور اپنی ٹانگیں جوڑ کر اپنے لن کو تھوڑا دبا دیا۔۔
ہم کمرے میں داخل ہو گئے۔۔
اس دوران مناہل نے کمرے کی اچھی طرح سیٹنگ کر دی تھی۔۔
خیر صلام دعا کے بعد مناہل چائے بنا کر لے آئی۔۔ہم چسکیاں لیتے ہوئے سیاسی حالات پہ گفتگو کر رہے تھے۔۔
باتیں کرتے کرتے علی رضا مناہل سے مخاطب ہوا ۔۔
بھابھی جی آپکے میاں سے تو بات کرنا ہی فضول ہے۔۔کیوں کہ جب خدا عقل بانٹ رہا تھا یہ موصوف کہیں اور مصروفِ عمل تھے۔۔اور ساتھ ہی مجھے مناہل سے آنکھ بچا کر واضح اشارہ بھی دے دیا کے میں کہاں مصروف تھا۔۔
کمینے کوئی نہ۔۔جب مجھے موقع ملا تو ایک ایک بات کا حساب لوں گا۔۔میں نے اُسے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا۔۔
چل چل کام کر اپنا۔۔وہ بھی آنکھوں کی زبانی مجھ سے گویا رہا۔۔
ہی ہی ہی۔۔وہ کیسے بھائی صاحب۔۔مناہل ہنستے ہوئے گویا ہوئی۔۔۔اور میری طرف مسکُراتی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔۔
وہ ایسے کے ان صاحب کا شادی والے دن وعدہ تھا کے اگلے دن یہ حضرت ڈنر میرے گھر میں تناول فرمائیں مگر آج چوتھا دن ہے میں اور ماہا(اسکی بیوی) گزشتہ تین راتوں سے حضورِ والا کا انتظار کر کے اپنی چشم سُکھا رہے ہیں کہ کب حضرت ہمارے گھر میں پدھارنے کا شرف بخش کر ہمارے دیدار شوق کی تسکین کرتے ہیں ۔۔مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان کے حصے کا کھانا بھی گزشتہ تین راتوں سے ہمیں خود ہی تناول فرمانا پڑتا ہے۔۔۔اور تو اور جناب نے فون بھی نہیں سنا میرا۔۔۔۔میرے کسی میسیج کا رپلائی دینا بھی گوارا نہیں کیا۔۔
علی کا چنگاریاں اُگلتا ہوا بولا۔۔
مناہل نے خفگی سے میری طرف نگاہیں ترچھی کر کے دیکھا۔۔
میں نے غور سے اُسکی آنکھوں کی گہرایئوں کو ماپا۔۔
تمہیں کیسے بتاؤں جاناں کے تمہاری گداز قربت کے دلنشین پہلووں میں مدغم ہو کر میں ساری دنیا کو بھول جاتا ہوں۔۔میں نے آنکھوں کی زبانی کہا تو وہ سر جھکا گئی۔۔
یار آپکی بھابھی کے ماموں کے ہاں دعوت تھی تو دو دن وہیں لگ گئے۔۔
میں نے ہوائی فائر کیا۔۔
مناہل نے چونک کر میری طرف دیکھا ۔۔میں نے بدستور اپنی نظریں علی کی طرف مرکوز رکھیں۔۔اور اپنے چہرے پہ آنے والے تاثرات کو چھپا لیا۔۔
اچھااااااااااا۔۔۔علی اچھا کو لمبا کھینچتے ہوئے معنی خیز لہجے میں بولا۔۔
کون سا ماموں۔۔
سمن آباد یار۔۔میں نے بدستور سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔
مناہل اس دوران منہ پہ ہاتھ رکھ کے میرے سفید جھوٹ پہ ہلکا سا مسکرا رہی تھی۔۔۔
لیکن وہ علی تھا۔۔ میری باتیں تو وہ فورن پکڑ لیا کرتا تھا۔۔لیکن آج مناہل کے خیال سے وہ چُپ تھا۔۔
چلو ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں۔۔لیکن اگر شام کو تو بھابھی کو لیکر نہ آیا تو پھر میں بیوی بچوں سمیت ادھر ہی آ جاؤنگا اور پھر سمن آبا والے مامون بھی تجھے نہیں بچا پائیں گے۔۔
وہ مصنوعی خفگی میں بولتا ہوا نطروں ہی نظروں میں مجھے بہت کچھ جتاتا ہوا باہر کو ہو لیا۔۔
میں اُسے دروازے تک چھوڑنے آیا۔۔۔
جب وہ اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگا تو بولا۔۔
دیکھو جانی۔۔بھابھی کا تو نے سمن آباد والا ماموں بنا لیا۔۔مگر اب خدا کا واسطہ مجھے ماموں نہ بنانا۔۔
شام کو لازمی آ جانا۔۔ایسا نہ ہو کے ہمیں سمن آباد آنا پڑ جائے۔۔وہ دانت نکوستے ہوئے بولا۔۔
میں نے فضا میں اُسے مُکا دکھایا تو وہ کھکھلاتا ہوا چلا گیا۔۔
میں دروازا بند کر کے کیا اور کمرے میں پہنچ گیا۔۔
مناہل کمرے کی مزید سفائی ستھرائی میں مصروف تھی۔۔
میں نے پیچھے سے جا کر اُسے دبوچ لیا اور ہم پھر سے ہواؤں میں اُڑنے لگے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شام کو ہم بہت سارے تحائف کے ساتھ لدے پھدے ماڈل ٹاؤن میں علی رضا کی عالیشان کوٹھی پہ پہنچے۔۔
علی رضا اور ماہا بھابھی نے بہ نفس نفیس ہمارا اسقبال کیا۔علی پر تپاک انداز میں میرے گلے لگا۔۔ہاں اب گلے ملنے میں کوئی مضائقہ نہیں وہ دوپہر کی بات دہراتے ہوئے بولا تو میں نے ہنستے ہوئے ایک زور کی دھپ اُسکی پیٹھ پہ رسید کی۔او کمینے کتنا بھاری ہاتھ ہے تیرا وہ ایکٹنگ کرتے ہوئے اپنی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولا،۔۔خیر وہ ہمیں اندر لے کر آئے۔۔ ماہا بھابھی بہت خوش شکل اور زندہ دل خاتون تھیں۔۔ مناہل کو دیکھ کر وہ بہت زیادہ پرجوش ہو گیئں۔مناہل کی تعریف میں انھوں نے کسی قسم کا بغض یا کنجوسی نہیں دکھائی۔۔رہ رہ کر وہ مناہل کو اپنے ساتھ چمٹا لیتیں اور ڈھیروں دعائیں دیتیں ۔۔
اُن کا تین سالہ پیارا سا بیٹا حمزہ علی بھی مناہل سے گھل مل گیا تھا۔۔
ڈنر بہت پرتکلف اور شاندار تھا۔۔
کھانے کے بعد ہم نے چائے کی چسکیاں لیں اور ڈھیر ساری باتیں کرتے رہے۔۔
رات کے اگیارہ بجے ہم گھر پہنچے۔۔اور آتے ہی بستر پہ ڈھے کر سو گئے۔۔
صبح میری آنکھ کھلی تو انگڑائیاں لیتا اُٹھ کھڑا ہوا۔۔
مناہل بستر پہ نہیں تھی۔۔
واش روم بھی خالی میرا منہ چڑا رہا تھا۔۔میں بھاگ کر کمرے سے باہر نکلا اور کچن میں جھانا تو وہ بھی کسی نفس کی موجودگی سے عاری تھا۔۔
میرے وجود میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں۔۔اور دل زوروں سے دھک دھک کرنے لگا۔۔
کہاں چلی گئی مناہل۔۔
میں نے پریشانی کے عالم میں سوچا۔۔
زلفی والے سانحے کے بعد مناہل کبھی بھی گھر سے باہر نہیں گئی تھی۔۔اُس نے اپنی شناخت کے حوالے سے وہ بہت ڈری ہوئی تھی۔اُس نے سارے زمانے سے خود کو چھپایا ہوا تھا اور میرے گھر میں خود کو مقید کر رکھا تھا۔۔باہرصرف علی اور ماہا ہی اُسکی زات سے واقف تھے۔۔تو اُن پہ تو گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ اس راز کو افشاں کریں گے۔۔۔
میں ککچن سے نکل کر کمرے میں داخل ہوا اور غور سے کمرے کو دیکھنا شروع کر دیا۔۔
کمرے کی حالت ویسی ہی تھی جیسی رات ہم چھوڑ کر سوئے تھے۔۔
اچانک میرے موبائل کی بیل بجی۔۔میں نے موبائل کی طرف دیکھا تو چونک کر ایک جھٹکے سے اُٹھ کھڑا ہوا۔۔
موبائل کے نیچے ایک تہہ کیا گیا کاغذ تھا۔۔
میں نے موبائل فون پہ آنے والی کال کٹ کر دی اور کاغذ کھول کر پڑھنا شروع کر دیا۔۔
جوں جوں میں پڑھتا گیا مجھے اپنے دماغ میں دھماکے ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔مجھے ایسا لگا جیسے میرا کلیجہ منہ کو آ رہا ہو۔۔
مجھے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آ رہا تھا کہ میری دنیا لُٹ چکی ہے۔۔

رہ اپنے کمرے میں گزشتہ دس دنوں سے گوشہ نشیں تھی۔۔۔بڑی مشکل سے ڈاکٹر برہان لغاری جو سکندر کے اچھے دوست بھی ہیں اُسے غشی کے دوروں سے نکالنے اور ہوش میں لانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ستارہ ڈاکٹر برہان کی بہت عزت کرتی تھی۔۔اُس نے سسکیوں اور آہوں میں خود پہ بیتے تمام حالات کی دردناک کہانی سُنائی۔۔ڈاکٹر برہان یہ لرزہ خیز داستان سن کر انتہائی رنجیدہ ہوئے۔ستارہ اُن کو بچپن سے ہی پسند تھی۔۔اور وہ اُسے اپنے اکلوتے بیٹے آیان لغاری جو بزاتِ خود ڈاکٹر تھا کیلئے پسند کرتے تھے۔۔خوبصورتی اور ذہانت میں یکتا ستارہ اُن کے بیٹے کے معیار پہ پورا اترتی تھی۔مگر آج خود اُنکا دل پاش پاش ہو گیا تھا۔۔مگر اس کے باوجود بھی وہ اپنے دل کی بات پہ کاربند تھے۔۔ اُن کا دل بار بار کہہ رہا تھا کے ستارہ پھولوں کی طرح پاک و صاف ہے۔۔اس بھیانک حادثہ میں وہ بے قصور ہے۔اور اُسے پورا حق ہے کسی بھی عزت دار لڑکی کی طرح اپنی لائف کو خوشیوں سے بھر کے جینے کا۔اور انھیں پورا یقین تھا کے اُنکا بیٹا آیان بھی اس بات کو سمجھتے ہوئے ستارہ کو اُن کی بہو بناتے ہوئے کوئی تعرض نہ کرے گا۔۔انھوں نے ستارہ کو ڈھیروں تسلیاں دی اور احساس دلایا کے اُسکی روح اب بھی پاکیزگی اور طہارت سے لبریز ہے اور جب وہ اپنی اذدواجی زندگی شروع کرے گی تو یہ معاشرتی حیوانوں کا یہ زخم جو اس کے وجود پہ لگا دیا گیا تھا جلد یا بدیر بھر جائیگا۔۔اُنھوں نے ایک نفسیاتی لیکچر اُسے دیا اور ایک نیند کا انجیکشن لگا دیا۔۔جس سے وہ ہوش و ہواس سے بے خبر سو گئی
ستارہ کو سلانے کے بعد برہان لغاری نم آنکھوں سے کمرے سے بایر نکلے اور ہال میں آ گئے جہاں سکندر بچوں کی طرح سسکیاں لے لے کر رو رہا تھا۔ اُنھیں ایسا لگا جیسے اُنکا دل کسی نے مٹھی میں بھینچ لیا ہو۔۔ سکندر کی یہ حالت دیکھ کر اُن کے آنکھیں نم ہو گئیں تھیں۔گو کہ ڈاکٹر برہان ایک سخت مزاج طبعیت کے حامل تھے مگر اپنی جان اور پیاری بیٹی کے ساتھ پیش آئے اس دلسوز واقعہ نے ان کے اعصاب پہ بھی گہرا اثر ڈالا تھا۔۔اُنکی آنکھیں بھی نم ہو گئیں جس کو انھوں نے ہاتھ سے صاف کیا اور سکندر کی پیٹھ تھپتھپائی۔۔
سکندر ہچکیاں لے لے کر رو رہے تھے۔۔اپنی پیٹھ پہ لمس محسوس کر کے انھوں نے سر اُٹھایا تو برہان کو کھڑا پایا۔۔
سکندر سسک کے اُٹھے اور اُن کے گلے لگ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔۔
یہ میری غلطیوں کا ثمر ہے برہان۔۔وہ روتے ہوئے بولے۔۔میرے گناہوں کی سزا میری بے قصور بیٹی بھگت رہی ہے۔۔۔کاش یہ دن دیکھنے سے پہلے میں مر جاتا۔۔وہ ندامت سے دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے بولے۔۔آنسوؤں سے اُنکی ریش تر ہو چکی تھی۔۔اور کچھ آنسو برہان صاحب کی شرٹ بھگو رہے تھے۔۔
حوصلہ رکھ سکندر۔۔ڈاکٹر برہان کپکپاتے لہجے میں بولے۔۔یہ تقدیر کا ہیر پھیر ہے۔۔خدا پہ بھروسہ رکھ۔۔سب ٹھیک ہو جائیگا۔۔
کافی دیر تک برہان،سکندر کو سینے سے لگائے تسلیاں دیتے رہے تب جا کر سکندر کی ہچکیاں بند ہوئیں۔۔اُسے حوصلے رکھنے کا کہتے ہوئے برہان لغاری چلے گئے۔۔
یہ سیدھا زنابالجبر اور اغوا کا پولیس کیس تھا مگر کوئی اندازا نہیں تھا کہ اس طرح کی گھناؤنی حرکت کے پیچھے کس کا ہاتھ کارفرما تھا۔۔ سکندر ایک جہاندیدہ آدمی تھا۔۔وہ خوب جانتا تھا کے پولیس کے چکر میں پڑنا سراسر نادانی ہے۔۔یہ معاملہ
سلجھنے کی بجائے پیچیدہ ہو کر مزید بدنامی کا باعث بنے گا۔۔انصاف اس معاشرے میں ناپید تھا ۔تو اس طرح کی سرگرمی صرف دھکے کھانے اور عدالتوں کے بے سروپا چکر لگانے کے سوا کچھ نہ تھی۔۔ڈاکٹر برہان نے بھی اُسے یہی مشورا دیا تھا کہ پولیس وغیرہ کے چکر سے دور رہا جائے۔۔مزید وہ جلد اس چیز کا کوئی حل نکال لیں گے اور اس بات کا چھپا رہنا ہی بہتر ہے۔۔
دن گزرتے گئے۔۔ستارہ ایک کمرے میں ہی بند رہی۔۔اُسے کھانے پینے کا کوئ ہوش نہ تھا اور نہ سونے کی فکر۔گلاب کی پتیوں مانند کھلتا چہرہ جس پر سرخی کی ملائم چادر ڈیرہ ڈالے رہتی تھی پژمردہ ہو چکا تھا۔۔کبھی کندھاری اناروں جیسے دمکتے گال اب پچک کر موسمِ خزاں کی اُجڑی داستان رقم کر رہے تھے۔۔کالی بدلی جیسے لہراتے بالوں کی گھٹا ٹوپ چمک معدوم ہو چکی تھی۔ ۔رہ رہ کر اُسے جنون چڑھ جاتا اور وہ خود کو کاٹنے نوچنے لگتی۔۔جس سے جا بجا اُس کے بدن پر زخموں کے نشان پڑ گئے تھے جن سے خون رستا رہتا تھا۔۔مگر اُسے کوئی پرواہ نہ تھی۔۔۔اُسے اپنے وجود سے گھن آ رہی تھی۔۔اُسکاجی چاہ رہا تھا کے اپنے وجود کےٹکڑے ٹکڑے کر دے جو چند دنوں میں پرایا ہو گیا تھا۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن نفس ہے جو ہر لمحہ انسان کو پستی کی راہوں میں دھکیل کر خوار کرنے کے در پہ ہوتا ہے۔۔اور جب کسی انساں کی چٹانی خود ارادی سے شکستِ فاش کھاتا ہے تو اپنے ازلی رفیق شیطان کی مدد لیتا ہے جو اپنی مکارانہ چالوں سے انسان کی انسان سے مدبھیڑ کروا کر گمراہی کا سیاہ باب رقم کرتا ہے۔۔لیکن یہ حقیقت میں اُسکی جھنجھلاہٹ ہوتی ہے جو اُسکی مکاری اور شیطانی چالوں کو انسان سے ملتی مسلسل شکست و ریخت کی وجہ سے ہوتی ہے جس کا غصہ وہ کسی کو پامال کروا کر یا برباد کر کے نکالتا ہے اور اپنے رفیق امارا کی تسکین کرتا ہے۔۔مگر اُس بندے کی مسلسل خدا کے حضور گڑگڑاہٹ پر تلملا اُٹھتا ہے اور مزید اُس کے گرد شکنجے کسنے کی جہت میں جُت جاتا ہے۔۔مگر وہ بھول جاتا ہے کہ ایک اور بھی ہستی ہے جسکی ایک چال اُسکی تمام چالوں پہ بھاری ہے۔۔
سکندر نے ابھی تک ستارہ کا سامنا نہیں کیا تھا۔اُس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اپنی پھول سی بچی کا سامنا کرنے کی۔۔وہ روز ارادا کرتے مگر اُن کے قدم ستارہ کے کمرے کے سامنے جاتے ہی ڈگمگا جاتے اور وہ اُلٹے قدموں لوٹ آتے ۔وہ تبھی اُس کے کمرے میں جاکر آنسو بہا آتے جب وہ انجیکشن کے زیر اثر سو رہی ہوتی۔۔۔ڈاکٹر برہان روز برابر آ رہے تھے۔ وہ ستارہ کا چیک اپ باقعدگی کرتے اور اُسے ہر ممکن طریقے سے تسلی دے کر نفسیاتی طور پہ اس سانحے سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔۔
بالاآخر ان کی کوششیں رنگ لے آئیں۔۔ستارہ نے اس بھیانک حادثے مشیت ایزدی سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔۔اب اُسکی حالت سنبھلتی جا رہی تھی۔۔جنون اور پاگل پن کی جو کیفیات جو اسُ پہ طاری ہوتی تھیں رفتہ رفتہ اُس نے ان پہ قابو پا لیا۔اور یہ سب ڈاکٹر برہان کی حد درجہ شفقت اور اُن کے پروفیشنلزم کا شاخسانہ تھا۔ ۔
آج وہ اتنے دنوں بعد وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی اور آئیستہ آئیستہ چلتی سیڑھیاں چڑھتی ٹیرس پہ آ گئی۔۔ شام کا وقت ہونے والا تھا۔۔سورج کا دم نکلنے والا تھا اور شام کی سیاہی پھیلنے والی تھی۔۔سورج کی معدوم ہوتی کرنیں اُس کو پنے وجود پہ بھلی لگ رہی تھیں۔۔ ۔وہ گہری گہری سانسیں لے کر تازہ ہوا اپنے پھیپھڑوں میں کھینچنے لگی۔۔اس وقت اُسکا دماغ ہر احساس اور جزبات سے عاری تھا۔۔وہ خالی الزہن اپنے وجود کو تازہ کر رہی تھی۔۔
کافی دیرر تک سانسوں کی اس مشق کے بعد وہ نیچے آئی۔۔
سیڑھیاں اُتر کر جیسے ہی وہ ہال میں آئی تو سکندر کو صوفے پہ محو استراحت پایا۔۔اُس نے غور سے اپنے بابا کو دیکھا۔۔
اُن کے چہرے پہ زردی چھائی ہوئی تھی۔۔آنکھوں تلے سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔۔یوں لگ رہا تھا جیسے برسوں کے بیمار ہوں۔۔ستارہ کا دل بھر گیا۔۔کوشش کے باوجود بھی وہ خود کو نہ روک پائی اور سسک پڑی۔۔سکندر صاحب اُسکے سسکی بھرنے سے ہڑبڑا کے اُٹھ بیٹھے تو خود کے سامنے ستارہ کو کھڑے ہوئے پایا جو نم آنکھیں لئے ٹکر ٹکر انھیں دیکھ رہی تھی۔۔
پہلے تو انھیں اپنی آنکھوں پہ یقین ہی نہ آیا کہ ان کی گڑیا بھلی چنگی ان کے سامنے کھڑی ہے۔۔مگر یہ حقیقت تھی جس کا ادراک چند لحظوں میں انھیں ہو گیا۔۔وہ تڑپ کر اُٹھے اور اپنی گڑیا کو اپنے سینے سے بھینچ کر لگا دیا۔۔ستارہ کی آنکھیں چھلک پڑیں جس میں جوق در جوق موتی چھلکنے لگے۔۔سکندر صاحب معصوم بچوں کی مانندرو رو کر اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں اور غلطیوں پہ خداوندکریم سے معافی مانگ رہے تھے۔۔ستارہ نے اپنا منہ اُن کے سینے میں چھپا لیا اور سسک سسک کے رونے لگی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ماہ گزر چکا تھا۔۔ گھر میں اکیلے پن اور تنہائی نے کاٹ کھانا شروع کر دیا تو ستارہ نے پھر سے دفتر جوائن کر لیا۔۔
سارا دن اور ساری رات وہ دفتری کاموں میں خود کو مصروف رکھتی اور اس ہولناک سانحے کو بھلانے کی کوشش کرتی مگر یہ زخم اتنا گہرا تھا کے وقت کا مرحم بھی نہ بھر سکتا تھا۔۔ آبرو لُٹ جانے کا صدمہ اُسے اندر ہی اندر کھوکھلا کئے جا رہا تھا۔۔آج بلقیس بیگم حیات ہوتیں تو شاید ستارہ کی حالت دگرگوں نہ ہوتی۔۔لیکن ستارہ کا نسیم بیگم کا اتنا ہی ساتھ کاتبِ تقدیر نے کاغذ کے پنوں پہ لکھا تھا۔۔نسیم بیگم ایک مضبوط ستون تھا ۔۔اور اس ستون کی آڑ میں ستارہ دنیا کے ہر سرد و گرم تھپیڑوں سے محفوظ تھی مگر اس ستون کے ڈھے جانے کے بعد مقدر کا ستارہ بھی ستارہ سے روٹھ گیا تھا۔۔پے در پے ستارہ مشکلات کا شکار ہو رہی تھی۔انھی آنسوؤں اور سسکیوں میں دو سال گزر گئے۔۔۔پھر وہ قیامت ٹوٹ گئی جس نے غموں و الم کے سارے دردناک سانحوں کا مات دے دی۔۔ستارہ کے واقعہ نے سکندر صاحب کو دل کا مریض کر دیا تھا۔۔۔دن بدن وہ ڈپریشن کا شکار ہو کر انتہائی لاغر ہو گئے تھے۔۔ان کا دل چیخ چیخ کر خود اس سانحہ کا مرکزی ملزم قرار دے رہا تھا۔۔بالآخر خود سے لڑتے لڑتے وہ شکست کھا گئے۔۔ ان کے قلب نے آخری ہچکی لی اور نسیم بیگم کپہلو جا سئے۔۔
مسلسل دل چھلنی کرنے والے غموں۔عصمت دری اور محرومیوں نے ستارہ کو ایک سنگلاخ چٹان بنا دیا تھا۔۔یہ غمناک سانحہ بھی اس نے اپنے دل پہ سہہ لیا۔۔
دن گزرتے رہے۔اور وہ اپنی دھن میں مگن کام کام اور بس کام کرتی رہی۔۔
سکندر کے داغِ مفارقت دینے کے کچھ دنوں بعد برہان لغاری بھی آئے تھے آیان کا رشتہ لیکر۔۔مگر ستارہ نے بغیر لگی لپٹی رکھے کورا جواب دے دیا۔۔جس پر وہ مایوس ہو کر چلے گئے تھے۔۔گو ستارہ کو بھی ان کو اس طرح منع کرنے پہ دُکھ ہوا تھا۔۔انھوں نے ستارہ کی جب وہ اُس حادثے کا شکار ہوئی تھی بہت غمگساری کی تھی۔ ایک باپ کی طرح انھوں نے ستارہ کا خیال رکھا تھا اور بہترین علاج کر کے اُس حادثے کے ذہنی صدمے سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے،،مگر ستارہ اپنی طبعیت کے ہاتھوں مجبور ہو گئی تھی۔۔۔وہ اچھی طرح جانتی تھی کے اب وہ آیان جیسے کسی بھی اچھے اور خاندانی آدمی کے قابل نہیں۔۔اُس کی عصمت کو جس بے رحمی سے پامال کیا گیا تھا اُس کا وجود کرچی کرچی ہو گیا تھا۔۔گو اُس کا کوئی قصور نہیں تھا ۔۔وہ یہ بھی جانتی تھی کہ آیان اُسے ساری زندگی کوئی طعنہ نہیں دے گا۔۔مگر نفسیاتی طور پہ اُسے مردوں سے شدید نفرت ہو گئی تھی۔۔ اُس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ کسی مرد کو بھی اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنائے گی۔۔۔
برہان لغاری کے مسلسل اصرار پر بھی اُس نے آیان سے شادی کی حامی نہ بھری۔۔اُسکی خالہ شاہین بھی حد درجہ کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔۔۔اب گھر میں وہ اور اُسکے نانا کی چھوٹی بہن اُسکے ساتھ تھیں۔۔سکینہ نانو گوری چٹی پچپن سالہ خاتون تھیں۔۔انتہائی تیز طرار،بیباک اور ذہین و فطین خاتون تھیں جس کی وجہ سے ستارہ کافی ریلیکس ہو گئی تھی۔۔گھر کا سارا انتظام اب اُن کے ہاتھ میں تھا۔۔جسے وہ خوش اسلوبی سے چلا رہی تھیں۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج ہاف ڈے تھا اور دس بجے کمپنی کے نئے چیف آف ایگزیگٹو نے میٹنگ رکھی تھی۔۔تو آج سارا سٹاف ضرورت سے زیادہ مستعد تھا۔۔یہ میٹنگ کمپنی کی سالانہ رپورٹ کے حوالے سے رکھی گئی تھی۔۔ستارہ کا کیبن الگ تھلگ تھا۔۔اور وہ اپنی رِٹن پریزنٹیشن تیار کر رہی تھی۔۔ پریزنٹیشن تیار کرنے کے بعد وہ مینیجر سے او کے کروانے کی غرض سے کیبن سے باہر نکلی تو یکلخت ایک بھاری بھرکم وجود سے ٹکرا گئی اور گرنے ہی والی تھی کہ آنے والے نے بڑی پھرتی سے اُس کو سنبھال لیا۔۔اُس کا ہاتھ ستارہ کی ایک چھاتی پہ پڑا جو دب گئی۔۔
لیکن یہ سب دو سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ہوا۔۔اُس نے ستارہ کو سنبھالا اور سیدھا کھڑا کر دیا۔۔آئی ایم سوری۔۔ستارہ نے خجالت سے کہا۔شرم سے اُسکا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔۔۔درحقیقت غلطی بھی اُسکی ہی تھی بے دھیانی اور جلدی میں وہ اُن سے ٹکرا گئی۔۔۔۔اٹس او کے۔۔ٹکرانے والے نے مسکُرا کر جواب دیا ۔۔یہ ستارہ کے باس تھے جو کبھی کبھار ہی آفس کا چکر لگاتے تھے۔۔ورنہ تو زیادہ تر بیرون ملک ہی انکا آنا جانا لگا رہتا تھا۔۔
ستارہ سے کبھی بھی ان کی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔۔بس وہ آتے برانچ مینیجر سے کاروباری معاملات ڈسکس کر کے چلے جاتے تھے۔۔
ستارہ کی جیسے ہی اُن پہ نظر پڑی وہ حواس باختہ ہو گئی۔۔میٹنگ تو دس بجے ہے اور ابھی تو ساڑھے نو ہوئے تھے۔۔یہ کہاں سے آن ٹپکے۔۔ستارہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوچا۔۔وہ بت بنی کھڑی تھی۔۔ہیلو مس ستارہ۔۔وہ چٹکی بجا کے بولے تو نے ستارہ ہوش میں ائی اور بولی ۔۔جج جی سر۔۔
آپکی فائل کے سارے کاغذات بکھر گئے ہیں اُٹھا لیں۔۔
وہ مسکرا کے بولے اور چلے گئے۔۔
ستارہ نے جلدی جلدی کاغذات اُٹھانے شروع کر دیئے۔۔
اچانک اُس کے دماغ کی گھنٹی بجی۔۔اُور اُسکا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔دل کی دھڑکن بتدریج بڑھتی گئی۔۔جیسے سینہ شق کر کے باہر نکل آئے گا۔۔۔جوں جوں وہ اس پہلو پہ سوچتی گئی اُس کا وجود سُن ہوتا گیا۔۔
اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے اُسکے جسم سے خون کا قطرہ تک نچوڑ لیا گیا ہو۔۔اُسکی آنکھیں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔۔اُس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر اُسکے وجود نے اُسکا ساتھ نہ دیا۔۔وہ لہرا کے کٹے ہوئے شہتیر کی طرح زمیں بوس ہوگئی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوازدین عرف دینو آج بہت اُداس تھا۔۔ایک گہری گھمبیرتا اُسکے مرجھائے ہوئے چہرے پہ چھائی ہوئی تھی۔۔وجہ اُسکی جان سے پیاری معشوکہ نیلم تھی۔۔نیلم حسن و جمال میں یکتا تھی۔۔ اُسکا آتشں افروز حسن من میں ہل چل مچا دیتا تھا۔۔نیلم مشہور معروف شہلا بائی کی بیٹی تھی۔جس کے حسن کے چرچے شہر کے ہر دولت مند عیاش سیٹھوں اور ساہوکاروں کی زبان پہ تھے۔۔۔بڑے بڑے سیٹھ اُس کے دروازے پہ پابوسی کرتے نظر آتے۔۔جن میں دینو بھی تھا۔دینو کو پہلی بار اُسکا ایک ساتھی مشہور و معروف شہلا بائی کے کوٹھے پہ لے گیا۔وہاں دینو نے اُسکی ماہجمال اور حسین بیٹی نیلم کو دیکھا۔۔۔ دینو ایک پیشہ ور ٹھگ اور چور تھا۔۔لیکن خود کو چھپائے رکھنے کی خاطر وہ ایک بڑے زمیندار کے ہاں ڈرائیور تھا جسکے بچے شہر کی مختلف جامعات میں زیر تعلیم تھے۔۔اوردینو کا کام انکو پک اینڈ ڈراپ کا تھا۔دینو کے چند سنگی بھی تھے۔۔لیکن ان سے میل ملاپ صرف خاص وقت اور خاص جگہ پہ ہی ہو پاتا تھا جب کسی جگہ تگڑا ہاتھ مارنا ہو۔۔دینو انکا لیڈر تھا اور بلا کا ذہین و فطین۔۔۔اُسکے دماغ میں ہر وقت بجلی کوندتی رہتی جس میں ہر وقت شیطانی منصوبے پنپتے رہتے۔۔کہتے ہیں ٹھگ کی روزی پہلے آسمان پہ ہوتی ہے اس کہاوت کا عملی نمونہ دینو تھا۔۔ کوئی نہ کوئی شکار اُس کے آڑے آ ہی جاتا۔۔جسے وہ حلال کر کے وہ شہلا بائی کے کوٹھے جاتا اور اُسکی بیٹی نیلم کے تھرکتے اور مستی میں جھومتے انگ انگ پہ نچھاور کر دیتا۔۔دینو بھرپور مردانہ وجاہت کا شہکار تھا۔۔چہرے پہ زہانت ٹپکتی رہتی تھی۔۔ گفت شنید میں وہ کمال تھا۔۔صیح موقع پہ صیح الفاظ کا استعمال کرنا اُسے بخوبی آتا تھا۔۔اُسے دیکھ کر کوئی اندازا نہیں لگا سکتا تھا کہ ایسا مرد چور بھہ ہو سکتا ہے۔۔۔شہلا بائی اور حواری اُسے چوہدری نواز دین کے نام سے جانتے تھے۔۔اُس کی شہرت ایک تگڑے اور عیاش زمیندار کی تھی ۔۔کلف لگے لٹھے کے سوٹ اور ریشمی سیاہ چادر میں جب دینو کے قدم شہلا بائی کے کوٹھے پہ پڑتے تو چھوٹے موٹے شوقینوں کو بھگا دیا جاتا۔۔تکئے لگا دئے جاتے اور خدام ہر وقت چوہدری نواز دین کی خدمت پہ کمر بستہ رہتے جس کا انعام انھیں خوب ملتا۔۔نیلم کا نئے سرے سے بناؤ سنگھار کیا جاتا اور اُسے خوشبوؤں میں نہلایا جاتا۔۔پھر وہ حوروش ماہ جبیں اپنی کومل سندرتا لئے جلوہ گر ہوتی۔۔
کلاسیکی ساز لگایا جاتا اور اُس کا انگ انگ تھرکنا شروع کر دیتا۔۔یہ رقصِ ابلیس دیکھ کر دینو اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جاتا۔۔ہر تھاپ پہ تھرکتے اُس کے بدن پہ دینو نوٹوں کی پھلجھڑیاں لگا دیتا۔۔دینو کی مردانہ وجاہت پہ نیلم بھی بری طرح مر مٹی تھی۔۔وہ اُسکا ہر ہفتے انتظار کرتی۔۔اور جب اُسے دینو کے آنے کی بھنک پڑتی تو خوشی کی ایک لہر اُس کے بدن میں دوڑ جاتی۔۔اور اس کے انگ انگ میں شرارے دوڑنے لگتے۔۔وہ خوب بناؤ سنگھار کرتی اور خوشبوؤں سے اپنے مرمریں بدن کو مہکتا گلاب بنا دیتی۔۔اس صندلی خوشبو کی تمازت سے دینو جھلس کے رہ جاتا۔۔
رفتہ رفتہ دینو اور نیلم ایک دوسرے کے قریب آتے گئے۔۔نیلم کا اب رقص میں کوئی لگاؤ نہ تھا۔۔اب وہ دینو کے ساتھ شریفانہ زندگی گزارنے کی خواہش مند تھی۔۔اُسکا دل شدت سے ایک گھر کی خواہش کرنے لگا تھا جس میں اُسکی اپنی حکومت ہو ۔۔جس میں وہ اپنے بچوں اور اپنے جسم و جان کے مالک کے ساتھ ہنسی خوشی رہے۔۔شہلا بائی کی تجربہ کار نگاہوں نے نیلم میں آئی یہ تبدیلی بھانپ لی تھی۔۔وہ نیلم پہ پہلے سے زیادہ سختی کرنے لگی مگر نیلم پہ کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔بلکہ اس نے شہلا بائی کو برملا کہہ دیا تھا کہ اب وہ مزید یہ ذلت بھری زندگی نہیں جی سکتی۔۔وہ اور نواز دین ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور وہ اپنی زندگی اُس کے ساتھ گزارنے کی خواہش مند ہے۔۔مگر شہلا بائی ہنوز اُسکی برین واشنگ کرتی رہتی۔۔۔اب تو سیٹھ بھی شکایت کرنے لگے تھے کہ نیلم کے رقص میں پہلے جیسی کوئی بات نہیں رہ گئی اور نہ ہی اُسکا سر اور تال پہ دھیان ہوتا ہے۔۔۔۔کوٹھے پہ آئستہ آئیستہ ویرانی نے ڈیرے جمانے شروع کر دیئے تھے جس کا شہلا بائی کو شدید قلق تھا۔۔وہ دن رات دینو جیسے موزی کیڑے سے نجات پانے کی تراکیب سوچتی مگر اس معاملے میں اسکا دماغ ماؤف ہو جاتا۔۔پھر ایک دن قدرت نے یہ نادر موقع اُسے فراہم کر دیا۔۔خادم نے آ کر اطلاع دی کہ چوہدری نواز دین آئے ہیں۔۔اور آپکو یاد فرما رہے ہیں۔۔
آج جمعہ کا دن تھا۔۔اور اس دن رقص و سرود کی محفل کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا تھا۔۔یہ دن آرام کرنے کا ہوتا تھا۔۔
ٹھیک ہے تم انھے بٹھاؤ اور اُن کے لئے چائے پانی کا انتظام کرو۔۔ میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔۔شہلا بائی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔۔خادم سر جھکا کر چلا گیا۔۔
ادھر دینو نیلم کے مسلسل اصرار پر آج شہلا بائی سے اُسکا ہاتھ مانگنے کے واسطے آیا تھا۔۔۔
وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ شہلا انتہائی گھاگ عورت ہے۔۔جو زمانے کی اونچ نیچ اچھی طرح سمجھتی ہے۔۔نیلم تو اُس کے ساتھ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے واسطے بھی تیار تھی مگر دینو جانتا تھا کہ اُسکی پہنچ بہت دور تک ہے۔۔وہ میڈیا میں بیٹھے لوگوں اور سیٹھوں سے اپنے تعلق کا بھرپور فائدہ اُٹھائے گی اور کو تل دھرنے کی کوئی جگہ نہ ملے گی۔اُلٹا پولیس والے مار مار کر اُسکی چمڑی اُدھیڑ دینگے اُس سے ایسےجرائم کا اقبال بھی کروئیں گے جو اُس نے کبھی کیا بھی نہ ہو گا۔۔۔تو وہ اب باقعدہ شہلا بائی کو راضی کر کے نیلم سے بیاہ رچاناچاہتا تھا۔۔
کچھ لمحوں بعد شہلا بائی کھٹ کھٹ کرتی کمرے میں داخل ہوئی۔دینو اُسکو دیکھ کر چئیر سے کھڑا ہو گیا۔۔حسبِ معمول اُسکے لبوں پہ مصنوعی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔۔ماشاء۔۔۔۔۔چوہدری صاحب آئے ہیں۔۔وہ نقلی خوشگوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کی پیٹھ پہ دستِ شفقت رکھتے ہوئے بولی۔۔
جی بس ادھر سے گزر رہا تھا تو سوچا آپ کی زیارت کرتا چلوں۔۔دینو بھی چہرے پہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولا۔۔
بہت اچھا کیا چوہدری صاحب۔۔وہ دینو کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود بھی ساتھ پڑے پلنگ پہ بیٹھ گئی۔۔
اور چوہدری صاحب کیا خدمت کریں آپکی۔۔شہلا بائی نے ایک گہری نظر اُس پہ ڈالتے پوچھا۔۔
بس کچھ نہیں۔۔کوئی تکلف نہ کیجیئے گا۔۔دینو ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔۔
چند لمحوں کے لئے کمرے میں خاموشی چھا گئی۔۔دونوں فریق اپنے اپنے الفاظ مجتمع کرنے لگے۔۔
پھر کچھ دیر بعد دینو گلا کھنکھار کر بولا۔۔
آج آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے؟؟
ہاں ہاں کریں چوہدری صاحب۔۔شہلا بائی چمک کی بولیں۔۔
کچھ پل کے لئے دینو خاموش ہو گیا۔۔پھر ہچکچاتے ہوئے بولا۔۔
دراصل میں آپ سے آپکی جان کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔۔وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔۔
شہلا بائی پہ یہ الفاظ بجلی بن کر گرے۔۔اُس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔۔مگر اُس نے کمالِ مہارت سے خود پہ قابو پا لیا۔
چند لمحے یونہی خاموشی چھائی رہی۔۔دینو بدستور نظریں شہلا بائی پہ مرکوز کئے اس کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔تھوڑی دیر بعد شہلا بائی کے لبوں کا قفل کھل گیا اور وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔ چوہدری صاحب یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ آپ کو ہماری بیٹی پسند آگئی ہے۔۔لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جو آپ چاہتے ہیں وہ ہو نہیں سکتا۔۔
میں جانتی ہوں نیلم بھی آپ کو پسند کرتی ہے۔۔لیکن یہ الابالی عمر ہے اُسکی۔۔اور اس عمر میں دل لگی ہو جانا عام سی بات ہے۔۔۔۔اس عمر کی لڑکیاں دماغ سے نہیں دل سے سوچتی ہیں اور نہ ہی انکو اپنے برے بھلے کی کوئی تمیز نہیں ہوتی ہے۔۔لیکن چوہدری صاھب آپ تو خاصے سمجھدار انسان ہیں ۔۔مت بھولیں کے وہ ایک طوئف کی بیٹی ہے۔۔جس کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔۔طوائف صرف دل لبھانے کی چیز ہے۔۔دل میں گھر کرنے کی نہیں۔۔معاشرے کی نظروں میں اُس سے شادی کرنے کے بعد آپکی کوئی وقعت نہیں رہے گی۔۔یہ فیصلہ آپکے خاندانی وقار کی شان کے منانی ہے۔۔لوگوں کی جلی کٹی باتیں اور نیلم کی حد سے زیادہ ہوتی بے توقیری آپ کو پچھتاوے کے سوا کچھ نہ دے گی۔۔میری مانیں تو نیلم کی اس بچگانی ھرکت کا اثر اپنے دل پہ نہ لیں اور اس معاملے کو جتنا جلدی ہو سکتا ہے ختم کرنے کی کوشش کریں۔۔
شہلا بائی کا طرزِ تخاطب کمال تھا۔۔اور اُس نے بڑی شائیستگی سے اپنے ارادوں کا پتا دینو کو دے دیا تھا۔۔
دینو غور سے اُسکی باتیں سن کر ایک ایک لفظ زہن نشیں کر رہا تھا۔۔
جب وہ بول چکی تو وہ گویا ہوا۔۔
شہلا بائی بلاشبہ آپکی تمام باتیں درست ہیں۔۔آپ نے بجا فرمایا کہ طوائف سے عقد معاشرتی اعتبار سے بہت سی پیچیدگیوں کا مرکب بنے گا۔۔لوگ چہ مگوئیاں کریں گے اور ہو سکتا ہے اُسکی بے توقیری کرنے کی کوشش کریں۔۔مگر اتنا میں بتا دوں ۔۔ایک طوائف کی بے توقیری معاشرہ کر سکتا ہے۔۔لیکن ایک بیوی کی نہیں۔۔
یہ کہہ کر وہ چند لحظے خاموش ہوا ۔۔اس دوران شہلا بائی تیزی سے رنگ بدلتے اُسکے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔۔
کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ پھر گویا ہوا۔۔
جہاں تک عزت کی بات ہے تو معاشرے نے ہر فرد کے کچھ حقوق مقرر کئے ہیں۔۔ہر فرد کو عزت سے زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔۔ہر انسان پہلے ان
میں اس وقت تھانے بیٹھا اپنے ساتھ بیتی اس غمناک سانحے پہ آٹھ آٹھ آنسو بہا رہا تھا۔۔مناہل کی جدائی کے دلسوز واقعہ نے مجھے میں نڈھال کر دیا تھا۔۔
مناہل میری متاع حیات تھی۔۔اور چند دنوں میں ہم دونوں ایک دوسرے سے ڈھیروں محبت کرنے لگے تھے۔۔ہمیشہ ساتھ رہنے کی قسمیں کھانے والی مناہل جس نے مجھ سے محبت کی انتہا کر دی تھی اُس سے اس طرح جفا کی توقع کبھی بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔۔میرا شک اُسکے سوتیلے باپ اظہر اور زلفی پہ تھا۔۔
ہو سکتا تھا مناہل کی بھنک انھیں مل گئی ہو اور وہ باقعدہ منظم کاروائی کر کے اُسے اغوا کر کے لے گئے ہوں۔۔
مجھے یہ بھی شبہ تھا کہ کسی نشیلی شے کے اثر نے مجھے انٹاغفیل رکھا تھا جس سے میں اپنے مقررہ وقت سے کئی گھنٹہ بعد میں نیند سے بیدار ہوا تھا۔اس کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں تھیں جو اس خدشے و درست ثابت کرتیں تھیں۔۔
مناہل کا وہ خط جو ٹیبل پہ مجھے اپنے موبائل فون کے نیچے رکھا ہوا ملا تھا۔۔اُسکا متن بھی خاصا ،مشکوک تھا۔۔خط خاصی عجلت میں لکھا گیا تھا ۔۔خط کی ہینڈ رائیٹنگ مناہل کی ہینڈ رائیٹنگ سے قطعی میل نہ کھاتی تھی۔۔
آڑھے ترچھے الفاظ پہ مشتمل یہ خط جعلی تھا۔۔جسکی عبارت یوں تھی۔۔
٭٭٭جان سے پیارے غزن٭٭
جب تک تم یہ خط پڑھو گے میں
تم سے بہت دور جا چکی ہوں گی۔
جانتی ہوں ان گنت سوال آپ کے ذہن میں اُٹھ رہے ہوں گے۔۔آپکو میرے اس یک طرفہ فیصلے سے شدید ذہنی دھچکا بھی لگے گا۔۔۔اورآپ میری کچھ باتوں کا شاید یقین بھی نہ کرو گے مجھے ڈھونڈنے کی ناکام کوشش بھی کرو مگر میں آپ کو یہ بتلا دینا چاہتی ہوں کہ میری زندگی مصائب و آلام کا منبع ہے۔۔جس پر بھی میرے وجود کی نحوست پڑی ہے وہ تباہ و برباد ہو گیا۔۔۔میں آپ سے کبھی بھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔مگر آپکی مرضی پہ سر تسلیمِ خم کرنا پڑا۔۔ ۔۔اُسکی وجہ یہ ہے کہ آپ نے میرا مشکل وقت میں اتنا خیال رکھا اور دنیا کی نظروں سے اوجھل کئے مجھے ہر بلا سے چھپائے رکھا۔۔ ۔۔مجھے اُس گھڑی پناہ دی جب میں موت سے بھاگ رہی تھی۔۔زندگی کا چراغ گل ہو چکا ہوتا کہ اور آپ اُس اندھیری رات میں روشنی کی کرن بن کر آئے اور میری جان بچائی۔۔ ۔۔آپ میرے محسن ہیں اور جو احسانات آپ نے میری زندگی پہ کئے ہیں اُن احسانات کا بدلہ میں ساری زندگی بھی نہ چکا پاؤنگی۔آپ سے شادی کا فیصلہ جذباتی تھا۔۔ جب آپ نے مجھ سے شادی کا کہا تو میں آپکی آنکھوں میں اپنے لئے بیشمار محبت اور حد درجہ خلوص کو دیکھتے ہوئے چاہنے کے باوجود بھی انکار نہ کر سکی۔۔
پھر شادی کے بعد آپ نے ڈھیروں محبت و چاہت مجھ پہ نچھاور کر دی۔میرا وجود بکھرا ہوا تھا جسے آپ کی حد درجہ محبت نے جوڑ کر مکمل کر دیا۔میں خود پہ رشک کرنے لگی تھی۔۔آپکے ساتھ نے مجھے مغرور کر دیا تھا۔۔۔اور آپکی اس بے پنا محبت کو دیکھتے ہوئے میں خود سے ڈرنے بھی لگی تھی۔ہر لمحہ کچھ برا ہونے ک دھڑکا لگا رہتا تھا۔۔۔جانتی تھی اتنا خلوص اور محبت کاتبِ تقدیر کی مہربانی سے مجھے کبھی راس نہیں آئی۔۔۔ میں آپ کو کھونا نہیں چاہتی تھی مگر ایک ایسا بوجھ میرے سینے پہ ہے جسکا بار آپ بھی نہیں اُٹھا سکتے۔۔
میری وجہ سے آپ کسی مصیبت میں مبتلا ہوں یہ میں ہر گز برداشت نہیں کر سکتی۔۔
آج اپنے وجود کو لیکر میں پمہشہ کے لئے آپ سے بہت دور جا رہی ہوں جہاں کوئی میری گرد بھی نہ پا سکے گا۔۔۔میں آپ کی مجرم ہوں۔۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میرا جرم اتنا بڑا ہے کہ آپ مجھے کبھی بھی معاف نہیںکریں گے۔۔۔لیکن اسکے باوجود میں خود کے لئے معافی کی استدعا کرتی ہوں۔۔اگر ہو سکےتو مجھے معاف کر دیجئے گا۔۔ ۔۔آپ سے محبت اور چاہت کی ڈھیر ساری سوغات لئے رخصت ہو رہی ہوں۔۔آپکی کی دی ہوئیں خوبصورت اور خوشگوار یادیں میری زندگی کے بچے کچے دن گزارنے کے لیئے کافی ہیں۔۔میں چاہ کر بھی آپکو اپنے دکھڑے نہیں سنا سکتی۔میری روح پہ جو زخم لگے ہیں وہ آپکو نہیں دکھا سکتی۔۔ مجھ آفت کی ماری کے لئے رونے دھونے اور پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔ایک نئی زندگی کی نئی صبح کا آغاز ایک نئے جیون ساتھی سے اورخود کا ڈھیر سارا خیال رکھنے سے کیجئے گا ۔اُمید ہے میری مجبوریوں کا ادراک کرتے ہویے آپ مجھ کو معاف کر دیں گے۔۔۔
فقط آپکی مجرم
مناہل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خط کو میں بار بار پڑھ کر میں خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔
دل بار بار کہہ رہا تھا کہ یہ خط نقلی نہیں ہے۔اس میں لکھے گئے تمام الفاظ مناہل کے ہیں۔مگر دماغ مسلسل انکاری تھا۔۔میں نے اپنی نم ہوتی آنکھوں کو صاف کی اور علی رضا کا انتظار کرنے لگا۔۔علی رضا کو بھی مناہل کی المناک داستان کا بخوبی پتا تھا۔۔اور جب میں نے اُسے یہ خط دکھایا اور ساری صورتِ حال سے آگاۃہ کیا تو اُسکا بھی یہی خیال تھا کہاا س خط میں بہت سارے جھول ہیں۔۔اور یہ اغوا کی کاروائی لگتی ہے۔۔لیکن ناجانے کیوں میرا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ جھوٹ نہیں ہے۔۔یہ سچ ہے۔۔میں دل ور دماغ کی اس لڑائی میں اُلجھا ہی ہوا تھا کہ قدموں کی آہٹ سنائی دی۔۔
میں نے اپنی نم ہوتی آنکھوں کو صاف کیا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔
آنے والا علی رضا تھا جسکے ساتھ ایک باوردی آفیسر بھی اندر آیا۔۔
اُس نے آتے ہی مجھ سے مصافہ کیا۔۔
اُسکے ہاتھ پتھر کی مانند سخت اور کھردرے تھے ۔۔آنکھوں سے ذہانت کی چمک مترشح تھی۔۔اُسکی عمر تیس بتیس سال کے لگ بھگ تھی۔۔اور خاصا لمبا چوڑا گھبرو جوان تھا۔۔
وہ اپنی چئیر پہ براجمان ہو گیا۔۔
علی بھی میرے ساتھ ہی چئیر پہ بیٹھ گیا۔۔
علی مجھ سے مخاطب ہو کر بولا۔۔
غزن یہ میرے بہت ہی اچھے اور قابل آفیسر خوشبخت گل ہیں۔ میرے کلاس فیلو بھی ہیں اور ان سے گھریلو تعلقات صدیوں سے ہیں جو اب بھی قائم ہیں۔۔
میں اثبات میں سر ہلایا تو وہ مزید گویا ہوا۔۔
ان کو ساری کہانی الف سے ے تک سنا دی ہے۔۔اور اب تم کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔میں ان سے وعدہ لے چکا ہوں کے وہ جلد ہی مناہل بھابھی کے اغوا کاروں کو ڈھونڈ نکالیں گے۔۔اور اُن کو کڑی سے کڑی سزا دیں گے۔۔۔
میں سر ہلا کے رہ گیا۔۔اس کے علاوہ میں اور بھی کیا سکتا تھا۔۔
کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں۔۔
ویسے تو بہت کچھ مجھے علی نے بتا دیا ہے مگر میں پھر بھی آپ کی زبانی دوبارہ سننا چاہتا ہوں اگر آپکو کوئی اعتراض نہ ہو۔۔آفیسر گل پہلی بار مجھ سسے گویا ہو۔۔
اُسکی آواز خاصی بھاری بھرکم اور اسکی شخصیت سے میل کھاتی تھی۔۔
میں نے اثبات میں سر ہلایا اور اختصار سے ساری کہانی اُسے سنا دی۔۔اس دوران وہ کئی طرح کے سوالات بھی پوچھتا رہا جس کا میں تسلی سے جواب دیتا رہا۔۔
جب وہ ساری کہانی سُن چکا تو وہ بولا۔۔
معاف کیجئے گا میں ایک دفعہ وہ خط دیکھنا چاہے ہوں۔۔یہ کھلی مداخلت ہوگی آپکی خلوت میں لیکن ہمارا کام کچھ اس طرح کا ہے کہ ہمیں ہر ذاویے اور نقطہ کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔۔
میں نے ایک نظر علی کو دیکھا تو اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔
میں نے خط اپنی جب سے نکالا اور اُس کے ہاتھ میں تھما دیا۔۔
اُس نے معزرت خواہ نظروں سے مجھے دیکھا اور خط پرھنا شروع کر دیا۔۔کافی دیر تک وہ باریکی سے خط کو پڑھتا رہا پھر شکریہ کیساتھ مجھے لوٹا دیا۔۔
میں اور علی دونوں سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔
چند لمحے وہ یونہی کچھ سوچتا رہا پھر گویا ہوا۔۔
میں زیادہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔
یہ معاملہ انتہائی نازک ہے جس میں آپکی رازداری کو مدِنظر رکھ کر اس کیس کو حل کرنا ہوگا۔۔
میں کوشش کروں گا کہ جلد سے جلد آپکو اچھی خبر سناؤں۔۔
اور مسٹر غزن میرا مجھے کم سے کم سات دن چاہیئے۔۔
میرا وعدہ ہے سات دنوں میں آپکی مسز کو میں ڈھونڈ لکالوں گا۔اب یہ آپکے ساتھ ساتھ میرا بھی مسلہ ہے۔۔آپ علی کے بھائی نما دوست ہیں تو مجھ کو بھی بھائی سمجھتے ہویئ بھروسہ رکھیں۔۔انشا۔۔۔جلد ہی کوئی نہ کوئی سراغ آپکی مسز کا مل جائیگا۔۔
آخری بات اُس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہی۔۔میں نے اس دفعہ بھی صرف سر ہلانے پہ اکتفا کیا۔۔
کیا آپ کے پاس اس وقت اُن کی کوئی تصویر ہے؟؟
جی ہاں ہے۔۔میں نے کہا۔اور اپنی جیب سے مناہل کی تصویر نکال کر دے دی۔۔۔پولیس سٹیشن آتے وقت اُسکی تصویر کا لانا میں نہیں بھولا تھا۔۔مجھے اندازا تھا اسکی ضرورت پڑے گی۔۔
اُس نے تصویر کو ایک نظر دیکھا اور اپنے ٹیبل کی دراز میں رکھ لی۔۔
میں اور علی اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس سے جانے کی اجازت طلب کی۔۔
خوشبخت گل نے ہم دونوں سے باری باری مصافہ کیا اور ہم پولیس سٹیشن کی عمارت سے باہر نکل آئے۔۔
میں نے دل ہی دل میں اوپر والے سے مناہل کو پھر سے پالینے کی درخواست کی اور بجھے دل کے ساتھ گھر کو ہو لیا۔۔
ایک نئی اُمید کیساتھ۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رات 12 بجے کا ٹائم تھا خؤشبخت اندھا دھند گاڑی بھگاتا سلطانہ کے گھر کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔۔ابھی ابھی سلطانہ نے روتے بلکتے ہوئے فون پہ اطلاع دی تھی کہ اُس کے گھر پہ نامعلوم افراد نے حملہ کر دیا ہے۔تڑاتڑ گولیاں چل رہی ہیں اُسکی جان کو شدید خطرہ لاحق ہے۔۔۔۔اور علاقے میں شدید خوف و حراس چھایا ہوا ہے۔خوشبخت یہ سن کر حواس باختہ ہو گیا اور سرپٹ دوڑتا ہوا گیراج گیا اور گاڑی نکال کر برق رفتاری سے سلطانہ کے ٹاؤن کی طرف گامزن ہو گیا۔۔خوشبخت اپنے ماتحت حسنین کو بار بار فون کر رہا تھا جنکی ڈیوٹی اُس نے سلطانہ کے گھر کے اطراف پہ نظر رکھنے اور کسی ناخوشگوار واقعے سے نپٹنے کے لئے لگائی تھی۔۔مگر حسنین کا نمبر مسلسل آف جا رہا تھا۔۔اور بدقسمتی سے دوسرے آفیسر سلیم کا نمبر اُس کے پاس محفوط نہ تھا۔وگرنہ اُسے کال کر اُدھر کا احوال جان لیتا۔۔۔وہ اندر ہی اندر سخت پیچ و تاب کھا رہا تھا۔۔اگر خدا نخواستہ سلطانہ کو کچھ ہو گیا تو حکومت ،میڈیا اور عوام سارا نزلہ اُس پہ ہی گرائے گی۔۔ سلطانہ کی حفاظت اب اُسکی زمہ داری تھی۔۔جس پہ وہ براہ راست اوپر بیٹھے حکام کو جواب دہ تھا۔۔آدھے گھنٹے میں وہ سلطانہ کے گھر کے دروازے پہنچ گیا۔۔
چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔۔کوئی ذی شعور دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔خوشبخت ادھر اُدھر احتیاط سے دیکھتے ہوئے گاڑی سے اُترا۔۔جیسے ہی وہ باہر آیا اچانک ہی کسی نامعلوم سمت سے دو افراد آن وارد ہوئے اور اُسے گھیر لیا۔۔
مگر خوشبخت کو دیکھتے ہی اُن کے تیور ڈھیلے پڑ گئے۔۔ انھوں نے سلیوٹ مارا۔۔
یہ حسنین اور سلیم تھے جو سلطانہ کے گھر کی حفاظت پہ مامور تھے۔۔
خوش بخت اُن کو دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گیا۔۔کہاں مر گئے تھے تم دونوں۔۔یہاں اتنا کچھ ہو گیا اور تم لوگوں نے مجھے کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔یہ تم لوگ کیسی ڈیوٹی کر رہے ہو ۔۔اوپر سے فون بھی بند کر رکھا ہے۔۔۔خوشبخت پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولا۔۔
کک کیا ہو گیا سر؟؟ہم تو دن رات چوکس رہتے ہیں۔۔ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جسکی اطلاع آپکو دی جاتی۔اور میرا فون چارجڈ نہیں تھا جس کی وجہ سے چال نہ ہو سکی۔۔۔ حسنین نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔
سلیم بھی خوشبخت کی بات سن کر حیرت زدہ ہو گیا۔وہ بھی حسنین کی تائید میں سر ہلا رہا تھا۔۔۔
حسنین کی بات سے خوشبخت کا ماتھا ٹھنکا۔اور وہ الجھ کر رہ گیا۔وہ دونوںمسلسل خوشبخت کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔
سر ہم ہر وقت چوکنا رہتے ہیں۔۔اس گھر میں آنے جانے والے پہ کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔۔تو جونہی ہمیں کوئی مشکوک آدمی دکھتا ہے ہم فورن اُسکو دھر لیتے ہیں۔۔اب کی بار سلیم گویا ہوا۔۔
تو وہ فائرنگ۔۔خوشبخت بولتے بولتے چپ ہو گیا۔۔تو کیا سلطانہ نے جھوٹ بولا ہے؟ وہ دل ہی دل میں سوچتے ہوئے بولا۔۔اُسکے ماتھ پہ شکنوں کا جال بن گیا۔۔۔ اُس نے ایسا کیوں کیا پھر۔۔؟؟سلیم اور حسنین کی باتوں عیاں ہو رہا تھا کہ یہاں ایسی کوئی بھی گھمسان کی جنگ نہیں ہوئی یہاں کہ تڑ تڑ گولیاں چلی ہوں اور سلطانہ کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہو۔۔اُسکا دماغ بدستور اُلجھا ہوا تھا۔۔
کونسی فائرنگ سر؟؟اب کی بار حسنین اُلجھے لہجے میں اُسکی محویت کو توڑتے ہوئے بولا۔۔
آں۔کچھ نہیں۔۔خوشبخت نے چونک کر سنبھلتے ہوئے کہا۔۔
وہ دونوں اُسکو پریشان نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔مگر کچھ بولنے کی جراءت نہ کی۔۔آخر حسنین نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔۔
سر سب ٹھیک تو ہے نہ؟؟
ہاں ہاں سب ٹھیک ہے۔۔تم لوگ جاؤ اب۔۔خوشبخت پرسوچ لہجے میں بولا۔۔
اُن دونوں نے الجھے ہوئے لہجے میں خوشبخت کو دیکھا اور بنا کوئی بات کئے اپنے چوبارے چلے گئے جہاں وہ سلطانہ کے گھر پہ نظر رکھتے تھے۔۔ان کے جانے کے بعد خوشبخت خوش بخت نے گہرا سانس لیا۔اور اپنی گاڑی کو لاک کر دیا۔۔اور دھڑکتے دل کے ساتھ سلطانہ کے محل نما بنگلے کے مین گیٹ پہ کھڑا ہو گیا۔۔وہ گو مگو کی کیفیت میں تھا کہ بیل بجائے یا نا بجائے۔۔
ابھی وہ اس کشمکش میں ہی تھا کہ سلطانہ کے نقرئی قہقہے کی آواز اُبھری۔خوشبخت کرنٹ کھا کر اچھلا۔اور بوکھلا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔۔مگر وہ کہیں بھی نظر نہ آ رہی تھی۔۔ڈرو مت خوشبخت۔۔میں اپنے کمرے میں سے بول رہی ہوں۔۔وہ خمار آلود لہجے میں بولی۔۔۔خوشبخت نے ایک گہرا سانس لیا۔۔یہ آواز گیٹ کی دیوار پہ نصب سپیکر سے آ رہی تھی۔۔
اوہ ۔۔اچھا۔۔ کیا تم مجھے سن سکتی ہو۔۔خوشبخت نے پرسکون ہوتے ہوئے کہا۔۔
ہاں سن سکتی ہوں اور دیکھ بھی سکتی ہوں۔۔
میں دروازا کھول رہی ہوں۔۔بے دھڑک اندر آ جاؤ۔۔
خوشبخت کی حیرت قابلِ دید تھی۔سلطانہ کا گھر ایک طلسم کدہ تھا جس میں بھولبھلیوں کی بھرمار تھی۔۔۔لیکن حفاظتی انتظامات قابلِ ستائیش تھے۔۔
خوشبخت کی نگاہوں میں اسلطانہ کا دلنشیں سراپا گھوم گیا۔۔وہ سنجیدگی سے اُس کے بارے میں سوچنے لگا۔۔ جو دن بدن اُسکے اعصاب پہ سوار ہوتی جا رہی تھی۔۔۔بچپن کا سوکھا معصوم گلِمحب دھیرے دھیرے کونپلیں نکال رہا تھا۔۔مگر وہ اُس کے لئے ابھی تک شجرِ ممنوعہ تھی۔۔وہ جتنا اُسکو دماغ سے جھٹکنے کی کوشش کرتا اُتنا ہی اُسکا خیال مزید تقویت پکڑتا۔۔اُس نے اپنے دل کو ٹٹولا اور اُس میں زرہ بھر نفرت دھونڈنے کی کوشش کی مگر نفرت تو کیا ناپسندیدگی کی بھی ایک ہلکی سی دھڑک نا پا سکا۔۔
دروزا اب آئیستہ آئستہ سرک رہا تھا۔۔شاید اسکا سسٹم آٹو میٹک تھا جسے کسی الیکٹرونک مشین یا کمپیوٹر سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔۔
اب اتنا کھل گیا ایک آدمی آسانی سے گزر سکتا تھا۔۔وہ بے دھڑک اندر داخل ہو گیا۔جیسے ہی وہ داخل ہوا دروازا خود بخود بند ہو گیا۔۔۔اندر داخل ہوتے ہی اُسے صلام کرنے کی آواز آئی۔۔
اُس نے چہرہ گھما کر دیکھا تو ایک گن مین اس مین گیٹ کی دیوار کے ساتھ ملحقہ ایک چھوٹے سے کمرے کے روشن دان سے جھانک رہا تھا۔اُسکی بڑی بڑی مونچھیں تھیں اور رنگ ایسا کے سیاہ کہ کولتار بھی شرما جائے۔۔۔ٹیوب لائٹ کی تیز روشنی میں اُسکے چہرے کے خدو خال بہت بھیانک لگ رہے تھے۔۔۔۔ وہ خوشبخت کو اچھے سے پہچانتا تھا۔۔حیرت کی بات تھی کہ وہ سلیم اور حسنین کافی دیر تک گیٹ کے باہر کھڑے رہے تھے مگر اس نے کوئی چوں چراں نہیں کی تھی شاید اُسے پتا چل گیا تھا کہ یہ رفیقاء کار ہیں یاپھرشاید اُسے سلطانہ کی جانب سے روک دیا گیا تھا کہ کوئی تعرض ہم سے نہ کیا جائے۔۔۔۔ خیر میں اُسکے صلام کا جواب دیتے ُس محل نما بنگلے میں داخل ہو گیا۔۔
محل بلاشبہ بہت خوبصورت تھا۔جس کی فصیلیں بہت اونچائی پہ تھیں۔جن پر جابجا خاردار تاروں کا جال بچھایا گیا تھا جس میں ہر وقت برقی رو دوڑتی رہتی تھی۔۔۔۔اگر کوئی کوشش بھی کرتا تو بھی چوری چھپے بھی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔۔محل کے اندر خوبصورت سنگِ مر مر کا کام تھا جس پر دلفریب روغن کر کے اسکی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیئے گئے تھے۔۔۔مگر اس وقت پورے محل میں مدھم روشنی کی گئی تھی جو ان پھتروں سے ٹکرا کر منعکس ہوتی ایک خوبناک طلسم کدے کا منظر پیش کر رہی تھی۔۔
وہ ان طلسمی مناظر کو اپنی آنکھوں کے کیمرے میں مقید کرتا ہوا سلطانہ کی خواب گاہ کے سامنے پہنچ گیا۔۔
وہ سلطانہ کی حرکت پہ سخت نالاں تھا۔اتنی رات کو اُس نے نے دوڑ لگوا دی۔۔۔ وہ اُسے لتاڑنے کا سوچ رہا تھا۔۔ابھی اُس نے دستک کے لئے ہاتھ بڑھانا چاہا تھا کہ
ٹک کی آواز کے ساتھ ہی سلطانہ کی خواب گاہ کا دروازا کھل گیا۔۔خوش بخت کا ہاتھ اُٹھا ہی رہ گیا۔۔پھر وہ ہچکچاتے ہوئے اندر داخل ہو گیا۔۔
جیسے ہی داخل وہ ہوا ٹھٹھک کے رک گیا۔۔اُس پہ حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔ان شرابا مناظر دیکھ کر اُسکی سٹی گم ہو گئی۔۔
کمرے میں جابجا شمع روشن کی ہوئیں تھی جس سے کمرے کا ماحول ساحرانہ لگ رہا تھا۔۔
اگر بتی کی بھینی بھینی خوشبو پوری خوابگاہ کو مہکائے ہوئے تھی۔۔لیکن اس سے بڑھ کر جو چیز خون کو گرما دینے والی تھی وہ سلطانہ کا دلکش سراپا تھا۔۔
زعفرانی رنگ کی نائٹی پہنے لات پہ لات رکھے وہ کوئی اپسرا دکھائی دے رہی تھی۔۔جوکسی منڈل سے دیوی دیوتاؤں کی عبادت و ریاضت کے بعد آج مکتی پا کر آئی ہو۔۔
باریک نائٹی سے جھانکتا اُس کا نرم و گداز جسم انگارے کی مانند دہک رہا تھا۔۔جس کی تپش خوشبخت اپنی آنکھوں پہ محسوس کر رہا تھا۔۔
بلاشبہ وہ ایک حسین ساحرہ تھی جو مدمقابل کو اپنی ساحرانہ کشش سے ساکن و جامد کر دیتی تھی۔۔
خوشبخت مسلسل اس کے وجود پہ اپنی نگاہیں مرکوز کئے ٹُکر ٹُکر اُسکے دلکش نشیب و فراز نطروں ہی نظروں میں ٹٹولے رہا تھا۔۔
باریک نائٹی سے جھانکتا اُسکا سیاہی مائل برا واضح نظر آ رہا تھا۔۔جس میں جکڑے اُس کے اُبھاروں کی سرحدیں ہلکی ہلکی نظر آ رہی تھیں۔۔سلطانہ کا رنگ بلا کا گورا تھا۔۔شمع کی ہلکی روشنی میں اُس کا وجود آگ کی مانند دہکتا دکھائی دے رہا تھا۔۔وہ ایک ایزی چئیر پہ براجمان تھی۔۔ شیشے کا انتہائی نفیس ٹیبل جس پہ واڈکا کی بوٹل رکھی ہوئی تھی۔۔اُس کے مقناطیسی ہونٹوں سے ایک نفیس گلاس جو لبِ بام تھا جڑا ہوا تھا۔۔جو وہ منہ سے لگائے غٹاغٹ پئیے جا رہی تھی۔۔خوشبخت جو اُس کو لتاڑنے اور غصے میں آیا تھا۔۔اُسکی سارا رعب و طنطلہ اور ہیکڑی چند لمحوں میں یہ حسین و گداز مناظر دیکھ کر رفو ہو چکی تھی۔۔سلطانہ کی نیلگوں آنکھوں کی پتلیوں میں لالگی چائی ہوئی تھی۔۔
بیٹھ جاؤ خوشبخت۔۔بیٹھ کر مجھے جی بھر کے دیکھتے رہنا۔۔سلطانہ نے مخمور لہجے میں کہا۔۔
خوشبخت جو اتنی محویت سے حسن کا یہ دلنشیں نظارا دیکھ رہا تھا یکدم ہوش میں آیا اور جھینپ کر ساتھ ہی پڑی چئیر پہ بیٹھ کر دل ہی دل میں کود کو سرزنش کر کے شہوانی جذبات پر قابو پانے کی کوشش کرنےلگا۔۔
سلطانہ نے ایک گہری نظر اُس پہ ڈالی اور پھر سے اپنے لئے پیگ بنانے لگی۔۔
کیسے ہیں آپ؟ پیگ بنانے کے ساتھ ساتھ اُس نے گفتگو کا آغاز کیا۔۔
میں تو ٹھیک ہوں مگر آپ اپنی اس بھونڈی حرکت کا کوئی جواز دینا پسند کریں گی ؟؟ آپکی اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ ایک پولیس والے کو جھوٹی اطلاع دے کر اُسکی دوڑیں لگوائیں اور اتنا پریشان کر دیا مجھے؟؟
خوشبخت غضیلے لہجے میں بولا۔۔ اب وہ اُس کے حسن کے جادوائی سحر سے نکل چکا تھا۔۔اب اُس کے لہجے میں پہلے جیسی سختی عود آئی تھی۔۔
سلطانہ نے جو سر جھکائےاپنے لئے پیگ بنا رہی تھی اُسکی کڑوی بات سن کر اپنا چاند سا چہرہ اوپر اُٹھایا اور اپنی نیلگوں آنکھیں ترچھی کر کے اُسے دیکھا۔۔اور بے اختیار مسکرا دی۔۔
اُسکی مسکراہٹ آگ لگانے والی تھی۔۔خوشبخت غصے سے مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔۔
بس میں دیکھنا چاہتی تھی جیسا بچپن میں رکھتے تھے کیا اب بھی تمہیں میرا ویسا ہی خیال ہے یا نہیں؟؟اس نے گلاس لبوں کو لگاتے ہوئے کہا اور ایک ہی سانس میں غٹا غٹ سارا جام چڑھا گئی۔۔
خوشبخت سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔۔وہ اُسے گھور کے رہ گیا۔۔
سلطانہ نے گلاس ٹیبل پہ رکھا اور اُسکی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولی۔۔
ہممم۔۔ویسے جرم کا ارتکب تو میں کر بیٹھی ہوں۔۔وہ ہنکارا بھرتے ہوئے شریر لہجے میں بولی۔۔
یہ لو کر لو مجھے گرفتار۔۔اور اندر کر دو۔۔۔وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں ایک ساتھ ملاتے ہوئے بولی گویا ہتھکڑی پہننے کا اشارہ کر رہی ہو۔۔اُس کی آخری بات ذومعنی تھی جسے سمجھتے ہی خوشبخت کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔۔
چلو ایم سوری نہ۔۔م م معاف کر دو۔۔اُس کے لہجے میں اب واضح لکنت تھی۔۔نہ جانے وہ کب سے پی رہی تھی۔۔نشے کے اثرات اُس پہ واضح نظر آ رہے تھے۔۔
خوشبخت اُٹھ کھڑا ہوا۔۔
آئی تھنک مجھے اب چلنا چاہیئے۔آپ بہت نشے میں ہیں آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔۔۔۔وہ اُکھڑے ہوئے لہجے میں بولا۔۔اور جانے کے لئے پر تولے ہی تھے کہ وہ اپنی نشست پر سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
پلیز مت جاؤ خوش۔۔اُس کے لہجے میں کرب اور بے بسی واضح نظر آرہی تھی۔۔
میں بہت اکیلی ہوں۔۔وہ التجا آمیز لہجے میں بولی۔۔
پلیز میرےساتھ دو گھڑیاں بِتا لو۔۔میرے دل کو سکون مل جائیگا۔۔میرا کوئی اپنا میرے ساتھ نہیں ہے۔۔ہر کوئی مجھے چھوڑ کے چلا گیا ہے۔۔یہ در و دیوار کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔۔تنہائی ایک اژدہا کی مانند منہ کھولے مجھے سموچا نگلنے کے در پہ ہے۔۔۔اب تم آ گئے ہو تو نہ جاؤ نہ۔۔میرے ساتھ باتیں کرو نا۔۔تم تم تو میرے بچپن کے دوست ہو۔۔
اُسکا سارا سراپا خوشبخت سے التجائیں کر رہا تھا۔۔اُس کے وجود سے اُٹھنے والی بھینی بھینی خوشبو جو خوشبخت کے ناک کے نتھنوں سے ٹکرا رہی تھی وہ بھی گویا اُسے جکڑ لینے کی بھرپور سعی کر رہی تھی۔۔
خوشبخت پگھل کے رہ گیا۔۔اُس نے گہرا سانس لیا اور سر کو اثبات میں ہلاتے ہوئے پھر سے چئیر پہ ڈھے گیا۔۔
سلطانہ کی آنکھوں سے خوشی کی لہریں پھوٹ پڑیں۔۔
اُسکا روم روم خوشی سے سرشار ہو گیا۔۔
وہ پھر اُسی چئیر پہ بیٹھ گئی اور دوسرے گلاس میں شراب انڈیلنے لگی۔۔
اُس میں سوڈا اُس نے مکس کیا اور اُٹھ کر گلاس خوشبخت کی جانب بڑھا دیا۔۔
خوشبخت تذبذب کا شکار تھا۔۔اُس نے کبھی بھی شراب کو ہاتھ تک نہ لگایا تھا۔اس لئے وہ لینے سے پہلے تھوڑا ہچکچایا مگر اُس نے اپنے محبوب کے ہاتھوں کا احترام ملحوظِ خاطر رکھا اور گلاس کو تھام لیا۔۔
سلطانہ کے لبوں پہ دلکش مسکراہٹ اُمڈ ائی۔۔۔وہ اُسے گلاس تھما کر دوبارہ اپنی نشست پہ ایستادہ ہوگئی۔۔
ٹیبل پہ ایک طشتری میں ڈرائی فروٹ کی بہتات تھی جس سے وہ انصاف کرنے لگی۔۔
خوشبخت گلاس سے کھیل رہا تھا مگر اُس نے ابھی تک اپنے لبوں سے نہ لگایا تھا۔۔خوش،، پی کیوں نہیں رہے۔۔سلطانہ نے اُسکی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا۔۔
آں۔۔ہاں ہاں پیتا ہوں۔۔خوشبخت گڑبڑا کے بولا اور گلاس کو اپنے منہ سے لگا لیا۔۔
جیسے ہی شراب اُسکے معدہ میں اُتری اُسے ایک زبردست ٹھسکا لگا۔۔اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے اُس کے معدہ میں کوئی تیز دھار شے اُتر گئی ہے جو اندر ہی اندر اُس کے وجود کو کاٹ رہی ہے۔۔
وہ بے اختیار کھانستا ہی گیا۔۔
سلطانہ تیزی سے اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کے پاس آئی اور اُسکی پیٹھ کو زور زور سے تھپتھپانے لگی۔۔
چند لمحوں بعد اُسکی سانس بحال ہو گئی۔۔
وہ گہرے گہرے سانس لینے لگا۔۔
سلطانہ نے پانی کی بوتل اُٹھائی اور اُس کے منہ سے لگا دی۔۔
خوشبخت غٹاغ

رات اپنے بھرپور جوبن کیساتھ تجلی ریز تھی۔چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔کڑاکے دار سردی نے اس بھیانک رات کی خوفناکی میں ہو شربا اضافہ کر دیا تھا۔لوگ اپنے گھروں میں دبکے محو استراحت تھے۔ایسے میں اچانک ایک سایہ ایک دیوار کی اوٹ سے نکلا اور بیغیر آواز پیدا کئے ایک گھر کی طرف بڑھتا گیا جو قدرے دور اور باقی گھروں سے ہٹ کر واقع تھا۔۔اس قدر سیاہی مائل اندھیرے میں بھی وہ اطمینان بیغیر کسی خوف و فکر و اندیشے سے قدم اُٹھاتا جا رہا تھا۔اُس کے قدموں میں چر مراتے پتے اس ہولناک سناٹے میں خوف بھری آواز پیدا کر رہے تھے۔۔جلد ہی وہ اپنے مطلوبہ گھر کے سامنے پہنچ گیا۔۔دروازا بند تھا۔وہ چند لمحے دروازے کے سامنے رکا پھر گھوم کر گھر کی دوسری جانب چل پڑا۔۔گھر کے چکر لگانے کے بعد وہ عقبی دیوار پھیلانگ کر گھر میں گھس گیا۔۔گو دیوار خاصی اونچائی پہ تھی مگر دیوار کیساتھ بکھری اینٹوں نے اُسکا کام آسان کر دیا تھا جسے وہ جوڑ کر با آسانی گھر میں گھس گیا۔دیوار سے چھلانگ لگا کر وہ نرم نرم گھاس پہ گرا اور کپڑے جھاڑتے ہویے اُٹھ کھڑا ہوا۔۔وہ دبے پاؤں چلتا ہوا اندر گھس گیا۔اندر اندھیرا تھا مگر دور ایک کمرے کا دروزا کھلا ہونے سے ہلکی ہلکی روشنی باہر کی جانب پڑ رہی تھی جو اندھیرے کو ختم کرنے کی ناکام سعی کررہی تھی۔۔۔اچانک اُس کو کسی کے بولنے کی آواز سنائی دی اور یکدم کوئی کمرے سے باہر نکلا۔۔سایہ نے بجلی کی سی تیزی سے حرکت کی اور ایک کھلے دروازے کے کمرے میں جا گھسا۔۔
اکبر جلدی سے میڈم کو چھوڑ کر واپس آنا۔۔ایک بھاری بھرکم آواز راہداری میں گونجی۔۔
جی صاحب جی جو حکم۔۔اب کی بار ایک منحنی سی آواز سنائی دی۔۔
اچھا جان اپنا خیال رکھنا۔جلد ہی دوبارہ ملیں گے۔۔۔وہ بھاری بھرکم آواز دوبارہ سنائی دی۔
میں انتظار کروں گی۔۔اب کی بار ایک چہکتی ہوئی نسوانی آواز گونجی۔۔
پھر اچانک قدموں کی آوازیں سنائی دی۔جو اُس کمرے کے قریب گونجتی ہوئی جس میں سایہ پنہاہ گزیں تھا معدوم ہوتی گئیں اور بالآخر ختم ہو گئیں۔۔ سایہ اب دم سادھے دیوار سے لگا کھڑا تھا۔۔اُس کا دل زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔۔پھر ایک گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی۔۔سایہ بے حس و حرکت دم سادھے سانس بھی ہولے ہولے لے رہا تھا۔۔گاڑی شاید نکل چکی تھی۔۔کیوں کہ اب آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔۔چند لمحوں بعد دوبارہ راہداری میں قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔۔سایہ نے کان لگایا اور غور سے قدموں کی چاپ کو سننے لگا۔۔آنے والا فردِ واحد ہی تھا جو سایہ کے کمرے میں جس میں وہ چھپا ہوا تھا پاس سے گزرتا چلا گیا۔۔
چند لمحوں بعد قدموں کی آواز بند ہو گئی۔۔سایے نے دروازے میں سے بہر جھانکا تو راہداری سنسان پڑی ہوئی تھی۔۔اُس نے اپنی جیب سے پسٹل نکالا اور اُس کمرے کی جانب دبے پاؤں بڑھتا گیا جس کے دروازے سے روشنی باہر جھانک رہی تھی۔۔دروازے پہ پہنچ کر وہ رک گیا۔۔دروازا تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔۔اُس نے احتیاط سے اندر جھانکا۔۔کمرہ خالی تھا۔
وہ آئیستگی سے کمرے میں داخل ہو گیا اور دروازا ہولے سے لاک کر دیا۔۔
کمرہ اتنا بڑا نہیں تھا۔۔صرف ایک سنگل بیڈ اور کچھ ضروری سامان رکھا ہوا تھا۔۔ ہیٹر کی وجہ سے کمرہ خاصا گرم تھا۔۔سایے نے بیڈ کا تکیہ ٹٹولا تو اُسے پسٹل ملا۔۔اُس نے جلدی میگزین کو گولیوں سے خالی کیا اور پسٹل دوبارہ وہیں تکیے کے نیچے رکھ دیا۔۔
اچانک واش روم سے پانی گرنے اور گنگنانے کی آوازیں آنے لگیں۔۔سائے نے چونک کر دیکھا واش روم کے دروازے کی طرف دیکھا اور دبے پاؤں دروازے کے پاس پہنچ گیا۔۔
اُس نے دروازے کے ہینڈل آیستگی سے گھما کر کھولنا چاہا مگر دروازا لاک تھا۔۔حالانکہ نہانے والے کی دانست میں گھر میں کوئی نیں تھا۔۔لیکن پھر بھی دروازا بند کرنا سمجھ سے بالاتر تھا۔۔
سائے نے آئیستگی سے کرے کے ایک کونے میں پڑا چھوٹا سا اسٹول اُٹھایا اور اُس کو دروازے پہ رکھ کر وہیں بیٹھ گیا۔۔۔۔اور اُسکا واش روم سے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔۔

تھوڑی دیر بعد اچانک واش روم کا دروازا کھلا اور بھاری بھرکم وجود گنگناتا ہوا باہر نکلا۔اُس نے اپنا ستر چھپانے کے لئے ایک ٹاول لپیٹا ہوا تھا جو اُسکی ناف سے لیکر بمشکل گھٹنوں تک آتا تھا۔۔
جیسے ہی وہ باہر نکلا دروازے پہ اسٹول پر براجمان آنکھوں تک سیاہ چادر اوڑھے وجود کو دیکھ کر ہی اُسکی زوردار چیخ نکل گئی۔۔چادر والے نقاب پوش کی گرفت چادر کے اندر اپنے پسٹل پہ مضبوط ہو گئی تھی۔۔اگر وہ ذرا سی بھی حرکت اُس کیخلاف کرتا تو وہ سیدھا اُس کے دل کا نشانہ بنتا ۔۔مگر آنے والا بلا کا پھتیلا تھا۔۔اُس نے لپک کر تکیے کے نیچے اپنا پسٹل اُٹھا لیا اور نقاب پوش کا نشانہ لیتے ہوئے بولا۔۔
کک کون ہو تم۔۔اُس کے ہاتھ میں پسٹل ہونے کے باوجود بھی وہ خاصا بدحواس ہو گیا تھا۔
نقاب پوش نے اُسکی بات کا کوئی جوانب نہ دیا۔۔وہ ہنوز اُسی انداز میں آرام سے سٹول پہ بیٹھا رہا۔۔
میں پوچھتا ہوں کون ہو تم۔اب کی بار عارف جمال نے غضیلے لہجے میں پوچھا۔۔۔پسٹل ہاتھ میں آتے ہی اُسکے لیجے میں خود اعتمادی عود آئی تھی۔۔ورنہ اس نقاب پوش کو دیکھ کر خوف سے اُسکی سانس رُک گئی۔۔
میں آخری بار پوچھ رہا ہوں۔۔بتا دو کون ہو تم۔۔ورنہ سچ میں گولی مار کر ایسی جگہ دفن کروں گا کہ ڈھونڈنے والوں کو لاش بھی نہ ملے گی۔۔عارف کرخت لہجے میں بولا۔۔
مگر نقاب پوش خاصا ڈھیٹ تھا۔۔گویا اُسکے منہ میں زبان ہی نہ تھی۔۔وہ بدستور بت بنا عارف کی دھمکیاں سن رہا تھا۔۔
عارف کا پارہ یکدم چرھ گیا۔۔اُس نے اُسکا نشانہ لے کر ٹریگر دبایا۔۔
ٹھک کی خالی آواز نکلی۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔نقاب پوش کان پھاڑ دینے والی ہنسی ہنسا۔۔
عارف کو اپنا خون رگوں میں جمتا محسوس ہوا۔۔
اس ہنسی کو وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔۔
یہ ستارہ کی ہنسی تھی۔۔جو چادر کا نقاب اپنے چہرے سے ہٹا کر اُسے شعلہ بار نگاہوں سے اُسکو گھور رہی تھی۔۔اُسکے ہاتھ میں پسٹل تھا جس پہ سائیلنسر فٹ کیا ہوا تھا۔۔
سس ستارہ تم۔۔
عارف خوف سے ہکلاتے ہوئے بولا۔۔
ہاں میں۔۔ستارہ۔۔تم تو مجھے بھول چکے ہو۔۔لیکن میں بھلا تم کو کیسے بھول سکتی ہوں عارف جمال۔۔
وہ سرد اور سفاک لہجے میں بولی تو خوف سے عارف کی گھگھی بند ہو گئی۔۔
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُس کو دیکھ رہا تھا۔۔
ستارہ کی خون اُبلتی آنکھیں اس لحظے بہت بھیانک اور خون خوار لگ رہی تھیں۔۔
عارف کو وہ ڈری سہمی اور شرمائی لجائی ستارہ یاد آ گئی ۔۔مگر اب اُسکی آنکھوں میں اُترا خون دیکھ کر عارف لرز گیا تھا۔۔
اُس نے خود کو سنبھالا اور بولا۔۔ستارہ اس طرح پسٹل لیکر تمہارے آنے کا کیا مقصد ہے۔۔وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔۔مجھے کیوں مارنا چاہتی ہو۔۔؟؟ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔۔
ٹھا۔۔سائیلنسر لگے پسٹل سے گولی نکلی اور اُسکی ران کو چھوتے ہوئے گزر گئی۔۔
آآآآآآآآآہہہہہہہہہہہہہہہہہ۔۔ایک کان کے پردے پھاڑ دینے والی چیخ عارف کے لبوں سے خارج ہوئی۔۔جس سے پورے گھر کے در و دیوار ہل گئے۔۔
اس اثنا میں ٹاول بھی گر گیا تھا وہ زمین پہ ننگا گرا درد سے بلبلاتا چلا رہا تھا۔ستاعہ نے اس بات کو جواب پسٹل کی گولی سے دیا تھا۔۔۔
چپ۔۔حرام زادے میں کہتی ہوں چپ ۔۔ورنہ اس بار گولی سینے کے آر پار کر دوں گی۔۔
ستارہ نے سفاکیت کی انتہا کرتے ہوئے اُسکے سینے کا نشانہ باندھتے ہوئے کہا۔۔
عارف یکدم خاموش ہو گیا۔۔جان جانے کے خوف نے اُسکی زبان پہ تالا لگا مگر درد اتنا شدید تھا کہ وہ اپنی کراہیں نہیں روک سکتا تھا۔۔
خوف سے اُسکی آنکھیں اُبل کر باہر آ رہی تھیں۔۔
اُس نے ٹاول اُٹھایا اور اپنے زخم کے گرد لپیٹنا چاہا مگر ستارہ نے آگے بڑھ کر اُس کے ہاتھ پہ ایک زبردست ٹھوکر ماری۔۔ٹاول اڑتا ہوا دور جا گرا۔۔
خون مسلسل بہے جا رہا تھا۔۔
ستارہ مجھے معاف کر دو۔۔وہ گھگھیا کے بولا۔۔
ہاہاہا۔۔ستارہ زہریلے انداز میں ہنسی۔۔
جانتے ہو عارف تم میں نے تمہیں کیسے پہچانا؟؟
عارف نے بمشکل سر اُٹھا کر اُسے دیکھا۔۔
تو وہ بولی۔۔
تمہارا سامنے والا دانت ہلکا سا ٹوٹا ہوا ہے۔اُس رات مجھے پامال کرتے ہوئے جب ہنس رہے تھے تو اس فرق کو میں نے مھسوس کر لیا تھا۔۔ویسے اداکار تم غضب کے ہو۔تم لہجہ بدل کر خوب بول لیتے ہو۔اور۔اپنی اصل آواز چھپانے میں تم کامیاب رہے تھے۔۔مگر افسوس اپنی ہنسی کو نہیں چھپا سکے۔۔۔
وہ اُس کے منہ پہ ٹھوکر رسید کرتے ہوئے بولی۔۔
عارف کی دردناک چیخ سے ایک بار پھر کمرہ گونج اُٹھا۔۔اُس کے ہونٹ پھٹ گئے اور اُن سے خون کا فوارا پھوٹ پڑا۔۔
چپ۔۔حرامی چپ۔۔وہ دھاڑتے ہوئے بولی تو عارف جان جانے کے خوف سے پھر اس تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے چپ ہو گیا۔۔مگر اُس کے لبوں سے کراہوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع تھا۔۔خون مسلسل اُسکی ران سے بہہ رہا تھا۔۔جس سے اُسکے چہرے کا رنگ پیلا ہوا جاتا تھا۔۔سانس لینے میں شدید دشواری ہو رہی تھی مگر وہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اپنی جان بچانے کے خوف سے درد کو دبانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔
پھر میں نے چند غنڈوں کی مدد سے تمہاری اور تمہارے گھر کی مسلسل نگرانی شروع دی۔۔وہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولی۔۔۔اس دوران میں آفس بھی برابر جاتی رہی۔۔تاکہ تم میری اُس دن کی بیہوشی سے یہ نہ سمجھ لو کہ میں نے تمہیں پہچان لیا ہے۔۔تو اُس بیہوشی کو میں نے کمزوری کا نام دیا اور اپنے کام میں منہک ہی رہی۔اوردن رات تمہاری بگرانی کروانے اور کرنے میں مگن رہی۔۔۔مگر تمہاری کوئی بھی کمزوری میرے ہاتھ نہ آ رہی تھی۔۔پھر ایک دن میرے کرائے کے غنڈوں نے مجھے وہ خوش خبری سنا دی جس کا میں بڑی شدت سے انتطار کر رہی تھی۔۔
اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان کا سب سے امیر آدمی حد درجہ عیاش ہے جو ہر رات ایک نئی سیج ایک نئی دلہن کیساتھ سجاتا ہے۔۔
انھوں نے تمہارا یہ گھر بھی تلاش کر لیا تھا جس میں تم اپنی بیوی اور سماج سے چھپ کر اپنا منہ کالا کرتے ہو۔۔
وہ زہر خند لہجے میں بولی اور اُسکے پیٹ میں ایک زوردار لات ماری۔۔
لات اتنی زوردار تھی کہ عارف دہرا ہو گیا۔۔
اُس کا چہرا تکلیف مسخ ہو رہا تھا۔۔منہ پہ خون جمنے سے اُسکی چہر بھیانک لگا تھا۔۔اُسکی زبان نے بھی اُسکا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔۔اب وہ بے انتہا درد کو محسوس تو کر رہا تھا مگر چلا نہیں سکتا تھا۔۔
پھر مجھے خبر دی گئی کہ تم یہاں صرف اپنے ایک ملازم کیساتھ قیام پذیر ہو۔۔اور یہاں تم کو شکار کرنا بہت آسان ہوگا۔ تمہاری اس خفیہ قیام گاہ کا کسی کو بھی نہیں پتا۔۔حتیٰ کے تمہارے گارڈز کو بھی نہیں۔۔تم چھپ چھپا کر رنگ رلیاں مناتے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوتی۔۔
لیکن تم نہیں جانتے میں ہر لمھہ موت بن کر تمہارا تعاقب کرتی رہی۔۔اور آج موت بن کر میں تمہارے سامنے کھڑی ہوں۔۔تم نے میری عزت کیساتھ ساتھ میرے بابا بھی مجھ سے چھین لئے ہیں۔۔تم لٹیارے ہی نہیں قاتل بھی ہو عارف جمال۔تم نے جو گھاؤ میرے وجود پہ لگئے ہیں اُس سے اُٹھتی ٹھیسوں نے مجھے آج تک نہیں سونے دیا۔۔آج تمہیں موت کے گھاٹ اُتا کر میں سکون کی نیند سوؤں گی۔تمہاری موت ہی ان زخموں کا مرہم ہے۔۔۔
ستارہ ہزیانی بکتے ہوئے بولی۔۔مگرعارف سے کوئی جواب نہ ملا۔۔
جلد ہی اُسے اندازا ہو گیا کہ وہ خود سے ہی باتیں کر رہی ہے۔۔
کمرے میں ہر جگہ خون ہی خون بکھرا پڑا تھا۔۔عارف کو شدید قسم کا زخم لگا تھا جس سے خون کا فوارا ابل پڑا تھا او بروقت نہ روکنے سے خون کا بہت ضیاع ہو چکا تھا۔۔
عارف کا جسم کپکپا رہا تھا۔وہ دھیرے دھیرے موت کی وادی کے سفر کی جانب گامزن تھا۔۔
ستارہ کے لبوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ عود آئی۔۔
کچھ ہی دیر بعد اُسکے جسم نے آخری ہچکی لی اور بالآخر موت کی ویوں میں جا سویا۔۔
ستارہ نے نفرت سے عارف کی لاش پہ تھوکا۔۔اور کمرے میں ٹہلنے لگی۔۔ایک طمانیت نھری مسکراہٹ اُس کے چہرے پہ درعود آئی تھی۔۔دل کو ٹھنڈک اور سکون کا احساس ہو رہا تھا۔۔
ٹہلتے ٹہلتے اچانک اُسکی نظر عارف کے مردہ لن پہ پڑی ۔۔
یہ دیکھتے ہی اُسکی آنکھوں میں چنگاریاں سی پھوٹ پڑی۔یہی سارے فساد کی جڑ تھا جس نے ستارہ کی روح کو گھائل کیا اور اُسے جیستے جی موت دے دی تھی۔۔۔
اُس نے اپنے چھوٹے سے پرس ایک تیز دھار خنجر نکالا جس کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔۔
وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور عارف کے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر لیا۔۔
اس وقت اگر ستارہ کی شکل کوئی زی شعور دیکھ لیتا تو خوف سے اُسکی جان نکل جاتی۔۔ستارہ کی آنکھیں پھیل کر کسی چڑیل کی آنکھوں سے شباہت دے رہی تھیں۔۔ناک نتھنے پھول چکے تھے اور حلق سے عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھیں۔۔
اُس نے لن کی جڑ پہ خنجر نما چاقو رکھا اور ایک ہی جھٹکے میں کاٹ دیا۔۔
یہ ایسا خوفناک اور بھیانک عمل تھا کہ عالمِ بالا میں عارف کی روح بھی لرز گئی ہوگی۔۔
لن اب اُسکے ہاتھ میں تھا۔۔
اُس نے فرش پہ رکھا اور اُس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے لگی۔جیسے قسائی اپنے تیز دھار ٹوکے سے گوشت کا قیمہ کرتا تھا۔۔۔
اُسکی آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔۔جب لن کا قیمہ بن گیا تو وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور ایک ٹھوکر مار کر اُس کو فرش پہ پھیلا دیا۔۔
اور بیڈ پہ ڈھے کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگی۔۔جب سانس بھال ہوئی تو وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔اب اُسے عارف کے ملازم اکبر کی آمد کھٹکنے لگی ۔۔بہت دیر ہو چکی تھی اور وہ کسی بھی وقت آ سکتا تھا۔۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی بیگناہ کے خون سے اُ سکے ہاتھ رنگ جائیں۔۔
اُس نے سٹول کو ہاتھ میں لیا اور دروازا کھولا۔۔ ایک الوداعی نظر عارف کی لاش پہ ڈالی راہداری سے ہوتی ہوئی گھر کی عقبی دیوار کے سامنے پہنچ گئی ۔۔سٹول کو زمین پہ جما کر وہ با آسانی دیوار پہ چڑھی اور کود گئی۔۔
باہر نکل کر اُس نے گہرا سانس لیا اور تیزی سے اس عمارت سے دور جانے لگی۔۔
وہ تیز تیز قدم اُٹھا کر چلنے لگی۔۔
یہاں سے کافی فاصلے پہ اُس نے ایک ٹیکسی والے کو ایک ہزار روپیہ دے کر دو گھنٹے کے لئے انگیج کیا تھا۔۔مگر اُسکا کام بمشکل چالیس منٹ میں ہی انجام پا گیا تھا۔۔
ڈرائیور نے اسکو دھندا کرنے والی سمجھا تھا۔۔اس لئے وہ بھی اتنی رقم کے لالچ میں اس کام پہ آمادہ ہو گیا تھا۔۔وہ قطعی نہیں جانتا تھا کہ ایک قاتل؛ حسینہ کو پنے پہلو بٹھائے وہ مقتل گاہ جا رہا ہے۔۔
ابھی وہ اُس مقررہ جگہ سے کافی پیچھے تھی جہاں پر ٹیکسی والا اُسکا انتظار کر رہا تھا اچانک اُس کو اپنے پیچھے کسی گاڑی کے آنے کی آواز سنی۔۔ستارہ نے مڑ کر دیکھا تو اُسے تھوڑے فاصے پہ مدھم روشنی ٹمٹماتی ہوئی دکھائی دینے لگی۔دھند شدید ہونے کی وجہ سے ستارہ اندازا نہ لگا پائی کہ کونسی گاڑی ہے اور اُس میں کتنے افراد سوار ہیں۔۔۔ستارہ کے دل میں انجان خدشات نے سر اُٹھانا شروع کر دیا۔۔اُس نے ایک نظر گاڑی پہ ڈالی اور تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے اُس سمت چلنا شروع کر دی جہاں وہ ٹیکسی ڈرائیور کھڑا اُسکا انتظار کر رہا تھا۔۔
اُس کی رفتار جیسے ہی تیز ہوئی گاڑی نے بھی سپیڈ پکڑ لی۔۔
گاڑی کا فاصلہ لمحہ بہ لمحہ گھٹ رہا تھا۔۔یکدم گاڑی کی ہیڈ لائٹس آف ہو گئیں۔۔
اب کوئی شک کی گنجائش نہ رہ گئی یہ جو بھی لوگ تھے وہ ستارہ کا پیچھا کرتے ہی آ رہے تھے۔۔
جیسے ہی ہیڈ لائٹس بند ہوئیں ستارہ نے دوڑ لگا دی۔۔
وہ اپنی پوری طاقت ٹانگوں میں سمٹائے تیز رفتاری سے بھاگ رہی تھی۔۔
اچانک اُس کو اپنے پیچھے دوڑتے ہوئے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔۔
یہ آوازیں سن کر اُسکا کلیجہ منہ کو آ گیا۔۔
اُس نے پہلے سے زایادہ شدت سے بھاگنا شروع کر دیا۔۔سخت دھند میں اُسے کوئی راستی سجائی نہ دے رہا تھا۔۔تو جدھر منہ رہا اُدھر وہ بھاگتی رہی۔۔
دوڑتے قدموں کی آوازیں معدوم ہو گئیں تھیں۔۔
انتقام کی آگ جب تک اُس کے دل میں روشن رہی اُسکا وجود موسم کی ہر تمازت سے بیبہرہ رہا۔۔۔عارف کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے بعد یہ آگ ماند پڑ چکی تھی۔۔۔
شدید دھند اور سردی میں اُسکا وجود کپکپا رہا تھا۔۔عارف کے انتقام میں اندھی ہو کراس کو مارنے کے تمام لوازمات سے مزین تھی مگر اتنی شدید سردی میں خود کو ڈھانپنے کا کوئی خاطر خواہ انتظام وہ نہ کر سکی تھی۔۔
اُس کے جسم میں جیسے سؤیاں چبھ رہی تھیں۔بے تحاشا دوڑنے کی وجہ سے سانس بری طرح سے پھول چکا تھا۔۔رگوں میں خون منجمند ہو جانے سے چلنا دشوار ہو گیا تھا۔اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وجود منوں وزنی ہو گیا ہو۔وہ بمشکل خود کو گھسیٹتی ہوئی ایک چھوٹے سے مکان کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔سردی تھی کہ خدا کا قہر۔۔اُس نے بمشکل خود کو سنبھالا اور دروازا کھٹکایا۔۔مگر کوئی جواب نہ ملا۔۔وہ دھڑ دھڑ دروازا پیٹنے لگی۔۔
باہر ایک لمحہ کھڑا رہنا بھی عذاب سے کم نہ تھا۔۔۔اُسکا وجود ٹھٹھر کے برف بن چکا تھا۔وہ چاروں طرف نظریں دوڑا رہی تھی۔ دل وسوسوں میں گھَرا ہوا تھا۔۔ہر لمحہ اُس گاڑی کے آنے کا دھڑکا رونگھٹے کھڑے کر رہا تھا جو اُسکا پیچھا کر رہی تھی۔۔نہ جانے وہ کون لوگ تھے۔۔جو اُسکا پیچھا کر رہے تھے ۔۔اکبر تو نہیں ہو سکتا تھا۔وہ جو بھی تھے کافی تعداد میں تھے جن کے چنگل سے وہ بھاگ کے آئی تھی۔۔
چند لمحوں بعد اندر سے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔۔اُس نے جلدی سے اپنا پسٹل اور چاقو گلی کے میں بہنے والی گندے پانی کی نالی میں بہا دیا اور دروازا کھلنے کا انتظار کرنے لگی۔۔اُسکا خون رفتہ رفتہ منجمند ہو رہا تھا۔۔
جسم میں جان ختم ہو رہی تھی۔۔مگر آنے والا دروازا کھولنے کا نام بھی نہیں لے رہا تھا۔۔
ستارہ کو یوں لگ رہا تھا جیسے اُس کا وجود منجمند ہو گیا تھا۔۔
اُس نے اپنے وجود کو حرکت دینے کی کوشش کی مگر ناکام ہو گئی۔۔
کوں ہےََ؟؟
خدا خدا کر کہ ایک نیند سے بوجھل مردانہ آواز اُسے سنائی دی۔۔ستارہ نے بولنا چاہا مگر زبان جیسے تالو سے چپک کر رہ گئی تھی۔اُسنے بمشل اپنی طاقت کو مجتمع کیا۔اور بولی,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
آج چھٹا دن تھا۔۔میں اپنے کمرے میں اُداس بیٹھا مناہل کی تصویروں سے باتیں کر کے اپنا دل بہلا رہا تھا۔۔مناہل کی گمشدگی نے میرے اعصاب پہ گہرا اثر ڈالا تھا جس سے میں نیم پاگل ہو گیا تھا۔۔مجھے کسی کی بھی کوئی بات سمجھ نہ آتی اور نہ میرا کسی شے میں دل لگتا تھا۔۔
مناہل جاتے جاتے میرا سب کچھ لے گئی تھی۔۔میری خوشیاں ،مسکراہٹیں زندہ دلی سب کچھ چلا گیا تھا۔۔دنای کی تمام رونقیں مجھے پھیکی لگ رہی تھیں۔۔علی رضا اور ماہا بھابھی مجھے سمجھا سمجھا کر اور تسلیاں دے دے کر تھک گئے تھے مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا۔۔
میں بس خالی خالی نظروں سے اُن کو دیکھتا اور چپ ہو جاتا۔۔
کالج سے دس دن کی چھٹیاں لی تھیں جو کل سے ختم ہو رہی تھیں۔۔مگر میرا اب کالج جانے کو دل نہ کر رہا تھا۔جس کو سمجھتے ہوئے علی نے مزید چھٹیوں کی اپلیکیشن دے کر دس دن کی مزید رخصت منظور کروا لی تھی۔۔
رات ہو چکی تھی۔۔ میں کمرے میں جابجا سگریٹ کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔۔میں گزشتہ 6 دنوں سے سگریٹ پھونکے جا رہا تھا۔۔کمرے کی حالت کسی کباڑ خانے کا منظر پیش کر رہی تھی۔۔جس میں ہر جانب کوڑا بکھرا پڑا تھا۔۔دن سے ڈھل گیا اور کب رات ہو گئی مجھے کوئی ہوش نہ تھا۔۔
میں ابھی تک جاگ رہا تھا۔۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔میں ٹائم دیکھا تو تین بج چکے تھے۔۔
میں چادر اپنے اوپر اوڑھ لی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔۔
ناجانے کس پہر میری آنکھ لگ گئی اور میں نیند کے مہربان آغوش میں جا سویا۔۔
صبح میری آنکھ مسلسل بجتے فون پہ کھل گئی۔
میں آنکھیں ملتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ٹائم دیکھا تو صبح کے اگیارہ بج چکے تھے۔۔
لیکن اثناء میں فون بند ہو چکا تھا۔۔
میں نے نمبر دیکھا تو وہ علی کا تھا۔۔
ساٹھ کے قریب کالز تھیں۔۔
میں چونک کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور علی کانمبر ڈائل کرنے لگا۔ ایسی کیا ایمرجنسی پڑ گئی تھی کہ علی نے مجھے ساٹھ کالز کیں۔۔میں دھڑکتے دل کیساتھ علی کا نمبر ڈائل کیا اور دل ہی دل میں خدا سے کسی اچھی خبر کی دعا مانگنے لگا۔۔تیسری بیل پہ کال رسیو کر لی گئی۔۔
ہیلو۔۔میں بولا۔
ٹی وی پہ کوئی نیوز سُنی؟؟علی چھوٹتے ہی بولا۔۔
نہیں تو۔۔ کیوں کیا ہوا؟؟میں بے چینی سے پوچھا۔۔
ٹی وی آن کرو اور کوئی سا بھی نیوز چینل لگا کر خبر سنو۔۔
علی نے سپاٹ لہجے میں کہا اور اس سے پہلے میں کچھ بولتا اُس نے فون کٹ کر دیا۔۔
میں ہیلو ہیلو ہی کرتا رہ گیا۔۔
میرا دل ناجانے کیوں کانپ سا گیا۔۔علی کا لہجہ بہت بہت گھمبیر اور اجنبی تھا۔۔
یقینن کوئی بہر بری خبر تھی جس کو علی بتا نہ پایا اور مجھے ٹی وی آن کرنے کا بول کر فون منقطع کر دیا۔۔
میں نے دھڑکتے دل کیساتھ ریموٹ اُٹھایا اور آن کا بٹن دبا دیا۔۔ٹی وی آن ہو گیا۔۔
پہلا چینل سامنے کھلا۔۔۔اس پہ کوئی مووی چل رہی تھی۔۔میں نے کانپتے ہاتھوں سے نیکسٹ کا بٹن دبایا تو ایک مشہور نیوز چینل سامنے آ گیا۔۔
جس پہ بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔۔نیوز کاسٹر سنسنی پھیلاتے لہجے میں زور و شور سے بول رہی تھی۔۔
ملک کی نامی گرامی شخصیت عارف جمال کا قاتل اسلام آباد ائیر پورٹ پہ گرفتار کر لیا گیا۔۔
قاتل ملک سے فرار ہو کر دبئی بھاگ جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایس ایچ او خوشبخت گل نے کامیاب چھاپہ مار کر اُسکو قانون کی گرفت میں لے لیا۔۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ قاتل پیشہ ور نہیں ہے۔۔ اور نہ ہی کوئی لحیم شحیم مرد۔۔
نیوز کاسٹر دل دہلا دینے والے لہجے میں بولی۔۔
قاتل ایک حسینہ ہے جس کو دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔۔آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس حسینہ نے قتل کی اتنی خوفناک واردات کی اور بڑی بے رحمی سے ملک کے ایک باعزت اور نامور شہری عارف جمال کو موت کے گھاٹ اُتا دیا۔۔
اس کے ساتھ ہی ٹی وی سکرین پر قاتل کی تصویر چسپاں کر دی گئی۔۔جیسے پہ تصویر سامنے آئی ۔۔
میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔

میرا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔۔
مجھے یوں لگا جیسے کمرے کے در و دیوار مجھ پہ گر رہے ہوں۔۔کانوں میں گھنٹیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔۔
وہ مناہل کی تصویر تھی۔
ہنستی مسکراتی۔۔
اس حسین قاتلہ کا نام ستارہ سکندر ہے۔نیوز کاسٹر سنسنی پھیللاتے ہوئے بولی۔۔۔یہ عارف کی کمپنی میں ایک اچھے عہدے پہ فایز تھی۔۔عارف کو قتل کرنے کے کیا اسباب تھے یہ پولیس کی مزید تفتیش کے نتائج سامنے آنے پر ہی پتا چلا گا۔۔
سارے ریاستی ادارے ملزمہ کو کڑی سے کڑی سزا دینے پہ زور دے رہے ہیں۔۔
وہ اور بھی بہت کچھ کہہ رہی تھی مگر میرا وجود سُن ہو چکا تھا۔۔
ستارہ ۔۔مناہل۔۔آفس۔۔
اس سے آگے میں کچھ نہ سوچ سکا۔۔میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور میں لڑکھڑا بیڈ پہ اوندھے منہ گر کے دنیا و مافیا سے بے خبر ہوگیا۔۔شاید ہمہشہ کے لئے۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سلطانہ اور خوشبخت خاموش تھے مگر اُن دونوں کا انگ انگ ایک دوسرے سے بغلگیر ہو کر ہمکلام تھا۔
سلطانہ خوشبخت کے چوڑے سینے پہ سر رکھے اُسکے دل کی تیز تر دھڑکنوں کو سن رہی تھی۔خوشبخت کے وجود کی گرمی کی تاب نہ لاتے ہوئے اُسکا نازک اندام بدن ہولے ہولے کپکپا رہا تھا۔۔
خوشبخت کا حال بھی مختلف نہ تھا۔بریک نائٹی میںسلطانہ کا نرم و گداز بدن اُس کے سینے سے لگا آگ لگا رہ تھا۔۔جس کی تپش سے خوششبخت کو جھلسا رہی تھی۔۔
سلطانہ کی نرم و ملائم چھاتیوں اُسکے سینے میں بری طرح دب کے رہ گئیں تھیں۔۔سلطانہ کی سانسوں کی رفتار بڑھ گئی تھی جس سے اُسکی چھاتیاں اوپر نیچے ہو کر ہولے ہولے خوشبخت کے سینے سے رگڑکھا رہی تھیں۔۔
اس حد درجہ میٹھی رگڑ کی چبھن سے پھوٹتا خوشنما درد خوشبخت کو لن پہ مسوس ہوا جو دھیرے دھیرے انگڑائیاں لیتا اُٹھ رہا تھا۔۔
سلطانہ آنکھیں بند کئے خوشبخت کے وجود میں خود کو سمائے ہواؤں میں اُڑتا محسوس کر رہی تھی۔۔ سلطانہ کا وجود دنیا کے اس ریگسان سے تھکا ہرا ٹوٹ چکا تھا۔۔جسکی بے وفائی سے اٹی ریت نے اُس کے پاؤں چھلنی کر دئے تھے۔محبت سے عاری وجود،بے وفائی کی تیز دھوپ ، وفا کی پیاس سے خشک ہوتے ہونٹ،ایسے میں خوشبخت کا وجود اُسکو فرھت بخش ٹھنڈک سے لبریز محبت کا ایک ایسا سممندر لگ رہا تھا جس کی گہرائیوں میں ڈوب کر اُسے ایک نئی روح خود میں حلول ہوتی محسوس ہوئی۔۔
اُسکی گرفت لمحہ بہ لمحہ سخت ہوتی جا رہی تھی۔۔اتنا نشاط انگیز لذت اُس کو عارف کے سینے سے لگ کر بھی نہیں ملی تھی جتنا سرور آج خوشبخت کے سینے لگے مل رہا تھا۔۔
خوشبخت کا حال بھی مختلف نہ تھا۔۔
جس گل جان کی بچپن سے لیکر جوانی تک آبیاری وہ کرتا آیا تھا آج اُسکے دل کے باغیچے میں اُسکی مہک چارسوں پھیلی ایک عالم معطر کئے ہوئے تھے۔۔
سلطانہ اُس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اُسکے وجود میں پیوست تھی۔سلطانہ کے مہکتے وجود کی حد درجہ گرمی خوشبخت کے حواس معطل کر رہی تھی۔۔اُس کا بدن انتہائی نرم و گداز تھا۔۔پھولوں کی نزاکت اور نرمی لئے۔۔جیسے ہلکے سے دباؤ سے ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔۔۔خوشبخت کا لن مکمل اکڑا اور سلطانہ کے نرم پیٹ میں دھنسا انڈر وئیر کا زندان توڑ کر باہر نکلنے کو مچل رہا تھا۔۔
مگر وہ چاہ کر بھی اُسے رہائی دلوانے سے قاصر تھا۔۔
خوشبخت کو لگ رہا تھا کہ اگر یونہی کیفیت رہی تو وہ اپنے ھواس کھو کر آگ کے اس دریا میں جل کر خاکستر ہو جائیگا۔۔
اُس نے خود کو سنبھالا اور آئیستگی خود کو سلطانہ سے الگ کر دیا۔۔
سلطانہ جو آنکھیں موندیں اس روح فرح اور لطیف لذت سے سرشار خوشبخت کے بازوؤں میں خود کو بھلائے ہوئے تھی۔۔یک دم ہوش کی دنیا میں لوٹ آئی۔۔
خوشبخت کھڑے لن کیساتھ ہی پیچھے ہٹ گیا اور خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔
سلطانہ کا چہرہ جزبات کی زوردار آندھیوں سے سرخ ہو رہا تھا۔۔
اُس کے وجود میں ایک اندیکھی آگ لگ چکی تھی جسے صرف خوشبخت ک اگرم پانی ہی بجھا سکتا تھا۔۔۔
خوشبخت کے اس طرح پیچھے ہٹ جانے کو سلطانہ نے اپنی نسوانیت کی توہین سمجھا تھا۔۔
خوشبخت لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔۔
جب وہ قدرے نارمل ہوا تو اُس نے سلطانہ کی طرف دیکھا جو غضبناک آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔
وہ پل بھر میں سمجھ گیا کہ سلطانہ کو اس طرح خود سے سے دور کرنا ناگوار گزرا ہے۔۔
مگر ایسا کرنا ناگزیر تھا۔۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی غلط خیال اُس کے متعلق سلطانہ کے دل میں جائے۔۔
اور وہ یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ وہ اُسے کھلی تجوری سمجھ کر ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہے۔۔
سلطانہ تھکے ہوئے انداز میں اُسے گھور کر بیڈ پہ اُس سے پرے رُخ کر کے ڈھیر ہو گئی۔۔
خوشبخت نے گہرا سانس لیا اور اُس سے جانے کی اجازت طلب کر نے ہی والا تھا کہ اچانک سلطانہ کی ہلکی سی رونے کی آواز آئی۔۔
جو لمحہ بہ لمحہ تیز ہونے لگی۔۔
خوشبخت نے بوکھلا کر اُس کے قریب گیا جو اوندھے منہ گری اپنی ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹکائے سسکیاں بھرے رو رہی تھی۔۔
باریک بائٹی ڈاف نظر آتی سیاہی مائل پینٹی اُسکی بھربھری اور فٹبال جسی گانڈ کی لکیر کی برائے نام پردہ پوشی کر رہی تھی۔۔
اُسکی گوری گوری ملائم ٹانگیں سفیدی زعفرانی نائٹی میں سے دہکتی دکھائی دے رہی تھیں۔۔
سیاہ برا بھی اُسکی کمر سے چھانکتا خوشبخت کو للچا رہا تھا۔۔
خوشبخت کا سویا لن جسے تھپک تھپک بڑی مشکل سے سُلایا تھا دوبارہ انگرائیاں لیتا اُٹھ کھڑا ہوا۔۔
سلطانہ کیا ہوا؟؟
وہ گڑبڑا کے بولا۔۔
مگر کوئی جواب نہ ملا۔۔اُسکے رونے کی آواز مسلسل بلند ہو رہی تھی۔۔
خوشبخت نے بے خوفی سے اُس کے بازو سے پکڑ کر اُسے سیدھا کر کے بٹھایا۔پلیز چپ ہو جاؤ خدا کا واسطے۔۔خوشبخت ملتجی لہجے میں بولا۔۔ وہ ہچکیاں لیتے لیتے بالاآکر چپ ہو گئی اور آنکھیں بند کر کے سر جھکا لیا۔۔
خوشبخت نے ٹھوڑی سے پکڑ کر اُسکا چہرہ اوپر اُٹھا یا اور اپنی نظروں کے سامنے کیا۔اُسکی آنکھیں ہنوز بند تھیں۔۔۔آنسوؤں سے دھلا اُسکا سرخ چہرہ مزید تابناک اور دلکش ہو گیا تھا۔۔مسلسل رونے سے ستواں ناک سرخ ہو گئی تھی۔۔
سوں سوں کرتی اس وقت سلطانہ کسی معصوم بچے کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔۔
خوشبخت کو اُس پہ بہت پیار آ رہا تھا۔۔
اُس نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے جھک کر اُسکی سرخ ہوتی ناک کو ہولے سے چوم لیا۔۔سلطانہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ خوشبخت کوئی ایسی جسارت بھی کر سکتا ہے۔۔
اُسکی اس حرکت پہ وہ اک دم شرما کے رہ گئی۔۔شرم سے اُسکا چہرا مزید لال ہو گیا۔۔
جسکی سرخی خوشبخت کو واضح طور پہ اُسکے چہرے پہ دوڑتی خوشبخت کو محظوظ کر رہی تھی۔۔
خوشبخت گھٹنوں کے بل زمین پہ بیٹھا اور اپنا سر اُسکی گود میں رکھ دیا۔۔سلطانہ مزید سمٹ گئی۔۔اُسنے کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔۔
خوشبخت آنکھیں موندے اُسکی نرم و ملائم ران پہ سر رکھے ساغر و مینا کے بحر میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔۔
چند لمحوں بعد اُسکو اپنے سر میں سلطانہ کا ملائم ہاتھ رینگتا ہوا محسوس ہوا۔،۔۔وہ اُسکے بالوں کو بڑے پیا سے سہلا رہی تھی۔۔جس سےسرورکی ایک لہر خوشت کو انے وجود میں دوتے محسوس ہو رہی تھی۔۔
خوشبخت کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آ گئی۔اُس نے ہولے اُسکی ملائم ران کو چوم لیا۔۔۔
اس حرکت سے سلطانہ کا سر پہ رینگتا ہاتھ چند لمحوں کے لئے رک گیا۔۔وہ خوشبخت کے تپتے اور بھیگے ہونٹؤں کی گرمی سے پگھل کے رہ گئی تھی۔۔
سلطانہ تصور ہی تصور میں اپنی ران کے اُس حصے پہ جہاں ہونٹوں کی مہر محبت ثبت ہوئی کلغی بنتے دیکھ رہی تھی۔۔ خوشبخت نے بہت پیار سے چوما تھا۔۔
خوش بخت آنکھیں بند کئے کھویا ہوا تھا۔۔ اُسکی حالت ایسی تھی جب تھوڑئ دیر پہلے اُسکو گلے لگائے سلطانہ کی تھی۔۔
سلطانہ کا پھر سے ہاتھ اُسکے سر کے بالوں کو سہلانے میں مصروف تھا۔۔
ناجانے کتنے پل بیت گئے۔۔وہ یونہی اسی پوزیشن میں بیٹھے رہے۔۔
سلطانہ کی پھدی پانی چھوڑ چکی تھی۔۔
اس الگ ہی طرح کی گداز لذت نے اتنا گرم کر دیا تھا کہ اُسکی پھدی کی گرم دیواروں میں چوڑے شگاف پڑ گئے اور پانی بھل بھل کرتا نکل پڑا۔۔
خوشبخت نے بھی اُسکی یہ کیفیت محسوس کر لی تھی۔۔اُسکا سر ہنوز سلطانہ کی گود میں تھا۔۔اپنی گردن پہ وہ وہ سلطانہ کی پھدی سے نکلے پانی کی ہلکی سی پھوار محسوس کر رہا تھا۔۔جو اُسکی پینٹی اور نائٹی کی دیواروں سے بغاوت کرتی اُسکی گردن پہ آ گئی تھی۔۔
خوشبخت کا لن فل اکڑا کھڑا تھا۔۔
اب کی بار وہ کوئی دلیل سننے کے موڑ میں نہیں تھا۔۔
خوشبخت نے اپنا سر اوپر اُٹھایا اور سلطانہ کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔۔
سلطانہ کی آنکھوں میں خودسپردگی کی گلابی آبشار لڑکھتی بل کھاتی دکھائی دے رہی تھی۔۔
خوشبخت نے دھکا دے کراُس نیچے گرایا اور خود اُس کے قدموں سے اُٹھ کر اُس اوپر آ گیا۔۔
وہ اپنے دونوں بازو سلطانہ کے اطراف ٹکائے اُس کے اوپر نراجمان تھا۔۔
البتہ اُسکی ٹانگیں بیڈ کے نیچے ہی تھیں اور وہ پہ سلطانہ کے اوپر جھکا ہوا تھا۔۔
سلطانہ کھلی آنکھوں سے خوشبخت کی سرخ انگاروں جیسی آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔۔
دفعتا وہ اُسکے ہونٹوں پہ جھکا اور آئیسگی سے اُس کے نچلے ہونٹ کو اپنے ہونٹؤں میں بھر لیا۔۔
سلطانہ نے بھی منہ کھول کر اُسکا استقبال کیا اور اُس کے اوپری ہونٹ کو چوسنے لگی۔۔
خوشبخت کو یوں لگ رہا تھا جیسے سلطانہ کے نازک ہونٹوں سے شراب کی ندیاں پھوٹ رہی ہوں۔۔
درحقیقت بات بھی کچھ ایسی ہی تھی۔۔سلطانہ نے آج کافی پگ چڑھائے تھے جسکا ذائقہ ابھی تک اُس کے منہ میں تھا۔۔
جس کو خوشبخت اپنے ہونٹوں سے کشید کر رہا تھا۔۔
سلطانہ کا سانسوں کی رفتار بہت بڑھ گئی تھی۔۔
اُس نے اپنی زبان خوشبخت کے منہ میں ڈال دی۔۔جسے وہ پیار سے چوس رہا تھا۔۔اور ساتھ ساتھ اپنے ہونٹوں میں دبا بھی رہا تھا۔۔
اُسکا لن سلطانہ کی پھدی سے مس ہو رہا تھا۔۔جس سے ایک الگ ہی لزت مل رہی تھی۔۔
ہونٹوں کو چوسنے کے بعد وہ وہ اُسکی گردن پہ جھک کر چومنے لگا۔۔
سلطانہ کے لبوں سے لذت بھری سسکاریاں نکل رہی تھیں۔۔وہ اُسکی گردن پہ ہولے ہولے بائٹ بھی کر رہا تھا جس سے ایک میٹھا سے درد کی لہر سلطانہ کو اپنے وجود میں دوڑتی محسوس ہوتی۔۔
سلطانہ کی پھدی کی خارش مسلسل بڑھ رہی تھی۔۔
عارف کے مرنے کے بعد سے اُسکی پھدی اتنے دنوں سے سیراب نہیں ہو پائی تھی۔۔
اُس کے جذبات میں شدید آگ بھڑک اُٹھی تھی۔۔
وہ سمجھ رہی تھی کہ خوش بخت کافی ٹائم فار پلے میں ضائع کرے گا۔۔
فار پلے کا مقصد ہی آگ لگانا ہوتا تھا۔۔لیکن وہ تو کب سے اس آگ میں جھلس رہی تھی۔۔
تو اس وقت وہ بیزار ہو رہی تھی۔۔
پھدی تھی کہ جل جل لال ہو چکی تھی۔۔
خوشبخت مسلسل اُسکی گردن کو چوم رہا تھا اور ستھ ہی ساتھ اُسکی چھاتیوں کو بھی زور زور سے دبا رہا تھا۔۔
آخر کار اُس سے برداشت نہ ہوا۔۔
اُس نے دھکا دے کر خوشبخت کو نیچے گرایا۔۔اور خود کو ان چھیتڑوں کی قید سے آزاد کرنے لگی۔۔
خوشبخت شدید حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔اُسکی آنکھوں میں سلطانہ کے لئے ناپسندیدگی کے آثار واضح نظر آ رہے تھے مگر وہ خاموش ہی رہا۔۔
سلطانہ نے نائٹی اُتار کر ایک سائڈ پہ رکھی دی۔۔
جیسے ہی وہ نائٹی کی ریشمی قید سے آزاد ہوئی کمرے میں جیسے روشنیاں سی پھوٹ پڑی۔۔
خوشبخت کو اپنے خون کی رفتار تیز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔اُسکا دل زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔۔
سلطانہ کا بدن کوہِ نور کی طرح جگمگا رہا تھا۔۔
پھر وہ منظر تو گویا قیامت خیز تھا۔۔سلطانہ نے اپنے بر کی ہک کھول کر اپنی رس بھری چھاتیوں کو آزاد کیا تو وہ چھلک کے باہر نکل آئیں۔۔چھاتیوں کے بھورے اور تنے اُبھار منہ کھولے خوشبخت کو گھور رہے تھے۔۔عورت کا جسم ہر اُس جسم سے آشنا ہوتا ہے جس کو وہ پیار کرنے اور چومنے چاٹنے دیتی ہے۔۔اور اگر ایسے میں کوئی دوسرا ساتھی مل جائے تو عورت کے جسم کے انگ انگ کو اُس سے دھیرے دھیرے آشنائی ہوتی ہے اور پھر جسم کا انگ انگ ہمکلام اور ہمنشیں ہو جاتا ہے۔۔۔
اُسکا انگ انگ بلاشبہ خون خشک کر دینے والا تھا۔۔
وہ پتھر کا بت بنا قدرت کے اس حسین کرشمے کو ساکن نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔
اب سلطانہ کے جسسم پہ صرف ایک گیلی پینٹی تھی۔۔
خوشبخت مبہوت ہو کر اُسکے دودھیا جسم کو گھور رہا تھا۔۔
اُسکو ہوش اُس وقت آیا جب سلطانہ نے اُسکی پینٹ گھٹنوں تک انڈروئیر سمیت اُتار دی۔۔
وہ جھینپے ہوئے انداز میں سلطانہ کی ھرکات و سکنات کو ملاحضہ کر رہا تھا۔۔
خوشبخت کا لمبوترا اور خاصا موٹا لن دیکھ کر سلطانہ کے منہ میں پانی بھر آیا۔۔
جسکا احسن استعمال اُس نے لن کو گیلا کر کے کیا۔۔
خوشبخت کا لن اب تیار تھا۔۔سلطانہ نے تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے اپنی پھدی کو پینٹی کی گرفت سے آزاد کیا۔۔
سلطانہ کی چکنی ملائم پھدی دیکھ کر خوشبخت کے اوسان خطا ہو گئے۔اُس پہ ہلکے ہلکے بال تھے جو شمع کی روشنی میں بہت بھلے لگ رہے تھے۔۔۔
لیکن وہ زیادہ دیر تک اس منظر کو نہ دیکھ سکا۔۔
سلطانہ نے تھوڑا سا تھوک اپنی پھدی پہ ملا اور خوشبخت کے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اپنے تپتی پھدیکے سوراخ پہ ایڈجسٹ کیا۔۔
اور آئیستگی سے پھدی میں ُلے لیا۔آآآآآآآآآہ ہ ہہ ہہ ہ۔۔ایک لذت بھری آہ اُسکے لبوں سے نکلی۔۔
ابھی تک سوراخ می صرف ٹوپی ہی گئی تھی۔۔سلطانہ کی آنکھیں بند تھیں اور وہ مزے کے جہاں میں سفر کر رہی تھی۔۔
چت لیٹے خوشبخت کو یوں لگ رہا تھا جیسے اُسکے لن کی ٹوپی کسی گرم تنور میں چلی گیئی ہو۔۔

اُس کے منہ سے بھی لذت بھری آہ نکلی۔۔
خوشبخت کا لن بدستور سلطانہ کے ہاتھ میں تھا۔۔
جسکی ٹوپی برحال اُسکی پھدی کے اندر تھی۔۔
پھر سلطانہ نے اپنی پھدی کو زور سے نچیے دبایا اور جڑ تک لن پھدی میں سما گیا۔
آہہہہہہہہہہہہہہ۔۔۔ سلطانہ اور خوشبخت دونوں کے منہ سے لذت بھری سسکاریاں نکلیں۔۔
سلطانہ زور زور سے اپنی پھدی کو لن پہ مار رہی تھی۔۔
وہ اپنی پھدی کو زرا اُوپر اٹھا کر لن کی ٹوپی تک لاتی اور پھر زور سے جھٹکا مار کر سارا کا سارا لن اندر اُتار لیتی۔۔
خوشبخت کی حالت دیدنی تھی۔۔
اُس نے کبھی بھی پہلے کسی لڑکی کو نہیں چودا تھا۔۔
اس گرم مگر تجربہ کار عورت کے آگے زیادہ دیر ٹک نہیں پایا اور دو ہی منٹ میں چھوٹ گیا۔۔۔
اُسکے لن سے گرم گرم پانی نکل کر سلطانہ کی زرخیز پھدی کو سیراب کرنے لگا۔۔
سلطانہ کو پھدی میں یہ پانی پٹرول کی طرح لگ رہا تھا جو آگ بجھا نہیں مزید بھڑکا گیا۔۔
اُس نے کوئی پرواہ نہ کی بلکہ اور زیادہ تیزی سے اپنی پھدی کو اوپر نیچے کرنے لگی۔۔
خوشبخت کو یوں لگ رہا تھا جیسے اُسکی جان نکل رہی ہو۔۔
اُسکی ٹانگیں کپکپا رہی تھیں اور وہ لن کو اس گرم بھٹی سے باہر نکال لینا چاہتا تھا مگر سلطانہ قہر کی دیوی بنے اُس کے لن کو جس میں تھوڑی بہت اکڑ چھوٹنے کے بعد بھی تھی مسلسل تختہء مشق بنائے ہوئے تھے۔۔
کچھ ہی پل میں سلطانہ کے لبوں سے ایک چیخ نکلی اور اُسکا جسم اکڑ گیا۔۔
پھر یکدم اُسکی پھدی سے آبشار پھوٹی اور وہ چکرا کر خوشبخت کے اوپر ڈھے گئی۔۔
اور لمبے لمبے سانس لینے لگی۔۔
خوشبخت کا لن اُسکی پھدی کی دیواروں سے رگڑ کھاتا یوں لگ رہا تھا جیسے ننگی تار کو چھو رہا ہو۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا۔۔
خوشبخت نے آج ایک نئے جہان کی سیر کی تھی جس سے وہ کئی سالوں سے نا آشنا تھا۔۔
وہ ناجانے لب تک سلطانہ کی رنگین بانہوں کے حصار میں مزے کی لطیف وادیوں میں پنکھ لگائے اُڑتا رہا۔۔
اب دونوں جسم تھکن سے چور ایک دوسرے سے لپٹے پڑے تھے۔سلطانہ الف ننگی اُس کے ننگے بالوں بھرے سینے پہ سر رکھے ہوئی تھی۔۔۔
خوش ایک بات بتائیں۔۔
سلطانہ سر اُٹھاتے ہوئے خوشبخت کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی۔۔
پوچھو۔۔
وہ پیار سے بولا۔۔
مجھے پتا ہے کہ۔۔۔۔۔اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔۔
کیا ؟؟ وہ اُلجھے ہوئے لہجے میں بولا۔۔
کہ وہ بدنصیب لڑکی کون ہے جس سے تم عشق کرتے ہو۔اور وہ تمہاری قدر نہ کر سکی۔۔۔وہ خمار آلود لہجے میں بولی۔۔
کون؟؟ خوشبخت نے چونک کر پوچھا۔۔
جواب میں اُس نے ایک گہری نظر سے خوشبخت کو دیکھا جو پریشان نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا۔۔
وہ ببلی ہے۔۔سلطانہ اپنے بچپن کا نام لیتے ہوئے بولی جس نام سے خوشبخت اُسکو بچپن میں بلاتا تھا۔۔
خوشبخت گہرا سانس لے کر رہ گیا۔،
ہے نا؟؟ وہ اپنے لہجے پہ زور ڈالتے ہوئے بولی۔۔
جواب میں وہ اُسے خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہ گیا۔۔
بتاؤ نا پلیز۔۔
سلطانہ روہانسی ہو کر بولی۔۔
نن نہیں وہ تم نہیں ہو۔۔وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔۔
مگر اُس کی آنکھیں اُس کے لہجے کی چغلی کھا رہی تھیں جس میں سچ وا تھا۔۔
سلطانہ مسکرا کر رہ گئی۔۔
خوشبخت جھوٹ بولنا تو ڈھنگ سے سیکھ لو۔۔
وہ اٹھلا کر بولی۔۔
کیسا جھوٹ؟؟ سچ کہہ رہا ہوں۔۔وہ بھی اُسے تنگ کرنے کے موڑ میں تھا۔۔
جانتے ہو۔۔جب تم جھوٹ بولتے ہو تمہاری آنکھیں تمہارے لہجے کی نفی کرتی ہیں۔۔وہ سنجیدہ ہو کر بولی۔۔
اچھا۔۔لیکن میں جھوٹ نہیں بول رہا۔۔وہ بھی مصنوعی سنجیدگی سے بولا۔۔
سلطانہ کے ماتھے پہ تشیش کی سلوٹیں پڑ گیں۔۔
خوش پلیز سچ سچ بتا دو نہیں تو میں رو دوں گی۔وہ رو دینے والے لہجے میں بولی۔۔۔
اُس کی شکل سچ مچ رونے والی ہو گئی تھی۔۔
قریب تھا کہ آنکھیں چھلک پڑتیں خوشبخت نے اُس کو خود سے چمٹا لیا۔۔
اور سرگوشی میں بولا۔۔
ہاں جان ۔۔وہ تم ہی ہو۔۔
سلطانہ کا خوشی سے جھوم اُٹھا۔۔
فرطِ جذبات سے اُس نے خوشبخت کے منہ پہ بوسوں کی بوچھاڑ کر دی۔۔
وہ پاگل ہو کر اُس کو چوم رہی تھی۔۔
اور ساتھ ساتھ اُس کو بھلانے کی معافیاں بھی مانگ رہی تھی۔۔
خوشبخت اُسکی دیوانگی پہ حیرت ذدہ تھا۔۔
اُس کے وہم و گمان میں بھی اتنی گرم جوشی اُس سے متوقع نہ تھی۔۔
سلطانہ نے اپنے لب اُسکے لبوں سے ملا دیئے اور بے تحاشا چومنے لگی۔۔
اُسکی پھدی پھر سے گرم ہو گئی تھی۔۔خوشبخت کا لن بھی حرکت کرنے لگا۔۔
سلطانہ ہونٹ چومنے کے بعد اُس کے لن کو ہولے ہولے سہلانے لگی۔۔
اُسکی مخروطی اُنگلیوں کے لمس سے لن تن کے کھڑا ہو گیا۔۔
جب لن فل اکڑ گیا تو سلطانہ نیچے لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں پکڑ کر اس طرح موڑ لیں کے اس کے گھٹنے اُس کی چھاتیوں سے ٹکرانے لگے۔۔
اب وہ ایک گانٹھ سی بن گئی تھی۔۔
اُسکی گانڈ اور پھدی خاصی اُبھر گئیں تھیں۔سلطانہ کی پھدی لیس دار تھی اور شمع کی روشنی میں چمکتی بھلی لگ رہی تھی۔۔۔
خوشبخت نے اپنےلن کو تھوک لگایا اور اُسکی پھدی کے سوراخ پہ ایڈجسٹ کر کے ایک زوردار دھکا مارا۔۔
پہلے ہی جھٹکے میں لن جڑ تک اُتر گیا۔۔
اسکے بعد وہ بغیر رکے مسلسل جھٹکوں پہ جھٹکے مارتا گیا۔۔
لن مسلسل سلطانہ کی پھدی کے بخئے ادھیڑتا اندر باہر ہو رہا تھا۔۔
پچک پچک کی آوازیں ماحول کو خوب گرما رہی تھیں۔۔
سلطانہ کی سسکاریوں سے پورا کمرا گونج رہا تھا کہ اچانک کمرے میں اندھیرا ہو گیا۔۔
شاید آخری شمع بھی دم توڑ گئی تھی۔۔مگر سلطانہ اور خوشبخت کا پیار پوری شد مد سے چل رہا تھا۔۔
اندھیرا ہونے سے بھی خوشبخت کے جھٹکوں میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔۔
وہ مسلسل اپنا لن پھدی کے اندر باہر کر رہا تھا۔۔
خاصی دیر بعد خوشبخت کے لن سے تین چار پچکاریاں نکلیں اور وہ ڈھیر ہو گیا۔۔
سلطانہ اس سے پہلے ہی پانی نکال چکی تھی۔۔
کوئی اندازا نہیں تھا کہ کتے روانڈ ہوچکےتھے۔
خوشبخت ایک طرف گر گیا۔۔اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔۔
اُس نے ٹٹول کر سلطانہ کو ڈھونڈا جو اُس سے کچھ ہی فاصلے پہ ڈھیر تھی۔۔
اُس کا ہاتھ سیدھا سلطانہ کے بھربھرے چوتڑ پہ پڑا۔۔
وہ اُس کو سہلانے لگا۔۔
وہ ہاتھ کو گھماتا ہوا اُس کی پھدی پہ لے جانے لگا کہ اُس کی گانڈ کے سوراخ کو انجنے میں سہلا بیٹھا۔۔
سلطانہ مریخنی گھوڑی کی طرح بدکی۔۔
یہ کیا کر رہے ہو خوش۔۔
وہ ٹٹول کر اُسکے پاس پہنچی اور کس کر اُسے اپنے سینے کے اوپر اس طرح لیٹ گئی کہ دونوں کی سانسیں ایک دوسرے سے ہمکلام ہونے لگیں۔۔۔
کیا ہوا؟؟ خوشبخت کو اُس کا سوال سمجھ نہ آیا۔۔
تمہارے ساتھ کسی نے بچپن میں کچھ اُلٹا سیدھا تو نہیں کیا جو تم کو ئی عادت پہ پڑ گئی۔۔سلطانہ شریر لہجے میں بولی۔۔
میں سمجھا نہیں ۔۔خوشبخت کی اندھیرے میں ہلکی سی آواز گونجی۔۔
تم اُس سیدھے نہیں اُلٹے راستے چل پڑے تھے۔۔
وہ بات کو گھما کر بولی۔۔
اب خوشبخت کو ساری بات سمجھ آ گئی۔۔
اچھا چھا۔۔وہ غلطی سے ہاتھ لگ گیا۔۔وہ جھیپ کر مسکراتے ہوئے بولا۔۔
تھینک گاڈ۔۔ میں تو سمجھی تم بھی عارف جیسے نکلو گے۔۔
وہ بھی جواب میں مسکر کر بولی۔۔
عارف کو بھی شوق تھا اُلٹے راستے جانے کا۔۔میرے مسلسل اصرار پہ ُس نے بتایا مجھے کہ بچپن میں اُلٹے راستے وہ جاتا رہا ہے۔۔ہاہاہاہا۔۔
وہ کھلکھلا کر ہنسی۔۔مجھے کئی بار اُس نے اس راستے لگانا چاہا مگر مجھے یہ پسند نہیں تھا۔۔وہ مسلسل کھکھلاتے ہوئے بول؛ رہی تھی۔۔
اچھا۔نہیں مجھے ایسا کوئی شوق نہیں ہے۔۔وہ بھی کھلکھلا کر بولا۔۔
ہمممم۔۔سلطانہ ہنکارو بھرتے ہوئے بولی۔۔
اگر تم واقعی پسند کرتے ہو تو میں تمہارے لئے یہ کرنے کو تیا ہوں۔۔ خوش میری جان۔۔
وہ سنجیدہ ہو کر بولی اور اُس کے گال پہ ایک چٹکی کاٹ لی۔۔۔
ارے نہیں جان۔۔تم تو سیریس ہو گئی ہے۔۔مجھے نہیں پسند یہ۔۔وہ اُس کو بھینچ کر اپنے سینے سے لگاتے ہئے بولا۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔وہ محبت بھرے لہجے میں بولی۔۔اور اُسکے چوڑے سینے میں منہ چھپا لیا۔۔
چند لمحے یونہی گزر گئے۔
خوشبخت ایک بات بتاؤں آپکو۔۔وہ حلاوت بھرے لہجے میں بولی۔۔
جی بتائیں۔۔خوشبخت سعدت مندی سے بولا۔۔
جانتے ہو مجھے کیسے پتا چلا کہ آپ مجھ ےس محبت کرتے ہیں۔۔
وہ تجسس جگاتے لیجے میں بولی۔۔
کیسے؟؟ خوشبخت بولا۔۔یہ بات وہ خود جاننے کا بھی متمنی تھا۔۔
نغمہ آپی (خوشبخت کی بڑی بہن) مجھے ایک دن شاپنگ مال میں ملیں۔۔جب میں وہاں شاپنگ کر رہی تھی۔۔میں نے تو اُن کو نہیں پہچانا ،،مگر جب مجھے انھوں نے اپنا تعاف کرویا تو اُن پرتپاک انداز میں ملی۔۔
ہم دنوں ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئے۔۔۔آپکے بہنوئی عاصم بھی ساتھ تھے۔۔
اُن کو لیکر میں ایک کافی شاپ گئی اور اُن سے ڈھیر ساری باتی کیں۔۔باتوں باتوں میں تمہارا ذکر چھڑ گیا۔۔
انھوں نے تمہارا سارا عشق مجھ پہ آشکار کر دیا کہ کس طرح تم میری محبت میں پاگل ہو گئے تھے۔۔اور ابھی تک شادی بھی نہیں کی۔۔
سچ پوچھو تو مجھے بڑا افسوس ہوا۔۔
ہم لوگوں نے دنیاوی اُلجھنوں میں سب کو فراموش کر دیا تھا۔۔
اور تمہارا اپنے لئے عشق مجھے مزید حیران کر گیا۔۔میں تو سمجھتی تھی کہ بچپن کی نادان محبت کو تم بھول چکے ہو گے مگر مجھے یہ قطعی اندازا نہ تھا کہ اس محبت کو تم سے روگِ جان بنایا ہوا ہے۔۔
خیر اس ملاقات کو میں بھول گئی۔۔پھر جب عارف کا قتل ہوا تو تم میرے پاس تفتیش کی غرض سے آئے۔۔
کافی اکڑے اکڑے سے تھے۔۔لیکن یقین جانو تم کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔۔
یوں لگا جیسے اس کڑی دھوپ میں مجھے ایک سایہ دار درخت کی چھاوں نصیب ہو گئی ہو۔۔
لیکن تمہارا رویہ دیکھ کر میں خاموش ہو گئی اور کوئئ بات نہ کی۔۔۔اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔۔
۔پھر؟؟ خوشبخت جو پوری توجہ سے اُسکی بات سن رہا تھا لقمہ دیتے بولا۔۔
تو وہ گویا ہوئی۔۔۔
پھر ایک دن میرے پاس مروت خاں صاھب آئے۔۔انھوں نے عارف کی زندگی کے ایسی راز افشاں کئے جن کو سن کر میں دنگ رہ گئی۔۔
عارف وہ شخص تھا جس کے پیار میں پاگل ہو کر اپنا کیرئیر اور سب کچھ قربان کر دیا۔۔۔مگر اُس کے مرنے کے بعد جب عقدہ کھلا کہ وہ ہر رات یہ نئی نویلی دلہن کی سیج سجاتا ہے تو میرا دل ٹوٹ گیا۔۔میں دن رت اُس کو بد دعائیں دیتی رہی۔۔
مجھے کہیں بھی چین و قرار نہ مل رہا تھا۔۔
تو میں نے تم کو اپنی زندگی میں لانے کا تہیہ کیا۔۔لیکن میں ڈر بھی رہی تھی۔۔اُس دن تمہارا غصہ دیکھا تو میر اندازا تھا کہ تمہارے جیسا بندہ اتنی آسانی سے اپنا دل میرے حوالے سے صاف نہیں کرے گا۔۔مگر ایک اُمید بھی تھی۔۔اور یہ اُمید اُس محبت کی وجہ سے تھی جو تم مجھ سے کرتے تھے۔۔اور آج یہ اُمید بر آئی۔۔
سلطانہ پوری رام کہانی سناتے ہوئے بولی۔۔
خوشبخت نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔وہ جانتا تھا کہ اگر وہ کوئی بات کرے گا تو خود کے دل کو ہی برا لگے گا۔۔وہ خاموش ہی رہا اور اچھا کہہ کر سلطانہ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔۔
۔۔۔۔۔
سلطانہ لائٹ آن کر دو اب یار۔خاصی دیر بعد خوشبخت بولا۔۔۔
ہمم۔۔سلطانہ نے کہا اور اُس سے علیحدہ کر اندھیرے میں ہاتھ چلا کر بمشکل بجلی کا بورڈ دھونڈا اور لائٹ آن کر دی۔۔
کمرے مین زیرو بلب کی ملگجی سی روشنی پھیل گئی۔۔۔اور اس روشنی نےاُس اندھیرے کو لحظے میں ختم کر دیا جس میں محبت کی رعنئیاں بڑی دیر تک بکھرتی رہی تھیں۔۔
خوشبخت نے پینٹ پہن لی ۔۔اس دوران سلطانہ بھی اپنی نائٹی پہن چکی تھی۔۔
خوشبخت نے فون پہ ٹائم دیکھا تو ساڑھے 4 بج رہے تھے۔۔
سلطانہ اب کمبل اوڑھ رہی تھی۔۔اُسکی آنکھیں اب نیند سے لبالب بھری ہوئی تھیں۔۔
کمبل خاصا بڑا تھا۔۔جس میں دو وجود آسانی سے سو سکتے تھے۔۔خوشبخت بھی کمبل میں گھس گیا۔۔
چند ہی منٹوں بعد سلطانہ گہری نیند سو گئی۔۔
لیکن خوشبخت کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔
اُس نے آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کی مگر نہ سو سکا۔۔
اُس نے ساتھ ہی پڑے ٹیبل سے ہیڈ فون سمیت سلطانہ کا فون اُٹھا لیا اور کانوں سے لگا کر گانے سننے لگا۔۔
گانے زیادہ تر انگلش میں تھے جو خوشبخت کو پسند نہیں تھے۔۔
اچانک اُس کی نظر ایک فولڈر کھولتے ہوئے ایک ویڈیو پہ پڑی۔۔جس کا نام عجیب سا تھا۔۔000000088899997665 جیسے الفاظ تھے۔۔اُس نے اُس ویڈیو کو پلے کر دیا۔۔
اچانک اُس ویڈیو میں ایک ایسا سین آیا کہ اُس کا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔۔اور وہ ہڑبڑا کے کمبل سے اُٹھ کر بیٹھ گیا۔۔
جوں جوں وہ اس ویڈیو کو دیکھتا گیا اُس کے ذہن میں دھماکے ہوتے گئے۔۔
پھر وہ سین آیا جس کو دیکھ کر ہی اُس کا دل کانپ کر رہ گیا۔۔یہ ایسا منظر تھا جسکو کوئی بھی دیکھ لیتا تو خوف سے مر جاتا۔۔
اُس کے کانپتے ہتھوں سے اس فائل کو اپنے موبائل فون میں ٹرانسفر کیا اور سلطانہ کی طرف دیکھا جو دنیا و مافیا سے بے خبر گہری نیند سو رہی تھی۔اُس نے جلدی سے اپنی شرٹ اور کوٹ پہنا اور جوتے پہنے۔۔۔اُس نے سلطانہ کے پرس سے ریموٹ نکالا اور کمرے کے دروازے کی طرف کر کے اوپن کا بٹن دبا دیا۔۔ٹک کیساتھ ہی دروازا کھل گیا۔۔اُس نے ریموٹ واپس اُس کے پرس میں رکھا اور لپک کر باہر نکل گیا۔۔
باہر نکلنے کے کچھ ہی سیکنڈبعد دروازا خود بخود بند ہو گا۔۔
خوشبخت نےےے سلیم اور حسنین کو فون کیا اور جلدی سلطانہ کے گھر کے مین گیٹ پہ آنے کا کہا۔۔
اُس کے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری آنکھ کھلی تو میں نے خود کو ایک نرم و ملائم بستر پہ چت لیٹاہوا پایا۔میں نے اُٹھنے کی کوشش کی تو ایک نازک سے ہاتھ نے مجھے سہارا دے کر اُٹھایا اور میں بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر غور سے اُس خاتون کو دیکھنے لگا جس نے مجھے سہارادےکر اُٹھنے میں مدد دی۔۔
اب کسیک طبعیت ہے بھائی صاحب۔۔وہ خاتون ہمدردانہ اور شفیق لہجےمیں بولیں۔۔اُسکی آنکھوں میں مجھے اپنے لئے فکرمندی مترشح ہوتی دِکھ رہی تھی۔۔
آپ کون ہیں بہن جی۔۔میں نے اُسکو پہچاننےکی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے پہلے بھی کئی بار میں نے اُسکو دیکھا ہے ۔۔مگر کہاں ؟یہ مجھے یاد نہیں آ رہا تھا۔۔
میری اس سوال سے اُسے حیرت کا جھٹکا لگا۔اُس نے بے یقینی سے میری طرف دیکھا ۔۔
پھر سنبھل کر بولی۔۔
غزن بھائی میں ماہا ہوں۔۔آپکی بھابھی ۔۔کیا ہو گیا ہے آپکو؟؟ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہے ہیں؟؟اور یہ کیا حالت بنا رکھی ہے آپ نے اپنی۔۔
وہ دکھ بھرے لہجے میں بولیں۔کتنی دگرگوں حالت ہے آپکی اورکتنے دبلے اور کمزور ہو گئے ۔۔وہ خاتون دلگرفتہ لہجے میں بولیں۔۔۔میں آپکے لئے گرم دودھ لے کر آتی ہوں۔علی ڈاکٹر کو چھوڑنے گئے ہیں ۔۔ابھی آتے ہی ہوں گے۔۔وہ گویا ہوئیں اور باہر چلی گئیں۔۔اُن کے جانے کے بعد میں نے
اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر زور ڈالا ۔۔ایک جھماکا سا ہوا اور دماغ کے سارے بند دریچے کھلتے گئے۔۔۔ مجھےسب کچھ یاد آتا گیا۔۔ایک فلم میرے دماغ میں چلنے لگی۔۔ایک ہیولا سا میرے دماغ میں بنتا گیا۔۔جو دھیرے دھیرے قریب آکر ایک صورت میں ڈھل گیا۔۔یہ من موہنی صورت میری رگِجان اور پری پیکرمناہل کی تھی۔۔
مناہل کا چہرہ نظروں کے سامنے آتے ہی میرا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا۔۔
ایک سرد آہ میرےلبوں سے نکلی۔
۔میں نے آنکھیں بند کر لیں اور مناہل کے ساتھ بتائے ایک ایک لمحے کو یاد کرنے لگا۔۔
میرا دل اب بھی مناہل کو ستارہ ماننے کے انکاری تھا۔وہ سمٹی ،معصوم ہرنی جو خوف کی زقندیں بھرے میرے پاس پناہ لینے اُس وقت آئی جب خونخوار بھیڑیئے اُس کو دبوچنے کے در پہ تھے وہ کیسے قاتل ہو سکتی ہے؟؟
میں نے بے چینی سے سوچا؟؟
میرا دماغ اب چٹکنے لگا تھا۔۔مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اگر یہی کیفیت رہی تو پھٹ کے ریزہ ریزہ ہو جائیگا۔
ابھی میں اس تکلیف دہ عالم میں تھا کہ اچانک کمرے میں قدموں کی آہٹ سنائی دی۔۔میں نے بمشکل آنکھیں کھول کر دیکھا تو علی رضا اور ماہا بھابھی کمرے میں موجود تھے۔دونوں میاں بیوی کے چہرے پہ تفکر کے واضح اثرات تھے۔۔
علی رضا چلتا ہوا میرے قریب آکر بیڈ پہ بیٹھ گیا۔۔اُسکے چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی۔ وہ پریشانی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔۔
اب کسیے طبعیت ہے غزن؟؟ بالآخر و ہ سکوت توڑتے ہوئے بولا۔۔
میں کوئی جواب نہ دے سکا ۔۔یوں لگا جیسے میرے لب سِل گئے ہوں اور زبان تالو سے چپک کر رہ گئی ہو۔۔
ماہا بھابھی کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا۔علی نے اُسے اشارہ کیا انھوں نے وہ گلا س میرے ہاتھ میں تھما دیا۔
پی لو یار۔اگر ابھی سے کمزور پڑ جاؤ گے تو اس عشق نامراد سے کیسے لڑو گے؟
علی اب کی بار تھوڑے غیر سنجیدہ لہجے میں بولا۔ابھی امتحان شروع ہوا نہیں کہ لارڈ صاحب چارپائی سےلگے پڑے ہیں۔
اور میں نے تو یہ تک سُنا ہے کہ کوئی آگ کا دریابھی ہوتا ہے جو پار کرنا پڑتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ دریا جب تک ڈوبو گے نہیں پار نہیں ہوتا۔۔
میں اچھی طرح سمجھ رہا تھا کہ علی میرا دھیان بٹانے کے لئے مزاح کر رہا ہے۔۔ اچھا دوست خدا کی نعمت ہوتا ہے۔جو ہر دُکھ سُکھ میں ساتھ نبھاتا ہے۔وہ میری ناگفتہ حالت کومدِنظر رکھتے ہوئے میرادل بہلانے کے واسطے نارمل انداز میں مجھ سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ مناہل سے میں ٹوٹ کر محبت کرتا ہوں۔۔اُسکے بنا میں ایک پل نہیں بتا سکتا تھا اور کجا اب شاید ساری زندگی گزارنا پڑے۔وہ میرے وجود میں موجزن حزن و ملال کو اچھی سمجھ رہا تھا۔
مناہل مجھ سے اتنی دور چلی گئ تھی کہ اب اُسکا لوٹنا مشکل تھا۔
کیا وہ کبھی نہ مل پائے گی؟؟
۔یہ سوچ کر ہی مجھےجھرجھری سی آ گئی۔۔ایک ہوک سی دل میں اُٹھی ۔
جسکی لہر رفتہ رفتہ میرےوجود سے اُٹھتی آنکھوں تک آئی اورآنسوؤں میں بدل گئی۔
میری آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے۔۔
میں شدید کرب کی کیفیت سے میں دو چار تھا۔۔
ایک باغی قطرہ میرے آنکھوں سے لڑھکتا آیا اور ٹپک کر کہ دودھ کے گلاس میں جا گرا۔۔
پھر تو جیسے بغاوت ہو گئی۔۔
میری آنکھوں سے بادل برسنے لگے۔۔۔میرا سارا وجود دھاڑیں مار مار رونے لگا۔۔
علی اور ماہا تاسف سے میری اس حالت کو دیکھ رہے تھے مگر مجھے خود کے دل پہ کوئی اختیار نہ تھا۔۔
کئی لمحے گزر گئے۔۔ساون جی بھر کے برس چکا تھا۔۔
علی اور ماہا اس دوران خاموش ہی رہے۔۔رونے سے میرے دل کا بوجھ قدرے ہلکا ہو چکا تھا۔۔
اب میں خلا میں اپنی نظریں مرتکز کئے ہوئے تھا۔۔
علی نے ہاتھ آگے بڑھا کر گلاس میرے لبوں سے لگا دیا۔۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی پینے لگا۔۔
آدھا گلاس پینے کے بعد میں نے گلاس اپنے منہ سے ہٹا دیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔۔
علی نے گلاس ماہا کو تھمایا اور اُسکو جانے کا اشارہ کیا۔۔
ماہا بھابھی خاموشی سے چلی گئیں۔۔
علی چند لمحوں بعد بولا۔
میں نے سب پتا کر لیا ہے ۔۔خوشبخت سے بھی میری تھوڑی دیر پہلے بات ہوئی ہے۔۔
نام ستارہ سکندر ہی ہے۔والدین وفات پاچکے ہیں۔اور عارف جمال کی کمپنی میں اسسٹنٹ مینیجر تھی۔ابھی تک کوئی بھی نہیں جانتا کہ عارف کو اُس نے کیوں قتل کیا سوائے میرے اور خوشبخت کے۔
لیکن اب تم بھی اس راز میں شامل ہونے لگے ہو۔۔
علی گہرا سانس لیتے ہوئے بولا۔
میں پورے انہماک سے علی کی باتیں سن رہا تھا۔۔
اُس کی آخری بات سن کر میرے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔
کیسا راز؟ میں نے سرسراتے لہجے میں پوچھا۔۔
جواب میں علی سپاٹ لہجے میں مجھے ساری داستان سناتا گیا جو اُسکو خوشبخت کی زبانی سُننے کو ملی تھی۔۔۔
علی کے منہ سے نکلتا ایک ایک لفظ میری روح کو چھلنی کر رہا تھا۔۔
میرے بدن میں چیونٹیاں رینگنے لگیں۔۔
غصے سے میرا سر چٹکنے لگا۔۔کاش عارف میرے سامنے آ جائے اور میں اُس کو بار بار اذیت دے دے کرکتے کی موت ماروں جس نے میری پھول جیسی مناہل کو مسل کے رکھ دیا۔۔
اب ہر چیز آئینہ کی طرح شفاف ہو گئی جس میں ہر شبہہ واضح نظر آتی ہے۔۔
عارر بگڑا امیر زادہ تھا۔۔جس کی خلوت میں ہر زور ایک نئی رانی کی سسکاریاں دم توڑتی تھیں۔۔
وہ حسن کا شیدائی تھا ۔جہاں حسن کی دیوی نظر آتی وہ پیسے کا دیوتا بن کر اُسے اپنے دام ِاُلفت میں قید کرکے بھنبھوڑ تا۔۔
ستارہ کے قیامت خیز حسن کو دیکھ کر اُسکی رگِ حوس بھڑک اُٹھی۔۔ستارہ کے بارے میں اُس نے بہت کچھ آفس کے سٹاف کی زبانی سن رکھا تھا کہ وہ اپنی ذات کے حوالے سے سخت گیر طبعیت رکھتی ہے۔اور جس نے بھی کبھی اُس پہ ٹرائی کرنے کی کوشش کی منہ کی ہی کھائی۔ ۔وہ گھاگ آدمی تھا۔۔سمجھ گیا کہ ستارہ کو اتنی آسانی سے مرعب نہ کر سکے گا۔۔اُس کے شیطانی دماغ نے حرافی چالیں چلنا شروع کر دیں۔اُس نے ستارہ پر کرم نوازیاں کرنا شروع کر دیں۔۔اُس کو ترقی دے کر وہ اسیسٹنٹ مینیجر کے عہدے پہ لے آیا اور ایک شاندار کوٹھی تحفے میں دی۔۔
مگر اس کے باوجود بھی ستارہ نے اُس کو گھاس تک نہ ڈالی۔۔
جب بھی کبھی وہ ستارہ سے ملتا تو وہ محض ہیلو ہائےکر کے اپنے کام میں مگن ہو جاتی۔۔
ماں کے مرنے کے بعد ستارہ کئی دن آفس نہ گئی۔۔تو عارف نے نہ صرف تین مہینے کی رخصت دی بلکہ سیلری بھی دو گنا زیادہ بڑھا کر ایڈوانس میں دی۔۔
اُس نے کئی دفعہ ستارہ پہ ٹرائی ماری۔۔مگر ستارہ نے کوئی تشفی بخش جواب نہ دیا جس کی وہ اُٗمید کرتا تھا۔۔اُسکے لئے وہ صرف ایک باس تھا جسکا حکم بجا لانا اُس پہ فرض تھا۔۔
جب عارف کی ہر کوشش ناکام ہو گئی تو اُس نے ستارہ کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا۔۔جس پہ عمل پیرا ہو کر ایک دن ستارہ کو اپنے آفس سے اٹھوا لیا اور اُسکا ریپ کر دیا۔۔
یہ پلان بہت منظم تھا جس میں کوئی جھول نہ تھا۔۔
ستارہ کے باپ سکندر کو ایک گمنام ٹیلی فون کر کے اطلاع دی کہ ایک بزنس ٹوور کے سلسے میں اُسکو اچانک فرانس جا نا پڑ گیا ہے۔۔وہ دو دن تک گھر نہیں آسکے گی۔۔سکندر نے بھی کوئی ردِ عمل دیا نہ ہی تصدیق کے لئے آفس فون کیا۔عارف تین دن تک اُس کو درندگی کا نشانہ بنتا رہا۔۔۔پھر جب دل بھر گیا تو ستارہ کو اُسکے گھر پھینکوا دیا ۔۔
سکندر ستارہ کی اس حالت کو برداشت نہ کر سکا اور دل کا مریض بن گیا۔۔بعد میں یہی مرض اُسکے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔۔۔
ستارہ شدید ذہنی صدمے کا شکار ہو کر نیم پاگل ہو گئی۔۔۔پھر اُس کے کسی انکل جو ڈاکٹر بھی تھے علاج کیا اور ستارہ کو اس صدمے سے باہرنکالنے میں کامیاب ہو گیا۔۔
ستارہ نے حالات سے سمجھوتا کر لیا اور دوبارہ سے آفس جوائن کر لیا جہاں اُسکو ویلکم کیا گیا۔۔
آفس میں کسی نے اُس کی غیر حاضری پہ تعرض نہ کیا۔۔
کیوں کہ عارف نے خود ہی ایک اپلیکیشن ستارہ کے نام کی اپنے آفس میں بذرئعہ ڈاک بھجوائی اور آفس میں مشہور کر دیا کہ اُس نے 3 ماہ رخصت لی ہے۔۔وہ اچھی طرح جانتاتھا کہ ستارہ اس قابل نہیں ہو گی کہ کچھ مہینے آفس آ سکے۔۔
ستارہ نے اپنے باپ سکندر کو ہونے والی جعلی بزنس ٹوور کی فون کال اوررخصت کی جھوٹی درخواست کی چھان بین کی مگر کوئی ثبوت ہاتھ نہ آیا۔۔
پھر وہ ہوا جس کا وہ گمان بھی نہ کر سکتی تھی۔۔
ایک دن ستارہ انجانے میں عارف سے ٹکرا گئی۔۔جس سے دونوں میں خوشگوارگفتگو ہوئی مگر اس دوران ستارہ نے اُسکو پہچان لیا۔
ستارہ کے دل کو دھچکا لگا اور وہ اس صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے بیہوش ہو گئی۔۔عارف بہت پریشان ہوا۔۔یہ سوچ کر کہ وہ پہچانا گیا ہےاُسکی راتوں کی نیند اُڑ گئی۔۔
مگر بعد میں پتا چلا کہ ستارہ بیمار تھی اس لئے اُسکو چکر آ گیا۔۔

تب جا کر اُسکی جان میں جان آئی۔۔مگر یہ ستارہ کی چال تھی۔۔وہ اپنی عصمت کے لٹیرے کو یہ احساس نہیں دلانچاہتی تھی کہ وہ پہچان لیا گیا ہے۔۔
پھر ستارہ نے چند لوگوں کو پیسے دے کر اُسکی نگرانی پہ بٹھایا۔۔جنھوں نے عارف کی اُس خفیہ کمین گاہ کا پتا دیا جہاں وہ اکثر اوقات نفس ٹھنڈا کرنے آ تا تھا۔۔
پھر ایک دن موقع پا کر ستارہ نے اُس کمین گاہ میں چھاپہ مارا اور اُسکو قتل کر دیا۔ستارہ نے بھی منظم پلان کیساتھ قتل کیا۔۔قتل سے پہلے اُس نے ملازمت سے استعففیٰ دے دیا اور دبئی جانے کا سارا بندوبست کر لیا۔پھر اُسکو خبر ملی کہ عارف اُس مکان میں آنے والا ہے تو یہ اچھا موقع تھا اُس کے لئے۔اُسکی کاغذات بننے میں سات دن باقی تھے۔عارف کو مارنے کے بعد اُسکا خیال تھا کہ سات دن وہ اپنی خالہ کے گھر چھپی رہے گی۔۔پھر ایک دن موقع پا کر فرار ہو جائیگی۔۔
لیکن اُس رات عارف کو قتل کے بعد جب وہ فرار ہو رہی تھی تو کچھ لوگوں کی نظر میں آگئی۔ناجانے کون لوگ تھے جنھوں نے اُسکا پیچھا کیا اور خاصی دیر تک گلیوں میں اُسکو دوڑاتے رہے۔۔پھرسخت سردی میں ستارہ کے اعصاب جواب دے گئے اور اُسکی حالت انتہائی تشویش ناک ہو گئی۔۔اُس نے جان بچانے کی غرض سے تمہارے ہاں پناہ لی۔۔تمہارا حسنِ سلوک اور محبت کو محسوس کر کے اُس نے تم سے شادی کر لی۔لیکن ساتھ ساتھ اُسکو اس بات کی فکر بھی کھائے رہی تھی کہ عارف کو قتل کرتے وقت وہ کچھ لوگوں کی نظر میں آ گئی تھی جو کسی بھی وقت اُسکا کچا چٹھا کھول سکتے تھے۔۔یہ بات سچ ہے کہ وہ تم سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔۔لیکن ڈرتی تھی کہ مبادا اُس کے گناہ کی پاداش میں تمہیں کوئی سزا نہ مل جائے۔تو اُس نے خاصی سوچ بچار کے بعد گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔جس پہ عمل پیرا ہوتے ہوئےتم کو نیند کی گولیاں دے کر منہ اندھیرے گھر چھوڑ کر چلی گئی۔۔لیکن اُس کی بدقسمتی کہ خوشبخت نے اُس کو ائیر پورٹ پہ دھر لیا۔۔۔
اتنا کہہ کر علی خاموش ہو گیا۔۔
اُسکے خاموش ہوتے ہی میں آگے جڑے واقعات کی کڑیاں جوڑنے لگا۔۔میرےدماغ کی کنپٹیاں سلگ رہی تھیں ۔۔اس ساری کہانی کی حقیقت مجھ پہ آشکار ہو رہی تھی۔۔
ستارہ اُس رات عارف کو قتل کر کے بھاگی تھی۔عارف بڑا آدمی تھا اور اُسکے ساتھ محافظوں کی فوج ہوتی تھی۔ستارہ نے کسی طرح اُسکو دھوکے سے قتل کیا اور وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی لیکن اُس کے محافظوں کی نظر میں آ گئی ہو۔ جنھوں نے اُسکا پیچھا کیا ۔۔جس سے بچنے کے لئے اُس نے میری پناہ لی۔
لیکن میرے خیال کو علی نے غلط ثابت کر دیا۔۔
قتل کی رات عارف کیساتھ کوئی محافظ نہیں تھا۔۔وہ بولا۔۔
وہ اکیلا ہی تھا۔۔صرف ایک ملاز م اکبر ہی ساتھ تھا۔۔مگر دوران ِقتل وہ عارف کی داشتہ کو اُس کے گھر چھوڑنے گیا ہوا تھا۔۔
یعنی ستارہ نے قتل موقع محل کی مناسبت سے جس میں کوئی شورو غوغا نہ ہو کیا۔۔
اگروہ عارف کے محافظ نہیں تھے تو کون لوگ ہو سکتے ہیں جنھوں نے ستارہ کا پیچھا کیا؟؟میں نے اُلجھے لہجے میں پوچھا۔۔
میرا خیال میں وہ نشئی قسم کے لوگ تھے یا پھر آوارا ٹائپ۔۔اکیلی لڑکی کو دیکھ کر انھوں نےہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی ہو گی۔
علی پرخیال لہجے میں بولا۔۔

ایک اور سوال۔۔میں نے علی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔۔
خوشبخت کو کیسے بھنک ملی کہ ستارہ ہی عارف کے قتل میں ملوث ہے؟؟
کیا اُسکے پاس ایسا کوئی ثبوت ہے جو اس قتل کو ثابت کرتا ہو؟؟
علی میرے ان سوالات پہ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔۔
یہ وہ باتیں تھی دورانِ تفتیش سامنے آئی ہیں جسکو بعد میں خوشبخت نے میرے ساتھ ڈسکس کیا ہے۔۔میں نے اُس سے بھی یہی سوال پوچھا تھا۔۔
اُس کا کہنا تھا کہ بنا ثبوت کہ وہ کسی چھوٹے سے مجرم کو بھی گرفتار نہیں کرتا۔۔تو اتنے بڑے قتل کی واردات پیچھے کسی بیگناہ کی گردن تو وہ پھانسی کے پھندے میں نہیں ڈال سکتا۔اور نہ ہی اُسے الہام ہوا ہے کہ ستارہ ہی عارف کے قتل میں ملوث ہے۔بقول اُس کے ایک ایساثبوت اُس کے پس ہے جس کو دیکھ کر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جانی۔۔۔
اور وہ جلدہی ثبوت لیکر ادھر آنے والا ہے۔۔اُسکا کہنا تھا کہ تم سے مل کر وہ بہت
ساری باتیں واضح کر دے گا۔۔
علی تیز تیز لہجے میں بولتا گیا۔۔
اب ہمارا پلان کیا ہوگا؟؟ میں نے بے بسی سے پوچھا۔۔
تم کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔میں شہر کے چوٹی کے وکیل راؤ عالم سے تٖفصیلی بات کر لی ہے۔۔ہم ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے۔۔ہر جائز و ناجائز حربہ اپنا کر مناہل بھابھی کو بچانے کی کوشش کریں گے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ خوشبخت کے پاس کون سا گواہ ہے جس نے یہ واردات ہوتے دیکھی۔ہم اُسکا منہ بھی سونے چاندی کی اشرفیوں سے بھر دیں گیں۔۔
بس تم کو زرا ہمت دکھانی ہو گی۔بی اے بریو مین یار۔۔تم بستر سے لگ کہ بیٹھ جاؤ گے تو مناہل بھابھی کے لئے کون لڑے گا۔۔جب تک تم صیح معنوں میں اُسکی جان کے رکھوالے نہیں بن سکو گے تب تک کوئی بات بھی نہ بنے گی۔۔
وہ مجھے حوصلہ دیتے ہوئے بولا۔۔
ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔۔کل ستارہ گرفتار ہوئی۔۔اور آج تم نے اتنی باتیں مجھے بتائیں ہیں ۔۔کیا ایک ہی رات میں اتنی تفتیش کر لی گئی ہے ؟؟ میں سپاٹ لہجے میں کہا۔۔
علی کے چہرے پہ اُداس مسکراہٹ در آئی۔۔
چن ماہی۔۔تم پورے دو دن بعد ہوش میں آئے ہو۔۔وہ بولا۔۔
مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا۔۔
کیااااااااااا؟؟؟میں تقریبا چیختے ہوئے کہا۔۔دو دن بعد؟؟
ہاں۔۔وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔۔
جب میں نے تم کو فون کر کے ٹی وی وہ پر خبر سُننے کو بولا تو مجھے اندازا تھا کہ تمہارا ردِ عمل شدید ہوگا تو میں نے10 منٹ بعد ہی گاڑی نکالی اور تمہارے گھر کا رُخ کیا۔۔کافی دیر تک بیل بجائی مگر دروازا نہیں کھلا۔۔
مجھے تشویش ہوئی کہ پتا نہیں تمہاری کیا حالت ہو ۔۔
پھر میں نےدیوار پھیلانگی اور گھر میں داخل ہو گیا۔۔تمہارے کمرے میں داخل ہوا تو اپنے اندازے کو درست ہوتے پایا۔۔ تم بیہوش پڑے تھے۔۔
تمہیں اُٹھا کر میں ہوسپٹل لے گیا جہاں ڈاکٹرز نے بتایا کہ شدید انر شاک ہوا ہے جس کی تاب نہ لاتے ہوئے تم بیہوش ہو گئے تھے۔۔
پھر دو دن تک تمہیں نشیلی دوائیوں کے زیر اثر رکھا گیا۔۔جب بھی ہوش آتا تم مناہل ہی کو پکارتے۔۔تو تمہیں پھر سے نشیلی دوائیوں کا انجیکشن دیا جاتا۔۔تمہاری خوراک گلوکوز اور چند دوسری ادویات ہی اس مختصر عرصہ میں رہیں۔۔
وہ مجھے تفصیل سے آگاہ کرتا ہوا بولا۔۔
علی مجھے مناہل سے ملنا ہے۔۔پلیز مجھے اُس کے پاس لے چلو۔۔پتا نہیں وہ کس حال میں ہو گی۔۔پولیس والے اُس کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہوں گے۔۔
میں علی کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔بولتے یوئے مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میری آواز جیسے کسی کنویں سے آ رہی ہو۔۔
حوصلہ رکھ۔۔مناہل بھابھی بہت سخت پہرے میں ہیں۔۔اور اُن کو کسی خفیہ جیل میں رکھا گیاہے۔۔جہاں ایجنسیاں بھی اُن سے تفتیش میں مصروف ہیں۔۔کیوں کہ کچھ لوگوں نے اس ابہام کو ہوا دی تھی کہ عالمی سطح پہ پاکستان کا نام بدنام کرنے کے لئے عارف جمال کو قتل کر وایا گیا ہے۔۔علی سرسراتے لہجے میں بولا۔۔
میں خوف سے کانپ گیا۔۔مناہل میری جان کہاں پھنس گئی ہو تم۔ناجانے وہ لوگ کیا سلوک کررہے ہوں گےہوں اُس کیساتھ۔۔
میں نے نم ہوتی آنکھوں سے سوچا۔۔
جیسا تم سوچ رہے ہو ویسی کوئی بات نہیں ہے۔۔
علی میری کیفیت کو سمجھتے ہوئے بولا۔۔
خوشبخت میرے ساتھ مسلسل ربطے میں ہے۔۔
اُسکا کہنا ہے کہ یہ محض خانہ پری ہے۔۔تاکہ عوام کو مطمیئن کیا جا سکے کہ اس کیس کی تفتیش اعلیٰ سطح پہ ہو رہی ہے بس۔۔اور کچھ نہیں ۔یہ سیدھا کیس ہے اور مناہل بھابھی ہر ممکن تعاون کر رہیں ہیں۔جلد ہی انھیں خواتین کی جیل میں منتقل کر دیا جائیگا جہاں پہ ہمیں اُن سے ملنے کی پوری اجازت ہو گی۔۔۔علی تسلی دیتے ہوئے بولا۔۔
اب تم آرام کرو۔۔شام کو خوشبخت تم سے ملنے آئیگا۔۔ریڈی رہنا۔۔
اس کے علاوہ ایک اور سرپرائز بھی ہے تمہارے لئے۔۔
میں نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا؟؟
وہ بھی شام کو پتا چلے گا۔۔وہ ہلکا سا مسکراتے ہوئے بولا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔۔
اور ہاںپریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ہم مناہل بھابھی پہ آنچ بھی نہیں آنے دیں گے۔۔بس تم شیر بنو شیر۔۔
وہ مسکراتا ہوا مجھے تسلی دے کر چلا گیا۔۔۔
میں سرد آہ بھر کے رہ گیا۔
کاش مناہل تم نے مجھ پہ بھروسہ کیا ہوتا۔۔میں تم کو ایسی جگہ چھپا دیتا جہاں میرے علاوہ کوئی اور نہ ہوتا۔۔
میں نے تاسف سے سوچا۔۔
لیکن میری وجہ سے ہی اُس نے یہ انتہائی قدم اُٹھایا۔۔مبادا مجھےکچھ نہ ہو جائے اور اُس کےقتل کی پاداش میں مجھے نہ دھر لیا جائے۔۔
اس خیال نے مجھےمزید کوی ہونے کی تقویت دی۔۔اُسکی محبت میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہ رہ گئی۔۔
میں نے آنکھیں موند لیں اور خود کو آنے والے حالات کے لئے تیار کرنے لگا۔۔
دنیا کا بڑے سے بڑا غم بھی نیند سے پہلے تک ہی ہوتاہے۔۔
میں جلد ہی نیند کے مہربان آغوش میں جا سویا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آج دھوپ بہت تیز تھی۔۔ کئی دنوں کے بعد سورج اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔جسکی تیز کرنیں میرے کمرے کی کھڑکی سے جھانک رہی تھیں۔۔۔۔ علی ہوسپٹل سے مجھے سیدھا اپنے گھرلے آیا تھاتاکہ اپنی نگہداشت میں میرا بھرپور خیال رکھ سکے۔۔۔آج میں جی بھر کےسو یا تھا۔۔سہہ پہر کو مناہل بھابھی نے مجھے جگایا کہ علی بلا رہے ہیں۔۔ساتھ میں کوئی مہمان بھی ہے۔۔تو گویا خوشبخت آچکا تھا۔۔میں جلدی سےواش روم گھس گیا۔۔
آج اتنے دنوں بعد میں نہا رہا تھا۔اور ساتھ ساتھ میں خوشبخت سے گفتگو کے لئے بھی خود کو تیا ر کر رہا تھا۔میرا ذہن اس وقت تیزی سے کام کر رہا تھا۔۔خوشبخت کے بارے میں جتنا علی نے بتایا وہ کافی پریشان کن تھا۔بقول اُسکے خوشبخت ڈیوٹی کے معاملے میں اپنے باپ تک کی نہیں سنتا۔۔اُس کی فرض شناسی اور دیانتداری کی قسمیں کھائی جاتیں ہیں۔میرا خیال تھا کہ خوشبخت کا منہ پیسوں سے اتنا بھر دیا جائے کہ وہ کچھ بول ہی نہ سکے اور مناہل کا کیس کمزورکردے۔۔مگر علی کی زبانی اُسکی دیانتداری کے قصے سن کر مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح خوشبخت کو رام کروں اور اپنی جان حیات کوقفسِ زنجیراں سے آزاد کرواوں ۔۔
خوب نہانے کے بعد میں انھی سوچوں میں مدغم ٹاول لپیٹ کے باہر نکلا تو بیڈ پہ ایک استری شدہ شلوار قمیص پڑی تھی۔۔
کپڑے بدلنے کے بعد میں ہال میں آیا۔
کچن میں ماہا بھابی اور حمزہ علی کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔۔

جبکہ علی اور خوشبخت گِل ڈائینگ ٹیبل پہ سر جوڑے سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔۔مجھے دیکھ کر دونوں چپ ہو گئے۔۔
خوشبخت نے اُٹھ کر مجھ سے مصافہ کیا اور بولا۔
ا ب کیسی طبعیت ہے آپکی؟
زندہ ہوں۔نا چاہتے ہوئے بھی میرے منہ سے کڑواہٹ اُگل آئی۔۔
علی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھےپرسکون رہنے کا اشارہ کیا۔۔خوشبخت کے چہرے کے تاثرات نہ بدلے۔۔اُسکی عقابی نظریں مجھے اپنے وجود پہ چھبھتی محسوس ہوئیں۔۔میں ڈائینگ ٹیبل کے دوسری طرف خوشبخت کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔۔تھوڑی دیر بعد ہی مناہل بھابھی نے کھانا سرو کر دیا۔۔
کھانا خاموشی سے کھایا گیا۔
کھانے کے بعد ہم تینوں ڈرائینگ روم میں آ کر بیٹھ گئے۔۔
اب بتائیں کیسی طبعیت آپکی؟
خوشبخت نے تمہید باندھتے ہوئے دوبارہ وہی سوال کیا۔۔
پہلے کی نسبت بہتر ہے۔میں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔۔
میں سمجھ سکتا ہوں آپ کے دل پہ کیا بیت رہی ہو گی اور آپ کس قدر تکلیف سے گزر رہے ہوں گے۔۔لیکن چوک بہرحال آپ سے ہوئی ہے۔۔
وہ میری آنکھوں میں غور سے جھانکتے ہوئے بولا۔۔
میں نےسر جھکا لیا۔۔میں اُسکا اشارہ خوب سمجھ رہا تھا۔یہ سچ بات تھی۔۔میں نے مناہل (ستارہ) کی زات کی زیادہ چھان بین نہیں کی۔اور نہ ہی اُس کے متعلق میرے ذہن میں کوئی ابہام پیدا ہوا۔۔
حقیقت میں اُسکی بے پناہ خوبصورتی کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا تھا۔۔اُسکی ساری کہانی کو میں نے سچ اور حرف بہ حرف درست سمجھا۔اور آج اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا تھا۔۔گو مناہل نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔اُسکی محبت بھی ہر شک و شبہ سے بالاتر تھی مگر اُسکا مجھ پہ اعتبار نہ کرکے گھر سے فرار ہونا میرے دل کو چھلنی کر گیا تھا۔۔اپنے تئیں وہ میرے بھلے کے لئے دور بھاگ رہی تھی۔۔لیکن حقیقت میں میرا برا کر گئی۔۔
جب میں کچھ نہ بولا تو خوشبخت گویا ہوا۔۔
ستارہ نے اپنا سٹیٹمنٹ دے دیا ہے۔۔
میں اور علی دونوں چونک کر اُسے دیکھنے لگے۔۔
وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوا۔
اُس نے صاف صاف اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے۔۔خوشبخت نے گویا دھماکہ کرتے ہوئے بولا۔۔
مجھے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
۔ قتل کے تمام اوزار آپکے گھر کی گلی والی نالی سے برآمد کر لئے گئے ہیں۔۔۔مزید براں وہ اپنے لئے کسی قسم کی کوئی قانونی مدد نہیں چاہتی اور اپنے کئے کی سزا بھگتنے کو تیارہے۔۔اُس نےراؤعالم سمیت کسی سے بھی قانونی مدد لینے سے انکار کر دیا ہے۔۔اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔۔
میرے وجود میں دھماکے سے ہونے لگے۔۔مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میرا دماغ میں کوئی ہتھوڑے مار رہا ہے۔۔علی کا چہرہ بھی اُسکی بات سن کر دھواں دھواں ہو گیا تھا۔۔
اتنا بڑا فیصلہ اُس نے کیسے کر لیا؟میں نے ڈوبتے دل کیساتھ سوچا۔۔ کوئی قانونی مشاورت کی اور نہ ہی مجھ یا علی سے ملنے اور ہمارا انتظار کرنے کی زحمت کی۔۔کیوں کیا مناہل تم نے ایسا؟؟میں خلاء میں گھورتے ہوئے اُس سے شکوہ کیا۔۔کیا تمہاری زندگی اتنی سستی ہے ہو گئی ہے؟؟کیوں تمہیں مجھ پہ اعتبار نہیں تھا؟۔۔تمہیں کیا حق ہے اپنی زندگی کے سارے فیصلے خود کرنے کا؟؟ میرا بھی تم پہ اُتنا ہی حق ہے جتنا تمہارا خود کا؟؟ تو پھر کیوں؟؟میں نے اُکھڑتی سانسوں سے سوچا۔۔میری آنکھوں تلے اندھیرا چھا نے لگا۔۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کسی اندھیری کھائی کی گہرائیوں میں گررہا ہوں۔۔
اس سے پہلے کے میری حالت مزید بگڑتی علی جھٹ سے میرے پاس پہنچا اور میرے منہ سے پانی کا گلاس لگایا۔۔میں ایک ہی سانس میں غٹا غٹ سارا پانی پی گیا تومیرے سانس بحال ہوئے اور جان میں جان آئی۔۔
چند لمحوں کی خاموشی چھا گئی۔۔میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔۔کچھ دیر بعد میں سر اُٹھایا تو وہ دونوں مجھے ہی گھور رہے تھے۔۔علی پریشانی اور خوشبخت افسوسناک نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔۔میں نے کچھ بولنا چاہا ہی تھا کہ ماہا بھابھی ٹی ٹرالی لیکرکمرے میں آئیں۔۔چند ہی منٹوں میں چائے ہم کو سرو کی اور بیغیر کوئی بات کئے چلی گئیں۔۔
اب ہم چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔۔چائے ختم کرنے کے بعد خوشبخت نے اپنا موبائل فون نکالا اور تھوڑی چھیڑ چھاڑ کرنے کے بعد میری طرٖ ف بڑھا یا۔۔
میں نے سوالیہ نظروں سے اُسکی طرف دیکھا اور موبائل تھام لیاکر اُسکی سکرین پہ نگاہیں جما دیں۔ایک ویڈیوچل رہی تھی۔۔
ویڈیو دیکھ کر خوف سے میری آنکھیں پھیل گئیں۔۔
ویڈیو کا ہر منظر واضح تھا۔۔کمرے کی دیواروں اور فرش پہ جابجا خون بکھرا نظر آ رہا تھا۔۔
پھر ایک منظر دیکھ کر میرے رونگٹھے کھڑے ہو گئے۔۔ایک ننگی لاش فرش پہ آڑھی ترچھی پڑی تھی۔۔
دفعتا کیمرہ کا رُخ لاش کے چہرے کی جانب ہو گیا۔۔میرا سانس ایک دم سے رُک گیا۔۔وہ عارف ہی تھا۔۔
اُسکا چہرہ خون سے لتھڑا بہت بھیانک لگ رہا تھا۔۔اُس کا جسم زور زور سے جھٹکے کھا رہا تھا۔۔یوں لگ رہا تھا جیسے وہ رفتہ رفتہ زندگی کی بازی ہار رہاہو۔۔
پھر کیمرہ گھومتا گیا۔۔اب کی بار ایک سیاہ کپڑوں میں ملبوس وجود کو کیمرے نے اپنی اکلوتی آنکھ میں محفوظ کیا۔۔جیسے ہی اُس وجود کا چہرے نظر آیا۔۔میری آنکھیں خوٖ ف سے پھٹی کی پھٹی ہی رہ گئیں۔۔میرے ماتھا پسینے کے ٹھنڈے قطروں سے بھر گیا۔۔
وہ مناہل تھی۔جو منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا رہی تھی مگر شاید ویڈیو میں آوز ریکارڈ نہ ہو سکی تھی۔۔
اچانک اُس نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا۔۔
اُسکا چہرہ بہت بھیانک لگ رہا تھا۔۔مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ مناہل نہیں کوئی خون آشام چڑیل ہو جو اپنے شکار کا خون پینے کے بعد سرشاری سے قہقہے لگا رہی ہو۔۔میری ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی ایک سرد لہر دوڑ گئی۔۔
اچانک پھر وہ ہویا جسکی توقع میں کبھی بھی مناہل سے نہ کر سکتا تھا۔۔
ایسا کرہیہ اور خوفناک منظر جوبھی دیکھ لیتا خوف سے بیہوش ہو جاتا۔۔
مجھ سے یہ منظر نہ دیکھا گیا اور میں نے کپکپاتے ہاتھوں سے موبائل فون خوشبخت کو دے دیا۔۔اور اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کرنے لگا۔۔علی نے شاید مجھ سے پہلے ویڈیو یکھ لی تھی اس لئے خوشبخت نے موبائل فون جیب میں ڈال لیا۔۔
وہ دونوں میرادھواں دھواں ہوتا چہرہ دیکھ رہے تھے۔۔
میں چئیر پہ گرا لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔۔چند لمحوں بعد میرے اوسان بحال ہوئے ۔۔
میں ایک دفعہ ستارہ سے ملنا چاہتا ہوں۔۔میں نے پہلی بار اُس کے اصل نام سے پکارتے ہوئے خوشبخت سے کہا۔۔
میں کوشش کروں گا اس بات پہ اُسے راضی کرنے کی۔وگرنہ اُس نے سختی سے منع کیا ہے۔۔خاص کر آپ سے تو وہ بالکل بھی نہیں ملنا چاہتی۔وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔
میرے دل سے ہوک سی اُٹھی۔۔میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔۔
کیوں؟ آخر کیوں کر رہی ہو تم ایسا جان ؟ ایسا کیا قصور کی میں نے جس کی اتنی بڑی سزا دی رہی ہو۔۔میں نے تاسف سے سوچا۔۔
میرے خیال میں اب مجھے چلنا چاہیئے۔۔خوشبخت اُٹھتے ہوئے بولا۔۔اُس نے میرا کندھا تھپتھپایا اور صبر سے کام لینے کی نصیحتیں کرتا ہوا لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔۔
علی جو اس دوران زیادہ تر خاموش رہا تھا اُسے گیٹ تک چھوڑنے چلا گیا۔۔
علی کی واپسی پندرہ بیس منٹ بعد ہوئی۔۔
وہ تھکے ہارے انداز میں چئیر پہ ڈھے گیا۔۔
مناہل بھابھی نے بہت جلدی کی۔وہ چند لمحوں بعد بولا۔۔
یہ نادانی بہت مہنگی پڑے گی ۔۔اب اُنھیں پھانسی کے پھندے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔۔
انھیں سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے راؤ عالم سے مل لینا چاہیئے تھا۔۔ہو سکتا کوئی حل وہ نکال لیتا۔۔یا پھر کسی طریقے سے وہ کیس کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا۔۔
یہ کیس کمزور نہیں ہو سکتا۔۔میں نے دُکھ بھرے لہجے میں کہا۔۔
وجہ چاہے کوئی بھی ہو مناہل نے قتل کیا ہے جس کی ویڈیو بن چکی ہے جس میں وہ بڑی بے رحمی سے عارف کو موت کے گھاٹ اُتا ر رہئ ہے۔۔عارف نےاُس سے زیادتی کی ۔جسکی پاداش میں اُسکو یہ سزا ملی مگر قانون کی نگاہ میں یہ جرم ہے۔۔قانون کو خود کے ہاتھ میں لینا تو بہت بڑا جرم ہے۔۔اب عارف اس حرامزدگی کے با وجود بھی نیک اور شریف انسان رہے گا۔یہ لوگ اُس حرام زادے کو صدیوں تک اپنا ہیرو مانتے رہیں گے۔ ۔جبکہ ستارہ معصوم اور بیگناہ ہونے کے باوجود بھی قاتل کہلاتی رہے گی۔۔آخری بات میں نے زہر خند لہجے میں کہی۔۔
یار وکیلوں کے پا س ہزاروں توڑ ہوتے ہیں۔۔راؤ عالم کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لیتا۔۔تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کیس کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔۔میں وکیل تو نہیں ہوں مگر ہزاروںکمزور پہلواس کیس کے نکال سکتا ہوں۔۔مثلا میں اس ویڈیو کو ہی جعلی ثابت کر نے کی کوشش کرتا۔اب وہ ویڈیو بیشک اصلی ہے مگر میں گارنٹی دیتا ہوں اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کئی مہینے درکار ہوتے۔۔میڈم سلطانہ کا وکیل اشرف علی بیگ ہے۔۔اُس سے بھی جان پہچان نکال لی تھی میں نے۔۔اُسکی منت سماجت کرنی پڑتی یا پیسوں کی بوریاں بھربھر کے دینا پڑتی ہم دے دیتے۔۔پھر راؤ عالم جیسا کائیاں بندہ اپنے تمام تر حربے لگا تا۔۔
غرض کہ یہ کیس سالوں میں ختم ہونا تھا۔۔مگر مناہل بھابھی کے جزباتی فیصلے نے سارے ارمانوں پہ پانی پھیر دیا۔۔میری سمجھ میں نہیں آ رہا نادانی پیچھے کیا مقصد کاَ فرما ہے۔۔ علی بے لگام بولتا ہی چلا گیا۔۔
میں خاموشی سے اُسکی باتیں سُن رہا تھا۔۔۔
خوشبخت کہہ رہا تھا کہ مناہل کی ٹون دیکھ کر ایسا لگتا ہے وہ اپنے فیصلے پہ مطمئن ہے۔۔راؤ عالم سے مختصر ملاقات میں بھی وہ اپنے فیصلےپہ ڈٹی رہی تھی۔۔
اُس نے پورے ہوش و ہواس میں اپنا تحریری بیان دیا ہے۔ڈاکٹرز نے اُسکانفسیاتی چیک اپ کیا ہے جسکی رپورٹ کے مطابق وہ بالکل ٹھیک ہے۔۔
میرا دل غم سے بیٹھا جا رہا تھا۔میری سجھ۔ میں نہیں آ رہا تھا کہ مناہل ایسا رویہ کیوں کر اپنائے ہوئے ہے۔کیوں وہ ایک پل کے لئے بھی میرے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی۔
میں نے چئیر کی پشت پہ سر ٹکا دیا اور ٹھنڈے دل و دماغ سے اس مسئلہ کا حل سوچنے لگا۔۔علی اس دوران اُٹھ کر باہر چلا گیا۔۔میں ہر لحاظ سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے لگا مگر کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔۔
تھک ہار کے میں اپنے کمرے میں گیا اور بیڈ پہ اوندھے منہ گر گیا۔۔
شام کو اچانک جیسے گھر میں بھونچال آ گیا۔۔صبح سویرے علی جس سرپرائز کی بات کر رہا تھا ۔۔وہ شام کو مجھے مل گیا۔۔
ماں،ابا بھائی بھابھی بچوں سمیت مجھ سے ملنے آئے تھے۔۔مجھے خوشگوار حیرت جا جھٹکا لگا۔۔
میں اپنا دکھ چند لمحوں کے لئے بھول کر اُن سے ملنے ملانے میں مصروف ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تم میں زرا بھی انسانیت نہیں ہے خوشبخت۔کتنی آسانی سے تم نے میرے بھروسے کو توڑ دیا۔اتنا سب کچھ کرنے سے پہلے ایک بار مجھ سے کچھ بھی پوچھنا گوارا نہیں کیا۔۔اب کونسے میڈلز مل گئے اُس معصوم لڑکی کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا کر ..میں سب کچھ تمہارے گو ش و گزار کر دیتی۔۔اس حوالے سے بہت کچھ تم سے ڈسکس کرنا تھا۔۔مگر تم نے تو حد کر دی۔۔ ثبوت ملتے ہی بنا بتائے رفو چکر ہو گئے۔۔نہ مجھ سے اس دوران ملنے یا کچھ پوچھنے کی زحمت کی۔۔اپنا نمبر بھی بند رکھا۔۔میں تمہاری اس حرکت کو کیا سمجھوں؟؟
سلطانہ سر تا پا آتش فشاں بنی خوشبخت پر گرج رہی تھی۔۔
دیکھیں سلطانہ وہ آپکے شوہر کی قاتل ہے۔جسکی سزا اُسے ملنا ہی انصاف کے تقاضوں کوپورا کرتا ہے۔۔خوشبخت کھسیا کے بولا۔
کونسا انصاف کہاں کا انصاف ؟۔۔وہ غصے سے کانپتے ہوئے بولی۔۔اُس بیگناہ کو پھانسی کے پھندے پہ چڑھا دینے کو تم انصاف کہتے ہو۔۔مجھے نہیں چاہیئے ایسا انصاف ۔۔میں کبھی بھی ایسا نہیں چاہتی تھی۔۔
ستارہ نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔اُس نے وہی کیا جو ہر عصمت دری کرنے والے درندے کیساتھ کیا جاتا ہے۔۔اینڈ مائنڈ یور لیگویج۔۔اُس حرامی کو میں اپنا شوہر نہیں مانتی۔۔اگر مجھے موقع مل جاتا تو میں بھی وہی کرتی جو ستارہ نے کیا ہے اور اُسکی جگہ تم مجھے ہتھکڑیاں پہنا رہےہوتے۔۔
لیکن اُس نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔شی از مرڈرر۔میں مانتا ہوں اُسکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔لیکن اُن کو قانونی مدد لینی چاہیئے تھی۔اور اگر اُس نے عارف کو پہچان لیا تھا تو بجائے اُسے قتل کرنے کے اُس کے خلاف مقدمہ دائر کرتی۔۔اُسے پورا انصاف مل جاتا۔۔خوشبخت زچ ہو کر بولا۔۔
اُس نے جو کیا نالکل صیح کیا۔۔۔۔وہ ترکہ بہ ترکہ جواب دیتے ہوئے بولی۔تم پورے آفس میں کسی سے بھی پوچھ لو کوئی بھی ستارہ کی کردار کشی نہیں کرے گا۔۔پورے آفس کا سٹاف اُسکی پاکیزگی اور شرافت کی قسمیں کھاتا تھا۔۔وہ کوئی فاحشہ نہیں تھی ۔۔ایک عزت دار گھر کی عزت دار بیٹی تھی۔۔۔اگر وہ پولیس وغیرہ کے چکر میں پڑتی تو ساری زندگی گزر جاتی مگر انصاف نہ ملتا۔۔اُلٹا عارف کا پیسہ اُس کو ہی مجرمہ ثابت کر دیتا۔پورا تھانہ ،جج وکیل غرض ہر شے بک جانی تھی۔۔عارف اُلٹا ہتک کا کیس دائرکر کے معافیاں منگوانے پہ مجبور کر دیتا۔۔۔اگر تمہاراسو کالڈ قانون بڑی مچھلیوں کو اپنے دام میں لا سکتا تو ستارہ کبھی بھی نہ عارف کو قتل کرتی۔۔
خوشبخت نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔وہ غور سے اُس کے لال بھبھوکا ہوتے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔
سرخ و سپید چہرہ آگ اُگل رہا تھا۔۔
خوشبخت زور سے اُسے خود سے چمٹا لیا۔۔
ہٹیں ۔۔چھوڑیں مجھے۔۔نہیں کرنی مجھے آپ سے بات۔۔
وہ خود کو مضبوط اور چوڑے سینے سے چھڑوانے کی مزاحمت کرنے لگی۔۔مگر خوش بخت نے اُسکی نازک سی کمر پہ اپنی گرفت سخت کر دی اور مضبوطی سے اُسکے مرمریں وجود کو بھینچ لیا۔۔غصے کی کثرت سے وہ کپکپا رہی تھی۔۔پھر تھک کر مزاحمت ختم کر دی۔۔مجھے نہیں کرنی آپ سے بات۔۔وہ اُس کے سینہ پہ مکے مارتے ہوئے بولی۔۔چھوڑ یں مجھے۔۔
خوشبخت نے کوئی جواب نہ دیا اور بدستور اُسے خود سے چمٹائے رکھا۔۔
آخر کار وہ بھی خوشبخت کے وجود کی تپش سے ہار گئی اور اپنا سر اُس کے سینے پہ ٹکا دیا۔۔
کیوں کیا تم نے ایسا۔۔ صرف ایک بار مجھ سے پوچھ لیتے۔۔زیادہ نہ سہی چلو ایک فون تو کر دیتے۔۔
وہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔۔میں نے تم پہ اتنا بھروسہ کیا۔۔اپنا سب کچھ سونپ دیا۔۔مگر ۔۔خوش۔۔شاید تم مجھے کوئی بازاری عورت سمجھ بیٹھے۔۔جو اپنا تن من ایک ہی جھٹکے میں وار دیتی ہے۔۔وہ جی بھر کے خوشبخت کو شرمندہ کرتے ہوئے بولی۔۔
خوشبخت اپنے ہونٹ اُس کے کان کے پاس لایا ۔۔اُسکی سانسوں کی پھوار اپنے کان پہ محسوس کر کے وہ تڑپ سی گئی۔۔
ایم سوری۔۔وہ ہولے سے گویا ہوا۔۔
تم جو کہو گی وہی ہوگا۔۔
اب کیا ہو سکتا ہے ۔۔وہ روٹھے لہجے میں بولی۔۔
تم نے سوئی میں دھاگہ ڈال دیا ہے۔۔اب اُس بیچاری کو کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔۔
خوشبخت مزید شرمندہ ہو گیا۔۔ستارہ پہلی مجرم تھی جس کو قانون کے شکنجے میں جکڑنے کے باوجود بھی اُس کو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کچھ غلط کر بیٹھا ہے۔۔اُس کو دل کسی طور بھی مطمئن نہ ہوا تھا۔۔مگر وہ اپنی سخت گیر طبعیت کے ہاتھوں مجبور ہو گیا تھا۔۔
پلیز اگر تم کچھ کر سکتے ہو تو اتنا کر دو کہ اُسے پھانسی نہ ہو۔۔وہ بولی۔۔
قانون مجھےستارہ کو معاف کرنے کا اختیار دیتا ہے مگر میں نا چاہتے ہوئے بھی نہیں کر سکتی۔۔
حکومت ۔میڈیا اور ساری عوام میری دشمن بن جائیگی۔۔تم ہی کچھ کرو۔۔اُسے پھانسی نہیں ہونی چاہیئے۔۔۔
وہ منت بھرے لہجے میں بولی۔۔
تمہارے آنے سے تھوڑی دیر پہلے اُس کا شوہر آیا تھا۔۔
اچھا۔یہ سن کر وہ چونک کر بولا۔۔کیا بات ہوئی اُس سے۔۔کیا وہ اکیلاتھا۔۔
نہیں ایک اور آدمی بھی اُس کے ساتھ تھا۔۔وہ اپنا نام غزن بتا رہا تھا۔۔ساتھ والے آدمی کا نام مجھے یاد نہیں ہے۔۔۔وہ بولی۔۔
وہ علی رضا شیرازی ہوگا۔۔وہ دونوں ایک ہی کالج میں پڑھاتے ہیں۔۔خوشبخت پرسوچ لہجے میں بولااور سلطانہ کو اپنی گرفت سے آزاد کر کےاُسکے پہلو بہ پہلو چلتے ہوئے بیڈ لا یا۔۔وہ دونوںایک دوسرے کے سامنے کروٹ لئےبیڈ پہ لیٹ گئے۔۔ان کے چہرے ایک دوسرے کے قریب تھے اور سانسیں ہمکلام تھیں۔۔
خوش ۔۔سچ پوچھو تو مجھے بڑا ترس آیا اُس بیچارے پہ۔۔سلطانہ اُس کے سینے پہ ہاتھ رکھ کر بولی۔۔
اُسکی حالت بہت خراب تھی۔۔مجھے یوں لگ رہا تھا اگر ستارہ اُس کو نہ ملی تو وہ مر جائیگا۔۔وہ بار بار میری منتیں کر رہا تھا۔۔میرے آگے ہاتھ جوڑ رہا تھا۔۔میرے پاؤں پکڑ رہا تھا۔۔
میں اُسکی دیونگی پہ حیران تھی۔کاش مجھے بھی ایسا کوئی چاہنے والا مل جاتا۔۔
وہ رشک بھرے لہجے میں بولی۔۔
اُسکی آخری بات سُن کر خوشبخت کا چہرہ دھواں ہو گیا۔۔
سلطانہ ۔۔یوں نہ کہو۔۔خدا جانتا ہے میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں۔۔وہ تڑپ کے بولا۔۔
پیار کرتے تو یوں اس طرح میرا بھروسہ نہ توڑتے۔۔۔۔چوروں کی طرح میرے فون سے ویڈیواُڑائی ۔۔میں جانتی ہوں تم نے اپنے آپ کو ہیرو بنانے کے واسطے اتنا کھڑاک کیا۔۔وہ روٹھے لہجے میں شکوہ کرتے ہوئے بولی۔۔
وہ ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گیا۔۔
جانِ من ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔وہ اُسکا دمکتا ملائم ہاتھ تھام کر بولا۔۔
میں آپکو کیسے یقین دلاؤں کہ یہ دل
آپکو کتنا چاہتا ہوں۔۔میں مانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔۔میں نےآپ سے بنا کوئی مشورہ کئے اتنا بڑا قدم اُٹھایا ہے۔۔لیکن آپ میری مجبوریوں کو نہیں سمجھتیں۔۔مجھ پہ بے تحاشا پریشر تھا۔۔عارف کے قتل کا کوئی سراغ نہ مل رہا تھا۔۔اوپر بیٹھے حکام مجھے مسلسل ذہنی ٹارچر کر رہے تھے۔۔میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی یہ معمہ حل نہ کر پایا تھا۔۔
ایسے میں یہ دونوں حضرات(علی اور غزن) ستارہ کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوانے آتے ہیں۔۔
پھر وہ سلطانہ کو ایک ایک بات بتاتا گیا۔۔سلطانہ حیرت سے منہ کھولے سنتی رہی۔۔
میں نے اُس علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا تھا ۔۔کیوں کہ یہ علی کے دوست کی زندگی کا معاملہ تھا۔۔اور میں ہر صورت اُس کے اغوا کاروں کو نشانِ عبرت بنانا چاہتا تھا۔۔ مگر کسی اظہر اور زلفی نامی شخص کا پتا نہ ملا۔۔دونوں فرضی کردار تھے۔۔خوشبخت تیز تیز لہجے میں بولتا گیا۔۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ پھر جب میں نے تمہارے موبائل میں مناہل کو عارف کا قتل کرتے دیکھا تو میں بھونچکا رہ گیا۔میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ مناہل کا عارف سے کیا تعلق۔۔عارف کو قتل کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔۔۔پھر بعد میں مزید انویٹیں گیشن سے ساری کہانی کی سمجھ آ گئی۔اُس کے آفس سے مجھے پتا چلا کہ وہ مناہل نہیں ستارہ سکندر ہے اور وہ اسسٹنٹ مینیجر تھی۔۔لیکن مجھے پھر بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ عارف کو اُس نے قتل کیوں کیا؟؟۔۔ستارہ اُس رات زلفی یا اظہر سے نہیں بلکہ عارف کو قتل کر بھاگ رہی تھی۔۔تو پھر کچھ اوباش لوگوں نے اُس کا پیچھا کیا جن سے چھپتی چھپاتی وہ علی کے دوست غزن کے ہاں پہنچی۔۔پھر بعد میں کسی وجہ سے اُس سے شادی کر لی۔۔
لیکن پھر مسئلہ وہی تھا۔۔ستارہ کو ڈھونڈنے کا۔۔۔وہ غزن کو چھو ڑ کر تو جا چکی تھی مگر کہاں ۔۔یہ کوئی بھی نہ جانتا تھا۔۔میں نے اُسکی خالہ کے گھر بھی تفتیش کی غرض سے گیا۔۔لیکن وہ وہاں بھی نہیں تھی۔۔پھر مجھے کسی نے بتا یا کہ کسی ڈاکٹر برہان نامی شخص سے سکندرکے بہت اچھے تعلقات تھے۔۔میں اُسکے ہاں پہنچا تو پتا چلا کہ وہ اُسکا اتا پتا نہ ہونے کی وجہ سے خود پریشان تھے۔۔ڈاکٹر برہان سے بہت طویل گفتگو ہوئی جس میں انھوں نے ایک لرزہ خیز انکشاف کیا۔۔انھوں نے بتا یا کہ کچھ ماہ پہلے ستارہ کو کسی نے آغوا کر کے درندگی کا نشانہ بنا دیا تھا۔اب سارے کیس کی کہانی مجھے سمجھ آ گئی تھی۔۔۔پھر جب میں نے ڈاکٹر برہان کو وہ ویڈیو دکھائی تو وہ بھی ساری حقیقت کو سمجھ گئے۔۔
میرے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔۔مجھے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔۔میں نے ہر ممکنہ جگہ جہاں ستارہ کے پکڑے جانے کی اُمید ہوتی چاپے مارے مگر یوں لگتا تھا جیسے اُسے زمین کھا گئی تھی یا آسمان نگل گیا تھا۔۔
پھر مجھے ستارہ کا اپنے شوہر کو لکھا آخری خط یاد آیا۔۔جس میں اُس نے کہیں دور جانے کا لکھا تھا جہاں وہ اُسکی گرد کو بھی نہ پا سکے۔۔
میرے ذہن میں فورن یہ بات آئی کہ ہو نہہ وہ لازمی پاکستان چھوڑ کر باہر بھاگنے کا پلان نہ کر رہی ہو۔۔
میں نے اپنے شک کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سارے ائیر پورٹ کے دفاتر میں اُسکی تصاویر بھجوا دیں اور اس بات کو انتہائی خفیہ رکھنے کا کہا۔۔
کیوں کہ اگر یہ بات میڈیا ت پہنچ جاتی تو ستارہ چوکنی ہو جاتی۔۔
پھر میری توقع کے عین مطابق وہ لاہور سے اسلام آباد گئی۔جہاں ائیر پورٹ پہ میں نےاُسے اپنی خصوصی ٹیم کے ہمراہ دھر لیا۔۔
خوشبخت واقعات سے آگا کرتے ہوئے بولا۔۔
ہممم۔۔یہ ستارہ بہت ہی ذہین ہے۔۔اُس نے بھی بڑی زبردست پلاننگ کی تھی۔۔سلطانہ ہنکارا بھرتے ہوئے بولی۔۔
اُس کے ذہین ہونے میں کوئی شک نہیں۔۔خوشبخت سنجیدگی سے بولا۔۔
بلاشبہ اُسکی تدبیریں اسکی زہانت کو عیاں کرتی ہیں مگر تقدیر کبھی کبھار تدبیر پہ بھاری پڑ جاتی ہے۔۔
اُس نے دو اچھے بھلے پروفیسر صاحبان اپنی کہانیوں سے راستے لگائے رکھا۔۔لیکن اُسکی تمام تدبیریں کام نہ آ سکیں اور تقدیر اپنی چال چل گئی۔۔
آپ یقین کریں میں ذہنی طور پہ بہت ڈسٹرب تھا۔۔آج تک کوئی ایسا کیس میری سروس میں نہیں آیا جسے میں حل نہ کر سکا۔۔ تو جب مجھے وہ ویڈیو ملی تو مجھ پہ شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔۔تو میں نے جزبات میں بے قابو ہو کر اتنا کچھ کر دیا۔۔آپ کے علاوہ علی رضا جو میرا بہت اچھا دوست ہے اور گھریلو تعلقات بھی ہیں سے بھی بہت کچھ چھپایا۔۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں آپ سے محبت نہیں کرتا۔بس میرا خود پہ اختیار نہ رہا تھا۔۔
وہ شرمندہ لہجے میں بولا۔۔
کتنے خود غرض ہیں آپ خوش۔۔آپ اپنی محبت کا یقین پوری شد مد سے دلا رہے ہیں مگر کسی اور کی محبت چھین لی ہے۔۔وہ تاسف سے بولی۔۔
خوشبخت کو یوں لگا جیسے اُس کے منہ پہ طمانچہ مار دیا گیا ہو۔۔
خجالت سے وہ سر جھکا کر رہ گیا۔۔پھر چند لمحوں بعد گویا ہوا۔۔
میں پوری کوشش کروں گا کہ سزائے موت نہ ہو سکے۔۔
سلطانہ سر ہلا کر رہ گئی۔۔
ایم سوری جان۔۔چند لمحوں بعد خوشبخت گویا ہوا۔۔
سلطانہ نے اپنی آنکھیں اُس کی آنکھوں میں گاڑھ دیں اور اثبات میں سر ہلا دیا گویا معافی دے دی گئی۔۔
خوشبخت نے اُسے بالوں سے پکڑ کر خود کے قریب کیا اور اُس کےنرم و گداز لبوں کو اپنے لبوں میں بھر کے چوسنے لگا۔۔وہ سلطانہ کے تپتے لبوں کا رس غڑپ غڑپ کر کےپینے لگا۔گرم مہکتے،بہکتےجذبات کی تمازت سے سلطانہ کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔۔اُسکی نیلگوں آنکھوں سے چھلتا خمار کسی زاہد خشک کا ایمان متزلزل کرنے کو کافی تھا۔ وہ شباب کا چھپا خزینہ تھی۔۔جس کو بڑی مشکلوں سے وہ پا کر مسرور ہو رہا تھا۔۔
اُسکا لن اب فل اکڑ گیا تھا۔۔جسکی سختی سلطانہ اپنی ران پہ محسوس کر رہی تھی۔۔خوشبخت کا چہرہ سلطانہ کے منہ سے نکلنے والے رس سے لتھڑا ہوا تھا۔۔وہ پوری شدت سے اُس کے لبوں کو بنا سانس لئے چوسے جا رہا تھا۔۔دونوں کی گرم گرم سانسیں ایک دوسرے سے ٹکرا کے آتشِ شوق کو بھڑ کا رہی تھیں۔۔کافی دیر لبوں سے شہد نچوڑنے کے بعد خوشبخت نے اُس کے مخملی لبوں کو اپنے لبوں کے بے رحم شکنجے سے آزاد کر دیا۔۔
سلطانہ ہانپ کے چت ڈھے گئی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی گویا میلوں دوڑ کر آئی ہو۔۔خوشبخت نے جلدی سے اپنی پینٹ اُتار دی۔۔وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔جیسے ہی پینٹ اُتاری اُس کا پھڑپھڑاتا لن باہر نکل کر چھت کو گھورنے کی سعی کرنے لگا۔۔
سلطانہ غور سے اُسکی حرکات و سکنات کو دیکھ رہی تھی۔۔پینٹ اُتارنے کے بعد وہ اُسکی طرف متوجہ ہوا جو غور سے اُسکے لن کو دیکھ رہی تھی۔۔
اُس نے آگے بڑھ کر اُسکی شرٹ اور ڈھیلا ڈھالا سا ٹراؤزر اُتار دیا جس میں سلطانہ نے تعاون کیا۔۔
اب وہ صرف برا اور پینٹی میں تھی۔۔
تیز روشنی میں پہلی بار خوشبخت نے اُسکا دودھیا سپید جسم دیکھا۔۔وہ حیرت سے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔
سلطانہ کا جسم انتہائی شفاف اور ملائم تھا جس میں وینز صاف دکھائی دے رہی تھیں۔۔
جسم پہ بالوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔۔چاندی کی مانند چمکتی ٹانگیں اور بھر بھری رانیں دل کی دھڑکن کو خطرناک حد تک بڑھا رہی تھیں۔۔خوشبخت نے اپنی شرٹ بھی اُتار دی اور بھوکوں کی طرح پل کر اُسکے مر مریں بدن کو بھنبھوڑنے لگا۔۔وہ اُس کے جسم کے ہر حصے کو کاٹ رہا تھا۔۔جس پہ دانتوں کے جا بجا نشان پڑ رہے تھے۔۔پھر ایک جھٹکے سے اُس نے سلطانہ کا سبز مائل برا اُتار دیا۔۔
اُف۔۔۔خوشبخت کا سانس رُک گیا۔۔
سلطانہ کی دلفریب چھاتیوں کی گولائی انتہائی دلفریب تھی۔پہلی بار کی چدائی میں مدھم روشنی کی وجہ سے وہ اچھی طرح دیدار نہیں کر سکا تھا ۔۔ آج یہ حسرت بھی پوری ہو گئی تھی۔۔
برا کاواضح نشان اسکی چھاتیوں پہ نمایاں تھا۔۔اور یہ نشان غالبن ٹائٹ برا پہننے کی وجہ سے پڑ گیا تھا۔جسکی وجہ سے چھاتیوں کی سفیدی باقی جسم سے تھوڑی زیادہ تھی۔۔
خوشبخت چند لمحے یہ نظارا دیکھتا رہا پھر لپک کر ایک چھاتی کے اُبھار کو منہ میں بھر کے چوسنے لگا۔۔
سسس سسس۔۔سلطانہ کے لبوں سے سسکاریاں پھوٹ پڑی۔۔وہ آنکھیں بند کر کے اپنے لبوں کو کاٹتے ہوئے لذت سے سسکنے لگی۔۔
خوشبخت منہ اُن مقناطیسی اُبھاروں سے چپک گیا۔۔وہ مزے لے لےکر چوس رہا تھا اور ساتھ میں ہولے ہولے کاٹ بھی رہا تھا جس سے اُٹھنے والے مزے کی شدت سے سلطانہ کی سسکاریاں تیز ہو جاتیں۔۔
کاٹنے اور مسلنے سے سلطانہ کی چھاتیویاں لال ہو گئیں تھیں۔۔خوشبخت کا دل اپنی پسندیدہ ڈش سے بھر نہ رہا تھا مگر آگے بڑھنا بھی ضروری تھا۔۔
اُس نے سلطانہ گیلی ہوئی جامنی پینٹی اُتار کر ایک سائڈ پہ رکھ دی اور سلطانہ کی ٹانگیں پھیلا کر گیلی چمکدار پھدی کو غور سے دیکھنے لگا جس کے لبوں سے اُمڈتا رس خوشبخت کے حواس معطل کر رہا تھا۔۔
بالوں سے پاک چمچماتی پھدی خاصی اُبھری ہوئی تھی جس کے لب باہم ملے ایک دوجے کو بوسہ دے رہے تھے۔۔
خوشبخت نے آئیستگی سے اپنا ہاتھ ان لبوں پہ پھیر دیا۔۔اہہہ،،اہہہ۔اہہہہ۔۔۔سلطانہ کے جسم کو جھٹکا لگا اور بے اختیار اُس نے اپنی ٹانگیں جوڑنی چاہیئں مگر خوشبخت نے ایسا نہیں ہونے دیا۔۔اُس نے دوبارہ اُسکی ٹانگیں اُسی پوزیشن میں بیڈ پہ پھیلا دیں۔۔
پھر چند ہی لمحوں بعد اُسنے اپنے لن پہ تھوک لگایا اور اُسکی گیلی ہوتی پھدی کے سوراخ پہ رکھ کرسلطانہ کی آنکھوں میں جھانکا ۔۔گویا اپنے محبوب کی اجزات درکار ہو۔۔سلطانہ نے اپنے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ لیا۔۔اور آنکھیں بند کر لیں۔۔
خوشبخت نے ایک ہلکا سا جھٹکا مارا اور لن کی ٹوپی سلطانہ کی پھولوں جیسی نازک پھدی میں اُتر گئی۔۔
آہہہ۔۔سلطانہ مزے کراہی۔۔
خوشبخت نے ایک اور شدید جھٹکا مارا اور اُسکا لن جڑ تک مخملی پھدی کی نرم و نازک اتھا ہ گہرائیوں میں اُترتا گیا۔۔
خوشبخت کی خود بھی مزے کی شدت سے کراہ نکل گئی۔۔
وہ جھٹکوں پہ جھٹکے مارتا لن کو آرے کی طرح چلاتا پھدی کو کاٹ رہا تھا۔۔
سلطانہ بھی بھرپور ترنگ میں جھوم رہی تھی۔۔اُسنے اپنی ٹانگیں خوشبخت کی کمر کے گرد کس لی تھیں۔
خوشبخت پوری طاقت پانے لن میں مجتمع کئے اُسکی پھدی کی دھجیاں اُڑا رہا تھا۔۔
پچک پچک کی آوازوں اور سلطانہ کے لبوں سے لکلتی مزے کی سسکاریاں خوشبخت کے جوش و خروش میں اضافہ کر رہی تھی جس سے وہ اپنے جھٹکوں کی رفتار میں اضافہ کر رہا تھا۔۔
پھر یکدم سلطانہ کا جسم اکڑنے لگا۔۔جسکی وجہ سے اُسکی پھدی مزید ٹائٹ ہو گئی تھی۔۔خوشبخت بھی اپنی آخری سانسوں پہ تھا۔۔
ایک زور کی سسکاری سلطانہ نے لی۔۔ اُسکی ہمت ٹوٹ گئی اور اُسکی پھدی نے پانی برسانا شروع کر دیا۔۔خوشبخت بھی تین چار جاندار جھٹکے مارنے کے بعد اُسکی گرم پھدی میں چھوٹ کے ایک سائڈ پہ ڈھے گیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔۔
سلطانہ ہنوز آنکھیں بند کئے ہوئے اب تک مزے کی گزر جانے والی شدت کو محسوس کر رہی تھی۔۔
کچھ ہی دیر میں دونوں نارمل ہو گئے۔۔اور سلطانہ خوشبخت کو اپنی پلاننگ سمجھانے لگی۔۔
خوشبخت پوری توجہ سےسنتا رہا اور اثبات میں سر ہلاتا گیا۔۔
تمام پلان سننے کے بعد خوشبخت بولا۔۔
خیال مناسب ہے۔۔میں ابھی سے اس پہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔۔میری جان کا حکم سر آنکھوں پر۔۔وہ پیار سے بولا۔۔
سلطانہ محبت پاش نظروں سے اُسے دیکھتی گئی اور لپک کر اُس کے گلے میں جھول گئی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سال گزر گئے تھے۔اس عرصہ میں بہت کچھ بدل گیا ۔ستارہ کو عمر قید ہو گئی ۔۔میں اور علی نے بہتیری کوششیں کیں مگر کہیں بھی سنوائی نہ ہوئی۔عارف کی بیوہ سلطانہ عارف کی منت سماجت کا بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔اُسکا کہنا تھا کہ وہ اچھی طرح جانتی ہیں ستارہ بیگناہ ہے اور اُسنے اپنی عصمت کے لٹیرے کیساتھ وہی سلوک کیا ہے جس کا وہ مستحق تھا۔لیکن وہ مجبور ہے۔۔ستارہ کا کھل کر ساتھ نہیں دے سکتی۔عارف کے کاروباری پارٹنرز اور اُس کے ٹرسٹ کے پیسوں پلنے والے لاکھوں لوگ عارف کو انتہائی شریف اور نیک سیرت سمجھتے ہیں۔تو اگر وہ ستارہ کے حق میں کوئی بیان دے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی نے عارف کے کردار پہ اُنگلی نہیں اُٹھانی۔بلکہ ستارہ کو کے لئے اُسکی سپورٹ کو بیوفائی پہ محمول کر سبھی اُس کیخلاف متحدہو جائیں گے۔۔۔سازشیں ہو گیں اورعوام کے اس اشتعال کو دیکھتے ہوئے سرکارِ وقت کوئی قدم اُٹھانے پہ مجبور ہو جائیگی۔۔ہو سکتا ہے عارف کے سارے اثاثے ضبط کر لئے جائیں۔۔میں اکیلی عورت تن تنہاکسی کا کیا بگاڑ سکتی ہوں۔
عوام کا کردار پاکستان میں بھیڑ بکریوں سے زیادہ کا نہیں رہا۔۔جو بھی رسی تھام کر جدھر بھی ہانکا کر لے گیا یہ مظلوم قوم سوچے سمجھے بغیر وہیں چل پڑتی ہے۔۔پھر جب گڈریا نما حکمران اپنا مقصد حاصل کر لیتے ہیں پلٹ کر خبر بھی نہیں لیتے۔۔
ہم نے اپنی پوری کوشش کر کے دیکھ لی تھی۔۔لیکن ستارہ کے خود کے لاپرواہ رویئے کی وجہ سے کچھ نہ بن پایا۔۔میں نے اُس سے ملنے کی کئی بار کوشش کی مگر اُس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ غزن نامی کسی بندے کو جانتی ہے نہ ہی ملنا چاہتی ہے۔۔ستارہ کی اس بے رُخی سے دل کٹ گیا تھا۔۔
میں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور گھر میں مقید ہو کے ہی رہ گیا۔۔ماں بابا اور کئی غمگساروں نے میرا غم بانٹنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔یہ ایسا غم تھا جو بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
ستارہ میرے لئے حسن بانو بن کر رہ گئی تھی اور میں حاتم طائی۔۔جو اُس کے سات سوالوں کے جواب ڈھونڈنےکوہِ ندا کا رُخ کرتا ہے اور طلسماتی قوتوں میں پسیج کر رہ جاتا ہے۔۔
میں اُس کو پانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا مگر اُسکی بے رُخی میری راہ میں حائل ہو جاتی تھی۔خدا جانے میری زات سے اُس کیا بیر تھا جس کاسایہ بھی خود پہ نہیں پڑنے دینا چاہتی تھی۔۔میر ی حالت قابل رحم تھی۔جو بھی دیکھتا اُسے بے اختیار ترس آ جاتا۔مگر میرا سنگدل محبوب نا جانے کیوں مجھ سے خار کھائے ہوئے تھا۔
اب تو دیمک بھی کھا کے چھوڑ گئی
تیری یاد کے زنگ لگے دروازے کو
میرا وجود سوکھ کے کانٹا بن چکا تھا۔گال پچک اور آنکھںج دھنس گئیں تھیں۔میں اپنے منحنی سے وجود کو لئے ستارہ کی یادوں کے سہارے اپنے دن پورے کر رہا تھا۔۔۔
عشق ایک میٹھا زہر ہوتا ہے جسکے اثرات آئیستہ آئیستہ پورے رگ رپے میں سرایت کر جاتے ہیں۔۔جب تک محبوب کے دیدار کی دھیمی آنچ آنکھوں پہ پڑتی رہتی ہے اس زہر کا توڑ ہوتا رہتا ہے۔اور جب محبوب آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تب یہ عاشق کو تڑپا تڑپا کر نیم جان کر کے زندگی اور موت کے سنگم میں لا چھوڑ دیتا ہے۔۔ نہ جینے دیتا ہے نہ مرنے دیتا ہے۔۔عشق کا سفر بلاشبہ بہت کٹھن ہے۔ابتدا میں لوگ اس سفر پہ بہت شوق سے روانہ ہوتے ہین مگر جلد ہی خاردار راستوں کی صعوبتیں ناقابلِ برداشتہ ہو جاتی ہیں اور وہ اُلٹے پاوں دوڑتے ہوئے واپس آن کھڑے ہوتے ہیں۔
مگر میں ثابت قدمی سے ڈٹا ہوا تھا۔۔میرا وجود دھیرے دھیرے میرا ساتھ چھوڑ رہا تھا مگر میرا عزم پختہ ہوتا جا رہا تھا۔۔
بڑے بڑے ڈاکٹرز سے میرا علاج کروایا گیا مگر کوئی افاقہ نہ ہورہا تھا۔ڈاکٹرز کے مطابق مجھے کوئی بیماری نہ تھی۔اُنھیں کیا خبر مرے مرض کی۔جو لاعلاج ہے۔۔کاش عشق کا علاج کوئی طبیب کر پاتا۔تو دنیا جنت ہوتی۔۔مگر ہائے افسوس۔۔عشق لاعلاج ٹھہرا۔۔ماں کا رو رو کر برا حال تھا۔وہ ہر روزگھنٹوں میرے سرہانے بیٹھ کر روتی رہتی اور میں خالی خالی نظروں سے انھیں دیکھتا رہتا۔وہ مجھے ستارہ کو بھول جانے اور ایک نئی زندگی کی شرعات کرنے کی ترغیب دیتیں مگر میرے لئے دنیا کی رنگینیاں ہیچ ہو چکی تھیں۔میں ماں کو جب کوئی جواب نہ دے پاتا تو وہ ستارہ کو کوستے ہوئے چلی جاتیں جو میرے دل پہ گراں گزرتا۔۔۔علی بھی ماہا بھابھی کیساتھ کئی بار اس اُمید پہ گھر آیا کہ شاید اب کی بار اُسکا استقبال وہی ہنستا اور بچوں کی طرح قلقاریاں مارتا غزن کرے گا مگر وہ دن کبھی نہ آتا اور وہ مایوس ہو کر چلا جاتا۔میرے رفو گر اس تار تار ہوئے وجود کی ناکام رفو گری کر رہے تھے۔جس کا جب انھیں احساس ہوا تو مجھے میرے حال پہ چھوڑ دیا گیا۔۔اب میں تھا اور میری لامتناہی تنہایاں۔ستارہ کی یادوں میں ہی کھویا میں اپنے گردونواح میں ہونے والی کسی بھی سرگرمی سے ناآشنا تھا۔میراسایہ ہی میرا رفیق اور گم گسار تھا۔
ستارہ کی یادوں سے ہر وقت میری آنکھیں بھیگی ڈبڈبائی رہتیں۔ہر وقت میں خدا سے اُسے مانگتا اور کسی معجزے کی التجا کرتا۔مگر شاید خدا کے حضور میری فریاد کی سنوائی کا وقت نہ ہوا تھا۔۔یا پھر میری خواہش کسی دیوانے کا خواب تھی جو کبھی پورا نہ ہو سکتی مگر میں دن رات خدا سے شکوہ کناں بس ستارہ ستارہ کی گردان کرتا رہتا۔۔
کبھی مایوس ہو جاتا تو کبھی موہوم سی اُمید کے سہارے میری عبادت پھر سے جاری ہو جاتی۔
گرمیوں کے دن تھے۔۔میں اپنے کمرے میں ہی پڑا اپنے نصیبوں کو کوس رہا تھا کہ اچانک زور سے دروازا کھلا ۔
میں جو اوندھے منہ پڑ ا تھا ہڑابڑا کے اُٹھ کے بیٹھ گیا۔
آنے والے میرےبڑے بھائی طارق تھے۔۔جنکی آنکھوں میں غصہ ،پیار،دکھ اور افسوس جیسے ملےجلے تاثرات تھے۔
بھائی سب خیریت تو ہے۔میں نے کانپتے دل کیساتھ پوچھا۔
نہیں ۔خیریت نہیں ہے۔وہ رنجیدہ لہجے میں بولے اور میرے قریب آ کر بیڈ پہ بیٹھ گئے۔
کک کیا ہوا۔میں کپکپاتے لہجے سے پوچھا۔میرا دل انجان خدشات سے دھڑک رہا تھا۔
بہت کچھ ہو گیا ہے اور تم کو کوئی اندازا نہیں ۔وہ افسوسناک لہجے میں بولے۔۔
کچھ بولیں بھی۔۔ماں بابا کہاں ہیں سب ٹھیک تو ہے نہ؟؟اب کی بار میں نے رو دینے والے لہجے میں پوچھا۔۔
بھائی تاسف سے سر ہلا کر رہ گئے۔۔
وہ ٹھیک نہیں ہیں ۔۔دن رات روتے رہتے ہیں اُنکی آنکھوں کا تارا چھوٹا بیٹا جس میں اُنکی جان ہے وہ کہیں کھو گیا ہے۔۔تلاش کر کر کے تھک گے ہیں لیکن نہیں مل رہا۔۔دن رات اُنھیں اُس تلاش گم دہ کی فکر کھائے رہتی ہے۔۔اُسکی فکر میں گھل کر وہ اتنے دبلے ہو گئے ہیں کہ مجھے اب ڈر لگنے لگا ہے کہ یہ روگ جس طرح ان کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے کہیں وہ ۔۔۔۔۔
میں نے جلدی سے اُن کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں طارق بھائی۔میں نے گلو گیر لہجے میں کہا۔۔میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔۔
تو کیا کہوں۔۔وہ میرا ہاتھ اپنے چہرےمنہ پر سے ہٹاتے ہوئے بولے۔۔
تم تو مجنوں بنے اپنی لیلیٰ کے فراق میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہو۔۔
تم کو کوئی خبر بھی ہے کہ تمہاری یہ حالت دیکھ کر ماں بابا کتنا کڑھتے ہیں۔۔ماں سارا دن روتی ہیں مگر تم ٹس سے مس نہیں ہوتے ہواوربستر سے لگے رہتے ہو۔اتنے سال گزر گئے ہیں تم نے گھر سے باہر جھنک کر نہیں دیکھا۔۔۔کیا ساری زندگی بس خود اسی طرح تڑپتے ،سسکتے گزار دو گے۔؟
خدا کے واسطے مجھے بتا دومزید کتنے سالوں تک ستارہ کا ماتم کرنا ہے تم نے۔تاکہ میں اُن دو بوڑھوں کو کوئی تسلی دے سکوں۔۔
ہمیشہ ہنستے ہنساتے بھائی آج غصے میں آگ اُگل رہے تھے۔
ماں بابا کی تشویش اور فکر مندی سے میں باخبر تھا لیکن میرا دل میرے اختیار میں نہئں رہا تھا۔۔ہزار کوششوں کے باوجود بھی میں دل میں دنیا کی کسی بھی رنگینی کے لئے لگاؤ پیدا نہ کر سکا۔ہر چیز سے گویا بغاوت ہو گئی تھی۔ستارہ کی یادیں ہی میرا اوڑھنا بچھونا تھیں۔۔جن سے میں قطعی طور پہ دستبردار نہیں ہونا چاہتا تھا۔۔
بھ بھائی میں کیا کروں۔میرا خود پہ کوئی اختیار نہیں ہے۔۔میں نے پھنسی آواز میں کہا۔۔
بھائی ایک گہرا سانس لے کر رہ گئے۔۔
پھر گویا ہوئے۔
دیکھو غزن میں جانتا ہوں تمہارے دل پہ کیا بیت رہی ہے۔لیکن اس سارے واقعہ میں غلطی سراسر تمہاری خود کی ہے۔پہلی بات تو یہ کہ تم نے ہم سے اتنی بڑی بات چھپا کر اتنا بڑا کام کیا۔۔ہم تمہارے بڑے ابھی زندہ تھے۔تم کو کم سے کم ہمیں تو کچھ بتانا چاہیئے تھا۔۔جس شادی، نکاح میں بزرگوں اور والدین کی دعانہ ہو اُس کاحال ایسا ہی ہوتا ہے۔۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ لازمی تمہیں ہم کو شامل نہ کرنے کی سزا ملی ہے۔۔میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہمیں پہلے سے ہی سب کچھ پتا ہوتا تو ہم کوئی نہ کوئی توڑ نکال لیتے اور تم یوں اس طرح مریضِ محبت بنے آٹھ آٹھ آںسو نہ بہا رہے ہوتے۔میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جتنے آج حالات سنگیں ہیں اگر ہمیں کچھ ستارہ سے شناسائی کی رمق دے دیتے تو معاملات کافی حد تک ہم اپنے حق میں کر لیتے۔بابا کا سیاسی اثرو رسوخ کام آتا۔۔اور ستارہ کے کیس کا ہم رُخ موڑ دیتے۔۔
خیر جو ہوا سو ہوا۔۔میری مانو تو ستارہ کو ایک خواب سمجھ کر بھول جانے کی کوشش کرو۔اس طرح تم خود کیساتھ ساتھ ہمیں تکلیف میں مبتلا کئے ہوئے ہو۔۔
چلو اپنا نہ سہی ہمارا تو خیال کر لو۔میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں رحم کرو ہماری حالتے پہ۔
طارق بھائی ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے۔
ی یہ کیا کر رہے ہیں آپ طارق بھائی۔میں نے شرمسار لہجے میں کہا۔
تو اور کیا کروں؟وہ بے بسی سے بولے۔
بھائی میری دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی۔۔دنیا نے میرا سب کچھ چھین لیا ہے۔۔میری عشقیہ غیرت اجازت نہیں دیتی کہ میں پھر سے اسکی رنگینیوں میں کھو جاؤں۔۔میں نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔۔
جواب میں طارق بھائی میری طرف حیرت سے اس طرح دیکھنے لگے جیسے میری عقل پہ شبہ کر رہے ہوں۔
پھر چند لمحوں بعد سنجیدگی سے گویا ہوئے۔
پیارے بھائی میں حیران ہوں تمہاری عشقیہ غیرت کی منطق پہ۔
آج تک تو یہی سُنا تھا کہ غیرت کسی بھی انسان کے اندر رنگ،نسل مزہب یا خدا کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔۔یا پھر انا ،خوداری کی شکل میں انسانی دماغوں کو تسخیر کئے رکھتی ہے مگر عشقیہ غیرت میری ناقص معلومات میں گراں قیمت اضافہ ہے۔۔وہ آخری بات طنزیہ لہجے میں بولے۔
دنیا نے غیرت کا معیار اپنے حساب و کتاب کے مطابق رکھا ہے۔۔انسان کی غیرت کا میار اُسکے لالچ اور مفاد کی خاطر بدلتا رہتا ہے۔عشق غیرت، رنگ، نسل اور زبان سے مبرا ہوتا ہے۔عشق کر تو لیا ہے مگر اُس کے تقاضے تو پورے کرو۔یوں سب سے روٹھ کر منہ موڑ کر کیوں عشق کو بدنام کرنے پہ تلے ہوئے ہو۔۔تم اُ ن خوشنصیب عاشقوں میں سے ہو جو اپنے محبوب کی قربت سے سرفرازہوئے۔۔یہ خدا کا تم پہ خاص انعام تھا۔۔جو ہر کسی پہ نہیں ہوتا۔مگر تم مسلسل شکوہ کناں ہو کر ناشکری کے مرتکب ہو رہے ہو۔پوچھو اُسن سے جو اپنے محبوب کی ایک جھلکی کی تمنا لئے دنیا سے کوچ کر گئے۔۔اور رہی بات دنیا سے غیرت کھانے کی تو دنیا نے آج تک کسی کو کچھ نہیں دیا ہے۔۔ہمیشہ وہی انسان کامیاب رہا ہے جس نے دنیا کے تلخ قوانین کو چیرتے ہوئے اپنا حق حاصل کیا ہے۔۔جو انسان قوانین کا احترام کرتا رہتا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوا۔۔ہمیشہ خود کے بنائے گئے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے والا انسان ہی اس بے اثبات معاشرے میں کچھ پانے میں کامیاب ہوا ہے۔۔پھر چاہے وہ عشق کی منازل ہوں یا دنیاداری کیا حصول۔۔ثابت قدمی ہر مرحلے پہ درکار ہوتی ہے۔۔بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ باوجود کوشش اور ثابت قدمی سے بھی انسان کسی مصلحت کی وجہ سے اپنے ارادوں میں ناکام ہو جاتا ہے۔مگر یہ ناکامی بھی عارضی ہوتی ہے۔۔اور عقلمند آدمی اپنی ناکامی پہ آرزدہ ہو نے کی بجائے صبر سے کام لیتا ہے اور پھر اپنی خداداد زہانت اور حوصلے سے اُسے کامیابی میں بدلتا ہے۔۔یوں بزدلوں دل تھام کر بسترِ مرگ پہ نہیں پڑا رہتا۔
وہ تفصیل سے مجھے قائل کرتے ہوئے بولے۔۔
میں اُنکی باتیں غور سے سن کر ذہن نشین کر رہا تھا۔بڑی خوش اسلوبی سے انھوں نے مجھے آئینہ دکلھایا تھا۔۔بلکہ ہر روز دکھاتے مگر میں اپنا چہرہ دیکھنے کو راضی ہی نہ تھا تو وہ مایوس ہو کر چلے جاتے تھے۔۔۔
ابھی وہ اور کچھ کہنا چاہتے ہی تھے کہ اچانک ہماری محفل میں کھلی مداخلت ہوئی اور رابعہ بھابھی کمرے میں آن دھمکیں۔۔
کیوں اُس غریب کو اُٗلٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہے ہو عشق کی۔۔وہ بھنویں اچکاتے ہوئے تیز لہجے میں بولیں۔۔
٭٭٭میری زندگی میں بہار ممکن نہ ہوئی٭٭٭
٭٭٭ہائے عقد سے فرار ممکن نہ ہوئی٭٭٭
چند لمحے پہلے والے سنجیدہ وہ بردبادنظر آنے والے طارق بھائی یکدم اپنی اصلی جون میں لوٹ آئے۔۔رابعہ بھابھی کو دیکھ کر جلے ہوئے لہجے میں شعر بولا تو وہ منہ بنا کر رہ گئیں۔۔
تو اب فرار ہو جاؤ۔روکا کس نے ہے۔۔وہ پاؤں پٹخ کر بولیں۔۔
ارے بیغم میرا یہ مطلب تو نہیں۔۔بھلا میں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر کہاں جا سکتا ہوں۔۔وہ جلدی سے اپنا دفاع کرتے ہوئے بولے۔۔
میں مسککراتے ہوئے اُن کی گفتگو سے محظوظ ہو رہا تھا۔۔بھائی بھابھی کی یہی عادت رہی تھی،،سارا دن میں ایک بار لڑائی ہونا تو پکی بات تھی۔۔لیکن لڑائیوں سے ہٹ کر دونوں میں بے انتہا پیار تھا۔۔دونوںایک لحظے کی دوری بھی برداشت نہ کر پاتے تھے۔۔
جانتی ہوں۔۔کتنا خیال ہے ہمارا آپکو۔وہ طنزیہ لہجے میں بولیں۔۔اُس کلموہی شاداں پہ ڈورے ڈال رہے ہیں موصوف۔۔وہ میری طرف دیکھ کر بولیں۔۔اور چھوٹے بھائی کولمبے لمبے لیکچر دے رہے ہیں۔۔
میں مسکرا کر رہ گیا۔۔
توبہ ۔۔میری توبہ۔۔ری کیسی عورت ہے تو۔۔ چھوٹے کا خیال ہی کر لے۔۔ہر جگہ قیینچی کی طرح زبان چلانا شروع کر دیتی ہو۔۔
نہ سچی بات سے تو مرچیں لگ جاتی ہیں جناب کو۔۔وہ آنکھیں پھیلاتے ہوئے بولیں۔۔
یاخدا میں کیا کروں اس عورت کا۔۔وہ اوپرآسمان کی جانب سر اُٹھا کر مصنوعی شکوہ کرتے ہوئے بولے۔۔
بیغم تم ہی ہر وقت مرچیں چبائے رہتی ہو۔شاداں میری بہن جیسی ہے۔خدا کاخوف کرو۔اُس غریب لڑکی نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔۔بھائی دانت پیستے بولے۔۔
ہاں ہاں میں خوب سمجھتی ہوں۔۔تم پہلے بہنیں ہی بناتے ہو۔مطلب کی بات کرنے میں زرا دیر نہیں لگتی۔۔مجھے بھی شادی سے پہلے باجی کہتے تھے۔۔بھابھی رابعہ ترکہ بہ ترکہ بولیں۔۔
یہ ایسی چوٹ تھی کے طارق بھائی بلبلا اُٹھے۔۔
مگر فورن لبوں پہ جواب لاتے بولے۔۔
وہ تو عمر میں تم مجھ سے پانچ چھ سال بڑی تھی تو میں عزت سے تمہیں باجی بلاتا تھا۔۔مجھے کیا پتا تھا کہ یہ بلا ڈھول بن کہ میرے گلے پڑ جائیگی جسے میں ساری زندگی بجاتا پھروں گا۔۔
اب کی بار تلملانے کی باری بھابھی جی کی تھی۔
میں دونوں کی نوک جھوک سے لطف ہو رہا تھا۔۔
غضب خدا کا۔وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولیں۔۔
اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ میری اماں نے موصوف کو دیکھتے ہی صاف انکار کر دیا تھا کہ لڑکا لڑکی کےباپ کی عمر جتنا ہے اور وہ کبھی بھی اس رشتے پہ راضی نہ تھیں۔آپ کو میرا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ میں نے اماں کو راضی کیا وگرنہ اب تک میرے بچوں کے ماموں جی بنے کنوارے گھومتے رہتے۔۔
اب کی بار بھائی سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ان کا چہرہ خجالت سے سرخ پڑ گیا۔۔
یہ بات کسی حد تک درست تھی۔۔بھائی واجبی سی تعلیم کے بعد زمینوں اور دوسرے کاروبار سے منسلک ہو گئے تھے۔کاروبار اور زمین کا سارا بوجھ ہی ان پہ تھا۔۔جسکی وجہ سےلڑکپن میں ہی ان کے چہرے پر سنجیدگی نے ڈیرہ ڈال لئے تھے۔تو جوانی میں ہی بھائی اپنی عمر سے دُگنا بڑے دکھتے تھے۔۔تو جب ہم رشتے کی بات کرنے رابعہ بھابھی کے گھر گئے تو اُنکی ساس محترمہ نےصاف انکار کر دیا۔۔پھر بڑی مشکلوں سے بھائی کا رشتہ طے ہو اور خداخدا کر کےانکی ساس راضی ہوئیں اور یوں بھائی کی شادی ہوئی۔۔
۔۔ بھائی کو بچپن سے ہی مطالعہ کی عادت تھی جس سے بڑی بڑی باتیں سیکھنے کو مل گئیں اور وہ گفتار میں بہت زرخیز زہن رکھتے تھے ۔لیکن رابعہ بھابھی کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے تھے۔۔
بھائی نے چور نظروں سے میری طرف دیکھا۔۔میں خلامیں اپنی نگاہیں مرکوز کر لیں اور یوں ظاہر کیا جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔۔
پھر اپنی جورو کی طرف متوجہ ہوئے۔
کیوں ناک میں دم کر دیتی ہو۔جاؤ یہاں سے۔۔میں آج غزن کو ہر حال میں اس جھونپڑی سے باہر نکال کر لاؤں گا چاہے دو جھانپڑ ہی نہ رسید کرنے پڑیں۔۔
وہ بھابھی سے بچنے کے لئے توپوں کا رُخ میری طرف کر کے بولے۔۔۔
واہ۔۔ایسے کیسے۔۔ہاتھ تو لگا کے دکھاؤ میرے بھائی کو۔۔
بھابھی آنکھیں نکال کر بولیں۔
تم لوگوں کے لاڈ پیا ر نے ہی اسے خود سر بنایا ہے۔۔بھائی غصے سے بولے۔۔
پھر میری طرف متوجہ ہو کر بولے۔
دیکھ بیٹا غزن۔۔بہت سوگ منا لیا۔۔
عورت زاد کا اتنا ہی افسوس کرتے ہیں۔۔یہ آخری بات انھوں نے بھابھی کی طرف منہ کر کے کہی۔۔اس سے پہلے وہ پھٹتی وہ جلدی سے بولے۔۔
تم جلدی سے تیار ہو جاؤ۔۔آج ہم کسی اچھے سے ہوٹل میں کھانا کھائیں گے گھومیں گے ڈھیر ساری مستی کریں گے۔۔
آپ تھوڑی شرم بھی کریں گے۔۔بھابھی اُنکی بات اچکتے ہوئے بولیں۔۔اس عمر میں بیوی بچے والے ہو کر آپ کو مستیوں کی سوجھ رہی ہے۔۔
بیغم۔وہ چلا کر بولے۔۔
کان کے پردے نہ پھاڑیں۔۔میں بہری نہیں ہوں۔۔وہ جلے بھنے لہجے میں کرسی پہ بیٹھتے ہوئے بولیں۔۔
کاش میں ہی بہرا ہوتا۔۔بھائی تاسف سے کچھ اس طرح بولے کے بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی۔۔
میں ہنستے ہنستے بیڈ پہ دہرا ہو گیا۔۔
چند لمحوں بعد وہ میں سنبھل گیا۔۔
بھابھی اور بھائی دونوں غور سے مجھے دیکھ رہے تھے۔۔کیا ہوا آپ دونوں چپ کیوں ہو گئے ہیں۔۔
میں نے حیران ہو کر دونوں میاں بیوی کی طرف باری باری دیکھا۔
بس چھوٹے۔۔آج اتنے دنوں بعد تم کو ہنستے ہوئے دیکھا ہے تو اس منظر کو زیادہ سے زیادہ اپنی آنکھوں میں قید کر لینا چاہتے تھے۔۔
بھائی سنجیدگی سے بولا۔۔
میں خاموش ہو گیا۔۔۔
چل منہ مت پُھلاؤ۔۔
بھائی بگڑ کر بولا۔۔
مرد بنو مرد۔۔چار خانوں والے مرد۔۔
بھائی پرجوش ہو کر بولے۔۔
میں نے سوالیہ نظروں سے اُنکی طرف دیکھا۔۔
دیکھ بھائی مانتا ہوں دل جس پہ آئے جائےبس اُسی کا ہو کہ رہ جاتا ہے۔۔
لیکن دل کے خانوں اور مذہب کاچار شادیوں کی اجازت دینے کا گہرا تعلق ہے۔وہ گہرائی سے بولے۔۔
میں نے بھابھی کی طرف دیکھا تو وہ سر پکڑے بیٹھی تھیں۔۔
کیسا تعلق۔۔میں نے بمشکل ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔۔
دیکھ بھائی آدمی بہت کشادہ دل ہونا چاہیئے۔۔اگر ایک خانہ بند ہو جائے تو دوسراخانہ آباد کر لینا چاہیئے۔۔دوسرا بند تو تیرا اور پھر چوتھا۔۔
ابھی تمہارے دل کے تین خانے باقی ہیں۔۔ان میں سے ایک آباد کرو اور شاد رہو۔
بھائی آنکھ دباتے ہوئے بولے۔۔
اچھا۔۔میں نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے کہا۔۔
لیکن خواتین کیوں ان خانوں کو آباد کرنے نہیں دیتیں؟میں نے دلچسپی سے کہا۔
ایک بات کان کھول کر سُن لو چھوٹ ویر۔۔
بھائی سنجیدگی سے بولے۔۔
خاتونِ خانہ کے دل کے چار خانے اس لئے بنائے گئے ہیں کہ ایک میں اس کا مجازی خدا اور باقی تین میں وہ اپنی سوتنوں کو جگہ دے سکیں۔۔مگر عورت کی روایتی ہٹ دھرمی آڑے آ جاتی ہے۔۔یہ مرد کوخوش ہوتا تو دیکھ ہی نہیں سکتیں۔۔
بس یہ آخری بات تھی جو بھائی نے دھیمے اور سنجیدہ لہجے میں کہی۔۔
اس کے بعد تو کمرے میدانں جنگ بن گیا۔۔
بھائی اور بھابھی دونوں فریق بڑھ چڑھ کے مضبوط دلائل سے لڑ رہے تھے۔۔میں زور زور سے ہنستا اس طوطا مینا کی روائیتی نوک جھوک سے لطف انداز ہوتا رہا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شام کا وقت تھا۔ہم اس وقت ایک اچھے سے ریستوران میں بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔آج اتنےسالوں بعد میں گھر سے کھلی فضا میں نکلا تھا۔
ستارہ کاغم ہنوز میرے دل میں تھا جسکی شدت میں کبھی بھی کمی نہ آ سکتی تھی۔لیکن مجھے احساس ہو گیا تھا کہ اُسکے علاوہ بھی میری زندگی میں کچھ لوگ ہیں جو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اورمیری اس ناگفتہ حالت پہ مسلسل کڑھ رہے ہیں۔۔تو اُن کے لئے خود کو بدلنا ضروری تھا۔۔آخر کب تک میں یوں دنیا سے منہ موڑے کانٹوں کے بستر پہ لوٹتا رہتا۔میں نوشتہ تقدیر پہ سر خم کیا اور اپنی زندگانی معمول پہ لانے کا فیصلہ کر لیا۔۔بھائی اور بھابی میری دوسری شادی پہ اصرار کر رہے تھے۔۔لیکن میں عشق کے سفرپہ گامزن تھا۔۔اور تاریخ گواہ ہے جو لوگ عشق کی توحیدپرستی میں ایک ہی راستے پہ گامزن رہے ہیں وہ دنیا کی صعبتوں اور پریشانیں سے بچ پائے ہیں۔۔۔بہت کم تکالیف اور دکھ درد سے اُنکا سامنا ہوا ہے۔۔میں نے خاموشی سے اپنی زندگی ستارہ کی یادؤں کے نام کر دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کسی بھی دوسرے راستے کا سفر نہ کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔۔جس کی ابتدا آج کے دن سے کرتے ہوئے میں بھائی بھابی کیساتھ آؤٹنگ پہ نکل آیا تھا۔۔گھر میں آئی اس تبدیلی پہ سارے ہی خوش بااش تھے۔۔ماں تو خوشی سے میری بلائیں لے لے نہ تھک رہی تھیں۔ اپنے جوان خون کو زندگی میں دوبارہ لوٹتا دیکھ کر بابا کی آنکھوں میں بھی چمک آ گئی تھی۔۔سب بہت خوش تھے لیکن میری حالت کسی ایسے سوکھے درخت کی سی تھی جو محض دور سے دیکھنے کو ہی ہرا بھرا ہوتا ۔۔اگر کوئی ٹھونک بجا کر دیکھتا تو تب اُسے اسکے کھوکھلے پن کا احساس ہوتا۔۔
میرا بھتیجا عثمان اس وقت میری گو میں بیٹھا آئس کریم کھا رہا تھااور ساتھ میں اپنی طوطلی زبان میں باتیں بھی کر رہا تھا۔۔
خیر کھانے کے بعد میں ،بھائی طارق، بھابی ،اور بچے ایک فیملی پارک کو ہو لئے۔۔
اس اثنا میں اندھیرا مزید گہرا ہو گیا تھا ساتھ ساتھ شہر میں پہلے سے زیادہ چہل پہل ہو گئی تھی۔۔
پارک کے مین گیٹ پہ ان کو اُتارنے کے بعد میں گاڑی پارک کرنے آگے بڑھ گیا۔۔
پارکنگ ایریا پارک کے دوسری جانب گھوم کرشمال کی جانب تھا۔۔
وہاں گاڑیوں کی لائنیں لگیں ہوئیں تھیں۔۔یقینن پارک میں بہت رش تھا۔۔آج اتوار کا دن تھا جس کی وجہ سے بہت ساری فیمیلیز نے پارک کا رُخ کیا تھا۔۔
مجھے گاڑی پارک کرنےکی جگہ پارکنگ ایریا کے دوسرے سرے ملی۔۔دوسری جانب ایک ہوسپٹل کا پارکنگ ایریا شروع ہو جاتا تھا مگر وہاں گاڑی کھڑی کرنا سختی سے منع کیا گیا تھا۔۔صرف ایک ایمبولینس ہی کھڑی نظر آ رہی تھی۔۔
گاڑی لاک کر کے میں جیسے ہی مڑنے لگا میرے سر کے پچھلے حصے پہ قیامت ٹوٹ پڑی۔
کسی لوہے کی شے سے کاری وار کیا گیا تھا۔۔
اوں۔۔ایک درد بھری کراہ میرے منہ سے نکلی اور میں لڑکھڑا کر گر پڑا۔۔
مجھے کچھ ہوش نہ رہا اور میں اندھیروں میں گم ہو گیا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جان ٹائی تو لگا دیں۔
آج تھوڑا جلدی آفس جانا ہے۔خوشبخت اپنے ڈیڑھ سالہ بیٹے سلمان بخت کو پیار کرتے ہوئےاونچی آواز میں بولا جو تھوڑے دن پہلے ہی آئیستہ آئیستہ اپنی ننھی منی ٹانگوں پہ چلنے لگا تھا۔۔
آپکو کتنی بار بولا ہے مجھے جان نہ کہا کریں۔۔کتنا چیپ اور گھٹیا طرز تخاطب ہے۔۔سلطانہ منہ بناتے ہوئےکمرے میں داخل ہوئی۔۔اُسکے ہاتھ میں ٹائی تھی۔۔
کیوں جی۔۔گھٹیا کیسے۔۔خوشبخت مسکراتے ہوئے بولا۔۔
یار اب جان سے پیارے کو جان ہی بلایا جاتا ہے۔۔
مجھے نہیں پسند نہ۔۔وہ اُسے ٹائی لگاتے ہوئے بولی۔
یہ لفظ سن کر ایسا لگتا ہے میں کسی تھرڈ کلاس عاشق کی محبوبہ ہوں ۔
وہ ناک چڑھاتے ہوئے بولی۔۔آُ پ کب سدھریں گیں خوش۔۔
وہ اُس کے سینہ پہ مکا مارتے ہوئے بولی۔۔
خوشبخت جانتا تھا کہ وہ جان،جانم وغیرہ جیسے الفاظ کو سخت ناپسند کرتی ہے۔۔ابتدا میں جب وہ محبوبہ تھی تب خوشبخت کی خوشنودی کے لئے برداشت کر لیتی مگر جب سے وہ اُسکے جسم و جان کی مالک بنی اُس کی ٹون روایتی بیویوں جیسی ہو گئی تھی۔۔
تو خوشبخت کبھی کبھار اُسے چڑانے کے لئے یہ الفاظ بول دیتا تھا۔۔
سدھرا ہوا ہی تھا۔۔تمہارے پیار نے بگاڑ کر رکھ دیا۔۔وہ دل پہ ہاتھ رکھ کر خالص عاشقانہ انداز میں بولا۔
آپ باز نہیں آئیں گے۔وہ میٹھی ناراضگی سے بولی۔۔
خوشبخت نے پیار سے اُس کے گال پہ مہر محبت ثبت کر دی۔۔
سلطانہ کا چہرہ حیا سے گلنار ہو گیا۔۔
مگر یہ کیفی چند لمحے ہی رہی۔۔چلیں نکلیں آفس کو دیر ہو رہی ہے۔۔وہ خوشبخت کو دھکا دیتے ہوئے بولی۔۔
ارے بیگم ارے۔۔۔
وہ ارے ارے ہی کرتا رہ گیا۔۔سلطانہ نےاُسکو جلدی سے کمرے سے نکال کردروازا بند کر لیا۔۔اور دروازے سے ٹیک ہوکر کھڑی ہو کر بے اختیار مسکرا دی۔۔
دیوانے ہو گئے ہیں یہ۔۔وہ بڑبڑاتے ہوئے بولی۔۔
ہاں تمہارے پیار میں ہو گیا ہوں۔۔خؤشبخت کی ہلکی سی آواز باہر سے سنائی دی۔۔
وہ ابھی تک گیا نہیں تھا بلکہ دروازے سے کان لگا کر کھڑا ہو گیا تھا۔تو سلطانہ کی بڑبڑاہٹ اُسے بخوبی سنائی دی تھی۔۔
خوش۔۔۔ٹھہریں میں آپ کو بتاتی ہوں۔۔وہ دانت کچکاتے ہوئے بولی۔۔
اُس نے جھٹ سے دروازا کھولا مگر اس اثنا میں خوشبخت کھکھلاتا ہوااپنی گاڑ ی کے پاس پہنچ چکا تھا۔۔
اُس نے گاڑ ی میں بیٹھتے ہوئے ایک ہوائی بوسہ سلطانہ کی طرف اُچھالا۔۔
سلطانہ نے ہوا میں مکا لہرایا تو بے اختیار ہنس پڑا۔۔
سلطانہ بھی مسکراتی ہوئی مڑی اور اپنے بیٹے کے پاس چلی آئی جو کھلونوں سے کھیل رہاتھا۔۔اُس کے ساتھ وہ بھی کھیتے کھیلتے گزرے واقعات کے بارے سوچنے لگی۔۔
عارف کے قتل کے بعد جب خوشبخت اُسکی زندگی میں آیا توسلطانہ نے اپنے اثرو رسوخ سے کام لیکر خوشبخت کو ایک اہم ااور پاورفل عہدے پہ فائز کروایا۔۔
سلطانہ اچھی طرح سے سمجھتی تھی کہ خالی پیسے سے انسان طاقتور نہیں بنتا۔۔پیسہ تو بہت سے لوگو ں کے پاس ہوتا ہے مگر اختیارات اور طاقت کسی ایک کے پاس ہی ہوتی ہے۔۔سیاستدانوں کے پاس بہت پیسہ ہوتا ہے مگر وہ کیوں اقتدار اور کرسی کے لالچ میں مختلف سیاسی حربے بلاتامل ملکی مفادات کو پسِ پشت کرتے ہوئے کرتے ہیں؟
اقتدار ایک نشہ ہوتا ہے جو لوگوں پہ حکمرانی کرنے کیساتھ ساتھ حکمرانوں کی دولت میں اضافہ کرنے اور ان کو محفوظ کرنے اور لٹنے سے بچانے کے لئے کیا جاتا ہے۔۔
عورت چاہے جتنی مرضی طاقتور ہو جائے مرد کے بغیر وہ نامکمل ہوتی ہے۔۔
بند مٹھی میں ریت کی مانندہولے ہولے پھسل جاتی ہے۔۔
عقلمند عورت اپنے مرد کو حکمران بنا کر اُس پہ حکمرانی کرتی ہے۔۔
سلطانہ نے خوشبخت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے بعد اُس سے شادی کر لی تھی۔۔خلافِ توقع کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔۔اُس نے بےپناہ دولت لُٹا کر میڈیا کے زرئعہ سے اس شادی کو ایک مثبت پہلو قرقر دلوایا۔۔
لفافوں نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال پتھر پہ لکیر کی طرح نقش کر دیا کہ سلطانہ ایک جوان عورت ہے جو اتنے بڑے کاروبار کی مالک ہے ۔۔اتنی بڑے ایمپائر کو سنبھالنے کے لئے اُسے ایک سہارے کی تلاش ہے تو خوشبخت اس معیار پہ پورا اُترتا ہے۔۔
پیسوں کی اس ریل پیل نے لوگوں کے منہ کو بند کئے رکھا وگرنہ اُس کے کردار کواتنا اُچھالا جاتا کہ وہ خود کشی کرنے پہ مجبور ہو جاتی۔۔
آج وہ مطمئن اور آسودہ زندگی گزار رہی تھی۔
لیکن اس کہانی کا ایک ایسا کردار بھی تھا جو سلطانہ کیساتھ ساتھ خوشبخت کی گھاگ نظروں میں بھی نہ آسکا۔۔وہ اور خوشبخت کافی کوششوں کے باوجود بھی اُسکی گرد تک کو نہ پاسکے تھے جس نے یہ سارا ہنگامہ عارف کو قتل کرتے وقت ستارہ کی ویڈیو بنا کر کھڑا کیا تھا۔لیکن سلطانہ کی اُس ویڈیو میں قاتل کو دیکھنے اور جاننے کی تھی نہ کی اُسے سزا دلوانے کی۔۔مگر نوشتہ تقدیر مٹ نہیں سکتا۔وہ ویڈیو خوشبخت کے ہاتھ لگ گئی جس سے ہنگامہ ہوا۔۔اور دو پیار کرنے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئے جس کا دکھ سلطانہ کے دل میں اب تک تھا۔۔۔۔
************************************************** *********
پورا گھر تیز روشنی سے جگمگا رہا تھا۔گھر میں مہمانوں کی بھیڑ کی وجہ سے بھانت بھانت کی بولیاں اور آوازیں کانوں میں پڑ رہی تھیں۔
یہ شادی نواز دین عرف دینو کی تھی۔جس میں نواز دین کے سارے رشتہ دار اور دوست احباب مدعو تھے۔نواز دین اور نیلم اس وقت پہلو بہ پہلو بیٹھے تصاویر بنوا رہے تھے۔۔
نیلم ڈارک مہرون سوٹ میں ملبوس تھی۔جس سے پہ مختلف رنگوں کے موتیوں کا کام کیا گیا تھا جو تیز روشنی میں جگمگاتے بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔دنیا کے سارے خوبصورت رنگوں کا امتزاج آج نیلم کا معصوم چہرہ لگ رہا تھا۔اُسکی گلابی رنگت پہ چھائی حیا کی سرخی اور تھوڑی سی گھبراہٹ اُسکے حسن کو چار چاند لگا رہی تھی۔۔
پہلے تو نواز دین کی اماں حضور نے نیلم کے سر پہ ہاتھ پھیرا اُسکے سر پہ ہزار ہزار کے کئی نوٹ وار کر کمیوں کی خواتین کو دئے۔۔پھر ابا حضور او دیگر رشتہ داروں نے بھی اُ ن کیساتھ تصاویر بنوائیں۔۔
خیر خدا خدا کر کے یہ اجتماع چھٹ گیا ۔۔آج ولیمہ تھا جسکی تیاریوں کی وجہ سے ہر کوئی تھک کے چور تھا۔۔تو سب نے دلہا اور دلہن کو اکیلا چھوڑا۔۔کچھ اپنے اپنے گھروں میں جا کر سوئے اور کچھ ادھر ہی مختلف کمروں میں ڈھیر ہوگئے۔۔
اب کمرے میں دونوں اکیلے رہ گئے تھے۔
دینو بیڈ سے اُٹھا اور دروازا بند کر دیا۔۔
اس اثنا میں نیلم بھی سیدھی ہو کر بیڈ پہ بیٹھ گئی۔مسلسل ایک ہی پوزیشن میں بیٹھ بیٹھ کر اُس کا ٹانگیں دُکھ رہی تھیں۔۔
دروازا بند کر کے دینو آئیستہ آئیستہ چلتا ہوا نیلم کے پاس بے تکلفی سے بیٹھ گیا۔نیلم مزید سمٹ گئی۔
دینو کے چیرے پہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔وہ نیلم کو پا کر بہت خوش تھا۔اس کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔
گزشتہ رات اُن کی سہاگ رات تھی جس میں نیلم نےلزت کے ایک نئے جہاں کی سیر نے کی تھی۔۔دینو ایک بھرپور مرد تھا جس کے ایک ایک جھٹکے پہ وہ قربان ہو گئی تھی۔
بڑی مشکل سے ولیمہ کا دن گزرا تھا۔رہ رہ کر اُسے دینو کی یاد ستانے لگتی۔
اُسکی نندیں اور اُنکی سہیلیاں سارا دن اُسےچھیڑتی اوراُسکا دل بہلاتی رہیں مگر رہ رہ کر اُسے اُس سنگ کا خیال جاتا جو مردوں کے ٹینٹ میں تھا اور بھولے سے بھی خواتین کے ٹینٹ میں نہیں آیا تھا۔۔شاید ان کے رسم و رواج میں یہ بات نہ تھی۔۔
اب سارا دن گزرنے کے بعد اُس نے اپنی جھلک دکھائی تھی تو وہ اس انتظار کا خراج اُسے تنگ کر کے اور تڑپا کروصول کرنا چاہتی تھی۔۔
دوستو۔۔یہاں میں ایک بات خاص طور پہ کہنا چاہتا ہوں۔۔سہاگ رات ایک جنگ کی مانند ہے۔دو دلوں کی جنگ۔۔سلگتے جزبات کی جنگ۔۔گرم سانسوں کی جنگ۔۔ٹوٹتی سسکاریوں کی جنگ۔۔نرم دھڑکنوں کی جنگ۔۔اس رات کا فاتح مرد ہوتا ہے۔۔جسکے کے لئے عورت اپنے جسم و جان کی سرحدیں کھول دیتی ہے۔۔۔مرد سکندر اعظم ہوتا ہے۔۔مگر صرف ایک رات کا فاتح۔۔وہ صرف ایک رات کے لئے اپنی فتح کے جھنڈے گاڑھتا ہے ۔۔
اگلی آنے والی تمام راتوں کی فاتح عورت ہوتی ہے اُسکی سر زمین کےقلعہ کے دروازے اُسکی مرضی و رضا سے کھلتے ہیں۔۔اور مرد شکست و ریخت کا مرکب۔۔مفتوح۔۔غلام۔۔۔پھر ساری زندگی یہ غلام اپنی مالکہ سامنے دم ہلاتا رہتا ہے۔۔تو دینو بھی ایک رات کا سکندرِ اعظم تھا۔۔اب اسکی لگام نیلم کے ہاتھ آنے والی تھی۔۔
میری رانی کیسی ہے۔۔دینو لگاوٹ بھرے لہجے میں بولا۔
اُس نے کوئی جوان نہ دیا۔۔وہ منہ پھلا کر بیٹھی رہی۔۔
کیا ہوا۔۔دینو فکر مندی سے اُس کا جواب نہ پا کر بولا۔
کچھ نہیں میری طبعیت خراب ہے۔۔وہ یہ کہتی ہوئی اُٹھی اور واش روم میں گھس گئی۔۔
دینو ٹھنڈا سانس بھر کے رہ گیا۔۔
اور اُسکا بے صبری سے انتظار کرنے لگا۔۔
نیلم نے کوئی جلدی نہ کیااور شاور کھول کر مزے سے نہانے لگی۔۔
دینو بے چینی سے کروٹ بدل رہا تھا۔۔خاصی دیر ہو چکی تھی مگر نیلم ابھی تک باہر نہیں نکلی تھی۔۔
اُس نے گھڑی پہ ٹائم دیکھا تو بارہ بج گئے تھے۔۔نیلم کو گئے ہوئے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔۔
دینو کی حالت دیدنی تھی۔وہ بار بار بے چینی سے کروٹ پہ کروٹ بدل کر باتھ روم کے دروازے کی کی جانب دیکھتا مگر بند دروازا اُسکا منہ چڑا دیتااور وہ منہ بنا کر رہ جاتا۔۔
خیر آدھا گھنٹہ بعد نیلم ایک بڑا سا ٹاول باندھے واشروم سے باہر برآمد ہوئی۔۔
دینو اس دوران اونگھ رہا تھا۔۔واش روم کا دروازا کھلنے کی آواز سے دینو ہڑبڑا کے آنکھیں ملتا ہوا اُٹھ کر بیٹھ گیا۔۔
نیلم کے بھیگے سراپے کو دیکھ کر دینو کا دل یکبارگی زور سے دھڑک گیا۔۔
ٹاول اُسکی چھاتیوں سے گھٹنوں تک کی ستر پوشی کر رہا تھا۔اُسکاگلابی گوار بدن دینو کے لن کوچھت کی طرف منہ کرنے پہ مجبور کر گیا۔۔لیکن نیلم اُسکی حالت سے بے نیاز سنگھار ٹیبل پہ بیٹھ کر ہئیر ڈرائیر سے اپنے بال خشک کرنے لگی۔۔
دینو بے چینی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔۔اور اُس کے پاس چلا آیا۔۔
اُس کی طرف سے کوئی ردِ عمل نہ آیا۔۔
وہ ہنوز اپنے کام میں مشغول رہی۔
دینو نے اپنے ہاتھ اُسکے دنوں ننگے کندھوں پہ رکھ دیئئے۔۔
آج میری رانی ناراض کیوں ہے ۔۔
دینو محبت بھرے لہجے میں بولا۔۔
نہیں میں تو نہیں ناراض۔۔وہ خشک لہجے میں بولی۔۔
تو پھر بات کیوں نہیں کر رہی۔۔وہ پیار سے بولا۔۔
کیسے بات کروں۔۔آپ دکھ تو رہیں ہیں میں کیا کر رہی ہوں۔۔وہ اُکتا کر بولی۔۔
وہ لاجواب ہو گیا۔۔ورنہ کہہ سکتا تھا کہ یہر ڈرائیر بالوں پہ چلتا ہے زبان پہ نہیں مگر محبوب بیوی کو کچھ نہ کہہ سکا۔۔
وہ خاموشی سے چلتا ہوا بیڈ پہ آکر لیٹ گیا۔۔
اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔بال خشک کرنے کے بعد اُس نے دینو کی طرف دیکھا جو آنکھیں بند کئے پڑا تھا۔ وہ وارڈوب کی طرف بڑھی وہاں سے باریک نیلگوں رنگ کی نائٹی اور انڈر گارمنٹس اُٹھاتے واش روم میں گھس گئی۔۔۔نیلم نے اپنی باڈی پہ اسپرے کیا اوراپنے ہونٹوں پہ ہلکی سے لپ سٹک لگائی اور جلدی سے نائٹی اور دیگر انڈر گارمنٹس پہنتے ہوئے باہر آ نکلی۔۔
دینو اس دوران آنکھیں بند کئے ہوئے تھا۔۔لیکن اُسکی لرزتی پلکیں بتا رہی تھیں کہ وہ جاگ رہا ہے۔۔
نیلم مسکراتے ہوئے بیڈ پہ گئی اور اُسکی پیٹھ کر کے لیٹ گئی۔۔
دینو کو اپنے پہلو میں خوشبوؤں سے بھرے صندلی وجود کا احساس ہوا تو یکدم اُس نے اپنی آنکھیں کھولی دیں۔۔
اُس نے گردن گھما کر دیکھا تو نیلم کے مرمریں سراپا کو اپنے پہلو میں پایا۔۔
اُس کے وجود سے اُٹھتی بھینی بھینی خوشبو دینو کے حؤاس معطل کر رہی تھی۔۔
دینو نے ہاتھ بڑھا کر اُس کا رُخ اپنی طرف کیا۔۔
کیا ہے؟؟وہ اُسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوئی۔۔
آج حضور کچھ ناراض ناراض سے دکھائی دے رہے ہیں بخدا ہم سےایسا کونسا جرم ہو گیا جس کی سزا دی جا رہی ہے۔۔وہ شاعرانہ لہجے میں بولا۔۔
کچھ نہیں ۔۔جب آپکو ہی اندازا نہیں تو میں کیا کہہ سکتی ہوں۔۔
وہ روٹھے لہجے میں بولی۔۔
یار بتاؤ گی نہیں تو مجھے کیسے پتا چلے گا؟
وہ اُس کی نرم گردن پہ ہاتھ پھیر کر بولا۔۔
بس رہنے دیں۔۔وہ آئیستگی سے اُس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی۔۔
یہ کیا بات ہوئی ۔۔وہ فکر مندی سے بولا۔۔
آج وہ بہت رومینٹک موڈ میں تھا۔۔اُسکا ارادا آج ڈھیر سارا پیار کرنے کو تھا مگر نیلم کا روٹھا انداز اُسکی سمجھ سے بالاتر تھا۔۔۔
آج آپ نے سارا دن مجھ سے کوئی بات کی نہ ہی ملنے آئے۔۔میںہر وقت آس لگائے بیٹھی رہی کہ اب آتے اب آتے مگر نہیں آپ کو تو کوئی احساس ہی نہیں میرا۔۔
ہاہاہا۔۔وہ دھیمی آواز میں ہنس کر بولا۔۔
دیکھو رانی یہ گاؤں ہے شہر نہیں۔۔اور یہاں کے رسم و رواج بہت مختلف ہیں۔۔میاں بیوی صرف رات کے اندھیرے میں ہی مل پاتے ہیں۔۔
ہونہہ۔۔وہ نخوت سے بولی۔۔باتیں نہ بنائیں۔۔آپ کو ملنا ہوتا ےو کسی بھی بہانے سے آ جاتے۔۔
میں کان پکڑ کر معافی مانگتا ہوں۔۔آئیندہ ایسا بالکل نہیں ہوگا۔وہ باقعدہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔۔
بس دو تین دنوں کی بات ہے۔۔جب ہم شہر چلیں جائیں گے تو میں ایک لمحہ بھی اپنی رانی کو خود سے جدا نہیں کروں گا۔۔وہ بات ختم کرتے ہوئے بولا۔۔ لیکن حقیقت میں وہ بے صبرا ہو گیا تھا۔۔
اُسکا من صرف اور صرف نیلم کی پھدی مانگ رہا تھا مگر وہ تڑپا رہی تھی۔۔اُسکے ضبط کا امتحان لے رہی تھی۔۔اور وہ بھی کھیر ٹھنڈی کر کے کھانے کا عادی تھا اس لئے خود کو بمشکل سنبھالے ہوئے تھا۔۔
ہاہہ۔۔وہ ایک گہرا سانس لے کر بولی۔۔ابھی شادی کو دوسری رات ہے اور آپ ایسا خیال ہے۔۔شہر جا کر پتا نہیں کیا کریں گے میرے ساتھ۔۔
دینو کا دل چاہا کہ اپنا سر پیٹ لے ۔۔مگر اُس نے کمال مہارت سے خود پہ قابو پایا اور مسکرا کے بولا۔۔
ارے نہیں۔۔قسم سے ایک لمحہ بھی خود سے دور نہیں کروں گا۔وہ ہمت کر کے اُسکا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔۔
سچی۔۔وہ مصنوعی بے یقینی میں بولی۔۔
ہاں میری رانی۔۔تمہاری قسم۔۔
ٹھیک ہے۔۔وہ بچوں جیسے انداز میں سر ہلا کر بولی۔۔
دینو نے اُسے بانہوں میں بھرکراپنے چوڑے سینے پہ سوار کر لیا۔۔
اگرچہ نیلم کا بدن متناسب تھا مگراسکے باوجود بھی ہلکا پھلکا سا تھا۔۔
دینو کی دونوں ٹانگیں کھلیں ہوئیں تھیں اور نیلم اُس کے سینے پہ اس طرح سے سوار تھی کہ اُسکی پھدی دینو کے سخت اکڑے لن پہ تھی۔۔نیلم کا بدن جزبات کی حدت سے لمحہ بہ لمحہ گرم ہو رہا تھا جسکی تپش دینو بخوبی محسوس کر رہا تھا۔۔
دینو نے نیلم کے سر پہ دباؤ ڈالا اور اُسکو جھکا کر اُس کے پھولوں سے نازک لبوں کواپنے سخت لبوں کی قید میں جکڑ لیا۔۔
نیلم کی سانسیں اتھل پتھل ہو گئیں۔۔دینو بڑی چاہت سے نیلم کے لبوں کی سے امرت پینے لگا۔۔
نیلم نے اپنی آنکھیں بند کر کے خود کو اُس ے حوالے کر دیا۔۔ہونٹ چوستے چوستے دینو نے اپنے گرفت اُسکی لچکیلی کمر پہ سخت کی اور اُسے نیچے لٹا کر خود اُس کے اوپر آ گیا مگر اس دوران اُس نے اپنے لبوں کو ایک لحظے کے لئے بھی نیلم کے لبوں سے نہ ہٹایا۔۔
چند لمحوں بعد اُس نے اپنے لبوں کا قفل ٹوٹا خدا خد ا کر کے۔۔
نیلم کا بدن کپکپا رہا تھا۔۔
دینو نے لحظہ بھر رک کر اُس کے جذبات سے سرخ ہوتے چہرے کو اپنے نظروں میں قید کیا اور پھر اُسکی کمر کے نیچے ہاتھ ڈلا کر اُسکی نائٹی کی ڈور کھول کر اس کے بدنِ گُل کو آزاد کر دیا۔۔
شیشہ کی طرح چمکتا جسم ۔۔کپکپاتے لب۔۔دھونکنی کی طرح چلتی سانسیں جس سے آتشِ افروز انداز میں ہلتی چھاتیاں۔۔
یہ ہیجان خیز منظر دیکھ کر دینو پاگل ہو گیا۔۔
اُس نے پھرتے سے خود کو کپڑوں کی قید سے آزاد کیا اور الف ننگا ہو گیا۔۔۔اُسکے پھڑپھڑاتے لن پہ نیلم کی نگاہ پڑی تو وہ شرما گئی اور اپنی آنکھین بند کر لیں۔۔دینو کسی شیر کی طرح نیلم پہ جھپٹ پڑا۔۔
وہ اب بے دردی سے اُس کے لبون کو چوم رہا تھا ساتھ ساتھ برا کے اوپر اوپر سے اُس کی چھاتیوں کو بھی تختہ مشق بنائے رکھا۔۔
اسکی گردن اور سینے کو چومتا چومتا وہ نیلم کے پیٹ پہ آیا اور اُس پہ زبان پھیرنے لگا۔۔
نیلم تڑپ سی گئی۔۔
نیلم اب خوب گرم ہو چکی تھی۔دینو نے بھی اُسے زیادہ انتظار نہیں کروایا۔۔
اُس تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے اُس کی گیلی۔۔۔دمکتی۔۔۔۔چپچپاتی۔۔اور لزت کے آنسو بہاتی پھدی کو پینٹی کی بے رحم گرفت سے رہائی دلوائی۔۔۔
دینو نے لن کو تھوک سے لتھڑا اور نیلم کی پھدی کے سوراخ پہ سیٹ کر کے ایک زور دار جھٹکا مارا۔۔
جھٹکا زوردار تھا ۔۔لن جڑ تک پھدی کی نازک دیوارں کو رگیدتا جڑ تک اندراُتر گیا۔۔
نیلم کو یوں لگا جیسے تپتا انگارہ چلا گیا جس سے آگ بھڑک اُٹھی ہو جو اُسکی پھدی کو جلا کر خاکستر کر دے گا۔۔۔۔دینو نے نیلم کی ٹاینگیں اپنے کندھوں پہ لاد لیں اور آئیستہ آئیستہ اپنی گانڈ کو ہلاتے ہوئے اپنے لن کو پھدی کے اندر باہر کرنے لگا۔۔
درد کی شدت لن کے پھدی کی دیواروں سے ٹکڑانے سےکم ہوتی جا رہی تھی۔۔
دینو نے جس تیزی سے اُسکو ننگا کر کے اپنے لن کو نیلم کی پھدی میں گھسیڑا تھا اب اتنی ہی آئیستگی سے وہ نیلم کی چدائی کر رہا تھا۔۔اُسے کوئی جلدی نہیں تھی۔۔وہ آرام آرام سے اس مخملی پھدی کے رس کو نچوڑنا چاہتا تھا۔۔
نیلم او آں کی آوازیں نکال رہی تھی۔۔لن کے جھٹکوں کی رفتار قدرے سست تھی مگر نیلم کو بہت مزا آ رہا تھا۔۔
ورنہ پہلی رات دینو نے بڑے وحشیانہ انداز میں اُسکو چودا تھا تو وہ کچھ ڈری ہوئی بھی تھی مگر دینو نے پیار بھرے جھٹکوں سے اُسنے سکھ کا سانس لیا۔۔
لیکن یہ اطمینا ن چند لمحوں کا ہی تھا۔۔دیون کے جھٹکوں میں آئیستہ آئیستہ تیزی آ رہی تھی۔۔
نیلم کے لبوں سے سسکاریاں نکل رہی تھیں۔۔دینو کا سخت لن جب اُسکی نرم پھدی کی دیواروں کو رگیدتا تو وہ کپکپا کر رہ جاتی۔ایک لزت بھری لہر اُس کے پورے بدن میں دوڑ جاتی۔۔
دینو کے جھٹکے اب تیز ہو ریے تھے۔۔دفعتا نیلم کا جسم اکڑا اور اُس کی پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔۔وہ گہرے گہرے سانس لیکر ہانپنے لگی۔۔
دینو نے جھٹکے بند کئے اور ہاتھ سے ہی اُسکی گرم گرم پھدی کے رس کو صاف کیا اور دوبارہ سے اُسی پوزیشن میں اپنا لن اُسکی پھدی کے سوراخ میں ایڈجسٹ کر کے دھکا مارا۔۔
لن پھر سے اُن گہرائیوں میں اُتر گیا۔۔
دینو اب وحشی ہو چکا تھا۔۔
اُسکی آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا۔۔وہ تیز تیز دھکے مار رہا تھا۔۔اُسکے گلے کی خر خر خر جیسی عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھیں۔۔
یکبارگی اُس کے لن نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔
وہ نیلم کے اوپر ڈھے گیاا ور مزے سے سسکارنے لگا۔۔اُسکا لن نیلم کی پھدی میں گرم گرم پچکاریاں چھوڑ رہا تھا۔۔
کچھ ہی لمحوں بعد آخری قطرہ بھی نچڑ گیا تو وہ بے دم ہو کر ایک سائڈ پہ گر گیا۔۔
چند لمحؤں بعد اُس نے نگاہ اُٹھا کر نیلم کو دیکھا جو مخمور آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔
اُسکی آنکھیں پیار اور تسکین سے لبریز تھیں جن میں دینو کا ہی عکس نظر آ رہا تھا۔۔
دنیو نے محبت سے اُسے خود سے چمٹا لیا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رات کا پچھلا پہر تھا۔۔تھوڑی دیر پہلے ہی نیلم تھک ہار کر سو گئی تھی۔۔دینو نے آج محبت کی انتہا کی تھی۔۔ہر طرح سے نیلم کے بدن کو اپنی محبت کے پانی سے سیراب کیا تھا کہ وہ عش عش کر اُٹھی تھی۔۔
کمرے میں اب مدھم روشنی تھی۔۔۔دینو نے محبت سے اُسکی طرف دیکھا جو اطمینان اور سکون سے سو رہی تھی۔۔اُس کے چہرے پہ بے پناہ معصومیت تھی۔۔
دینو نے بھی آنکھیں موند لیں۔۔اور گزرے واقعات کو سوچنے لگا۔۔
شہلا بائی نے پچاس لاکھ میں نیلم کا سودا کیا تھا۔۔مگر اُس نے ایک کروڑ دے کر اپنی رانی کو اُس عقوبت خانے سے نجات دلائی جس میں وہ نہ جانے کب سے قید ہو کر جانوروں کی مانند بے بسی سے اپنی زندگی گزار رہی تھی۔۔
دینو اب چوری چکاری چھوڑ چکا تھا۔۔اُس نے پراپرٹی کاکارو بار شروع کر دیا تھا۔۔
قسمت نے اُسکا بہت دیا اور وہ بیغیر کوئی ا نتہیائی اقدام کئے کروڑ پتی ہو گیا تھا۔۔
عارف جمال کے قتل کی ایک ویڈیو نے ا اُسے دو کروڑ کا مالک بنا دیا تھا جس کا سوداُس نے سلطانہ سے کیا اور دو کروڑ بٹور لئے۔۔
دینو کے ساتھیوں نے اُسے اطلاع دی تھی کہ ملک کا ایک بہت امیر آدمی چھپ کر ایک دور دراز مکان میں رنگ رلیاں منا تا ہے۔۔اگر اُس کو اغوا کر لیا جائے تو وہ رسوائی اور بدنامی سے بچنے کے لئے سودا کرنے پہ تیار ہو جائیگا۔پھر جب دینو کا پتا چلا کہ وہ عارف جمال ہے تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا۔۔
وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ عارف جمال کتنا بڑا آدمی ہے۔۔اُسکے ساتھیوں نے جو عارف کے گھر کی نگرانی کر رہے تھے اطلاع دی کہ عارف اس مکان میں اکیلا رہتا ہے صرف ایک ملازم کیستھ اور وہ بے فکر ہو کر واردات کر سکتے ہیں ۔۔تو دینو نے تیاریاں شروع کر دیں۔۔
پھر جب اُس رات وہ شکار کی غرض سے عارف کی خفیہ کمین گاہ پہنچا ۔۔عارف کا کمرہ بند تھا اور کسی لڑکی کے زور زور سے ہنسنے کی آوازی آ رہی تھیں۔۔اُس نے سوچا شاید عارف ابھی کسی دوشیزہ کے حسن کے سمند میں ڈوبا ہوا ہے۔۔۔اُس نے عارف کے ساتھ والے کمرے کے روشن دان سے جھانک کر دیکھا تو
عارف خون میں لت پت پڑا ہوا تھا اور قاتل اُس کی لاش پہ پاؤں رکھ کر قہقہے لگا رہا تھا۔یہ دیکھ کر اُسکی روح تک کانپ گئی۔۔۔
دینو کو نیلم اپنے ہاتھوں سے نکلتی دکھائی دی۔۔عارف ایک ایسا شکار تھا جو کروڑوں کیا اربوں روپے بھی خود کی جان بچانے واسطے دے سکتا تھا۔۔لیکن اب وہ بے بس پڑا اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔۔
اس نےچپ چاپ ستارہ کی ویڈیو بنائی اور اُسکو بلیک میل کرنے کا سوچا۔۔
ستارہ کے پاس پسٹل تھا۔۔اگر وہ کوئی کاروائی اُس دوران کرتا تو ہو سکتا تھا ستارہ اُس پہ بھی گولی چلا دیتی۔۔
ستارہ جب عارف کو قتل کرنے کے بعد گھر سے نکل گئی تو اُس نے اپنے باہر کھڑے دو ساتھیوں کو کہا کہ ایک لڑکی ابھی ابھی گھر سے نکل کر گئی ہے۔۔اُسکا پیچھا کرو اور چونکنے ہو کر رہنا اُس کے پاس پستول بھی ہے۔۔
دینو چند لمحے مکان میں ہی رہا اور پھر باہر نکل آیا ۔۔اُسے یہ دھڑکا تھا کہ کہیں اُسکا ملازم ہی واپس نہ آ کر آسے دھر لے۔۔وہ کسی بیگناہ کے خون سے آپنے ہاتھ نہیں رنگنا چاہتا تھا۔۔
وہ عارف کے مکان سے باہر نکلا اور دور اُس جگہ پہنچاجہاں اُس نے گاڑی پارک کی تھی۔۔
کافی دیر بعد شیدا اور کمالا اُس کے پاس آئے۔۔
انھوں نے خبر دی کہ وہ لڑکی ہاتھ نہیں آئی اور بھاگ گئی۔۔
دینو سخت برھم ہوا۔۔مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔تین ہفتے گزر گئے۔۔
دینو اس دوران ایک اور پلان بنا چکا تھا۔۔
وہ پلان تھا عارف جمال کے قاتل کی ویڈیو رازداری سے سلطانہ کو بیچنے کا۔۔
ٹی وی اور اخبارات سے کی شہ سرخیؤں سے اُسے اندازا ہو گیا تھا کہ پولیس قاتل کو ڈھونڈنے میں بری طرح سے ناکام ہو چکی ہے۔۔
اس دوران اُس کے ساتھیوں نے سلطانہ کا لینڈ لائن نمبر حاصل کر لیا۔۔
سلطانہ خاصے تردد کے بعد ڈھب پہ آئی تھی۔۔
پیسے اور ویڈیو ٹیپ کا تبادلہ بڑے ہی رازدارانہ طریقے سے ہوا تھا۔دو کروڑ میں یہ معاہدہ نے پا یا تھا۔۔۔
اسکے بعد اگلا مرحلہ بخوبی انجام پایا۔۔دینو نے پچاس لاکھ کی بجائے ایک کروڑ شہلا بائی کو نیلم کے عوض دیے اور وہیں اُس سے کورٹ پیرج کر کے اپنے گاؤں لے آیا۔۔
یہاں اُس نے باقعدہ طور پہ نیلم سے شادی کا اعلان کیا اور ساری رسمیں نبھائی جو شادی میں نبھائی جاتیں ہیں۔۔
اب اُسکا ارادا باقی پیسوں سے کوئی کاروبار شروع کرنے اور شرافت کی زندگی گزارنے کا تھا۔۔
قدرت نے جو اُسکو سُدھرنے کا موقع دیا تھا وہ گنوانا نہیں چاہتا تھا۔۔
اُس نے آنکھیں کھول کر پھر سے اپنی رانی کو دیکھا اور اُس کے رخسار پہ ہلکا سا بوسہ دے کر آپنی آنکھیں موند کر سو گیا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئل کی مدھر آواز سے میں ہوش کی دنیامیں لوٹااور مجھے بیہوشی کے اتھا ہ قید خانوں سے نجات مل گئی۔خدا جانے میں کتنی دیر دنیا و مافیا سے بے خبر رہا تھا۔مجھے کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا کہ میں کہاں اور کس حال میں ہوں۔کوئل اب بھی گنگا رہی تھی۔میں آنکھیں موندے اُسکی دلنشیں آواز میں کھویا رہا۔کوں،،کوں۔وہ مسلسل گنگناتی گویا اپنے محبوب کی شان میں قصیدہ خواہ تھی۔محبت حق مانگتی ہےہجر کا حق۔وصال کاحق۔تعریف کاحق۔یاد کاحق۔تڑپ کاحق۔فریاد کاحق۔اور وہ اپنی پرسوز آواز میں گنگناتے سبھی حق ادا کئے جا رہی تھی۔ کچھ دیر تک میں اُس کی مدھ بھری آواز سُنتا رہا۔اچانک میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا اور میں ہڑ بڑا کے اُٹھ بیٹھا۔چاروں جانب گھپ اندھیرا تھا۔کمرے کی دیوار کے ایک جانب ایک چھوٹا سا روشن دان تھا جس میں ہلکی روشنی نظر آ رہی تھی مگر وہ اندھرا دور کرنے سے قاصر تھی۔ ۔میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔غنودگی میں میرے دل و دماغ سے یہ خیال نکل گیا تھا کہ میرے ساتھ کیا بیتی تھی۔مجھے اچھی طرح سے یاد آ گیاکہ میں بھائی بھابھی اور بچوں کو پارک کے گیٹ پہ ڈراپ کرنے کے بعد پارکنگ ایریا میں گاڑی پارک کر کے جونہی مڑا تو میرےکے پچھلے حصے پہ لوہے کی سلاخ سے وار کیا اور پاتال میں جا گرا تھا۔
میں نے بے اختیار اپنے سر کے پچھلے حصے کو چھوا۔مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔میر اسر بالکل نارمل حالت میں تھا۔کسی بھی قسم کی تکلیف سے کوئی آثار نہ تھے۔ورنہ جس بیدردی سے وار کیا گیا تھا کم سے کم ایک ہفتہ تک سر کا دُکھنا یقینی تھا۔میرے دماغ میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ مجھے اغوا کرنے والے کون لوگ ہیں۔میں نے بہتیرا زور لگایا مگر میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
میں تھک کر دوبارہ بستر پہ گر گیا اور گھر والوں کے بارے میں سوچنے لگا۔یقینن میری گمشدگی پہ گھر میں طوفان آ گیا ہو گا۔
بھائی اور بابا شہر کے چپے چپے پہ میرے قدموں کے نشانات تلاش کر رہے ہوں گے۔پھر ایک چہرہ میری نظروں کے سامنے آیا۔بوڑھاجھریوں بھرا چہرہ ۔جو میں اُداس ہوں تو اُداس اور خوش ہوں تو خوش رہتا ہے۔۔یہ چہرہ ماں کا تھا۔ماں کا چہرہ نظروں کیسامنے آتے ہی میرا دل کانپ گیا ۔میں بے چینی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔اور لپک کر اندھیرے میں دیواریں ٹٹول کر دروازا تلاش کرنے لگا۔میری گمشدگی ماں سے برداشت نہیں ہونی تھی۔وہ نحیف وجود جو ستارہ کے غم میں مجھے مبتلا دیکھ کر مزید بوڑھا ہو گیا تھا یہ خبر کبھی بھی برداشت نہ کر پاتا۔میں اندھا دھند دیورایں ٹٹولتے ہوئےکمرے کا دروازا تلاش کیا۔
کوئی ہے۔میں نے دھاڑتے ہوئے کہا۔خدا کے لیئ دروازا کھولو۔میری ماں مر جائیگی۔میں نے رو دینے والے لہجے میں کہا اور دھڑ دھڑ دروازا پیٹنے لگا۔
پلیز دروازا کھولو۔میں نے اب کی بار چلاتے ہوئے کہا اور زور زور سے دروازا پیٹنے لگا ۔خاصی دیر تک دروازا پیٹا حتیٰ کے میرے ہاتھ شل ہو گئے۔مگر جواب ندارد۔
تھک کر میں دوبارہ اندھیرے میں ٹٹولتا ہواا مسہری کے پاس پہنچا اور گر کر ہانپنے لگا۔کمبختوں نے لوہے کا دروازا والے کمرے میں قید کیا تھا۔جسے پیٹ پیٹ کر میرے ہاتھ درد سے دُکھنے لگے تھے۔
میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے۔یہ آنسو دل کے درد سے بے اختیار نکلے تھے جو ماںکی وجہ سے ہوا تھا۔
کتنی خوش تھیں کہ اُنکا بیٹا دوبارہ اُن کی زندگی میں لوٹ آیا ہے۔مگر نا جانے کیوں اُنکی خوشیوں کی کسی کی نظر لگ گئی تھی اور کسی نے مجھے اس حالت میں پہنچا دیا۔
میں تھک ہار کے بیڈ پہ ڈھے کر اس صورتِ حال کا جائزہ لینے لگا۔
کافی دیر ہو گئی تھی۔روشن دان سے چڑیوں کے چہچانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔کمرے میں اب اتنا اندھیرا نہیں رہ گیا تھا روشن دان سے آنے والی روشنی میں کمرے بخوبی نظر آ رہا تھا۔صبح ہو چکی تھی۔
اچانک کمرے کا دروازا کھُلنے کی آواز سنائی دی۔میں چونک کے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
میرا دل زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔پتا نہیں آنے والے میرے ساتھ کیسا سلوک کریں گےاور مجھے اغوا کرنے کا کیا مقصد تھا۔میں کانپتے ہوئے سوچا۔
دروازے سے پیدا ہونے والی آواز بند ہو گئی تھی مگر کوئی اندر نہ آیا تھا۔میں خاصی دیر انتظار کرتا رہا مگر کوئی اندر نہ آیا۔میں ڈرتے ڈرتے چارپائی سے نیچے اُترا۔میرا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا مبادا سینہ چیر کر باہر نکل آئیگا۔
میں آئیستہ آئستہ قدم اُٹھاتا دروازے کی جانب بڑھا۔خوٖ ف سے میرے رونگٹھے کھڑے تھے۔میرا جسم پسینے سے تر بتر تھا۔میں بیغیر آواز پیدا کئے دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا۔دس قدموں کے فاصے پہ کھڑا دروازا مجھے ہزاروں کوس دور لگ رہا تھا۔میں نے دھڑکتے دل کیساتھ دروازے پہ ہاتھ رکھا اور اپنی جانب کھینچا۔خلافِ توقع دروازا کھل گیا۔میرا یکبارگی زور سے دھڑک کر جیسے حق میں آگیا۔میں ڈرتے ڈرتے باہر سر نکال کر جھانکا۔باہر کوئی بھی نہیں تھا۔میں ڈرتے ڈرتے کمرے سے باہر قدم نکالےاور ادھر اُدھر کسی زی شعور کے وجود کا پتا لگانے کی کوشش کی مگر کوئی نفس دکھائی نہ دے رہا تھا۔میں احتیاط سےپھونک پھونک کے قدم آگے بڑھاتاجا رہا تھا۔
یہ تین کمروں پہ مشتمل ایک چھوٹا سا گھر تھا ۔جس کے برآمدے میں کھڑا آگے کی سوچ بچار کر رہا تھا۔صبح کا ہلکا ہلکا اُجالا پھیل چکا تھا۔آسمان پہ گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے کافی بارش ہوئی ہو مگر اس وقت ابر خاموش تھا۔
مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے گھر میں کوئی بھی نہیں ہے لیکن کسی بھی کمرے میں جھانکنے کی میری ہمت نہیں ہو رہی تھی۔میں نے یک دم باہر کےدروازے کی جانب دوڑ لگا دی۔میرا روم روم خوشی سے بھر گیا۔میں دل ہی دل میں اُس فرشتہ صفت انسان کو دل ہی دل میں دعائیں دے رہا تھا جس نے اُس عقوبت خانے کا دروازا کھول کر مجھے نجات دلائی۔
دروازے کے سامنے پہنچ کرجیسے ہی میں نے ہاتھ بڑھا کر کھولنا چاہا مجھے اپنے پیچھے سے کسی کی آواز سنائی دی۔میں نے یکبارگی مڑ کر دیکھا تو ٹھٹک کر رُک گیا۔ایک چھوٹا سا بچہ جسکی عمر بمشکل پانچ سال ہو گی دوڑتا ہوا آ رہا تھا۔میرے پاس پہنچ کر مجھ سے دو قدم کے فاصلےپہ آ کر وہ رُک گیا۔میں نے غور سے اُسے دیکھا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔نہیں یہ ہو نہئں سکتا۔میں نے بے اختیار کہتے ہوئے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔میں نے اپنی اُنگلی دانتوں میں دبا لی گویا اس حقیقت کو ایک خواب سمجھا۔مگر کوئی فرق نہ پڑا۔وہ ہنوز میرے سامنے کھڑا تھا۔میں حیرت سے بت بنا اُسے ٹُکر ٹکر دیکھ رہا تھا۔میرے دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے۔
دفعتا وہ آگے بڑھا اور میرا ہاتھ تھام کر واپس گھر کی جانب ہو لیا۔میں سحر زدہ ہو کر اُسکے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔
وہ مجھے ایک کمرے کے دروازے سامنے چھوڑ کر خود ساتھ والے کمرے میں چلا گیا۔
میرا ذہن مسلسل سائیں سائیں کر رہا تھا۔میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کیا کرؤں اور کیا نہ کروں۔میں نے جھجکتے ہوئے دروازا کھولا اور کمرے میں داخل ہو گیا۔
کمرے میں ایک وجود سر بسجود تھا۔اُس نے سفید رنگ کی بڑی سی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔
میں اُسکا انتظار کرتا رہا کہ کب وہ فارغ ہو مگر سجدہ تھا کہ ختم ہی ہونے کو نہ آ رہا تھا۔
میں بے چینی سے کھڑا اُسے دیکھتا رہا۔
آخر کار مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بول پڑا۔
کون ہیں آپ اور میں یہاں کیسے آیا۔میں نے قدرے دھیمے مگر سشتہ لہجے میں کہا۔
مگر کوئی جواب نہ آیا۔البتہ سجدہ ختم ہوا اور وہ عبادت کی تکمیل کرنے لگ گئی۔
عبادت ختم کرنے کے بعد اُس نے جائے عبادت لپیٹ کر ایک سائڈ پہ رکھی اور میری طرف پلٹی۔
۔
اُس کا پلٹنا ہی مجھ پہ بجلیاں گرا گیا۔میرا دل اتنی زور سے دھڑکا گویا سینہ پھاڑ دے گا۔
وہ مناہل تھی۔میری مناہل۔۔جسے دنیا والے ستارہ کہتے تھے۔
سفید چادر میں اُسکا کھِلا چہرہ انتہائی معصوم اور پاکیزہ لگ رہا تھا جیسے چادر کاہی ایک حصہ ہو۔
وہ اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں مجھ پہ جمائے اُداس نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔
میرے دل میں رواں ہوتے لہو کو دیکھ کر سمندروں کی لہرؤ ں کی رفتار تھم سی گئی۔ہواؤں نے میرے وجوداُٹھتی شرر بار حرارت سے منہ پھیر لیا ۔مناہل کی آنکھیں میری آنکھوں میں پیوست تھیں۔وہ آنکھیں جن کو دیکھنے واسطے میں دن رات یادوں کی بھٹی میں جلتا رہتا۔وہ آنکھیں جس کی تپش کو میرا وجود ترس گیا۔وہ آنکھیں جس کی خاموش گفتگو میرے تن من کو سرشار کر دیتی۔وہ آنکھیں جن میں میری محبت سے لبریز خمار ہر وقت چھلکتا رہتا۔آج میرے سامنے تھیں مگر مجھے یقین نہ آ رہا تھا۔اُن آنکھوں کے طلسم سے میں ڈگمگانے لگا تھا۔۔مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میرا وجود کپکپا رہا تھا۔میرے دماغ میں اندھیرا چھانے لگا۔
میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔منا،،،مناہ ل،،میں نمشکل لرزتے ہونٹوں سے کہا اور پھر یکدم تاریکی چھا گئی اور میں گر گیا۔گرنے سے پہلے مجھے اتنا یاد رہا کہ مناہل نے بجلی کی سی تیزی سے مجھے گرتے ہوئے کو سمیٹ لیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عشق کا سفر کٹھنائیوں کا سفر ہے۔اس سفر میں واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔سب سے بڑھ کر عشق کے سفر میں اپنی خوداری ،غیرت و حاکمیت،انا حتیٰ کے عزتِ نفس کو بھی قربان کرنا پڑتا ہے۔عشق کی سرگزشت کے پند و نصائح اخذ کرنے والوں نے کبھی کوئی حتمی بات اس کے متعلق نہیں رہی۔یا پھر خدا جس کو عشق کے اعلیٰ مقام پہ براجمان کر دیتا ہے اُس کی قوتِ گویائی گویا سلب کر لیتا ہے۔ساری کشتیاں جلا کر عشق کے سمندر میں غوطہِ زن ہونا پڑتا ہے۔یہ سمندر اپنے اندر عجائب کے خزینے رکھتا ہے۔جس کی حقیقت سے نا آشنا لوگ اس کو محض قصے کہانیاں سمجھ کر لطف اُٹھاتے ہیں۔
ناجانے کب میری آنکھ کھلی۔مجھے اپنے پیروں پہ روئی کی مانند نرم شے کا احساس ہوا۔
میں نے آنکھیں کھول کر غور سے دیکھا تو میرا دل غم سے بھر گیا۔
وہ میرے پیروں پہ اپنا سر رکھے مسلسل روئے جا رہی تھی۔
مناہل۔
میں نے تڑپ کے پکارااور اپنے پاؤں کھینچ لئے۔
وہ چونک کر اُٹھی۔اور میری طرف دیکھا۔آنکھوں سے آنکھیں ہمکلام ہو گئیں۔دھڑکنوں کی نے ایک دوسرے کی پہچان کر لی۔
وہ دھاڑیں مارتی ہوئی مجھ سے لپٹ گئی اور زور زور سے رونے لگی۔
مجھے معاف کر دیں غزن۔وہ ہچکیاں لیتے بولی۔میں گنہگار ہوں آپکی
وہ سسک سسک کر رو رہی تھی۔ ۔
میں جانتی ہوں میں نے بہت تڑپایا ہے آپکو۔بہت رُلایا ہے ۔میں نے آ۔۔پ۔اس سے آگے اُس کا گلا رندھ گیا اور وہ کچھ نہ بول سکی۔
میری آنکھیں جو کئی سالوں سے میرے محبوب کے ہجر میں بھیگ رہی تھیں آج وصال یار نے نم کر دیں۔ہم دونوں ایک دوسرے کو سختی سے خود میں سمائے رو رہے تھے۔
کافی دیر ہو گئی تھی۔میری شرٹ اُس کے آنسؤؤں سے بھیگ چکی تھی۔میری آنکھوں کے بادلوں تھم چکے تھے۔دل کا غبار نکل گیا تھا۔اب میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔
پرسکون ہو جانے ے بعد میں نے مناہل کو خود سے الگ کیا اوراُسکی آنکھوں میں جھانکا ۔
آپ نے کیوں کیا ایسا؟ میں ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اُسکا چہرہ صاف کرتے ہوئے بولا جو آنسوؤں کے ریلے سے تر بتر ہو گیا تھا۔
وہ شرمندگی سے سر جھکا کر رہ گئی۔
پھر یک دم اپنا سر اُٹھایا اور بولی۔
میں مجبور تھی۔
کیسی مجبوری؟میں نے کہا۔
وہ اپنے ہاتھوں کی اُنگلیوں آپس میں پھنسا کر بے چینی سے مروڑنے لگی۔
پھر چند لمحوں بعد بولی۔
باسی کھانے کو جتنا گرم کر لیا جائے وہ باسی ہی رہتا ہے۔شاخ سے توٹے پھول میں جازبیت نہیں ہوتی۔جب میں نے آپکے دل میں اپنے لئے محبت دیکھی تو مجھے خود سے گھن آنے لگی۔میں خود کو آپکا مجرم سمجھنے لگی۔بخدا میں بھی آپسے سچی محبت کرتی تھی لیکن مجھے ڈر تا کہ جب بھی آپکو آصلیت کا پتا چل گا آپ مجھ سے نفرت کے لگیں گے۔ میرا وجود داغدار تھا۔میں کسی بھی لحاظ سے آپکے قابل نہ تھی۔آپ سے بے پناہ محبت تھی۔مجھے خیال ہوا کہ اگر آپ نے مجھے دھتکارا تو میں جیتے جی مر جاؤں گی۔آپ کی نفرت کی ایک نگاہ مجھے درگور کر دیتی۔میرے وجود پہ جو داغِ جرم تھا اُسکی زد میں آپ بھی آ سکتے تھے جو مجھے کبھی بھی گوارا نہیں تھا۔میں کبھی بھی نہیں چاہتی تھی کہ آپ پہ زرا سی بھی آنچ آئے۔اس لئے چپ چاپ گھر چھوڑ دیا۔پھر جب مجھے پولیس نے پکڑ لیا تو میں نے خوشبخت کو ساری سچائی بتا دی اور بدلے میں صرف آپکی حفاظت مانگی کہ آپکو کچھ نہ کہا جائے۔آپ کا اس سارے معاملے میں کوئی قصور نہ تھا۔خوشبخت نے میری بات مان لی۔لیکن اس کے بعد میرا جینے کو ایک پل بھی دل نہ کیا۔خودکشی حرام تھی ورنہ میں کب کا کر چکی ہوتی۔میرے جینے کا اب کوئی مقصد نہ رہ گیا تھا۔پھر ایک دن خوشبخت نے بتایا کہ آپ مجھ سےملنا چاہتے ہیں مگر میں نے انکار کر دیا۔میں سمجھتی تھی کہ آپ مجھے نفرت سے دیکھیں گے۔برا بھلا کہیں گے۔مجھے بیوفااور ناقا بلِ اعتبار کہیں گے۔اور میں یہ کبھی بھی نہیں سُن سکتی تھی۔میں اپنے جرم کا اقرار کر چکی تھی۔عدالت نے مجھے سزا سنائی تو میں نے کبھی بھی آپ سے نہ ملنے کا عہد کیا۔میں اپکو ہرٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔پھر اس دوران آپکی حالت کا خوشبخت سے پتا چلتا رہتا تھا۔آپکی حالتِ زار سُن کر میں خود کو کوستی رہتی مگر آپ سے کبھی ملنے کی جراءت نہ کر سکی۔میں آپکا سامنا کرنے سے ڈرتی تھی۔کیسے کرتی۔ میں نے ہر طرح سے آپکو دکھ پہنچائے۔آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ آپ کو غمزدہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔بنا بتائے گھر چھوڑ دیا۔میں نے خود کو آپکی کسی بھی قسم کی مدد کے قابل نہیں سمجھا۔آپ میرے محسن تھے۔آپ کے ان گنت احسانوں کے بوجھ تلی میں دبی ہوئی تھی۔میں اس قابل نہیں تھی کہ آپ مجھ پہ کوئی احسان کرتے۔میں آپکی چاہت کے ہر گز لائق نہیں ہوں غزن۔
یہ آخری بات کہتے ہوئے وہ سسک پڑی۔میں تڑپ کر اُسے خود کے سینے میں چھپا لیا۔
انھی بدگمانیؤں کی وہ سزا کاٹ کر آئی تھی۔کاش وہ مجھ پہ بھروسہ کر لیتی تو یوں وہ در بدر نہ ہوتی۔
میں اپنا سینہ چیر کہ اُسے دکھا دیتاجہاں دھڑکتا دل میں اُسی نام کی مالا جپ رہا تھا۔
تم نے مجھے اغوا کیوں کرویا۔میں نے اُس کے لمبے لمبے سیاہ بالوں میں ہاتھ پھرتے ہوئے پرسوچ لہجے میں کہا۔
آپ کے اندر ڈر کی ایک کیفیت پیدا کرنے کے لئے۔ورنہ مجھ سے ملنے کے بعد آپ شاک سے 4 گھنٹے بعد ہوش میں آئے ہیں۔سوچئے اگر میں عام حالت میں آپ کے سامنے آ جاتی تو آپ کی کیا حالت ہوتی۔وہ ہلکا سا ہنستے ہوئے بولی اور اپنے بازؤوں کی گرفت سخت میری کمر کے گرد سخت کر دی۔
کیاتم نے میرے سر پہ کوئی لوہے کی چیز ماری تھی۔میں اُلجھے لہجے میں کہا۔
نہیں بابا۔اتنے دنوں بعد ہم ملے ہیں اور آپ ایسے سوال لے کر بیٹھ گئے ہیں۔وہ جھنجھلائے لہجے میں بولی۔
چلو رہنے دو اگر نہیں بتانا تو۔میں نے اپنے ہونٹ اُسکی گردن پہ رکھتے ہوئے کہا۔اور ہولے سے چوم لیا۔
وہ تڑپ کر مجھ سے الگ ہوئی اور اپنے بے ترتیب ہوتی سانسوں کو درست کرنے لگی۔پھر گویا ہوئی۔
آپکے سر پہ لوہے کی چیز نہیں بلکہ گوشت پوست کا ایک ہاتھ مارا گیا تھا۔خوشبخت کے ایک ماتحت نے جو ہماری نگرانی پہ مامور ہے۔وہ مجھے تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے بولی۔
ایک تحفہ اور ہے آپ کے لئے۔وہ رازدارانہ لہجے میں بولی۔
کیا؟ میں چونک کر سوالیہ لہجے میں کہا۔
بیٹا سکندر۔وہ اونچی آواز میں بولی۔
چند ہی لمحوں بعد وہی بچہ سامنے آیا جو مجھے گیٹ پہ ملا تھا۔
وہ غور سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
بیٹا یہ کون ہیں بھلا۔مناہل مشفقانہ لہجے میں بولی۔
یہ پاپا ہیں مما۔وہ اپنی باریک سی آواز میں بولا۔
میں حیرت سے اُچھل پڑا۔پاپا۔
میں نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔اور مناہل کی جانب دیکھا۔
اُس نے اثبات میں سر ہلایا۔گویا کہہ رہی ہو کہ ہاں یہ تمہارا ہی خون ہے جسے میں نے سینچ کر رکھا ہے۔
میں پھرتی سے بیڈ سے اُتر کر اُسے خود میں بھینچ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
میرا خون میرا بیٹا اتنا عرصہ مجھ سے جدا رہا اور میں اُسکی قلقاریاں تک نہ سُن رہا۔میں بے اختیار اُسے خود سے بھینچے دیوانہ وار چوم رہا تھا۔مجھے اُس کو دیکھتے ہی شک ہو گیا تھا لیکن میں نے محض خیال ہی سمجھا تھا۔وہ ہو بہو میری کاپی تھا۔آنکھ ،ناک ہونٹ غرض اُسکے نین نقش مجھ جیسے تھے۔میرا دل دھواں دھواں ہو رہا تھا۔آنکھوں سے آنسو جوق در جوق برس رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج میں بہت خوش تھا۔خوشی سے بار بار میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔گھر میں خوب رونق تھی۔سکندر سب کی آنکھوں کا تار بنا ہوا تھا۔ہر کوئی اُسے چوم چوم کر پاگل ہو رہا تھا۔ماں جی تو اپنے پوتے پر صدقے واری ہو رہی تھیں ۔۔علی ماہا اور گاوں سے اُس کے والدین بھی آئے تھے۔لیکن اس سے بڑھ کر جو خاص الخاص مہمان تھے وہ خوشبخت اور سلطانہ تھے۔خوشبخت پر تپاک انداز میں مجھ سے ملا۔وہ پشیمان تھا کہ اُسکی وجہ سےمیرا بہت نقصان ہوا ہے ۔مگر اس میں اُسکا کوئی قصور نہ تھا۔وہ محض اپنی فرض شناس طبعیت کے ہاتھوں مجبور ہوا تھا۔سلطانہ نے ساز گار حالت دیکھ کر مناہل یعنی ستارہ کومعا ف کر دیا۔جس پر خوب شور ہوا مگر دونوں میاں بیوی نے کوئی پراوہ نہ کی۔
مناہل نے بیٹے کا راز خوشبخت کی مدد سے چھپایا ورنہ وہ اکیلی رہ جاتی ۔کیوں کہ ہو سکتا تھا میں ایک باپ ہونے کے ناطے کبھی بھی اپنے بیٹے سکندر علی کووہاں جیل میں نہ رہنے دیتا۔رات ہو چکی تھی۔سب مہمان سو چکے تھے۔
میں ،خوشبخت اور علی بھی محفل برخارست کرتے اپنے اپنے کمروں کی جانب ہو لئے۔
اپنے کمرے کے سامنے پہنچ کر میں رُک گیا۔
دل زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔
میں دروازا کھولاندر داخل ہوا تو مناہل کو بیڈ کی پشت سر ٹکائے ہوئے دیکھا۔
شاید وہ میرا ہی انتظار کر رہی تھی۔
اُسکی بڑی بڑی ساحرانہ آنکھیں مجھ پہ ٹکی ہوئی تھیں۔سکندر آج اپنے دادا دادی کے کمرے میں تھا۔ور ہمیں پوری آزادی تھی۔
میں نےدروازے کو چٹکنی لگا دی اور دکھوں کا دروازا بند کر کے میں خوشیوں کے سفر پہ گامزن ہو گیا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ٹرین جانے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ایک بڑی عمر کی عورت ٹرین کی کھڑکی سے بار بار باہر جھانک رہی تھی۔
اُس کے ماتھے پہ پریشانی سے شکنیں پڑی ہوئیں تھیں اور وہ خاصی پریشان لگ رہی تھی۔
وہ کسی کا بڑی شدت سے انتظار کر رہی تھی۔
مگر ابھی تک اُسکا مطلوبہ شخص نظر نہ آیا تھا۔
کچھی دیر میں ایک نوجوان لڑکی ڈبے میں داخل ہوئی اور جلدی سےڈبے کا دروازا بند کر دیا۔یہ ریزرو تھا اس لئے ان دونوں کے سوا اس ڈبے میں کوئی نہ آ سکتا تھا۔
اُس لڑکی نے ایک بڑی سی کالے رنگ کی چادر میں خود کو چھپایا ہوا تھااُس کےہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ تھا جو خاصا وزنی لگ رہا تھا۔
خاتون نے لپک کر اُس لڑکی سے بیگ لے لیا اور اپنے پاس رکھ کر بولی۔
کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی میری گڑیا۔وہ بوڑھی عورت چمک کر بولی۔
نہیں اماں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔میں نے اُسے بیہوشی کی دوائی کھلا دی ہے اور وہ صبح ہی اٗٹھ سکے گا۔
نوجوان لڑکی چادراُتارتے ہوئے ایک سائڈ پہ رکھ کر بولی۔
خاتون نے بیگ کھول کر دیکھا جو بڑے بڑے نوٹوں سے بھرا ہو ا تھا۔
شاباش میری گڑیا۔
خاتون فرطِ جذبات میں اُس لڑکی کو گلے لگاتے ہوئے بولیں۔
اب کی بار بہت لمبا ہاتھ مارا ہے ہم نے۔جب تک وہ حرامی بیہوشی سے جاگے گا ہم بہت دور جا چکے ہوں گے۔
شہلا بائی نیلم کا سر چومتے ہوئے بولیں۔
نیلم نے مسکرا کر سر ہلایا اور ایک فرمانبردار بیٹی ہونے کا ثبوت دے دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ختم شد۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
Back
Top Bottom