Incest Writer
Top Writer
- Joined
- Oct 9, 2024
- Messages
- 79
- Reaction score
- 560
- Points
- 83
- Gender
- Male
- Thread Author
- #1
رات کے 3 بج رہے تھے اور شاہ فیصل کالونی سے ایک 2006 ماڈل کی کرولا 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے شمع شاپنگ سینٹر کے سامنےسے ہوتی ہوئی شاہراہِ فیصل فلائی اور کراس کرنے کے بعد شاہراہِ فیصل پر چلی گئی۔ شاہراہِ فیصل پر آتے ہی گاڑی کی سپیڈ میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا تھا۔ ڈرائیور شاید بہت جلدی میں تھا رات کے 3 بجے اگرچہ سڑک بالکل سنسان نہیں تھی، کسی حد تک ٹریفک موجود تھی شاہراہ پر مگر کالے رنگ کی یہ کرولا گاڑی اب 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ پر جا رہی تھی۔ ڈرائیور انتہائی مہارت کے ساتھ دوسری گاڑیوں سے بچاتا ہوا اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ راشد مہناس روڈ کو جانے والے ٹرن کے قریب ڈرائیور کو ٹرانسمیٹر پر ایک کال موصول ہوئی جسمیں اسے ایک ہنڈا اکارڈ گاڑی کے بارے میں اطلاع دی گئی جو کچھ ہی دیر پہلے اسی جگہ سے گزری تھی۔ ہنڈا اکارڈ کی سپیڈ 90 کلومیٹر فی گھنٹہ بتائی گئی اور اسکو اس جگہ سے گزرے کوئی 5 سے 10 منٹ ہو چکے تھے۔
یہ معلومات ملتے ہی ڈرائیور نے اپنی گاڑی کی سپیڈ اور بڑھا دی کیونکہ وہ جلد از جلد ہنڈا اکارڈ گاڑی کو ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ نرسری فلائی اور کراس کرنے کے بعد گورا قبرستان کے قریب کرولا کے ڈرائیور کو دور سرخ لائٹ نظر آنا شروع ہوئی جو شاید کسی کار کی بیک لائٹس ہی تھیں۔ اسکو دیکھ کر کرولا کے ڈرائیور نے اپنی رفتا میں کمی کی اور اب 150 کی بجائے 100 کی رفتار کے ساتھ اس گاڑی کے پیچھے جانے لگا۔ کچھ ہی دیر میں یہ فاصلہ اور کم ہوگیا اور اب کرولا کا ڈرائیور اپنی رفتار کو 90 کلومیٹر فی گھنٹہ پر لے آیا۔ سامنے جانے والی کار ہنڈا اکارڈ ہی تھی جسکا پیچھا کرنا تھا۔ اور اس میں موجود شخص کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھیں۔ ہنڈا اکارڈ میں کوئی اور نہیں بلکہ انڈین آرمی کا کرنل اور بدنامِ زمانہ تنظیم راء کا خاص ایجینٹ کرنل وِشال سنگھ تھا جو اپنے خاص مشن پر پچھلے کافی دنوں سے کراچی میں موجود تھا۔
پاکستان کی خفیہ ایجینسی بھی کافی دنوں سے کرنل وشال کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھی مگر وہ ابھی تک یہ سمجھنے میں ناکام تھے کہ آخر کرنل وشال پاکستان میں کس مقصد سے آیا ہے اور آیا کہ وہ اب تک اپنے مشن میں کامیاب ہو سکا ہے یا نہیں اس بارے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ابھی تک کچھ معلوم نہ کر سکی تھی۔ میجر دانش گو کہ ایک ہونہار جوان تھا جس نے پاکستان آرمی میں کم عمری میں ہی بہت نام بنایا تھا مگر اب وہ آئی ایس آئی کا بھی سپیشل ایجنٹ تھا۔ آئی ایس آئی اپنے خاص کاموں کے لیے اکثر میجر دانش کا ہی انتخاب کرتی تھی اور آج بھی رات کے 3 بجے میجر دانش کو خاص طور پر کرنل وِشال سنگھ کا پیچھا کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ میجر دانش اپنی تیز ڈرائیونگ کے لیے پہلے ہی مشہور تھا اور آج بھی اس نے طوفانی رفتار سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے بالاآخر ہنڈا اکارڈ کو ڈھونڈ نکالا تھا۔
اب میجر دانش اگلی کار سے مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے مسلسل اسکے پیچھے جا رہا تھا۔ روڈ بالکل سیدھا تھا، ہنڈا اکاڑ شاہراہِ فیصل کو چھوڑ کر کلب روڈ سے ہوتی ہوئی اب مولوی تمیز الدین روڈ پر 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے جا رہی تھی۔ مولوی تمیز الدین روڈ سے بحریہ کمپلیکس اور پھر وہاں سے گاڑی نے اچانک ایک موڑ لیا اور سیدھی کراچی پورٹ کی طرف جانے لگی۔ یہ عام گزرگاہ نہیں تھی۔ یہاں پر پولیس اور رینجرز کی طرف سے خاص طور پر چیکنگ کی جاتی تھی۔ میجر دانش نے دیکھا کہ ہنڈا اکارڈ آگے آنے والی چیک پوسٹ پر کچھ دیر کے لیے رکی ہے۔ یہاں پر رینجرز ہر آنے والی گاڑی کو خصوصی طور پر چیک کرتے تھے۔ میجر دانش نے بھی گاڑی آہستہ رفتار سے چلنے دی۔ جب میجر دانش کی گاڑی آگے کھڑی ہنڈا اکارڑ کے بالکل قریب پہنچ گئی تو میجر دانش نے دیکھا رینجر اہلکار نے ہنڈا اکارڈ میں موجود پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کو سلیوٹ کیا اور ڈرائیور کو ایک کارڈ پکڑا دیا۔ اسکے ساتھ ہی ہنڈا اکارڈ آگے چلی گئی۔
میجر دانش کی گاڑی کو بھی رینجرز اہلکار نے چیکنگ کے لیے روکا تو میجر نے اپنا کارڈ رینجر اہلکار کو دکھایا۔ اہلکار نے وہ کارڈ ساتھ بیٹھے اپنے افسر کو دیا جس نے کارڈ کو خصوصی طور پر چیک کرنے کے بعد میجر دانش کو بھی آگے جانے کی اجازت دی اور اہلکار نے میجر دانش کو سلیوٹ مار کر کارڈ واپس کر دیا۔ میجر دانش نے سلیوٹ مارنے والے شخص سے پوچھا کہ اگلی گاڑی میں کون تھا تو اسنے بتایا کہ اگلی گاڑی میں لیفٹینینٹ کرنل ہارون موجود تھے جو کسی اہم کام سے بندر گاہ کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی میجر دانش کو فکر لاحق ہوگئی۔ کیونکہ اگلی گاڑی میں تو کرنل وشال موجود تھا۔ اور وہ انتہائی مہارت کے ساتھ رینجرز اہلکار کو دھوکا دیکر ایک پاکستانی لیفٹینینٹ کرنل کے حلیے میں کراچی پورٹ پہنچ چکا تھا اور رینجر اہلکار اسکو پہچاننے میں ناکام رہے تھے۔
یہ سنتے ہی میجر دانش نے اپنی گاڑی چلائی اور ہنڈا اکارڈ کو ڈھونڈنے لگا۔ کچھ ہی دور جا کر میجر دانش کو ہنڈا اکارڈ مل گئی۔ اسکی لائٹس بند ہو چکی تھیں۔ میجر دانش نے اپنی گاڑی دور کھڑی کی اور پیدل ہی ہنڈا اکارڈ کی طرف بڑھنے لگا۔ میجر دانش اس وقت اپنی یونیفارم کی بجائے شلوار قمیص میں ملبوس تھا۔ وہ بہت ہی احتیاط کے ساتھ ہنڈا اکارڈ کی طرف جا رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کرنل وشال راء کا سب سے خطرناک ایجینٹ ہے اور اپن کام میں ماہر ہے۔ وہ آج تک اپنے کسی بھی مشن میں ناکام واپس نہیں لوٹا تھا۔ اور آئی ایس آئی جانتی تھی کہ اس بار بھی کرنل وشال ہو نہ ہو کسی خطرناک مشن پر ہی پاکستان میں موجود ہے۔ مگر اس پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں تھا۔ کچھ ہی دیر میں میجر دانش ہنڈا اکارڈ کے قریب پہنچ چکا تھا اسکو دور سے دیکھ کر ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ گاڑی میں کرنل موجود نہیں۔ وہ گاڑی کے قریب پہنچا تو اکارڈ کا ڈرائیور ابھی تک گاڑی میں موجود تھا اور ڈرائیونگ سیٹ پر چاک و چوبند بیٹھا تھا۔
میجر دانش نے ڈرائیور سے پوچھا کہ تم یہاں کیوں کھڑے ہو اور یہ کس کی گاڑی ہے؟ تو ڈرائیور نے بتایا کہ لیفٹینینٹ کرنل ہارون صاحب تشریف لائے ہیں انہیں یہاں کوئی کام ہے۔ یہ کہ کر ڈرائیور دوبارہ اپنی مستی میں گاڑی میں لگے گانے سننے لگا اور میجر دانش انتہائی احتیاط کے ساتھ مگر بہت ہی لا ابالی طریقے سے آگے بڑھنے لگا۔ 32 سالہ میجر دانش اپنے چاروں طرف کے حالات سے اچھی طرح باخبر تھا، اسکی چھٹی حس اسکو آنے والے خطرے کے بارے میں بھی بتا رہی تھی مگر وہ بظاہر نارمل انداز میں چلتا جا رہا تھا۔ کچھ دور اسکو پاکستانی یونیفارم میں ایک آرمی آفیس نظر آیا جو ایک ہی لمحے میں غائب ہوگیا۔ میجر دانش نے سوچا ہو نہ ہو یہ کرنل وشال سنگھ ہی ہوگا۔ جو اس وقت تمام سیکورٹی کو چکمہ دیکر پاکستانی لیفٹینینٹ کرنل کے حلیے میں انتہائی حساس علاقے میں موجود ہے۔
جس وہ شخص جاتا نظر آیا تھا اور ایک دم سے غائب ہوگیا تھا وہیں سے ایک گاڑی نکلی جو اب بندر گاہ سے ہوتی ہوئی کیماڑی کی طرف جا رہی تھی۔ میجر دانش نے بھی فورا واپسی اختیار کی اور بھاگتا ہوا اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھا اور اسی طرف چل پڑا جہاں دوسری گاڑی جا رہی تھی۔ کیماڑی جیٹی پہنچ کر میجر دانش کو وہی گاڑی دوبارہ نظر آئی مگر اس وقت اس میں کوئی بھی شخص موجود نہیں تھا۔ میجر دانش فورا وہاں سے بھاگتا ہوا اس سائیڈ پر گیا جہاں پر بوٹس موجود ہوتی ہیں۔ وہاں سے میجر دانش کو پتا لگا کہ ہارون صاحب، جو کہ اصل میں کرنل وشال تھا، ایک بوٹ پر سوار ہوچکے ہیں جو ابھی منوڑا بیچ کی طرف جائے گی۔ میجر دانش بھی سیکورٹی اہلکار سے نظر بچا کر اس بڑی سی بوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد بوٹ دوسری سائیڈ پر پہنچ چکی تھی اور کرنل وشال اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ بوٹ سے اتر گیا۔ موقع دیکھ کر میجر دانش بھی بوٹ سے نیچے اترا۔ نیچے اتر کر میجر دانش نے دیکھا کہ کرنل وشال کے لیے ایک کالے رنگ کی پجارو کھڑی ہے۔ کرنل وشال اپنے 2 ساتھیوں کے ساتھ پجارو پر سوار ہوا اور کچھ ساتھی واپس اسی بوٹ کی طرف جانے لگے۔
میجر دانش سمجھ گیا تھا کہ اب انکا رخ منوڑا بیچ کی طرف ہی ہوگا جہاں سے بڑے بڑے جہاز سمندری راستے سے دنیا کے مختلف ملکوں کی طرف روانہ ہوتے تھے۔ عام طور پر سمندری جہاز کے ذریعے بڑے بڑے سمگلر سفر کرتے ہیں اور میجر دانش کے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ کرنل وشال کسی قیمتی چیز کی سمگلنگ میں انوالو ہے، مگر اگلے ہی لمحے میجر دانش نے اس خیال کو اپنے ذہن سے نکال دیا کہ سمگلنگ کے لیے راء جیسی ایجنسی کبھی بھی کام نہیں کرے گی۔ ایسا کام تو چھوٹے موٹے سمگلرز کے ذریعے کروایا جا سکتا ہے، کرنل وشال کا اس معاملے میں شامل ہونا کسی بڑے خطرے کی طرف اشارہ تھا۔ کالے رنگ کی پجارو یہاں سے جا چکی تھی، اور میجر دانش اب پیدل ہی منوڑا بیچ کی طرف جا رہا تھا۔ میجر دانش بھاگتا ہوا یہ سارا راستہ طے کر رہا تھا۔ پجارو سڑک کے راستے جا رہی تھی جبکہ میجر دانش شارٹ کٹ استعمال کرتا ہوا اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا۔ صبح کی ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی اور اب بغیر لائٹس کے بھی کافی حد تک نگاہ کام کرنے لگی تھی۔
آدھا گھنٹہ مسلسل بھاگنے کے بعد میجر دانش کے پھیپھڑے جواب دینے لگے تھے۔ اسکا سانس دھوکنی کی طرح چل رہا تھا اب اس میں مزید بھاگنے کی ہمت باقی نہیں رہی تھی۔ مگر ایک انجانا خوف اسکو رکنے نہیں دے رہا تھا۔ کرنل وشال آخر پاکستان کا ایسا کونسا راز لے کر جا رہا تھا یہاں سے؟؟؟ وطنِ عزیز کو آنے والے خطرے کا سوچ سوچ کر میجر دانش کا حوصلہ اور بڑھ رہا تھا اور وہ بغیر رکے مسلسل بھاگتا جا رہا تھا۔ آخر کا ر میجر دانش کو دور ایک جہاز دکھائی دیا۔ جو روانگی کے لیے طیار تھا۔ لیکن یہاں سے ابھی بھی ایک کلومیٹر کا سفر طے کرنا باقی تھا جو میجر دانش نے تقریبا بھاگتے ہوئے ہی طے کیا۔ راستے مِں کچھ دیر کے لیے اپنے آپکو لوگوں کی نظروں میں آنے سے بچانے کے لیے میجر دانش کسی چیز کی اوٹ لے کر رک بھی جاتا تاکہ وہ کرنل وشال کو رنگے ہاتھوں پکڑ سکے۔ جب میجر دانش جہاز کے بالکل قریب پہنچ گیا تو وہاں سے جہاز تک جانا میجر دانش کے لیے نا ممکن ہوگیا تھا۔
میجر دانش نے ایک بار سوچا کہ وہ یہاں موجود تمام سیکورٹی اہلکارز کو بتا دے کہ یہ پاکستانی یونیفارم میں لیفٹینینٹ کرنل ہارون صاحب نہیں بلکہ راء کا ایجینٹ کرنل وشال ہے مگر پھر اس خیال کو بھی میجر دانش نے ترک کردیا، مبادا سیکورٹی اہلکار بھی بھیس بدل کر آئے ہوں اور حقیقت میں وہ بھی راء کے ہی ایجینٹ ہوں یا پھر راء نے انکو بھاری رقم کے عوض خرید لیا ہو۔ ایسی صورت میں میجر دانش خود خطرے میں پھنس سکتا تھا۔ جو راستہ جہاز کے ڈیک کی طرف جاتا تھا وہاں پر 10 کے قریب مسلح افراد موجود تھے اور ایسی صورت میں ان سے پنگا لینے کا مطلب تھا آبیل مجھے مار۔ اگر عام حالات میں 10 مسلح افراد سے لڑنا ہوتا تو میجر دانش ایک لمحے کو بھی نا سوچتا، مگر یہاں مسئلہ انسے لڑنے کا نہیں بلکہ کرنل وشال کو پکڑنے کا تھا۔ جو یقنیا پاکستان سے کوئی قیمتی راز چرا کر دشمن ملک جا رہا تھا۔ آخر کار میجر دانش نے دوسرا راستہ اختیار کیا، جہاز کے ڈیک کی جانب جانے کی بجائے میجر دانش نے خاموشی سے ایک سائیڈ پر پڑی لائف ٹیوب اٹھائی اور سمندر کے پانی میں اتر گیا۔ گو کہ میجر دانش بہت اچھا تیراک بھی تھا مگر وہ بغیر آواز پیدا کیے جہاز تک پہنچنا چاہتا تھا جسکے لیے لائف ٹیوب کا استعمال ہی بہترین طریقہ کار تھا۔ ٹیوب کی مدد سے میجر دانش سمندری پانی میں موجود بنائے گئے عارضی راستے کے نیچے ہو لیا۔
یہاں پانی کی گہرائی تو زیادہ نہیں ہوتی مگر ایک عام تیراک کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اس پانی میں اتر سکے۔ لکڑی کےپھٹوں کی مدد سے بنائے گئے راستے استعمال کیے جاتے ہیں اور میجر دانش انہی پھٹوں کے نیچے نیچے جہاز کی طرف جا رہا تھا۔ جہاز کے انتہائی قریب پہنچ کر میجر دانش بہت چوکنا ہوگیا کیونکہ اسکے عین اوپر مسلح افراد موجود تھے جو آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے۔ میجر دانش نے انکی باتیں سننے کی کوشش کی مگر صحیح طور پر سمجھ نہیں پایا۔ یہاں پر میجر دانش کی چھوٹی سی غلطی بھی پانی میں آواز پیدا کر کے اوپر کھڑے مسلح افراد کو چوکنا کر سکتی تھی اس لیے میجر دانش بہت ہی احتیات کے ساتھ جہاز کے بالکل قریب پہنچا۔ جہاز اب چلنے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔ اور اس پر سوار ہونا ناممکن تھا جبکہ میجر دانش واپس بھی نہیں جا سکتا تھا۔
میجر دانش نے فورا ہی اپنے اطراف کا جائزہ لیا تو اسے خوش قسمتی سے ایک چھوٹا پائپ پانی پر تیرتا ہوا مل گیا۔ سمندری حدود میں عموما بہت سا فضلہ اور گندا سامان موجود ہوتا ہے، پاکستان میں صفائی کا ناقص انتظام ہونے کی وجہ سے پانی نا صرف بہت زیادہ گدلا ہوتا ہے بلکہ اس میں بہت سا کٹھ کباڑ بھی موجود ہوتا ہے۔ یہی چیز آج میجر دانش کے کام آئی اور اسے ایک پائپ مل گیا۔ میجر دانش جہاز کے بالکل قریب تھا، جیسے ہی جہاز چلنے لگا اور اسکے حفاظتی بند توڑے گئے تو پانی میں بہت زیادہ شور پیدا ہوا جو کہ معمول کی بات تھی، اسی شور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میجر دانش نے ایک ڈبکی لگائی اور پانی کے نیچے جا کر جہاز کے ساتھ ایک سپورٹ کو پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ میجر دانش نے اپنا سانس روک رکھا تھا ۔ سپیشل ٹریننگ کی وجہ سے میجر دانش کم سے کم 3 منٹ تک با آسانی پانی میں اپنا سانس روک سکتا تھا۔ اور ان 3 منٹوں میں جہاز ان مسلح افراد سے کافی دور پہنچ چکا تھا۔ جب میجر دانش کو مزید سانس روکنے میں دشواری کا سامنا ہونے لگا تو اس نے پائپ کا سہارا لیا۔ پائپ پانی کی سطح سے کچھ اوپر باہر نکال لیا اور نیچے سے اپنے منہ کو لگا لیا۔ جس سے میجر دانش کو اب سانس لینے میں آسانی ہو رہی تھی۔ مگر پانی میں جود کیمیکلز اور دوسرے گندے فضلے میجر دانش کے جسم پر بہت برا اثر ڈال رہے تھے۔ ایسے علاقوں میں اکثر جہازوں کا تیل بھی سمندری پانی میں ہی چھوڑ دیا جاتا ہے جو مچھلیوں کی زندگی کے لیے زہر کا کام کرتا ہے۔ میجر دانش کے لیے اس پانی میں اپنی آنکھیں کھولنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ وہ محض پائپ کی مدد سے سانس لینے پر ہی گزارا کر رہا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ جہاز بندرگاہ سے دور نکل جائے تاکہ وہ لوگوں کی نظروں میں آئے بغیر جہاز پر چھڑ سکے۔
مزید 10 منٹ گزرنے کے بعد میجر دانش کو احساس ہوا کہ شاید اب پانی کچھ صاف ہے کیونکہ اب اس میں چکناہٹ اور بدبو نہیں رہی تھی۔ میجر دانش نے آنکھیں کھولیں تو واقعی پانی قدرے صاف تھا جسکا مطلب تھا کہ اب جہاز بندرگاہ سے دور نکل آیا ہے۔ میجر دانش نے سپورٹ کی طرف دیکھ جس کو پکڑ کر وہ جہاز کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا تھا ، وہاں ایسی بہت سی سپورٹ تھیں۔ یہ اصل میں لوہے کے راڈ سے سیڑھیاں بنائی گئی تھیں جنکی مدد سے کوئی بھی جہاز کی اوپر والی سطح تک پہنچ سکتا تھا۔ضرورت پڑنے پر سمندر کے درمیان انہی سیڑھیوں کا استعمال کرکے سمندری پانی میں اترا جاتا ہے اور جہاز کی بیرونی مرمت کی ضرورت ہو تو وہ کام بھی کیا جا سکتا ہے۔ انہی سیڑھیوں کی مدد سے میجر دانش نے پانی سے سر باہر نکالا اور فورا ہی پیچھے بندرگاہ کی طرف دیکھا جو اب خاصی دور رہ چکی تھی اور بالکل دھندلی نظر آرہی تھی۔ اب کم سے کم وہاں سے کوئی بھی میجر دانش کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میجر دانش سیڑھیوں کا استعمال کرتے ہوئے جہاز کے اوپر چڑھ چکا تھا۔ حیرت انگیز طور پر یہاں سیکیورٹی کے لیے کوئی موجود نہیں تھا بالکہ ہر طرف خاموشی تھی۔
میجر دانش جھک کر چلتا ہوا اور اپنے آپ کو مختلف چیزوں کی اوٹ میں چھپاتا ہوا ایک کیبن تک پہنچ چکا تھا۔ یہاں سے جہاز کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ اندر پائلٹ بھی موجود تھا اور میجر دانش کو فورا ہی اندازہ ہوگیا کہ جہاز کا رخ مسقط اومان اور دوسرے عرب ممالک کی طرف تھا۔ یہ چیز میجر دانش کے لیے حیران کن تھی کیونکہ میجر دانش کے خیال کے مطابق کرنل وشال کو انڈیا جانا چہیا تھا مگر اس جہاز کا رخ دوسری طرف تھا۔ ابھی میجر دانش یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی رہا تھا کہ اسے دور سے ایک چھوٹا جہاز اسی طرف آتا نظر آیا۔ اور جس جہاز پر میجر دانش سوار تھا اسکی رفتار بھی سلو ہونے لگی۔ میجر دانش کی چھٹی حس نے کام کیا اور وہ فورا ہی دوبارہ انہی سیڑھیوں سے اتر کر پانی کے نیچے چلا گیا۔ وہ پائپ میجر نے اپنی شلوار کے نیفے میں پھنسا لیا تھا پانی کے نیچے جا کر میجر نے دوبارہ پائپ نکالا اور اسی کی مدد سے سانس لینے لگا۔ کچھ ہی دیر میں چھوٹا جہاز بڑے جہاز کی دوسری سائیڈ پر آکر رک گیا۔ میجر دانش نے پانی سے سر باہر نکالا تو اسے اطراف میں کچھ نظر نہ آیا، وہ پانی میں ہی جہاز کا سہارا لیکر دوسری طرف گیا تو اس نے دیکھا کہ کرنل وشال ایک سیڑھی کے ذریعے بڑے جہاز سے چھوٹے جہاز میں سوار ہو رہا تھا۔ میجر دانش ایک دفعہ پھر پانی کے نیچے گیا اور تیرتا ہوا چھوٹے جہاز کی دوسری سائیڈ پر پہنچ گیا اور وہاں بھی موجود پانی کے نیچے جہاز کے ساتھ لگی سیڑھیوں کا سہارا لیا۔ کچھ دیر کے بعد جہاز نے چلنا شروع کیا۔ اب کی بار اس جہاز کی رفتار پہلے جہاز سے بہت زیادہ تھی اور میجر دانش کو پانی کے نیچے رہنا مشکل ہوگیا تھا۔
2
وہ سیڑھیوں سے ہوتا ہوا اوپر جہاز پر چڑھ آیا اور ایک لوہے سے بنے ڈبے کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ اس جہاز کا رخ پہلے جہاز کے الٹی طرف تھا۔ یعنی کہ یہ جہاز دشمن ملک ہندوستان کا تھا اور کرنل وشال پاکستان کی سیکورٹی ایجینسیز کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہندوستان کی طرف جا رہا تھا۔ میجر دانش کے پاس یہ آخری موقع تھا کرنل وشال کو روکنے کے لیے۔ اس نے فورا ہی فیصلہ کیا کہ اسے اس جہاز پر قبضہ کرنا ہوگا اسے واپس پاکستان لیجانا ہوگا۔ گو کہ یہ ایک ناممکن کام تھا مگر میجر دانش کو اس وقت کچھ اور سجھائی نا دیا اور وہ فورا ہی چھپتا چھپاتا جہاز کے کنٹرول روم میں پہنچ گیا۔ شیشے کی کھڑکی سے اس نے اندر دیکھا تو جہاز کا پائلٹ سکھ تھا۔ ہلکی داڑھی اور سر پر سکھوں کے سٹائل کی پگڑی موجود تھی۔ یہ نشانی میجر دانش کے شک کو یقین مین بدلنے کے لیے کافی تھی۔ میجر دانش جسکے کپڑے بھیگے ہوئے تھے ایک ہی آن میں دروازے تک پہنچا اور بغیر آہٹ پیدا کیا پائلٹ کے سر پر پہنچ گیا۔
اس سے پہلے کے ڈرائیور کو کچھ سمجھ آتی میجر دانش کا وار اسکی گردن کے پچھلے حصے پر پڑا اور پائلٹ کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا اور پھر اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ میجر دانش کے ایک ہی وار نے پائلٹ کو بیہوش کر دیا تھا۔ جہاز میں موجود نقشے کی مدد نے میجر دانش نے اندازاہ لگایا کہ واپس پاکستان کی بندر گاہ پر پہننے کے لیے اسے جہاز کو بائے طرف گھمانا ہوگا اور میجر دانش نے ایسا ہی کیا۔ جہاز کی سپیڈ تیز ہونے کی وجہ سے جہاز نے تھوڑے ہچکولے لیے مگر میجر دانش نے فورا ہی اسکو قابو میں کر لیا اور جہاز کی سپیڈ بھی کم کر دی۔ جب جہاز صحیح ڈائریکشن میں جانے لگا تو میجر دانشے نے سپیڈ پھر سے بڑھا دیی۔
جہاز کے نیچے موجود وی آئی پی کمرے میں کرنل وشال نے فوری طور پر محسوس کیا کہ جہاز کو جو ہچکولے آئے ہیں یہ کسی انجان اور اناڑی پائلٹ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ کرنل وشال نے فوری طور پر اپنے ساتھ ایک کیپٹن کو لیا اور کنٹرول روم کی طرف بڑھنے لگا۔ کرنل وشال کی عمر 45 کے قریب تھی اور قد 6 فٹ 2 انچ تھا۔ دیو ہیکل جسامت کا حامل کرنل وشال 45 سال کا ہونے کے باوجود جسمانی طور پر فٹ اور بہت سے جوان افسروں پر بھاری تھا۔ اوپر سے اسکا دماغ بھی کسی کمپیوٹر کی طرح تیز چلتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جہاز کو ہلکے سے ہچکولوں نے اسے خطرے سے آگاہ کر دیا تھا۔
دوسری طرف میجر دانش اپنی دھن میں مگن جہاز کی رفتار میں مسلسل اضافہ کیے جا رہا تھا ۔ وہ جلد از جلد جہاز کو پاکستان کی سمندری حدود میں پہنچانا چاہتا تھا جہاں سے پاکستانی نیوی فوری اس جہاز کو گرفتار کر لیتی اور کرنل وشال بھی پکڑا جاتا۔ مگر اس سے پہلے کہ جہاز پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہوتا میجر دانش کو دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ میجر دانش کی چھٹی حس نے اسے خطرے سے آگاہ کیا اور وہ بغیر پیچھے دیکھے ایک قلابازی لگا کر اپنے دائیں طرف گھوم گیا۔ ایک سیکنڈ کی دیر میجر دانش کو اگلے جہاں پہنچا سکتی تھی۔ کرنل وشال کے ساتھ آنے والے کیپٹن نے ایک بھاری بھر کم لوہے کا راڈ میجر دانش کے سر پر مارنے کی کوشش کی تھی مگر میجر دانش اپنی پیشہ وارانہ تربیت کی وجہ سے اس وار سے بچ گیا۔ اس سے پہلے کہ کیپٹن اگلا وار کرتا میجر دانش ایک ہی جست میں اسکے سر پر پہنچ چکا تھا اور اپنے آہنی ہاتھوں سے کیپٹن کی گردن کو ایک ہی جھٹکے میں توڑ چکا تھا۔
کیپٹن میجر دانش کے وار سے زمین پر گر چکا تھا اور اسکی آخری سانسیں نکل چکی تھیں۔ میجر دانش نے بغیر وقت ضائع کیے اپنا اگلا وار کرنل وشال پر کیا مگر وہ حیرت انگیز طور پر پھرتیلا نکلا ۔ وہ نا صرف میجر دانش کے وار سے بچ نکلا بلکہ میجر دانش کے وار سے بچ کر اس نے اپنی لمبی ٹانگ ہوا میں گھمائی جو میجر دانش کی کمر پر لگی اور میجر دانش ہوا میں اچھلتا ہوا کنٹرول روم کی دیوار پر جا کر لگا۔ لیکن اگلے ہی لمحے میجر دانش نے دیوار کا سہارا لیتے ہوے واپس چھلانگ لگائی اور کرنل وشال کی گردن پر وار کیا، مگر اس بار بھی کرنل وشال کی پھرتی نے اسے بچا لیا، اس سے پہلے کہ میجر دانش کے ہاتھ کرنل وشال کی گردن پر پڑے کرنل وشال نے کمال مہارت سے میجر دانش کے بازو پر اپنا وار کیا اور میجر دانش کو اپنے بازو کی ہڈی دو حصوں میں تقسیم ہوتی محسوس ہوئی۔ اس سے پہلے کہ میجر دانش اگلا وار کرتا، کرنل وشال نے میجر دانش کا وار اسی پر آزمایا اور گردن پر حملہ کیا۔ کرنل وشال نے کراٹے کے مخصوص انداز میں اپنے ہاتھ کی ہڈی کو میجر دانش کی گردن کی ہڈی پر اسطرح مارا کہ میجر کو اپنا آپ ہوا میں اڑتا محسوس ہوا اور جسم ہلکا ہوتا ہوا محسوس ہوا۔
میجر دانش نے گھوم کر دوبارہ کرنل وشال پر حملہ کرنے کی کوشش کی جو اب کی بار بالکل پرسکون کھڑا تھا۔ اس سے پہلے کے میجر دانش کے ہاتھ کرنل کی گردن تک پہنچتے میجر کا دماغ اسکا ساتھ چھوڑ چکا تھا اور وہ اپنے وزن پر ہی نیچے گرتا چلا گیا۔ نیچے گرنے سے پہلے ہی میجر دانش کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا چکا تھا۔ اور جیسے ہی وہ نیچے گرا، کرن وشال دروازہ کھول کر باہر جا رہا تھا۔
میجر دانش کے حواس بحال ہوئے تو اسنے اپنے آپ کو زمین پر پڑا محسوس کیا۔ کچھ دیر میجر دانش آنکھیں کھولے بغیر زمین پر پڑا رہا اور اپنی اطراف کا جائزہ لینے کی کوشش کرنے لگا۔ جو آخری بات اسکو یاد آئی وہ کرنل وشال کا پرسکون چہرہ تھا۔ میجر دانش کے ہاتھ اسکی گردن کی طرف بڑھ رہے تھے مگر نجانے کیوں اسکی گردن تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا۔(جاری ہے)
یہ معلومات ملتے ہی ڈرائیور نے اپنی گاڑی کی سپیڈ اور بڑھا دی کیونکہ وہ جلد از جلد ہنڈا اکارڈ گاڑی کو ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ نرسری فلائی اور کراس کرنے کے بعد گورا قبرستان کے قریب کرولا کے ڈرائیور کو دور سرخ لائٹ نظر آنا شروع ہوئی جو شاید کسی کار کی بیک لائٹس ہی تھیں۔ اسکو دیکھ کر کرولا کے ڈرائیور نے اپنی رفتا میں کمی کی اور اب 150 کی بجائے 100 کی رفتار کے ساتھ اس گاڑی کے پیچھے جانے لگا۔ کچھ ہی دیر میں یہ فاصلہ اور کم ہوگیا اور اب کرولا کا ڈرائیور اپنی رفتار کو 90 کلومیٹر فی گھنٹہ پر لے آیا۔ سامنے جانے والی کار ہنڈا اکارڈ ہی تھی جسکا پیچھا کرنا تھا۔ اور اس میں موجود شخص کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھیں۔ ہنڈا اکارڈ میں کوئی اور نہیں بلکہ انڈین آرمی کا کرنل اور بدنامِ زمانہ تنظیم راء کا خاص ایجینٹ کرنل وِشال سنگھ تھا جو اپنے خاص مشن پر پچھلے کافی دنوں سے کراچی میں موجود تھا۔
پاکستان کی خفیہ ایجینسی بھی کافی دنوں سے کرنل وشال کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھی مگر وہ ابھی تک یہ سمجھنے میں ناکام تھے کہ آخر کرنل وشال پاکستان میں کس مقصد سے آیا ہے اور آیا کہ وہ اب تک اپنے مشن میں کامیاب ہو سکا ہے یا نہیں اس بارے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ابھی تک کچھ معلوم نہ کر سکی تھی۔ میجر دانش گو کہ ایک ہونہار جوان تھا جس نے پاکستان آرمی میں کم عمری میں ہی بہت نام بنایا تھا مگر اب وہ آئی ایس آئی کا بھی سپیشل ایجنٹ تھا۔ آئی ایس آئی اپنے خاص کاموں کے لیے اکثر میجر دانش کا ہی انتخاب کرتی تھی اور آج بھی رات کے 3 بجے میجر دانش کو خاص طور پر کرنل وِشال سنگھ کا پیچھا کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ میجر دانش اپنی تیز ڈرائیونگ کے لیے پہلے ہی مشہور تھا اور آج بھی اس نے طوفانی رفتار سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے بالاآخر ہنڈا اکارڈ کو ڈھونڈ نکالا تھا۔
اب میجر دانش اگلی کار سے مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے مسلسل اسکے پیچھے جا رہا تھا۔ روڈ بالکل سیدھا تھا، ہنڈا اکاڑ شاہراہِ فیصل کو چھوڑ کر کلب روڈ سے ہوتی ہوئی اب مولوی تمیز الدین روڈ پر 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے جا رہی تھی۔ مولوی تمیز الدین روڈ سے بحریہ کمپلیکس اور پھر وہاں سے گاڑی نے اچانک ایک موڑ لیا اور سیدھی کراچی پورٹ کی طرف جانے لگی۔ یہ عام گزرگاہ نہیں تھی۔ یہاں پر پولیس اور رینجرز کی طرف سے خاص طور پر چیکنگ کی جاتی تھی۔ میجر دانش نے دیکھا کہ ہنڈا اکارڈ آگے آنے والی چیک پوسٹ پر کچھ دیر کے لیے رکی ہے۔ یہاں پر رینجرز ہر آنے والی گاڑی کو خصوصی طور پر چیک کرتے تھے۔ میجر دانش نے بھی گاڑی آہستہ رفتار سے چلنے دی۔ جب میجر دانش کی گاڑی آگے کھڑی ہنڈا اکارڑ کے بالکل قریب پہنچ گئی تو میجر دانش نے دیکھا رینجر اہلکار نے ہنڈا اکارڈ میں موجود پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کو سلیوٹ کیا اور ڈرائیور کو ایک کارڈ پکڑا دیا۔ اسکے ساتھ ہی ہنڈا اکارڈ آگے چلی گئی۔
میجر دانش کی گاڑی کو بھی رینجرز اہلکار نے چیکنگ کے لیے روکا تو میجر نے اپنا کارڈ رینجر اہلکار کو دکھایا۔ اہلکار نے وہ کارڈ ساتھ بیٹھے اپنے افسر کو دیا جس نے کارڈ کو خصوصی طور پر چیک کرنے کے بعد میجر دانش کو بھی آگے جانے کی اجازت دی اور اہلکار نے میجر دانش کو سلیوٹ مار کر کارڈ واپس کر دیا۔ میجر دانش نے سلیوٹ مارنے والے شخص سے پوچھا کہ اگلی گاڑی میں کون تھا تو اسنے بتایا کہ اگلی گاڑی میں لیفٹینینٹ کرنل ہارون موجود تھے جو کسی اہم کام سے بندر گاہ کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی میجر دانش کو فکر لاحق ہوگئی۔ کیونکہ اگلی گاڑی میں تو کرنل وشال موجود تھا۔ اور وہ انتہائی مہارت کے ساتھ رینجرز اہلکار کو دھوکا دیکر ایک پاکستانی لیفٹینینٹ کرنل کے حلیے میں کراچی پورٹ پہنچ چکا تھا اور رینجر اہلکار اسکو پہچاننے میں ناکام رہے تھے۔
یہ سنتے ہی میجر دانش نے اپنی گاڑی چلائی اور ہنڈا اکارڈ کو ڈھونڈنے لگا۔ کچھ ہی دور جا کر میجر دانش کو ہنڈا اکارڈ مل گئی۔ اسکی لائٹس بند ہو چکی تھیں۔ میجر دانش نے اپنی گاڑی دور کھڑی کی اور پیدل ہی ہنڈا اکارڈ کی طرف بڑھنے لگا۔ میجر دانش اس وقت اپنی یونیفارم کی بجائے شلوار قمیص میں ملبوس تھا۔ وہ بہت ہی احتیاط کے ساتھ ہنڈا اکارڈ کی طرف جا رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کرنل وشال راء کا سب سے خطرناک ایجینٹ ہے اور اپن کام میں ماہر ہے۔ وہ آج تک اپنے کسی بھی مشن میں ناکام واپس نہیں لوٹا تھا۔ اور آئی ایس آئی جانتی تھی کہ اس بار بھی کرنل وشال ہو نہ ہو کسی خطرناک مشن پر ہی پاکستان میں موجود ہے۔ مگر اس پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں تھا۔ کچھ ہی دیر میں میجر دانش ہنڈا اکارڈ کے قریب پہنچ چکا تھا اسکو دور سے دیکھ کر ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ گاڑی میں کرنل موجود نہیں۔ وہ گاڑی کے قریب پہنچا تو اکارڈ کا ڈرائیور ابھی تک گاڑی میں موجود تھا اور ڈرائیونگ سیٹ پر چاک و چوبند بیٹھا تھا۔
میجر دانش نے ڈرائیور سے پوچھا کہ تم یہاں کیوں کھڑے ہو اور یہ کس کی گاڑی ہے؟ تو ڈرائیور نے بتایا کہ لیفٹینینٹ کرنل ہارون صاحب تشریف لائے ہیں انہیں یہاں کوئی کام ہے۔ یہ کہ کر ڈرائیور دوبارہ اپنی مستی میں گاڑی میں لگے گانے سننے لگا اور میجر دانش انتہائی احتیاط کے ساتھ مگر بہت ہی لا ابالی طریقے سے آگے بڑھنے لگا۔ 32 سالہ میجر دانش اپنے چاروں طرف کے حالات سے اچھی طرح باخبر تھا، اسکی چھٹی حس اسکو آنے والے خطرے کے بارے میں بھی بتا رہی تھی مگر وہ بظاہر نارمل انداز میں چلتا جا رہا تھا۔ کچھ دور اسکو پاکستانی یونیفارم میں ایک آرمی آفیس نظر آیا جو ایک ہی لمحے میں غائب ہوگیا۔ میجر دانش نے سوچا ہو نہ ہو یہ کرنل وشال سنگھ ہی ہوگا۔ جو اس وقت تمام سیکورٹی کو چکمہ دیکر پاکستانی لیفٹینینٹ کرنل کے حلیے میں انتہائی حساس علاقے میں موجود ہے۔
جس وہ شخص جاتا نظر آیا تھا اور ایک دم سے غائب ہوگیا تھا وہیں سے ایک گاڑی نکلی جو اب بندر گاہ سے ہوتی ہوئی کیماڑی کی طرف جا رہی تھی۔ میجر دانش نے بھی فورا واپسی اختیار کی اور بھاگتا ہوا اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھا اور اسی طرف چل پڑا جہاں دوسری گاڑی جا رہی تھی۔ کیماڑی جیٹی پہنچ کر میجر دانش کو وہی گاڑی دوبارہ نظر آئی مگر اس وقت اس میں کوئی بھی شخص موجود نہیں تھا۔ میجر دانش فورا وہاں سے بھاگتا ہوا اس سائیڈ پر گیا جہاں پر بوٹس موجود ہوتی ہیں۔ وہاں سے میجر دانش کو پتا لگا کہ ہارون صاحب، جو کہ اصل میں کرنل وشال تھا، ایک بوٹ پر سوار ہوچکے ہیں جو ابھی منوڑا بیچ کی طرف جائے گی۔ میجر دانش بھی سیکورٹی اہلکار سے نظر بچا کر اس بڑی سی بوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد بوٹ دوسری سائیڈ پر پہنچ چکی تھی اور کرنل وشال اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ بوٹ سے اتر گیا۔ موقع دیکھ کر میجر دانش بھی بوٹ سے نیچے اترا۔ نیچے اتر کر میجر دانش نے دیکھا کہ کرنل وشال کے لیے ایک کالے رنگ کی پجارو کھڑی ہے۔ کرنل وشال اپنے 2 ساتھیوں کے ساتھ پجارو پر سوار ہوا اور کچھ ساتھی واپس اسی بوٹ کی طرف جانے لگے۔
میجر دانش سمجھ گیا تھا کہ اب انکا رخ منوڑا بیچ کی طرف ہی ہوگا جہاں سے بڑے بڑے جہاز سمندری راستے سے دنیا کے مختلف ملکوں کی طرف روانہ ہوتے تھے۔ عام طور پر سمندری جہاز کے ذریعے بڑے بڑے سمگلر سفر کرتے ہیں اور میجر دانش کے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ کرنل وشال کسی قیمتی چیز کی سمگلنگ میں انوالو ہے، مگر اگلے ہی لمحے میجر دانش نے اس خیال کو اپنے ذہن سے نکال دیا کہ سمگلنگ کے لیے راء جیسی ایجنسی کبھی بھی کام نہیں کرے گی۔ ایسا کام تو چھوٹے موٹے سمگلرز کے ذریعے کروایا جا سکتا ہے، کرنل وشال کا اس معاملے میں شامل ہونا کسی بڑے خطرے کی طرف اشارہ تھا۔ کالے رنگ کی پجارو یہاں سے جا چکی تھی، اور میجر دانش اب پیدل ہی منوڑا بیچ کی طرف جا رہا تھا۔ میجر دانش بھاگتا ہوا یہ سارا راستہ طے کر رہا تھا۔ پجارو سڑک کے راستے جا رہی تھی جبکہ میجر دانش شارٹ کٹ استعمال کرتا ہوا اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا۔ صبح کی ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی اور اب بغیر لائٹس کے بھی کافی حد تک نگاہ کام کرنے لگی تھی۔
آدھا گھنٹہ مسلسل بھاگنے کے بعد میجر دانش کے پھیپھڑے جواب دینے لگے تھے۔ اسکا سانس دھوکنی کی طرح چل رہا تھا اب اس میں مزید بھاگنے کی ہمت باقی نہیں رہی تھی۔ مگر ایک انجانا خوف اسکو رکنے نہیں دے رہا تھا۔ کرنل وشال آخر پاکستان کا ایسا کونسا راز لے کر جا رہا تھا یہاں سے؟؟؟ وطنِ عزیز کو آنے والے خطرے کا سوچ سوچ کر میجر دانش کا حوصلہ اور بڑھ رہا تھا اور وہ بغیر رکے مسلسل بھاگتا جا رہا تھا۔ آخر کا ر میجر دانش کو دور ایک جہاز دکھائی دیا۔ جو روانگی کے لیے طیار تھا۔ لیکن یہاں سے ابھی بھی ایک کلومیٹر کا سفر طے کرنا باقی تھا جو میجر دانش نے تقریبا بھاگتے ہوئے ہی طے کیا۔ راستے مِں کچھ دیر کے لیے اپنے آپکو لوگوں کی نظروں میں آنے سے بچانے کے لیے میجر دانش کسی چیز کی اوٹ لے کر رک بھی جاتا تاکہ وہ کرنل وشال کو رنگے ہاتھوں پکڑ سکے۔ جب میجر دانش جہاز کے بالکل قریب پہنچ گیا تو وہاں سے جہاز تک جانا میجر دانش کے لیے نا ممکن ہوگیا تھا۔
میجر دانش نے ایک بار سوچا کہ وہ یہاں موجود تمام سیکورٹی اہلکارز کو بتا دے کہ یہ پاکستانی یونیفارم میں لیفٹینینٹ کرنل ہارون صاحب نہیں بلکہ راء کا ایجینٹ کرنل وشال ہے مگر پھر اس خیال کو بھی میجر دانش نے ترک کردیا، مبادا سیکورٹی اہلکار بھی بھیس بدل کر آئے ہوں اور حقیقت میں وہ بھی راء کے ہی ایجینٹ ہوں یا پھر راء نے انکو بھاری رقم کے عوض خرید لیا ہو۔ ایسی صورت میں میجر دانش خود خطرے میں پھنس سکتا تھا۔ جو راستہ جہاز کے ڈیک کی طرف جاتا تھا وہاں پر 10 کے قریب مسلح افراد موجود تھے اور ایسی صورت میں ان سے پنگا لینے کا مطلب تھا آبیل مجھے مار۔ اگر عام حالات میں 10 مسلح افراد سے لڑنا ہوتا تو میجر دانش ایک لمحے کو بھی نا سوچتا، مگر یہاں مسئلہ انسے لڑنے کا نہیں بلکہ کرنل وشال کو پکڑنے کا تھا۔ جو یقنیا پاکستان سے کوئی قیمتی راز چرا کر دشمن ملک جا رہا تھا۔ آخر کار میجر دانش نے دوسرا راستہ اختیار کیا، جہاز کے ڈیک کی جانب جانے کی بجائے میجر دانش نے خاموشی سے ایک سائیڈ پر پڑی لائف ٹیوب اٹھائی اور سمندر کے پانی میں اتر گیا۔ گو کہ میجر دانش بہت اچھا تیراک بھی تھا مگر وہ بغیر آواز پیدا کیے جہاز تک پہنچنا چاہتا تھا جسکے لیے لائف ٹیوب کا استعمال ہی بہترین طریقہ کار تھا۔ ٹیوب کی مدد سے میجر دانش سمندری پانی میں موجود بنائے گئے عارضی راستے کے نیچے ہو لیا۔
یہاں پانی کی گہرائی تو زیادہ نہیں ہوتی مگر ایک عام تیراک کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اس پانی میں اتر سکے۔ لکڑی کےپھٹوں کی مدد سے بنائے گئے راستے استعمال کیے جاتے ہیں اور میجر دانش انہی پھٹوں کے نیچے نیچے جہاز کی طرف جا رہا تھا۔ جہاز کے انتہائی قریب پہنچ کر میجر دانش بہت چوکنا ہوگیا کیونکہ اسکے عین اوپر مسلح افراد موجود تھے جو آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے۔ میجر دانش نے انکی باتیں سننے کی کوشش کی مگر صحیح طور پر سمجھ نہیں پایا۔ یہاں پر میجر دانش کی چھوٹی سی غلطی بھی پانی میں آواز پیدا کر کے اوپر کھڑے مسلح افراد کو چوکنا کر سکتی تھی اس لیے میجر دانش بہت ہی احتیات کے ساتھ جہاز کے بالکل قریب پہنچا۔ جہاز اب چلنے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔ اور اس پر سوار ہونا ناممکن تھا جبکہ میجر دانش واپس بھی نہیں جا سکتا تھا۔
میجر دانش نے فورا ہی اپنے اطراف کا جائزہ لیا تو اسے خوش قسمتی سے ایک چھوٹا پائپ پانی پر تیرتا ہوا مل گیا۔ سمندری حدود میں عموما بہت سا فضلہ اور گندا سامان موجود ہوتا ہے، پاکستان میں صفائی کا ناقص انتظام ہونے کی وجہ سے پانی نا صرف بہت زیادہ گدلا ہوتا ہے بلکہ اس میں بہت سا کٹھ کباڑ بھی موجود ہوتا ہے۔ یہی چیز آج میجر دانش کے کام آئی اور اسے ایک پائپ مل گیا۔ میجر دانش جہاز کے بالکل قریب تھا، جیسے ہی جہاز چلنے لگا اور اسکے حفاظتی بند توڑے گئے تو پانی میں بہت زیادہ شور پیدا ہوا جو کہ معمول کی بات تھی، اسی شور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میجر دانش نے ایک ڈبکی لگائی اور پانی کے نیچے جا کر جہاز کے ساتھ ایک سپورٹ کو پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ میجر دانش نے اپنا سانس روک رکھا تھا ۔ سپیشل ٹریننگ کی وجہ سے میجر دانش کم سے کم 3 منٹ تک با آسانی پانی میں اپنا سانس روک سکتا تھا۔ اور ان 3 منٹوں میں جہاز ان مسلح افراد سے کافی دور پہنچ چکا تھا۔ جب میجر دانش کو مزید سانس روکنے میں دشواری کا سامنا ہونے لگا تو اس نے پائپ کا سہارا لیا۔ پائپ پانی کی سطح سے کچھ اوپر باہر نکال لیا اور نیچے سے اپنے منہ کو لگا لیا۔ جس سے میجر دانش کو اب سانس لینے میں آسانی ہو رہی تھی۔ مگر پانی میں جود کیمیکلز اور دوسرے گندے فضلے میجر دانش کے جسم پر بہت برا اثر ڈال رہے تھے۔ ایسے علاقوں میں اکثر جہازوں کا تیل بھی سمندری پانی میں ہی چھوڑ دیا جاتا ہے جو مچھلیوں کی زندگی کے لیے زہر کا کام کرتا ہے۔ میجر دانش کے لیے اس پانی میں اپنی آنکھیں کھولنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ وہ محض پائپ کی مدد سے سانس لینے پر ہی گزارا کر رہا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ جہاز بندرگاہ سے دور نکل جائے تاکہ وہ لوگوں کی نظروں میں آئے بغیر جہاز پر چھڑ سکے۔
مزید 10 منٹ گزرنے کے بعد میجر دانش کو احساس ہوا کہ شاید اب پانی کچھ صاف ہے کیونکہ اب اس میں چکناہٹ اور بدبو نہیں رہی تھی۔ میجر دانش نے آنکھیں کھولیں تو واقعی پانی قدرے صاف تھا جسکا مطلب تھا کہ اب جہاز بندرگاہ سے دور نکل آیا ہے۔ میجر دانش نے سپورٹ کی طرف دیکھ جس کو پکڑ کر وہ جہاز کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا تھا ، وہاں ایسی بہت سی سپورٹ تھیں۔ یہ اصل میں لوہے کے راڈ سے سیڑھیاں بنائی گئی تھیں جنکی مدد سے کوئی بھی جہاز کی اوپر والی سطح تک پہنچ سکتا تھا۔ضرورت پڑنے پر سمندر کے درمیان انہی سیڑھیوں کا استعمال کرکے سمندری پانی میں اترا جاتا ہے اور جہاز کی بیرونی مرمت کی ضرورت ہو تو وہ کام بھی کیا جا سکتا ہے۔ انہی سیڑھیوں کی مدد سے میجر دانش نے پانی سے سر باہر نکالا اور فورا ہی پیچھے بندرگاہ کی طرف دیکھا جو اب خاصی دور رہ چکی تھی اور بالکل دھندلی نظر آرہی تھی۔ اب کم سے کم وہاں سے کوئی بھی میجر دانش کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میجر دانش سیڑھیوں کا استعمال کرتے ہوئے جہاز کے اوپر چڑھ چکا تھا۔ حیرت انگیز طور پر یہاں سیکیورٹی کے لیے کوئی موجود نہیں تھا بالکہ ہر طرف خاموشی تھی۔
میجر دانش جھک کر چلتا ہوا اور اپنے آپ کو مختلف چیزوں کی اوٹ میں چھپاتا ہوا ایک کیبن تک پہنچ چکا تھا۔ یہاں سے جہاز کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ اندر پائلٹ بھی موجود تھا اور میجر دانش کو فورا ہی اندازہ ہوگیا کہ جہاز کا رخ مسقط اومان اور دوسرے عرب ممالک کی طرف تھا۔ یہ چیز میجر دانش کے لیے حیران کن تھی کیونکہ میجر دانش کے خیال کے مطابق کرنل وشال کو انڈیا جانا چہیا تھا مگر اس جہاز کا رخ دوسری طرف تھا۔ ابھی میجر دانش یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی رہا تھا کہ اسے دور سے ایک چھوٹا جہاز اسی طرف آتا نظر آیا۔ اور جس جہاز پر میجر دانش سوار تھا اسکی رفتار بھی سلو ہونے لگی۔ میجر دانش کی چھٹی حس نے کام کیا اور وہ فورا ہی دوبارہ انہی سیڑھیوں سے اتر کر پانی کے نیچے چلا گیا۔ وہ پائپ میجر نے اپنی شلوار کے نیفے میں پھنسا لیا تھا پانی کے نیچے جا کر میجر نے دوبارہ پائپ نکالا اور اسی کی مدد سے سانس لینے لگا۔ کچھ ہی دیر میں چھوٹا جہاز بڑے جہاز کی دوسری سائیڈ پر آکر رک گیا۔ میجر دانش نے پانی سے سر باہر نکالا تو اسے اطراف میں کچھ نظر نہ آیا، وہ پانی میں ہی جہاز کا سہارا لیکر دوسری طرف گیا تو اس نے دیکھا کہ کرنل وشال ایک سیڑھی کے ذریعے بڑے جہاز سے چھوٹے جہاز میں سوار ہو رہا تھا۔ میجر دانش ایک دفعہ پھر پانی کے نیچے گیا اور تیرتا ہوا چھوٹے جہاز کی دوسری سائیڈ پر پہنچ گیا اور وہاں بھی موجود پانی کے نیچے جہاز کے ساتھ لگی سیڑھیوں کا سہارا لیا۔ کچھ دیر کے بعد جہاز نے چلنا شروع کیا۔ اب کی بار اس جہاز کی رفتار پہلے جہاز سے بہت زیادہ تھی اور میجر دانش کو پانی کے نیچے رہنا مشکل ہوگیا تھا۔
2
وہ سیڑھیوں سے ہوتا ہوا اوپر جہاز پر چڑھ آیا اور ایک لوہے سے بنے ڈبے کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ اس جہاز کا رخ پہلے جہاز کے الٹی طرف تھا۔ یعنی کہ یہ جہاز دشمن ملک ہندوستان کا تھا اور کرنل وشال پاکستان کی سیکورٹی ایجینسیز کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہندوستان کی طرف جا رہا تھا۔ میجر دانش کے پاس یہ آخری موقع تھا کرنل وشال کو روکنے کے لیے۔ اس نے فورا ہی فیصلہ کیا کہ اسے اس جہاز پر قبضہ کرنا ہوگا اسے واپس پاکستان لیجانا ہوگا۔ گو کہ یہ ایک ناممکن کام تھا مگر میجر دانش کو اس وقت کچھ اور سجھائی نا دیا اور وہ فورا ہی چھپتا چھپاتا جہاز کے کنٹرول روم میں پہنچ گیا۔ شیشے کی کھڑکی سے اس نے اندر دیکھا تو جہاز کا پائلٹ سکھ تھا۔ ہلکی داڑھی اور سر پر سکھوں کے سٹائل کی پگڑی موجود تھی۔ یہ نشانی میجر دانش کے شک کو یقین مین بدلنے کے لیے کافی تھی۔ میجر دانش جسکے کپڑے بھیگے ہوئے تھے ایک ہی آن میں دروازے تک پہنچا اور بغیر آہٹ پیدا کیا پائلٹ کے سر پر پہنچ گیا۔
اس سے پہلے کے ڈرائیور کو کچھ سمجھ آتی میجر دانش کا وار اسکی گردن کے پچھلے حصے پر پڑا اور پائلٹ کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا اور پھر اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ میجر دانش کے ایک ہی وار نے پائلٹ کو بیہوش کر دیا تھا۔ جہاز میں موجود نقشے کی مدد نے میجر دانش نے اندازاہ لگایا کہ واپس پاکستان کی بندر گاہ پر پہننے کے لیے اسے جہاز کو بائے طرف گھمانا ہوگا اور میجر دانش نے ایسا ہی کیا۔ جہاز کی سپیڈ تیز ہونے کی وجہ سے جہاز نے تھوڑے ہچکولے لیے مگر میجر دانش نے فورا ہی اسکو قابو میں کر لیا اور جہاز کی سپیڈ بھی کم کر دی۔ جب جہاز صحیح ڈائریکشن میں جانے لگا تو میجر دانشے نے سپیڈ پھر سے بڑھا دیی۔
جہاز کے نیچے موجود وی آئی پی کمرے میں کرنل وشال نے فوری طور پر محسوس کیا کہ جہاز کو جو ہچکولے آئے ہیں یہ کسی انجان اور اناڑی پائلٹ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ کرنل وشال نے فوری طور پر اپنے ساتھ ایک کیپٹن کو لیا اور کنٹرول روم کی طرف بڑھنے لگا۔ کرنل وشال کی عمر 45 کے قریب تھی اور قد 6 فٹ 2 انچ تھا۔ دیو ہیکل جسامت کا حامل کرنل وشال 45 سال کا ہونے کے باوجود جسمانی طور پر فٹ اور بہت سے جوان افسروں پر بھاری تھا۔ اوپر سے اسکا دماغ بھی کسی کمپیوٹر کی طرح تیز چلتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جہاز کو ہلکے سے ہچکولوں نے اسے خطرے سے آگاہ کر دیا تھا۔
دوسری طرف میجر دانش اپنی دھن میں مگن جہاز کی رفتار میں مسلسل اضافہ کیے جا رہا تھا ۔ وہ جلد از جلد جہاز کو پاکستان کی سمندری حدود میں پہنچانا چاہتا تھا جہاں سے پاکستانی نیوی فوری اس جہاز کو گرفتار کر لیتی اور کرنل وشال بھی پکڑا جاتا۔ مگر اس سے پہلے کہ جہاز پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہوتا میجر دانش کو دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ میجر دانش کی چھٹی حس نے اسے خطرے سے آگاہ کیا اور وہ بغیر پیچھے دیکھے ایک قلابازی لگا کر اپنے دائیں طرف گھوم گیا۔ ایک سیکنڈ کی دیر میجر دانش کو اگلے جہاں پہنچا سکتی تھی۔ کرنل وشال کے ساتھ آنے والے کیپٹن نے ایک بھاری بھر کم لوہے کا راڈ میجر دانش کے سر پر مارنے کی کوشش کی تھی مگر میجر دانش اپنی پیشہ وارانہ تربیت کی وجہ سے اس وار سے بچ گیا۔ اس سے پہلے کہ کیپٹن اگلا وار کرتا میجر دانش ایک ہی جست میں اسکے سر پر پہنچ چکا تھا اور اپنے آہنی ہاتھوں سے کیپٹن کی گردن کو ایک ہی جھٹکے میں توڑ چکا تھا۔
کیپٹن میجر دانش کے وار سے زمین پر گر چکا تھا اور اسکی آخری سانسیں نکل چکی تھیں۔ میجر دانش نے بغیر وقت ضائع کیے اپنا اگلا وار کرنل وشال پر کیا مگر وہ حیرت انگیز طور پر پھرتیلا نکلا ۔ وہ نا صرف میجر دانش کے وار سے بچ نکلا بلکہ میجر دانش کے وار سے بچ کر اس نے اپنی لمبی ٹانگ ہوا میں گھمائی جو میجر دانش کی کمر پر لگی اور میجر دانش ہوا میں اچھلتا ہوا کنٹرول روم کی دیوار پر جا کر لگا۔ لیکن اگلے ہی لمحے میجر دانش نے دیوار کا سہارا لیتے ہوے واپس چھلانگ لگائی اور کرنل وشال کی گردن پر وار کیا، مگر اس بار بھی کرنل وشال کی پھرتی نے اسے بچا لیا، اس سے پہلے کہ میجر دانش کے ہاتھ کرنل وشال کی گردن پر پڑے کرنل وشال نے کمال مہارت سے میجر دانش کے بازو پر اپنا وار کیا اور میجر دانش کو اپنے بازو کی ہڈی دو حصوں میں تقسیم ہوتی محسوس ہوئی۔ اس سے پہلے کہ میجر دانش اگلا وار کرتا، کرنل وشال نے میجر دانش کا وار اسی پر آزمایا اور گردن پر حملہ کیا۔ کرنل وشال نے کراٹے کے مخصوص انداز میں اپنے ہاتھ کی ہڈی کو میجر دانش کی گردن کی ہڈی پر اسطرح مارا کہ میجر کو اپنا آپ ہوا میں اڑتا محسوس ہوا اور جسم ہلکا ہوتا ہوا محسوس ہوا۔
میجر دانش نے گھوم کر دوبارہ کرنل وشال پر حملہ کرنے کی کوشش کی جو اب کی بار بالکل پرسکون کھڑا تھا۔ اس سے پہلے کے میجر دانش کے ہاتھ کرنل کی گردن تک پہنچتے میجر کا دماغ اسکا ساتھ چھوڑ چکا تھا اور وہ اپنے وزن پر ہی نیچے گرتا چلا گیا۔ نیچے گرنے سے پہلے ہی میجر دانش کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا چکا تھا۔ اور جیسے ہی وہ نیچے گرا، کرن وشال دروازہ کھول کر باہر جا رہا تھا۔
میجر دانش کے حواس بحال ہوئے تو اسنے اپنے آپ کو زمین پر پڑا محسوس کیا۔ کچھ دیر میجر دانش آنکھیں کھولے بغیر زمین پر پڑا رہا اور اپنی اطراف کا جائزہ لینے کی کوشش کرنے لگا۔ جو آخری بات اسکو یاد آئی وہ کرنل وشال کا پرسکون چہرہ تھا۔ میجر دانش کے ہاتھ اسکی گردن کی طرف بڑھ رہے تھے مگر نجانے کیوں اسکی گردن تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا۔(جاری ہے)