Story Lover
Well-known member
- Joined
- Oct 13, 2024
- Messages
- 75
- Reaction score
- 317
- Points
- 53
- Gender
- Male
- Thread Author
- #1
دوستوں آپ کی خدمت میں ایک کہانی لے کر حاضر ہوا ہوں۔۔ کہانی کی خوبی یا خامی دیکھ کر اس پر اپنی رائے ضرور دیجے گا۔۔
کہتے ہیں کہ پیار ایک بار ہو تو اسے بھولا پن، دو بار ہو تواسے دیوانہ پن اور تیسری بار ہو جائے تو بناء کسی شک و شبہ کے اسے کمینہ پن کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے میں شاید کمینگی کی درجن بھر منزلیں طے کر چکا ہوں٘، اور دلچسپ با ت یہ ہے کہ میرے زیادہ تر معاشقے کامیاب رہے سوائے ایک معاشقے کے۔ جس کی ناکامی مجھے بیوی کی صورت میں ملی۔ میرے غم میں شریک شوہروں کا بہت شکریہ۔۔ خیر بات ہورہی تھی پیار کی۔۔ مجھے اپنی بیوی سے پیارہے۔ [اب پیار نہ بھی ہو تو بھی گزارہ تو اسی کے ساتھ کرنا ہے نا] وہ دل کی بہت اچھی ہے، اکثر دل کی بات زبان پر لے آتی ہےجس کی بدولت مجھے اس کے دل کا حال پتا چلتا رہتا ہے کہ کتنا اچھا سوچتی ہے وہ میرے بارے میں، جیسے کہ کچھ روز قبل میری سالی کی شادی کی قریب تھی جس میں میری بیوی نے مجھے تنبیہ کر دی تھی کہ کم سے کم ایک واشنگ مشین اور ڈنر سیٹ آپ نے ہی لے کر دینا ہے، اب اس کے اس فرمائشی پروگرام کو اس نے اپنے میکے میں عزت سے جوڑ لیا تھا اور میں جانتا تھا کہ اگر یہ فرمائش پوری نہیں ہوئی تو میری تو خیر نہیں الٹا میرے گھر میں ایک نیا فساد کھڑا ہوگا اس فساد سے بچانے کے لئے مجھے اپنی خواہشات کی قربانی دینی تھی، ایک بے چارہ شوہر اور کر بھی کیا سکتا تھآ؟
ارے میں آپ کو اپنی بیوی کا نام بتانا تو بھول ہی گیا، اس کا نام وردہ ہے.
با لاخر تمام کوششوں کے باوجود ڈنر سیٹ کے لئے پیسوں کا انتظام نہیں ہو پایا ، شادی تو جیسے تیسے ہو ہی گئی مگر ایک واشنگ مشین کا گفٹ دینے کے باوجود بھی میں مجرم ٹھہرا اور پھر میری بیوی نے اپنے دل کے خیالات کا اظہار کھل کر کیا، تمہارے ساتھ شادی کر کے میں نے خود اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری ہے، ایک ڈنر سیٹ کے لئے پیسے نہیں تھے، دل میں آیا کہ پوچھوں واشنگ مشین کے پیسے تمہارے ابا جان نے دیئیے تھے کیا مجھے؟ لیکن نہ پوچھ سکا۔۔ جانتے ہیں کتنی بے عزتی ہوئی ہے میری میکے میں؟ اس کا واویلا جاری تھا اور یہ اگلے دو ہفتوں تک جاری رہا جب تک میں اسےاس کے میکے چھوڑ کر نہ آگیا۔
اس کی بہن کی شادی کےبینڈ باجوں کی آوازیں ابھی تک میرے کانوں میں گونجنا بند نہیں ہوئی تھیں کہ وردہ نے مجھے اطلا ع دی۔۔
میں امی کے گھر جا رہی ہوں
اتنی جلدی دوبارہ امی کے گھر جانے کی ضرورت کیا ہے؟ میں نے دل کی خوشی کو چہرے پر ظاہر ہونے سے روکتے ہوئے سوال کیا۔ ارے وہ ناہید ، [اس کی بہن] کی شادی کے بعد گھر کافی سونا سونا سا ہوگیا ہے امی بھی اداس ہیں اس لئے ان کے پاس جانا ضروری ہے۔
ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی۔ واقعی تمہاری امی کو اس وقت تمہاری ضرورت ہے، میں نے ہمدردی جتاتے ہوئے کہا، ویسے اس ہمدردی کی قطعی ضرورت نہں تھی، اچھی خاصی کمینی تھی میری ساس، اپنی بیٹی کو ہر طرح سے سکھا سکھا کر ماہر کردیا تھا کہ کیسے اپنے شوہر پر اپنا دبدبہ بنا کر رکھنا ہے۔
اچھا بات سنو، میکے کتنے دن رہوگی؟
ایک ہفتہ تو لگے گا، پھر آجاوں گی۔۔ اسنے جواب دیا
اتنے دن میں کیسے رہوں گا تمہارے بغیر؟ میں اب اپنے مطلب پر آرہا تھآ
ارے کیا مطلب ہے آپکا، ایک ہفتے کی تو بات ہے
نا۔۔۔ ایک ہفتے سے پہلے ایک ڈوز تو بنتا ہے ورنہ میرا برا حال ہوجائے گا۔۔ میں نے وردہ کی جانب بڑھتے ہوئے کہا۔۔
دن کا وقت ہے امی نے آواز دی تو۔۔ وردہ نے نیم رضامندی سے کہا۔۔
ارےامی سو رہی ہیں کھا نا کھا کر۔۔ بس ایک میں بھوکا ہوں۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے اسے بانہوں میں بھر لیا۔۔
اچھا جی، کون بھوکا ہے آپ یا آپ کا وہ۔۔ وردہ اب تیار تھی۔
دونوں بھوکے ہیں۔۔ میری بھوک مٹے گی تبھی وہ آرام سے سوئے گا۔۔
وردہ نے اپنا سر اگے کیا اور میں نے بھی اب اس کے گالوں کو چوم لیا اور پھر ہمارے ہونٹ آپس میں جڑ گئے، اور ہونٹ جڑے رہے جب تک ہم کپڑوں سے آزاد نہیں ہوگئے، ہم دونوں کا سیکس ایسا ہی تھا، جوش سے بھرپور، ہم دونوں کی اگر کسی بات پر ایک رائے ہوتی تھی وہ صرف سیکس ہی تھا۔۔ وردہ کو جانے کی جلدی بھی تھی اس لئے بنا دیر کئے اس نے مجھے بیڈ پر کھینچ لیا اور اب میں اس کے اوپر لیٹ چکا تھا ہم دونوں کے ہونٹ اب بھی جڑے ہوئے تھے، اب میں نے زیادہ انتظار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اپنا لنڈ وردہ کی چوت پر رگڑا جہاں اچھا خاصہ گیلا پن موجوود تھا اب میں نے لنڈ کو آگے بڑھایا تو مکھن جیسی وردہ کی چوت میں میرا لنڈ اتر چکا تھا، ہم دونوں کے جسم سے آگ نکل رہی تھی، میں نے شروعات دھیمی رفتار کے دھکوں سے کی اور پھر دو منٹ کے بعد میں پوری رفتار سے چوت میں دھکے مارنے لگا ، میرے ہر دھکے سے وردہ کے چہرے پر عجیب طمانیت نظر آتی اور وہ نہار سی جاتی۔ پانچ منٹ کی اس تیز رفتار چدائی کا اختتام قریب آگیا تھا اور میں نے اب وردہ کو اس کی گردن کی پشت سے پکڑ رکھا تھا اور وردہ اور میرا نچلا دھڑ مسلسل حرکت میں تھے اور اختتام یوں ہوا کہ دونوں کو منزل مل گئی اور وردہ اس منزل کی آسودگی کو پا کر میرے گلے لگ گئی تھی ہم دونوں ایک دوسرے کو چوم رہے تھے۔۔
آدھے گھنٹے بعد وردہ کو میں اپنی بائیک پر اس کے گھر چھوڑ آیا تھا اور اس وقت اپنے بیڈ پر لیٹا اپنے ماضی میں گم تھا، وردہ جیسی بھی تھی ہم دونوں خوش تھے ایک دوسرے کے ساتھ۔ لیکن میں وردہ سے شادی کرنے کے فیصلے پر اب بھی خود پر حیران ہوتا ہوں، ایسی وجوہات ہوگئیں تھی کہ مجھے وردہ سے شادی کرنی پڑی۔۔
ویسے بحیثیت شوہر ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی بیوی سے جب چاہے جتنا چاہے اور جہاں چاہے سیکس کرسکتا ہے، البتہ جہاں چاہے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ بیچ سڑک پر یہ کام شروع کردیا جائے۔۔۔ خیر اس پر لطیفہ یاد آگیا مجھے۔۔
بیوی نے شوہر ہر کیس کردیا۔۔ پیشی شروع ہوئی تو بیوی نے شوہر کی جانب انگلی اٹھا کر کہا۔۔
جج صاحب یہ بہت سیکس کرتا ہے۔۔۔
جج نے مسکراتے ہوئے شوہر سے پوچھا، ہاں بھئی کتنی بار سیکس کرتے ہو؟
شوہر نے مسکین سی صورت بنا کر جواب دیا۔۔ جناب رات کو سونے سے پہلے، آدھی رات کو، ناشتے کے بعد، دوپہر آفس سے آکر ، پھر چائے پی کر ۔ ڈنر سے کچھ دیر پہلے اور پھر ڈنر کے بعد۔۔۔
جج حیرت کی شدت سے بولا۔۔ بھوسٹری کے۔۔ اتنی بار سیکس بور نہیں ہوتے کیا؟
شوہر: جناب بور ہوتا ہوں تو مٹھ مار لیتا ہوں۔۔
جج: ڈالواس گانڈو کو جیل میں اور حکیم کا ایڈریس پوچھو اس سے۔۔۔
خیر کہانی کی طرف آتے ہیں۔
وردہ سے میری پہلی ملاقات ایک شادی کی تقریب میں ہوئی تھی، میں اپنے دوست کے دوست کی شادی میں گیا تھا، دولہا میرا کوئی خاص دوست نہیں تھا مگر میرے دوست کا جگری تھا اس لئے مجھے بھی وی آئی پی پروٹوکول مل رہا تھا، وردہ شاید لڑکی والوں کی طرف سے آئی تھی، ماحول بھی اتنا تنگ نہیں تھا اس لئے میں آزادانہ گھوم رہا تھا، اسی دوران میری نظر وردہ پر پڑی، یوں تو کافی لڑکیوں کے ساتھ رومانس لڑا چکا تھا لیکن وردہ ان سب سے الگ لگی مجھے۔ وردہ اپنی کچھ سہیلیوں کے ساتھ تھی، میں نے اپنا تجربہ استعمال کرنا شروع کیا اور وردہ کوآنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرنے لگا۔ وردہ کو بھی میں پسند آیا تھا اس لئے وہ بھی میرے اشاروں کا مثبت جواب دینے لگی، بات یہیں تک ہی رہی اور پھر کھانا شروع ہوگیا،
کھانا لگتے ہی ہماری پاکستانی قوم نے اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کھانے پر ٹوٹ پڑے، وردہ اور اس جیسی دھان پان کی لڑکیوں کو کافی مشکل ہوتی ہے ایسی صورتحال میں اپنے لئے کھانا لینے کے لئے، میں چونکہ ایسے ندیدے پن سے دور رہتا ہوں اس لئے رش لگتا دیکھ کر بھی میں اپنی کرسی پر بیٹھا رہا ، لیکن وردہ کو اس صورتحال میں پھنسا دیکھ کر اس کی مدد کے لئے چلا آیا اور نہایت محنت اور سخت مقابلے کے بعد میں کچھ کھانے کی ڈشز نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔
اب ہم دونوں ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے تھے، میں تو اکیلا ہی آیا تھا لیکن وردہ کے بارے میں مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ فیملی کے ساتھ آئی ہے یا دوستوں کے ساتھ۔ میں نے سوچا پوچھ لینا بہتر ہوگا۔
شکریہ ۔۔ آپ نے مدد کی ورنہ تو آج خالی پیٹ جانا پڑتا یہاں سے۔ اسی نے بات شروع کی تو مجھے بھی موقع مل گیا۔
شکریہ کی کوئی بات نہیں مجھے اندازہ ہے ایسی صورتحال کا ، آپ کے کام آیا اس میں میرا ہی فائدہ ہے۔
آپ کا فائدہ کیسے؟ اس نے اپنی خوبصورت آنکھوں کو جھپکاتے ہوئے پوچھآ۔
وہ ایسے کہ اس وقت میرے ساتھ اس ہال کی سب سے خوبصورت لڑکی بیٹھی ہے۔تو ہوا نا میرا فائدہ۔۔
اچھا جی، مجھے نہیں پتا تھا کہ میں اتنی خوبصورت ہوں۔۔ اس نے شرارتی لہجے میں جواب دیا ۔
میرا نام وجدان ہے۔۔ اور آپ کا؟
میں نے تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ ویسے بھی میں ایسی بچی میرا مطلب ہے ایسی خوبصورت لڑکی کو یونہی ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔
میں وردہ ہوں۔ اس کا نام بھی اس کی طرح خوبصورت تھآ
شاید آپ لڑکی والوں کی طرف سے آئی ہیں؟ میں نے بات کو آگے بڑھا یا۔
جی، میری فرینڈ کی شادی ہے، میں اور میری چھوٹی بہن آئی ہیں۔
اوہ اچھا تو آپ کراچی میں ہی رہتی ہیں۔؟ میں نے اگلا سوال داغا
جی یہی قریب میں ہی رہتی ہوں۔۔ اس نے بڑی خوبصورتی سے مجھے اپنا رہائشی ایریا بتا دیا تھآ، اس وقت ہم ناظم آباد کے ایک میرج ہال میں موجود تھے
آپ دولہے کے رشتہ دار ہیں؟ نہیں میں اس کا دوست ہوں، میں نے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ تاکہ اسے مجھ پر بھروسہ کرنے آسانی ہو
کیا کرتے ہیں آپ؟ وہ مجھ میں دلچسپی لے رہی تھی۔
میں جاب کرتا ہوں ۔۔۔
اچھا، میں بھی آج کل جاب ڈھونڈ رہی ہوں لیکن کوئی اچھی جاب نہیں مل رہی۔ میں نے بی کام کیا ہے۔
میرا دماغ کمپیوٹر سے بھی تیز چلنا شروع ہوگیا۔۔۔شکار پھنسنے کے لئے تیار تھا۔۔
میرا ایک دوست ہے بینک میں۔۔ اگر آپ کہیں تو میں اس سے آپ کے لئے بات کرسکتا ہوں ، یقیناً آپ کی قابلیت کے حساب سے وہاں جاب مل جائے گی۔
اچھا۔ مگر آپ کیسے؟ وہ شاید کھل کر اپنی سفارش نہیں کر پارہی تھی
ارے آپ بے فکر رہیں، یہ میرا کارڈ ہے، اس میں میرا ای میل ایڈریس بھی ہے، آپ اپنی سی وی مجھے ای میل کردیجے گا. باقی میں دیکھ لوں گا۔۔ اس میں میرا نمبر بھی ہے، میں نے تیر چلا دیا تھا۔۔
اس نے کارڈ لے لیا، اور اپنے بیگ میں رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔ شکریہ میں کل صبح ہی آپ کو ای میل کردوں گی۔۔
کھانا بس ختم ہی ہونے والا تھا اور کھانے کے بعد سب کو جانے کی پڑنے والی تھی اس لئے میں بھی اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے. جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ اور اس سے ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ ۔ یہ آخری امتحان تھا اس کا ۔۔ اگر وہ ہاتھ ملا لیتی تو اس کا مطلب وہ پوری طرح مجھ پر بھروسہ کر رہی ہے۔۔ اور مجھے مایوسی نہیں ہوئی
اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر میرا ہاتھ تھام لیا۔
ہم دونوں ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ کر اپنے اپنے راستے ہو لئے.
اگلے دن لنچ کے بعد میں اپنے آفس میں بیٹھا ای میلز چیک کر رہا تھا کہ وردہ خان کے نام سے ایک ای میل ان بکس میں نظر آئی، میں نے فوراً وہ ای میل کھولی، اس میں وردہ کی سی وی اٹیچ تھی اور اس سی وی میں اس کا موبائل نمبر بھی تھا، میں اس سی وی کو کھول کر اس میں سے موبائل نمبر اپنے پاس نوٹ کیا اور پھر سی وی سے ڈیلیٹ کردیا، اور وہ ای میل اپنے دوست کو فارورڈ کردی۔
اگلے دن میرے موبائل پر کال آئی، یہ کال وردہ کی ہی تھی، رسمی علیک سلیک کے بعد وہ مدعے پر آگئی، میں نے اسے بتا دیا کہ سی وی فارورڈ کردی ہے بہت جلد تمہارا کام ہوجائے گا، کال کٹنے کے بعد میں نے دوست کو کال ملائی اور اسے سمجھاتے ہوئے بتایا کہ اس لڑکی کو جاب پر لگوانا ہے اس نے ہامی بھر لی اور ساتھ میں شرارتی لہجے میں بولا۔ جانی کون ہے یہ اس کا تو نمبر بھی نہیں ہے سی وی میں؟
[میں نے جان بوجھ کر نمبر ڈیلیٹ کیا تھا کیونکہ میرے دوست بھی کچھ کم کمینے نہیں تھے]
ارے مجھے کیا پتا یار، پاپا کی دوست کی بیٹی ہے، کچھ الٹا سیدھا سوچنا بھی مت۔ میں احتیاطً تنبہیہ بھی کردی تھی۔
اس کی جاب جب لگتی تب لگتی ۔۔ تب تک مجھ سے انتظار کہاں ہونا تھا، میں نے وردہ کو کال کی
وردہ نے نمبر سیو کیا ہوا تھا شاید، میرا نام لیتے ہوئے کہا۔،جی وجدان کیسے ہیں آپ۔ میں اچھا ہوں تم کیسی ہو؟،،،، میں بے تکلفی پر آگیا تھا۔۔
جی میں ٹھیک ہوں اسنے جواب دیا۔
تم کل کیا کر رہی ہو؟ میں رسانیت سے پوچھا
کچھ نہیں فری ہوں، خیریت
ہاں خیریت ہی ہے، تمہاری جاب کے لئے جس دوست سے بات کی تھی اسنے آفس میں ملنے کا کہا ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ میں بھی تمہارے ساتھ آوں۔اسی بہانے ہم دوستوں کی ملاقات بھی ہوجائے گی۔
ٹھیک ہے مگر کونسے آفس ؟اس نے مطمئن ہوتے ہوئے پوچھا
میں نےٹمبر مارکیٹ میں موجود ایک بینک کے ہیڈ آفس کا ایڈریس بتایا ۔
یہ تو کافی دور ہے، وردہ فکر مند لہجے میں بولی۔
اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو دونوں ساتھ تو جا ہی رہے ہیں میں تمہیں پک کر لوں گا تمہارے گھر سے، مجھے قریب ہی پڑے گا تمہارا گھر
ٹھیک ہے اسنے بھی بنا اعتراض ہاں کردی، اسی دوران میں نے اس سے اس کے گھر کا ایڈریس سمجھ کر کال کاٹ دی۔۔ میرا پلان ٹھیک راستے ہر جا رہا تھآ۔۔۔
اگلے دن میں نے وردہ کو اس کے گھر سے باائیک پر پک کیا اس وقت میرے پاس 125 سی سی بائیک تھی ، ابھی ہم نے آدھا راستہ ہی طے کیا ہوگا کہ میرا موبائل بجنے لگا۔۔
میں نے بائیک روک کال ریسوکی، دوسری طرف کوئی نہیں تھامیں نے پلان کے مطابق جان بوجھ کر ایکٹینگ کی تھی کال آنے کی اور پھر میں یونہی کال پر بات کرنے لگا،
ہاں کیا ہوا؟ میں نےپوچھا، اور تھوڑی دیر بعد سننے کی اداکاری کرتے ہوئے دوبارہ بولا، ابے پاگل ہے کیا پہلے بلایا اب منع کر رہا ہے، تھوڑے وقفے کے بعد میں پھر بولا، چل ٹھیک ہے۔۔۔ رکھتا ہوں۔۔
وردہ جو میرا غصےبھرا چہرا دیکھ رہی تھی، فکر مند لہجے میں بولی کیا ہوا وجدان؟
ارے وہ منع کردیا ہے دوست نے، کہہ رہا ہے اس کے گھر میں ایمرجنسی ہوگئی ہے اسے گھر جانا تھا سو آج نہیں مل پائیں گے۔۔
وردہ کے چہرے پر تھوڑی افسردگی آئی مگر پھر اس نے مسکراتے ہوئے کہا، ارے کوئی بات نہیں آپ نے تو ڈرا دیا تھا مجھے،
ارے بات دراصل یہ ہے کہ میں نے آج آفس سے چھٹی لی ہوئی تھی کہ تمہارے ساتھ جاوں گا اب ملنا کینسل تو گھر میں بیٹھ کر مکھیاں مارنی پڑیں گی۔۔
تو پھر کیا کریں؟ وردہ شاید میری بات سمجھ گئی تھی۔۔
کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں یہاں کھڑے رہنا اچھا نہیں، یہ بات کر کے ہم دونوں بائیک پر بیٹھے،
وردہ مجھے چپک کر تو نہیں مگر زیادہ دور بھی نہیں بیٹھی تھی اس کے جسم کی تپش میں اپنی پشت پر محسوس کر رہا تھا۔
اس کا ایک ہاتھ میرے کندھے پر تھا، ہم ایک کافی شاپ میں آگئے تھے، کافی پر سکون جگہ تھی، میں نے دو کافی آرڈر کی، اور پھر ہم باتیں کرنے لگے،، ہم وہاں ایک گھنٹہ بیٹھے اور اس دوران ہم اچھے سے گھل مل چکے تھے، میرا مقصد پورا ہوچکا تھا، مرغی نے دانا چگ لیا تھا۔۔
دو ہفتوں کے دوران ہم 5 بار ملے، جن میں سے آخری دو بار ایک آئس کریم پارلر میں ملے جہاں کیبن بنے ہوئے تھے وہاں ہم نے ایک دوسرے کو جم کر چوما چاٹا، وردہ سیکس کی بھوکی تھی، گھر میں آزادانہ ماحول تھا، کوئی روک ٹوک نہیں تھی، ایک بہن اور ایک ہی بھائی تھا جو دونوں اس سے چھوٹے تھےاور اس کے والدین دونوں ڈاکٹر ہیں صبح سرکاری ہسپتال اور شام میں پرائیویٹ کلینک، اپنے بچوں کے لئے ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا، توجہ اور تربیت میں کمی کا یہ عالم تھا کہ آج ان کی جوان بیٹی آسانی سے میری گود میں آگری تھی اور گھر میں کمپیوٹر اور موبائل کے ذریعے ہر چیز کے بارے میں پتا تھا اسے۔
5ویں بار جب ہم ملے تو اس بار ہم دونوں نے کیبن میں پہنچتے ہی کسسز شروع کردیں، اسے میری زبان چوسنے کا کافی شوق تھا میں بھی اسے بھرپور مزہ دینا چاہتا تھا اور میں ویسا ہی کر رہا تھآ، اور پھر کسنگ کے دوران میرا ہاتھ اس کی قمیض سے ہوتا ہوا اس کے برا کے اندر چلا گیا، اس نے کھلے گلے کی قیمیض پہن رکھی تھی جہاں سے مجھے واردات کرنے میں کافی آسانی ہوگئی تھی، اب میں ہونٹوں کے جام پینے کے ساتھ ساتھ اس کے ایک ممے کو بھی دبا رہا تھا اور پھر میں اپنے ہونٹ اس کی گردن سے لگا دئیے اور اس کی گالوں، کانوں اور ٹھوڑی کوچومتے ہوئے نیچے آتا گیا اور پھر میں اس کے برا میں اس کا مما نکال دیا اور اسے چوسنے اور چانٹنے لگا، وردہ مدوہوش ہو رہی تھی،
وہ میرے دائیں جانب بیٹھی تھی، کیبن میں زیادہ جگہ نہیں تھی اس لئے ہم بیٹھے بیٹھے ہی یہ سب کر رہے تھے، اب میرا ایک ہاتھ وردہ کی الاسٹک والی شلوار سے ہوتا ہوا اس کے پینٹی کے ساتھ جا لگا تھا ، اب میں دھیرے دھیرے اس کی چوت کو پینٹی کے اوپر سے ہی مسل رہا تھا، اس نے شدت جذبات سے میرا ہاتھ پکڑ کر دبانا شروع کردیا تھا، ایک طرف تو دونوں مموں کی شامت آئی ہوئی تھی جنہیں میں چوس اور کاٹ رہا تھا اور دوسری طرف اب میرا ہاتھ پینٹی کی حد پار کر کے سیدھا چوت کو سہلا رہا تھا، میں نے ابھی ایک انگلی کو اندر ڈالنے کی کوشش ہی کی تھی کہ وردہ نے میرا ہاتھ روک دیا، میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا،
وردہ نے نہ میں سر ہلاتے ہوئے کہا، درد ہوتا ہے، میں نے مسکراتے ہوئے کہا اوکے نہیں ڈالتا اندر، یہ کہہ کر میں دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا، اب وردہ کی منزل کافی قریب آگئی تھی اور پھر میں اپنے بائیں پاتھ سے چوت کو مسلنا جاری رکھا اور اپنے ہونٹوں کو پھر سے وردہ کے ہونٹوں سے جوڑ دیا، وردہ منزل کے قریب پہنچتے پہنچتے جنونی سی ہوگئی تھی اس کی آواز میرے ہونٹوں میں دب رہی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے دھڑ کو اوپر کر کے میرے ہاتھ کا بھرپور مزہ لینا چاہ رہی تھی، اور اسی دوران اس کی چوت نے پانی چوڑ دیا اور جس سے میری انگلیاں گیلی ہوگئی، اس نے اپنے پرس سے ٹشو نکال کر مجھے دیا.میں نے انگلیاں صاف کیں اور پھر اسے اپنی گود میں بٹھا دیا، اور اس کے مموں کو دباتا رہا۔
یونہی کچھ دن اور ملاقاتیں ہوئیں اور بات میرے لنڈ کو چوسنے تک پہنچ چکی تھی، وردہ اناڑی تھی مگر لنڈ چسوانے کا خیال ہی آپ کو وہ مزہ دے دیتا ہے جو شاید کبھی کبھار چداَئی مِں بھی نہیں آتا۔ اسی کیفے میں وہ میرا لنڈ چوستی تھی اور آہستہ آہستہ وہ ماہر بھی ہوگئی تھی۔
اب میرا پلان وردہ کو چودنے کا تھا اور اس میں وردہ کی ہاں صاف نظر آرہی تھی بس تھوڑی سی محنت کی ضرورت تھی، وردہ کی جاب تو نہیں لگی جس کے لئے میں اسے بتا دیا کہ میرے دوست کا ٹرانسفر ہوگیا ہے اور اب اسے بھی کوئی خاص شوق نہیں تھا لیکن گھر سے کچھ نہ کچھ بتا کر تو نکلنا تھا نا تو اس نے گھر میں بتا دیا کہ اسے بینک نے عارضی بنیاد پر کام دیا ہے اگر انہیں وردہ کا کام پسند آیا تو اسے مستقل کردیں گے۔ اور اس کے لئے میں نے دوست کو کہہ کر بینک کے لیٹر ہیڈ پر ایک اپائنٹمنٹ لیٹر بھی بنوا دیا تھا تا کہ گھر والوں کو وہ دکھا کر مطمئن کیا جاسکے۔
آخر بہت ڈھونڈنے کے بعد ایک گھر کا انتظام ہو گیا تھا، دراصل گھر تو بہت تھے مگر بھروسہ کسی پر نہیں تھا، سالے کچھ کمینے دوستوں کی فرمائش ہوتی کہ یار دیکھنے دیگا نا؟ اور کچھ تو ایسے بھی تھے کہ بولتے کہ یار تھوڑا تو چکھ لینا تھوڑا ہمیں چکھا دینا۔۔ ابے شراب ہے کیا جو تھوڑی انہیں چکھا دیتا۔۔ مشکلوں سے بچی ہاتھ آئی تھی ایسے کیسے کسی کے ہاتھوں میں جانے دیتا۔۔
خیر ایک بہت سیدھے سے دوست جو کہ میرا قرض دار بھی تھا کو میں نے گھر کے حوالے سے کہا ہوا تھا اور پھر کچھ دنوں کے بعد اس نے اچھی خبر سنا بھی دی کہ اس کے گھر والے جو کہ اس کی چھوٹی سی فیملی پر مشتمل تھے۔ پکنک پر جارہے ہیں جس کی بدولت ہمارے پاس پورا دن تھا، اور ویسے بھی مجھے پورا دن نہیں چاہئیے تھا اس لئے کوئی ڈر نہیں تھآ۔۔
خیر میں اس دوست سے گھر کی ڈپلیکیٹ چابیاں لے لیں اور اس دن کا انتظار کرنے لگا۔
وہ ہفتے کا دن تھا، یوں تو بینک ہفتے کو بند ہوتے ہیں مگر بینک کی چند شاخیں بند نہیں ہوتیں اور وردہ نے بھی گھر میں یہی بتایا کہ آج اسے بینک جانا ہے
ہفتے کی صبح میں نے وردہ کو اس کے گھر سے تھوڑے فاصلے سے پک کر لیا۔ آج وردہ کافی تیار ہوکر نکلی تھی، اس کے گورے رنگ پر کالے رنگ کا سوٹ جچ رہا تھا ، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو تھا۔ اس لئے میں نے بائیک کی رفتار بڑھا دی۔ صبح 10 بجے ہم گھر کے اندر موجود تھے، چونکہ دوست کی فیملی کینجھر جھیل میں پکنک منانے گئے تھے اس لئے کسی کے جلدی آنے کی کوئی فکر نہیں تھی مجھے۔
میں نے پہلے ہی شہد، لوشن اور کچھ کھانے پینے کا سامان لے لیا تھا، جس کی بعد میں ضرورت پڑنے والی تھی۔
گھر میں پہنچ کر ہم ایک دوسرے سے چپک گئے، ویسے تو ہم بہت بار ایک دوسرے سے گلے لگے تھے مگر مکمل تنہائی احساس صرف اس بار میسر آیا تھا اس لئے مزہ بھی دوگنا ملا۔۔ میں نے وردہ کو اب پیچھے بانہوں میں لے لیا اور اس کی کمر سے ہوتے ہوئے میرے ہاتھ اس کے مموں پر تھے
کچھ لمحوں بعد میں نے اس کی قمیض اتار دی اور اس کی گردن کو چومنے لگا، اس نے نیچے کالے رنگ کا ہی برا پہن رکھا تھا، میں اس کے برا کے اوپر سے ممے دبا رہا تھا اور نیچے میرا ہتھار فل جوش میں اس کی گانڈ پر دستک دے رہا تھا جسے وہ یقیناً محسوس کررہی تھی۔
اب اترنے کی باری اس کے برا کی تھی جسے اتارنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا اور اس بار تو وہ بھی شرما گئی کیوں کہ اس کھلے انداز میں اس کے مموں دیدار پہلی بار ہوا تھا مجھے۔ میں اپنی پسندیدہ چیز یعنی اس کے مموں پر جھپٹ پڑا اور چوسنے لگا، اس کے ممے اس کی کمزوری بھی تھی اس لئے اسے جوش میں لانے کا شارٹ کٹ بھی یہی تھا اور میں کامیاب بھی ہو رہا تھا۔ وردہ کی آنکھوں میں ہوس کے ڈورے صاف نظر آرہے تھے۔
اس کی شلوار اترنے میں چند سیکنڈز لگے اور اگلے ہی لمحے اس کی پینٹی بھی اتار چکا تھا، اور پینٹی اتارتے ہی میں وہیں بیٹھ کر اس کے پیٹ اور ناف کو چومنے لگا جبکہ میرا ایک ہاتھ وردہ کی چوت کو سہلا رہا تھا۔ اور پھر میں اس کی ناف سے اوپر آنا شروع ہوا اور اس کے سینے کو چومتے ہوئے اس کی ٹھوڑی اور پھر اس کے نرم و نازم ہونٹوں کو چوسنے لگا، یہاں میں وردہ کا فگر بتانا چاہوں گا۔۔
اس کی خوبصورت سڈول اور تنے ہوئے چونتیس سائز کے ممے تھے اور پتلی کمر اٹھائیس کے آس پاس تھی، اس کے ہپس اتنے بڑے نہیں تھے مگر گولائی خوب تھی ان میں، میرے اندازے کے مطابق اسے چوتڑ اڑتیس کے آس پاس تھے۔
اب اس نے میرے کپڑے اتارنے کا ارادہ کیا اور میری شرٹ اتار دی۔ اس کے بعد اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس نے میری پینٹ کی زپ کھولی اور میرے انڈر وئیر میں سے پھنپھناتا ہوا میرا لنڈ نکال لیا، اسے نے میرا لنڈ کافی پسند بھی تھا جس کا میجسز پر وہ اظہار بھی کرچکی تھی میں نے اسے رکنے کا اشارہ کیا اور جو سامان میں لایا تھا اس میں سے شہد کی بوتل نکال لی، بوتل کے ڈھکن کھول کر میں نے اس میں اپنی ایک انگلی ڈبو دی اور پھر اسے وردہ کے منہ کی طرف بڑھائی، وردہ بڑی گہری مگر مست بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی اور میرا ارادہ بھی اسے خوب سمجھ آرہا تھا، وردہ نے آہستگی سے میری انگلی کو منہ میں لیا اور شہد کو چوس لیا اب میں نے اپنی انگلی کو پھر شہد کی بوتل میں ڈالا اور شہد کی زیادہ مقدار نکال کر اپنے لنڈ کی کیپ پر لگا دیا اور پھر وردہ کو اشارہ کیا۔۔ وردہ نے میرے لنڈ کے قریب جا کر اپنی زبان باہر نکالی اور کیپ پر لگا شہد چاٹ لیا اور منہ میں اس شہد کو گھومانے لگی اور اس کے بعد اس نے میرے لنڈ کی کیپ کو منہ میں لے لیا، اور اسے اپنے گرم منہ کے اندر باہر کرنے لگی.
مجھے ہمیشہ سے لنڈ چسوانا پسند رہا ہے، پتا نہیں کیوں مگر سیکس کے اس حصے کو حتی لامکان کوشش کرتا ہوں کہ لمبا کھینچ سکوں، خیر اسے بھی لنڈ چوسنے میں مزہ آ رہا تھا یا پھر یوں کہہ لیں کہ وہ میرے چہرے پر مزے کی شدت سے آنے والے تاثرات کو انجوائے کر رہی تھی، وہ کوشش کر رہی تھی کہ میرے لنڈ کو زیادہ سے زیادہ اندرلے سکے مگر وہ کوئی ماہر نہیں تھی اس لئے جتنا وہ لے پا رہی تھی میں اتنے میں خوش تھا، کچھ سیکنڈز کے اندر میں بھی اس کے سر کو پکڑ کر وقتاً فوقتاً اسٹروک لگا دیتا جس سے اس کے چہرے پر لالی آجاتی اور کچھ لمحے وہ یونہی رکتی اور پھر چوسنا شروع کرتی۔
اب آگے کمان مجھے سنبھالنی تھی، میں نے اسے اپنے دوست کے بیڈروم لے گیا جو اس نے خاص میرے لئے صاف ستھرا کر رکھا تھا۔ ہم دونوں اس وقت ننگی حالت میں تھے۔ لنڈ چوسنے کے دوران وہ میری پینٹ اور انڈروئیر اتار چکی تھی۔ اسے بیڈ پر لٹا کر میں اس کی چوت پر آگیا، یوں تو مجھے چوت چاٹنے کا کوئی شوق نہیں تھا مگر سامنے بچی ٹائٹ تھی اور اوپر سے صاف ستھری بھی تھی، پھر میں نے کچھ سیکنڈز ہی اس کی چوت کو چوسا اور چوما ، اتنی دیر چوسنے سے بھی وہ پاگل سی ہونے لگی اور پھر باقی کام میری انگلیوں نے سنبھال لیا، اور اب میں اس کے سینے سے ہونٹ لگائے ہوئے تھآ اور میرا دایاں ہاتھ اس کی چوت کے لبوں کو سہلا رہا تھآ
مجھے کسی بات کی جلدی بھی نہیں تھی مگر یہ کمینہ لنڈ چین لینے دے تب نہ۔۔۔۔اوپر سے وردہ کی طلب بھی جوبن پر تھی مجھے یہی وقت چوت پر چوٹ مارنے کے لئے درست لگا۔۔اور میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔ تم تیار ہونا؟
وہ تو پتا نہیں کب سے تیار تھی لیکن ہاں کون کہے۔۔۔۔۔۔اسنے ہمت کر کے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔ میرے لئے اتنا بھی کافی تھا۔ میں اٹھا اور سامان میں سے لوشن نکال کر واپس بیڈ پر آگیا، وردہ میرے نیچے لیٹی تھی اس کے سینے کا زیروبم مجھے بہکانے میں پورا کردار ادا کر رہا تھا۔
میں نے لوشن نکال کر اپنے لنڈ کو اچھی طرح چکنا کیا اور پھر لوشن وردہ کی چوت پر بھی لگا دیا، پہلے سی چکنی چوت پر لوشن لگتے ہی وہ یوں چکمنے لگی جیسے شوروم سے ابھی نئی گاڑی اپنی جوانی پر اتراتے ہوئے نکلی ہو۔۔پھر میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنے لنڈ کو اس کی چوت پر ٹکا دیا اور اس کے ہاتھ میں اپنا ایک ہاتھ دے دیا جسے اس نے مضبوطی سے تھام لیا، اب میرا ایک ہاتھ میرے لنڈ پر تھا اور جسے میں درست انداز میں اندر ڈالنے کے لئے استعمال کر رہا تھآ تاکہ کوئی غلطی نہ ہو، اور پھر وہ لمحہ آگیا جس کے لئے میں اتنی پلاننگ اور محنت کی تھی. میں نے اپنے لنڈ کو وردہ کی چوت کے اندر دھکیلا، میں نے طاقت زیادہ نہیں لگائی تھی مگر پھر بھی وردہ کے چہرے پر اذیت کے تاثرات نظر آرہے تھے، اسے تکلیف میں دیکھ کر میرا دل یا یوں کہہ لیں کہ میرا لنڈ بیٹھنے لگا، میں ہم دونوں کا دھیان بٹانے کے لئے وردہ کے مموں کو چوسنے لگا.یہ ٹوٹکا کامیاب ہوا اور میرے لنڈ میں تناو پھر سے بڑھنے لگا اور دوسری طرف وردہ کے چہرے پر بھی اطمینان چھانے لگا، میں نے سیڑھی کا اگلا قدم چڑھنے کا فیصلہ کیا اور اس بار تھوڑی طاقت سے دھکا مارا،وردہ کے چہرا متغیر ہوگیا، اس نے ہلکی سی چیخ بھی ماری ، مگر لنڈ کو نکالنے کا نہیں کہا، میں نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا، میری جان بس اب درد نہیں ہوگا ، لوشن کی بدولت جو کام زیادہ مشکل تھا وہ تھوڑی آسانی سے ہوگیا تھا اور میرا لنڈ وردہ کے کنوارے پن کو توڑتے ہوئے اندر گھس چکا تھآ، وردہ کنواری تھی اس کا مجھے یقین نہیں تھا لیکن آج اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی تھی، جو کچھ ہوا تھا دن کے اجالے میں ہوا تھا اور میں نے بھی کوئی نشہ نہیں کیا ہوا تھا کہ سمجھ نہیں پاتا۔۔ خیر اگلے دس منٹ کے طویل انتظار کےبعد وردہ کے چہرے پر درد کے آثار نہ ہونے برابر تھے، اور یہاں چوادئی میں رکے رہنے سے تسلسل ٹوٹ گیا تھا میں نے اس بار اس کے ہونٹوں کا رخ کیا اور کسسنگ کرنے لگا، اس کے نرم و نازک ہونٹوں سے طاقت کا وہ جام پیا کہ لنڈ کو بھی ہوشیاری آگئی اور پھر وردہ کی کشتی جیسی چوت میں چپو آسانی سے چلنے لگا، میں نے وردہ کو سر کے پیچھے سے پکڑ رکھا تھا اور نیچے سے ہم دونوں کے جسم ایک دوسرے کے ساتھ چپکتے اور پھر بچھر رہے تھے، یہ ملنا ملانا اور اور پیچھے ہٹ کر پھر ملنا دونوں کو سرشار کر رہا تھآ، چودائی کا یہ سلسلہ طویل ہوگیا تھا میرے جسم سے پسینے کی دھار نکل رہی تھی تو وردہ کے چہرے پر بھی پسینہ چمک رہا تھآ، دونوں محنت بھی تو کتنی کر رہے تھے، اور پھر وردہ کی آہیں بڑھنے لگی اور میں بھی خود پر قابو نہ رکھ پایا اور کچھ تیز جھٹکے مارنے لگا ، خود کو لاکھ سمجھایا کہ کمینے ہاتھ ہلکا رکھ کہیں بچی نیچے سے نکل کر بھا گ نہ جائے۔۔ لیکن وہ لنڈ ہی کیا جو ایسی صورتحال میں مان جائے، ہم دونوں اب چوادئی کو انجوائے کر رہے تھے، اور پھر میری حالت ایسی ہوگئی کہ دماغ کی رگیں پھولنے لگیں، میرے منہ سے پتہ نہیں کیا کیا نکلنے لگا، شاید میں اووہ ااہ ہی کر رہا تھا ۔ وردہ بھی مجھے دیکھ کر اپنے جذ بات دکھانے لگی، اسنے اپنی ٹانگیں میری کمر سے جکڑ لیں جیسے پھر کبھی چھوڑے گی ہی نہیں [اس وقت مجھے کیا پتا تھا کہ واقعی وہ یہی ارادہ کئے بیٹھی ہے] میں منزل پر پہنچے ہی والا تھا کہ وردہ نے ایک مدھم سی آہ بھری اور پھر ڈھیلی ہوگئی اور میں بھی اس کے پیچھے پیچھے اپنی توپ میں سے کارتوس کے بجائے پانی پھینکنے لگا۔۔ہم دونوں کی آگ ایک دوسرے کے پانی سے بجھ چکی تھی اور اب ایک دوسرے کو بہت پیار سے دیکھ رہے تھے۔ تھوڑی دیرایک دوسرے کے اوپر یونہی لیٹے رہنے کے بعد میں اس کے دائیں جانب لیٹ گیا۔
میرا موبائل بج رہا تھا۔ موبائل ٹون کی آواز نے مجھے ماضی سے حال کی طرف کھینبچ لیا تھا میں نے کال ریسو کی اور ہیلو کہا، تو دوسری جانب سے چند لمحوں کے وقفے کے بعد نسوانی آواز ابھری۔ جی اسلم سے بات کرنی تھی۔
لو جی مجھے حیرت اور خوشی کا ملا جلا 120واٹ کا جھٹکا لگا، زیادہ کا لگتا تو بے ہوش بھی ہوسکتا تھا اور اس وقت ہوش میں رہنا نہایت ضروری تھا۔۔ جی بات کر رہا ہوں بولئے. اب دوسری جانب موجود لڑکی سٹپٹا گئی، شاید اسے یہ توقع نہیں تھی کہ مطلوبہ اسلم سچ مچ میں نازل ہوجائے گا۔
جی۔۔۔۔۔۔۔۔جی کیسے ہیں آپ ؟ اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے پوچھا
میں تو بہت اچھا ہوں۔۔ میں پہنچان نہیں پایا آپ کو۔۔میں نے نام جاننے کی غرض سے پوچھا
میں عالیہ بات کر رہی ہوں [ مجھے شک تھا کہ نام غلط بتایا ہوگا]
اوہ اچھا عالیہ کیسی ہو۔۔ اتنے دن ہوگئے یار تم سے بات نہیں ہوئی۔ میں پہنچاننے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بےتکلف ہوگیا۔۔
جی میں ٹھیک ہوں۔۔ اسنے جواب دیا۔
ارے میری جان یقین مانو بہت مس کر رہا تھا تمہیں. تم یاد آرہی تھیں۔۔
اوہ سچ میں میں نے بھی تمہیں بہت مس کیا۔۔عالیہ کا جواب سن کر اب میں حیران و پریشان ہوگیا تھا، کافی تیز بچی تھی وہ۔۔
پھر تو ہمیں ملنا چاہئے نا۔ بتاو کہاں سے پک کروں تمہیں؟۔ میں نے بات جاری رکھی،
آج نہیں میں خود تمہیں بتا دوں گی ملنے کے لئے، ابھی تو مجھے صرف تمہاری آواز سننی ہے۔۔ عالیہ شاطر تھی۔۔۔
میں تمہارے پاس ہوں میری جان تم حکم کرو
آپ کا نام کیا ہے؟ عالیہ شاید اب ڈرامہ ختم کرنا چاہتی تھی۔۔
وجدان۔۔ میں نے اس کا ارادہ سمجھتے ہوئے اس سے سوال بھی پوچھ لیا، اور آپ کا؟
مجھے نوینہ کہتے ہیں۔۔ اس نے اترا کر کہا۔۔
فکر نہ کریں میں بھی آپ کو نوینہ ہی کہوں گا۔۔
وہ مسکرا دی۔۔ یعنی ہنسی تو پھنسی۔۔
نوینہ سے میری بات چیت کا آغاز ہوچکا تھا۔۔ باتیں جب لمبی ہوئیں تو پتا چلا کہ وہ کراچی،ڈییفنس کی رہنے والی ہے، گھر میں کوئی تھا نہیں تو بوریت دور کرنے کے لئے رانگ نمبر ملا رہی تھی، اس نے سوچ رکھآ تھا جس کی آواز اچھی لگی اس سے تھوڑی دیر بات کر لے گی، ویسے بھی جس نمبر سے وہ رانگ کال ملا رہی تھی وہ اکثر بند ہی رکھتی تھی۔۔ میں شاید چوتھا رانگ نمبر تھا جس کو کال ملائی تھی اس نے اور پھر بات آگے بڑھتی گئی
میرا بھی ارادہ یہی تھا کہ اس سے بات چیت کروں گا اور اس کے آگے کچھ نہیں، کیونکہ شادی شدہ شخص ہمیشہ خطرے کا شکار رہتا ہے کہ کب کوئی خبر کی بو اس کی بیوی کے تیز نتھنوں سے ٹکرائے اور کب پھر وہ اپنے شوہر کا سر دیوار سے ٹکرائے۔۔
ویسے میں اپنی بیوی سے ڈرتا نہیں ہوں، ڈرتا تو وہ ہے جس کے دل میں چور ہو، میں تو سارے کام شادی کے بعد چھوڑ چکا تھآ۔۔لیکن کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ لہو منہ لگ گیا
یوں تو وردہ ایک ہفتہ سے زیادہ اپنی ماں کے گھر نہیں رکتی تھی اور نہ ہی میں اس کے بناء زیادہ دن گزار پاتا تھا اور اوپر سے امی اکیلی سب کام سنبھالتی تھی، میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا اور ڈیڑھ سال پہلے ہی شادی شدہ افراد کی فہرستوں میں شامل ہوا تھا ۔ ابو اپنی نوکری اور بیوی دونوں کا بہت خیال رکھتے تھے اس لئے جب وردہ کبھی بھی کچھ زیادہ دن اپنی ماہ کے ہاں گزارتی تو ابو مجھ سے سختی سے بات کرتے تھے لیکن ایسا بہت کم ہوتا تھا، وردہ بیوی جیسی بھی تھی لیکن بہو اچھی تھی.
میں اپنے آپ کو سمجھا دیا تھا کہ بیٹا جو مستی [نوینہ سے کال پر بات] کرنی ہے وہ اس ایک ہفتے تک کرنا اس سے زیادہ نہیں۔ ویسے بھی میں نہیں چاہتا تھا کہ بیوی کے ہاتھ میں میرا گریبان ہو اور سب حیران ہوں۔۔
تو تو کمبل کو چھوڑ دیگا اگر کمبل نے تجھے نہ چھوڑا تو؟ دماغ صاحب کا سوال سن کر میں ہنس دیا۔۔ ارے یاد مِں کوئی شاہ رخ نہیں ہوں اور نہ ہی میری آواز ساحر لودھی سے ملتی ہے کہ وہ کمبل ہوجائے گی۔۔ پھر بھی احتیاطً اس کا نمبر بلاک کر دوں گا کام ختم۔۔
نوینہ چونکہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اس لئے اس کے بات کرنے کا انداز کافی الگ تھا، ویسے میں بھی کورنگی، اورنگی اور لالو کھیت کی لڑکیوں سے بور ہوگیا تھا۔۔ نوینہ سے اس دن بات کرنے کا دورانیہ تقریبا ً 20 منٹ تھا اس کے بعد اس نے کہیں جانے کا کہہ کر کال کاٹ دی۔ اب مجھے اس کی کال آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا جبکہ میرے پاس آزادی کے ابھی پورے 7 دن پڑے تھے۔ شام کے وقت میں ایک مووی لگا کر دیکھنے لگا اور مووی ختم ہوئی تو نگاہ گھڑی پر گئی جہاں 8 بج رہے تھے، میں اپنا موبائل چیک کیا جہاں کوئی نیا نوٹیفیکیشن نہیں آیا ہوا تھا، میں نے مایوس ہوتے ہوئے موبائل دوبارہ رکھ دیا۔ رات کے ایک بجے کے آس پاس کا وقت تھا اور میں اردو فنڈا پر اس وقت شاید کوئی کہانی پڑھ رہا تھا، میرے موبائل ہر میسج ٹیون بجی، میں نے چیک کیا تو وہ نوینہ کی طرف سے تھا، میرا دل خوشی کے مارے چھلانگیں مارنے لگا، اپنے حواس بحال کرتے پوئے میسج پڑھا، لکھا تھا۔۔ ہائے۔۔ میں نے جواب میں لکھا ہیلو۔۔۔کیا ہور رہا ہے؟
کچھ دیر بعد اس کا جواب بھی آگیا، کچھ نہیں بور ہورہی ہوں۔
ارے بوریت کیوں؟ اس وقت تو ساری دنیا بزی ہوتی ہے اور آپ بور ہو رہی ہیں۔ میں نے شرارت کی۔۔
کیا مطلب کہاں بزی ہوتی ہیں؟ اس نے ایک ادا سے پوچھا
مطلب یہ کہ رات کے اس وقت اکثر لوگ میٹھی نیند میں مصروف ہوتے ہیں۔ میں نے جواب دیا۔۔
اگر آپ ایسا ہے تو آپ بزی کیوں نہیں ہیں؟ اس نے پوچھا
فی الحال تو بزی ہوں آپ سے بات کرنے میں ورنہ فری تھا کیوں کہ نیند نہیں آ رہی تھی۔ میں تفصیل سے جواب دیا
مجھے بھی نیند نہیں آرہی اور ویسے بھی میں لیٹ نائٹ سوتی ہوں تو سوچا آپ کو میسج کردوں۔
نوینہ سے میسجز پر بات کافی دیر ہوئی، بہت ساری باتیں بھی ہوئیں، اس نے اپنے بارے میں اور میں نے اپنے بارے میں بھی بتایا، سوائے شادی شدہ ہونے کے۔۔ اب شادی شدہ ہوں یہ سن کر وہ مجھ کوئی بات کرتی کیا۔۔نہیں نا تو۔۔۔۔ ایک چپ سو سکھ
اس سے بات کرتے کرتے پتا نہیں کب 3 بج گئے، مجھے صبح آفس بھی جانا تھا مگر اس سے باتیں کرنے میں مزہ بھی آرہا تھا اور وہ بھی اب کھل کر بات کر رہی تھی، اس کی عمر 22 سال تھی اور وہ ڈی ایچ اے صفا یونیورسٹی میں پڑھتی تھی اس نے اپنے بارے میں بتایا کہ اس کے والدین کی طلاق ہوچکی ہے، اس کی ماں نے طلاق کے بعد دوسری شادی کرلی اور اب وہ اپنے والد کےساتھ رہتی ہے جنہوں نے کبھی دوسری شادی کا نام تک نہیں لیا اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سیکریٹری ہیں۔ اس کا ایک بڑا بھائی بھی ہے جو کینیڈا میں اپنی فیملی کے ساتھ سیٹل ہے۔ مختصرا اس کے والد ہی اس کی کل کائنات تھے، وہ مجھے اتنا سب کچھ شاید نہ بتاتی کیو نکہ ہم انجان تھے لیکن پتا نہیں اس نے میری باتوں میں ایسا کیا دیکھا کہ اس نے کچھ نہیں چھپایا، اس کی باتیں سن کر مجھے اس سے ہمدردی سی ہونے لگی۔ میری فیملی مکمل تھی لیکن ایک ادھوری فیملی کے ساتھ جینا کیسا ہوتا ہے یہ میں جانتا تھا، عمیرہ احمد کے ایک ناول کا کردار ایسی ہی ایک لڑکی کی طرح تھا اور اس کو پیش آنے والی مشکلات، اس کے جذبات سب میرے ذہن میں گھوم گئے، ویسے تو نوینہ جذباتی لڑکی لگتی نہیں تھی مگر قبر کا حال تو مردہ جانے۔۔ اس لئے میرا اس سے بات کرنے کا انداز بدل سا گیا، میں اس کی عزت سی کرنے لگا۔ شاید آپ سوچیں کہ یار کیا بکواس ہے ایک افسانوی ناول سے انسان کسی زندہ انسان کے جذبات کا اندازہ کیسا لگا سکتا ہے تو میں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتا، مجھے اس وقت جو محسوس ہوا وہ میں نے بتا دیا۔
رات کے 3 بجے میں اسے اور اس نے مجھے گڈ نائٹ کہا اور پھر مجھ پر نیند کا غلبہ ایسا ایا کہ میری آنکھ صبح 8 بجے ہی کھلی۔
صبح اٹھ کرمیں نے سب سے پہلا کام نوینہ کو گڈ مارننگ کا میسج کر کے کیا اور ناشتہ کرنے کے بعد اپنے آفس کے لئے نکل گیا۔ آفس میں ہر روز کی طرح کام تھا لنچ کرنے کے لئے اٹھا تو موبائل دیکھا جہاں نوینہ کا گڈ مارننگ کا جواب آیا ہوا تھا۔
اس رات بھی ہماری بات ہوئی مگر اس بار میں نے اس سے پوچھا کیا میں تمہیں کال کرسکتا ہوں، ویسے تو وہ اکیلی سوتی تھی مگر پھر بھی پوچھنا بہتر لگا ۔ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں، ویسے یہ کل کیوں نہیں پوچھا کال کے ہیسے بچا رہے تھے کنجوس؟
میں نے نے ہنستے ہوئے کہا، تم کہہ دیتیں میں کر لیتا کال۔
اب سب میں کہوں گی خود سے نہیں سوچ سکتے؟ اس کا جواب مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرگیا۔۔
میں نے کال ملا دی
ہم دونوں کی باتوں مرکز دوستی تھا۔ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور جو تھے ان پر نوینہ کو بھروسہ نہیں تھا، اس نے مجھبتایا کہ میں کبھی کسی پر یقین نہیں کرسکتی کیونکہ مجھے میری فرینڈز نے دھوکا دیا. سب نے صرف مجھے استعمال کیا، باتوں باتوں میں اس نے اپنے بوائے فرینڈز کا بھی ذکر کیا جنہوں نے صرف اس کے پیسے کے اور جوانی کے لئے اس سے دوستی کی اور اپنی جیب بھرنے کے بعد جب وہ اس کی عزت کو داغ دار کرنا چاہا تو نوینہ نے اس سے کنارہ کر لیا۔۔
ایک ہفتہ گزر چکا تھا اور اب میرا ارادہ اس سے قطع تعلق کرنے کا ارادہ تھا، بہانے تو بہت سے تھے مگر میں اسے اسے ایسی ٹوپی پہنانا چاہ رہا تھآ کہ اگر وردہ پھر کبھی اپنے میکے جائے تو نوینہ سے میرا رابطہ دوبارہ ہوسکے۔۔ اس سے انسیت سی ہوگئی تھی مجھے۔ میں اسے پوری طرح اپنا نہیں سکتا تھا لیکن پوری طرح چھوڑ بھی نہیں پایا۔
خیر اس ایک ہفتے میں ہم دونوں ایک دوسرے کے اچھے دوست بن گئے تھے اور میں بھی اس دوستی کو جاری رکھنا چاہ رہا تھا اور نوینہ کا بھی ارادہ یہی تھا۔ وردہ کو آج مجھے لینے جانا تھا میں اس وقت باتھ روم میں نہا رہا تھا جب مجھے یاد آیا کہ اس دن پہلی بار میں اور وردہ ساتھ باتھ روم میں نہائے تھے۔
ماضی میں پہنچنے میں مجھے وقت نہیں لگا اور یاد آیا جب میں اور وہ دونوں اپنی منزل کو پہنچ گئے تو وردہ نے میری قریب ہوکر کہا۔ وجدان مجھے تم سے پیار ہے ، میں تمہارے بناء نہیں رہ پاوں گی سچ میں مجھے کبھی مت چھوڑنا۔ اس کی باتیں بہت جذباتی انداز لئے ہوئے تھیں لیکن مجھ پر ان کا کچھ اثر نہیں ہوا مگر اداکاری ضروری تھی اس لئے میں نے بھی جواباً جذباتی انداز میں کہا، میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا میرا وعدہ ہے تم سے۔ یہ سن کر وہ میرے سینے سے چپک گئی اور میں نے اپنی ٹانگ اس کی ٹانگ کے اوپر سے لے جا کر اس کے چوتڑوں کی گولائی پر رکھ دی۔
کچھ ہی دیربعد وردہ اٹھی اور مجھ سے پوچھا، باتھ روم کہاں ہے؟ میں نے اسے راستہ دکھایا تو وہ نہانے چلی گئی۔ میں اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھآ، اس نے کپڑے نہیں پہنے تھے مگر اپنے آپ کو ڈوپٹے سے ڈھکا ہوا تھا لیکن باریک ڈوپٹہ اس کے جسم کو چھپا نہیں پا رپا تھا، وہ چلتی ہوئی باتھ روم میں گھس گئی مگر یہ لمحے میرے لنڈ کو دوبارہ انگڑائی لینے پر مجبور کرگئے، اس کی خراماں خراماں چال نہایت دلکش تھی اس چوتڑ باہر کو نکلے ہوئے تھےاور ساتھ ہی گولائی بھی کمال کی تھی، وہ باتھ روم میں گھس کر اب نہانا شروع کرچکی تھی کیونکہ پانی بہنے کی آواز آرہی تھی میں نے باتھ روم کا دروازہ کھٹکٹایا، وردہ نے پوچھا کیا ہوا وجدان؟ دروازہ کھولو یار مجھے بھی نہانا ہے، تھوڑی دیر تردد کے بعد اس نے دروازہ کھول دیا میں اندر گھسا اور سیدھا وردہ سے چپک گیا، اس نے ابھی صابن نہیں لگایا تھا مگر اس کا جسم گیلا تھا ، یار مجھے بہت درد ہورہا ہے پلیز کچھ مت کرنا اس نے التجا کی، مجھے بھی کوئی جلدی نہیں تھی ویسے بھی کسی نے صحیح ہی کہا ہے کہ بے صبرا منہ بھی جلا لیتا ہے اور کھانے کا مزہ بھی نہیں لے پاتا۔ ہم ساتھ نہاتے رہے اس دوران میں اس کے جسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر تا رہا جبکہ وہ بھی میرے لنڈ کے ساتھ کھیلتی رہی جب ہم دونوں اچھے سے صاف ہوگئے تو وہ میری ٹانگوں میں بیٹھ گئی ابھی میں اس کی حرکت سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اس نے میرا لنڈ اپنے منہ میں لے لیا اور چوسنے لگی، شاید اسے ڈر تھا کہ کہیں میں اس کی چوت کی فرمائش پھر کردوں گا میرے گیلے لنڈ کو وہ اپنے تھوک سے اور گیلا کر رہی تھی اور اس دگنی چکناہٹ نے مجھے مزہ بھی دگنا دینا شروع کردیا تھا، مگر شاید اسے پتا نہیں تھا کہ میں اب اتنی جلدی ڈسچارج نہیں ہونے والا ہوں
5 منٹ میں ہی وہ تھک گئی اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی، میں نے اسے کھڑا کیا اور اپنی گود میں اٹھا لیا، ہم دونوں ابھی بھی شاور کے نیچے بھیگ رہے تھے، وردہ نے ہاتھ بڑھا کر شاور بند کیا اور میں اسے باتھ روم سے اپنی گود میں آٹھا کر بیڈ روم میں لے آیا
اس دن ہم نے ایک دوسرے کو خوب پیار کیا، سیکس کے دوران میں ۳ بار اور وردہ بھی۳ بار ڈسچارج ہوئی تھی دل تو میرا اور بھی تھا مگر وردہ ہمت ہار بیٹھی تھی ہم کھانا بھی کھا چکے تھے اس لئے وہاں اب رکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا ۔ میں نے وردہ کو ساتھ لیا گیٹ کو تالا لگایا اور دوست کو میسج کر کے اطلاع دے دی کہ میں اس کے گھر سے نکل چکا ہوں۔
وردہ سے جو مجھے حاصل کرنا تھا وہ میں حاصل کر چکا تھا مگر وہ پگلی میرے پیار میں سیرس ہوگئی تھی، ہم جب بھی ملتے یا کال پر بات کرتے اس کی باتوں کا محور ہماری فیملی اور شادی شدہ زندگی ہی ہوتا۔ میں اکثر اسے سمجھاتا تھا کہ شاید ہماری شادی ہونا اتنا آسان نہیں تمہیں مجھ سے اچھا لڑکا مل سکتا ہے لیکن وہ نہیں سمجھی۔۔اس کے اس انداز کو دیکھتے ہوئے مجھے اس کو چھوڑنا ہی بہتر لگا اور ایک میں نے اسے صاف کہہ دیا کہ ہماری پیار کی کہانی یہیں تک تھی میں تمہیں اپنا نہیں سکتا۔۔
ماضی اور باتھ روم دونوں سے باہر نکل کر اب میں وردہ کو لینے جانے والا تھا۔ اسی دوران نوینہ کا میسج آگیا اسے مجھ سے بات کرنی تھی، ویسے بات تو مجھے بھی کرنی تھی کہ ہم کم سے کم رات میں اب بات نہیں کر پائیں گے۔ اس نے کال کی ، ہیلو ہائے کے بعد وہ مدعے پر آتے ہوئے بولی، وجدان ہمیں ایک ہفتہ ہوگیا ہے بات کرتے ہوئے تم نے کبھی مجھ سے کچھ فرمائش نہیں کی۔۔
میں سوچ میں پڑ گیا۔۔۔ابے کس چیز کی فرمائش ۔۔۔
کیا مطب؟ میں نے سوال کیا
ارے وہی نا کہ تصویر چاہئیے، فیس بک اکاونٹ ، ملنے کی فرمائش۔۔ یہ سب تم نے نہیں کہا ۔۔ اس نے جواب دیا تو میری جان میں جان آئی
تم سے فرمائش کرتا تو تم منع کردیتیں یا شاید وہ سب پورا کرنا تمہارے لئے ممکن نہ ہوتا تو تم پریشان ہوجاتیں اور میں تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے جذبات سے بھرپور انداز میں اسے جواب دیا۔۔
تمہاری یہی ادا مجھے پسند آئی ہے، کیا ہم مل سکتے ہیں؟ اس نے اچانک میرے سر پہ بم پھوڑا۔۔۔
کک ک کیا؟؟ میری زبان لڑکھڑا گئی۔۔
ہاں نا، میں نے بھی تمہیں نہیں دیکھا اسی بہانے اپنے اکلوتے دوست کو دیکھ بھی لوں گی۔۔ اس کے لہجے میں دوستی کم اور پیار زیادہ نظر آرہا تھا۔۔
کیوں نہیں ضرور ملیں گے، لیکن ابھی مجھے ایک کام سے جانا ہے، سو بعد میں بات کرتے ہیں اوکے۔۔۔یہ کہہ میں نے لائن کاٹ دی۔۔
شام تک میں اور وردہ واپس آچکے تھے۔ وردہ کچھ بدلی بدلی سی لگ رہی تھی اس کے چہرے پر افسردگی سی چھائی ہوئی تھی، میرے کافی پوچھنے پر بھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا میں نے بھی زیادہ بحث نہیں کی، ویسے بھی جو بیوی سے بحث کرتا ہے وہ میری نظر میں سب سے بڑا پاگل ہے۔۔
رات کافی ہوچکی تھی، شام کے وقت میں نے موقع دیکھ کر نوینہ کو میسج کردیا تھا کہ ہم اب رات میں بات نہیں کر پائیں گے، میرے رشتہ دار آئے ہیں ملنے اور میرا ایک کزن میرے ساتھ ہی سویا کرے گا اور میں کوئی رسک نہیں لے سکتا اس کے ساتھ راز شئیر کر کے۔۔ نوینہ نے بھی میری بات کو سمجھتے ہوئے اوکے کہہ دیا تھآ، میں نے نوینہ کے سارے میسجز ڈیلیٹ کر دئیے تھے، میں اور وردہ ساتھ لیٹے ہوئَے تھے مگر وہ کچھ بول نہیں رہی تھی جو کہ کافی خلاف معمول تھا عورتیں اور بولیں نہ۔وہ بھی شوہر کے سامنے۔۔۔نا ممکن لیکن یہ ناممکن ممکن کیسے ہوا اس کا تجسس مجھے ہونے لگا تھا، میں وردہ کی طرف منہ کر لیٹ گیا اور میرا بازو وردہ کے سینے پر آگیا، کیا ہوا چپ کیوں ہو؟ میں نے وردہ کو مخاطب کیا۔۔
مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے، وردہ نے بولی۔۔ ہاں بولو کیا بات کرنی ہے میں نے اسے کہا۔، آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں؟ وردہ کے منہ سے یہ بات سن کر مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔۔ یہ بات سچ ضرور تھی کہ میں وردہ کو بحیثیت بیوی اتنا پیار نہیں کرتا تھا جتنا کہ ایک شوہر کو کرنا چاہئیے لیکن اس سے نفرت تو میں قطعی نہیں کرتا تھا۔۔ پاگل ہو کیا میں کیوں کروں گا تم سے نفرت، تم میری پیاری بیوی ہو میرا اتنا خیال رکھتی ہو۔۔ نہیں میں آپ کا اتنا خیال نہیں رکھتی جتنا مجھے رکھنا چاہئے اور نہ ہی میں آپ کی اتنی عزت کرتی ہوں جتنی مجھے کرنی چاہئے۔ وردہ ایک لے میں بولتی جارہی تھی اور میں سن رہا تھا۔ پتا ہے میں آپ سے بہت پیار کرتی تھی کرتی ہوں اور کرتی رہوں گی، لیکن کبھی کبھار امی کی باتوں میں آجاتی ہوں اور بنا کسی بات کے آپ سے لڑنے لگتی ہوں . لیکن میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ اب ایسا نہیں ہوگا میں اب آپ سے کبھی نہیں لڑوں گی، آپ ہمیشہ ٹھیک بولتے ہیں بس میں ہی آپ کی قدر نہیں کرتی، یہ بول کر وردہ میں سینے سے لگ گئی۔۔ یہ کیا معجزہ ہوا تھا میں نہیں جانتا تھا مگر مجھے وردہ کی باتوں سے اس پر ٹوٹ کر پیار آرہا تھا ابھی میں کچھ بولنے ہی والا تھا کہ وہ خود بول پڑی۔۔
جانتے ہیں اقصی سے ملی تھی میں کل اس نے اپنی بہن کا نام لیتےہوئے بتایا، وہ بتا رہی تھی کہ اس کے شوہر بہت سخت ہیں، نہ ٹھیک سے بات کرتے ہیں اورنہ ہی اسے وقت دیتے ہیں، اور تو اور رات کو بھی جلدی سو جاتے ہیں بنا کچھ کئے۔۔ اندازہ کیجئے شادی کو ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں اور اتنی بے رخی۔۔ اور ایک آپ ہیں ہر طرح سے مکمل شوہر۔ میرا کتنا خیال رکھتے ہیں مجھے کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے۔۔ اقصی کی باتیں سن کر مجھے اپنی قسمت پر رشک محسوس ہوا اور مجھے اندازہ ہوا کہ میں کتنی غلط تھی، مجھے معاف کردیجئے گا۔ اس کی خوبصورت آنکھوں سے اب آنسو بہنے لگے تھے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا میں نے اس کی آنکھوں سے آنسو پونچھ لئے اب کہنے کے لئے کچھ نہیں بچا تھا مگر کرنے کے لئے بہت کچھ تھا اور میں نے وہی کیا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرےکو اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور پیار و محبت کا کھیل کھیلنے لگے۔۔ اس رات مجھے بہت میٹھی نیند آئی جو شادی کے بعد کہیں گم سی ہوگئی تھی۔
آج میں آفس نہیں گیا تھا، صبح تیار تو میں آفس کے لئے ہی ہوا تھا وردہ کی نظر میں لیکن میرا آج آفس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ آج نوینہ سے ملنا تھا ۔ میں نے اسے نہیں دیکھا تھا اور دیکھا تو اس نے بھی مجھے نہیں تھا، یوں تو اس زمانے کے حساب س اسمارٹ فون چیٹنگ، سکائپ جیسی چیزوں میں ایسی باتیں مذاق ہی لگے گی لیکن سچ یہی تھا کہ ہم دونوں نے ایک دوسرے سے کچھ دیکھنے دکھانے کی بات نہیں کی تھی۔ خیر شارع فیصل کے ایک ریسٹورنٹ میں ملنا فکس ہوا تھا ہم دونوں نے ایک دوسرے کو ڈریس اور اس کا کلر بتا دیا تھا اور یہی ہماری نشانی تھی، نوینہ نے بتایا تھا کہ وہ بلو جینز اور پنک کلر کا ٹاپ پہنے ہوئے ہوگی جبکہ میں نے بھی اسے بتا دیا تھا کہ میں بلیک جینز اور آف وائٹ شرٹ میں ملبوس ہونگا۔۔ میں ریسٹورنٹ میں وقت سے 5 منٹ پہلے ہی پہنچ گیا تھا اور نوینہ ہر لڑکی کی طرح مخصوص شدہ وقت سے دس پندرہ منٹ لیٹ ہی پہنچی تھی، وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی تو میری نظر اسی پر تھی ویسے بھی میں گیٹ کی طرف ہی دیکھ رہا تھآ، اس نے وہی لباس پہن رکھا تھا جو نوینہ نے مجھے بتایا تھا، اس کی نظریں کسی کو دھونڈ رہی تھی اس دوران میں اس کے جسم کا ایکسرے کر چکا تھا، اسے خوبصورت نہ کہنا تو حسن کے ساتھ زیادتی تھی، لمبے بال جو اس کی کمر تک آرہے تھے آنکھیں بڑی نہیں تھی مگر اس میں موجود چمک چکا چوند کردینے والی تھی، گالوں کی لالی بتا رہی تھی کہ وہ جوانی کے دہلیز پر کھڑی ہو کر اس لالی کو نچوڑنے والا ڈھونڈ رہی ہے، جسم کا فگربتاتا چلوں۔۔ اس کا سینہ تنا ہوا تھا اگر میرا اندازہ غلط نہی تھا تو اس کی چھاتی 36 ، کمر تیس اور ہپس ابھی میں دیکھ نہیں پایا تھا کیونکہ اس کا چہرہ میری طرف تھا اس دوران وہ مجھے نوٹ کرچکی تھی اور میں بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا، میرے پاس آکر اسنے کنفرم کرنے والے انداز میں کہا، وجدان؟؟ میں نے کھڑے ہوکر اسے جواب دیا یس اینڈ یو نوینہ ؟ یس میں نوینہ ہی ہوں اس نے مسکرا کر جواب دیا۔ ہم دونوں اب بیٹھ چکے تھے، کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھنے اور ہچکچانے کے بعد ہم باتیں کرنا شروع ہوئے۔ رانگ نمبر سے لے کر رات میں کی ہوئی باتیں ایک دوسرے کو یاد دلا رہے تھے اور پھر میں نے کافی آرڈر کرنے کے بعد اسے مخاطب کیا، تم بہت خوبصورت ہو، اچھا جی، کم تو آپ بھی نہیں ہیں کافی ڈیشنگ پرسنالٹی ہے آپ کی اس نے جواباً تعریف کی۔ ویسےتمہارا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے حیرت ہے ۔ کیوں حیرت کی کیا بات ہے اس میں آپ کی بھی تو کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے وہ بولی اور میں سوچ میں پڑ گیا میری تو بیوی ہے جو مجھ سے بہت پیار بھی کرتی ہے۔۔۔۔ مگر میں نے کوئی جواب نہیں دیا بس مسکرا دیا۔۔ ہماری ملاقات کافی اچھی رہی تھی ویسے تو میرا اس کے ساتھ کچھ بھی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اپنی فطرت سے مجبور تھا کہ اس سے ملنے چلا آیا اور اوپر سے یہ خوبصورت بھی اتنی نکلی کہ اب میرا ارادہ ڈگمگانے لگا تھا.
میں گھر آگیا، جہاں وردہ میرا انتظار کررہی تھی۔۔ کہنےلگی آج میں نے آپ کی پسند کی ڈش بنائی ہے۔۔۔چکن بریانی۔۔
نہ چاہتے ہوئے بھی میں مسکرا دیا۔ وردہ میں تبدیلی صاف نظر آرہی تھی، وہ کافی سجنے سنورنے لگی تھی اور چاہے رات ہو یا دن ہم بستری میں پورا ساتھ دیتی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ اس وقت جب میں نے اسے اپنی زندگی میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا تب وردہ کا کیا ردعمل تھا۔۔
پلیز آپ ایسا مت کہیں، میں مر جاوں گی آپ کے بناء ۔ وردہ میرے آگے گڑ گڑا رہی تھی مگر میں کچھ سننا نہیں چاہتا تھا اور میں ٹیبل سے اٹھ کر چلا گیا میرے پیچھے وردہ کے رونے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔
اگلے دن صبح وردہ کا میسج آیا لیکن وہ میسج وردہ نے نہیں اقصی نے اس کے موبائل سے بھیجا تھا۔ میں جیسے جیسے میسج پڑھتا گیا میرے ہاتھ پاوں پھولتے گئے۔
وردہ نے اپنے ہاتھ کی نس کاٹ دی ہے انہوں نے مجھے آپ کے بارے میں سب بتا دیا تھآ اس لئے میں جانتی ہوں کہ یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے وہ ابھی ہسپتال [نام بتاتے ہوئے] میں ہیں اور ان کے بچنے کی بس دعائیں کی جار رہی ہیں۔۔
میرا دماغ اب دل کے ہاتھوں مات کھا رہا تھا، جو لڑکی تیرے لئے اپنی جان دینے کو تیار ہے تم اسے کیسے چھوڑ سکتے ہو؟ یہ بھی سچ ہے کہ تم اسے پیار کرنے لگے ہو پھر بھی اس سے انکاری ہو۔ میں اپنے آپ کو اس کی اس حالت کا ذمہ دار ماننے لگا
میں فوراً بائیک کے زریعے ہسپتال پہنچا جہاں وردہ کی فیملی بھی موجود تھی جو مجھے خون آشام نظروں سے دیکھ رہے تھے اور یہ ان کا حق بھی تھا، ان کی بیٹی کی اس حالت کا ذمہ دار میں ہی تھا۔
پورا دن میں اسی ہسپتال میں رہا۔ اس دوران میں نے اقصی اور اس کے گھر والوں سے معافی مانگی اس سے زیادہ اور میں کچھ بول بھی نہیں سکتا تھا۔۔ شام کے وقت ڈاکٹرز نے خوشخبری دی کہ وردہ کی حالت اب خطرے سے باہر ہے اور ان کی فیملی وردہ سے مل سکتی ہے۔ وردہ کے ولدین اور اقصی بھی وردہ کے روم میں چلے گئے جہاں تقریباً آدھے گھنٹَے بعد اقصی باہر آئی اور مجھے اندر آنے کا کہا۔ میں روم میں پہنچا تو وہاں کا ماحول کافی نارمل سا لگ رہا تھا۔ وردہ مجھے دیکھ کر مسکرا دی جیسے اسے اپنی زندگی نظر آگئی ہو۔
مجھے یقین تھا تم ضرور آو گے تم مجھ سے محبت کرتے ہو میں یہ بھی جانتی ہوں۔ اس نے مجھے اشارے سے پاس بلایا، میں بیڈ کے کنارے بیٹھ گیا۔ وردہ نے بات جاری رکھی، میں نے امی ابو کو ہمارے بارے میں بتا دیا ہےاور انہیں یہ بھی بتا چکی ہوں کہ میں صرف تم سے شادی کروں گی۔
میں نے وردہ کے قریب گیا اور اس کے کان میں کہا۔ میں بھی صرف تم سے شادی کروں گا۔ یہ سنتے ہی وردہ کی آنکھیں بھیگ گئیں اور تھوڑی ہی دیر میں وردہ کے ابو آگے بڑھے اور مجھے گلے لگا لیا، تم اچھے لڑکے ہو، وردہ تم سے پیار کرتی ہے اور تم بھی اس سے پیار کرتے ہومیں جانتا ہوں تم وردہ کو خوش رکھو گے۔ ایک باپ کو اپنے داماد سے اور کچھ نہیں چاہئیے ہوتا بس معاشرے کے طور طریقے ہیں انہیں اپناو اور ڈھنگ سے میری بیٹی کا رشتہ مانگو۔
امی کو منانا مشکل ضرور تھا مگر نا ممکن نہیں اور میں نے انہیں منا لیا۔ ہماری شادی بہت دھوم دھآم سے ہوئی اور وردہ میرے مکان کو گھر بنانے آگئی.
نوینہ اور میری ملاقاتوں کو ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا، ہم شہر میں تقریباً ہر جگہ مل چکے تھے۔ ایک دو موقع ایسے بھی آئے کہ ہمیں تنہائی میسر آئی اور ہم نے اس کا تھوڑا بہت فائدہ اٹھایا اور ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور ایک دوسرے کے ہونٹوں کا رس بھی پیا مگر بات اس سے آگے نہیں بڑھی اور اس کی ایک بڑی وجہ میرا اس کے بارے الگ سوچنا بھی تھا۔ میں اسے دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا تھا مگر میں اسے لگاتار دھوکا بھی دے رہا تھا اور پھر جسمانی تعلق قائم کر کے میں اسے زندگی بھر کی اذیت نہیں دینا چاہتا تھا۔ لیکن اس دن تو جیسے سورج مغرب سے نکل آیا تھا۔
نوینہ میرے سامنے بیٹھی تھی اور آج اس کا چہرہ جذبات کی شدت سے تمتماہ رہا تھا۔ اس نے بات شروع کی۔۔
تم میرے بارے میں کیا سوچتے ہو؟ یہ سوال کم اور توپ سے نکلا ہوا گولہ زیادہ لگ رہا تھا۔
جو بھی سوچتا ہوں اچھا سوچتا ہوں۔۔ میں نے گول مول جواب دیا۔۔
ارے ایسے نہیں۔۔ ٹھیک سے بتاو ایک ماہ کے اندر ہم اتنے قریب آچکے ہیں اب ہمیں کوئی فیصلہ لینا چاہئے۔۔
کیسا فیصلہ؟ میں انجان بن گیا۔۔
ہمارے مستقبل کا فیصلہ۔۔ اس نے دل کی بات کہہ دی اور میرا دل بیٹھنے لگا۔۔
میرے ذہن میں وردہ کے خیال چلنے لگے، میں اسے کیسے دھوکا دے سکتا ہوں۔ دماغ بولا ۔ نوینہ تجھے پسند کرنےلگی ہے ابے عیش کر اس کے ساتھ امیر باپ کی اولاد ہے۔۔ دل نے فوراً نفی کردی۔۔ نہیں ایسا مت کر تو اس کو دھوکا دے کر خوش نہیں رہ پائے گا۔ میرے دل ودماغ کی جنگ جاری تھی جب نوینہ نے بولنا شروع کیا۔ وجدان میں تمہیں چاہنے لگی ہوں، شادی کی تم فکر مت کرنا، ڈیڈ سے میں خود بات کرلوں گی اور وہ تمہیں گھر داماد بھی بنانے کےلئے راضی ہوجائیں گے۔
اس جملے کو سن کر دماغ دل پر حاوی ہونے لگا۔ ابے پاگل چھوڑ وردہ کو۔۔ کچھ دن بہانے مارنا پھر نکال باہر کرنا اسے گھر سے، اور نوینہ جیسے خوبصورت لڑکی سے شادی کر کے اس کے باپ کے پیسے پر عیش کرنا۔۔
دل سے جب کچھ بولا نہ گیا تو اس نے مجھے وہ یاد دلا دیا جس نے میری آنکھوں سے ہوس اور لالچ کی پٹی اتار دی۔۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا جب وردہ نے میرے جیسے بے وفا انسان کی خاطر اپنی جان کی پرواہ نہ کی۔ یہ پیار کی حد نہیں تو اور کیا ہے جو کوئی کسی کے لئے نہیں کرتا وہ اس نے تمہارے لئے کیا۔۔ اب بھی تم اسے دھوکا دوگے اسے رلاو گے تو ساری زندگی تمہارا ضمیر تمہیں جینے نہیں دےگا۔ اور پھرمیں نے فیصلہ کرلیا
دیکھو نوینہ۔ میں تم سے بہت دنوں سے کچھ کہنا چاہتا تھآ مگر کہہ نہیں پایا۔۔ میں نے دل میں ایک فیصلہ لیتے ہوئے اسے بتایا۔۔
ہاں بولو۔۔ اس نے دھیان سےسنتے ہوئے کہا۔۔
میں نے تم سے ایک جھوٹ بولا ہے اور اس کے لئے میں تم سے معافی بھی مانگتا ہوں۔۔۔
کیسا جھوٹ اس نے پوچھآ۔۔
میں شادی شدہ ہوں، میں نے پوری ہمت لگا کر اسے سچ بتا دیا۔۔
یہ سن کر نوینہ کچھ دیرچپ بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر چلی گئی، نہ اس نے کچھ بولا اور نہ مجھ سے اسے روکا گیا۔۔
اس دن کے بعد نوینہ نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے کوشش کی۔ وردہ نے مجھے کبھی اس کی یاد بھی نہیں آنے دی اور میں بھی اوپر والے کا شکرگزار ہوں کہ مجھے سیدھا راستہ دکھایا، اب میری ایک بیٹی بھی ہے جسے میں بہت پیار کرتا ہوں اور میں نے سوچ لیا ہے کہ اس کی تربیت میں کوئی کمی نہیں آنے دوں گا کہ کہیں یہ وردہ یا نوینہ جیسی غلطی نہ کرے اپنی زندگی میں۔(ختم شد)